اسلام میں عبادت کی مفہوم اور اس کی وسعت۔ قرآن و سنت کی روشنی میں

(یہ بیان 2 جولائی 2020 کے سیرت کے بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اسلام میں عبادت کے وسیع مفہوم پر یہ بیان روشنی ڈالتا ہے، جو محض رسمی عبادات تک محدود نہیں۔ اس میں حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہما کے واقعے سے واضح کیا گیا کہ رب، جان اور بیوی کے حقوق ادا کرنا بھی عبادت کا حصہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں، اللہ پر ایمان، جہاد، لوگوں کی مدد، برائی سے اجتناب اور بیمار پرسی کو صدقہ اور عبادت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کی آیت "میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا" کی تشریح سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عبادت سے مراد وہ تمام نیک اعمال ہیں جن کا مقصد اللہ کی اطاعت اور خوشنودی کا حصول ہو۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے، جس کے ظاہر (سنت و صورت) اور باطن (سیرت و حقیقت) دونوں کی پیروی لازمی ہے۔ بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ عبادات کی حفاظت معاملات کے ذریعے، معاملات کی حفاظت معاشرت کے ذریعے اور معاشرت کی حفاظت اخلاق کے ذریعے ہوتی ہے، جس سے ایک مکمل دینی زندگی کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر اہل بیت اور صحابہ کرام کی رہنمائی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جو کامل دین پر چلنے کے لیے لازم ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

بزرگو اور دوستو! آج جمعرات ہے اور جمعرات کے دن ہمارے ہاں سیرت النبی ﷺ اس کے بارے میں بات ہوتی ہے اور آج کل ہمارے زیرِ مطالعہ ’’سیرت النبی‘‘ مرتبہ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ یہ ہے۔

تو اس میں آج جو چل رہا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام میں عبادت کا مفہوم کیا ہے۔

گزستہ سے پیوسته:

حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دوسرے صحابی حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنے گئے تو دیکھا کہ ان کی بیوی نہایت معمولی اور میلے کپڑے پہنے ہیں۔ حضرت سلمان نے وجہ دریافت کی تو بولیں کہ تمھارے بھائی کو دنیا کی خواہش نہیں ہے۔ اس کے بعد مہمان کے لئے کھانا آیا تو ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں تو تمھارے بغیر نہیں کھاؤں گا۔ آخر انہوں نے افطار کیا۔ رات ہوئی تو ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کو کھڑے ہونے لگے۔ حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ابھی سو رہو پچھلی پہر کو حضرت سلمان نے ان کو جگایا اور کہا اب نماز پڑھو۔ چنانچہ دونوں نے تہجد کی نماز ادا کی، پھر حضرت سلمان نے ان سے کہا "اے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمھارے رب کا بھی تم پر حق ہے اور تمھاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے تو جس جس کا حق تم پر ہے سب کو ادا کرو" حضرت ابو ذر نے حضرت ﷺ کی خدمت میں آکر حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تقریر نقل کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا"۔

لوگوں نے آںحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ "یارسول اللہ تمام کاموں میں سب سے بہتر کونسا کام ہے؟" فرمایا خدا پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ لوگوں نے پوچھا کس غلام کے آزاد کرنے کا زیادہ ثواب ہے؟ ارشاد ہوا جس کی قیمت زیادہ ہو اور جو اپنے مالک کو زیادہ پسند ہو۔ انہوں نے کہا اگر یہ کام ہم سے نہ ہوسکے تو فرمایا: "پھر ثواب کا کام یہ ہے کہ کام کرنے والے کی مدد کرو یا جس سے کوئی کام بن نہ آتا ہو اس کا کام کردو" پھر سوال ہوا کہ اگر یہ بھی نہ ہوسکے۔ فرمایا: "تو پھر یہ کہ لوگوں کے ساتھ کوئی برائی نہ کرو۔ یہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے جو خود تم اپنے اوپر کرسکتے ہو"۔

ایک دفعہ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا خدا اپنے بندوں سے کہے گا کہ "میں نے تم سے کھانا مانگا تم نے نہ کھلایا، وہ عرض کریں گے خداوند! تو نے کیسے کھانا مانگا؟ تو تو خود تمام جہان کا پروردگار ہے، فرمائے گا کیا تم کو معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا، تم نے کھانا اس کو نہ کھلایا۔ اگر تم اس کو کھلاتے تو اس کو تم میرے پاس پاتے۔ "اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھے پانی نہ پلایا" وہ کہے گا کہ اے پروردگار! میں تجھ کو کیسے پانی پلاؤں؟ تو تو خود تمام جہان کا پروردگار ہے۔ وہ فرمائے گا تم کو معلوم نہ تھا کہ میرے فلاں بندہ نے پیاس میں تجھ سے پانی مانگا، تو نے اس کو پانی نہ پلایا۔ اگر پلاتا تو اس کو میرے پاس پاتا"۔ "اے ابن آدم! میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پرسی نہ کی" وہ کہے گا "اے پرودگار! میں کیونکر تیری بیمار پرسی کروں؟ تو تو خود تمام جہان کا پروردگار ہے" فرمائے گا "تجھ کو خبر نہ ہوئی کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ اگر کرتا تو تو اس کو میرے پاس پاتا یا مجھے اس کے پاس پاتا"۔

اس مؤثر طریقۂ ادا نے خدا شناسی اور خدا آگاہی کے کتنے تو بر تو پردے چاک کردیئے اور دکھا دیا کہ خدا کی عبادت اور اس کی خوشنودی کے حصول کے کیا کیا طریقے ہیں؟ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو چاہتے تھے کہ اپنی کل دولت خدا کی راہ میں دے دیں، آپ نے انہیں بتایا کہ اے سعد! جو کچھ اس نیت سے خرچ کرو کہ اس سے خداوند تعالیٰ کی ذات مطلوب ہے اس کا تم کو ثواب ملے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں بھی دو اس کا بھی ثواب ہے۔ ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا "مسلمان اگر ثواب کی نیت سے اپنی بیوی کا نفقہ پورا کرے تو وہ بھی صدقہ ہے"۔ غریب و نادار صحابہ نے دربارِ رسالت میں ایک دن شکایت کی کہ یا رسول اللہ دولت مند لوگ ثواب میں بڑھ گئے۔ ہماری طرح وہ بھی نماز پڑھتے ہیں، وہ بھی روزے رکھتے ہیں، ان کے علاوہ وہ مالی عبادت بھی بجا لاتے ہیں، جو ہم نہیں بجا لاسکتے۔ فرمایا: کیا تم کو اللہ نے وہ دولت نہیں دی جس کو صدقہ کرسکو، تمھارا ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ اور ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ کہنا بھی صدقہ ہے۔ یہاں تک کہ جو کوئی اپنی نفسانی خواہش کو جائز طریقہ سے پوری کرتا ہے، وہ بھی ثواب کا کام کرتا ہے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! وہ تو اپنی نفسانی غرض کے لئے یہ کرتا ہے "فرمایا کہ اگر وہ ناجائز طریقہ سے اپنی ہوس پوری کرتا تو کیا اس کو گناہ نہ ہوتا؟ پھر اس کو جائز طریقہ سے پورا کرنے کا ثواب کیوں نہ ملے گا"۔ (ما شاء اللہ۔ مطلب یہ ہے کہ گناہ سے اپنے آپ کو بچانا بھی تو ثواب ہے۔)

محمد رسول اللہ ﷺ کی ان تعلیمات سے اندازہ ہوگا کہ حسن عمل، ثواب اور عبادت کے مفہوم میں اسلام نے کتنی وسعت پیدا کی ہے اور کتنی تو بر تو انسانی غلطیوں کا ازالہ کیا ہے۔ اس تشریح کے بعد روشن ہوجائے گا کہ وحی محمدی نے بالکل صحیح طور پر خلقتِ انسانی کی غرض و غایت عبادتِ الہٰی قرار دی ہے۔

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾1

’’میں نے انسانوں کو اور جنوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔

اس آیت پاک میں عبادت کا وہ تنگ مفہوم نہیں ہے جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے، بلکہ وہ تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں تک وسیع ہے، جن کے کرنے کا مقصد خدا کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار، اس کی اطاعت اور اس کی خوشنودی کی طلب ہو۔ اس وسعت کے اندر انسان کی پوری زندگی کے کام داخل ہیں، جن کے بحسن و خوبی انجام دینے کے لئے اس کی خلقت ہوئی ہے۔ یہ روحانیت کا وہ راز ہے جو صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے دنیا کو معلوم ہوا۔

اصل میں اس مسئلہ میں اگر کوئی غور کرنا چاہے تو اس کا route یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرے کہ آپ ﷺ نے زندگی کیسے گزاری، کیا آپ ﷺ نے ہمیشہ نماز پڑھی ہے؟ کیا آپ ﷺ نے ہمیشہ روزے رکھے؟ کیا آپ ﷺ نے ہمیشہ مطلب جو ہے ناں وہ جس کو کہتے ہیں یعنی اور عبادات جن کو لوگ عبادات سمجھتے ہیں، وہ کی ہیں؟ نہیں۔ آپ ﷺ نے جو جو بھی خیر کے کام تھے، جو اُس وقت ہوسکتے تھے، ان میں کچھ کرکے، اس کی نمائندگی کی ہے۔ یہ اصل میں ایک صحیح منہج ہے یعنی زندگی گزارنے کا کہ آپ ﷺ کی زندگی کو اپنایا جائے، اللہ پاک نے ہم سے یہ فرمایا:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾2

یہ فرمایا ہے۔ لیکن اس کے لئے یہ فرمایا:

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾3 ’’البتہ بالتحقیق تمہارے لئے آپ ﷺ کے اسوہ میں، زندگی بہترین نمونہ ہے۔‘‘ یعنی گویا کہ ہم عبادت بھی کریں گے، تو آپ ﷺ کے طریقہ پہ کریں گے، زندگی گزاریں گے، تو آپ ﷺ کے طریقہ پہ گزاریں گے، ہمارے پاس یہ والی بات ہے۔ البتہ ایک بات اس میں ہمیں اچھی طرح یاد رہنی چاہئے کہ ایک ہے آپ ﷺ کا ظاہر اور ایک ہے آپ ﷺ کا باطن، تو پیروی ہم نے دونوں کی کرنی ہے، کیونکہ شریعت دونوں پہ ہے، شریعت دونوں کا مجموعہ ہے، ظاہر اور باطن کا مجموعہ ہے، مثلاً میں نماز تو پڑھوں، لیکن اس میں خشوع نہ ہو یا اخلاص نہ ہو، تو نماز کا ظاہر تو قائم ہوجائے گا، لیکن نماز کا باطن نہیں ہوگا، اس کے اندر قوت نہیں ہوگی، ممکن ہے اس کی وجہ سے رد بھی ہوجائے، تو اس کے لئے بھی آپ ﷺ کی زندگی ہمارے پاس نمونہ ہے، تو اس وجہ سے آپ ﷺ کی زندگی کا جو ظاہر ہے، وہ جو ہے ناں، مطلب یوں کہہ سکتے ہیں، وہ دین کی صورت ہے اور سنت ہے، دین کی صورت ہے اور سنت ہے۔ اور جو آپ ﷺ کا باطن ہے، وہ سیرت ہے اور حقیقت ہے دین کی۔ ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ جو فرمایا تو نیت کہاں ہوتی ہے؟ دل میں ہوتی ہے۔ تو اب دیکھو! دل کے ایک عمل کا پورے اعمال پر اثر ہے، تقویٰ کے بھی آپ نے سن لیا کہ دل میں ہوتا ہے ’’اَلتَّقْویٰ ھٰھُنَا‘‘ اور جتنا کسی کا تقویٰ ہو، اس کے حساب سے اس کا مقام ہے ﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ﴾4 تو یہ اس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ کی صورت اور آپ ﷺ کی سیرت ان دونوں کو اپنانا ہے یعنی سنت پہ چلنا ہے اور اس چلنے کی حقیقت کو پانا ہے، اس چلنے کی حقیقت کو پانا ہے، یہ دونوں باتیں لازم اور ملزوم ہیں یعنی ہم لوگ یہ نہیں کرسکتے کہ صرف صورت ہی لے لیں، اس وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا:

’’صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ‘‘5 ’’نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھو‘‘۔ تو اس میں بھی نماز کا ظاہر بھی ہے، نماز کا باطن بھی ہے، جو نماز کا ظاہر ہے وہ بھی حضور ﷺ کی طرح پڑھنا ہے اور جو نماز کا باطن ہے وہ بھی آپ ﷺ کی طرح پڑھنا ہے۔ تو یہ اصل میں بنیادی ہمارا وہ ہے کہ ہم نے پختگی بھی آپ ﷺ کے طریقہ پہ لانی ہے اور ہم نے وہ ایک چیز کا جو ظہور ہے اور یعنی اس کا سامنے آنا ہے، وہ بھی آپ ﷺ کے طریقہ پہ کرنا ہے یعنی دونوں کام جو ہیں ناں اس میں ہمیں آپ ﷺ سے رہنمائی لینی ہے۔ اب بتائیں کہ آپ ﷺ کی رہنمائی ہمیں کیسے ملے گی؟ آپ ﷺ کی رہنمائی ہمیں ملے گی صحابہ کرام کے ذریعہ سے، صحابہ کرام کے جو تین گروہ ہیں، ان تینوں گروہ کے ذریعے سے ہمیں آپ ﷺ کی زندگی ملے گی، اس کا ظاہر بھی، اس کا باطن بھی۔ تو آپ ﷺ کی جو زندگی کا ظاہر ہے، وہ عام صحابہ کرام کے ذریعہ سے ملے گا، جو آپ ﷺ کا مطلب جو ہے ناں جو ظاہر ہے، وہ ہمیں عام صحابہ کرام کے ذریعہ سے ملا ہے اور جو باطن ہے، وہ اہل بیت کے ذریعہ سے ملا ہے یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اللہ جل شانہٗ نے اس کے لئے خاص کردیا اور اس کے ذریعہ سے وہ باتیں جو آپ ﷺ کے یعنی گویا کہ باطن سے تعلق رکھتی تھیں، ان کا اہتمام لوگوں تک پہنچانے کا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا ہے، وہ کیا۔ اس طرح فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین، پھر اس کے بعد وہ سلسلہ چلتا رہا، وہ جو امام ہیں سارے ہمارے، امام زین العابدین، امام باقر، امام جعفر صادق، امام موسیٰ کاظم اس طرح مطلب وہ چلے آرہے ہیں، جب وہ ختم ہوجائیں، تو پھر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ۔ اب ذرا غور فرمائیں ’’مَا اَنا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ یہ حدیث شریف ہے، جس پر میں چلا ہوں، جس پر میرے صحابہ چلے ہیں، یہ ظاہر کی طرف مکمل اشارہ ہوگیا کہ گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ جس پر میں چلا ہوں، جس پر میرے صحابہ چلے ہیں، تو آپ کے لئے راستہ متعیّن ہوگیا، طریق صحابہ پہ گویا کہ چلنا ہے آپ نے، لیکن ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میرے اہلِ بیت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہیں، مطلب گویا کہ جو اس میں بیٹھ گیا، تو فلاح پا گیا۔ تو وہاں اہل بیت کے مقام کا پتا چل گیا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’عِتْرَتِیْ‘‘ قرآن اور میری عترت جو ہے ناں یعنی اولاد، یہ مطلب ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، مطلب جو ہے ناں ساتھ ساتھ چلے گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر ملاپ ہوجائے گا۔ تو گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ اولاد کے بارے میں جو آپ ﷺ نے فرمایا، تو ذرا تھوڑا سا غور کرلیں، جیسے اس دن میں نے درود شریف کے بارے میں بتایا کہ درود شریف میں جو اکثر صیغے ہیں، جو ہماری ’’چہل حدیث شریف‘‘ میں ہیں، پائے جاتے ہیں، اس میں آل آتا ہے، ’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ‘‘ یعنی جتنے بھی صیغے ہیں، زیادہ تر میں آل آتا ہے، تو اس طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ گویا کہ جو یعنی جیسے درود شریف میں یہ مسلسل ہے تو اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ اس روایت کی کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے دیتا ہوں، ایک قرآن اور دوسری میری اولاد، میری عترت، تو ذرا دیکھ لیں، غور فرمائیں کہ ائمہ نے اس کے اوپر کیسا عمل کیا، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یہ دونوں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہیں اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھے۔ تو دیکھو ناں! اماموں نے اس پر کیسے عمل کیا، امام بالکل ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ تو اس سے پتا چلا کہ ان کو اس چیز کا احساس تھا کہ واقعی اگر ہم ان سے جدا ہوگئے، تو یہ معاملہ پھر کمزور ہوجائے گا، تو انہوں نے اس پر عمل کر دکھایا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ساری عمر (ابھی ہم نے عقیدہ کا جو باب پڑھا ہے) اس میں صحابہ کرام کا کتنا زبردست دفاع فرمایا ہے اور شیعوں کا کتنا سخت رد کیا ہے۔ تو پوری عمر ان کے خلاف لڑا ہے، لیکن ان کا مکتوب شریف میں صاف باتیں ہیں (جو میں نے بتائی ہیں، یہ ان کے مکتوب سے میں نے لی ہیں) یہ اہلِ بیت کی جو بات ہے، یہ ان کے مکتوب سے میں نے لی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ دیکھیں ناں یہ جو چیزیں ہوتی ہیں، آج کل بیان نہیں ہوتیں، آج کل ان چیزوں کا لوگوں کو علم بھی نہیں اور نہ کوئی اس کے بارے میں بات کرتا ہے، نتیجتاً وہ جو اپنے آپ کو قابو رکھنے کی جگہیں ہیں ناں، وہ ہل جاتی ہیں اور یہ میں آج کل اس لئے بتا رہا ہوں زیادہ کہ چونکہ فتنے بہت زیادہ ہیں، تو فتنوں سے بچنے کے لئے مضبوط کھونٹی سے اپنے آپ کو باندھنا ضروری ہے، ورنہ پھر نقصان ہوسکتا ہے۔ آخر دجال جو ہوگا وہ بڑا فریبی ہوگا، تو اس کے مقابلہ کے لئے کس کو چن لیا گیا ہے؟ حضرت امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ تو امام مہدی علیہ السلام بھی اہل بیت میں سے ہوں گے، تو گویا کہ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اگر ہم نے اپنے آپ کو بچانا ہے، تو یہ اس کو ذہن میں رکھنا ہے کہ اہل بیت کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل clear ہو اور صحابہ کرام کے ساتھ۔ صحابہ کرام ظاہر کے ہمارے لئے وہ ہیں، رہنما ہیں اور اہل بیت ہمارے لئے باطن کے رہنما ہیں اور ان دونوں کے ساتھ ساتھ چلنا ہے، دونوں کے ساتھ ساتھ چلنا ہے، پھر ہم بچ سکتے ہیں، ورنہ ہمارا بچنا پھر بڑا ہی مشکل ہوگا، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ اس وقت اگر ایک طرف اس بات پر پوری کوشش اور محنت ہے کہ ہمیں آپ ﷺ سے کاٹا جائے، مطلب پوری دنیا میں جو ہمارے اوپر محنت ہے، آپ ﷺ سے کاٹنے کی ہے۔ تو اسی طریقہ سے مختلف فرقہ واریت کے لحاظ سے ہمارے اوپر یہ محنت ہے کہ ہمیں اہلِ بیت سے کاٹا جائے، باقاعدہ پوری محنت ہے۔ اس میں جو صحابہ کا نام لیتے ہیں، تو اہل حق ہیں، لیکن صحابہ تو وہ تینوں گروہ ہیں ناں، ان میں عام صحابہ بھی ہیں، اہل بیت بھی ہیں اور امھات المؤمنین بھی ہیں، تینوں حق ہیں اور تینوں کو ساتھ لینا ہے اور تینوں کے ساتھ ہونا ہے، پھر ہم حق پر ہوں گے۔ شیطان کا یہ کام ہے کہ مطلب جو ہے ناں ان میں سے کسی ایک کے ساتھ کرکے دوسرے کا مخالف بنا دے گا، تو اس سے نقصان ہوتا ہے۔ اللہ بچائے۔

عام طور سے مشہور ہے کہ شریعت میں چار عبادتیں فرض ہیں یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس سے یہ شبہ نہ ہو کہ ان فرائض کی تخصیص نے عبادت کے وسیع مفہوم کو محدود کردیا ہے۔ درحقیقت یہ چاروں فریضے عبادت کے سینکڑوں وسیع معنوں اور ان کے جزئیات کے بے پایاں دفتر کو چار مختلف بابوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک فریضۂ عبادت اپنے افراد اور جزئیات پر مشتمل اور ان سب کے بیان کا مختصر عنوان باب ہے۔ جس طرح کسی وسیع مضمون کو کسی ایک مختصر سے لفظ یا فقروں میں ادا کرکے اس وسیع مضمون کے سرے پر لکھ دیتے ہیں، اسی طرح یہ چاروں فرائض درحقیقت انسان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو چار مختلف عنوانوں میں الگ الگ تقسیم کردیتے ہیں، اس لئے ان چاروں فرضوں کو بجا طور سے انسان کے اچھے اعمال اور کاموں کے چار اصول ہم کہہ سکتے ہیں۔

1۔ بندوں کے وہ تمام اچھے کام اور نیک اعمال جن کا تعلق تنہا خالق اور مخلوق سے ہے، ایک مستقل باب ہے جس کا عنوان نماز ہے۔

یعنی اس میں انسان کوئی، کسی اور کے ساتھ تعلق رکھ ہی نہیں سکتا نماز میں، صرف اللہ کے ساتھ ہی ہے۔

2۔ وہ تمام اچھے اور نیک کام جو ہر انسان دوسرے کے فائدہ اور آرام کے لئے کرتا ہے۔ صدقہ اور زکوٰۃ ہے۔

یعنی اس میں اپنے لئے کچھ نہیں کرنا ہے، مطلب گویا کہ یوں سمجھ لیں کہ سب دوسرے کے لئے۔ اس کے نتیجہ میں پھر ملے گا، اس کا اجر ملے گا۔

3۔ خدا کی راہ میں ہر قسم کی جسمانی اور جانی قربانی کرنا، کسی اچھے مقصد کے حصول کے لئے تکلیف اور مشقت جھیلنا اور نفس کو اس تن پروری اور مادی خواہشوں کی نجاست اور آلودگی سے پاک رکھنا جو کسی اعلیٰ مقصد کی راہ میں حائل ہوتی ہیں، روزہ ہے۔ یا یوں کہو کہ ایثار و قربانی کے تمام جزئیات کی سرخی روزہ ہے۔

یعنی نفس کے اوپر پیر رکھنا آپ کہہ سکتے ہیں، نفس کی خواہش کو دبانا۔

دنیائے اسلام میں ملتِ ابراہیمی کی برادری اور اخوت کی مجسم تشکیل و تنظیم مرکزی رشتۂ اتحاد کا قیام اور اس مرکز کی آبادی اور کسبِ روزی کے لئے ذاتی کوشش اور محنت کے باب کا سرِ عنوان حج ہے۔

غور کرکے دیکھو انسان کے تمام اعمال اور اچھے کام انہی اصول چہارگانہ کے تحت میں داخل ہیں۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے (1) توحید و رسالت کا اقرار کرنا (2) نماز پڑھنا (3) روزہ رکھنا (4) زکوٰۃ دینا (5) اور حج کرنا۔ پہلی چیز میں عقائد کا تمام دفتر سمٹ جاتا ہے اور بقیہ چار چیزیں ایک مسلمان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو محیط ہیں۔ انہی ستونوں پر اسلام کی وسیع اور عظیم الشان عمارت قائم ہے۔

اس تقریر کا مفہوم یہ نہیں کہ یہ چاروں فرض عبادتیں نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج اصل مطلوب بالذات نہیں ہیں، بلکہ یہ مقصد ہے کہ یہ چاروں عبادتیں اپنے تمام جزئیات باب اور محتویات کے ساتھ فرض ہیں۔ جو شخص صرف ان چاروں فرائض کو جو عنوان باب ہیں ادا کرتا ہے اور اس باب کے نیچے کے مندرجہ جزئیات سے پہلو تہی کرتا ہے اس کی عبادت ناقص اور اس کی اطاعت نامکمل ہے اور اس کے لئے دین و دنیا کی وہ فلاح و کامیابی جس کا خدائے تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، مشکوک ہے۔ یہیں سے یہ شبہ زائل ہوتا ہے کہ ہماری نمازیں ہم کو برائیوں سے کیوں باز نہیں رکھتیں، ہمارے روزے ہم کو تقویٰ کی دولت کیوں نہیں بخشتے، ہماری زکوٰۃ ہمارے دلوں کو پاک و صاف کیوں نہیں کرتی، ہمارا حج ہمارے گناہوں کی مغفرت کا باعث کیوں نہیں بنتا اور قرنِ اوّل کی طرح ہماری نمازیں، ملکوں کو فتح اور ہماری زکوٰتیں، ہمارے قومی افلاس کو دور کیوں نہیں کرتیں؟ اور ہمارے سامنے دین و دنیا کے موعودہ برکات کا انبار کیوں نہیں لگ جاتا، لیکن خدا کا وعدہ یہ ہے۔

﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ﴾6

’’اللہ نے ان سے جو ایمان رکھتے ہیں اور تمام نیک کام کرتے ہیں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا لے گا‘‘۔

ایمان کامل اور اعمال نیک کے بغیر اس وعدہ کی ایفاء کی توقع رکھنا حماقت ہے۔

اسی طرح ان چاروں جلی عنوانات کے احکام سے قطع نظر کرکے صرف مندرجہ تحت جزئیات کی تعمیل ممکن ہے کہ دنیائے فانی کی بادشاہی کا اہل بنا دے۔ مگر آسمان کی بادشاہت میں اس کو کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اسلام اس لئے آیا ہے کہ اپنے پیروؤں کے پاؤں کے نیچے دونوں جہانوں کی بادشاہیاں رکھ دے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عبادات کے مفہوم کو اس وسعت کے ساتھ سمجھا جائے جو اسلام کی منشا ہے اور اسی وسعت کے ساتھ اس کو ادا کیا جائے جو اسلام کا مطالبہ ہے۔

اَلْحَمْدُ للہ۔ اب ذرا تھوڑا سا اس کی اور انداز میں بھی تشریح کی ضرورت ہے۔ یہ جو عبادات ہیں ہماری، اگرچہ یہ زندگی کے ہر شعبہ کو cover کرلیتی ہیں، لیکن ان کی اپنی حفاظت کیسے ہوگی، ان عبادات کی؟ ان عبادات کی حفاظت ہوگی معاملات کے ذریعہ سے، جب ہمارے معاملات صحیح ہوں گے تو عبادات کی حفاظت ہوگی، کیونکہ معاملات کی گڑبڑ عبادات کو ضائع کروا دیتی ہے، اگر آپ کے پیچھے کسی کے چار آنے ہوں (چار آنے پہلے بتاتے تھے، اب تو چار آنے نہیں ہوں گے، اب تو ممکن ہے پانچ چھ روپے ہوں، کیونکہ چاندی کے لحاظ سے بات ہوگی) تو آپ کی کتنی نمازیں ان کو ملیں گی، آپ کے پاس کیا رہ جائے گا؟ آپ کماتے جائیں، گنواتے جائیں، کماتے جائیں، گنواتے جائیں، کماتے جائیں، گنواتے جائیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بوری میں آپ نے چینی ڈالی ہوئی ہے اور store سے جو ہے ناں وہ گھر لے جارہے ہیں، اس میں شگاف ہو اور آپ نے موٹر سائیکل پہ اس کو رکھ دیا اور اس کا آپ کو پتا نہ ہو، تو آپ گھر تک پہنچیں تو کتنی چینی لے جاسکو گے؟ ساری کی ساری تو نیچے گئی ہوگی بوری، خالی بوری۔ تو معاملات کا جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے، مفلس کون ہے، آپ ﷺ نے باقاعدہ پوچھا صحابہ کرام سے مفلس کون ہے؟ تو صحابہ کرام نے وہی مفہوم بتایا جو عام ہے کہ وہ ہے جو مال والا نہیں ہے۔ فرمایا: اصل مفلس وہ ہے، جو پہاڑوں جتنی نیکیاں لے کے آئے گا قیامت کے دن، لیکن کسی کو مارا ہوگا، کسی کا مال غصب کیا ہوگا، کسی کی غیبت کی ہوگی، کوئی اور نقصان کیا، یہ سب چیزیں مل کے وہ نیکیاں ساری کی ساری ان کو دلوا دے گا حتیٰ کہ پھر بھی ان کے وہ حقوق پورے نہیں ہوں گے، پھر ان کی برائیاں اٹھا کر ان کو دی جائیں گی، حتیٰ کہ فرمایا کہ یہ پہاڑوں جتنی نیکیاں لایا ہوگا، لیکن دوسروں کے گناہوں کی پاداش میں جہنم چلا جائے گا، ان کے گناہوں کی پاداش میں۔ معاملات کا کتنا اہم role ہے۔ پھر معاملات کی حفاظت معاشرت سے ہوتی ہے، کیونکہ خراب معاشرت میں صحیح معاملات رکھنا آسان نہیں ہے، جیسے آج کل کوئی سنت طریقہ سے شادی کرنا چاہے، تو آسان ہے؟ خود اپنے گھر کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے، تو معاشرت اگر صحیح نہ ہو، تو معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے، نکاح معاملہ ہے ناں، تو معاملات صحیح نہیں ہوسکتے اگر معاشرت درست نہ ہو۔ اور معاشرت کی حفاظت پھر اخلاق کے ذریعہ سے ہے، کیسے؟ چلو جی! آپ دلیل دیں، معاشرت کی جو ہے، وہ حفاظت اخلاق کے ذریعہ سے ہے، بڑا زبردست سوال ہے۔ دیکھیں! بنیاد بتاتا ہوں، آسان سی بات بتاتا ہوں، جس کو سب لوگ سمجھ لیں۔ دو متکبروں میں دوستی ہوسکتی ہے؟ اتفاق؟ اور دو متواضع لوگوں میں؟ سو متواضع لوگوں میں بھی ہوسکتی ہے، اگر جماعت بنائیں تو متواضعین کی جماعت بن سکتی ہے، متکبروں کی نہیں بن سکتی، جو ہر ایک اپنے آپ کو شیر کہے اس کے ساتھ آپ کیا کریں گے؟ وہ تو ظاہر ہے سب برابر ہیں، اور معاشرت کی تشکیل اتفاق پر ہے، اتفاق اور اتحاد پر ہے۔ قوانین کیسے مرتب ہوں گے معاشرت کے؟ متفقہ ہوں گے ناں؟ تو جس چیز پر اتفاق نہیں ہوگا تو کیسے قوانین مرتب ہوں گے؟ تو اس کا مطلب ہے کہ اخلاق جو ہیں، یہ کیا ہیں؟ یہ معاشرت کو کنٹرول کررہے ہیں، معاشرت معاملات کو کنٹرول کررہی ہے، معاملات عبادات کو کنٹرول کررہے ہیں۔ اس لئے جو حدیث شریف میں آتا ہے کہ سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں، کیونکہ اخلاق کے اچھے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سارے اچھے ہوں اس کے نیچے جتنے بھی ہیں، وہ سارے کے سارے اچھے ہیں، تبھی بن سکتا ہے۔ تو اس طریقہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو عبادات ہیں، یہ جو چار بتائے ہوئے ہیں، یہ واقعتاً بہت اہم ہیں، لیکن ان کی حفاظت کا نظام پھر معاملات کے ذریعہ سے ہے اور معاملات کی حفاظت کا نظام معاشرت کے ذریعہ سے ہے اور معاشرت کی حفاظت کا نظام اخلاق کے ذریعہ سے ہے۔ پھر ہم کامل دین کے اوپر چل سکیں گے، یہ بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. ۔ (الذّٰریٰت: 56)

  2. ۔ (الذّٰریٰت: 56) ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔

  3. . (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔

  4. ۔ (الحجرات: 13) ترجمہ: ’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔

  5. ۔ (بخاری، حدیث نمبر: 6008)

  6. ۔ (نور: 55)

اسلام میں عبادت کی مفہوم اور اس کی وسعت۔ قرآن و سنت کی روشنی میں - درسِ سیرۃ النبی ﷺ - دوسرا دور