غوث و قطب، ایمانِ صدیق رضی اللہ عنہ اور وقت کی قدر

(یہ بیان 4 اکتوبر 2017 کے مکتوبات شریف کے درس سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ مکتوبات کا بیان ہے جس میں واضح کیا گیا کہ غوث قطب مدار سے الگ اور اس کا مددگار ہے، اور ابدال کے انتخاب میں بھی اس کا حصہ ہوتا ہے۔ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے واقعہ سے اخلاص کی فضیلت بیان ہوئی اور بتایا گیا کہ تکوینی نظام ہر بستی میں ایک قطب کے ذریعے چلتا ہے۔ قطبِ ارشاد کے ذریعے دین کے مسائل کھلتے ہیں اور وساوس کا علاج ہوتا ہے۔ ایمانِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی برتری پر روشنی ڈالی گئی کہ ان کا ایمان پوری امت پر غالب ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ پیر اور مرید ایک دوسرے کے لئے سببِ کمال ہیں، منحوس دنوں کا کوئی ثبوت نہیں، اور وقت کو دین و اصلاح میں لگانے کی تاکید کی گئی۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


شیخ محیی الدین العربی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غوث ہی قطبِ مدار ہے۔

یہ تو ہر ایک کا اپنا اپنا اجتہاد ہے۔

ان کے نزدیک غوثیت کا مرتبہ، منصبِ قطبیت سے علیحدہ کوئی منصب نہیں ہے۔

یعنی جو قطب مدار منصبِ خلافت کے نیچے جو ہے منصبِ خلافت کے نیچے، تو فرمایا کہ غوث بھی وہی ہے، غوث کا لفظی معنی جو ہے ناں یہ ہے کہ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کسی کی مدد فرما دیں۔ تو یہ ہے۔ ان کے نزدیک غوثیت کا مرتبہ منصبِ قطبیت سے علیحدہ کوئی نہیں ہے جیسے کہ غوث الاعظم کہتے ہیں ناں تو غوث الاعظم کا ایک ہوتا ہے۔

جو کچھ اس فقیر کا عقیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ غوث، قطبِ مدار کے علاوہ ہے۔

یعنی یہ ایک علیحدہ منصب ہے۔

بلکہ اس (قطبِ مدار) کا ممد و معاون ہے۔ قطبِ مدار بعض امور میں اس سے مدد لیتا ہے اور ابدال کے منصب مقرر کرنے میں بھی اس کو دخل ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رات کو نکلے اپنی جگہ سے تو ایک صاحب پیچھے پیچھے چلے تاکہ دیکھوں کہ حضرت کدھر جا رہے ہیں، تو حضرت کے قدموں پر وہ قدم رکھتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ روشنی آرہی تھی، مطلب بغداد کے ساتھ کوئی قریب اتنا شہر نہیں تھا تو روشنی کہاں سے آگئی۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ تو موصل شہر ہے۔ موصل اور بغداد میں تو بہت فاصلہ ہے لیکن دیکھا کہ موصل پہنچ گئے تو وہاں پر ایک جگہ تھی، مکان تھا اس میں کافی حضرات بیٹھے ہوئے تھے اور اندر سے کسی کے کراہنے کی آواز آرہی تھی، حضرت وہاں تشریف فرما ہوئے ان کے ساتھ، تھوڑی دیر کے بعد پتا چلا وہ اندر والے صاحب فوت ہوگئے ہیں پھر اس کے بعد تجہیز و تکفین ہوگئی، جنازہ پڑھا گیا، پھر دفن کردیا گیا۔ اس کے بعد میٹنگ شروع ہوگئی، تو اس کی جگہ اور ابدال تھے جو فوت ہوگئے تھے۔ یہ چالیس ابدال ہوتے ہیں ان میں سے جب ایک فوت ہوجاتا ہے تو دوسرے کے لئے پھر باقاعدہ مشورہ ہوتا ہے اور یہاں پہ جو ذکر ہے ابدال کے مقرر کرنے میں، تو وہ جو ہے پھر یہ مشورہ ہوگیا، تو ہر ایک نے اپنی اپنی رائے دی تو حضرت نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جو پتا چلا ہے کہ وہ صاحب وہاں پر ہیں، ایک جگہ پر گرجا تھا اس کے اندر جو ہے ناں ایک راہب تھے، وہ اپنے طور پر عبادت میں لگے ہوئے تھے، لیکن ان کو تصرف کے ذریعے سے لایا گیا اور ان کو کلمہ پڑھایا گیا، مسلمان کردیا گیا اور ابدالوں میں شامل کردیا گیا، وجہ یہ ہے کہ اس کا قلبی اخلاص اتنا زیادہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کو پتا ہوتا ہے کہ کون کس چیز کے لئے کتنا زیادہ اہل ہے۔ تو مسلمان ہوگئے اور مسلمان ہونے کے بعد پھر ان کو اس منصب پر بھی مطلب بٹھا دیا گیا۔ اور جو کچھ اس فقیر کا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ غوث، قطبِ مدار کے علاوہ ہے بلکہ اس قطبِ مدار کا ممد و معاون ہے، قطبِ مدار بعض امور میں اس سے مدد لیتا ہے اور ابدال کے منصب مقرر کرنے میں بھی اس کو دخل ہے۔

قطب کو باعتبار اس کے اعوان و انصار کے، قطب الاقطاب بھی کہتے ہیں، کیونکہ قطب الاقطاب کے اعوان و انصار اقطابِ حکمی ہیں۔

یعنی جن کے ذریعے سے وہ کام کرتے ہیں یعنی تکوینی کام، تو ان میں سے ایک ہوتا ہے جیسے ہر شہر کے اندر ہر گاؤں کے اندر مطلب کوئی ہوتا ہے، جو مطلب وہاں کے کام ان کے ذمے ہوتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں حتیٰ کہ جو کافر جگہیں ہیں وہاں پر بھی مطب، چونکہ تکوینی نظام ہے تو تکوینی نظام میں تو ظاہر ہے مطلب آخر اللہ پاک ان کو بھی سب کچھ دے رہے ہیں ناں، کافروں کو کھانا نہیں دے رہے؟ کافروں پر بارشیں نہیں ہو رہیں؟ کافروں پر کیا مطلب عذابات نہیں آتے؟ ہر قسم کی چیز جو مسلمانوں کے ساتھ ہے وہ کافروں کے ساتھ بھی دنیاوی اعتبار سے تو ہوتی ہے، بلکہ دنیاوی اعتبار سے تو ان کی بعض حالتیں ہم سے اچھی ہوتی ہیں۔ تو وہاں کے نظام کو چلانے کے لئے بھی لوگ ہوتے ہیں۔ اور یہ میں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں بھی پڑھا ہے۔ حضرت نے اس کی دلیل بھی دی ہے۔ تو یہ جو ہے ناں یہ نظام موجود ہے۔

یہی وجہ ہے صاحبِ فتوحاتِ مکیہ لکھتے ہیں: "مَا مِنْ قَریَۃٍ مُّؤْمِنَۃً کَانَت اَوْ کَافِرَۃً إِلَّا وَفِیْھَا قُطْبٌ" ترجمہ: ”مؤمنوں یا کافروں کا کوئی قریہ ایسا نہیں ہے جس میں قطب نہ ہو“۔

جاننا چاہیے کہ صاحبِ منصب کو یقینًا اپنے منصب کا علم ہوتا ہے اور وہ جو اس منصب کا کمال رکھتا ہے لیکن منصب نہیں رکھتا اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اربابِ علم ہو اور اپنی خدمت سے مطلع بھی ہو۔

یعنی قطبِ ارشاد جو ہوتا ہے اس کو ضروری نہیں ہے کہ پتا ہو لیکن جو قطبِ مدار یا غوث ہو ان کو پتا ہوتا ہے، کیونکہ ان کی ڈیوٹی ہے۔ اور یہ قطب ارشاد جو ہیں یہ اصل میں فیض رساں ہیں، ان کے ذریعے سے فیض پہنچتا ہے۔ جو قطبِ ارشاد ہوتا ہے جن کو ان کے ساتھ، جن کو ان کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے ان پہ اللہ جل شانہٗ شریعت کی باتیں اور مشکلات کا حل زیادہ کھولتے ہیں۔ آج کل کے دور میں، میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ اکثر جن کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مناسبت ہے، ویسے، مناسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے فطری ہوتی ہے۔ تو جن کو حضرت کے ساتھ مناسبت ہے وہ ہشاش بشاش رہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا ان بزرگوں کو جن کا تعلق حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نا کسی درجے میں ہے وہ ہشاش بشاش رہتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اوپر وہ چیزیں اللہ تعالیٰ ایسے کھولتے ہیں ان کی طبیعت ایسی کھلتی ہے کہ وہ کنفیوز نہیں ہوتے وہ Confusion بات نہیں چلتی۔ اور جو جو چیزیں ہوتی ہیں وہ ان کے سامنے بالکل واضح ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ایک موٹی سی مثال دوں۔ وسوسوں سے لوگ کتنا پریشان ہوتے ہیں، ہوتے ہیں ناں؟ کہ وسوسے آرہے ہیں، وسوسے آرہے ہیں۔ حضرت نے اتنا آسان طریقہ بتا دیا، فرماتے ہیں کہ یہ وسوسے تم لاتے ہو؟ تکلیف ہوتی ہے اس سے؟ تکلیف ہوتی ہے۔ جب تکلیف ہوتی ہے پھر تو تمہارے نہیں ہوئے ناں، پھر تمہارے نہیں ہوئے، یہ تو غیر اختیاری ہیں، غیر اختیاری ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر گرفت نہیں فرماتا۔ ہاں! اگر تم اپنے اختیار سے لاتے ہو تو اختیار سے ختم بھی کر سکتے ہو، تو ختم کرو، اگر اختیار سے لا سکتے ہو تو اختیار سے ختم بھی کر سکتے ہو، اور اگر ختم نہیں کر سکتے تو پھر غیر اختیاری ہوئے اور غیر اختیاری کا تو تم سے حساب نہیں ہوگا، لہٰذا کوئی پروا نہ کرو۔ کتنا آسان solution ہے۔ اسی طرح لاتعداد باتوں میں حضرت کے اس قسم کے فیصلے ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگ Confuse کیوں ہوں گے۔ کیوں پریشان ہوں گے۔ تو یہ قطب ارشاد والی بات ہے۔ مطلب وہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے، جس کے اوپر بھی اللہ تعالیٰ یہ باتیں کھول دیں، ان کے ساتھ جن کو مناسبت ہوگی تو وہ خوش نصیب لوگ ہوں گے۔ اب میں الحمد للہ میں آپ کو کیا بتاؤں میرے ساتھ کیا ہوا۔ میرا مطالعہ بہت زیادہ تھا لیکن irregular تھا یعنی کوئی باقاعدہ مطالعہ نہیں تھا جس کو میں ترتیب کہوں، بس وہ مختلف (کتابیں) جو کتاب مل جاتی تھی پڑھ لیتا تھا۔ تو ایک دن میں نے اپنے ساتھی سے جو مجھ سے Junior تھا لیکن بہرحال اس کا مطالعہ زیادہ باقاعدہ تھا، علمی گھرانہ تھا۔ ان سے میں نے پوچھا کہ میرا مطالعہ ہے لیکن ہے irregular، تو میں باقاعدہ مطالعہ کہاں سے شروع کروں جس کو مفید کہہ سکوں، جس سے مجھے فائدہ ہو۔ اس نے کہا کہ دیکھو اگر آپ علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے پاس علماء کرام کی کتابوں کے بڑے بڑے سیٹ موجود ہیں، آپ کو کسی بھی عالم کا سیٹ دے دوں گا جس کے ساتھ آپ کو مناسبت ہوگی تو آپ کو کچھ نہ کچھ علم حاصل ہوجائے گا اس کے ذریعے سے۔ اور اگر آپ اپنی صلاح کرنا چاہتے ہیں تو پھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات اور مواعظ پڑھنا شروع کر لیں۔ یہ اس وقت کی جب وہ میٹرک میں تھا، وہ میٹرک کا سٹوڈنٹ مجھے بتا رہا ہے۔ تو خیر میں نے کہا کہ یہ بات بالکل صحیح ہے اصل تو اصلاح ہے، علم تو کسی وقت حاصل ہو ہی جائے گا اصل اصلاح ہے، لہٰذا آپ مجھے وہ دے دو۔ مجھے انہوں نے حضرت کے مواعظ کی ایک جلد پکڑا دی، فرمایا یہ دیکھو۔ وہ میں لے گیا اپنے ساتھ ہاسٹل، میں نے اس کا پہلا وعظ پڑھا اس کا نام تھا ’’الاستغفار‘‘۔ یقین کیجئے ایسا عجیب دل لگا اس میں کہ میں تو بالکل ایسا ہوا کہ مجھے بالکل پتا ہی نہیں چلا کتنا ٹائم لگا اور وعظ ختم کئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اور کئی گناہوں سے اللہ نے توبہ کی توفیق دی۔ میں حیران ہوگیا کہ ایک وعظ سے انسان اتنے گناہوں سے بچتا ہے تو یہ بڑی عجیب چیز ہے۔ تو میں نے بس پھر میں نے کہا کہ یہ واقعی اصل چیز ہے، پھر میں نے پڑھنا شروع کیا، خیر وہ جو جلد تھی وہ تو میں نے پڑھ لی جلد۔ پھر میں ان سے لیتا جلد اور پڑھتا، حضرت کا الحمد للہ یہ ارشاد مبارک تھا، غالباً میں نے انہی سے سنا تھا کہ جو چالیس مواعظ میرے پڑھ لے، میری تربیت میں آجاتا ہے۔ حضرت نے زندگی میں کہا ہوگا، اپنی زندگی میں شاید چالیس کی انہوں نے پابندی لگائی ہوئی تھی کہ چالیس مواعظ پڑھو گے تو پھر بیعت کروں گا، کچھ اس طرح تھا۔ تو میرے لئے اللہ تعالیٰ نے وہ بات بعد وفات بھی صحیح ثابت کروا دی، غالباً چالیس مواعظ میں نے پڑھے ہوں گے کہ حضرت کی خواب میں زیارت ہوئی اور حضرت تشریف لائے اور وہ جو ہے ناں بیٹھے ہوئے تھے حضرت ہمارے ہاسٹل میں ہی جہاں نماز ہم پڑھتے تھے۔ ایک طرف حضرت تھے دوسری طرف درمیان میں میں ہوں تیسری Side پر حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حلیمی صاحب کے بڑے بھائی تھے اور فاضل دیوبند تھے، وہ تشریف فرما ہیں اور مجھے کوئی کتاب کھول کر سمجھا رہے ہیں، کوئی چیز سمجھا رہے ہیں تو پھر خواب کا دوسرا حصہ شروع ہوگیا۔ دوسرا حصہ یہ تھا کہ ہاسٹل کا گیٹ ہے اور گیٹ کے سامنے جو راستہ ہے اس پر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اکیلے جا رہے ہیں پھر اس کے بعد تسنیم الحق صاحب اور اس کے بعد میں جا رہا ہوں اور راستہ سیدھا مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، جو ہمارے شیخ بعد میں ہوگئے، ان کے گھر تک جا رہا ہے، مطلب یہ راستہ جو تھا۔ تو گویا کہ بس یہ دو حصے میں نے دیکھے خواب میں اور پھر میں جاگ گیا۔ لڑکپن کا دور تھا لہٰذا سنجیدگی تو تھی نہیں، بس خوش ہوگیا کہ میں نے اچھا خواب دیکھا ہے لیکن کوئی اتنا اس کو زیادہ وزن نہیں دیا۔ اس کے بعد غالباً تسنیم الحق صاحب تشریف لائے تھے اپنے بھائی حلیمی صاحب کے ہاں، مجھے پتا چلا تو میں ان سے ملنے کے لئے گیا، یہ دونوں بزرگ بیٹھے ہوئے تھے آپس میں باتیں کر رہے تھے، باتیں بھی یہی تھیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرات کے بارے میں باتیں تھیں، تو میں نے کہا میں نے بھی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا ہے، درمیان میں بات کرلی، تو حلیمی صاحب نے کہا کہ کیسے دیکھا ہے؟ تو میں نے سارا خواب سنا دیا، کہتے یہ تو بڑا مبارک خواب ہے، میں نے کہا کیسے مبارک ہے؟ انہوں نے تو مجھ سے بات بھی نہیں کی۔ تو حضرت حلیمی صاحب جلالی بزرگ تھے، کہتے ہیں: "گستاخ" کون سی بات انہوں نے زندگی میں کسی سے غیر ضروری بات کی تھی؟ تمہارے ساتھ کیوں غیر ضروری بات کرتے، جو بتانا تھا وہ بتا دیا۔ میں نے کہا کیا بتایا؟ کہتے یہ بتایا کہ ہاتھ پکڑو، تسنیم الحق صاحب کی طرف اشارہ کیا کہ یہ بتایا کہ ان کا ہاتھ پکڑو۔ بات تو صحیح تھی ظاہر ہے مطلب یہ کہ سمجھ میں بھی آرہا تھا کہ بات تو بالکل صحیح ہے، اس دوران تسنیم الحق صاحب بالکل خاموش ہشاش بشاش چہرہ، کچھ پتا نہیں کہ مطلب ان سے کیا اثر لیا، کچھ بھی نہیں کہا۔ ان کے اوپر اخفاء کا غلبہ تھا بہت زیادہ اپنے آپ کو چھپایا تھا، اتنا چھپایا تھا کہ ان کی اپنی اولاد نے بھی نہیں پہچانا یعنی ایسے مطلب اپنے آپ کے اوپر پردہ رکھا تھا۔ خیر اس کے بعد مجھے تو پتا چل گیا کہ واقعی یہ بات صحیح ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد تسنیم الحق صاحب نے کہا کہ میں اپنے بھائی، جو تیسرے بھائی تھے تقویم الحق صاحب، ان کے ہاں جا رہا ہوں، وہ بھی یونیورسٹی ٹاؤن میں تھے اور میں بھی یونیورسٹی جا رہا تھا، میں نے کہا ٹھیک ہے حضرت پھر اکٹھے چلتے ہیں، تو ان کو لے کے میں ویگن میں بیٹھ گیا، جیسے بیٹھ گئے سیٹ پر تو میں نے دیکھا کہ حضرت کی آنکھوں میں بڑے موٹے موٹے آنسو تھے، فرمایا کہ میں نے ابھی مزہ نہیں لیا آپ کے خواب کا، اب دوبارہ سناؤ، اثر تو بہت ہوا تھا لیکن چھپایا ہوا تھا، تو میں نے سارا خواب دوبارہ سنایا۔ پھر فرمایا: "میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، ہاں اگر انہوں نے مجھے نوکر رکھ لیا ہے تو آپ آیا کریں جتنا مجھ سے ہو سکے گا میں کروں گا"۔ یہ بات فرما دی، اس کے بعد میرا دستور یہ ہوگیا کہ میں سخا کوٹ، جو ان کی جگہ تھی، ان کے ہاں بہت frequently جانے لگا اور حضرت کے پاس میں جب پہنچ جاتا تو حضرت بس تمام چیزیں چھوڑ کر میرے ساتھ ہوتے تھے۔ اور ان کے گھر والے بھی اعلان کرتے کہ تایا جان اب کسی اور کام کے لئے نہیں، اب شبیر آگیا اب ان کے ساتھ ہوں گے۔ اپنے سفر وغیرہ بھی میرے لئے postpone رکھتے تھے کیونکہ مفلوج تھے، تو سفر میں بھی میں خدمت کے لئے جاتا تھا ساتھ۔ تو یہ گویا کہ پہلے حصے کی تکمیل ہوگئی۔ دوسرے حصے کی تکمیل ایسے ہوئی کہ ایک دن مجھ سے پوچھا تسنیم الحق صاحب نے کہ کیا تم نے مولانا اشرف صاحب سے بیعت کی ہے؟ اس وقت تک حالانکہ کافی وقت گزر گیا تھا، ہم تو فرسٹ ائر سے حضرت کو جانتے تھے اور یہ انجینئرنگ کا غالباً دوسرا سال تھا یعنی چار سال ہونے کو تھے، اور ہم حضرت کو مولانا صاحب کہتے تھے، کبھی تصور میں بھی نہیں تھا کہ حضرت پیر صاحب ہیں، کبھی بھی نہیں، تو ایسا ہوا کہ مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ کیا حضرت بیعت بھی کرتے ہیں؟ تو فرمایا: کمال ہے تو بڑا سادہ آدمی ہے، یہ یونیورسٹی میں جو ایسا دینی ماحول بنا ہے۔ یہ کس کی برکت ہے؟ یہ تو حضرت کی برکت ہے، یہ سارا نظام جو چل رہا ہے، بہت بڑے بزرگ ہیں۔ تو میں نے کہا ٹھیک ہے پھر تو میں کر لوں گا بیعت، پھر لڑکپن کی بات تھی بھول گیا، پھر اللہ تعالیٰ نے مزید رہنمائی فرمائی، مزید کچھ خواب وغیرہ آئے، تو میں نے حضرت سے پھر بیعت کرلی، اس طرح وہ دوسرا حصہ بھی مکمل ہوگیا جو حضرت کا تھا۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ حضرت کی برکت سے گویا کہ حضرت کے مواعظ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے یہ راستہ کھول دیا۔ اور اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ میں تو حضرت کی گود میں پلا بڑھا ہوں حضرت مولانا اشرف تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی، کہ ہم نے تصوف کی ’’ا، ب، ت‘‘ جو ہے حضرت سے سیکھی، اس وجہ سے الحمد للہ اس کی برکت ہے کہ الحمد للہ کبھی Confusion والی بات ہمارے پاس نہیں آئی، مطلب جو بھی چیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ الحمد للہ سامنے کھول دیتے ہیں، تو یہ فرمایا کہ یہ قطب ارشاد جو ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مقصد کے لئے رکھا ہوتا ہے، ان کے ذریعے سے لوگوں کو دین کا علم حاصل ہوتا ہے، مفاہیم ثابت ہوتے ہیں۔

وہ بشارت جو اس کو عالم غیب سے پہنچتی ہے اس مقام کے کمالات حاصل ہونے کی بشارت ہے نہ کہ اس مقام کے منصب کی بشارت جس کا تعلق علم سے ہے۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ اس ایمان سے کیا مراد ہے جو اس حدیث میں ہے: "لَوِ اتُّزِنَ إِیْمَانُ أَبِيْ بَکْرٍ مَعَ إِیْمَانِ أُمَّتِیْ لَرَجَحَ"1 ترجمہ: ”اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان میری ساری امت کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو یقینًا وہ غالب رہے گا“۔ اس سے کیا مراد ہے اور اس کی ترجیح کا کیا سبب ہے؟

جاننا چاہیے کہ ایمان کی ترجیح مُؤْمَنْ بِہٖ (جس پر ایمان لایا جاتا ہے) کے رحجان کے باعث ہے۔ چونکہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا متعلَّقِ ایمان (جن کا ایمان سے تعلق ہے) تمام امت کے متعلقاتِ ایمان سے فوق و بر تر ہے اس لئے یقینًا راجح و غالب ہو گا۔

میرے مخدوم! عروجات و ترقیات میں (عارف و طالب کا ) معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر ایک نقطہ زیادہ اوپر ہو جائے تو اس نقطۂ عروج کے سبب جو کمال حاصل ہوا ہے وہ تمام سابقہ کمالات سے زیادہ ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ نقطہ جو کچھ اس کے ما تحت ہے، ان سب سے بالا تر ہے۔ یہی حال اس نقطے کا ہے جو پہلے نقطے پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ نقطۂ ما تقدم مع اپنے ما تحت کے نقطۂ فوق کے مقابلے میں حقیر و نقیر (کھجور کی گٹھلی کا گڑھا) ہے۔ اسی پر قیاس کر لیجئے۔ پس جس کے ایمان کا تعلق کمال بلندی پر ہو وہ بے شک ہر اس سے جو اس کے ما تحت (کم تر) وہ راجح و غالب ہو گا۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ عارف (باللہ) کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ طرفۃ العین (پَلک جھپکتے ہی) سابقہ تمام کمالات پر فوقیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس فقیر کی تحقیق کے اندازے کے مطابق ایک لمحے میں تمام کمالاتِ ما تقدم سے بھی زیادہ پیش قدمی کر لیتا ہے: ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾2 ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔

یا اللہ! اصل میں اس کو سمجھانا تو بڑا مشکل ہے، اصل میں جو معرفت ہے، معرفت کا تعلق ہے اللہ کے ساتھ، یعنی اللہ جل شانہٗ کی معرفت اور علوم کا تعلق ہے مخلوق کے ساتھ۔ اب یہ ہے کہ جس کا تعلق اللہ کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کے لئے مخلوق کی چیز تو کچھ بھی نہیں ہے، تو اس وجہ سے جتنا تعلق بڑھتا ہے اتنا اتنا گویا کہ ہماری انجینئرنگ کی زبان میں یا mathematics کی زبان میں exponential rise جس کو ہم کہتے ہیں۔ تو یہ بہت جلدی جلدی مطلب بڑھتا ہے یعنی ایک Step بڑھنے سے کافی چینج آتا ہے تو اس طریقے سے یہ جو عارف ہوتا ہے وہ جتنا جتنا معرفت میں ترقی کرتا ہے اتنا اتنا اس کے اعمال کے اندر بہت زیادہ ترقی آتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے۔ اب اس کو کون سمجھائے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہے تو یہ چھ فٹ کا انسان، سارے ایک ہی جیسے چھ فٹ کے لگ بھگ لوگ ہیں، دو آنکھیں ہیں، دو کان ہیں، دماغ ہے، دل ہے، سارا کچھ ایک جیسا نظر آتا ہے، لیکن ایک اس میں پتا نہیں کہاں کس مقام پر ہے اور دوسرا پتا نہیں کس مقام پر ہے، اچھا کمال کی بات ہے کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہونگے لیکن ایک کی نماز کہاں ہوگی دوسرے کی نماز کہاں ہوگی، ایک کا جو ہے ناں روزہ کہاں ہوگا اور دوسرے کا روزہ کہاں ہوگا، تو یہ جو معرفت ہے اس کے حساب سے ہے۔ تو چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یعنی امت میں سب سے زیادہ معرفت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی، لہٰذا اس وجہ سے سب سے اونچا مقام بھی انہی کا تھا اور عقائد میں بھی، عبادات میں بھی، معاملات میں بھی، یعنی ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غلاموں کو ڈانٹ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا، تو فرمایا کمال ہے صدیق اور ایسا! بس اتنی بات فرمائی اور آگے بڑھ گئے۔ صدیق اور ایسا! تو وہ جو ہے ناں پتا چل گیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو انہوں نے فوراً غلام آزاد کرلیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ میں نے رجوع کرلیا۔ تو یہ جو بات ہے اب دیکھو یعنی صرف ایک غلام (تھا) چونکہ بہت زیادہ فاقہ تھا تو ان سے کہا کچھ کھانے کو ہے؟ تو اس نے کچھ پیسوں سے کوئی چیز لے لی اور انہوں نے کھا لی، جیسے ہی کھا لی تو فوراً احساس ہوگیا کہ میں نے کیوں کھا لیا، پوچھا کہ تو نے کہاں سے پیسے لئے تھے؟ انہوں نے کہا وہ جاہلیت کے زمانے میں کچھ جنتر منتر کیا تھا اس کے پیسے تھے، حضرت کا چہرہ فوراً بدل گیا اور جو ہے ناں منہ میں جس کو کہتے ہیں انگلی ڈال کر زور زور سے قے کرتے تھے، قے کیسے ہوتی، اتنے فاقے کے بعد کوئی پیٹ میں گئی تھی تو وہ کیسے باہر نکل آتی، لیکن جب تک وہ باہر نہیں نکلی اس وقت تک قے کرتے رہے، لوگوں نے سمجھایا بھی کہ آپ کو پتا نہیں تھا۔ اب یہ جو ہے یہ والی بات ظاہر ہے جس مقام پر حضرت تھے ان کی بات اور تھی، جس طریقے سے حضرت نے بعض چیزیں settle کی ہیں وہ چیزیں کوئی اور سوچ بھی نہیں سکتا تھا، جس درجے کا ایمان تھا حضرت کا وہ ایک الگ بات تھی، اسی وجہ سے میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو اللہ پاک نے صحابہ کی زندگی میں بالکل ظاہر کردیا، وہ جو واقعہ ہوا تھا جس میں صحابہ کے لشکر کا جو واقعہ ہوا تھا زکوة کا، تو ایسی صورت میں پہلے صحابہ سارے سمجھا رہے تھے کہ اس وقت نازک وقت ہے اور آپ تھوڑا سا نرم ہاتھ رکھیں اور یہ اور وہ سارا۔ لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسی باتیں فرمائیں کہ جس پر سب کو چپ کرنا پڑا، یہاں تک فرمایا کہ اگر مدینہ منورہ کی گلیوں میں امہات المومنین کو کتے گھسیٹیں گے تب بھی یہ لشکر جائے گا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا فیصلہ فرمایا تھا میں اس کو تبدیل نہیں کر سکتا، اور جو اونٹ کی مطلب مہار تھی وہ اگر کوئی پہلے زکوة میں دیتا تھا اب اگر نہیں دے گا تو میں ان کے ساتھ قتال کروں گا۔ یہ ایمان ہے۔ تو بعد میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت اجر دے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو، ان کے ذریعے سے ہمارا ایمان بچ گیا۔ تو اب دیکھیے تمام لوگ جو قیامت تک آئیں گے ان کا ایمان صحابہ کے ایمان کے برابر ہو سکتا ہے؟ سارے صحابہ کا معاملہ اس وقت ظاہر ہوگیا ناں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے سب کی حفاظت ہوگئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ثابت ہوگئی ناں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات تو صحابہ کے دور میں ہی بالکل ثابت ہوگئی۔ تو یہ بات تھی۔

اور نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ شیخ ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے متبعین نے لکھا ہے کہ جس قدر بچے حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی وجہ سے قتل کئے گئے ان تمام مقتولوں کی قابلیت اور استعدادیں حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام میں منتقل ہو گئیں۔ اس بات کی حقیقت مفصل طور پر تحریر فرمائیں۔

جاننا چاہیے کہ یہ بات صحیح ہے کیونکہ تحقیق سے ثابت ہے کہ جس طرح ایک شخص کو پوری جماعت کے کمالات حاصل ہونے کا سبب بناتے ہیں اسی طرح پوری جماعت کو بھی ایک شخص کے کمالات حاصل ہونے کا سب بنا دیتے ہیں۔

یعنی ایک شخص بہت بڑا عالم ہے تو وہ پوری جماعت کو عالم بنا دیتا ہے یا کوئی اور کمال ہے اس کے اندر اور وہ کمال ساری جماعت میں منتقل کردیتا ہے، یہ تو سب مانتے ہیں، یہ تو سب مانتے ہیں۔ گویا کہ علم خرچ نہیں ہوتا بڑھتا ہے اس سے، وہ کمال کم نہیں ہوتا زیادہ ہوتا ہے۔ بالکل فرمایا کہ اسی طریقے سے پوری جماعت کی تمام چیزیں ایک شخص میں آ سکتی ہیں۔ تو فرمایا کہ:

اسی طرح پوری جماعت کو بھی ایک شخص کے کمالات حاصل ہونے کا سبب بنا دیتے ہیں۔ پیر اگرچہ مریدوں کے کمالات کے حصول کا ذریعہ ہے لیکن مریدین بھی پیر کے کمالات کے اسباب ہیں۔

یہ تو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ بیان فرمایا، حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس مجلس میں موجود تھے، تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جتنا مجھ سے آپ لوگوں نے سیکھا ہے اس سے زیادہ میں نے آپ لوگوں سے سیکھا ہے، تو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ حضرت ہم نے آپ سے سیکھا ہے ہم تو آپ کے شاگرد ہیں، لیکن آپ نے ہم سے کیا سیکھا؟ آپ نے شاگردوں سے کیا سیکھا؟ تو حضرت نے فرمایا کہ دیکھو تمہارے دل میں جو اشکالات آتے تھے اور جو سوالات آتے تھے تو آپ لوگوں کے لئے میرے دل میں اس کے جوابات آتے تھے اور سمجھانے کے ڈھنگ آتے تھے تو یہ آپ لوگوں کی برکت سے ہے، لہٰذا آپ لوگوں کے ذریعے سے میں نے یہ حاصل کر لیا، اور یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے، ایسا ہی ہوتا ہے، کسی کو لائق شاگرد مل جائے تو اس کا علم بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور جس کو کم درجے کا ملے تو اس کے حساب سے اس کا علم بڑھتا ہے، کیونکہ لائق شاگردوں کے اشکالات اور لائق شاگردوں کے سوالات اور لائق شاگردوں کے خیالات تو بہت اونچے ہوتے ہیں لہٰذا اس کے حساب سے ان کو اللہ تعالیٰ دیتے ہیں۔ تو یہاں پر بھی ایسی بات ہے، فرمایا یعنی پیر جیسے مریدوں کے ذریعے ہوتے ہیں اس طرح مرید بھی پیروں کے ذریعے ہوتے ہیں۔

اس حقیقت کو فقیر نے ماکولات و مشروبات (کھانے پینے کی چیزوں) میں جو اجزائے بدن ہوتی ہیں محسوس کیا ہے کہ ہر وہ لقمہ اور گھونٹ کہ (انسان) کھاتا پیتا ہے اس کی استعداد و قابلیت کی جامعیت کا سبب بنتا ہے اور اس کے علاوہ بھی قابلیت پیدا کرتا ہے، اور جب کبھی لذیذ کھانوں کے ترک کرنے کا قصد کرتا تھا تو روک دیا جاتا تھا، اور اس جامعیت اور قابلیت کے حاصل ہونے کی وجہ سے ان لذیذ کھانوں کو ترک کرنے کی اجازت نہ ملتی تھی، اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ ایک کی استعداد دوسرے میں پوری کی پوری یا تھوڑی منتقل کر دی گئی اور محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک خالی رہ گئی اور دوسری جمعیت سے پُر ہے۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ شیخ نجم الدین کبریٰ نے اپنے ایک مرید کو ایک بزرگ (شیخ مصلح الدین خجندی) کی خدمت میں بھیجا تاکہ ان کے توسل سے معلوم کریں وہ کس پیغمبر کے زیر قدم ہیں۔ ان بزرگ نے فرمایا کہ تیرا جہود کس کام میں ہے؟ شیخ نے اس عبارت سے سمجھ لیا کہ وہ حضرت موسیٰ صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ علی نبینا و علیہ کے زیرِ قدم ہیں۔ اس عبارت سے یہ مطلب کس طرح لیا گیا؟

جواب:

جاننا چاہیے کہ جہود، یہود کو کہتے ہیں جو حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی امت ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے فرمایا کہ پتا چل گیا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہوں کیوںکہ جو بزرگ ہوتے ہیں یہ اپنے کچھ ظاہر ہے پیغمبر کے قدم پر ہوتے ہیں یعنی کوئی نوح علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے، کوئی آدم علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے، کوئی ابراہیم علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے، کوئی موسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے، کوئی عیسیٰ علیہ السلام کے قدم پر اور کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر ہوتا ہے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر ہوتے ہیں ان کو محمدی مشرب کہتے ہیں، جن کا کافی ذکر حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے، تو یہ جو چیز ہے یہ گویا کہ نسبتیں ہیں، مشارب ہیں، جن کے ذریعے سے ان کو ملتا ہے، تو وہ اپنے بارے میں جاننا چاہتے تھے، ان کو معلوم تھا کہ ان کو اس کا کشف ہوتا ہے تو انہوں نے آدمی ان کے پیچھے بھیجا کہ کسی طریقے سے مجھے معلوم ہوجائے کہ میں کس نبی کے قدم پر ہوں تو انہوں نے پوچھا، بلکہ غالباً ایک اور جگہ پر اس طرح ہے کہ تیرا یہودی پیر کیسا ہے؟ تیرا یہودی پیر کیسا ہے؟ تو وہ حیران ہوگئے کہ میرے پیر کو یہودی کہہ دیا، وہ بہت غصے ہوگئے لیکن کہا تو کچھ نہیں کیونکہ بزرگ نے ان کے پاس بھیجا تھا، تو وہ جب ادھر (واپس) آگیا تو کہا کہ حضرت تو کہہ رہے ہیں کہ تیرا یہودی پیر کیسا ہے؟ تو حضرت بہت ہشاش بشاش اور خوش ہوگئے ما شاء اللہ ما شاء اللہ!، وہ کہنے لگے حضرت آپ کو یہودی کہا ہے، کہنے لگے یہودی نہیں کہا موسیٰ علیہ السلام کے قدم پر کہا ہے۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ ”نفحات“ میں لکھا ہے کہ تمام اولیاء کی ولایت مرنے کے بعد سلب ہو جاتی ہے سوائے چار آدمیوں کے؟ (بڑا مشکل سوال کیا ہے۔) جاننا چاہیے کہ یہاں ولایت سے مراد ظہورِ کرامات و تصرفات ہے نہ کہ اصل ولایت جس سے قربِ الٰہی جل سلطانہٗ مراد ہے، نیز سلب سے مراد کرامات کے ظہور کی کثرت کا سلب ہونا ہے نہ کہ اس ظہور کے اصل کا سلب۔ چونکہ یہ بات کشفی ہے اور کشف میں خطا کی بہت گنجائش ہے۔ (معلوم نہیں کہ) صاحبِ کشف نے کیا دیکھا اور کیا سمجھا۔

نیز آپ نے اولیاء کی بعض کرامات کے ظہور کے متعلق دریافت کیا تھا۔

جواب:

آپ منتظر رہیں: ﴿سَيَجۡعَلُ اللّٰهُ بَعۡدَ عُسۡرٍ يُّسۡرًا‏﴾3 ترجمہ: ”کوئی مشکل ہو تو اللہ اس کے بعد کوئی آسانی بھی پیدا کر دے گا“۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ نیشابوری میں لکھا ہے کہ:﴿اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ﴾4 ترجمہ: ”یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے“۔ (یعنی شَانِئَكَ) ’’یا‘‘ کے ساتھ تحقیق کیا ہے، وہ ہمزہ کے ساتھ ہے یا ’’یا‘‘ کے ساتھ؟

جواب:

وہ ہمزہ کے ساتھ ہے، اور جس نے یا کے ساتھ لکھا ہے اس کی قرأت غیر مشہور ہو گی۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ بعض عورتیں مشغولی (یعنی اخذِ طریقہ و توجہ) کی طلب گار ہیں۔

جواب:

اگر وہ محرم ہیں تو کوئی منع نہیں، ورنہ پردے میں بیٹھ کر طریقہ اخذ کریں۔۔

دیکھیں ناں حضرت نے پردے کا فرمایا کہ پردے میں بیٹھ کے۔ اصل میں آج کل چونکہ ان چیزوں کی پابندی نہیں کی جاتی تو اس وجہ سے پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ اہلِ حدیث نے ہر ماہ میں منحوس ایام قرار دیئے ہیں اور اس بارے میں وہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں۔ (اس سلسلے میں) کیا کرنا چاہیے؟

فقیر کے والد قدس سرہٗ فرماتے تھے شیخ عبد اللہ (بصری) و شیخ رحمت اللہ (سندھی) جو اکابر محدثین میں سے تھے اور حرمین میں وہ شیخین کے لقب سے مشہور تھے، کسی تقریب کے سلسلے میں ہندوستان تشریف لائے تھے، فرماتے تھے کہ اس حدیث کو کرمانی شارحِ بخاری نے نقل کیا ہے لیکن ضعیف ہے۔ اس باب میں صحیح حدیث یہ ہے: "اَلْأَیَّامُ أَیَّامُ اللّٰہِ وَالعِبَادُ عِبَادُ اللّٰہِ" (لم أجد) ترجمہ: ”سب دن اللہ تعالیٰ کے دن ہیں اور سب بندے اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں“ اور وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ دنوں کی نحوست، رحمتِ عالمیان علیہ و علیٰ الصلوات و التسلیمات کی ولادت سے ختم ہو گئی۔ "أَیَّامٍ نَحِسَاتٍ" یعنی منحوس دن گزشتہ امتوں کی نسبت سے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو بہت سی چیزیں تبدیل ہوگئیں تھیں ناں، تو فرمایا یہ چیز بھی تبدیل ہوگئی تھی۔

فقیر کا عمل بھی اسی پر ہے اور کسی دن کو بھی دوسرے دن پر ترجیح نہیں دیتا، جب تک کہ شارع علیہ السلام سے اس کی ترجیح معلوم نہ کر لے جیسا کہ جمعہ، رمضان و غیرہما۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ وہ معارف جو بارِ نبوت کے اُٹھانے سے تعلق رکھتے ہیں مجھ کو خواجہ محمد اشرف کے مکتوب میں نہیں ملے؟

جواب:

آپ کو ابھی کہاں ملیں گے، کیونکہ وہ مکتوب نمبر (251) انہی ایام میں تحریر ہوا ہے اور اس کی نقل ابھی آپ کو نہیں پہنچی، مکتوب بہت طویل ہے، شاید ایک جز سے بھی زائد ہو۔ فقیر نے اس کی نقل آپ کی طرف بھیجنے کے لئے کہہ دیا ہے۔

والسلام

اس وقت میں کتابت بھی بڑی مشکل ہوتی تھی، کتابیں چھپنا اور پھر یہ ساری چیزیں بہت دور کی باتیں تھیں، لہٰذا قلمی نسخے ہوتے تھے اور ہاتھ سے نقل بھیجی جاتی تھی تو لہٰذا یہ ساری چیزیں آسان نہیں تھیں۔ آج کل ہمیں جو آسانی ملی ہے اس کا تو اُس وقت تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، آج تو ہم کیمرہ سے Scan لے لیتے ہیں اور واٹس ایپ کے ذریعے سے بھیج دیتے ہیں، ہم ادھر بیٹھے ہیں ہماری آواز لندن والے بھی سن رہے ہیں، امریکہ والے بھی سن رہے ہیں، سعودی عرب والے بھی سن رہے ہیں، مختلف جگہوں پر اور ابھی ممکن ہے ان کی طرف سے کوئی سوال بھی آجائے اُدھر سے اور اِدھر جواب بھی چلا جائے۔ یہ ساری آسانیاں آج کل کی ہیں لیکن اُن دنوں اوقات میں بھی برکت تھی، اخلاص تھا، لہٰذا تھوڑے وسائل کے ساتھ بہت کچھ ہوتا تھا، اب تھوڑا سا غور کرلیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی اس دور میں ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں۔ اب آج کل کے دور میں تمام سہولتوں کے ساتھ کوئی کر لے ناں، تین چار سو سے تو زیادہ مواعظ حضرت کے Printed ہیں اور مواعظ کیا دو دو، ڈھائی ڈھائی گھنٹے، تین تین گھنٹے کے مواعظ ہیں یعنی ایک وقت میں اتنا اتنا لمبا وہ جو ہے ناں وعظ ہوتا تھا۔ اچھا اس وقت ان کے لکھنے کا یہ ریکارڈنگ سسٹم تو نہیں تھا جیسے ہمارے پاس ہے، وہ سارے نظام جو ہے ناں مطلب بن گئے تھے اس کے حساب سے اور پھر اس کی صفائی کرنا پھر حضرت اپنی آنکھوں کے سامنے سے گزارتے تھے، دیکھتے تھے کہ کوئی زائد بات تو نہیں لکھی گئی تو حضرت اس کو دیکھتے تھے، پھر اس کے بعد اس پر شرح صدر ہوتا تو اس کو شائع کردیا جاتا تھا۔ یہ تو ان دنوں کی مشکلات کو دیکھیں اور پھر ان دنوں کے اوقات کی برکت کو دیکھیں تو آدمی حیران ہوجاتا ہے، آج کل تو ہم لوگ بہت سہولتوں کے ساتھ ہیں لیکن ہم نے اپنے اوقات Skype کو دے رکھے ہیں، واٹس ایپ کو دئیے ہیں اور پتا نہیں کن کن چیزوں کو دئیے ہیں، سارے اوقات اس کے نذر ہو رہے ہیں، کام کے لئے اوقات ہمارے پاس بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں فائدے کے لئے استعمال ہوجائیں تو اچھی بات ہے ورنہ اس کے ساتھ جو مشغولی ہے، اس کے ساتھ جو دل کا لگنا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ دل کے ساتھ تو نہیں لگانا چاہیے۔ صرف بس جیسے ضرورت کے درجے میں آپ کسی چیز کو لیتے ہیں بس اتنا ہی اس کو استعمال کرنا چاہیے ورنہ پھر یہ بات ہے کہ اپنے آپ کو اس سے فارغ رکھنا چاہیے، دل کو تو اللہ کے لئے فارغ رکھنا چاہیے، دل کو تو اللہ کے لئے فارغ رکھنا چاہیے، دماغ کو کام کے لئے فارغ رکھنا چاہیے، جو کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اس کے لئے فارغ رکھنا چاہیے۔ مشقت اللہ کی رضا کے لئے ہو اور طلب بھی اجر کی ہو اللہ تعالی سے: ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ﴾5 بیشک میرا اجر تو اللہ تعالیٰ پر ہے، یہ اصل میں بنیاد ہے، اس قسم کے حالات میں پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں بھی آتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت بھی آتی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد بھی آتی ہے، ورنہ پھر یہ ہوتا ہے کہ اوقات گزرتے جاتے ہیں، فائدہ نہیں ہوتا، ضائع ہوجاتے ہیں اوقات۔ بہت عرصے کے بعد پتا چلتا ہے کہ میں نے کتنا وقت ضائع کیا۔ اور آدمی مطلب یہ ہے کہ پشیمان ہی ہوتا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا اور وہ پشیمانی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے، اگر پشیمانی نہ ہو، اس پر فخر ہو تو پھر تو اور مصیبت ہے اور مسئلہ ہوجائے گا۔ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو اپنے طریقہ کار کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے اوقات کن چیزوں میں لگتے ہیں۔ اگر ہمارے اوقات مفید چیزوں میں لگ رہے ہیں تو سبحان اللہ! اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر مفید چیزوں میں نہیں لگ رہے تو ہمت ایسی نعمت ہے کہ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمت کے ساتھ رکنا چاہیے، ہمت کے ساتھ کرنا بھی چاہیے، ہمت کے ساتھ رکنا بھی چاہیے۔ اور جن چیزوں کو کرنے میں فائدہ ہے ہمارے لئے آخرت میں اللہ کی رضا کے لئے ان کے لیے ہم ہمت کریں، اور جن چیزوں میں فائدہ نہیں ہے نقصان ہے تو اس سے رکنے کی ہمت کرنی چاہیے۔ یہی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ




  1. ۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الدرر المنتثره میں اور ابن عدی نے کامل میں بروایت حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما مرفوعًا روایت کیا ہے۔

  2. ۔ (الجمعہ: 4)

  3. ۔ (الطلاق: 7)

  4. ۔ (الکوثر: 3)

  5. ۔ (الشعراء: 145)

غوث و قطب، ایمانِ صدیق رضی اللہ عنہ اور وقت کی قدر - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ - دوسرا دور