دل کی اصلاح: غفلت کی دنیا میں ذکر اور شیخِ کامل کی ضرورت

یہ بیان 18 جنوری 2019 کو جامع مسجد توکلی راولپنڈی میں ہوا جو دوبارہ براڈکاسٹ کیا گیا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ (البقرۃ: 152)

و قال اللہ تعالیٰ: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشمس: 9-10) و قال اللہ تعالیٰ :اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫ (آل عمران: 19)

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

بزرگو اور دوستو! اس وقت ہم بازار میں ہیں، یعنی بازار میں ایک مسجد بنی ہوئی ہے، اس میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ بازار میں جو لوگ ہوتے ہیں، وہ اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوتے ہیں، لیکن بازار میں ہر طرح کی چیزیں ہوتی ہیں۔ لوگ آکر بازار کی سیر کرلیتے ہیں، لیکن خود جو بازار میں کام کرنے والے ہوتے ہیں، وہ اپنی چیزوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ ان کو بعض دفعہ پتا بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے پاس کیا ہورہا ہے۔ ظاہر ہے، ان کی ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ دنیا بھی ایک بازار ہے۔ اس میں بھی بہت کچھ ہے؛ دل لبھانے کے لئے، غفلت کے لئے، اپنے مقصد کو بھول جانے کے لئے بہت کچھ ہے۔ لیکن ہوشیار لوگ کیا کرتے ہیں؟ وہ اپنے مقصد کو دیکھتے ہیں کہ میرا مقصد کیا ہے، میں یہاں پر کس لئے آیا تھا؟ اب یہاں پر آکر کوئی پائپ خریدنے کے لئے آیا ہو اور ادھر ادھر دیکھے، ڈگڈگی بجانے والے کو اور مختلف چیزیں جو دکانوں میں سجی ہوئی ہیں، ان کو دیکھ کر اس کے تماشے میں لگ جائے، گھر چلا جائے۔ گھر والے پوچھیں، "وہ پائپ لے آئے؟" کہتا ہے، "اوہ! وہ تو میں بھول گیا۔" تو اس کو لوگ کیا کہیں گے؟ بازار اس لئے گئے تھے کہ آپ ان چیزوں کو دیکھ لیں؟ بلکہ آپ تو پائپ لانے کے لئے چلے گئے تھے۔ اسی طرح ہم سے بھی پوچھا جائے گا، پانچ سوالات ہر شخص سے کیے جائیں گے: اپنی زندگی کیسے گزاری؟ اپنا مال کیسے کمایا؟ اپنا مال کیسے خرچ کیا؟ اپنا علم کیسے استعمال کیا؟ اور اپنے جسم کو کیسے کن چیزوں میں استعمال کرلیا؟ چونکہ یہ زندگی مشغولی کی زندگی ہے اور ہم بہت ساری ایسی چیزوں میں مشغول ہیں جو ہمارے اس مقصد میں نہیں آتیں، لیکن وہ مشغولی اس درجہ کی ہے کہ اگر کوئی بتا دے کہ کیا کرنا ہے، آپ کس لئے آئے تھے، تو شاید ان کی بات سننے کے لئے بھی لوگ تیار نہ ہوں۔ اس درجہ کی مشغولی ہے۔ اس وجہ سے چونکہ چانس دوبارہ ملنا نہیں ہے، بازار تو آپ دوبارہ بھی آسکتے ہیں۔ اگر ایک دن آپ بھول گئے تو اگلے دن آپ بے شک آجائیں، ایک ہفتے کے بعد آجائیں، لیکن دنیا سے جو کوئی چلا گیا تو وہ دوبارہ نہیں آسکتا۔ لہٰذا، یہاں پر ہمیں خود ہی کچھ ایسا انتظام کرنا پڑے گا کہ سوچ بھی آجائے اور اس سوچ کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بھی ہوجائے۔ یہ ذرا کرنا پڑے گا۔ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہماری سمجھ بوجھ پر چھوڑا ہوا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اگر زبردستی سمجھانا چاہتے تو اس کے لئے کیا مشکل تھا؟ قہارانہ انداز میں اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن اللہ جل شانہٗ قہارانہ انداز کو استعمال نہیں کرنا چاہتا، وہ حکیمانہ انداز استعمال کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا، پیغمبر بھیجے، کتابیں بھیجیں اور پھر اس کے بعد بھی اللہ پاک نے ایسے نظامِ ہدایت کے جاری رکھے ہیں کہ جو ان کے ساتھ شامل ہوگیا تو ان کو فائدہ ہوجاتا ہے، ان کو سمجھ آجاتی ہے۔

تو جیسے میں نے عرض کیا، جو اس field کے لوگ ہیں، جو اس field کے بڑے ہیں، اب ظاہر ہے کسی کو دل کی بیماری ہے تو heart specialist کے پاس جائے گا، وہ ENT والوں کے پاس نہیں جائے گا۔ بلکہ ENT والوں کے پاس چلا بھی جائے تو اس کو heart specialist کی طرف refer کرلیں گے کہ مسئلہ اس کا ہے۔ تو اسی طریقہ سے جو اس field کے specialist لوگ ہیں، انہوں نے اس پر ریسرچیں کی ہیں کہ کس طریقہ سے ہم لوگ اس بنیادی مقصد کو پورا کرسکیں، اس کے لئے انہوں نے بڑی محنتیں کی ہیں۔ اب ذرا غور سے سنیں۔ اس دنیا میں زیادہ کافر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 84 فیصد declared کافر ہیں۔ 16 فیصد صرف مسلمان کہلائے جاسکتے ہیں۔ مسلمان ہیں یا نہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں، اس کا پتا نہیں ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہوگا کتنے لوگ ہیں جو کہ مسلمانوں کے نام سے پھر رہے ہیں لیکن اللہ جل شانہ کے ہاں مسلمان نہیں ہیں، ایسا ہے۔ تو جو مسلمان کہلائے جاسکتے ہیں، کم از کم ظاہری طور پر، وہ صرف 16 فیصد ہیں۔ پھر جو کافر ہیں، ان میں کچھ کافر ایسے ہیں کہ وہ ہیں کافر، لیکن ان کو کسی اور کو کافر بنانے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، بس خاندانی طور پر چلے آرہے ہیں، بدقسمت ہیں۔ لیکن کچھ کافر ایسے ہیں جو باقاعدہ committed کافر ہیں، وہ باقاعدہ اور لوگوں کو بھی کافر بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی بڑی تحقیقات ہیں، اس پر انہوں نے بڑی ریسرچیں کی ہوئی ہیں اور آج کل جو وسائل ہیں، ان کو پورا پورا استعمال کررہے ہیں؛ confusions پیدا کرنا، لوگوں کو ایسی چیزوں سے میں مشغول کرلینا جس سے وہ اپنے مقصد کو بھول جائیں، ایسا ہے۔ ان میں جو نمبر ایک پہ آتے ہیں وہ یہودی ہیں، پہلے نمبر پہ جو آتے ہیں وہ یہودی ہیں۔ اور پھر یہودیوں نے جن کو گمراہ کیا، عیسائیوں کو یا دوسرے لوگوں کو، پھر وہ ان کے ساتھ مل کے وہی کام کرتے ہیں، لیکن پیچھے یہودی ہوتے ہیں۔ اور ان یہودی ظالموں نے ایسے عجیب نظام بنائے ہوئے ہیں، intelligent لوگ ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، کہ وہ خود ان برائیوں کے قریب نہیں پھٹکتے ہیں جن میں دوسروں کو لاتے ہیں۔ اتنا will power ہے ان کے اندر کہ اپنے بچوں کو اس کے قریب نہیں جانے دیتے، اپنی عورتوں کو ان کے قریب نہیں جانے دیتے اور آپ کے لئے ساری خرابیاں ڈیزائن کریں گے۔ ہر جگہ پر جو شر ہوگا، ان کے پیچھے کوئی یہودی تنظیم ہوگی۔ یہ ہے۔ تو وہ بہت intelligently game کھیلتے ہیں اور اس طریقہ سے وہ ہمارے تمام جذبات کو خراب کرتے ہیں، احساسات کو خراب کرتے ہیں، صحیح کو غلط سمجھنے کو فروغ دیتے ہیں اور غلط کو صحیح سمجھنے کے لئے کوششیں کرتے ہیں۔ یہ معاملہ ان کا چل رہا ہوتا ہے۔ اور جہاں بھی جاتے ہیں، سب سے پہلے دو چیزوں پہ قبضہ کرتے ہیں: ذرائع مواصلات اور پیسہ کمانے کی چیزیں۔ یہ ان کے اوپر بڑا قبضہ ہوتا ہے، یہ ان کا بنیادی core کی چیزیں ہوتی ہیں۔ اور جو لوگ ان کے followers ہیں، مثلاً قادیانی type لوگ، وہ بھی یہی۔ وہ بھی جہاں جاتے ہیں تو پہلے یہی کام کرتے ہیں کہ مواصلات پہ قبضہ کرلو اور جو معیشت کی جو چیزیں ہیں، ان کے اوپر قبضہ کرلو۔ تو یہ سلسلے جاری ہیں۔

اب ہم لوگوں کو ان کے اس شر سے بچنا بھی ہوگا اور اپنی حقیقت کو سمجھنا بھی ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ہمارے بڑوں نے ریسرچیں کی ہیں، اس ریسرچ کو بھی استعمال کرنا ہوگا کہ ہم کس طریقے سے ان کے شر سے بچ جائیں۔ اب دیکھ لو، کوئی بھی اپنے آپ کو قصداً خراب نہیں کرنا چاہتا۔ دنیا میں تو شاید ہی کوئی ایسا پاگل ہوگا جو اپنے آپ کو قصداً خراب کر رہا ہوگا، ایسا تو ممکن نہیں ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے انسان خراب ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں بہت چھوٹی سی آیت، ماشاء اللہ، اس کے اندر پورا آئینہ موجود ہے اور وہ ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں:

كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ (القیامۃ: 20-21)

ہرگز نہیں، بلکہ تم جو فوری چیز ہے اس کو پسند کرتے ہو اور جو بعد میں آنے والی چیز ہے اس کو چھوڑتے ہو۔

یہ وہ گِرہ ہے جو ہمیں اگر سمجھ آجائے تو ہماری بہت ساری چیزیں خود بخود ٹھیک ہوجائیں۔ پھر اللہ پاک نے ایک اور جگہ بہت حکیمانہ انداز میں ایک بات فرمائی ہے، اگر اس پہ ہم غور کرلیں تو ہمیں target مل جائے یہاں deviation سے بچنے کا۔ فرمایا ہے کہ تمھارا deviation کس وجہ سے ہے؟ وہ اس وجہ سے ہے کہ تم قریبی چیز کو لیتے ہو، اس کو پسند کرتے ہو، جو بعد میں آنے والی چیز کو چھوڑتے ہو۔ یہ ہماری کمزوری بتائی، لیکن ساتھ ہی اللہ جل شانہ نے جو ہمیں target دیا ہے، سمجھانے کے لئے ایک چیز عطا فرمائی، وہ کیا ہے؟

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى (الاعلیٰ: 16-17)

بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت اچھی بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی ہے۔

آخرت اچھی بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی ہے۔ یہ دو چیزیں اگر ہم سامنے رکھ لیں اور اس کے اندر غور کرتے رہیں، غور کرتے رہیں، غور کرتے رہیں، غور کرتے رہیں، ہمارے اوپر چیزیں کھلتی جائیں گی، کھلتی جائیں گی، کھلتی جائیں گی اور ہم لوگ حق کی طرف آتے جائیں گے، ان شاء اللہ۔ یعنی عقل کو appeal کرنے والی بہت زبردست چیزیں۔ اب دیکھ لیں، میں آپ سے ایک بات عرض کرتا ہوں۔ میں ایک چیز بناتا ہوں جس پر میرا ایک سال لگتا ہے اور وہ میں تیس سال کے لئے استعمال کرسکتا ہوں۔ اگر میں اس پر چھ مہینے لگا کر تیس سال استعمال کرسکوں تو کیسا ہوگا؟ Improvement ہے۔ اگر میں تین مہینے لگا دوں اس پر اور تیس سال استعمال کرسکوں، پھر کیسا ہوگا؟ مزید improvement۔ اگر میں ایک مہینہ اس پہ لگاؤں اور تیس سال کے لئے استعمال کرسکوں؟ مزید improvement۔ اگر میں ایک دن لگاؤں اور تیس سال کے لئے استعمال کرسکوں؟ بہت بڑی improvement۔ اگر ایک منٹ لگا دوں اور تیس سال کے لئے استعمال کرسکوں، پھر؟ اور اگر ایک منٹ لگاؤں سو سال کے لئے استعمال کرسکوں، پھر؟ اگر ایک منٹ لگاؤں ہزار سال کے لئے استعمال کرسکوں... اب بڑھتے جائیں، نتیجہ کیا ہے؟ اب دیکھو، میں گھر بنا رہا ہوں، سال میں گھر بن جاتا ہے۔ تیس سال، چالیس سال، پچاس سال کے لئے میں اس کو استعمال کرسکتا ہوں، بشرطِ زندگی۔ بشرطِ زندگی! زندگی گئی تو کچھ بھی نہیں! ایسے لوگ ہیں گھر بناتے بناتے فوت ہو گئے، ان کو ایک دن بھی اس میں گزارنا نہیں ملا۔ لیکن میں ابھی پڑھتا ہوں، بلکہ پہلے وہ حدیث شریف پڑھتا ہوں۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمٰنِ، خَفِيْفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيْزَانِ۔

دو کلمے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں، زبان پہ ہلکے ہیں اور میزان میں بھاری ہیں، وہ کون سے ہیں؟

سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ۔

اور پھر فرمایا: افضل الذکر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ۔

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا ذکر سب سے افضل ذکر ہے۔

اب ایک شخص ہے، وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھتا ہے۔ کتنی دیر لگے گی؟ اور کتنا خرچ ہوگا اس کے اوپر؟ اور کتنی دیر لگے گی اس پر؟ لیکن کیا یہ سو سال کے لئے ہے جو اجر ملے گا؟ ہزار سال کے لئے ہوگا؟ دس ہزار سال کے لئے ہوگا؟ لاکھ سال کے لئے ہوگا؟ Calculation ختم ہوجائے گی لیکن اس کا اجر ختم نہیں ہوگا۔ Calculation ختم ہوجائے گی، اس کا اجر ختم نہیں ہوگا۔ اس سے پتا چلا کہ یہ جو ذکر ہے، یہ بہت ہی اونچی چیز ہے، بہت ہی اونچی چیز ہے۔ اس ذکر کے ذریعہ سے آپ آخرت کی لامحدود زندگی کے برکات حاصل کرسکیں گے، لامحدود زندگی کے آپ برکات حاصل کرسکتے ہیں۔ پھر دیکھو، یہ تو ذکر کی ایک بات ہوگئی کہ آپ کو اجر مل رہا ہے، ماشاء اللہ۔

اس کا اثر کیا ہے؟ سبحان اللہ!

فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ (البقرۃ: 152)

پس مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔

سبحان اللہ! کیا بڑی بات ہے! حدیث شریف میں آتا ہے، جس کے ہونٹ ذکر پر ہل رہے ہوتے ہیں، اس وقت وہ اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں، اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں، معیتِ الہٰی اس کو نصیب ہوچکی ہوتی ہے۔ یہاں پر آپ ٹیلی فون پر ٹیلی فون کریں وزیر کو، receive کرے گا؟ کریں نا؟ نہیں، آپ کو پتا چلے گا۔ آپ ان کے جتنے کام کریں لیکن جب آپ کا کام پڑ جائے گا، پتا چل جائے گا کہ وہ تو موجود نہیں ہے، یہ ہے، وہ ہے، بہانے ادھر ادھر کے، ہوتے ہیں ناں؟ لیکن اللہ جل شانہ کا معاملہ ایسا نہیں ہے؛ اِدھر تو نے ذکر کیا، اُدھر آپ کے ساتھ۔ پھر یہ اثر ہے، لیکن اس کا پھر ایک اور اثر ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ہر چیز کے لئے صقالہ ہوتا ہے، صفائی کا آلہ ہوتا ہے، دلوں کی صفائی کا آلہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔" دلوں کی صفائی کا آلہ اللہ کا ذکر ہے۔ اب دیکھو، دنیا کی محبت میرے دل میں، كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ، دنیا کی محبت ہے، عاجلہ کی محبت ہے، بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا، دنیا کی زندگی۔ پھر میرا دل ریجھ رہا ہے، قرآن بتا رہا ہے۔ اب اس کا علاج کیا ہوگا؟ اس کا علاج ذکر ہوگا، ذکر ہوگا۔ آپ کہیں گے، "کیسے ذکر ہوگا علاج؟" بھئی اس کے دو جواب ہیں: ایک ایمانی جواب ہے اور ایک تشریحی جواب ہے۔ ایمانی جواب تو میں نے دے دیا؛ کون فرما رہے ہیں؟ آپ ﷺ فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ کی ہر بات سچی، آپ ﷺ کو کافر بھی جھوٹا نہیں کہہ سکے، تو آپ ﷺ نے فرما دیا تو بات پکی ہے۔ اس کے درمیان کسی اور بات کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن وہی ابراہیم علیہ السلام کی بات: وَ لٰـكِنْ لِّیَطْمَىٕنَّ قَلْبِیْ (البقرۃ: 260)، کہ میرے دل کو اطمینان ہوجائے، اس وجہ سے میں عرض کروں گا کہ اس کا process کیا ہوتا ہے، اس کا process کیا ہوتا ہے؟ تو بتاتا ہوں۔ آپ جب roads کے اوپر جاتے ہیں تو roads کے اوپر آپ کو بہت سارے بورڈ لگے ہوتے ہیں، کلر بورڈز: کوکا کولا، پیپسی کولا، یہ، وہ، مسلسل۔ اور ہر کھمبے پہ لگا ہوا ہے۔ مجھے آپ بتائیں، اگر صرف انفارمیشن دینی تھی تو وہ تو ایک کھمبے پہ بورڈ لگا ہوتا تو مل جاتی ناں؟ یہ ہر کھمبے پہ کیوں لگا ہوا ہے؟ کبھی آپ نے غور کیا اس پر؟ ہر کھمبے پہ لگا ہوا ہے، بلکہ جائیں گے تو مسلسل دیواروں پہ لکھا ہوگا، اس کی کیا وجہ ہے؟ چونکہ ان کی ریسرچ ہے، ہمارا ایک ساتھی ہے، وہ بہت بڑا افسر ہے، اس نے ان کے جو sales department ہے، ان سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ کو کیوں اس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اتنی زیادہ advertisement پہ پیسے خرچ کرتے ہو؟ بس ٹھیک ہے جی، اب لوگ جانتے بھی ہیں اور مطلب، ظاہر ہے، تعارف بھی ہوچکا ہے، کہیں کہیں پر کافی ہے، لیکن یہاں ہر جگہ، ہر وقت، یہ کیا وجہ ہے؟ تو اس کے sales department کے اس آدمی نے کہا کہ ہم کیا کریں، جس مہینے ہم advertisement نہ کریں، اس مہینے ہماری sales 10٪ پہ آجاتی ہے۔ 10٪ پہ آجاتی ہے۔ کیوں؟ بھئی ایک مصنوعی چیز ہے جس کی کوئی افادیت نہیں ہے، کوئی فائدہ نہیں ہے، نقصان ہی نقصان ہے۔ پیپسی کولا میں نقصان ہی نقصان ہے، میں قسم کھا سکتا ہوں ادھر بیٹھ کر کہ اس میں نقصان ہی نقصان ہے، لیکن لوگ پی رہے ہیں، پی رہے ہیں، پی رہے ہیں، پی رہے ہیں۔ کیونکہ پی رہے ہیں۔ سارے اُلو بنے ہوئے ہیں، پاگل بنے ہوئے ہیں اور advertisement سے بنے ہوئے ہیں، اس advertisement سے بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی پاگل بنا ہوا ہے، اپنے آپ کو خود مار رہا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے ٹائلٹ صاف ہوسکتے ہیں، اتنا سخت تیزاب ہے اور اس کو ہم لوگ اپنے معدوں میں انڈیل رہے ہیں۔ کیا بات کروں! پاگل پن ہے یا نہیں ہے؟ میری بات نہ سنو، ابھی انٹرنیٹ آپ لوگوں کے پاس ہے، اپنے موبائلوں پہ ذرا تھوڑا سا ریسرچ کرلیں، دیکھو آپ کو مل جائے گا، ساری انفارمیشن مل جائے گی۔ تو میں عرض کرتا ہوں کہ اگر ایسی گندی، فضول، جس کا کوئی value نہیں ہے، پیسے بھی اس پہ زیادہ لگتے ہیں، لیکن لوگ لے رہے ہیں، کیوں؟ Advertisement کی وجہ سے لے رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے انسان کے اوپر بار بار سننے کا، بار بار دیکھنے کا اثر ہوتا ہے، بار بار سننے کا، بار بار دیکھنے کا اثر ہوتا ہے۔ اب لوگ کہتے ہیں: "بھئی مسلسل آپ ذکر کررہے ہیں، کیا مطلب ہے؟ آپ کہتے ہیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، یہ کیا کررہے ہو؟ بس ایک دفعہ کہہ دو ناں یا چپکے چپکے کہو۔" سوالات۔ بھئی اس کا مطلب ثواب کمانا نہیں ہے یہاں پر۔ ثواب کمانے کے لئے آپ چپکے چپکے کہیں: سبحان اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ محمد رسول اللہ، درود شریف، استغفار، قرآن شریف کی تلاوت، وہ چپکے چپکے کریں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے، اُس کا تعلق اجر کے ساتھ ہے۔ جب آپ اجر کے لئے کررہے ہو، لیکن جب آپ اثر کے لئے کررہے ہوں تو اثر جس چیز سے زیادہ ہوگا، وہی کریں گے ناں آپ؟ اثر جس چیز سے زیادہ ہوگا، وہی آپ کریں گے۔ تو یہ تجربہ ہے، میرا نہیں، میں تو بہت چھوٹا آدمی ہوں۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ، جن کے حاجی عبدالوہاب صاحب مرید تھے، مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا، مولانا رشید گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا، مولانا حسین مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا۔ یہ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تو میں نے خود ذکر کیا ہے فیصل آباد میں، بالکل یہی ذکر، جہری ذکر۔ اور افتتاح کرنے والا کون ہوتا تھا؟ مفتی محمود گنگوہی، جو دیوبند کے مفتی اعظم تھے، وہ افتتاح کرتے تھے۔ کیوں؟ وہ حضرت کے خلیفہ تھے اور اس مجلس میں ایک ایک صف میں سترہ سترہ، اٹھارہ اٹھارہ شیخ الحدیث ہوا کرتے تھے، مفتیان کرام ہوا کرتے تھے، ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ تو کیا یہ ساری چیزیں سارے نہیں جاننے والے تھے؟ کیا ایک فضول حرکت سب کررہے تھے؟ تو ان کو پتا تھا کہ اس چیز کا اثر ہوتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ آپ نے ایک بات جو دل کے اندر موجود ہے، اس کے اندر آپ مسلسل اس کا اثر کرنا ہے، کرنا ہے، کرنا ہے، تاکہ وہ دھل جائے۔ میں آپ کو خود ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ہم گئے تھے سکردو، by air گئے تھے۔ وہ by air ٹکٹ ہمارے پاس تھا واپسی کا اور جہاز ہمارے سامنے آیا اور ایئرپورٹ سے واپس ہوگیا، اوپر اوپر، اترا نہیں نیچے موسم خراب ہونے کی وجہ سے۔ ایسا ہوتا ہے اُدھر، موسم خراب ہونے کی وجہ سے واپس چلا گیا اور ہم نے دیکھ لیا کہ جہاز واپس چلا گیا۔ فوراً ہم نے rush کیا بس کے اڈے کی طرف اور وہاں جو کوسٹر available تھا، اسی میں بیٹھ گئے۔ مجھے فرنٹ سیٹ مل گئی۔ اب فرنٹ سیٹ پہ میں بیٹھا ہوں بغیر پلاننگ کے، کیونکہ ہمارے پاس پلاننگ تو تھی نہیں by road آنے کی۔ بائیس گھنٹے کا سفر تھا، بائیس گھنٹے کا سفر تھا راولپنڈی تک، اور اس میں مسلسل گانے بج رہے ہیں، کیونکہ وہ جو ڈرائیور تھے، وہ کہتے تھے کہ اگر ہم یہ گانے نہ سنیں تو پھر ہمیں نیند آتی ہے۔ اب میں اکثر کیسٹ وغیرہ رکھتا ہوں نعتوں کی یا کچھ اچھے کلام کی، قرآن پاک کی تلاوت کی، تاکہ ان کو دے دوں، لیکن اس وقت تو بغیر پلاننگ کے میں تھا، پلاننگ تو تھی نہیں۔ اب مجھے بائیس گھنٹے گانے سننے پڑے، بائیس گھنٹے مجھے مجبوراً گانے سننے پڑے۔ اب طبیعت تو بہت بوجھل تھی، لیکن کیا کرتا؟ جب میں پنڈی پہنچ گیا، میں نے تین دن مسلسل نعتیں سنی ہیں، تین دن مسلسل نعتیں سنیں تاکہ وہ جو گانے، وہ ختم ہوجائیں، replace ہوجائیں، ورنہ وہ گانے اپنی جگہ بنا لیتے ناں، اثر تو ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو ذکر ہے، یہ کیا کرتے ہیں؟ یہ آپ کے ادھر ادھر کی چیزوں کو wash کررہے ہوتے ہیں۔ تبھی فرمایا کہ ہر چیز کے لئے صفائی کا آلہ ہوتا ہے اور دلوں کے لئے صفائی کا آلہ کیا ہے؟ ذکر اللہ ہے۔

اب جیسے فرمایا شہد میں شفا ہے، فرمایا ہے آپ ﷺ نے، شہد میں شفا ہے۔ لیکن اس شفا کو حاصل کرنے کا کون سا طریقہ ہوگا؟ یہ کون جانے گا؟ ظاہر ہے جو اس field کے specialist ہوں گے، حکیم ہوں گے، ڈاکٹر ہوں گے، وہی اس پر ریسرچ کریں گے، وہی بتائیں گے شہد سے شفا کیسے حاصل کرو۔ تو اسی طریقہ سے ذکر کے ذریعہ سے دل صاف ہوتے ہیں، کیسے صاف ہوتے ہیں؟ ان کے سپیشلسٹوں سے پوچھنا ہے، جنہوں نے مدتیں اس پر لگائی ہیں، جنہوں نے اس پر پوری عمر لگائی ہوئی ہیں۔ تو میں اس لئے عرض کروں گا کہ جلدی نہیں مچانی چاہئے، کسی چیز پر اعتراض جلدی نہیں کرنا چاہئے، بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ ٹکر لگ جائے گی۔ اب ظاہر ہے ہم تو بچے ہیں نا، ہماری ساکھ تو ان کے سامنے بچوں کی طرح ہے۔ تو جو لوگ اس پر اتنے experienced اور جنہوں نے اتنا محنت کی ہے، تو ہم کیسے ان کی مخالفت کریں؟ بس ہم یہی کہہ سکتے ہیں: ابھی مجھے سمجھ نہیں آرہی، اللہ تعالیٰ جب سمجھ دے دے گا تو سمجھا بھی دے گا۔ لیکن جس وقت تک مجھے سمجھ نہیں آئی، تو بڑوں کی بات کو غلط کہنے کی بجائے کیا ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آرہی۔ یہ اچھی بات ہے، یہ ایک اچھی بات ہے۔ تو بہرحال میں عرض کروں گا، طریقہ ایک نہیں ہے، طریقے کئی ہیں۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ جتنے لوگ ہیں اتنے طریقے ہیں۔ کیونکہ ہر شخص دوسرے سے مختلف ہے، اس کی اصلاح کا طریقہ مختلف ہوگا۔ لیکن broadly classification اگر ہم کرلیں تو جیسے پٹھان ایک طرح ہے، پنجابی دوسری طرح ہے، بلوچی تیسری طرح کا، عرب چوتھی طرح، عجم... ذرا تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال ان کو کہتے ہیں کہ پٹھانوں کے ساتھ deal کرنا ہو تو ایسا کرو، کہ پنجابیوں کے ساتھ deal کرو تو ایسا کرو، بلوچیوں کے ساتھ deal کرو تو ایسا کرو، سندھیوں کے ساتھ ایسا کرو۔ یہ بات ایک group wise ہم سمجھ سکتے ہیں، اس طرح ہم گروپیں بنا سکتے ہیں لوگوں کی کہ کچھ لوگوں کو جہری ذکر سے فائدہ ہوتا ہے، کچھ لوگوں کو خاموش جو مراقبات ہیں، اس ذریعہ سے فائدہ ہوتا ہے۔ تو جو خاموش طریقے ہیں، وہ نقشبندی ہیں، جو خاموش، وہ کیا؟ وہ نقشبندی ہیں۔ اور جو جہری والے ہیں، وہ چشتی ہیں، قادری ہیں، سہروردی ہیں اور بھی ہیں۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ میں یہ اگر نہیں سمجھ سکتا کہ میرے لئے یہ ٹھیک نہیں، تو اس کے پاس چلے جاؤ جس کے ساتھ آپ کی مناسبت ہو، وہ لوگ بھی تو موجود ہیں نا۔ اگر کسی کو ایلوپیتھی کا علاج پسند نہیں ہے، ہومیوپیتھی پہ چلے جائیں، ہومیوپیتھی پسند نہیں ہے تو یونانی علاج پہ چلے جائیں، حکیمی علاج پہ چلے جائیں، وہ بھی پسند نہیں، آکوپنکچر کے پاس چلے جاؤ۔ اپنے آپ کو بیماری سے مروا تو نہ دو۔ یہاں تو بیماری سے مر جائیں گے، یہاں تو بیماری سے ہم کیا ہوجائیں گے؟ مر جائیں گے، زیادہ سے زیادہ۔ لیکن جو دل کی بیماریاں ہیں، اللہ بچائے، جو دل کی بیماریاں ہیں، اس سے مرتے نہیں ہیں، وہ تو میڈیکلی جو دل کی بیماریاں ہیں، اس سے مرتے ہیں، لیکن جو روحانی بیماریاں دل کی، اس سے لوگ مرتے نہیں ہیں، موت کے بعد تباہ ہوتے ہیں، موت کے بعد تباہ ہوتے ہیں۔ اب دیکھ لو، ایک بیماری میں آپ کو نام لیے دیتا ہوں، حسد، دل کی بیماری ہے۔ حسد کے بارے میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کی نیکیاں ایسی جل رہی ہوتی ہیں جیسے لکڑی جل رہا ہوتا ہے آگ کے ذریعہ سے۔ تکبر، اف! خطرناک بیماری، اتنی خطرناک بیماری ہے جس نے شیطان کو اتنی ساری عبادت کے بعد بھی ہلاک کردیا، اتنی خطرناک بیماری ہے۔ اس طرح کینہ۔ کینہ کون سی بیماری ہے؟ ایسی بیماری ہے جس سے انسان کی دعائیں قبول نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ کی good books میں نہیں آتا، مقبول لوگوں کی، مقبول جگہوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی اس کے لئے، خطرناک بیماری ہے۔ اس طریقے سے عُجب ہے، عُجب کے بارے میں فرمایا کہ جو اپنے آپ کو اچھا سمجھتے ہیں، وہ بیماری کیا ہے؟ اس کے بارے میں ہے کہ فرماتے ہیں، جس وقت انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے، اسی وقت اللہ کی نظروں میں وہ گرا ہوتا ہے، جس وقت انسان اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اب اگر ہمارے دل کی اصلاح نہیں ہوئی اور یہ بیماری ہم ساتھ لے کے چلے جائیں، پھر کیا ہوگا؟ ہمارے پاس دو options ہیں: یہاں اپنا علاج کرلیں، یہاں پر اپنا علاج کرلیں اور صاف ستھرے اُس دنیا میں چلے جائیں۔ یہ option ہے۔ دوسرا علاج یہ ہے کہ اگر ایمان، بشرطِ ایمان، اگر ان بیماریوں کی وجہ سے ایمان چلا گیا تو کچھ بھی نہیں ہے، پھر تو مکمل تباہی ہے، اور ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ لیکن ایمان کے ساتھ چلے گئے تو پھر کیا ہے؟ اگر یہ بیماریاں ساتھ لے گئے ہیں تو جہنم سے اتنی دیر تک جلائے جائیں گے جب تک ان بیماریوں کے آثار ختم نہیں ہوجاتے، جب تک ان بیماریوں کے آثار ختم نہیں ہوجاتے۔ پھر اس کے بعد جنت ہی لے جائیں گے، پھر جنت ہی لے جائیں گے۔ لیکن اس سے پہلے کا کیا حال ہے؟ اب ہمارے پاس جب یہ دو options ہیں تو ہم کون سا option avail کریں؟ اگر ہم اس option کو avail کرتے ہیں کہ یہیں پر ہی اپنا علاج کریں تو پھر اس کے لئے جو ذرائع ہیں، تلاش کرنے پڑیں گے۔ پھر ہم لوگ ویسے ہی تنقیدوں کے ذریعہ سے، اعتراضوں کے ذریعہ سے اپنے آپ کو محروم کردیں تو پھر بعد میں پتا چلے گا کہ کام خراب ہوگیا ہے۔ تو اس کے لئے ہمیں ضروری ہے کہ وہ پھر راستے تلاش کریں۔

تو راستے کون سے ہیں؟ راستوں کے بارے میں مختصر عرض کروں، دو منٹ باقی ہیں، عرض کرتا ہوں۔ راستے، جو راستے ہمارے بڑوں کے لئے تھے، وہ ہمارے لئے بند نہیں ہوئے۔ جو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے راستہ تھا نا، وہ میرے لئے اب بھی موجود ہے، جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لئے راستہ، وہ میرے لئے اب بھی موجود ہے، مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لئے جو راستہ تھا، وہ اب بھی موجود ہے، جو ہمارے حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لئے تھا، مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لیے تھا، مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے لئے، وہ اب بھی موجود ہے نا۔ ان راستوں سے ہم کیوں فائدہ نہ اٹھائیں؟ وہ کیا راستہ تھا؟ کسی اللہ والے کو تلاش کرکے ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینا کہ میری اصلاح کر دو، یہ راستہ۔ اگر میری بات نہیں مانتے، ابھی انٹرنیٹ پر search کرلو جن کے نام میں نے لئے، دیکھو انہوں نے کیا کیا ہے، معلوم ہوجائے گا، ان کی ہسٹریاں آج کل موجود ہیں، دیکھو کہ انہوں نے کیا کیا ہے، ان کا شیخ کون تھا، انہوں نے اپنے شیخ کی باتیں کیسے مانیں، کس طرح ان کے ساتھ رہے، یہ ساری باتیں تفصیل کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں۔ تو شیخ کو تلاش کرنا پڑے گا۔ اب اگر کسی کے ذہن میں آتا ہے کہ آج کل شیخ نہیں ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ کیوں؟ اللہ پاک نے فرمایا: وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبہ: 119) سچوں کے ساتھ ہو جاؤ، یعنی کردار کے سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ قرآن جب تک پڑھا جائے گا، یہ حکم موجود رہے گا یا نہیں؟ یہ حکم موجود رہے گا۔ تو صادقین نہیں ہوں گے تو عمل ہوسکے گا؟ پھر تو عمل نہیں ہوسکے گا، صادقین ہوں گے۔ صادقین پیدا کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہاں، ہر دور کے صادقین quality-wise مختلف ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح صادق تو آج کل نہیں ہوگا نا، اب وہ تو بڑی دور کی بات ہے۔ مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسا صادق آج کل نہیں ہوگا، کمزوری تو آگئی ہے، لیکن یہ آٹھ نشانیاں جو میں بتاتا ہوں، ان پہ آپ چیک کرسکتے ہیں کہ اِن آٹھ نشانیوں پہ جو اترے گا، وہ ان شاء اللہ ایسا صادق ہوگا کہ آپ کا کام بن جائے گا، ان شاء اللہ آپ کا کام اس سے بن جائے گا۔ اُن کی طرح وہ نہیں ہوگا، لیکن آپ کا کام بن جائے گا۔

پہلی بات، وہ اہل سنت و الجماعت میں سے ہو، یعنی اپنی کامیابی آپ ﷺ کی سنت میں اور صحابہ کرام کے طریقوں کو اپنانے میں سمجھتا ہو۔ ٹھیک ہے نا؟ پہلی بات۔

دوسری بات، فرضِ عین درجے کا علم اس کے پاس ہو۔

تیسری بات، فرضِ عین درجے کے علم پر چوبیس گھنٹے عمل کرتا ہو۔

چوتھی بات، ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ تک پہنچتا ہو، کیونکہ کیفیت دل کی جو ہے، وہ کتابوں میں نہیں آسکتی، اس کے لئے دل چاہیے ہوتا ہے، تو دل دل سے راستہ آتا ہے، تو ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ تک پہنچتا ہو۔

اور پانچویں بات، کسی شیخِ کامل سے اجازت ہو۔

چھٹی بات، ان کا فیض جاری ہو، یعنی جو بھی ان کے پاس جائیں، پتا چلتا ہو کہ مجھے کچھ مل رہا ہے۔

ساتویں بات، مروت نہ کرتا ہو، اصلاح کرتا ہو۔

اور آٹھویں بات کہ ان کی مجلس میں بیٹھ کر اللہ یاد آتا ہو، دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔

اگر یہ آٹھ نشانیاں کسی میں پائی جائیں، ضرور ان کے ساتھ چلے جائیں۔ جب تک آپ کی ریسرچ جاری ہے، نہیں ملے، میں ایک چھوٹا سا وظیفہ دیتا ہوں: 300 دفعہ سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اللہُ أَکْبَرُ اور 200 دفعہ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ۔

یہ جو ہے نا، آپ چالیس دن تک بلاناغہ اگر آپ کریں، آپ کو اپنے دل میں کچھ تبدیلی ان شاء اللہ محسوس ہوجائے گی۔ اگر آپ اس کو بڑھانا چاہیں، ٹیلی فون نمبر ہمارا موجود ہے ۔ تو جس کو چاہئے ہوگا، وہ اس کے بعد پھر کارڈ ہمارے ساتھی سے لے سکتا ہے، اس کے اوپر یہ وظیفہ بھی موجود ہے، اس کے اوپر ٹیلی فون نمبر بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے، آپ کو بھی۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔





دل کی اصلاح: غفلت کی دنیا میں ذکر اور شیخِ کامل کی ضرورت - جمعہ بیان