اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے، اور منگل کے دن ہمارے ہاں مثنوی شریف کی تعلیم ہوتی ہے۔ آج ان شاءاللہ دفتر اول کے حکایت نمبر 8 سے شروع کی جا رہی ہے۔
دفتر اول حکایت نمبر 8
اس طبیب کا کنیزک کے مرض کو معلوم کر لینا اور بادشاہ پر ظاہر کرنا
1
اس حکیم نے پا لیا جب اس کا سِر
کردیا معلوم راز کنیز کا پھر
2
پھر اٹھا بادشاہ کی جانب چل پڑا
اور بتایا شاہ کو کچھ اس میں ذرا
اس کی تفصیل سے جب بادشاہ کو معلوم ہوتا کہ اس کی محبوبہ کسی غیر مرد پر عاشق ہے تو اس کے شیشۂ غیرت کو ٹھیس لگتی۔ طبیب کی مروت نے اس کو یہ قلبی ایذا پہنچانا گوارا نہ کیا کیونکہ رشکِ عشق کسی غیر کو محبوب کے کسی معاملے میں شریک دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ حتّٰی کہ محبوب کی راہ میں قتل ہونے میں بھی۔ بس اتنا کہہ دیا ہو گا کہ مریضہ ایک خاص دماغی عارضہ میں مبتلا ہے جس کا باعث ایک شخص زرگر قوم کا سمر قند کا باشندہ ہے اور یہ تفصیل نہ کی ہو گی کہ اس نے کیا سحر کیا ہے یا اس کی عاشق ہے یا اور کوئی وجہ ہے۔
3
شاہ نے پوچھا کہ اب تدبیر ہے کیا
اس کے حل کا اور اس میں دیر ہے کیا
4
بولے کچھ تدبیر اب کارگر کریں
واسطے اس کے حاضر مرد زرگر کریں
طبیب نے بادشاہ کی غیرتِ عشق کے خیال سے اس ذکر میں بھی اجمال ملحوظ رکھا۔ صرف اتنا کہہ دیا کہ اس مرض کے علاج کے لیے اس شخص کا حاضر کرنا ضروری ہے۔ یہ تشریح نہیں کی کہ آیا وہ شخص خود اس کا علاج کرے گا یا علاج میں مدد دے گا۔ یا اس کا شربتِ وصل کنیزک کے قلبِ سوزاں کو تسکین بخشے گا یا بے چارہ خود ہی پِس چَھن کر اس کے مرض کی دوا بنے گا۔ ایسے باریک پہلوؤں کی رعایت رکھنا مثنوی کی کمالِ بلاغت ہے۔
5
ایک قاصد اس کے واسطے بھیجئے
اس واسطے اعلان بخشش کیجئے
یعنی اس نے طریقہ بتا دیا کہ ایک قاصد اس کے واسطے بھیج دیں اور اس کے واسطے اعلان بھی کر لیں کہ اس کو اتنا انعام ملے گا اگر وہ آئے گا تو، تاکہ وہ آ جائے۔
بادشاہ کی یاد آوری ایک زرگر کے لیے کس قدر غیر مترقبہ نعمت تھی ۔ یعنی کوئی قاصد جا کر زرگر کو اس کی اس خوش نصیبی سے مطلع کرے کہ تجھے بادشاہ بلاتا ہے اور اس کو اس فضیلت کے حصول کی رغبت دلائے۔
6
مرد زرگر کو ذرا بلائیے
نقدی خلعت واسطے پھسلائیے
7
آپ کے معشوق کا دل خوش ہو رہے
ساری مشکل اس سے آسان ہو بنے
یہاں پھر معاملۂ عشق کی نزاکت کو ملحوظ رکھ کر اجمال سے کام لیا ہے۔ صرف اتنا کہہ دیا کہ آپ کی معشوقہ اس زرگر کی بدولت گردابِ غم سے نجات پا کر خوش و خرم ہو جائے گی۔ باقی رہا یہ کہ کس طرح؟ طبیب نے ابھی اس کی عقدہ کشائی مناسب نہیں سمجھی۔
8
سونا چاندی دیکھ لے گا جیسے وہ
چھوڑ دے گھر بار سب کچھ وہ
9
مال دیوانہ بنا دے عقل سب
اور خصوصاً یہ کہ وہ مفلس ہو جب
مال و زر کی حرص عمومًا ہر شخص کو اپنی طرف کھینچتی ہے مگر مفلس کو تو بالکل اندھا کر دیتی ہے کہ طمع کی بھوک میں جب وہ مال پر گرتا ہے تو اسے حلال و حرام کی پروا نہیں رہتی نہ وہ انجام پر نظر کرتا ہے۔
10
مال سے گو عقل ہو بیدار بھی
ہاں ہو گر وہ نیک اور سمجھ دار بھی
بے شک عقل بیدار بھی ہو اور نیک بھی ہو، سمجھدار بھی ہو، پھر بھی اس کا خطرہ رہتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرے گا، اس میں ایک مطلب خطرہ رہتا ہے۔
دفتر اول حکایت نمبر 9
اس زرگر کو بلانے کے لیے بادشاہ کا قاصدوں کو سمرقند بھیجنا
1
شاہ نے اس کی نصیحت سن لی جب
کر دیا منظور دل و جاں سے وہ سب
2
حکم دوں گا وہ کہ جو تو فرماں کرے
اور چلوں گا اس پہ جیسا تو کہے
یعنی اس نے کہا کہ میں ان شاءاللہ اس کا حکم دے دیتا ہوں اور جیسے تو کہے گا اسی طریقے سے میں کر لیتا ہوں۔
3
بھیجے قاصد دو کہ جو ہوشیار تھے
اس طرف کو، قابل اعتبار تھے
یعنی دو ایسے قاصد جو کہ ہوشیار بھی تھے، قابل اعتبار بھی تھے، اس طرف کو بھیج دیے گئے۔
4
پھر ثمر قند آیا اور وہ دو امیر
ایک بشارت شاہ سے لائے بشیر
پھر سمرقند وہ پہنچے اور وہ دو قاصدین جو تھے وہ شاہ کی طرف سے بشارت لے کے اس کے پاس پہنچ گئے۔
5
اے کہ باریکی کے ہیں استاد آپ
اب وہ ذرا ان کو چڑھا رہے ہیں نا، مکھن لگا رہے ہیں۔
5
اے کہ باریکی کے ہیں استاد آپ
واسطے اس کے خاص و عام کو یاد آپ
6
شاہ نے زیور بنانے کے لئے
کر دیا پسند تجھے اپنے لئے
7
خلعت و دولت یہ لے فی الحال تو
کیا مزید پائے فی الاستقبال تو
ابھی فی الحال تو یہ خلعت و دولت اس نے بھیج دیا ہے، یہ تو لے لو۔ اور باقی مستقبل میں تو کیا پائے گا اس کا ہمیں پتہ نہیں۔ یعنی اس کو اس انداز میں۔
8
مال و زر پر یوں فریفتہ ہوگیا
وطن اور عیال سے منہ موڑ لیا
بس، یہ تو ہوتا ہے۔ بس جو ہے نا اس نے کہا کہ تھوڑی۔ یہ نہیں کرتے ہمارے ہاں ادھر جو لوگ فارن جاتے ہیں۔ اور بہت بڑے بڑے رسک لے لیتے ہیں۔ وہ پتہ نہیں کشتیوں میں جاتے ہیں، ڈوب جاتے ہیں، پتہ نہیں کتنا سرمایہ ان کا غرق ہو جاتا ہے۔ صرف اس بات پر کہ ان کو امید دلائی جاتی ہے کہ وہاں پر جاب ملے گا اور یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔ درمیان میں بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ لیکن کرتے ہیں لوگ۔ تو اس معاملے میں بہت سارے لوگ اندھے ہو جاتے ہیں۔
راہ پر ہنسی خوشی سے، یہ ایک بات عرض کرتا ہوں، ہمارے حضرت مفتی زین العابدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ، انہوں نے اپنے بیان میں یہ کہا تھا کہ ایک بڑھیا میرے پاس آئی اور فرمایا کہ مفتی صاحب، تبلیغ والے ہم، میرے بیٹے کو لے جا رہے ہیں چار مہینے کے لیے، میں تو اس کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتی۔ تو بہت پریشان ہوں۔ تو یہ تبلیغ والوں کو سمجھا دیں کہ اس کو نہ بھیجیں، نہ لے جائیں۔ مفتی صاحب نے کہا کہ اماں میں آپ کی زندگی عزیز ہے ان شاءاللہ میں ان کو سمجھا دیتا ہوں۔ وہ نہیں جائے گا۔ میں نے تبلیغ والوں کو کہہ دیا بھائی، ان کی اماں، ماں ہے، بہت پریشان ہے۔ تو ان کو نہ جانے دیں۔ تو انہوں نے اس کو چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں کچھ عرصے کے بعد پھر آئی، کہتی ہیں مفتی صاحب دعا کیجیے، میرا بیٹا جاپان جا رہا ہے، ایک سال کے لیے۔ تاکہ خیریت کے ساتھ جائے، خیریت کے ساتھ آئے۔ تو کہتے ہیں میں نے کہا اماں جی میں کبھی بھی یہ دعا نہیں کر سکتا۔ مجھے آپ کی زندگی عزیز ہے۔ آپ تو اس کے اس کے بغیر بالکل زندہ نہیں رہ سکتی ایک دن بھی، تو ایک سال تو بہت بڑی چیز ہے۔ آپ کیسے زندہ رہے گی؟ میں بالکل یہ دعا نہیں کر سکتا۔ تو انہوں نے کہا نہیں نہیں یہ تو بہت اچھا ہے اور یہ ویسے ویسے، میں نے کہا نہیں بالکل سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا کہ میں اس کے لیے دعا کروں۔ آپ نے خود ہی کہا تھا کہ میں اس کے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتی۔ تو اب ایک سال کیسے زندہ رہے گی؟ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ تو مفتی صاحب سمجھا رہے تھے کہ دنیا کے لیے لوگ سب کچھ کر لیتے ہیں۔ اور دین کی بات جب آتی ہے تو کہتے ہیں پھر یہ ہو گیا، اور وہ ہو گیا، یہ ہو گیا، وہ ہو گیا، یہ مسائل تو ہیں۔ تو اصل میں یہاں پر بھی بات ہے،
9
مال و زر پر یوں فریفتہ ہوگیا
وطن اور عیال سے منہ موڑ لیا
10
راہ پر ہنسی خوشی سے جا پڑا
بے خبر تھے اس سے کہ یہ پھندا تھا
یہ تو اس کے لیے پھندا تھا لیکن وہ بے خبر اس سے چل پڑا۔
زرگر کی جان لینے کا قصد تو دراصل طبیب نے کیا تھا اور ممکن ہے بادشاہ کو ابھی اس حیلہ و تدبیر کی تفصیلات کا علم بھی نہ ہو مگر چونکہ اس تمام کارروائی کا اصل باعث بادشاہ ہے اس لیے قتلِ زرگر کو اسی سے منسوب کیا ہے۔
11
عربی گھوڑے پر سوار جاتا رہا
سمجھا تھا انعام اپنا خونبہا
مطلب یہ ہے کہ وہ انعام کے مطلب اس میں، امید پہ گھوڑے پر، عربی گھوڑے پر سوار جاتا رہا، لیکن کیا پتہ تھا کہ یہ تو اس کی جان کے لالے پڑیں۔
نکتہ: آہ! یہی حال ہے۔ اس غفلت شعار انسان کا جو لذّاتِ فانیہ کے چکر میں آ کر گردابِ معاصی میں جا پڑتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جو یہاں کی چند روزہ زندگی، اس کے لیے وہ آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس کو نہیں پتہ ہوتا ہے۔ وہ جو ہے نا، چند روز کی، چند روز کی چاندنی، پھر اندھیری رات ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ بات ہوتی ہے کہ انسان چند روز کی مزوں کی خاطر بہت کچھ نقصان اٹھا لیتے ہیں۔ اور یہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ گناہ جو ہوتا ہے نا، یہ عجیب چیز ہے۔ یعنی ایک بار اس پہ پورا مکمل بیان ہو چکا ہے، مجھے تو اس وقت یاد بھی نہیں ہے۔ کہ جو مطلب مزہ ہے نا مزہ، نفس کا جو خواہش ہوتی ہے، نفس کا جو مزہ ہوتا ہے، یہ بالکل اسی وقت ہوتا ہے جب وہ ہو رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی کھا رہا ہے کوئی میٹھی چیز تو یہ ہونٹوں سے لے کر حلق تک ہے بس۔ اس سے آگے گیا تو پھر سارے برابر۔ اچھا، اور اگر آنکھوں کے ساتھ ہے تو جب تک آنکھوں کے سامنے تو مزہ ہے، آنکھوں سے ہٹ گیا تو بس ختم۔ سننے کی حد تک ہے تو جب تک وہ سن رہا ہے تو مزہ ہے، جب سننا ختم تو ختم۔ مطلب وہ instant ہوتا ہے۔ کیونکہ نفس جو ہے نا، ہر لمحے نئی پوزیشن پہ ہے۔ وہ سٹور نہیں کر سکتا ہے۔ نفس جو ہے نا وہ مزے کو سٹور نہیں کر سکتا یا فائدے کو سٹور نہیں کر سکتا، نقصان کو بھی سٹور نہیں کر سکتا۔ دل کے اندر یہ خاصیت ہے کہ دل جو ہے نا سٹور کر لیتا ہے۔ اس لیے حدیث شریف میں جو آتا ہے کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو دور ہو جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو رہ جاتا ہے۔ پھر اگر دوسرا داغ لگے، تیسرا لگے، چوتھا لگے تو حتی کہ داغ بڑھتے رہے۔ تو بعض دفعہ کسی کا دل بالکل سیاہ ہو جاتا ہے، پھر اس پہ کوئی اچھی بات اثر نہیں کرتا۔ اس کے لیے پھر بہت، بہت تیز قسم کا جو ہے نا وہ داؤ چاہیے ہوتا ہے۔ ہمارے صوفی اقبال صاحب فرماتے ہیں، بڑا تیز جلاب چاہیے، سدے پڑے ہوئے ہیں۔ بڑا تیز جلاب چاہیے، سدے پڑے ہوئے ہیں۔ یعنی فرمایا۔ تو اس کا واقعی پھر بہت زور لگانا پڑتا ہے۔ یہ دیکھیں نا کبھی یہ موبائل وغیرہ بالکل بند ہو جاتا ہے، چلتا نہیں ہے، تو پھر اس کو ہائی پاور بیٹری کے سامنے لاتے ہیں نا۔ تو اس کو جھٹکا لگاتے ہیں۔ تو جھٹکا لگتا ہے تو چل پڑتا ہے۔ مطلب اس سے کم چیز پر جو ہے نا وہ نہیں چلتا۔ تو ہمارے ہاسٹل میں ایک لڑکا تھا، میڈیکل سٹوڈنٹ تھا، وہ بہت فحش گانے لگاتا تھا، بڑے زور سے، اپنے ڈیک پر لگاتے تھے۔ پورا ہاسٹل اس سے تنگ تھا۔ لیکن لڑائی کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔ لہذا کوئی اس کو کچھ کہتا نہیں تھا۔ تو تبلیغی جماعت، مطلب ظاہر ہے، ڈاکٹر فدا صاحب تشریف لائے تھے تو گشت کر رہے تھے ان کے ساتھ ہم، تو میں متکلم تھا۔ تو بہرحال دروازہ ہم نے کھٹکٹایا تو جب وہ باہر آئے تو سیدھا اس نے کہہ دیا،
My heart does not want to go to mosque.
میرے دل مسجد جانے کو نہیں چاہتا۔ بالکل اس نے صاف صاف کہہ دیا۔ تو ڈاکٹر فدا صاحب پیچھے آ رہے تھے، اس نے مجھے کہا آپ لوگ چلیں۔ اس کو میں سنبھال لوں گا۔ تو ہم تو آگے چلے گئے۔ خیر گشت ہو گیا پھر اس کے بعد بیان شروع ہو گیا۔ بیان کے دوران میری نظر بائیں طرف پڑی تو وہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے کہا اچھا، یہ تو آ گیا ہے۔ سبحان اللہ، ڈاکٹر صاحب نے کمال کر دیا۔ اچھا، وہ تشریف لائے تھے۔ تو جس وقت بیان ہو گیا تو مجھے کہتے ہیں، سبحان اللہ، بہت، بہت دل خوش ہو گیا آج، دل خوش ہو گیا آج۔ یہی چیز ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ، یعنی یہ گناہوں کا ایک پورا ایک وبال جب ہو جاتا ہے تو انسان کا نیکی سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے۔ اور پھر انسان نیکی نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی کروانا بھی چاہتا ہے۔ ہاں، اگر کوئی بہت زبردست تیز قسم کا نظام ہو وہ جس کے تمام چیزوں کو بہا کے لے جائے تو پھر ٹھیک ہے، پھر ممکن ہو سکتا ہے۔ تو اسی طرح مطلب یہاں پر بھی یہ ہے کہ جو غفلت شعار انسان ہوتا ہے وہ لذاتِ فانیہ کے چکر میں گرداب معاصی میں پڑ جاتا ہے۔ اس سے باہر نکلنے کو اس کا جی نہیں چاہتا۔ ایسا ہوتا ہے۔
12
جانب منزل خوش خوش بڑھتا رہا
موت کی جانب سفر کرتا رہا
خوش خوش جاتا رہا کہ مجھے وہ کچھ مل جائے گا، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔
مطر بن عکامس سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "إِذَا قَضَى اللّٰهُ لِعَبْدٍ أَنْ يَّمُوْتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهٗ إِلَيْهَا حَاجَةً" (رواہ احمد و الترمذی) ترجمہ: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے حق میں یہ حکم دیتا ہے کہ وہ کسی خاص زمین میں جا کر وفات پائے وہ اس کے لیے وہاں جانے کی کوئی ضرورت پیدا کر دیتا ہے۔“
خود جاتا ہے۔ یعنی انسان اپنی موت کی تلاش میں خود جاتا ہے۔ تو یہ بھی بات ہے کہ جہاں پر کسی کا، وہ کہتے ہیں واقعہ وہ اس طرح پتہ نہیں کونسی کتاب میں ہے۔ کہ ملک الموت غالباً ایک صاحب سلیمان علیہ السلام کے ساتھ بیٹھے تھے اور تو اس نے اچانک کہا جی مجھے فلانا جزیرے میں پہنچا دیں۔ تو اس نے کہا کیا ہے؟ کہتا ہے بس کہتے ہیں میں بہت گھبرا گیا ہوں۔ مجھے نا مجھے فلاں جزیرے میں۔ تو انہوں نے جنات کو حکم دے دیا تو وہ وہاں اس کو پہنچا دیا۔ پہنچا دیا تو وہاں پر وہ فرشتہ آیا اور اس کے روح قبض کر لی۔ تو پھر سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اس فرشتے کی ملاقات ہوئی تو اس فرشتے نے اس کو پھر یہ بیان کیا کہ یہ تیرے ساتھ جو بیٹھا ہوا تھا تو اس کے بارے میں مجھے حکم تھا کہ اس کے فلاں جزیرے میں روح قبض کرنی ہے تو میں حیران تھا کہ وہاں تو یہ ہے نہیں، یہاں تو یہ تو یہاں ہے۔ تو میں کیسے اس کی روح وہاں پر قبض کروں؟ تو میں نے اس کو بڑی حیرت سے دیکھا۔ تو اس پہ بہت رعب چھا گیا اور گھبرا گیا اور اس نے کہا کہ مجھے فلاں جزیرے میں پہنچا دے۔ تو آپ نے ادھر پہنچا دیا، میں نے ادھر اس کا روح قبض کر لیا۔ تو مطلب یہ ہے کہ واقعتا ایسے ہی ہوتا ہے کہ جہاں پر کسی کا رزق ہو وہاں اللہ تعالیٰ ان کو لے جاتا ہے اور جہاں پر کسی کا موت ہو تو وہاں پر بھی وہ چلا جاتا ہے۔
13
ملک وعزت پانے کا تھا اس کا خیال
بے خبر تھا خود سے کہ کیا ہوگا حال
14
راہ طے کرتے ہوئے پہنچا وہاں
شاہ کو طبیب نے اسے پیش کر دیا
یعنی راہ چلتے چلتے تو وہ پہنچ گیا وہاں پر، منزل پہنچ گیا، اور بادشاہ، طبیب کے پاس۔ تو پھر طبیب نے شاہ کو پیش کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جس کا میں نے آپ کو کہا تھا۔
15
شاہ کے پاس لے گیا اس کو بخیال
وارے اس کو اس کنیز پہ ہو کمال
یعنی اس کے پاس، اس کو شاہ کے پاس لے گیا تاکہ وہ یعنی اس کو اس کنیز پر قربان کر دے۔ کیسے کرے وہ بعد میں ابھی آ رہا ہے۔
جس طرح بعض توہم پرست لوگ بیمار کے سر پر چراغ چلا کر اوتار اتارتے ہیں تاکہ اس کو صحت ہو جائے اسی طرح یہاں یہ غرض تھی کہ اس زرگر کو بیمار کے چراغ سرِ بالیں کی طرح جلا کر اس کنیز کی شفا تدبیر کی جائے۔
16
شاہ نے تعظیم اس کی دیکھ کر
اور دیا اس کو پھر خوب سیم و زر
مطلب اس نے اس کی بڑی تعظیم کی، اس کو جب دیکھا اور پھر اس کو خوب خوب سیم و زر سے نواز دیا۔ مطلب انعام و اکرام سے نواز دیا۔
17
دیا سونا واسطے زیور دل پسند
کنگن و جھانج او طوق و کمر بند
مطلب یہ بتایا کہ اچھا ابھی اس سے، سونا اس کو دے دیا کہ اب اس سے دل پسند زیور، کنگن و جھانج اور طوق اور کمر بند بنا دیں۔ چونکہ زرگر تھا نا تو ظاہر ہے مطلب اس کو یہ کام دے دیا۔
18
سونا لے کے تب ہوا مشغول ِ کار
بے خبر تھا اس سے جو تھا کار زار
بالآخر جو کچھ ہونا تھا اس سے بے خبر تھا البتہ وہ موجودہ حالت میں سونا لے کے کام کرنے میں مشغول ہو گیا اور زیور بنانا شروع کیا۔
19
پس حکیم نے شاہ سے یہ کہہ دیا
دے کنیز زرگر کو نکاح میں ذرا
آخر میں وہ بات پہنچ گئی۔ وہ یہ ہے کہ حکیم نے بادشاہ سے کہہ دیا کہ اس کنیز کی زرگر سے نکاح کر دو۔
یعنی اس سے نکاح کر دیجئے شرعًا یہ درست ہے کہ مالک اپنی کنیز کا کسی دوسرے شخص سے نکاح کر دے پھر کنیزک بدستور اپنے مالک کی ملک میں رہتی ہے وہ مالک کی خدمت کرتی رہتی ہے اور اس ضمن میں اپنے زوج کے ساتھ تعلقات بھی رکھتی ہے۔ طبیب نے یہ تجویز اس لیے کی کہ عشق کا علاج مطلوب تھا اور عشق کا علاج وصل ہے۔ چنانچہ آئندہ شعر میں یہی وجہ بیان فرماتے ہیں۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ اپنے محبوب کو غیر کی آغوش میں جانے دینا عاشق کی قوتِ برداشت سے باہر ہے۔ مگر یہاں اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔ اس لیے طبیب نے بھی پہلے یہ بات فورًا بادشاہ سے نہیں کی بلکہ بتدریج اب آ کر کہی ہے اور ساتھ ہی اس کو یقین دلایا ہے کہ آپ کی محبوبہ اگر شفایاب ہو سکتی ہے تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اس کو ایک مرتبہ زرگر کے وصل کی آرزو پوری کر لینے دیجئے۔ چنانچہ کہتا ہے:
20
کہ کنیز اس کی وصل سے خوش رہے
پانی سے اسکی وصل سے آگ بجھے
طولِ ہجر عاشق کے عشق کی زیادتی کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے اہل اللہ طولِ ہجر، طولِ ناکامی اور دوامِ آہ و بکا میں بھی مزے لیتے ہیں۔ اس لیے حکیم نے سمجھ لیا کہ لونڈی بقول "اَلْاِنْسَانُ حَرِیْصٌ عَلٰی مَا مُنِعَ" اس وقت تک زرگر کی عاشق ہے جب تک اس سے مہجور ہے۔ اگر اس کے وصال سے خوش ہوئی تو اس کے عشق کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مگر ایسا عشق سچا عشق نہیں بلکہ ہوس ہوتی ہے جو ایک خود غرضانہ جذبہ ہے اور اس کا منتہٰی یہ ہے کہ شربتِ وصال پیا اور سیر ہو گئے۔ اور سچا عشق جو سراپائے سوز و گداز ہے وہ کسی حد تک ختم ہونے والا، کبھی بھی ختم ہونے والا نہیں ہوتا۔
واقعتاً جو عشق حقیقی ہے وہ تو مستقل بڑھتی رہتی ہے دو وجوہات سے۔ ایک تو لامتناہی ہے۔ کیونکہ وہاں سب کچھ لامتناہی ہے۔ اور یہ ہے کہ اللہ جل شانہ وراء الوراء ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تو نہ کوئی دیکھ سکتا ہے نہ مطلب تو وہ اس وجہ سے عشق حقیقی جو ہے یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ وہ ہمارے اس کا شعر ہے نا، اس کلام کا،
در دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا
اس کے ساتھ ایک عجیب واقعہ مشہور ہے۔ اصل میں حضرت حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود بھی شاعر تھے اور شاعری کا بڑا ذوق رکھتے تھے۔ اور حضرت کے وقت تقریباً، ہاں تقریباً ہر وقت مطلب شعر پڑھے جاتے تھے۔ بلکہ ان کا تمام اصلاحی کام جو ہے نا وہ اسی سے وابستہ تھا۔ تو یہ بات ہوتی ہے کہ جو شخص فوت ہو جائے تو جس حالت میں فوت ہو جاتا ہے اسی حالت میں اٹھایا جاتا ہے۔ ایک تو یہ بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسی میدان کے جو کام ہوتے ہیں اس میں بعض ان میں سے بعض لوگوں کو ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ ان کے جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فقہ کے بہت بڑے امام تھے نا۔ تو کسی کو مسئلہ اگر کوئی ہو تو بعض دفعہ ان کو خواب میں آ جاتے ہیں اور وہ مسئلہ بتا دیتے ہیں یعنی اس طرح۔ چونکہ اللہ تعالیٰ ان کو اس کے استعمال فرماتے ہیں اس کے لیے۔ دنیا میں بھی جب تک رہے تو استعمال فرماتے رہے۔ اور جب فوت بھی ہوئے تو کبھی کبھی اللہ تعالیٰ ان کی مثالی صورت کو استعمال فرماتے۔ تو حکیم اختر صاحب مطلب آئے ایک صاحب کے، ان کی زیارت ہوئی تو حکیم صاحب نے فرمایا یہ جو پہلا مصرع ہے، یہ یہاں آ کر بھی وہی حال ہے۔ درِ دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا، یہ تشنگی ختم نہیں ہو رہی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گویا کہ یہ بتا دیا کہ یہ بات یونیورسل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے شک کوئی یہاں پر ہو، کوئی وہاں پر چلا جائے۔ تو وہ تو مطلب ظاہر ہے جنت میں ہی دیدار ہونا ہوگا نا۔ اس سے پہلے تو دیدار برزخ میں تو نہیں ہوگا۔ حتی کہ جنت میں بھی بہت سارا یعنی مزے لوٹنے کے بعد اس کی باری آئے گی۔ تو پھر اس کے بعد اللہ پاک جب پوچھے گا کہ کوئی اور چیز مانگیں تو لوگ حیران ہوں گے کہ سب کچھ تو دیا گیا تو ہم اور کچھ کیا مانگیں؟ تصور سے بھی زیادہ دیا گیا ہے۔ تو پھر اپنے علماء سے پوچھیں گے، علماء بھی اس وقت ہوں گے تو پوچھیں گے کہ کیا مانگیں؟ تو وہ کہیں گے دیدار ابھی تک نہیں ہوا۔ تو دیدار مانگیں۔ تو پھر اللہ پاک جو ہے نا وہ اس کے لیے انتظام فرما دیں گے۔ اپنے اپنے پوزیشن، اپنے اپنے مقام کے مطابق کرسیاں لگ جائیں گی اور دیدار شروع ہو جائے گا۔ اور پتہ نہیں وقت کیسے گزر رہا ہو گا۔ خیر تو اس کے بعد پھر لوگ کہیں گے پہلے ہمیں کیا ملا تھا؟ اصل تو یہی تھا۔ تو وہ اصل میں تشنگی اس وقت ہو گی۔ پوری۔ باقی جو ہے نا اس سے پہلے تو نہیں پوری ہو سکتی، جو عشق حقیقی ہے اس کی تشنگی کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی۔ تو یہ بات مطلب اس لیے بتائی گئی۔
درِ دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا
میں مستی میں یہاں پہ کب سے آیا اور کب نکلا
21
دے دیا شاہ نے اسے مہہ رو کو پھر
جفت کیا ان دونوں صحبت جو کو پھر
بادشاہ نے طوعًا و کرہًا غیرتِ عشق کے کلیجے پر صبر و ضبط کا پتھر رکھ کر اپنی محبوبہ کو زرگر کے نکاح میں دے دیا۔ مگر اس سخت امتحان کی مشکلات کو بادشاہ کا دل ہی جانتا ہوگا۔ غالبًا بادشاہ نے اپنے دل کو یوں تسلی دے لی ہوگی کہ اپنے گلستانِ عیش سے اس کانٹے کو ہٹانے کی صرف یہی تدبیر ہے کہ ایک مرتبہ اس کی خلش کے لیے اپنے جگر کو پیش کر دیا جائے۔ جس طرح ایک جلد باز شوہر کسی تکرار میں اپنی جان سے پیاری بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے اور پھر اس کی دائمی جدائی کے تصور سے بیتاب ہوتا ہے تو اس کو اپنی تجدیدِ عیش کے لیے حلالہ کے سوا اور کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔ چنانچہ وہ ایک رات کے لیے اپنی محبوبہ کو کسی غیر مرد کی شمعِ خلوت بننے دینا گوارہ کر لیتا ہے اس توقع پر کہ اس کے بعد وہ صرف میری ہو گی اور میں اس کا۔
یعنی یہ ساری باتیں عملی طور پر موجود ہیں۔ مختلف طریقوں سے۔ لیکن یہاں پر اس سے آگے کچھ اور کام لیا جانے والا ہے، سمجھانے والا ہے۔ کیونکہ جیسے میں نے عرض کیا نا کہ یہاں تو حکایت مقصود نہیں ہوتی۔ یہاں تو حقیقت، حکایت سے جو مضامین برآمد ہوتے ہیں وہ چیز مقصود ہوتے ہیں۔
22
چھ مہینے لوٹتے مزے یہی
اس کنیز کو اس سے صحت ہوگئی
جھوٹے اور نا پائیدار عشق کا انجام یہی ہوتا ہے کہ حصولِ وصل سے اس کی تاثیرات زائل ہو جاتی ہیں۔ بخلاف سچے عشق کے۔
23
بعد ازاں زہریلا شربت دے دیا
اس حکیم نے جس سے وہ بیمار ہوا
بس اسی کے لیے تو بلایا تھا۔
حکیم کو معلوم تھا کہ اس عشق کی بنا محض صورت پرستی ہے۔ اس لیے اس کے ازالہ کی یہ تدبیر نکالی کہ معشوق کی صورت بگاڑ دی جائے اور کوئی ایسا شربت بنا کر کسی حیلے سے اس کو پلایا جس سے اس کا جسم گھلنا شروع ہو گیا۔
یہاں پر actually ایسا ہوا ہے۔ مطلب یعنی اس حکایت میں۔ لیکن مشائخ جو عشق مجازی ہے اس کا علاج بھی اسی طرح کرواتے ہیں۔ اور اس طرح کرواتے ہیں کہ وہ تصور کے ذریعے سے کہ تصور کرو کہ وہ بیمار ہو گیا ہے، اس کا چہرہ زرد ہو گیا ہے، اس کے منہ میں مطلب جو ہے نا وہ پیپ آ گیا ہے اور یہ ہو گیا ہے، ہاتھ پیر پھول گئے ہیں، ہاں جی یہ تصور کرو اس کے بارے میں۔ تو تصور اور خود ہی کہتے ہیں کہ اس کو دیکھنا بھی نہیں ہے، اس کو actually دیکھنا بھی نہیں ہے اور یہ تصور کرو۔ تو اس تصور سے اس سے اس کو یعنی اس کے دل کو ہٹایا جاتا ہے۔ یہ تو ایک طرف اور دوسری طرف ذکراللہ، لا الہ الا اللہ کا ذکر کراتے ہیں۔ تاکہ وہ اللہ تعالی کی طرف اس کی جو عشق ہے وہ لوٹ جائے۔ تو اس کی حضرت تھانوی صاحب نے ایک مثال دی ہے۔ بڑی زبردست مثال دی ہے۔ عشق مجازی کے ذریعے سے عشق حقیقی کو حاصل کرنا۔ تو انہوں نے یہ مثال دی ہے کہ اگر کمرے میں گند پڑا ہوا ہے۔ تو ایک طریقہ ہے، ایک تنکا چن کے باہر پھینکتے جاؤ، باہر پھینکتے جاؤ، تو یہ لمبا کام ہے۔ ایک طریقہ ہے جھاڑو سے سارا اکٹھا کر لو، پھر سب کو دیا سلائی لگا دو بس، سارا ختم ہو جائے گا۔ تو صفائی ہو جائے گی۔ فرمایا عشق مجازی کی مثال، عشق مجازی کی مثال ایسی ہے۔ عشق مجازی کی۔ کیونکہ کسی ایک پر فانی عشق پر اس کو لے آؤ اور جس وقت جیسے اس پر آ جائے تو پھر اس کو عشق میں راہ میں ختم کرو۔ یہ قربانیاں جو ہماری ہیں یہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس طریقے سے وہ حب حقیقی انسان حاصل کر سکتا ہے۔ ویسے یہ بات حضرت تھانوی نے فرمایا کہ یہ اس کو practically اس طرح نہیں کرنا کہ اگر کسی کو عشق نہ ہو تو اس کو عشق کروا دیں، نہیں۔ کسی کو اگر accidently ہو جائے۔ تو پھر اس کو استعمال کر لیں۔ تاکہ تو اس کے لیے راستہ بڑا چھوٹا ہو جاتا ہے۔ risk بہت ہوتا ہے، لیکن اس risk سے فائدہ اٹھا کر اس کو حب حقیقی کی طرف اس کو موڑ دیا جاتا ہے۔ تو یہاں مطلب جو ہے نا وہ معاملہ ہو گیا کہ جو ہے نا اس کو زہر دے دیا اور اب اس کو جو مرض لاحق ہو گیا اس کی وجہ سے وہ زرد ہونا شروع ہو گیا، چہرے پہ۔
24
مرض سے اس کا رہا نہ جب جمال
سر سے اترا عشق کا کنیز کا وبال
مطلب جو ہے نا وہ، وہ عشق کا وبال تھا وہ سر اس کے سر سے اترنا شروع ہو گیا۔
25
اس کی بدصورت زرد چہرے سے ہاں
شوق کنیز کا ٹھنڈا ہوتا ہی گیا
چونکہ وہ عشق سچا نہ تھا بلکہ صورت پرستی تھی۔ اس لیے صورت کے بگڑنے سے وہ عشق زائل ہوتا گیا۔ سچا عشق صورت کے تغیّر سے متغیّر نہیں ہوتا۔
یہ آج کل کے دور میں بھی یہ چیز بہت ہے۔ یہ ہوس جو ہوتا ہے نا ہوس، یہ تو ایک بالکل خود غرضی والا معاملہ ہوتا ہے۔ وہ جو ہمارا ایک کلام ہے نا اس میں،
ہوس میں عشق میں کیا فرق ہے شبیر ؔ گر پوچھو
یہاں خود غرضی، اس میں مٹنے میں ہے کچھ پانا
تو اس میں مطلب یہ ہے کہ جو ہوس ہوتا ہے وہ خود غرضی ہوتی ہے۔ اس میں اپنے محبوب کو اپنے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جو عشق حقیقی ہوتا ہے اس میں محبوب کے لیے استعمال ہو جاتا ہے۔ اس میں اپنے غرض نہیں ہوتی بلکہ محبوب کی خوشیاں غرض ہوتی ہیں۔ تو یہ فرق ہوتا ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ چونکہ یہ بھی ہوس ہی کی بات تھی لہذا وہ صورت پرستی کا علاج ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی وہ ساری چیز ٹھنڈی ہو گئی۔
26
عشق ہو جو رنگ و روپ کے واسطے
عشق نہیں بس کلنک کا ٹیکا بنے
مولانا بیانِ واقعہ کے ضمن میں بطورِ نصیحت فرماتے ہیں کہ جو عشق صرف ظاہری شکل و صورت کے دیدار سے تعلق رکھتا ہے اور مشاہدۂ معنی کا اس میں دخل نہ ہو۔ وہ عشق پائیدار نہیں بلکہ رنگ و صورت کے تغیر پانے پر زائل ہو جانے والا ہے جس کا نتیجہ حسرت و ندامت اور ننگ و عار ہے۔ علاوہ ازیں صرف رنگ و بو پر مرنا بچوں کی طرح جو سرخ و سبز رنگوں پر لٹو ہو جاتے ہیں، احساساتِ روحانیہ کے تنزّل کی دلیل ہے اور اس قسم کا تنزّل بھی انسان کے لیے موجبِ شرم ہے۔ جس کو ارتقائے روحانی کی بدولت فرشتوں کے دوش بدوش رہنے کا حق حاصل ہے۔
علامہ اقبال بیچارہ اس کے لیے بہت کڑھتا رہا اور وہ ہمارے مقام کو ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا۔ جیسے ان کا شعر ہے نا،
قافلہ تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا۔
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں۔
مطلب یہ ہے کہ ہمارا مقصود ان چیزوں کا پانا نہیں تھا۔ تو مطلب ظاہر ہے ہمارا مقصود تو اس سے بہت آگے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اصل میں میں ان چیزوں میں، بھول بھلیوں میں مبتلا تھا۔ تو مجھے اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور میں ان سے آگے بڑھا۔ تو بات یہ ہے کہ واقعتا یہ صوفی لوگ بھی ہوتے جو ہوتے ہیں، صحیح کامل صوفی جو نہیں ہوتے ہیں، وہ ان بھول بھلیوں میں پھنس جاتے ہیں۔ وہ بزرگی کے چکر میں، خلافتوں کے چکر میں اور مطلب، جس کو کہتے ہیں نا، مراقبات میں سیر کرنے کے چکر میں، انہی میں پھنس جاتے ہیں بیچارے۔ اور پھر لوگوں سے باتیں بھی کرتے ہیں، او جی بس میں تو عرش پہ چلا گیا اور یہ ہو گیا، وہ ہو گیا، تو وہ کیا ہے؟ وہ بیچارہ محروم محروم ہوتا ہے۔ اصل تو اس کے پاس نہیں ہوتا۔ وہ حضرت تھانوی صاحب نے چونکہ ان چیزوں کا خوب علاج فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے۔ تو حضرت خواجہ مجذوب ، چونکہ حضرت کے ذوق کے شارح ہیں اشعار کے لحاظ سے۔ تو فرمایا،
سمجھا جو خود کو منتہی ابھی وہ مبتدی نہیں
یہ جس نے اپنے آپ کو منتہی سمجھ لیا وہ تو مبتدی بھی ابھی نہیں ہے۔ تو یہ بات ہے کہ واقعتا اگر اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھے تو اس کا مطلب ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھ سے بعض دفعہ احباب کہتے ہیں کہ جی حضرت ہمیں عُجب ہوتا ہے۔ تو میں ان سے کہتا ہوں عجب کا علاج تو بہت آسان ہے۔ کیوں؟ عجب مجھے بتاؤ جس کو آپ عجب کہتے ہیں۔ یعنی خود بتاتے ہیں کہ مجھے عجب ہوتا ہے۔ تو عجب بری چیز ہے یا اچھی چیز ہے؟ پوچھیں خود سے پوچھیں۔ کہ عجب اچھی چیز ہے، بری چیز ہے؟ اچھا جب بری چیز ہو رہی ہے تو اس پر اپنے آپ کو بزرگ کیسے سمجھ سکتے ہو؟ اس کے بعد تو تمہاری بزرگی ہوا میں ہونی چاہیے نا۔ یعنی عجب اگر کسی کو ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کامل نہیں ہے، وہ تو عیب ہے۔ تو عیب کے ہوتے ہوئے آپ کیسے کمال کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ پھر کیسے عجب رہ سکتا ہے؟ تو میں نے کہا عجب کا احساس ہی عجب کا علاج ہے۔ عجب کا جو احساس ہے وہی عجب کا علاج ہے۔ آپ اس کو سمجھ لیں۔ میں یہ عرض کرتا ہوں نا عقل اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی دولت دی ہے۔ اس کو استعمال کرنا چاہیے۔ عقل اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی دولت ہے۔ بہت ساری چیزوں کا علاج عقل کے ذریعے سے ہو جاتا ہے۔ یہ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جس کے اوپر عقل کا غلبہ ہوتا ہے وہ پرہیز کر سکتا ہے دوائیوں میں، بیماری میں، پرہیز کر سکتا ہے۔ اور جس پہ نفس کا غلبہ ہوتا ہے وہ پرہیز نہیں کر سکتا، بے شک کتنا حکیم بتا دے۔ وہ پرہیز نہیں کر سکتا کیونکہ مجبور ہوتا ہے اپنے نفس کے ہاتھوں۔ وہ جو ان کے سامنے چیز آ جاتی ہے تو بس رال ٹپکنے لگتی ہے۔ میرے ماموں تھے، سسر بھی تھے، تو ظاہر ہے اس کی عمر اس وقت تقریباً 80 سال کے لگ بھگ ہو گی۔ تو اس کے اخیر میں ان کو شوگر ہو گیا۔ یہ شکر ہے الحمدللہ بہت اخیر وقت میں ہوا ، ورنہ 80 سال کی عمر بڑی چیز ہوتی ہے۔ تو شوگر ہو گیا۔ تو میں گیا تو ان کے پاس مجھے کہتے ہیں شبیر، پرہیز کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ آدمی میٹھا نہ کھائے نا، کیا فرق پڑتا ہے؟ تو میں نے کہا ہاں بالکل ٹھیک ہے، اس میں یہ تو ہونا چاہیے۔ تو اس کا بھتیجا اور میرا کزن وہ پاس کھڑے تھے۔ کہتے ہیں ابھی بھی روح افزا، روح افزا شربت پیئے ہوئے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے روح افزا شربت پیئے ہیں۔ اچھا، وہ آئے تھے اپنے بیٹی کے ہاں تو حلوہ انہوں نے باقی مہمانوں کے لیے رکھا تھا۔ تو یہ بھی کھاتے رہے۔ تو ان کو پتہ چل گیا کہ یہ کھا رہا ہے تو انہوں نے وہ جو ہے نا وہ چھپا دیا مطلب کہ اب کھائے گا تو بیمار ہو گیا ہے۔ تو ادھر دیکھتے ہیں، وہ ادھر حلوہ پڑا ہوا ہے۔ تو یہ جو چیز ہے مطلب انسان کا، مطلب اگر کوئی نفس جس کے اوپر غالب ہو وہ پرہیز نہیں کر سکتا، بے شک کرنا چاہے۔ اور جس پہ عقل غالب ہو تو اس کے لیے پرہیز بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ کھا ہی نہیں سکتا پھر۔ وہ کہتا ہے بھئی مجھے فلاں نقصان ہو جائے گا۔ تو پھر نہیں کھاتا، اگر کوئی کہہ بھی دے نا کہ بھئی ٹھیک ہے جی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں نہیں۔
تو یہ جو ہے نا عقل اللہ تعالی نے جو دیا ہے، وہ بہت بڑی نعمت ہے۔ تو جیسے میں نے ابھی عرض کیا نا، یہ عجب، تو عجب کا علاج عقل سے کیا جا سکتا ہے کہ آدمی اگر اس کو یہ خیال آ جائے کہ میں تو اچھا ہوں۔ میں نے کہا اچھا اگر اچھا تھا بھی تو اب تو نہیں ہو نا۔ اب تو مجھے عجب ہو گیا۔ تو عجب کے ساتھ تو اچھا نہیں ہوتا۔ لہذا بات ٹھیک، بس ختم، علاج، عجب ختم۔
شیخ سعدی بوستان میں فرماتے ہیں کہ پوست پر دلدادہ ہونے والا انسان کیا، نرا حیوان ہے۔
مطلب جو ظاہر کو دیکھتا ہے۔ انسان تو اندر کو دیکھتا ہے کہ مطلب دیکھتا ہے کہ پیچھے کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کو شعور دیا ہوا ہے، مطلب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ بھئی یہ چیز میرے لیے نقصان دہ ہے تو اس کو پھر نہیں استعمال کرتا، اس کو پتہ ہوتا ہے۔
27
کاش ہوتی یہ ہوس بھی پائیدار
عشق کو بدنام نہ کرتی یہ عار
مطلب ہوس تو بالکل پائیدار نہیں ہوتا نا، یہ تو بس instant ہوتا ہے۔ تو فرمایا کہ اس ظالم نے عشق کو بدنام کروا دیا۔ کیونکہ لوگ عشق اور ہوس میں فرق نہیں کر سکتے۔ لوگ عشق اور ہوس میں اب جو مجنوں تھا نا، اصلی مجنوں، اس کے بارے میں واقعات بہت ہیں عربی میں۔ یہ عرب میں تھے۔ تو یہ جو ہے نا مطلب لیلیٰ اس کے لیے دودھ کا پیالہ بھیجا کرتی تھی چپکے سے۔ تو راستے میں کوئی اور مجنوں بیٹھا ہوا تھا، وہ بنا بیٹھا تھا۔ تو وہ دودھ کا پیالہ وہ پی جاتا۔ تو لیلیٰ کو پتہ چلا کہ اصلی مجنوں کو تو نہیں مل رہا تو اس نے کہا کہ وہ جا کر کہہ دو اس مجنوں کو کہ آپ یہ دودھ پی لیں اور اس میں جو اپنا خون ہے نا وہ بھرا ہوا، آپ کے لیلیٰ کو چاہیے تو وہ بھیج دیں، بھیج دو۔ تو وہ جب اس کو کہہ دیا، کہتے ہیں اوہ خون والا مجنوں ادھر بیٹھا ہوا ہے۔ مطلب ان کے پاس چلے جاؤ۔ تو مطلب یہ ہے کہ یعنی جو ہوتا ہے نا اس قسم کا، وہ بدنام کر لیتا ہے عشق کو۔
بیان جاری ہے ان شاءاللہ