دین کی بنیادیں: علم، عمل اور تزکیۂ نفس

اتوار،13 اگست، 2023 کا خواتین کیلیے اصلاحی بیان جو ری براڈکاسٹ کیا گیا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى خَاتَمِ النَّبِيِّينَ. أَمَّا بَعْدُ، فَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ. بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ.

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ. وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى:

الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى:

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ﴿١٠﴾وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ. وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ. صَدَقَ اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ، وَصَدَقَ رَسُولُهُ النَّبِيُّ الْكَرِيمُ.


معزز خواتین و حضرات!

اصل میں آج میں بالکل basic باتیں کروں گا، بنیادی باتیں، تفصیلات میں نہیں جاؤں گا ان شاء اللہ۔ لیکن وہ باتیں جو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہیں۔ وہی باتیں میں کروں گا۔ کیونکہ نئی جگہ ہے۔ تو سب کے سمجھ میں بات آنی چاہیے۔

ایک بات تو بالکل طے ہے کہ الحمدللہ چونکہ ہم مسلمان ہیں، اور مسلمان کا ایمان ہوتا ہے کہ جو بات قرآن سے ثابت ہو، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہو، وہی اصل ہے۔ باقی ساری باتیں اس کے اوپر منحصر ہوتی ہیں۔ جو بات قرآن و سنت سے خارج ہے وہ اگر اس کا دنیا کے ساتھ تعلق ہے تو ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اس کا آخرت کے ساتھ تعلق ہے تو اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

یہ دنیا کی بات میں نے کیوں کرلی، یہ بھی صاف کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ بات ہے کہ جیسے کہ ڈاکٹری کا لائن ہے، انجینئرنگ کا لائن ہے، زراعت کا لائن ہے، کچھ اور دنیاوی سلسلے ہوتے ہیں۔ اس میں تجربے سے بات چلتی ہے۔ لوگ تجربات کرتے ہیں، نتیجے نکالتے ہیں اور اس کے مطابق آگے چلتے ہیں، تحقیقات ہوتی ہے، ریسرچ ہوتے ہیں۔ تو اس کا تعلق ریسرچ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس میں انسان کا جو ذہن ہے وہ چلتا ہے۔ کافر بھی ریسرچ کرے گا تو اس کو اس میں فائدہ ملے گا، مسلمان بھی ریسرچ کرے گا تو اس کو اس میں فائدہ ملے گا۔ ایسی چیزوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأُمُورِ دُنْيَاكُمْ۔

تم اپنے دنیا کے امور کو اچھی طرح جانتے ہو۔

یعنی اس میں آزاد چھوڑا گیا ہے۔ اس کا تعلق آخرت کے ساتھ نہیں ہے، اس کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے۔ یہ تجرباتی چیزیں ہیں۔

لیکن جو دین کی چیز ہے وہ ایمان بالغیب سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسے میں نے ابھی قرآن پاک کی آیت مبارکہ تلاوت کی:

الٓمٓ ﴿١﴾ ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ۔

الم کا معنی ہی ہمیں نہیں معلوم۔ یہ صرف اللہ کو پتہ ہے، اللہ کے رسول کو پتہ ہے۔ اور ہمارا اس پر ایمان ہے کہ یہ ایسا ہی ہے، بس۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ تو قرآن کے جو پہلے لفظ ہی ہے وہ ایسا ہے کہ جس کو ہم صرف مانتے ہیں کہ ایسا ہی ہے لیکن اس کا معنیٰ ہم نہیں جانتے۔ اور اس کے پڑھنے پر ثواب ملے گا۔ اور ثواب بھی پورا ملے گا، ا ل م، تین حروف ہیں۔

اس سے یہ پتہ چلا کہ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں نا کہ قرآن پاک کے معنیٰ اگر کسی کو معلوم نہیں ہے تو وہ پھر کیا حاصل کرتے ہیں؟ جو پڑھتے ہیں قرآن پاک، ایسے بعض باتیں لوگ کرتے ہیں۔ تو تلاوت کا ثواب تو ان کو ملتا ہے، اور تلاوت کے ثواب کے لیے جاننا ضروری نہیں ہے۔ ہاں، جاننے کا اپنا فائدہ ہے اور اپنے برکات ہیں اور اس کا اپنا ثواب ہے۔ اس کے لیے فرمایا:

هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ۔

کیا عالم اور غیر عالم برابر ہو سکتے ہیں؟

مطلب اس کا معاملہ علم کے ساتھ ہے۔ تو علم قرآن پاک کا جس کو معنیٰ کا علم ہوگا تو اس کو وہ علم حاصل ہو جائے گا۔ تو اس کا، اس کے برابر وہ آدمی تو نہیں ہوسکتا نا جس کو یہ معنی معلوم نہیں ہے۔ لیکن تلاوت کے لیے معنیٰ کا جاننا ضروری نہیں ہے۔

اس سلسلے میں بات یہ ہے کہ قرآن جو ہے، قرآن پاک، اس کی دو شانیں ہیں۔ ایک یہ کہ محبوب کا کلام ہے، یعنی اللہ پاک محبوبِ حقیقی ہے، اس کا کلام ہے۔ اور دوسرے ہے احکم الحاکمین کا کلام ہے۔ تو محبوب کے کلام ہونے کے لحاظ سے معنیٰ جانتے ہو نہ جانتے ہو، پھر بھی اس کو پڑھنا محبت کے ساتھ، ظاہر ہے اس کو اللہ کا تعلق حاصل ہو گا اس کے ذریعے سے۔ ثواب بھی حاصل ہوگا۔ لیکن احکم الحاکمین کے کلام ہونے کے لحاظ سے اس کا معنیٰ جاننا کہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ آخر اللہ پاک نے ہمیں کیوں پیدا کیا ہے اور کیا مطلب ہے؟ اور اللہ پاک کس چیز پر خوش ہوگا؟ یہ قرآن سے ہمیں پتہ چلے گا تو اس لحاظ سے احکم الحاکمین کا کلام ہونے کے لحاظ سے اس کے معنیٰ جاننا ضروری ہیں۔ تو یہ بات آگئی علم کی۔

تو علم جو ہے حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، جو لازم علم ہے۔

طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔

علم کا حاصل کرنا ہر مرد اور عورت مسلمان جو ہے، اس کے اوپر فرض ہے۔

یہ وہ علم ہے جس کی ضرورت سب مسلمانوں کو پڑتی ہے۔ ہاں، تفصیلات جو ہے وہ پھر وہ، اصل وہ ان علماء کو جنہوں نے قرآن و سنت کا پورا علم حاصل کیا ہوتا ہے، آٹھ سال جیسے وہ لوگ پڑھتے ہیں مدارس میں، تو وہ ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں تک فرضِ عین علم کا تعلق ہے، جیسے نماز کا علم ہے، روزے کا علم ہے، زکوٰۃ کا علم ہے، حج کا علم ہے، جو سب مسلمانوں کے لئے ضروری ہے وہ ہر ایک کو حاصل کرنا پڑے گا، کیونکہ وہ اعمال کرنے تو ہیں تو اگر اس کو پتہ نہیں ہوگا کہ کیسے کرنے ہیں تو کیسے کرے گا؟ تو اس وجہ سے وہ علم جو ہے، وہ جو فرض عین علم ہے، وہ سارے مسلمانوں کے اوپر فرض ہے۔

آج کل یہ ہمارا المیہ ہے کہ جو آٹھ سال کے علم ہے، یعنی مدرسوں والا، اس کے لیے تو لوگ اپنا وقت نکال لیتے ہیں۔ یعنی اس کے لیے آپ کو لوگ مل جائیں گے۔ لیکن دو مہینے کے علم حاصل کرنا جو سب مسلمانوں پہ فرض ہے، اس کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ یہ موٹی موٹی سی باتیں ہوتی ہیں، وہ معلوم نہیں ہوتی۔ مثلاً کسی سے پوچھو کہ نماز میں کتنے فرائض ہیں؟ کتنے لوگ جواب دے دیں گے؟ وضو میں کتنے؟ اچھا، مطلب یہ ہے کہ روزے میں کون کون سے احکامات ہیں؟ کس چیز سے روزہ ٹوٹتا ہے، کس چیز سے نہیں؟ بہت سارے لوگ ہیں جو اس کا جواب نہیں دے سکتے حالانکہ یہ سب کے اوپر فرض ہے۔ حج میں ہم لوگ چلے جاتے ہیں، صحیح بات عرض کرتا ہوں بہت سارے لوگ بلکہ 90-80 فیصد کو حج کے مسائل کا علم نہیں ہوتا۔ تُک بندی کرتے ہیں، دیکھا دیکھی کرتے ہیں اور اپنے اوپر دم چڑھوا کے آجاتے ہیں، چونکہ سیکھتے نہیں ہیں۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ جو فرضِ عین علم ہے، سب کے اوپر فرض ہے، اس کی طرف توجہ نہیں ہے اور شیطان سب سے زیادہ کوشش کرتا ہے کہ اس سے لوگ غافل ہوں۔ اس وجہ سے اس کے بارے میں آپ بہت آسانی سے بھی سمجھانا شروع کر لیں لوگ نہیں آئیں گے۔ اس کے لیے کوئی اپنا وقت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ سب کے اوپر فرض ہے اور نہ کوئی پیسہ لیتا ہے اس سے۔ پہلے وقتوں میں گاؤں وغیرہ میں بھی ایسا ہوتا تھا کہ مسجد کا جو امام ہوتا تھا وہ کسی نماز کے بعد، چاہے عصر نماز ہے یا ظہر نماز ہے، آپس میں طے کر لیتے۔ تو وہ 15-20 منٹ کے لیے وہ بنیادی مسئلے سناتے تھے، پڑھتے تھے۔ اور ہمیں معلوم ہے یہ خلاصہ کیدانی اور منیت المصلی اور کنزالدقائق، یہ کتابیں مساجد میں پڑھائی جاتی تھیں۔ اب کہاں ہیں؟ اب قرآن پاک کا درس تو ہوتا ہے، حدیث شریف کا درس ہوتا ہے لیکن فقہ نہیں پڑھاتے۔ وہ جو فرضِ عین علم ہے وہ نہیں پڑھاتے۔ اب مجھے بتاؤ قرآن کا اگر سارا ترجمہ بھی آپ کو آتا ہو تو کیا اس سے مسئلے نکال سکتے ہیں آپ؟ آپ اس سے مسئلے نہیں نکال سکتے تو آپ کو اپنے فرضِ عین علم کا تو پتہ نہیں لگا۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں بتدریج ہیں۔ یہ چیزیں حاصل کر لو پھر اس کے بعد وہ حاصل کر لو۔ اب آپ کو بنیادی چیزیں تو معلوم نہیں ہیں اور آپ ظاہر ہے مطلب یہ ہے، ایک آدمی نے پرائمری نہیں پڑھا ہوا، مڈل نہیں پڑھا ہوا، پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے تو کر لے گا وہ؟ وہ ظاہر ہے پی ایچ ڈی کی کتابیں پڑھے گا تو اس کا مطلب ہے نہیں پڑھ رہا۔ مطلب ایسی بات ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ بنیادی چیزیں سب سے پہلے حاصل کرنی چاہیے۔ ہم نے الحمدللہ خواتین کے لئے سلسلہ شروع کیا تھا۔ کیونکہ مرد تو سنتے نہیں ہیں، صحیح بات عرض کرتا ہوں۔ خواتین کے لئے سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا یہ اپنے خانقاہ کے لیے۔ تو تقریباً تین کورس ہوئے تھے، دو دو مہینے کے۔ اور تین تین درس ہوا کرتے تھے روزانہ۔ اور ماشاء اللہ بہت آسانی کے ساتھ خواتین نے وہ کر لیا اور بہت فائدہ ہوا ان کے بقول ان کو۔ وہ بہت فائدہ ہوا۔ یہاں پر بھی arrange ہو سکتا ہے، یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر مطلب ہے کہ یہاں کوئی خاتون تیار ہو جائے ان کو ہم کورس ہم دے دیں گے، وہ پڑھانا شروع کر لیں۔ تو محلے کی جو خواتین ہیں وہ ماشاءاللہ اب یہاں جگہ ہے، آنا شروع کر لیں اور پڑھنا شروع کر لیں ان شاءاللہ ہو جائے گا۔ تو الحمدللہ بڑی کامیابی کے ساتھ، پھر جس وقت وہ کر لیا تو وہ تو محلے کے جو قریب قریب خواتین تھیں وہی آسکتی تھی، دور کی تو نہیں آسکتی تھی، تو انہوں نے تو کر لیا۔ تو پھر ہم نے پھر واٹس ایپ کورس شروع کرا لیے، واٹس ایپ۔ واٹس ایپ کے اوپر لیکچرز ہم بھیجتے تھے اور پھر اسی سے امتحان بھی ہو جاتا تھا اور وہ سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے الحمدللہ۔ اس میں ماشاءاللہ بڑی کامیابی کے ساتھ یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ تو یہ چیزیں خواتین کے اندر تو ہمیں ماشاءاللہ معلوم ہوگا کہ اس پہ کتنا وقت لگتا ہے اور کس طریقے سے effort ہوتا ہے۔ مردوں کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ مسجد میں امام مسجد اگر اس کے لیے تیار ہو جائیں تو وہ کسی بھی نماز کے بعد جیسے فرض نماز ظہر کا ہے یا عصر کا ہے، جو بھی لوگوں کے لئے آسان ہو یا مغرب کے بعد ہے۔ تو اس میں وہ 10-15 منٹ سب بیٹھنے کے لئے تیار ہو جائیں اور وہ بنیادی مسئلے جو ہے نا ان کو شروع کر لیں۔ بس ہمارا کام ہو جائے گا۔ تو الحمدللہ اس کے ساتھ، ٹھیک ہے خواتین کو دو مہینے میں لگ جاتے ہیں کیونکہ وہ تین تین گھنٹے روزانہ لیتیں۔ مرد کو ذرا زیادہ ٹائم لگے گا لیکن کم از کم طالب علمی کا دور تو شروع ہو جائے گا نا۔ مطلب کم از کم یہ بات تو نہیں ہوگی نا کہ غافل ہیں۔ حاضر تو ہیں نا کم از کم۔ حاضری تو لگ رہی ہوگی۔ تو اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ ان شاء اللہ ان کو علم بھی حاصل ہو جائے گا۔ تو ایک تو یہ بات ہے کہ مردوں کے لیے طریقہ الگ ہے، عورتوں کے لئے طریقہ الگ ہے۔ لیکن بہرحال یہ علم کی بات ہے۔

اب اس کے بعد آجاتی ہے عمل کی بات۔ جو بھی علم انسان حاصل کرتا ہے اگر وہ کسی ایسے عمل کے بارے میں ہے جو انسان کے اوپر فرض ہے تو اس کا کرنا فرض ہوتا ہے۔ اگر وہ واجب ہے تو اس کا کرنا واجب ہوتا ہے۔ اگر وہ سنت ہے تو اس کے اوپر عمل سنت ہوتا ہے اور اگر مستحب ہے تو اس کے اوپر عمل مستحب ہوتا ہے۔ یعنی ہر چیز کا اپنا اپنا درجہ ہے۔

تو یہ جو میں عرض کرتا ہوں کہ سب سے پہلے جس چیز کی بارے میں جاننا ضروری ہے، فرضِ عین درجے کے علم میں، وہ ہے عقائد۔ ہمارے عقائد کیسے ہونے چاہییں؟ اچھا ایک بات میں عرض کرتا ہوں یہ چونکہ مختلف لوگ ہوں گے تو مختلف طبقوں سے آئے ہوں گے نا، ظاہر ہے ہر قسم کے افراد آئے ہوں گے۔ تو دیکھیں ہم ذرا آج کے دن کم از کم اپنے اپنے دائرے سے نکل کر حقیقت کی طرف آ جائیں اور وہ کیا ہے؟ بھئی سب کا دعویٰ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پہ چلتے ہیں۔ اور سب کا دعویٰ ہے کہ ہم صحابہ کے طریقے پہ چلتے ہیں، یہی بات ہے نا کیونکہ اہلِ سنت والجماعت کس کو کہتے ہیں؟

مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي۔

جس پر میں چلتا ہوں، جس پر میرے صحابہ چل رہے ہیں۔

یہی بات ہے نا، اس کے علاوہ اور تو کچھ نہیں ہے۔ تو جب یہ بات ہے تو تحقیق کر لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کیسے گزاری اور صحابہ کرام نے اس پر کیسے عمل کر لیا؟ یہی اس کے بعد اور تو کچھ بھی نہیں ہے۔ تو اس کے لیے ماشاءاللہ بہت اچھی اچھی کتابیں موجود ہیں۔ بہت اچھی اچھی کتابیں موجود ہیں۔ مثلاً میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک پر بہت ساری کتابیں موجود ہیں۔ لیکن بعض کتابیں ایسی ہیں جو عمل کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں۔ یعنی اس کو پڑھ کر آپ بس عمل کریں، سیدھا سیدھا۔ ایک ہوتا ہے ذرا روانی کی ساتھ جو لکھی گئی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کیسے گزاری؟ بس ایک رواں انداز میں، اس سے تو مسئلے نکالنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ایک ہوتا ہے لکھی اس لیے گئی ہوتی ہے کہ آپ کو، جیسے مثال کھانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے کھاتے تھے؟ اس کی سنتیں لکھی ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے کیسے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کیسے جاتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیسے داخل ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے کیسے پہنتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے کیسے اتارتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیسے رہتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر بازار میں، مطلب یہ کہ یہ ساری چیزیں، اس قسم کی کتابیں موجود ہیں۔ مثلاً ایک کتاب کا نام لیتا ہوں اور بھی بہت سارے ہیں ماشاءاللہ۔ "اسوۂ رسول اکرم"۔ یہ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے۔ اس کتاب کے ساتھ ایک واقعہ بھی ہے، وہ بھی میں آپ کو بتاتا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ بھئی یہ کتاب واقعی مقبول کتاب ہے۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں وہ یہ پارلیمنٹ میں رپورٹر ہیں۔ تو وہ چلے گئے تھے عمرے پہ۔ مدینہ منورہ بھی گئے۔ وہاں جا کے، ماشاءاللہ ہم سب مسلمانوں کا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل نصیب ہو جائے۔ تو بار بار دعا کر رہے تھے کہ یا اللہ سنتوں پر عمل نصیب فرما، یا اللہ سنتوں پر عمل نصیب فرما۔ کیونکہ مدینہ منورہ تھا۔ کہتے میرے دل سے ایک آواز آئی کہ پھر ڈاکٹر عبدالحئی کے "اسوۂ رسول اکرم" کو پڑھو نا۔ یہ کہتے ہیں یہ آواز آگئی۔ تو اس کو پتہ نہیں تھا کہ ڈاکٹر عبدالحئی کون ہے اور "اسوۂ رسول اکرم" کتاب کیا ہے؟ مطلب اس کو نہیں پتہ تھا۔ اس وقت تک پتہ نہیں جب تک مجھ سے نہیں کہا تھا یہ بات۔ یہ جب واپس آگئے تو مجھے کہا کہ یہ اس طرح بات ہوئی ہے تو یہ کیا ہے؟ میں نے کہا یہ کتاب ہے نا، میرے پاس بھی ہے۔ یہ تو بہت اچھی کتاب ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب، یہ مولانا تقی عثمانی صاحب کا پیر ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب اور مولانا تقی عثمانی ان کے پیر تھا۔ تو میں نے کہا ہاں یہ کتاب میرے پاس ہے اور یہ واقعی بہت اچھی کتاب ہے۔ اس کو پڑھ سکتے ہیں۔ میں نے کہا ہدیہ کر لیں، مارکیٹ میں ملتی ہے۔ اچھا تو اب یہ کتاب جو ہے اس کا میں آپ کو بتا دوں، طریقہ کار استعمال کا۔ اگر آپ اس طرح کر لیں بلکہ ایک حدیث شریف میں سنا دوں تو اس سے پھر میرے خیال میں زیادہ فائدہ ہو جائے گا۔ وہ یہ ہے کہ

جو کوئی شخص اچھا کام کرتا ہے، نیکی کرتا ہے تو اس کا فوری اجر یہ ہوتا ہے کہ دوسری نیکی آسان ہو جاتی ہے۔ اور جو کوئی برا کام کرتا ہے، کوئی گناہ کا کام کرتا ہے تو اس کی فوری سزا یہ ہوتی ہے کہ دوسرا گناہ آسان ہو جاتا ہے۔

آپ نے دیکھا نا ایک گناہ کی لائن پہ کوئی چل پڑتا ہے تو پھر گناہوں میں بڑھتا رہتا ہے۔ چلتا رہتا ہے آگے، ایک چیز پھر اس کے بعد دوسری، پھر اس کے بعد تیسری، پھر اس کے بعد چلتا رہتا ہے۔ اور نیکیوں میں اگر کوئی آدمی نیکی کی طرف مائل ہو جائے تو پھر وہ بھی اس میں بھی بڑھنے لگتا ہے، یہ چیزیں چلتی رہتی ہیں۔ تو میں نے عرض کیا، میں نے کہا کہ اب ہمارے پاس ایک گُر آ گیا۔ اب ہمارا ارادہ ہے کہ سنتوں پہ چلیں۔ سنتوں پہ عمل کریں۔ یہ ارادہ ہے ہمارا۔ اس کے لیے سب سے پہلے علم کی ضرورت ہے سنتوں کی۔ وہ موجود ہے یہ کتاب میں، "اسوۂ رسول اکرم" میں موجود ہے۔ اب یہ کر لیں کچی پنسل لے کے اس کتاب پر اس میں جو جو سنتیں بغیر کسی محنت کے فوری طور پر شروع کر سکتے ہو، اس پہ نشان لگا لو۔ مثلاً میں کھانا سنت کے مطابق کھاؤں، تو اس میں کیا خیال ہے، امریکہ سے اجازت لینے کی ضرورت ہے؟ یہاں اپنے گورنمنٹ سے؟ اپنے باپ سے؟ اپنی بیوی سے؟ کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے نا، بس فوری طور پر آپ اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی مشکل ہی نہیں ہے۔ اچھا تو آپ اس طرح کر لیں کہ آپ یہ نشان لگا دیں بھئی ان پہ میں عمل فوراً شروع کر لیتا ہوں۔ اور اس پر آپ عمل شروع کر لیں۔ اب الحمدللہ ہفتہ دس دن آپ اس پہ عمل کریں۔ اس سے الحمدللہ وہ نہ صرف یہ کہ وہ اعمال جاری ہو جائیں گے بلکہ اس کے بعد آپ دیکھ لیں، ذرا اس کتاب کو دوبارہ کھولیں تو وہ سنتیں جن کو آپ پہلے مشکل سمجھتے تھے ذرا زیادہ، جس پہ عمل آپ فوراً نہیں کر سکتے تھے، وہ بھی آپ کے لئے آسان ہو جائیں گی، اسی قانون کے مطابق جس کا میں نے ذکر کیا۔ وہ چیزیں بھی آپ کے لئے آسان ہو جائیں گی۔ پھر اس پہ نشان لگا دیں۔ اور اس پہ عمل شروع کر لیں۔ جب آپ اس کو اس پر عمل ہو جائے گا، پھر کچھ دنوں کے بعد آپ اس کو دوبارہ کھولیں تو پھر پتہ چلے گا کہ اس سے بھی جو ذرا زیادہ مشکل سنتیں ہیں۔ میں ویسے کسی پہ اعتراض نہیں کر رہا۔ صرف یہ سمجھانے کے لیے عرض کرتا ہوں، مثلاً کوئی شخص داڑھی نہیں، داڑھی نہیں رکھی۔ نہیں رکھی۔ اس کے لیے سنت بہت مشکل ہے۔ اس کو کوئی بھی اس کا کہتا ہے تو وہ ذرا اس کے ماتھے پہ بل آ جاتے ہیں کہ یہ تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا، وہ۔ ہوتا ہے؟ لیکن آپ اس طریقے پہ چلنا شروع کر لیں، کچھ عرصے کے بعد آپ کو خود بخود خیال ہو جائے گا کہ یہ کوئی مشکل تو نہیں ہے، یہ تو ٹھیک ہے، میں بھی رکھ سکتا ہوں، کیا کوئی کیا کہے گا۔ مطلب وہ یہ میں نے صرف مثال کے طور پر بتایا ہے۔ یا کسی عورت کے لئے پردہ کرنا مشکل ہے۔ تو وہ اس پر عمل کرنا شروع کر لے۔ تو کچھ عرصے کے بعد وہ خود ہی اس کے دل میں آ جائے گا کہ یہ تو کوئی مشکل بات نہیں ہے، یہ تو میں کر سکتی ہوں۔ بس ٹھیک ہے، وہ کرنا شروع کر لے گی۔ اس طرح اور بہت ساری باتیں میں عرض کر سکتا ہوں، یہ معاشرتی جو مسائل ہوتے ہیں۔ مثلاً رسومات وغیرہ جو ہوتے ہیں، وہ ہمارے اندر گھسے ہوتے ہیں۔ تو اس سے پیچھا چھڑانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن جب آپ سنتوں پہ عمل شروع کر لیں گے، کچھ عرصے کے بعد آپ کو خود ہی آپ کو احساس ہو جائے گا کہ یہ تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ آپ اس کو چھوڑ دیں گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ چلنا تو شروع کریں نا۔ چلنا تو شروع کریں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں گے۔ تو اس طریقے سے ماشاءاللہ آپ کو یعنی آسانی شروع ہو جائے گی۔ اور ایک وقت ایسا بھی ان شاء اللہ آئے گا کہ وہ جو مشکل سنتیں جن کو سن کر انسان حیران ہو جاتا ہے کہ ایک اس پر کیسے عمل ہو سکتا ہے، وہ بھی انسان کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار ہے۔

تو ایک تو یہ بات ہے کہ ہم سنتوں پر عمل کرنا شروع کر دیں۔ اور سنتوں کے لیے میں ایک بات عرض کروں کہ صحابہ کا طریقہ جو ہے نا وہ معیار ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے یہ بات ہے کہ کون سی سنت میرے لیے ہے اور کون سی سنت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تھی، وہ کوئی اور نہیں اختیار کر سکتا۔ مثال میں دیتا ہوں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سے زیادہ شادی کی۔ تو کیا کسی صحابی نے بھی کی؟ چونکہ نہیں کی لہٰذا عام لوگوں کے لیے یہ بات نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ کیا کسی صحابی کا بھی نہیں ٹوٹتا تھا؟ ایسی کوئی مثال ہے؟ نہیں ہے۔ پتہ چل گیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے، کسی اور کے لئے نہیں تھا۔ اب یہی فرق کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کون سا ہے اور باقی لوگوں کے لیے کون سا ہے؟ اس کا معیار صحابہ ہی بتائیں گے۔ اس کا ہمارے پاس اور کوئی حل نہیں ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام براہ راست مخاطب تھے۔ اور ان کو معلوم تھا کہ کون سی چیز کہاں ہے۔

ایک طبقہ گزرا ہے وہاں پر، صحابہ کے دور میں ہی، جن کو خوارج کہتے تھے۔ تو یہ خوارج کہتے تھے ہمارے لیے قرآن کافی ہے۔ وہ یہ کہتے تھے ہمارے لیے قرآن کافی ہے، وہ کسی کی بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے، کہتے تھے بس قرآن موجود ہے نا تو اور کیا کریں ہم؟ تو علی کرم اللہ وجہہ کو ان کے ساتھ لڑائی کرنی پڑی۔ سخت لڑائی ہوئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا، ایسے لوگ کے بارے میں صحابہ کرام سے فرمایا تھا کہ وہ لوگ جو ہوں گے وہ اتنے اعمال کے پختہ ہوں گے کہ تم لوگ اپنے اعمال کو ان کے مقابلے میں ہیچ سمجھو گے۔ لیکن دین سے وہ ایسے نکل چکے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے۔ اس طرح، یہ خوارج کے بارے میں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ تو خوارج جو ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور سنتوں کو معیار نہیں سمجھتے تھے تو کہاں، کتنے دور پڑ گئے؟ تو اس لحاظ سے ہمارے لیے صحابہ کرام کا جو طریقہ ہے، وہ تو لازم ہے کہ اس کو ہم سمجھیں۔ بغیر اس کے ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ اور صحابہ کرام تین قسموں پر ہیں۔ تین قسموں پر ہیں۔ عام صحابہ کرام، اہلِ بیت اطہار علیہم وعلیہم اجمعین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات جو ہماری مائیں ہیں۔ یہ تین قسموں پر ہیں۔ یعنی عام صحابہ و صحابیات یہ ایک گروپ ہے۔ پھر ان میں سے اہلِ بیت ایک علیحدہ حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اور تیسرا وہ جو امہات المومنین ہیں، صحابیات میں وہ ایک علیحدہ حیثیت رکھتی ہے۔ تو جنہوں نے تینوں سے لیا، انہوں نے پورا دین لیا۔ اور جنہوں نے ان میں سے کسی کا لیا اور کسی کا نہیں لیا، تو انہوں نے ناقص دین لیا۔ کیونکہ پورا دین کسی اس پہ نہیں آیا۔ اور جنہوں نے مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایک کی مخالفت کی، تو انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا۔ کیونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طریقے کی مخالفت کی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ تو ظاہر ہے اگر صحابہ، اگر امہات المومنین کے فضائل بیان کیے، کوئی ان میں سے کسی ماں کے مخالف ہے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی۔ اگر اہلِ بیت کی مطلب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف فرمائی ہے اور کسی نے وہ بات نہیں مانی تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی مخالفت کی۔ نتیجتاً وہ کچھ بھی نہیں لے سکتا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے ساتھ تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ تو اب یہ، یہ جو بات ہے یہ بھی ہم، ہم لوگوں کو اب اس وقت جاننا ضروری ہے، ہمارے عقائد کی بات ہے۔ کہ ہم لوگ اس چیز کو جان لیں۔

آج کل یہ بڑا مسئلہ ہے کہ لوگ جذبات میں جلدی آ جاتے ہیں۔ یہ فرقہ پرستی اور اس قسم کی چیزیں مطلب شروع ہو جاتی ہیں تو جذبات میں آجاتے ہیں۔ اب دیکھیں جو لوگ اہلِ بیت کا نام لیتے ہیں، وہ جو صحابہ پر اعتراض کرتے ہیں، ان کے اعتراض کی وجہ سے لوگ اہلِ بیت پر اعتراض کرنا شروع کر لیتے ہیں۔ بھئی یہ کوئی طریقہ ہے؟ مجھے آپ بتائیں، عیسائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بات کرتے ہیں نا؟ کیا اس کے مقابلے میں ہم عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف بات کر سکتے ہیں؟ عیسیٰ علیہ السلام نے تو کچھ بھی نہیں کیا، یہ تو عیسائی ہیں کہ جو کر رہے ہیں۔ اسی طرح یہودی جو کر رہے ہیں تو موسیٰ علیہ السلام نے تو نہیں کیا۔ تو موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت تو نہیں کر سکتے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ جب تشریف لے گئے تو یہود کو دیکھا کہ وہ بھی عاشورہ کا روزہ رکھ رہے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ یہ روزہ کیوں رکھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ اس لیے کہ آپ موسیٰ علیہ السلام کو اور موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو اس دن نجات ہوئی تھی فرعون سے۔ اس وجہ سے ہم یہ روزہ رکھ رہے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "پھر تو ہم سب سے زیادہ اس کے حقدار ہیں، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام تو ہمارے ہیں"۔ پھر تو ہم سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ تو صحابہ کرام نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! کہیں مشابہت میں تو نہیں آ جائے گا کہ ہم یہود کی مشابہت کر رہے ہوں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "اگر میں زندہ رہا تو اگلے سال ہم دو روزے رکھیں گے۔ نو اور دس یا دس اور گیارہ"۔ ساتھ ایک ملا دیں گے تو مشابہت سے نکل جائے گی۔ یعنی کام ختم نہیں ہو گا، کام وہی کریں گے لیکن اس کے ساتھ ایک اور ملا کر مشابہت سے نکل جائیں گے۔ اب اس میں دو باتیں آ گئیں اور ہمارے لیے اصول بن گیا۔ کہ کسی گمراہ فرقے کی صحیح بات کو ان کی گمراہی کی وجہ سے ختم نہیں کرنا۔ کسی گمراہ فرقے کی صحیح بات کو ان کی گمراہی کی وجہ سے ختم نہیں کرنا لیکن ان کی طرح اس کو نہیں کرنا۔ جس طرح ہمیں بتایا گیا اس طریقے سے کرنا۔ یعنی مشابہت سے بھی نکل جائیں اور یہ بات ہے کہ کوئی بات چھوڑیں۔ جیسے مثال کے طور پہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو صحابہ کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ تو وہ گمراہ ہے۔ لیکن اگر وہ اہلِ بیت کا نام لے رہے ہیں، اہلِ بیت کا نام لے رہا ہے کہ تو ہم اہلِ بیت کو نہیں چھوڑیں گے ان کی وجہ سے۔ کیونکہ اہلِ بیت تو ہمارے ہیں۔ ہم تو، ظاہر ہے مطلب ہے ہم تو اہلِ بیت کے ماننے والے ہیں۔ یعنی آپ حیران ہوں گے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ جو بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں ہندوستان میں اور ساری عمر ان لوگوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں جو صحابہ کے خلاف تھے۔ ساری عمر۔ لیکن اہلِ بیت کے بارے میں جب وہ بات آ جاتی ہے تو وہ ایسے جوش میں بات کرتے ہیں کہ جو بھی ہے، ماشاءاللہ چاہے غوث ہے، چاہے قطب ہے، چاہے جو بھی ہے، اوتاد ہیں، ان سب کو علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعے سے ملتا ہے۔ پھر ان کی اولاد کے ذریعے سے ملتا ہے، پھر وہ ان کی اولاد میں جو امام پیچھے آئے ہیں وہ بارہ امام، وہ سب ان کے ذریعے سے ملتا ہے۔ اور جب وہ سلسلہ ختم ہو جائے تو پھر شیخ عبدالقادر جیلانی کے ذریعے سے ملتا ہے۔ آپ بتائیں۔ یعنی اتنے صفائی کے ساتھ انہوں نے حضرت نے بات فرمائی حالانکہ ساری عمر ان کے ساتھ یعنی لڑتے رہے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اس لڑائی میں، غصے میں کہیں ہم ان کی مخالفت نہ کر بیٹھیں۔ مجھ سے ایک صاحب نے پوچھا امام حسین رضی اللہ عنہ کو ہم امام کہہ سکتے ہیں؟ میں نے کہا یار تم نے تو بڑی عجیب حرکت کی ہے۔ میں نے کہا دیکھو، سنو۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ جو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے پڑپوتے ہیں، ان کے شاگرد اور مرید امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ اور امام حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جو دو سال، دو سال میں نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ کے ساتھ گزارے ہیں، اگر وہ میں نہ گزارتا ان کے ساتھ تو میں ہلاک ہو جاتا۔ اب بتاؤ۔ اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ ان کے بیٹے کے مرید ہیں، امام موسیٰ کاظم رحمتہ اللہ علیہ کے۔ اس طرح امام مالک رحمتہ اللہ بھی امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ کے مرید ہیں۔ ہمارے امام سارے کے سارے ان کے ساتھ تھے، کیونکہ ایک حدیث شریف ہے۔ حدیث شریف ہے، صاف عرض کرتا ہوں۔ اس کو حدیثِ سفینہ کہتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ

اہلِ بیت کے ساتھ ہونا ایسا ہے جیسے نوح علیہ السلام کی کشتی میں ہونا ہے۔ جو اس میں ہو گیا، وہ بچ گیا اور جو نہیں ہوا وہ برباد ہو گیا۔

تو اب دیکھیں اور صحابہ کے بارے میں کیا فرمایا؟ صحابہ کے بارے میں فرمایا،

أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ۔

"میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ ان میں سے جس کے پیچھے جو چل گیا تو ہدایت پا لیا۔"

تو صحابہ کرام کا معیار ہدایت ہے۔ اور اہل بیت کے ساتھ محبت یہ حفاظت کا ذریعہ ہے۔ تو یہ دونوں، تو مولانا ادریس کاندھلوی صاحب نے اپنے اس میں عقائد کے بیان میں لکھا ہے کہ

اہلِ سنت والجماعت کے لیے سفینۂ محبت میں یعنی اہلِ بیت کے ساتھ محبت میں بیٹھ کر صحابہ کرام کے جو نجوم ہدایت ہے، ان کے طریقے پہ اس، ان راستے پہ چلنا یہی ہمارے لیے بچت کا ذریعہ ہے۔

یہی صاف فرما دیا۔ تو یہی بات ہے۔

تو میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ ہمیں بنیاد کو پکڑنا ہے۔ بنیاد کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

اور دوسری بات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ ہے۔ اور صحابہ کرام جس وقت صرف صحابہ کی بات کی جاتی ہے تو اس میں تینوں گروہ شامل ہوتے ہیں۔ تینوں گروہ شامل ہوتے ہیں۔ جیسے میں نے عرض کیا صحابہ، عام صحابہ، اہلِ بیت اور اس کے ساتھ امہات المومنین۔

اب دیکھو ترتیب کیا ہے؟ سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، پھر عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، پھر عثمان رضی اللہ عنہ، پھر علی کرم اللہ وجہہ، پھر اس کے بعد سارے صحابہ۔

اب میں جب صحابہ کی بات کرتا ہوں تو میں درمیان میں جو چوتھا نمبر ہے علی رضی اللہ عنہ، اس کو نکال سکتا ہوں؟ تو یہ بات ہمیں سب کو یہ جاننا چاہیے، ہمیں اپنے آپ کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ تو یہ تو عقائد کی بات ہو گئی۔ اس کے بعد پھر میں نے عرض کیا عمل کی بات، تو عمل کی بات جو ہوتی ہے اس میں مسئلہ کیا ہے؟

فرشتوں میں اور انسان اور جنات میں کیا فرق ہے؟ فرشتوں کے ساتھ نفس نہیں ہے۔ فرشتوں کے ساتھ نفس نہیں ہے۔ لہذا ان کو، جن کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے:

يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ

وہ وہی کر گزرتے ہیں جو کہ ان کو حکم ہوتا ہے۔

مطلب وہ درمیان میں کوئی اور بات نہیں کر سکتے۔ جبکہ انسان اور جنات جو ہوتے ہیں ان کا نفس درمیان میں ہے۔ ان کو حکم ملتا ہے تو نفس کی مخالفت آڑے آ جاتی ہے۔ مثلاً حکم ہے فجر کی نماز پڑھو۔ حکم ہے، سب مسلمانوں کو حکم ہے۔ اب نفس جو ہے وہ کیا ہے؟ وہ آرام کرنا چاہتا ہے۔ اب صبح انسان اٹھے تو کہتے ہیں بس تھوڑی دیر کے بعد پھر اٹھ جاؤں گا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر اٹھ جاؤں گا۔ اور وہ اسی میں پھر دوبارہ سو جاتا ہے۔ اور پھر جب اٹھتا ہے تو سورج نکل چکا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی ابتدائی چند دن کی بات ہوتی ہے پھر اس کے بعد وہ مان لیتا ہے کہ فجر کی نماز میرے اوپر فرض نہیں ہے۔ وہ کسی اور کے اوپر فرض ہے۔ اور وہ بس جو ہے نا وہ بالکل عادی ہو جاتا ہے، فجر کی نماز نہیں پڑھتا۔ تو کیا اللہ پاک کا حکم اس سے ہٹ گیا؟ نہیں، اپنے اوپر وہ چڑھا رہا ہے۔ گناہ۔ روزانہ کے حساب سے۔

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اپنی نفس کی تربیت کرنی پڑے گی۔ تاکہ نفس جو ہے جو ہمیں اللہ تعالی کے حکم سے ہٹا رہا ہے، اس کا مقابلہ کر سکیں اور ہم اللہ پاک کے حکم پر عمل کر سکیں۔ یہ بات ہے۔ بنیادی بات ہے۔

نفس جو ہے یہ ہمارا اصل میں اللہ جل شانہ نے، لوگ سمجھتے ہیں پتہ نہیں یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں یہ شاید صوفیوں کی باتیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پتہ نہیں کہاں سے انہوں نے نکالی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن بھی نہیں پڑھتے اور حدیث بھی نہیں پڑھتے۔ صحیح بات عرض کرتا ہوں۔ قرآن میں بھی موجود ہیں ساری چیزیں موجود ہیں۔ اور حدیث شریف میں بھی موجود ہے لیکن کوئی پڑھے تو سمجھ آئے نا۔ اب میں آپ کو ایک سورت سناتا ہوں۔ آپ خود سمجھیں گے کہ بھئی اس میں تو سارا کچھ موجود ہے۔ اور یہ سورت آخری پارے کی سورۃ شمس ہے۔

اب سورۃ شمس کو آپ خود پڑھیں۔ میں آپ کو نہیں پڑھاتا۔ قرآن پاک میں موجود ہے:

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿۱﴾ وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا ﴿۲﴾ وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا ﴿۳﴾ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا ﴿۴﴾ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ﴿۵﴾ وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا ﴿۶﴾ وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ﴿۷﴾ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ﴿۸﴾ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ﴿۹﴾ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا ﴿۱۰﴾

اللہ پاک نے پہلے سات قسمیں کھائی ہیں۔ وہ سات قسمیں تکوینی نظام کے ہیں۔ یعنی سورج کی قسم، چاند کی قسم، دن کا قسم، رات کا قسم، زمین کا قسم، آسمان کا قسم۔ اور نفس کا قسم۔ سات قسمیں کھائیں، یہ سب تکوینی نظام ہے۔ اور اس کے اوپر تشریعی نظام کو مربوط فرمایا ہے۔ کیا ہے؟ یہ فرمایا: فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا۔ اس نفس کو میں نے الہام کیے ہیں، دو چیزیں، اس کے فجور اور اس کا تقوی۔ یہ اللہ تعالی نے فرمایا۔ فرمایا اب آپ لوگوں کو آزادی ہے کہ آپ نفس کی بات مانیں یا میری بات مانیں۔ ٹھیک ہے نا؟ لیکن سن رکھو: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا یقیناً کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کی خواہشات کو دبا دیا اور میرے حکم پر عمل کر لیا، یعنی اس کو پاک کر لیا۔ اور: وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا اور تباہ و برباد ہو گیا وہ شخص جس نے نفس کی بات میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اس پر عمل کیا اور میرے بات پر عمل نہیں کیا۔ مطلب یہ ہے کہ یعنی اپنے نفس کو جس نے مٹی میں ملا دیا ہے، گویا کہ یوں سمجھ لیجیے کہ اس کو خوار و ذلیل کر دیا اللہ تعالی کی نافرمانی کی وجہ سے۔

اب دیکھ لیں، ایک میں مکمل کامیابی بتاتے ہیں اور ایک میں مکمل تباہی بتاتے ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں۔ اب اس سورت میں ہماری ضرورت، ہماری کیا بن جاتی ہے ذمہ داری؟ کہ ہم اپنے نفس کی ایسی تربیت کر لیں کہ ہمیں تباہی کی طرف نہ لے جا سکے۔ یہی بات ہے۔

اچھا پھر اللہ پاک نے جو مثال دی ہے، مثال کہاں کی دی ہے؟ قوم ثمود کی مثال دی ہے کہ قوم ثمود میں ایک بدبخت آدمی اٹھا۔ جو ایک رنڈی پہ عاشق تھا، اس رنڈی نے کہا کہ اس اونٹنی کو مارنا ہے کیونکہ وہ پانی زیادہ پیتی تھی اور بعض لوگوں کے جانوروں کو نہیں پانی تو انہوں نے کہا اس اونٹنی کو مارنا ہے، تو اس نے اونٹنی کو مارنا چاہا تو پیغمبر نے کہا اس وقت صالح علیہ السلام نے کہ اس کو نہ مارو، یہ تو اللہ کی اونٹنی ہے اور اپنی باری کے پانی پیتی ہے۔ اس کو نہ مارو۔ اس نے پیغمبر کو جھٹلایا، اس اونٹنی کو مار دیا۔ جب مار دیا تو اللہ پاک نے ان سب کو کیونکہ قوم نے ان کی مخالفت نہیں کی، تو سب کو ملیا میٹ کر دیا۔ اور اللہ پاک فرماتے ہیں اس کے بعد پھر کوئی پرواہ نہیں اللہ پاک کی، کیا ہوا؟

كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا ﴿۱۱﴾ إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا ﴿۱۲﴾ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا ﴿۱۳﴾ فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوَّاهَا ﴿۱۴﴾ وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا ﴿۱۵﴾

اس کا مطلب یہ ہے کہ بالکل اللہ پاک نے، اب اگر کسی کو شک ہے تو چلو پھر حدیث شریف پہ آتے ہیں، کیوں، حدیث شریف بھی قرآن کی تشریح کرتے ہیں۔ تو حدیث شریف میں آتا ہے، حدیث شریف میں فرماتے ہیں کہ عقلمند ہے وہ شخص، عقلمند ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس پاک کر لیا، جس میں آتا ہے کہ جس نے نفس کی تربیت کر لی، مطلب آپ کہہ سکتے ہیں، جس نے اپنے نفس کی تربیت کر لی اور اللہ کے حکم پر عمل کر لیا۔ یعنی آخرت کے لیے کام کیا۔ آخرت کے لیے۔اور بے وقوف ہے وہ، وَالْعَاجِزُ مَنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ اور بے وقوف ہے وہ جس نے اپنے نفس کی بات مان لی۔ اور پھر محض تمنائیں کرتا رہا اللہ پر کہ اللہ غفور الرحیم ہے، اللہ پاک بخش دے گا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بے وقوف ہے وہ شخص۔

اب کتنے لوگ ہیں کہ آپ ان کو عمل کے بارے میں کہہ دیں، کہتے ہیں اللہ بڑا غفور الرحیم ہے۔ یہ کہتے ہیں یا نہیں کہتے؟ ایسے کہتے ہیں، بھئی اللہ غفور الرحیم ہے یقیناً ہے۔ لیکن اللہ پاک نے کچھ فرمایا بھی ہے نا کہ یہ کرو یہ نہ کرو۔ وہ کہاں چلی جاتی ہے؟ تو اب یہ جو ہے نا مطلب قرآن بھی واضح اور حدیث شریف بھی واضح۔ ہمارا نفس ہمیں نہ سننے دیتا ہے نہ ماننے دیتا ہے۔ ہمارا نفس نہ ہمیں سننے دیتا ہے نہ ماننے دیتا ہے۔ تو جب ایسی صورت بھی بات ہے تو پھر اس کے لیے کوئی منظم طریقہ کار ہونا چاہیے نا۔ کہ ہمارا نفس ماننا شروع کر لے اور سننا شروع کر دے۔ مطلب اس کے لیے کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے۔

اب یہ جس وقت لوگ اس چیز کو دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کیسے ہو گا؟ یہ تو ممکن نہیں ہے۔ تو یہ مجھے بتائیں کہ جتنے بھی اولیاء اللہ دنیا میں تشریف لائے ہیں، تو کیا یہ ماں کی گود سے اس طرح اولیاء اللہ بن کے آئے تھے؟ کہ انہوں نے محنت کی تھی؟ اور تو چھوڑو چلو آپ اپنی طرف سے بہت ساری باتیں بنائیں، فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ، یہ ڈاکو تھے۔ ڈاکو تھے۔ تو اللہ جل شانہ نے جب اس کو ہدایت دی وہ ایک ڈاکہ ڈال رہے تھے۔ تو جس وقت وہ رات کا وقت تھا، ظاہر ہے ڈاکہ تو رات کو ہی ڈالا جاتا ہے۔ تو جو ہے نا رات کا وقت تھا تو وہ جس کے گھر پہ ڈاکہ ڈال رہے تھے وہ قرآن پڑھ رہے تھے اس وقت۔ اس میں ایک آیت تھی کیا ابھی تمہارے ڈرنے کا وقت ابھی نہیں آیا؟ جس وقت اس نے سن لیا تو بس ہل گیا۔ وہ پوری آیت سن لی، ساتھیوں کو کہا چلو چلتے ہیں۔ کہا کیوں؟ کہتے ہیں بس نہیں۔

پھر اس کے بعد جن جن کے گھروں پہ ڈاکے ڈالتا تھا ان کا حساب کیا۔ ان سب کو ان کی چیزیں واپس کر دیں۔ توبہ کر دیا۔ اور شیخ عبدالواحد رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جا کر باقاعدہ بیعت کی اور ہمارا جو سلسلہ چشتی ہے نا، ان کے سرخیل ہیں یہ۔ بہت بڑے ولی اللہ بن گئے۔

اب دیکھو یعنی ڈاکو سے ولی اللہ بن گئے۔ تو ہو سکتا ہے یہ ساری چیزیں یہ سب جتنے بھی اولیاء اللہ ہیں ان کو اللہ جل شانہ نے جو ہدایت دی تو ماشاء اللہ کسی کسی کے پاس گئے ہیں۔ اور ان دنوں آسان بھی نہیں تھا، یہ تو اب بہت آسان ہے نا ٹیلیفون کے ذریعے سے، مختلف، پہلے 100-100، 200-200، 300-300، 700 میل کے فاصلے پہ کوئی بزرگ ہوتا تھا، ان کے پاس جاتے تھے۔ اور باقاعدہ جب تک تربیت نہیں ہو چکی ہوتی اس وقت تک واپس نہیں آتے تھے۔

یہ پیر بابا علیہ الرحمت افغانستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ افغانستان سے اجمیر شریف گئے ہیں۔ تربیت وہاں پر ہوئی ہے۔ پھر واپس حکم ملا ہے تو مردان، بنیر کے علاقے میں کام شروع کیا ہے۔ اور توحید کا ماشاء اللہ جھنڈا بلند کر دیا اور وہاں سے غلط لوگوں کو ہٹایا اور ماشاء اللہ بہت اللہ پاک نے ان سے خدمت لے لی۔ کام لیا۔

اب کہاں پیدا ہوئے؟ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، یہ بھی افغانستان میں پیدا ہوئے اور کہاں پر آ گئے؟ لاہور میں۔ تو اللہ تعالی نے ماشاء اللہ ان سے وہ کام لیا۔ اس وقت یہ، یہ فاصلے کوئی اتنا آسان بھی طے کرنے نہیں تھے۔ مشکل سفر تھے۔ حضرت خود خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ یہ بھی مطلب چشت کے علاقے کے تھے۔ اور یہ ہمارا جو مغربی پاکستان جس کو ہم کہتے تھے، یہ ہمارا موجودہ پاکستان، اسی کے اندر یہ سیاحت ان کا ہوتا تھا یعنی مسلسل مختلف جگہوں پہ جاتے تھے اپنے شیخ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ۔ اور پھر اللہ پاک نے ان سے اجمیر کا کام لے لیا۔ تو اس کے بعد ماشاء اللہ 90 لاکھ لوگ ان کے ہاتھ پہ مسلمان ہوئے۔

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو بڑے بڑے کام اللہ تعالی نے، مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھیں، اس طرح اور حضرات کو دیکھیں، یہ سب سے اللہ پاک نے جو کام لیا ہے، تو آخر اسی محنت سے لیا ہے۔ تو یہ محنت چل رہی ہے۔ اور پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ نفس کی تربیت جو ہے یہ لازمی ہے۔ کیونکہ اگر نفس کی تربیت نہ ہو تو یہ تو باغی ہے۔ یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو بھی شخص پیدا ہوتا ہے، کنفرم بات ہے قرآن پاک سے ثابت ہے، نفس امارہ کا ذکر کس چیز میں ہے؟ قرآن میں ہے نا۔

وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي

یہ جو ہے، یہ قرآن سے ثابت ہے، نفسِ لوامہ بھی ثابت ہے، نفسِ مطمئنہ بھی ثابت ہے۔ تینوں لفظ کا مثال ثابت ہے۔ تو نفسِ امارہ سے نفسِ مطمئنہ جانا سب مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ درمیان میں سے نفس لوامہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ procedure ہے۔ اس کے حساب سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن بہرحال نفس امارہ سب کا ہوتا ہے۔ ابتداء میں سب نفس امارہ ہی ہوتا ہے جب تک تربیت نہ ہو چکی ہو۔ تربیت ہو جائے تو یہ نفس مطمئنہ تک اور نفس مطمئنہ تک پہنچ جائے تو پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر یہ بھی اللہ پاک نے فرمایا قرآن پاک میں:

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ﴿۲۷﴾ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً ﴿۲۸﴾ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي ﴿۲۹﴾ وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴿۳۰﴾

اے مطمئن نفس، لوٹ جا اپنے رب کی طرف اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہو وہ تجھ سے راضی ہے۔

اچھا ترتیب کیا فرمائی ہے؟ پہلے ہمیں راضی ہونا پڑے گا۔ پھر اللہ پاک راضی ہوگا۔ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ اگر ہم نے اپنے نفس کی تربیت نہیں کی تو راضی نہیں ہوں گے کیونکہ لوگ، یہ اللہ پاک سے شکوہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ یہ بے صبری کیا چیز ہے؟ ناشکری کیا چیز ہے؟ تو مطلب جو ہے نا وہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جس وقت نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے پھر شکر کرنے لگتے ہیں، پھر صبر کرنے لگتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں اگر ہم لوگ نہ کریں تو پھر اسی طریقے پہ سارے لوگ جاتے ہیں۔ تو یہ بات ہے کہ جو نفسِ امارہ کے ساتھ پیدا ہوا اور شیطان بھی ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ مطلب اس کا قرین ہوتا ہے شیطان۔

اب دیکھیں نا جو بھی، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، یا رسول اللہ کیا آپ کے ساتھ بھی شیطان پیدا ہوا تھا؟ صحابہ کرام نے بڑے زبردست زبردست سوال کیے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، لیکن میرا شیطان مسلمان ہو گیا تھا۔ اچھا، باقی کسی صحابی کے لیے نہیں فرمایا کہ مسلمان ہو گیا تھا۔ اس وجہ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ایک دفعہ مشورے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور مشورے میں فرما رہے ہیں کہ میری بھی ایک رائے ہے۔ اگر صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میرے نفس کی طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ تو اس کا مطلب ہے ان کا شیطان چل رہا تھا نا، کام کر رہا تھا نا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مان رہا تھا نا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یعنی یہ جو ہے نا شیاطین کا سلسلہ ہے۔ جتنے بھی انسان پیدا ہوتے ہیں ان کے ساتھ اپنے اپنے شیاطین پیدا ہوتے ہیں۔

لیکن اصل بات کیا ہے؟ شیطان کے بارے میں قرآن پاک میں ہے کہ اس کا کید، اس کا مکر ضعیف ہے۔

إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا

مطلب یہ اس کا مکر ضعیف ہے۔ اچھا اب یہ جو مکر ضعیف ہے اس پر لوگ حیران ہوتے ہیں کہ شیطان تو پتہ نہیں کیا کیا ترتیب بناتا ہے اور یہ کہتے ہیں مطلب یہاں پر آتا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان کی مکر میں کوئی طاقت نہیں ہے، وہ زبردستی نہیں کر سکتا۔ وہ آپ کے ہاتھ کو، ہاتھ سے پکڑ کر آپ کو غلطی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ وہ آپ کے دل پہ محنت کرتا ہے۔ آپ کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ اگر آپ اس کے وسوسے پہ عمل کر لیں تو بس شیطان کا کام ہو گیا۔ نہیں کرے، کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ وہ طریقہ کار کیا اختیار کرتا ہے؟ سب سے پہلے کوشش کرتا ہے کہ کافر بنا دے۔ نہیں بنا سکتا، پھر گناہِ کبیرہ میں مبتلا کرتا ہے۔ گناہِ کبیرہ میں مبتلا نہیں کر سکتا، پھر گناہِ صغیرہ پہ اصرار میں مبتلا کرتا ہے جو کبیرہ بن جاتا ہے پھر بعد میں۔ اگر یہ بھی نہیں کرتا تو پھر صرف گناہِ صغیرہ پہ، اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو پھر مستحبات ترک کروانا شروع کر لیتا ہے۔ پھر صرف مطلب یہ، گویا کہ کچھ نہ کچھ طریقے سے آپ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے اس پر کڑی نظر رکھنی پڑتی ہے۔ جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہو چکی ہوتی اس وقت تک شیطان سے آپ بچ نہیں سکتے۔ تو بہرحال میں عرض کرتا ہوں کہ شیطان سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے نفس کو ٹھیک کر لو۔ کیونکہ شیطان کا tool نفس ہے۔ وہ نفس کے ذریعے سے، مثلاً مثال کے طور پر کوئی آدمی ہے جو کہ پیسہ زیادہ کمانا چاہتا ہے۔ مطلب وہ مالدار ہونا چاہتا ہے۔ تو اس کے دل میں کرپشن کے وسوسے ڈالے گا، یہ کام کر لو تو یہ ہو جائے گا، یہ کام کر لو تو یہ ہو جائے گا، یہ کام کر لو تو یہ ہو جائے گا۔

اب یہ جتنے بھی کرپشن کرنے والے، یقین جانیے دنیا کے سب سے بڑے بے وقوف ہیں۔ کیسے؟ یہ کرپشن والے۔ کیوں؟ بے وقوف کیوں ہیں؟ ان کا مال کدھر جاتا ہے؟ مجھے بتاؤ، ان کے کام آتا ہے؟ ان کے کام نہیں آتا۔ اکثر لوگ کرپشن والوں کا جو مال ہے باہر چلا جاتا ہے۔ اور یہ مر جاتے ہیں اور مال ان کا رہ جاتا ہے۔ زیادہ تر تو یہی ہوتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر فضولیات پہ خرچ ہوتا ہے۔ ایسے ایسے فضولیات پر کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ بھئی یہ بھی کوئی کرنے کے کام ہیں۔ لیکن وہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پیسہ وافر ہوتا ہے۔

یہ ہمارے پاس قریب ہی ہمارے جو گھر بنا رہے تھے تو اس کے ساتھ ہم نے کرائے پہ گھر لیا تھا صرف تاکہ قریب رہیں۔ وہ ہمارے پڑوسی تھے۔ وہ ذرا یہ حرام آمدنی میں، یعنی اسمگلنگ وغیرہ یا اس قسم کی چیزوں میں مبتلا تھے بیچارے۔ وہ بیچارے جو ہیں نا وہ ہمارے، ان کے گھر والے ہمارے گھر والوں کے پاس آتی، وہ کہتے جتنا ہم آپ کے گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں نا بس اتنا ہمیں سکون ہوتا ہے۔ اس سے پھر جیسے گھر میں چلے جاتے ہیں بس ہماری، پھر ہمارا کوئی سکون نہیں ہوتا۔ یہ خود ان کے گھر کی عورتیں کہتی تھیں۔ مطلب وہ پریشان۔ اور ان کی گھر کی شادی ہو گئی۔ تو وہ جو ایک، وہ جو شادی ہو گئی، وہ لڑکی جو تھی وہ ایک انجینئر کی بیٹی تھی جو کرپٹ انجینئر تھا، یعنی رشوت لیتا تھا۔ تو وہ ہر ہفتے اپنی ساری setting چینج کر لیتی۔ یعنی بیڈ کی چادروں کو اور فانوسوں کو اور پتہ نہیں پردوں کو، اب سب چیزیں چینج کر لیتی۔ تو اس نے کہا یہ کیا پاگل پن ہے؟ کہتے ہیں حرام مال ہے، کسی چیز پہ تو لگے گا نا۔ صاف کہتی ہے، حرام مال ہے، کسی چیز پہ تو لگے گا نا۔

اب یہ، یہ ہے نقشے دنیا کے۔ تو اب یہ بتائیں کہ مطلب مال آپ حرام ہے تو پھر لگائیں اس طریقے سے، لیکن گناہ تو آپ کے سر پہ رہ گیا نا۔ وہ تو چلا نہیں گیا۔ تو یہ سب سے بڑے بے وقوف ہیں یا نہیں ہیں؟ کہ مطلب گناہ خود لے آؤ اپنے سر اور باقی مزے دوسرے لوگ کریں۔ تو کتنے بڑے بے وقوف ہیں۔ تو اس قسم کی بے وقوفیاں نفس کی وجہ سے بہت ہوتی ہیں۔ تو بہرحال یہ ہے کہ نفس کی جب تک انسان تربیت نہ کرے، اس وقت تک یہ ماننے والا نہیں ہے۔ اور جب تک نفس کی تربیت نہیں ہو تو شیطان کے نرغے میں ہے۔ وہ شیطان اس کو کوئی بھی وسوسہ ڈال سکتا ہے اور جس کی وجہ سے وہ تباہ ہو سکتا ہے۔ ایمان تک جا سکتا ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے نفس کی تربیت کا سوچنا پڑے گا۔ اس کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔

تو نفس کی تربیت کیسے ہو گی؟ ظاہر ہے مطلب ایک کوئی طریقہ کار تو ہو گا نا، جب اتنی لازمی چیز ہے تو اللہ تعالی نے اس کو ایسے ہی چھوڑا ہو گا کہ مطلب یہ ویسے بس ٹھیک ہے فرض ہے لیکن بس ہوا، ہوا، نہیں ہوا، نہیں، ایسا تو نہیں ہے نا۔ اس کے لیے کوئی طریقہ کار، کوئی نظام، کوئی بندوبست تو ہو گا نا۔ تو الحمدلله ہے۔ الحمدلله ہے۔ وہ کیسے؟

دیکھیں ہمارے جسم کے اندر تین چیزیں ہیں۔ پہلی بات، ہمارے جسم کے اندر دل ہے۔ دوسری بات، ہمارے جسم کے اندر نفس ہے۔ تیسری بات، ہمارے جسم کے اندر عقل ہے۔ یہ تین باتیں ہیں۔ عقل کا اپنا کام ہے، دل کا اپنا کام ہے، نفس کا اپنا کام ہے۔ نفس کا تو میں نے آپ کو بتا دیا۔ دل کا کام یہ ہے کہ اس میں ایمان، کفر، دونوں میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے۔ جس طرح نفس میں دونوں ہو سکتے ہیں نا فجور اور تقوی، اس طرح دل میں ایمان بھی ہو سکتا ہے، کفر بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں جی۔ غفلت بھی ہو سکتی ہے اور ذکر بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں جی، مطلب جوڑے جوڑے مطلب وہ چلتے رہتے ہیں۔

یعنی شیطان کی طرف سے بھی وسوسہ آتا ہے، اللہ پاک کی طرف سے الہام بھی آتا ہے۔ یہ جس کو ہم ضمیر کہتے ہیں، یہ کیا چیز ہوتی ہے؟ یہ یہی چیز ہوتی ہے، مطلب الہام ہوتا ہے مطلب اللہ تعالی کی طرف سے کہ اکثر لوگ جو پہلے کبھی غلطیوں میں مبتلا نہیں ہوتے، تو وہ جب کبھی کسی غلطی کی طرف جا رہے ہوتے تو فوراً ایک آواز آتی ہے نہ کرو۔ اشارہ آتا ہے، یہ ضمیر ہے۔ یعنی الہام ہوتا ہے، اللہ تعالی بچانا چاہتا ہے۔ اب اگر اس آواز کی پرواہ نہیں کی اور اس نے کر لیا تو وہ آواز کمزور ہو جائے گی۔ وہ آواز کمزور ہو جائے گی۔ دوسری طرف یہ بات ہے کہ جس نے وسوسے پہ، وسوسہ آیا کہ یہ کام کرو، آپ نے اس پہ عمل نہیں کیا تو یہ وسوسہ کمزور ہو جائے گا۔ یعنی گویا کہ ان دونوں میں سے جس کی بات مانو گے وہ مضبوط ہو گا اور جس کی نہیں مانو گے وہ کمزور ہو گا۔

نتیجتاً یہ بات ہے کہ آپ کے عمر بھر کی ایک سلسلہ چلتا رہے گا کہ ایسا بھی ہو گا کہ وسوسہ آئے گا، مانیں گے، مضبوط ہو گا، مانیں گے، مضبوط ہو گا۔ دوسری طرف سے اللہ کی طرف سے جو ضمیر کی آواز ہے وہ بند ہوتی جائے گی۔ کہتے ہیں فلاں کا ضمیر مر چکا ہے۔ تو یہ ایسا ہے کہ ایک وقت میں آئے گا بالکل وہ ختم ہو جائے گا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا: لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا یعنی ان کے دل ہیں لیکن اس سے وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ لَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ یہ تو جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔

اچھا، اس کے مقابلے میں ایسا ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔ جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں، یہ کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شیطان کے وسوسے پہ عمل نہیں کیا تو وہ کمزور ہوتا گیا، کمزور ہوتا گیا، کمزور ہوتا گیا، حتی کہ اتنا کمزور کہ بالکل ہی راستہ بند ہو گیا، ختم ہو گیا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سلسلہ سب کے ساتھ ہے اور محنت ہر ایک کی اپنی اپنی ہے۔ تو اس وجہ سے اگر ہم اپنے نفس کے اوپر یعنی کام کر کے اس کو فرمانبردار بنا دیں، اس کو نفسِ امارہ سے نفسِ مطمئنہ بنا دیں۔ تو شیطان بے بس ہو جائے گا، پھر شیطان کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔ بے شک شیطان کچھ بھی کرے لیکن وہ اللہ کی حفاظت میں ہو گا۔ کچھ نہیں کر سکے گا۔

تو اسی طریقے سے جو دوسرے طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پاک کو ناراض کیا ہو گا، تو وہ شیطان کے نرغے میں ہوں گے، پتہ نہیں کہ ان کو کس طرح deal کر لے۔

تو یہی بات، اس کے لیے، اس کام کے لیے کہ start کیسے ہو، طریقہ کار کیسے ہو، کس طریقے سے مطلب جو ہے نا وہ کام کو چلائے، اس کے لیے کسی شیخ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر اس کے نہیں ہوتی۔ جتنے بھی آپ بڑے بڑے اولیاء اللہ دیکھیں ان کا کوئی شیخ ضرور ہو گا۔ بلکہ اگر آپ سوانح عمریاں سب کی پڑھیں، ان بزرگوں کی، تو آپ کو ایک فقرہ ملے گا ہر جگہ تقریباً ایک جیسا اور وہ کیا ہے؟ اتنے عرصے میں انہوں نے جو فنون اس وقت کے متعارف تھے وہ اس سے فارغ ہو گئے، پھر کسی شیخ کی تلاش میں چل پڑے۔ یہ فقرہ آپ کو ہر جگہ ملے گا تقریباً۔ تو وہ شیخ ان کو پتہ نہیں کہاں ملتا ہے وہ تو ایک علیحدہ بات ہے، وہ تو ہر ایک کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ لیکن یہ ہے کہ سب کا طریقہ کار یہی ہوتا ہے۔

تو شیخ کے پاس جانا ہوتا ہے کیونکہ شیخ جو ہوتا ہے وہ کیا کرتے ہیں؟ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، تھوڑا سا سائنس پہ آ جائیں۔ وہ یہ ہے کہ اگر ایک انسان کے پاس جو میٹر ہے، انجینئر ہے آپ کا تو فیلڈ ہے نا، آپ کا کوئی faulty meter اگر ہو تو آپ اس پہ عمل کریں گے؟ ظاہر ہے faulty meter پہ انجینئر عمل نہیں کرتا۔ وہ کسی ایسے میٹر کو استعمال کرتا ہے جو کہ اس میں fault نہ ہو۔ تو مجھے آپ بتائیں کہ جس کی تربیت نہ ہو چکی ہو تو اس کا میٹر faulty ہے یا ٹھیک ہے؟ faulty ہے نا۔ تو کیا وہ اپنی تربیت پر خود کر سکتا ہے؟ اس کو معلوم ہی نہیں کہ میں کدھر ہوں۔ تو کیسے اپنی تربیت کرے گا؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ تو وہ کسی ایسے شخص کے پاس جائے جس کا میٹر faulty نہ ہو۔ جس کو کم از کم صحیح چیز نظر آ رہی ہو۔ تو وہ بتائے گا نا کہ یہ اس طرح ہے اور اس طرح ہے، اس طرح ہے، تو اس کے طریقہ کار اس کو بتائے گا۔ یہی اصل میں شیخ کی بنیادی بات ہے۔ تو ہمیں ان کے پاس جانا پڑتا ہے۔

اچھا، بعض لوگوں نے شیخ کے بارے میں بھی عجیب عجیب خیالات بنائے ہوتے ہیں کہ پتہ نہیں وہ کیسے ہو گا اور یہ ہو گا، وہ ہو گا۔ جن لوگوں نے جو باتیں سنی ہوتی ہیں اس کے ساتھ، مثلاً بہت سارے لوگ ہیں جو مجذوبوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ مجذوبوں کو تلاش کرتے ہیں کہ بس سارا کچھ ان سے مل جائے گا۔ حالانکہ مجذوب اس کام کے لیے ہے ہی نہیں۔ وہ تو گائیڈڈ میزائل ہوتے ہیں، جس چیز کی طرف ان کو بھیجا جائے وہی کریں گے۔ وہ آپ کے کام کے نہیں ہیں، وہ اس کی، وہ فرشتوں کے، يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ والی بات ہے۔ ان کا مزید بات کرنے کا، تربیت کرنے کا انداز ہی نہیں ہوتا۔ اس کے لیے آپ مرشدوں کے پیچھے جائیں گے۔ جن کو اللہ نے یہ چیز دی ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں، وہ ان کی طرف، مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرح، اس طرح مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ یا جو مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ یا جو حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ یا حضرت ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، ان حضرات کے پیچھے جانا پڑے گا۔ اور یہ کشف المحجوب جو ہے نا حضرت کا جو کتاب ہے، اس میں بھی یہ چیزیں لکھی ہوئی ہیں، دوسرے جتنے بزرگ ہیں ان سب کی کتابوں میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ تو بہرحال میں عرض کرتا ہوں کہ ہمیں مرشدوں کے پیچھے جانا پڑے گا۔

لیکن کون سے مرشد کے پاس؟ جو مرشدوں کا نام استعمال کرتا ہے یا جو واقعی مرشد ہے؟ ایسے بھی ہوتے ہیں نا جو مرشد کا نام استعمال کرتے ہیں، مرشد ہوتے نہیں ہیں لیکن مرشد کا نام استعمال کرتے ہیں، وہ اپنے آپ کو مشہور کراتے ہیں، بڑے بڑے بینر لگا لیتے ہیں، جن کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں آتی ہیں، سمجھتے ہیں کہ شاید یہ بڑا شیخ ہے، اور لوگ ان کے پیچھے آتے ہیں حالانکہ وہ بس publicity ہوتی ہے۔ اور کچھ نہیں ہوتا پیچھے۔ نہیں! آٹھ نشانیاں دیکھو ان میں، آٹھ نشانیاں، پکی باتیں ہیں، مطلب میں اپنی طرف سے کوئی نہیں کہہ رہا، پکی باتیں ہیں، آٹھ نشانیاں ان میں دیکھو۔ پہلی بات، اس کا عقیدہ صحیح ہو۔ جیسے میں نے عقیدوں کے بارے میں بات کی، پہلی بات عقیدہ صحیح ہو۔ کیونکہ اگر کسی کا عقیدہ غلط ہے، اس کے پاس جاؤ گے تو اپنا عقیدہ خراب کر لو گے۔ پہلی بات۔

دوسری بات، فرض عین درجے کا علم کم از کم اس کے پاس ہو۔ وہ جو آٹھ سال والا وہ تو ہے وہ تو ہو تو اور بھی اچھا ہے لیکن سب کے ساتھ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے، فرضِ عین درجے کا علم سب کے لیے ضروری ہے کیونکہ فرض سب کے اوپر یہی ہے۔ فرض عین درجے کا علم کم از کم اس کے پاس ہو، دو باتیں ہو گئیں۔

تیسری بات، اس پہ عمل ہو۔ یہ نہیں کہ ہمارے شیخ جو ہیں نا مکہ مکرمہ میں نماز پڑھتے ہیں، یہاں نہیں پڑھتے۔ ہیں اس طرح لوگ نا؟ وہ تو خانہ کعبہ میں پڑھتے ہیں، بھئی کمال کی بات ہے کھانے کے لیے ادھر آ جاتے ہیں نماز کے لیے ادھر جاتے ہیں۔ بھئی کھانا بھی ادھر کھائے نا۔ لیکن ڈرامہ بازی اور لوگ مانتے ہیں۔ کمال کی بات ہے۔ اچھا تو بہرحال یہ ہے کہ عمل بھی کرتے ہوں۔ ٹھیک ہے؟ تین باتیں ہو گئیں۔

چوتھی بات، یہ تین باتیں تو لازمی ہیں علم اور عمل کے لحاظ سے، لیکن اب ایک برکت بھی ایک چیز ہے۔ برکت یہ ہوتی ہے کہ کام آپ 100 کر لیں اور مل جائے آپ کو 2000، یہ برکت ہے۔ ٹھیک ہے نا؟ فضل، فضل ہوتا ہے نا۔ تو اب فضل، برکت کس چیز سے آتی ہے؟ صحبت سے آتی ہے۔ تو ایسے حضرات کی صحبت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تک پہنچا ہو۔ اس میں کوئی discontinuity نہ ہو۔ جس طرح حدیث شریف میں discontinuity نہیں مانی جاتی۔ تو یہ صحبت کا سلسلہ continuous آ رہا ہو۔ تو وہ برکت آپ کو اس سلسلے میں پہنچ جائے گی۔ ٹھیک ہے نا؟ چار باتیں ہو گئیں۔

پانچویں بات یہ ہے کہ ان سلاسل میں سے کسی صاحبِ نسبت نے اس کو اجازت دی ہو۔ authorize کیا ہو کہ آپ بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ آخر ڈاکٹری ہر ایک تو نہیں کر سکتا نا، جس کو مطلب ڈگری ملتی ہے تو وہی کر سکتا ہے نا۔ تو یہ بات ہے، پانچ باتیں ہو گئیں۔

چھٹی بات یہ ہے کہ ان کی reputation علماء اور صلحاء کے درمیان اچھی ہو۔ وہ ان کو جانتے ہوں کہ یہ صحیح ہے۔ چھ باتیں ہو گئیں۔

ساتویں بات، ہمارے لیے ٹیسٹ ہے۔ کہ وہ مروت نہیں کرتا ہو، اصلاح کرتا ہو۔ اصلاح کرتا ہو، مروت نہیں کرتا ہو۔ آج کل ایسے پیروں کے پیچھے لوگ جاتے ہیں جو مروت کرتے ہوں۔ مجھے آپ بتاؤ کسی ڈاکٹر سے آپ نے مروت مانگی ہے؟ اگر آپ اپنے علاج کے لیے جائیں، آپریشن کروانے اور وہ آپ کو چائے پلا دے اور کیک پیسٹری بھی کھلا دے اور بڑی اچھی اچھی باتیں کر لو اور رخصت کر لے۔ خوش ہو جائیں گے آپ؟ کہ یہ اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا تو؟ اس طرح شیخ سے بھی یہ چیزیں نہ مانگو۔ شیخ سے اصلاح مانگو۔ بلکہ ہمارے اکابر فرماتے ہیں کہ جس، جس کو دیکھو کہ شیخ اس کے ساتھ نرمی کر رہا ہے تو اس کا مطلب اس کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس کی اصلاح ہو جائے۔ اس کو بس برابر رکھتا ہے کہ چلو بھاگ نہ جائے، لیکن یہ بات ہے اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس کی اصلاح ہو جائے۔ اور جس کے اوپر سختی کرتا ہے تو اس کو اس قابل سمجھتا ہے کہ اس کی اصلاح ہو جائے۔ اور آگے کام سارا ان کی سپرد کر لیتا ہے۔ جن کے اوپر جو ہے نا وہ یعنی سختی، سختیاں کی ہوتی ہیں۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ والی بات کہ مروت نہ کرتا ہو، اصلاح کرتا ہو۔یہاں تک تو بات آ گئی۔

اب اللہ تعالی کی طرف سے فضل ایک چیز آ جاتی ہے وہ کیا ہے؟ کہ ایسے لوگوں کی مجلس میں الحمدللہ ایک خاصیت ہوتی ہے کہ اللہ یاد آ جاتا ہے۔ اور دنیا کی محبت کم ہو جاتی ہے۔ تو جس کی مجلس میں آپ کی دنیا کی محبت suppress ہو جائے اور اللہ کی محبت بڑھ جائے تو سمجھو کہ یہاں پر اللہ والے ہیں۔ کیونکہ پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ بیٹھوں گے تو کیا خیال آئے گا؟ کچھ پراپرٹی کمانے کا خیال آئے گا نا؟ کرکٹ والوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو کرکٹ، اس طرح لیکن اللہ والوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو اللہ والا بننے کا خیال آئے گا۔ بس یہی بات ہے۔ تو یہ، یہ آٹھ نشانیاں، اگر یہ آٹھ نشانیاں کسی میں پا لو تو پھر مزید دیر نہ کرو۔ بس جس کے ساتھ مناسبت ہو ان کے ساتھ لگ جاؤ۔ عمر بھر کے لیے لگ جاؤ۔ کیونکہ فائدہ اسی میں ہے۔

یعنی مناسبت جس کے ساتھ ہو، مناسبت سے مراد یہ ہے کہ آپ کو 100-150 لوگ اس قسم کے مل گئے۔ تو دیکھو کہ آپ کو کن کی باتوں سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کے آپ کو کن کی باتوں سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے محسوس ہوتا ہے، آپ کی ان کے ساتھ مناسبت زیادہ ہے۔ بس ان کے ساتھ لگ جاؤ، باقی سب کو ٹھیک سمجھو۔ لیکن لگو ان کے ساتھ۔ رہو ان کے ساتھ۔ تاکہ آپ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ تو بہرحال یہ ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو پھر دیر نہ کرو، پھر کرامات کا انتظار نہ کرو کیونکہ کرامت ولی کا فعل نہیں، اللہ کا فعل ہے۔ اللہ جب چاہتا ہے تو ہو جائے۔ آخر معجزے کے بارے میں بھی، جو لوگ معجزہ مانگتے تھے تو ان کو کیا جواب دیتا تھا قرآن؟ کہ یہ تو اللہ تعالی کی مرضی ہے۔ جب چاہے تو کر لے، جب چاہے نہ کرے۔ تو کرامت بھی اسی طرح ہے نا، مطلب وہ تو جب اللہ چاہے گا تو ہو گا، جب اللہ نہیں چاہے گا تو نہیں ہو گا۔ وہ ولی کے ہاتھ میں نہیں ہے، وہ صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں جی، اور یہ کشف، کشوف وغیرہ کے پیچھے بھی نہ پڑو۔ یعنی بہت سارے اللہ والے ہیں جن کو کشف نہیں ہوتا لیکن وہ بڑے اللہ والے ہوتے ہیں۔ اور بہت سارے فاسق فاجر ہیں جن کو کشف ہوتا ہے۔ فاسق و فاجر ہوتے ہیں جن کو کشف ہوتا ہے۔ کافروں تک کو کشف ہوتا ہے۔ آخر دیکھو نا یہ خواب جو دیکھا تھا، وہ خواب کا مرتبہ تو کشف سے زیادہ ہے نا۔ تو خواب جو دیکھا تھا یوسف علیہ السلام کے وقت میں جس نے دیکھا، وہ مسلمان تھا یا کافر تھا؟ تو ظاہر ہے مطلب دیکھ سکتا ہے۔ تو اس کا مطلب کوئی اور بھی دیکھ سکتا ہے جو کافر ہے ان کو بھی کشف ہو سکتا ہے۔ وہ کشفوں کے پیچھے نہ جاؤ۔ یہ جوگی وغیرہ ان کو زبردست کشف ہوتے ہیں۔ یہ کافر ہوتے ہیں۔ تو کشفوں کے پیچھے نہ جاؤ۔ ہاں یہ نہیں ہے کہ جوگیوں کو جو کشف ہوتے ہیں تو اولیاء اللہ کو کشف نہیں ہوتا، نہیں یہ بھی نہیں، ان کو بھی ہو سکتا ہے۔ ان کو بھی ہو سکتا ہے، تو جن کو ہو سکتا ہے ان کو ہو سکتا ہے، جن کو نہیں ہو سکتا، نہیں ہوتا تو ان کو نہیں ہوتا۔ یہ کوئی ولایت کا معیار نہیں ہے۔ یہ ہر شخص کا اپنا اپنا خاصا ہے۔ طبیعتیں ہیں، مثال کے طور بعض طبیعتوں میں یہ چیز ہوتی ہے، بعض طبیعتوں میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ لہذا ان کا انتظار نہ کرو، اصل چیز کیا ہے؟ یہ آٹھ نشانیاں ہیں۔ اگر یہ آٹھ نشانیوں پہ پورا پاؤ تو پھر اپنی مناسبت کو دیکھو۔ مناسبت ہو، ان کے ساتھ ہو جاؤ۔ بس کام بن جائے گا ان شاء الله العزیز۔

تو بہرحال یہ ہے کہ یہ میں نے عرض کیا نا میں آج صرف صرف بنیادی باتیں کروں گا۔ اس سے زیادہ نہیں کروں گا۔ تو اگر آپ حضرات اس کو سمجھیں تو پھر اپنی زندگی کے لیے بھلائی مانگیں اور وہ کیا ہے؟ اللہ پاک سے دعا مانگیں۔ کہ اے اللہ، تو ہمیں وہ راستہ نصیب فرما دے جو تیرے نزدیک سب سے بہتر ہے۔ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دعا سکھائی ہے، وہ دعا اب بھی ہم کریں گے۔ وہ کیا ہے؟

اللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا، وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ

اے اللہ ہمیں حق، حق دکھا دے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں باطل، باطل دکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔

بس یہی بات ہے، اگر ہم لوگ یہی اللہ تعالی سے مانگیں اور دیکھیں یہ بہت سارے لوگ ہیں جو باقاعدہ شیخ مانگتے ہیں۔

یہ مانگنے کی چیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دیکھو نا اپنی اصلاح کس کو مطلوب نہیں ہے۔ تو دیکھو کہ مجھے نہیں معلوم کہ میری کس کے ساتھ مناسبت ہے، کون ہے۔ تو مانگو، اللہ تعالی سے مانگو، اللہ تعالی دینے والا ہے۔ تو اللہ تعالی دے دیتا ہے۔ یہ کئی لوگوں نے مجھے خود کہا ہے، بلکہ علماء نے بعض علماء نے یعنی ایک عالم تھے وہ مجھے کہتے ایک سال میں نے اللہ پاک سے مانگا شیخ، پھر کہتے ہیں پھر تب آپ ملے۔ اور یہ ایک نہیں، میرا خیال میں دو تو کم از کم ہیں، شاید تیسرے کا بھی شک ہے۔ وہ اس طرح مطلب انہوں نے بتایا اور وہ دونوں عالم ہیں۔ مطلب انہوں نے کہا۔ اس طرح عام لوگوں کی بات ہے کہ عام لوگوں میں بھی کچھ حضرات ماشاء اللہ مسلسل اللہ پاک سے مانگتے رہے تو اللہ جل شانہ نے ان کو عطا فرما دیا۔ اللہ پاک دینے والے ہیں۔ تو اس وجہ سے مانگیں، یہ مانگنے کی چیز ہے اور اس کے لیے کوشش بھی کر لیں، پہلے لوگ سفر کیا کرتے تھے۔ باقاعدہ لمبے لمبے سفر کیا کرتے تھے شیخ کو ڈھونڈنے کے لیے کہ کون سا شیخ ہمارے لیے ٹھیک ہو گا اس کے لیے۔ تو ہم اگر سفر نہیں کر سکتے تو کم از کم تھوڑا بہت معلومات تو کریں۔ ادھر ادھر دیکھیں۔ اللہ پاک دینے والے ہیں۔ اللہ ہم سب کو نصیب فرمائے۔

و آخر دعوانا الحمدلله رب العالمین۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاهِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاهِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ

اللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا، وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ

يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِيثُ، أَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّهُ، وَلَا تَكِلْنَا إِلَى أَنْفُسِنَا طَرْفَةَ عَيْنٍ

اَللّٰهُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَاَکْرِمْنَا وَلَا تُهِنَّا وَاَعْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا وَاٰثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَیْنَا وَارْضِنَا وَارْضَ عَنَّا

اے اللہ اپنے فضل و کرم سے اس جگہ کو قبول فرما دے۔ اس کے اندر جو یا رب العالمین تیرے، یا رب العالمین دین کی بات ہو گئی یا اللہ اس کو قبول فرما دے۔ اور یا اللہ اس کو یا اللہ پورا مرکز بنا دے اور یہاں پر جو بھی آ جائے یا رب العالمین ہدایت نصیب ہو جائے۔ یا اللہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت ہم سب کو نصیب فرما دے۔ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت پاک میں اپنا دیدار پاک عطا فرما۔ اے اللہ جب تو فرمائے گا کہ میں تم سے راضی ہوں پھر کبھی ناراض نہیں ہو گا۔ اے اللہ ان خوش نصیب لوگوں میں ہمیں بھی شامل فرما دے۔ یا اللہ عمل نامہ دائیں ہاتھ سے نصیب فرما دے۔ حُسنِ خاتمہ کی عظیم دولت سے سرفراز فرما۔ موت کی سختی سے، عذاب قبر سے، پل صراط کے مشکلات سے، جہنم کے آگ اور دھوئیں سے اور حشر کی رسوائی سے ہم سب کو نجات عطا فرما۔ اے اللہ جتنے مسلمان فوت ہو چکے ہیں سب کی مغفرت فرما۔ جو ہمارے اکابر دنیا سے گئے ہیں ان کے درجات بہت بلند فرما۔ یا اللہ ان کے فیوض و برکات سے مکمل اور وافر عطا فرما اور جو ہمارے اکابر ابھی حیات ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق عطا فرما۔ پاکستان کو رہتی دنیا تک اسلام کا قلعہ بنا دے۔ جس مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا اس کے لیے قبول فرما دے۔ اور جو بھی اس مقصد سے اس کو ہٹانا چاہتا ہے، توڑنا چاہتا ہے، یا اللہ ان کو ہدایت عطا فرما۔ اگر ہدایت ان کے نصیب میں نہیں ہے تو ان کو عبرت کا نمونہ بنا دے۔ حرمین شریفین کی بالخصوص یا اللہ حفاظت فرما دے۔ ہمیں بار بار وہاں حاضری نصیب فرما دے۔ قبولیت والی یا اللہ محبت والی حاضری نصیب فرما دے۔

اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ

یا رب العالمین تو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر دل سے چلنے اور چلانے والا بنا دے۔ یا رب العالمین ہمارے دلوں کے اندر جو جائز حاجات ہیں ان کو پورا فرما، جو ناجائز حاجات ہیں ان سے ہمارے دل کو فارغ فرما دے۔ ہمیں مستجاب الدعوات بنا دے۔ جن نے دعاؤں کے لیے کہا ہے، سوچا ہے، توقع رکھی ہے، سب کی دعاؤں کو قبول فرما۔ یا اللہ ہمیں اپنے مقربین میں، محبوبین میں، محبین میں، صدیقین میں، صادقین میں شامل فرما۔ ان لوگوں میں شامل فرما جن کو دیکھ کر تو خوش ہوتا ہے، جن کے بارے میں تو فرماتے ہیں جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَئَلَکَ مِنْہُ عَبْدُکَ وَ نَبِیُّکَ وَ حَبِیْبُکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَکَ مِنْہُ عَبْدُکَ وَنَبِیُّکَ وَ حَبِیْبُکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ


سوال: شروع کرنا چاہے ذکر تو کیا کرے؟ ابھی؟

ذکر شروع کرنا چاہے مطلب کسی شیخ کی تلاش شروع کر دے؟


جواب: ہاں، ٹھیک ہے، اس طرح ہو سکتا ہے کہ ابھی، مطلب ظاہر ہے میں تو وہی بتا سکتا ہوں جو ہمارا تجربہ ہے، باقی تو جو اپنے اپنے تجربے ہوتے ہیں سب حضرات کے۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ جن کو شروع کرنا ہوتا ہے ان کو ہم بتاتے ہیں تیسرا کلمہ کا پہلا حصہ ہے، سبحان الله والحمدلله ولا اله الا الله والله اكبر، کارڈ لائیں آپ۔ ہاں کارڈ، جن کو چاہیے ہو پھر وہ کارڈ پر لکھا ہوا ہے۔ سبحان الله والحمدلله ولا اله الا الله والله اكبر، یہاں تک یعنی اس کو 300 مرتبہ پڑھنا، پھر 200 مرتبہ لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم، یہ پڑھنا، ٹھیک ہے نا؟ یہ 500 ہو گئے، یہ روزانہ ایک وقت مقرر کر کے اگر آپ اس کو کریں گے اور 40 دن تک آپ اس کو مسلسل اس میں ناغہ نہیں کریں، یہ آپ کے اندر کوئی تبدیلی لائے گا، وہ جو آپ کو خود ہی پتہ چل جائے گا، اس میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو یہ بنیاد بن جاتی ہے۔ اگر کوئی درمیان میں اس کے ناغہ نہیں کرتا تو یہ بنیاد بن جاتی ہے۔ اس کے بعد پھر ہر ایک شخص کے مطابق اپنا اپنا ہوتا ہے۔ کسی کا کیا ہوتا ہے، کسی کا کیا ہوتا ہے، تو جن کے ساتھ بھی پھر رابطہ رکھتا ہے تو پھر ان کو بتاتے ہیں، مثلاً خواتین کے لیے ہم الگ طریقہ بتاتے ہیں، مردوں کے لیے الگ طریقہ بتاتے ہیں، اور مردوں میں بھی مختلف مزاجوں کے لوگ ہوتے ہیں، کسی کا قادری، کسی کا چشتی، کسی کا نقشبندی، کسی کا سہروردی، تو جو جو کسی کی نسبت ہوتی ہے اس کے حساب سے مطلب ان کو پھر بتایا جاتا ہے۔ لیکن ابتدائی طور پر یہی ہے۔ تو اگر کوئی لینا چاہتا ہے تو وہ لے لے بے شک۔


دین کی بنیادیں: علم، عمل اور تزکیۂ نفس - خواتین کیلئے اصلاحی بیان