اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج ہمارے ہاں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب ”ہمعات“ اس پہ بات ہوتی ہے۔ آج نسبتِ یاد داشت کے بارے میں بات ہوگی، ان شاء اللہ۔
ان نسبتوں میں سے جن کا تعلق راہِ جذب سے ہے، ایک نسبت ”یاد داشت“ کی بھی ہے۔ نسبتِ یاد داشت کی وضاحت سے پہلے چند تمہیدی امور بطور مقدمہ کے بیان کرنا ضروری ہیں۔
جب ہم کسی چیز کا علم حاصل کرتے ہیں، خواہ وہ چیز از قسم مجرد ہو یا وہ چیز متحیز یعنی جگہ گھیرنے والی ہو یا وہ متحیز کے متعلقات میں سے ہو، تو ہمارے اس علم کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے ذہن میں اس چیز کی ایک صورت منقش ہوجاتی ہے۔ اور یہ ذہنی صورت آگے چل کر ذریعہ بنتی ہے اس چیز کی اصل حقیقت کے انکشاف کا۔ یعنی جب ہم نے کسی چیز کا علم حاصل کیا، تو گویا ہماری نظر اس صورت سے جو اس چیز کی ہمارے ذہن میں تھی، گزر کر اس چیز کی حقیقت تک پہنچ گئی۔ اس کی ایک مثال تو یوں سمجھئے جیسا کہ عینک میں سے جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہماری نظر عینک میں سے گزر کر اصل چیز تک پہنچ جاتی ہے اور اس وقت عینک کا وجود ہمارے خیال سے بالکل غائب ہوجاتا ہے۔ اور ہم یوں محسوس کرتے ہیں کہ ہماری نظر براہ راست اس چیز کو دیکھ رہی ہے۔ اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ ایک درخت نہر کے کنارے کھڑا ہے اور اس کا سایہ پانی میں پڑ رہا ہے۔ اب ایک شخص ہے جو اس درخت کے سائے کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہا ہے اور وہ اس کے دیکھنے میں اتنا محو ہوگیا کہ پانی کا خیال اس کے ذہن سے بالکل جاتا رہا۔
کسی چیز کے علم حاصل کرنے کی یہ شکل جو اوپر مذکور ہوئی اس کے متعلق اہلِ حکمت کے دو گروہ ہیں، قدیم حکماء کا تو یہ خیال تھا کہ جب نفسِ ناطقہ کسی چیز کا علم حاصل کرتا ہے تو اس وقت نفسِ ناطقہ اس چیز کے ساتھ جس کا اس نے علم حاصل کیا، متحد ہوجاتا ہے۔ اور بعد کے حکماء کہتے ہیں کہ کسی چیز کو معلوم کرنے کے سلسلہ میں ذہن میں اس چیز کی جو صورت بنتی ہے تو یہ صورتِ علمی بعینہٖ وہ اصل چیز ہوتی ہے جو معلوم ہوئی۔ الغرض کسی چیز کو معلوم کرتے وقت اس چیز کی جو علمی صورت ہمارے ذہن میں نقش ہوتی ہے تو اس ضمن میں مندرجہ ذیل دو حالتیں پیش آتی ہیں۔ ایک یہ کہ شئے معلوم کی طرف ہماری پوری توجہ ملتفت ہو جائے اور اس شئے کی جو علمی صورت ہمارے ذہن میں پہلے سے موجود ہے اس کی حیثیت عینک کی سی ہو جائے کہ ہماری نظر اس میں سے گزر کر شئے معلوم کا علم حاصل کرتی ہے۔ اس نوعیت علمی کو ”علمِ شئے“ کا نام دیا گیا ہے اور دوسری حالت یہ ہوگی کہ ”شئے معلوم“ کی بجائے اس شئے کی جو علمی صورت ذہن میں ہو، اس کی طرف ہماری پوری توجہ ہو اور اس دوران میں اگر اصل شئے کی طرف ہماری نظر جائے بھی تو محض ضمنی اور اجمالی طور پر۔ اس نوعیتِ علمی کو ”علم العلم“ کہا جاتا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ دوسری حالت اور پہلی حالت میں بہت زیادہ فرق نہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر دوسری حالت کی پوری نگہداشت کی جائے تو اس سے پہلی حالت کی استعداد بھی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے روپوش ہونے کے بعد یہ اس کی قائم مقام بن جاتی ہے۔
الغرض شئے مجرد ہو یا شئے متحیز ان دونوں کا علم حاصل کرنے کی تو اوپر کی یہ دو صورتیں ہوں گی۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کا ذہن حق سبحانہ کی تجلی کا علم کیسے حاصل کرسکتا ہے؟ اس سلسلہ میں یہ جاننا چاہئے کہ جب تجلئ حق صورتوں اور اشکال کے رنگ میں ظہور پیرا ہو اور اس وقت انسان کے حواس نفسانی تقاضوں سے امن میں ہوں تو اس کی روح تجلی کی صورت کی طرف کلیۃً متوجہ ہوجاتی ہے اور یہ صورت اس کے لئے نصب العین کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ انسان کو تجلی کی صورت کا مشاہدہ صرف خواب ہی میں ہو بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی جاگ رہا ہے اور اس کے حواس نفس کی خواہشات سے فارغ ہیں۔ تو اس بیداری میں بھی اس کو تجلی کی صورت نظر آجاتی ہے۔ لیکن یہ لازمی نہیں ہوتا کہ تجلی کی علمی صورت ہمیشہ کسی قسم کی شکل کیفیت اور تحیز کے بغیر ہی انسان کو نظر آیا کرے۔
تجلی اشکال اور صورتوں میں کیوں ظہور پذیر ہوتی ہے؟ اس ضمن میں معلوم ہونا چاہئے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ نے دو قوتیں ودیعت فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک تخیل کی قوت ہے، وہ چیزیں جو ذاتی طور پر کوئی شکل نہیں رکھتیں۔ اس وقت کا کام یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو نظروں کے سامنے متشکل کر دیتی ہے۔ چنانچہ قوت تخیل کی مدد سے انسان غضب اور غصے کو درندے کی شکل میں اور حرص و طمع کو کوے کی صورت میں متجسم کر لیتا ہے۔ اور دوسری قوتِ متوہمہ ہے، یہ قوت اشیاء کو شکل و رنگ سے مجرد کرکے انہیں معانی میں تبدیل کر دیتی ہے۔ قوتِ متوہمہ جس طرح کام کرتی ہے اس کی مثال یہ ہے کہ ہم نے ایک شخص کو جسے ہم ایک عرصہ پہلے دیکھ چکے تھے جونہی یاد کیا تو معًا ہمیں اشتیاق ہوا کہ اس شخص کی صورت کو چشم تصور کے سامنے لائیں۔ اب یوں ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس شخص کی ایک اجمالی اور کلی صورت ہمارے سامنے آتی ہے، یہ صورت اتنی عام ہوتی ہے کہ نہ صرف اس شخص پر بلکہ اس کے علاوہ اور بہت سے اشخاص پر بھی یہ صورت منطبق ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ صورت سمٹتی جاتی ہے اور آخرکار نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ خاص اس شخص کی صورت جسے ہم نے یاد کیا تھا، ہمارے روبرو آ موجود ہوتی ہے۔ اس طرح بعض دفعہ ایک حافظِ قرآن کو اجمالی طور پر یاد آتا ہے کہ فلاں آیت اس سورۃ میں ہے۔ اس ضمن میں پہلے تو اس کے ذہن میں اس آیت کی ایک اجمالی سی صورت آتی ہے۔ یہ اجمالی صورت اس مخصوص آیت کے علاوہ اور بہت سی آیات پر بھی محمول ہو سکتی ہے۔ بعد ازاں بتدریج یہ صورت معین ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آخر میں اس آیت کی خاص صورت ذہن میں آجاتی ہے۔ الغرض انسان کی قوتِ متخیلہ اگر مجرد معانی کو اشکال اور صورتوں کا لباس پہناتی ہے تو اس کی قوتِ متوہمہ متحیز اشیاء کو مجرد معانی میں بدل دیتی ہے۔ چنانچہ ذہن کا سلبی مفہومات کا ادراک اور افراد سے کلی امور کا استخراج کرنا یہ سب کچھ انسان کی اسی قوتِ متوہمہ کی اعجوبہ کاریوں کا نتیجہ ہے۔
نسبتِ یاد داشت کی وضاحت سے پہلے جن تمہیدی امور کا جاننا ضروری تھا ان کا اس مقدمے میں بیان ہوچکا ہے۔ اب ہم نسبتِ یاد داشت کے متعلق اصل مبحث پر آتے ہیں۔ عارف مجذوب جب ”نسبت بے نشانی“ کی حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے اور اس کے بعد جب کبھی وہ اس نسبت کی طرف پوری دل جمعی سے متوجہ ہوتا ہے، تو اس حالت میں اس کے تمام قوائے اور احساسات کلیۃً اس حقیقت کے تابع ہو جاتے ہیں جو اس کے ذہن نے ادراک کی تھی۔ یہاں عارف کی قوتِ متوہمہ میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے جو اجمالی طور پر اس ”حقیقت بے نشانی” کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس منزل میں اس خیال کی کوئی مخصوص وضع، شکل یا صورت نہیں ہوتی بلکہ اس کی نوعیت ایک خاص معنوی ہیئت کی ہوتی ہے۔ یہی معنوی ہیئت تجلی حق ہے جو عارف کی قوتِ متوہمہ میں نازل ہوئی۔ اسی طرح جب یہ معنوی ہیئت قوتِ متوہمہ کی بجائے عارف کی قوتِ متخیلہ کو اپنا آماجگاہ بناتی ہے تو عارف کے خیال میں ایک صورت آ موجود ہوتی ہے اور اسے عارف تجلئ حق سمجھتا ہے۔ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم کی تجلی، تجلی وہمی ہوتی ہے اور دوسری قسم کی تجلی، تجلی خیالی۔
عارف جب تجلی وہمی کو پا لیتا ہے تو پھر وہ اس کی باقاعدہ حفاظت کرتا ہے اور اس پر برابر نظر رکھتا ہے۔ تجلی وہمی کی اس طرح حفاظت اور نگہداشت کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عارف کے سامنے ”مرتبہ بے نشانی“ کی طرف ایک کشادہ راہ کھل جاتی ہے اور اس سے اس کے اندر بڑی استعداد پیدا ہوجاتی ہے۔ مشائخ میں سے جس بزرگ نے سب سے پہلے یہ راہ اختیار کی اور اس طریقے کو اپنا مسلک بنایا اور اس کی طرف اپنے اصحاب کو متوجہ کیا اور وہ خود بھی ہمہ تن اس میں لگ گئے۔ چنانچہ اس ضمن میں جو کچھ انہوں نے کہا، اس مقام سے کہا، اور جو کچھ کیا، اسی مقام سے کیا۔ وہ بزرگ خواجہ نقشبند ہیں۔ اس طریقے کو وہ ”دوام مراقبہ“ کہتے تھے۔ اور اسے انہوں نے ”وجہ خاص“ کا بھی نام دیا تھا۔
خواجہ نقشبند کے بعد خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ آئے اور انہوں نے جذب کے اس طریقے کو اور مختصر کردیا۔ دل کا مرتبہ ”بے نشانی“ کی طرف مائل ہونا اور اس کے سوا دل میں کسی اور خواہش کا باقی نہ رہنا۔ اور نیز جذبۂ محبت کی انتہائی کیفیت میں سرشار ہوکر چشمِ دل کو مسلسل اسی جانب متوجہ کردینا۔ خواجہ احرار نے ان کیفیات کو راہِ جذب کا خلاصہ قرار دیا۔ چنانچہ اس طرح راہِ جذب کا یہ مختصر طریقہ پیدا ہوگیا۔ اس طریقہ میں فیض پانے اور دوسروں کو فیض پہنچانے کا سارا دار و مدار دراصل صحبت پر ہے۔
خواجہ احرار کے بعد ایک زمانہ دراز گزر گیا۔ اور اس دوران میں راہ جذب کی اس کیفیت میں جو سینہ بہ سینہ برابر چلی آتی تھی تغیر رونما ہوا۔ چنانچہ اس کیفیت میں ”مرتبہ بے نشانی“ کی طرف جو میلان پایا جاتا تھا وہ مفقود ہوگیا۔ اور اس کی بجائے سالکوں نے اس چیز کو جو اصل ایمان میں داخل ہے اور اس پر وہ پہلے سے ایمان لاچکے تھے اپنا نصب العین بنایا۔ یہاں سے وہ آگے نہیں بڑھے بلکہ اسی مقام میں وہ رک گئے۔ اور اصل ایمان کی اس چیز کی حفاظت میں کوشاں ہوئے اور انہوں نے اسی نسبت کی تکمیل کی اور اسی کے قیام میں وہ مصروف ہوگئے۔ اور وہ سمجھے کہ ہم نے اصل مقصود کو پالیا۔
میر ابوالعلی کے متبعین میں سے عوام یہی نسبت رکھتے تھے اور فقیر نے ان میں سے ایک بڑی جماعت کو دیکھا بھی ہے۔ ان میں سے وہ لوگ جو اسم ”اللہ“ کو اپنے خیال میں موجود اور حاضر پاتے ہیں اور وہ اس کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ ان کی نسبت زیادہ مناسب اور موزوں ہے۔ اور جن کے خیال میں اسم ”اللہ“ کا تصور قائم نہیں ہے، ان کے نزدیک یہ نسبت اس شخص کے مشابہ ہے جس کے حواس سکر اور مستی کی کیفیات سے سرشار ہوں۔ غرضیکہ اہل جذب کے نزدیک اس نسبت کے دو رخ ہیں۔ ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔ اس نسبت کے ظاہری رخ سے مراد ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کے نسمہ میں جاگزیں ہوکر اس سے کلیۃً ملحق ہوجاتی ہے اور اسی نسبت کا باطنی رخ ”بے نشانی محض“ ہے، جس کو کہ صرف روح مجرد ہی ادراک کر سکتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جن کو جذب کی توفیق نہیں ملتی، وہ اس نسبت کو صرف اپنے نسمہ ہی میں مؤثر اور غالب دیکھتے ہیں۔ اس لئے وہ اس مقام سے اوپر اس نسبت کا کوئی اور وجود تسلیم نہیں کرتے۔
اس نسبت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ جس شخص کو یہ نسبت حاصل ہو وہ ”وجود عدم“ کی استعداد رکھتا ہے۔ ”وجود عدم“ کے معنی یہ ہیں کہ عارف جب ”مرتبہ بے نشانی“ کی طرف متوجہ ہو تو اس میں نہ تو گرد و پیش کی اشیاء کا کچھ ادراک باقی رہے اور نہ ادھر اُدھر کے خیالات اس کے ذہن میں داخل ہوں۔ اور اس نسبت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نسبت کی وجہ سے سالک پر ایسی قوی تاثیر طاری ہوجاتی ہے کہ وہ ایک نگاہ یا معمولی سی ”توجہ“ سے ”وجود عدم“ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اور حواس کی تشویشات سے اسے کلی طور پر نجات مل جاتی ہے۔ اور اسی نسبت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ اس سے سالک کی ہمت میں تیزی اور حدّت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس کی قوتِ عزم شخصِ اکبر تک جا پہنچتی ہے چنانچہ کم ہمتوں کو ہمت بندھانا، امراض کو دور کرنا اور اس طرح کے اور تصرفات کرنے کی توفیق اسی نسبت کی طفیل حاصل ہوتی ہے اور کشف و اشراف کے ذریعہ دوسروں کے دلوں کے احوال جاننا بھی اسی نسبت کا ثمرہ ہوتا ہے۔
نسبتِ یاد داشت، یاد، یاد سے چلا ہے سلسلہ۔ یاد داشت جیسے ہم کہتے ہیں: فلاں کی یاد داشت بہت تیز ہے۔ تو ”یاد داشتن“ یعنی یاد رکھنا۔ تو جو یاد داشت میں جو چیز یاد رکھی ہوئی ہے اس کو ہم یاد داشت کہتے ہیں۔ تو یہ نسبت اس سے تعلق رکھتی ہے۔
اب یہ نسبت کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے اور کس طرح فروغ پا سکتی ہے؟ اس سلسلہ میں حضرت نے سب سے پہلے اس کی تمہید باندھی ہے۔
تمہید میں یہ بات کی ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو مجرد ہوتی ہیں۔ یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ جس کی کوئی شکل وغیرہ نہیں ہوتی۔ جس کی کوئی یوں کہہ سکتے ہیں volume نہیں ہوتا، weight نہیں ہوتا، جو مطلب کثافتی چیزیں ہیں وہ اس میں نہیں ہوتیں، مجرد جیسے روح ہے۔ تو جو چیزیں مجرد ہوتی ہیں اس میں
اور دوسری متحیز جو باقاعدہ یعنی volume رکھتی ہیں، weight رکھتی ہیں، جو چیزیں مطلب ایک جسم کے ساتھ متعین ہیں وہ ساری چیزیں اس کے اندر ہوتی ہیں۔ تو ان کو متحیز کہتے ہیں۔
تو اگر ہمارے ذہن کے اندر ان میں سے کسی چیز کی صورت منقش ہوجائے، مطلب ہمارے ذہن کے اندر وہ چیز آجائے اور پھر یہ جو ذہنی صورت جو منقش ہوگئی ہے وہ اس کی اصل حقیقت پانے کے لئے راستہ بنائے۔
مثلًا میں ایک شخص کو دیکھ لوں، اس شخص کو دیکھنے سے میرے ذہن میں اس کا ایک نقش بن گیا میرے ذہن میں۔ اب میں جب بھی اس کی طرف متوجہ ہوں گا تو میں اصل میں اس نقش کی طرف متوجہ ہوں گا جو میرے ذہن میں بنا ہوا ہے۔ اور اس نقش سے میں اس کی طرف جاؤں گا۔ یعنی گویا کہ step by step، کیونکہ میرے ذہن میں تو نقش ہے، میرے ذہن میں تو وہ نہیں ہے نا۔ تو میں اگر اس نقش کی طرف متوجہ ہوا تو اس نقش کی طرف متوجہ ہونے کے بعد میں اس تک پہنچ جاؤں گا تصور میں۔ یعنی یہ ایک بات ہوتی ہے۔ اب اگر میں اس کو ذہن میں رکھتا ہوں تو مطلب یہ ہے کہ میں اس کے خیال میں اس کو لا سکتا ہوں۔ یعنی کسی وقت بھی میں ایک خیالی دنیا میں اس کو پا سکتا ہوں۔ تو ایک تو یہ صورت ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ گویا کہ جو ہماری نظر ہے، وہ اس چیز سے ہوتے ہوئے اس حقیقت کی طرف پہنچ جاتی ہے۔ اب اس چیز سے ہوتے ہوئے جو اس حقیقت تک پہنچ گئی تو پہلے میرے لئے تو وہ جو نقش ہے وہ اہم تھا، لیکن جب میں اس کی طرف متوجہ ہوگیا اور متوجہ ہونے کی وجہ سے میں اس حقیقت تک پہنچ گیا تو درمیان سے ہٹ گیا۔ اور اب میں اس حقیقت کی طرف متوجہ رہا اس نقش کی طرف متوجہ نہیں رہا۔ گویا وہ نقش کی جو صورت ہے وہ اس کا قائم مقام بن گیا۔ یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ اب میں اس نقش کی طرف نہیں دیکھ رہا ہوں بلکہ خیال ہی خیال میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں۔
بہت باریک بات ہے لیکن بڑی practical بات ہے۔ کیونکہ یہ مشائخ جب ایک دوسرے کے ساتھ communication کرتے ہیں، بعض، سب تو نہیں، تو وہ اپنے خیال میں جب اس کو لاتے ہیں تو اس خیال سے گزر کر اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔ تو یہ جو کہتے ہیں وہاں تک بات پہنچ جاتی ہے، وہ جو کہتے ہیں یہاں تک بات پہنچ جاتی ہے۔ تو اب ظاہر ہے مطلب ہے کہ گویا کہ وہ درمیان میں وہ چیز جو نقش ہے وہ تو نہیں رہا، اصل چیز تک بات پہنچ گئی۔ مطلب یہ ہے کہ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے communication ہم کررہے ہیں، یہ Video conferencing ہے یا جو بھی ہے تو میری صورت ان کے سامنے، ان کی صورت میرے سامنے ہے اور آپس میں جیسے بات ہوتی ہے۔ خیر یہ تو آج کل کی بات ہے، اس سے پہلے تو یہ باتیں نہیں تھیں۔ لیکن یہ ہے کہ اس میں فرماتے ہیں کہ جیسے کہ عینک میں سے جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہماری نظر عینک میں سے گزر کر اصل چیز تک پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت جب ہم اس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو عینک کا وجود ہمارے خیال سے غائب ہوجاتا ہے اور پھر ہم اس چیز کو دیکھتے ہیں۔ کبھی عینک کی طرف خیال آیا ہوتا ہے کہ میں عینک کی طرف دیکھ رہا ہوں؟ بلکہ میرے ساتھ تو یہ بارہا ہوا ہے کہ میں نے عینک پہنی ہوئی ہوتی ہے میں عینک کو تلاش کررہا ہوتا ہوں، عینک کدھر ہے۔ یہ بھی ایسا ہو سکتا ہے بعض دفعہ۔ یعنی انسان کو خیال ہو کہ میں نے عینک کہیں رکھی ہے اور حالانکہ عینک پہن کے میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ عینک کا خیال اس طرح ذہن سے اتر جاتا ہے۔
دوسری مثال حضرت نے دی ہے کہ ایک درخت نہر کے کنارے ہے اور دوسرا شخص اس کا جو عکس بنا ہوا ہے اس کے اندر اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور دیکھتے دیکھتے وہ جو پانی ہے جس میں عکس ہے وہ پانی ذہن سے نکل جائے اور وہ عکس ہے وہ محسوس ہورہا ہے کہ وہی ہل رہا ہے اس طرح۔
تیسری بات ذرا تھوڑی سی آسانی، سے سمجھ میں آنے والی ہے کہ دو بسیں ہیں، ایک بس میں میں بیٹھا ہوں، میں نیچے دیکھ رہا ہوں اور وہ بس چل پڑے جو ساتھ والی ہے تو میں دیکھوں گا کہ جیسے میں پیچھے جارہا ہوں، یا میری بس چل پڑے تو مجھے ایسا محسوس ہو جیسے دوسری بس پیچھے جارہی ہے۔ حالانکہ میں آگے جارہا ہوتا ہوں یا وہ آگے جارہی ہوتی ہے۔ تو خیال معکوس کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ میں اس چیز کو یاد رکھوں جو اصل ہے وہ میری معکوس صورت مطلب ہوجاتی ہے۔
تو اس طرح کسی چیز کے علم حاصل کرنے کی یہ شکل جو اوپر مذکور ہوئی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اہل حکمت کے دو گروہ ہیں، جو قدیم حکماء ہیں۔ پرانے حضرات جو تھے ان کا یہ خیال تھا نفسِ ناطقہ تو آپ لوگ جانتے ہوں گے وہ تین قسمیں جو روح کے جو اجزاء ہیں: روحِ ہوائی، نفسِ ناطقہ اور روحِ ملکوتی ان میں نفسِ ناطقہ جن میں دونوں طرف ہے، یعنی ایک طرف ملکوت ہے اور دوسری طرف ناسوت ہے۔ تو یہ ان میں چونکہ دونوں چیزیں ہیں تو فرماتے ہیں کہ: یہ نفسِ ناطقہ میں اگر کوئی چیز آجاتی ہے علم کے طور پہ تو اس وقت نفسِ ناطقہ اس چیز کے ساتھ جس کا اس نے علم حاصل کیا متحد ہوجاتا ہے۔ یعنی اس کا وہ گویا کہ سرا پا لیتا ہے۔ اور بعد کے حکماء کہتے ہیں کہ اس چیز کو معلوم کرنے کے لئے سلسلہ میں ذہن میں اس چیز کی جو صورت بنتی ہے یعنی ذہن میں میری ایک صورت بنتی ہے کسی چیز کی چاہے وہ جوہر ہی کیوں نہ ہو تو جو صورت بنتی ہے تو یہ صورت علمی بعینہٖ وہ اصل چیز ہوتی ہے جو معلوم ہوئی ہے مطلب گویا کہ وہ جو صورت ہے وہ میرے لئے ایک معلوم کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یعنی مجھے اس کا پتا ہوتا ہے، معلوم کا مطلب جس کا علم ہو۔ وہ معلوم کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ الغرض کسی چیز کو معلوم کرتے وقت اس چیز کی جو علمی صورت ہمارے ذہن میں منقش ہوتی ہے ایک ہوتا ہے خارجی صورت، ایک ہوتا ہے علمی صورت، خارجی صورت وہ ایسے ہے جیسے table ہے یہ اس کی خارجی صورت ہے۔ اور میں اپنے تصور میں اب table کو دیکھ رہا ہوں تو اس کی علمی صورت ہے۔ مجھے چونکہ معلوم ہے لہٰذا میرے ذہن میں اس کی جو شکل آئے گی وہ علمی صورت ہوگی۔
تو اس ضمن میں مندرجہ ذیل دو حالتیں پیش آتی ہیں۔ ایک یہ کہ شئے معلوم کی طرف ہماری پوری توجہ ملتفت ہوجائے یعنی جو چیز میں نے ذہن میں رکھی ہوئی ہے اور اس شئے کی جو علمی صورت ہمارے ذہن میں پہلے سے موجود ہے اس کی حیثیت عینک کی سی ہوجائے۔
یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ وہ جو چیز ہے جو میرے ذہن میں رکھی ہو تو عینک کی طرح بن جائے اور اس سے گزر کے میں اصل چیز کی طرف چلا جاؤں۔
کہ ہماری نظر اس میں سے گزر کر شئے معلوم کا علم حاصل کرتی ہے۔ اس نوعیت علمی کو ”علم شئے“ کا نام دیا گیا ہے۔
یعنی کسی چیز کا علم۔ یعنی جو علم موجود ہے ہمارے پاس وہ علم شئے ہے یعنی کسی چیز کا علم ہے۔
اور دوسری حالت یہ ہوگی کہ ”شئے معلوم“ کی بجائے اس شئے کی جو علمی صورت ذہن میں ہو،
یعنی وہ چیز نہیں بلکہ جو علمی صورت ذہن میں ہے۔
اس کی طرف ہماری پوری توجہ ہو اور اس دوران میں اگر اصل شئے کی طرف ہماری نظر جائے بھی تو محض ضمنی اور اجمالی طور پر۔ اس نوعیت علمی کو ”علم العلم“ کہا جاتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اصل شے کی طرف ہماری توجہ محض ضمنًا ہو لیکن توجہ ہماری حقیقتًا صرف اس علمی شے کی طرف ہو یہ علمی صورت ہے تو اس کو ”علم العلم“ کہتے ہیں۔ یعنی علم کا علم کیونکہ پہلے سے وہ صورت بھی تو علمی ہے نا، تو اس کا مجھے معلوم ہوگیا تو علم العلم ہوگیا نا۔
اور اس میں شک نہیں کہ دوسری حالت اور پہلی حالت میں بہت زیادہ فرق نہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر دوسری حالت کی پوری نگہداشت کی جائے تو اس سے پہلی حالت کی استعداد بھی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے روپوش ہونے کے بعد یہ اس کی قائم مقام بن جاتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ دونوں حالتوں میں یہ ایک ہی اثر پیدا کرتے ہیں۔ چاہے وہ میں توجہ رکھوں اس معلوم چیز کی طرف یا توجہ رکھوں اس کی صورت کی طرف، یہ علمی صورت ہے۔ دونوں یاد داشت ہیں، دونوں کی وجہ سے مجھے وہ چیز یاد ہوگی۔ دونوں صورتوں میں مجھے وہ چیز یاد ہوگی نا، بات نہیں سمجھ آئی؟ نہیں سمجھ آرہی؟ سمجھ آگئی۔ آپ کو سمجھ آگئی؟ ہاں یہی تو پوچھ رہا تھا۔ اچھا یہ بات ہے کہ مطلب یہ ہے کہ آپ کوئی چیز بھی ہے جس کی طرف آپ توجہ کررہے ہیں جو آپ کے ذہن میں محفوظ ہے اس کی علمی صورت، آپ اس علمی صورت کی طرف توجہ کرلیں اور اس سے آپ حقیقت کی طرف چلے جائیں یا حقیقت کی طرف جانا چاہیں تو علمی صورت کی طرف آپ کی نظر ہوجائے تو دونوں ایک نتیجہ پیدا کررہے ہیں یا نہیں کررہے؟ آپ کو وہ چیز یاد تو ہے نا اس کی وجہ سے، جس کو یاد داشت کہتے ہیں۔ کہ نہیں؟
الغرض شئے مجرد ہو یا شئے متحیز، ان دونوں کا علم حاصل کرنے کی تو اوپر کی یہ دو صورتیں ہوں گی۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کا ذہن حق سبحانہٗ کی تجلی کا علم کیسے حاصل کرسکتا ہے؟
اب اصل بات کی طرف آگیا، یعنی اللہ پاک کی تجلی، کیونکہ اللہ کو تو کوئی دیکھ نہیں سکتا لیکن اللہ پاک کی تجلی کو کیسے پا سکتا ہے؟
اس سلسلہ میں یہ جاننا چاہئے کہ جب تجلئ حق صورتوں اور اشکال کے رنگ میں ظہور پیرا ہو اور اس وقت انسان کے حواس نفسانی تقاضوں سے امن میں ہوں۔
نفسانی تقاضوں سے مثلًا کسی کو کھانے کی طلب ہو، کسی کو سونے کی طلب ہو، کسی کو کسی اور چیز کی طلب ہو؛ یہ نفسانی تقاضے ہیں سارے۔ بے شک جائز ہی کیوں نہیں ہیں۔ ناجائز کی بات نہیں کررہا ہوں جائز ہی کیوں نہیں لیکن بہرحال ذہن اس میں مصروف تو رہے گا نا۔ اگر کوئی نفسانی تقاضا ہوگا تو اس طرف ذہن جائے گا، جب ذہن جائے گا تو اس چیز کی طرف نہیں جائے گا جس طرف اس کو لے جانا چاہتے ہیں۔ مطلب وہاں پر مسئلہ تو ہوگا۔
ذرا بہت بڑی جرأت کرکے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں، اس کا ہم روزانہ مشاہدہ بھی کرتے ہیں، کیسے، روزانہ اس کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ دعا جب ہم کرتے ہیں تو دعا میں ہم کس کے سامنے ہاتھ اٹھائے ہوتے ہیں؟ اللہ کی طرف۔ کیوں اس وقت اللہ کی طرف خیال جاتا ہے اگر نفسانی تقاضے ہوں؟ کبھی ادھر کبھی ادھر، کبھی کیا کبھی کیا؛ وہ آمُوختَہ دعا سا ہوتا ہے اصل دعا تو نہیں ہوتی۔ تو اسی چیز کی کمی ہے نا۔ تو یہ نفسانی تقاضوں سے امن میں ہوں، تو اس کی روح تجلی کی صورت کی طرف کلیۃً متوجہ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ میں جب دعا بھی کررہا ہوں تو میں اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوں تو کسی تجلی کی طرف متوجہ ہوں۔ کیونکہ اللہ جل شانہ تو وراء الوراء ہے۔ سمجھ میں آگئی نا بات؟ خانہ کعبہ کی طرف میں بیٹھا ہوں تو میں کس کی طرف بیٹھا ہوں؟ اللہ کی طرف ہوں گا، لیکن وہ تو تجلی ہے۔ تجلی مسجودی ہے۔ تو میں خانہ کعبہ کی طرف اگر متوجہ ہوں تو یہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے، لیکن یہ تجلی کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو وراء الوراء ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر خانہ کعبہ کی طرف بھی متوجہ نہیں ہوتے اور خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں جب نفسانی تقاضے ہوتے ہیں۔ اور نفسانی تقاضے بعض دفعہ اتنے بودے ہوتے ہیں کہ آدمی کو صحیح بات ہے کہ حیرت ہوجاتی ہے۔ خانہ کعبہ کی طرف ہے، بیٹھے ہوئے ہیں خانہ کعبہ کی طرف لیکن تصویر بنا رہے ہیں Clock tower کی، تو خانہ کعبہ کی طرف ہے؟ دل میں تو خانہ کعبہ پھر نہیں ہے۔ لوگوں کی تصویریں بنا رہے ہیں جی لوگ چل رہے ہیں لوگوں کی تصویریں بنا رہے ہیں۔ خطبہ پڑھا جارہا ہوتا ہے، امام خطبہ پڑھ رہا ہوتا ہے اس وقت کھڑے ہوکر تصویر بنا رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہیں نفسانی تقاضے۔ تو یہ بالکل صاف مثال ہے خانہ کعبہ تجلی ہے تو اس تجلی کی طرف ہم متوجہ نہیں ہو سکتے آگے کی کیا بات ہوگی۔ تو اتنا زیادہ اپنے آپ کو ان نفسانی تقاضوں سے بچانا ہوگا، ان نفسانی تقاضوں سے بچنے کا آسان ترین راستہ محبت ہے جو کہ حضرت ابھی بیان فرما رہے ہیں، اس کے بغیر ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ نفسانی تقاضوں کو وقتی طور پر جو دبا سکتی ہے وہ محبت ہی دبا سکتی ہے۔ وقتی طور پر کی بات کررہا ہوں مستقل طور پہ نہیں۔ بھئی کم از کم دعا کے دوران ہی محبت کی وجہ سے اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ تو کافی ہے یا نہیں ہے؟ اگر آپ کی کم از کم دعا کے وقت بھی اللہ کی طرف توجہ ہوجائے تو کام بن جائے گا نا آپ کا؟ لیکن اگر دعا کے وقت بھی اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتے پھر کس وقت متوجہ ہوں گے، بتائیں؟ پھر تو نہیں ہو سکتے۔ یہی اصل میں نفسانی تقاضوں کی بات ہے۔
اور یہ صورت اس کے لئے نصب العین کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے وہ تجلی، لیکن یہ ضروری نہیں کہ انسان کو تجلی کی صورت کا مشاہدہ صرف خواب ہی میں ہو، بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی جاگ رہا ہے اور اس کے حواس نفس کی خواہشات سے آزاد ہیں۔ تو اس بیداری میں بھی اس کو تجلی کی صورت نظر آجاتی ہے۔
یعنی یوں سمجھ لیجئے، تجلی تو ہر وقت ہے، وہ تو exist کرتی ہے، لیکن حجابات ہیں نفسانی تقاضوں کے، ان حجابات کی وجہ سے آپ کو نظر نہیں آرہی۔ تو یہ حجابات اگر خواب میں دور ہوجائیں تو خواب میں نظر آسکتی ہے اور اگر جاگنے میں بھی دور ہوجائیں تو جاگنے میں بھی نظر آسکتی ہے، اصل تو حجابات ہیں، نفسانی تقاضوں کے۔
لیکن یہ لازمی نہیں ہوتا کہ تجلی کی علمی صورت ہمیشہ کسی قسم کی شکل کیفیت اور تحیز کے بغیر ہی انسان کو نظر آیا کرے۔
تجلی اشکال اور صورتوں میں کیوں ظہور پذیر ہوتی ہے؟ اس ضمن میں معلوم ہونا چاہئے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ نے دو قوتیں ودیعت فرمائی ہیں۔ اب ذرا تھوڑا سا اس کی جڑ کی طرف جارہے ہیں ان میں سے ایک تخیل کی قوت ہے جو ہر شخص میں ہے، خیال…. وہ چیزیں جو ذاتی طور پر کوئی شکل نہیں رکھتیں۔ اس قوت کا کام یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو نظروں کے سامنے متشکل کردیتی ہے۔
مثلاً جنات، فرشتے تو انسان کا اس کا بھی بنا لیتا ہے کوئی۔
چنانچہ قوت تخیل کی مدد سے انسان غضب اور غصے کو درندے کی شکل میں اور حرص و طمع کو کوے کی صورت میں متجسم کرلیتا ہے۔ اور دوسری قوتِ متوہمہ ہے۔ واہمہ یہ قوت اشیاء کو شکل و رنگ سے مجرد کرکے انہیں معانی میں تبدیل کردیتی ہے۔
یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ خیال سے آنا ہے صورت کی طرف، یہ تو قوتِ تخیل ہے۔ اور صورت سے معانی کی طرف یہ توہم ہے۔ صورت سے معانی کی طرف جانا، گویا reverse process ہے۔ صورت سے معانی کی طرف جانا اور جو چیز آپ کے ذہن میں ویسے تو اس کو خیال میں متشکل کرلینا یہ دونوں چیزیں، تو ایک تو تخیل کہتے ہیں دوسرے کو وہمہ کہتے ہیں۔
قوتِ متوہمہ جس طرح کام کرتی ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ ہم نے ایک شخص کو جسے ہم ایک عرصہ پہلے دیکھ چکے تھے، جونہی یاد کیا تو معًا ہمیں اشتیاق ہوا کہ اس شخص کی صورت کو چشم تصور کے سامنے لائیں۔ اب یوں ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس شخص کی ایک اجمالی اور کلی صورت ہمارے سامنے آتی ہے، یہ صورت اتنی عام ہوتی ہے کہ نہ صرف اس شخص پر بلکہ اس کے علاوہ اور بہت سے اشخاص پر بھی یہ صورت منطبق ہوجاتی ہے۔
مثلًا پہلے میں نے دیکھا انسان ہے تو انسان تو بہت سارے ہیں۔ اور پھر وہ پٹھان ہے تو پٹھان تو بہت سارے ہیں۔ پھر وہ فلاں گاؤں کے ہیں تو اس کے بھی بہت سارے ہیں۔ ہوتے ہوتے جس کو ہم کہتے ہیں تجرید و تفرید، تجرید و تفرید کے ذریعہ سے focusing در focusing در focusing در focusing اس پر آپ آجاتے ہیں۔
اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ صورت سمٹتی جاتی ہے اور آخرکار نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ خاص اس شخص کی صورت جسے ہم نے یاد کیا تھا ہمارے روبرو آ موجود ہوتی ہے۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے مثلًا کسی کا نام میں بھول جاتا ہوں تو میں اس کو یاد رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو بہت سارے نام میرے ذہن میں آرہے ہوتے ہیں، اسی میں selection کے process چل رہی ہوتی ہے، چل رہی ہوتی ہے، چل رہی ہوتی ہے؛ اخیر میں پتا چلتا ہے کہ اس کا نام تو یہ ہے۔ تو memory کو انسان کھنگال رہا ہوتا ہے۔
اس طرح بعض دفعہ ایک حافظِ قرآن کو اجمالی طور پر یاد آتا ہے کہ فلاں آیت اس سورۃ میں ہے۔ اس ضمن میں پہلے تو اس کے ذہن میں اس آیت کی ایک اجمالی سی صورت آتی ہے۔ یہ اجمالی صورت اس مخصوص آیت کے علاوہ اور بہت سی آیات پر بھی محمول ہو سکتی ہے۔ بعد ازآں بتدریج یہ صورت معین ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آخر میں اس آیت کی خاص صورت ذہن میں آجاتی ہے۔ الغرض انسان کی قوتِ متخیلہ اگر مجرد معانی کو اشکال اور صورتوں کا لباس پہناتی ہے تو اس کی قوتِ متوہمہ متحیز اشیاء کو مجرد معانی میں بدل دیتی ہے۔ چنانچہ ذہن کا سلبی مفہومات کا ادراک اور افراد سے کلی امور کا استخراج کرنا یہ سب کچھ انسان کی اسی قوتِ متوہمہ کی اعجوبہ کاریوں کا نتیجہ ہے۔
مطلب یہ ہے جو افراد ہیں اس سے کلیہ بنانا، یہ سائنس ہے۔ سائنس یہی ہے کہ آپ مطلب یہ ہے کہ مختلف experiments ہوتے ہیں، مشاہدات ہوتے ہیں اس سے آپ کسی نتیجے پہ آکے ایک equation بناتے ہیں۔ تو یہ یہ کیا چیز ہے، یہ قوتِ متوہمہ ہے۔ باقاعدہ اس سے ایک formula بناتے ہیں، ایک کلیہ بناتے ہیں جس کے ذریعہ سے پھر آپ باقی چیزیں خود calculate کرسکتے ہیں۔ تو یہ قوتِ متوہمہ ہوتی ہے اس کے ذریعہ سے یہ ہوتا ہے۔
نسبتِ یاد داشت کی وضاحت سے پہلے جن تمہیدی امور کا جاننا ضروری تھا ان کا اس مقدمے میں بیان ہوچکا ہے۔ اب ہم نسبتِ یاد داشت کے متعلق اصل مبحث پر آتے ہیں۔ عارف مجذوب دو لفظ ہیں عارف جس کو معرفت حاصل ہے، مجذوب جس کو جذب حاصل ہے۔ جب ”نسبت بے نشانی“ بے نشانی سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی ایسی چیز جس کا کوئی نشان نہیں ہے ﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ﴾ مطلب اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ بے چون و بے چگون حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسکا مطلب لیتے ہیں۔
عارف مجذوب جب ”نسبت بے نشانی“ کی حقیقت سے واقف ہوجاتا ہے اور اس کے بعد جب کبھی وہ اس نسبت کی طرف پوری دل جمعی سے متوجہ ہوتا ہے، تو اس حالت میں اس کے تمام قوائے اور احساسات کلیۃً اس حقیقت کے تابع ہوجاتے ہیں جو اس کے ذہن نے ادراک کی تھی۔
ذہن نے مختلف وجوہات سے مختلف چیزوں سے ادراک کی تھیں لیکن جس وقت اس نے توجہ کی تو سارے ادراکات اس کے ساتھ شامل ہوگئے اور اس نے ایک حقیقت کا روپ دھار لیا۔
یہاں عارف کی قوتِ متوہمہ میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے جو اجمالی طور پر اس ”حقیقت بے نشانی“ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ایک خیال ہوتا ہے جس سے وہ conclude کرتا ہے کوئی چیز۔
اس منزل میں اس خیال کی کوئی مخصوص وضع، شکل یا صورت نہیں ہوتی بلکہ اس کی نوعیت ایک خاص معنوی ہیئت کی ہوتی ہے۔
ہیئت بھی صورت کو کہتے ہیں۔ معنوی یعنی معنی کے لحاظ سے اس کی صورت بنتی ہے، معنوی صورت۔
یہی معنوی ہیئت تجلئ حق ہے جو عارف کی قوتِ متوہمہ میں نازل ہوئی۔
میں دوسری بات میں کہہ سکتا ہوں ہیلی کاپٹر land کرتا ہے جہاز land کرتا ہے اس کے لئے کوئی landing pad ہونا چاہئے، ایئر پورٹ ہونا چاہئے۔ یہ جتنی بھی محنت آپ قوتِ وہمہ اور قوتِ متخیلہ کو organize کرنے کی کرتے ہیں، یوں کہہ سکتے ہیں اس کو helipad بنانے اور ایئر پورٹ بنانے کے لئے کررہے ہوتے ہیں کہ اس پہ وہ تجلی نازل ہوجائے۔ کیونکہ اگر وہ نہیں ہے تو پھر وہ تجلی نہیں آئے گی۔ کیونکہ وہ اس کے لئے وہ موجود نہیں ہے مطلب جس کو کہتے ہیں نازل ہونے کی جگہ موجود نہیں ہے۔ یعنی یوں کہہ سکتے ہیں ایک طرف تو حجابات ہیں جس کی وجہ سے آپ کو نظر نہیں آتا، اور ایک طرف آپ نے اس کے لئے وہ مناسب میدان نہیں بنایا تو اس وجہ سے وہ تجلئ حق نازل نہیں ہوتی۔ تو یہ پورا process جو ہے وہ اصل میں اس حقیقت بے نشانی کا جو نزول ہے اس کے لئے آپ اپنے دل کو سنوار رہے ہیں۔ کیا لکھا ہے یہ اوپر؟ یہ شعر سنو، پڑھ لو؛
دور باش افکارِ باطل، دور باش اغیار دل
یہ، یہ کیا چیز ہے؟ وہی نفسانی تقاضے ہیں نا، اور؟
سج رہا ہے شاہِ خوباں کے لیے دربارِ دل
بس، سمجھ میں آگئی ناں بات؟ حضرت نے یہی بات تو فرمائی ہے نا کہ ذکر سے پہلے اپنے ذکر کے لئے دل بناؤ تاکہ اس کے اوپر وہ تجلی آسکے۔ ورنہ آپ سر ہلا رہے ہوں گے لیکن وہ چیز نہیں آئے گی۔ مطلب اس کے لئے میدان بناؤ۔ دیکھیں نا کتنی زبردست حقیقت ہے کہ اس وقت جو نسبت بے نشانی ہے، چونکہ اب اللہ جل شانہ کی ذات وراء الوراء ہے تو اس اللہ کی یاد کے لئے پہلے تو جگہ بنا ؤ، صاف کرو، نفسانی تقاضوں سے پاک کرو، پھر جو carriers ہیں، نسبتِ یاد داشت یعنی اس کی قوت متخیلہ قوتِ وہمہ، اس کو ماشاء اللہ train کرو۔ train سے مراد یہ ہے کہ اس کو یعنی طریقہ کار سمجھاؤ کہ وہ عین موقع پر صحیح سوچ سکے، صحیح ادراک کرسکے، صحیح اندازہ کرسکے۔ تو یہ ایک پورا process ہے مطلب لیکن بہرحال یہ process اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے لیکن چیز تو ایسی ہے کہ اس کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا۔
نسبتِ یادداشت کا بقیہ حصہ
اگلے درس میں ہوگا - ان شاءاللہ
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ