گزشتہ درس سے پیوستہ
(قسط نمبر 2)
کسی غیر مرئی طاقت کے آگے سرنگوں ہونا، اس کے حضور میں دعا فریاد کرنا، اور اس سے مشکلوں میں تسلی پانا انسان کی فطرت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل کی گہرائیوں میں کوئی ساز ہے، جو نامعلوم انگلیوں کے چھونے سے بجتا رہتا ہے، یہی ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ کا فطری جواب ہے۔ قرآن نے جابجا انسانوں کی اس فطری حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوچھا ہے کہ جب تم پر مصیبتیں آتی ہیں، جب سمندر میں طوفان اٹھتا ہے اور تمھارا جہاز بھنور میں پھنستا ہے، تو خدا کے سوا کون ہوتا ہے جس کو تم پکارتے ہو؟
ابھی بھی کرونا کے جو مسائل ہوئے ہیں، یورپ میں اس گندے ماحول میں بھی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ کے جلوس نکلے ہیں، جلوس نکلے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ صرف اس کو دنیا کے لئے کرتے ہیں، مطلب آخرت کا concept ان کا نہیں ہے۔ جب دنیا کی کوئی مصیبت آتی ہے، تو اس وقت وہ اللہ پاک کا نام لیتے ہیں، محض نام لیتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ اللہ پاک نے یہ یاد دلایا ہے کہ تم جب پھنستے ہو تو کیا کرتے ہو۔
غرض انسان کی پیشانی کو خود بخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے جس کے سامنے وہ جھکے، اندرون دل کی عرضِ نیاز کرے اور اپنی دلی تمناؤں کو اس کے سامنے پیش کرے، غرض عبادتِ روح کے اسی فطری مطالبہ کا جواب ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسانی روح کے جوش جنون کا علاج ممکن نہیں۔ وحشی سے وحشی مذہب میں بھی عبادت کے کچھ رسوم ان ندائے فطرت کی تسلی کے لئے موجود ہیں، پھر آسمانی مذاہب اس سے کیوں کر خالی ہوسکتے ہیں؟
اصل میں یہ واقعتاً میں نے جیسے عرض کیا ناں کہ روح انسان کے جسم میں موجود تو ہے اور اس کے اپنے تقاضے تو ہیں، لہٰذا جب اس کے تقاضے پورے نہیں کیے، تو پریشان ہوتی ہے روح، جب روح پریشان ہوتی ہے، بے اطمینانی ہوتی ہے اور یہی بے اطمینانی کے لئے جو علاج ہے، روحانیت ہے۔ اور وہ ظاہر ہے اللہ پاک کا ذکر ہے۔
﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ تو کسی نہ کسی رنگ میں اس کو وہ کرتے ہیں انسان۔
چنانچہ دنیا کے ہر آسمانی مذہب میں خدا کی یاد کا حکم اور اس یاد کے کچھ مراسم موجود ہیں۔ اسلام میں اگر حمد و تسبیح ہے تو یہودیوں میں مزمور، عیسائیوں میں دعا، پارسیوں میں زمزمہ اور ہندوؤں میں بھجن ہیں۔ اور دن رات میں اس فریضہ کے ادا کرنے کے لئے ہر ایک میں بعض اوقات کا تعین بھی ہے۔ اس بنا پر یہ یقین کرنا چاہئے کہ نماز مذہب کے ان اصول میں سے ہے جن پر تمام دنیا کے مذہب متفق ہیں۔ قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا، جس نے اپنی امت کو نماز کی تعلیم نہ دی ہو اور اس کی تاکید نہ کی ہو۔ خصوصاً ملت ابراہیمی میں اس کی حیثیت سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی ویران سرزمین میں آباد کرتے ہیں تو اس کی غرض یہ بتاتے ہیں کہ ﴿رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ (ابراہیم: 37) ’’اے ہمارے پروردگار تاکہ وہ نماز کھڑی کریں‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اور اپنی نسل کے لئے دعا کرتے ہیں کہ ﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ﴾ ’’اے میرے پروردگار مجھ کو اور میری نسل میں سے لوگوں کو نماز کھڑی کرنے والا بنا‘‘۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسبت قرآن پاک کی شہادت ہے۔ ﴿وَكَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ﴾ (مریم: 55) ’’اور وہ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دیتے تھے‘‘۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کے ہم قوم طعنہ دیتے ہیں ﴿اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ﴾ (ھود: 87) ’’کیا تمھاری نماز تم کو یہ حکم دیتی ہے کہ ہمارے باپ دادا جس کو پوجتے آئے ہیں اس کو چھوڑ دیں‘‘؟ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی نسل کے پیغمبروں کے متعلق قرآن کا بیان ہے ﴿وَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ﴾ (الانبیاء: 87) ’’اور ہم نے ان کو نیک کاموں کے کرنے اور نماز کھڑی کرنے کی وحی کی‘‘۔
یہی اس کتاب کا بہت بڑی ماشاء اللہ! خوبی ہے اس کتاب کی کہ اس میں ہر چیز کی سند موجود ہے۔ اب دیکھیں یہ بات جو کررہے ہیں کتنی مستند کررہے ہیں کہ قرآن سے اس کی دلیل دے رہے ہیں، ہر ہر چیز کی قرآن سے دلیل دے رہے ہیں۔
حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں ﴿یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ﴾ (لقمان: 17) ’’اے میرے بیٹے نماز کھڑی کر‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ (طہ: 14) ’’اور میری یاد کے لئے نماز کھڑی کر‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو حکم ہوتا ہے ﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ (یونس: 87) ’’اور نماز کھڑی کیا کرو‘‘۔ بنی اسرائیل سے وعدہ تھا ﴿اِنِّیْ مَعَكُمْؕ لَىٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ﴾ (المائدہ: 12) ’’میں تمھارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کھڑی کیا کرو‘‘۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی نسبت ہے ﴿وَهُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ﴾ (آل عمران: 39) ’’وہ محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے‘‘۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں ﴿وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ﴾ (مریم: 31) ’’اور خدا نے مجھ کو نماز کا حکم دیا ہے‘‘۔
آیات بالا کے علاوہ قرآن سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے زمانہ میں بھی عرب میں بعض یہود اور عیسائی نماز پڑھا کرتے تھے۔
ابھی بھی پڑھتے ہیں ان میں بعض فرقے ہیں، تقریباً تقریباً ہماری جیسی نماز پڑھتے ہیں یہود میں، تقریباً مطلب کچھ فرق کے ساتھ۔
﴿مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآىٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَهُمْ یَسْجُدُوْنَ﴾ (آل عمران: 113)
اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راتوں کو کھڑے ہوکر خدا کی آیتیں پڑھتے ہیں اور وہ سجدہ کرتے ہیں۔
قرآن کی تائید تورات اور زبور سے بھی ہوتی ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے پرانے صحیفوں میں نماز کے لئے اصطلاحی لفظ خدا کا نام لینا تھا۔ چنانچہ تورات اور زبور میں نماز کا ذکر اسی نام سے آیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت ایل (بیت اللہ) کے پاس ایک قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا (پیدائش 12، 4) حضرت اسحق علیہ السلام نے خدا کا نام لیا (پیدائش 26-25) حضرت داؤد نے خدا کا نام لیا (زبور 177، 116) اور یہ اصطلاح قرآن میں بھی مستعمل ہوئی ہے ﴿وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى﴾ (الاعلیٰ: 43) ’’اور اپنے رب کا نام لیا‘‘۔ پس نماز پڑھی، اس معنی کی اور بھی آیتیں قرآن پاک میں مذکور ہیں، یہودیوں کے پچھلے صحیفوں سفر دانیال وغیرہ اور عیسائیوں کے تمام صحیفوں میں نماز کے لئے دعا کا لفظ استعمال ہوا ہے جو عربی لفظ صلوٰۃ کے ہم معنی ہے۔ اس لیے انجیل کے اردو مترجموں نے اس کا ترجمہ نماز کیا ہے (متی 17-21 اور متی 23-41)
حدیث میں بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی نماز کے تذکرے ہیں۔ مثلاً آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ جب نماز پڑھو تو تہہ بند باندھ لو، چادر اوڑھ لو، یہودیوں کی طرح (ننگے) نہ پڑھو (ص72) تم یہودیوں کی طرح صرف اوپر سے نماز میں چادر مت ڈال لو، بلکہ اس کو باندھ لیا کرو (ص73) نماز میں یہودیوں کی طرح مت جھومو (ص112)
یہ یہودی جو ہیں ناں ابھی بھی جو۔ ان کی دو چیزیں بالکل وہ ہیں یعنی ابھی بھی قائم ہیں کہ ایک تو یہ جو جتنے بھی ان کے اذکار ہیں، اس میں وہ ہوتا ہے گنگنانا یعنی گانے کی طرز پہ، یہ ان کا ہوتا ہے۔ یہ ابھی بھی ہے۔ اور دوسرا جھومنا یعنی جس وقت یہ تلاوت کرتے ہیں، اس طرح، بالکل اس طرح کرتے ہیں یعنی یہ ابھی بھی اگر کوئی ان کو دیکھے، تو ان کو نظر آجائے کہ یہ جب تلاوت کرتے ہیں تورات کی، تو پھر اس طرح، اس طرح کرتے ہیں اور جب زور سے پڑھتے ہیں، تو بالکل گنگنانے کے انداز میں یہ پڑھا کرتے ہیں۔ یہ ابھی بھی ہے۔
تم یہودیوں کے برخلاف نماز میں موزے اور جوتے پہنے رہو (ص114) میری امت میں اس وقت تک دین کا کچھ نہ کچھ اثر رہے گا، جب تک لوگ یہودیوں کی تقلید میں مغرب کی نماز میں ستاروں کے نکلنے کا اور عیسائیوں کی تقلید میں صبح کی نماز میں ستاروں کے ڈوبنے کا انتظار نہ کریں گے (ص84) ان حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب کے یہود و نصاریٰ میں کچھ لوگ ایسے تھے جو نماز ادا کرتے تھے۔
عرب میں جو لوگ اپنے کو دین ابراہیمی کا پیرو کہتے تھے ان میں بعض تو ایسے تھے کہ وہ کسی خاص طریقہ عبادت سے واقف نہ تھے۔ چنانچہ زید بن عمرو کا واقعہ گزر چکا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اے خدا! مجھے معلوم نہیں کہ میں تجھ کو کیسے پوجوں؟ یہ کہہ کر ہتھیلی اٹھاتے اور اسی پر سجدہ کرلیتے تھے۔ لیکن ایک دو ایسے بھی تھے جو کسی نہ کسی صورت سے نماز پڑھتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت ﷺ کی ملاقات اور اپنے اسلام لانے کے تین برس پہلے سے رات کو نماز پڑھ لیتے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ اس وقت آپ کس رخ نماز پڑھتے تھے؟ کہنے لگے جدھر رخ کرلیا۔ عرب کا ایک جاہلی شاعر جران العود کہتا ہے
وَأُوْدِرَ كَنْ إِعْجَازًا مِّنَ اللَّيْلِ بَعْدَمَا
أَقَامَ الصَّلَاةَ الْعَابِدُ الْمُنْحَنِفُ
(اور ان سواریوں نے رات کے پچھلے حصہ میں اس وقت کے بعد جب کہ عبادت گزار حنیفی نماز پڑھ چکا تھا)
اس شعر سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں مذہب حنیفی کے پیرو پچھلی رات میں نماز ادا کرتے تھے۔
یہود کی بڑی جماعت نے نماز کو بھلا دیا تھا اور ان کی نماز صرف چند رسوم کا مجموعہ بن کر رہ گئی تھی اور نماز سے زیادہ انہوں نے قربانی اور نذرانوں پر زور دیا تھا، جن میں خلوص اور خدا پرستی کا شائبہ تک نہ تھا۔
عیسائیوں نے خدا کی نماز کے ساتھ ساتھ انسانوں کی نمازیں بھی شروع کردی تھیں، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیھا السلام کے علاوہ اور بھی سینکڑوں ولیوں اور شہیدوں کی عبادت میں مصروف ہوگئے تھے۔
دین ابراہیمی کی پیروی کے مدعی صرف اپنے قیاس سے کچھ ارکان ادا کرلیتے تھے۔ الغرض آپ کی بعثت سے پہلے نماز کی خالص اور موحّدانہ حقیقت دنیا سے عموماً کم ہوچکی تھی۔ اس کی شکل و صورت اس قدر مسخ ہوگئی تھی کہ آج بھی ان کے صحیفوں میں اس کی شکل نظر نہیں آتی، نہ اس کے ارکان کا پتا لگتا ہے، نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان الہامی صحیفوں کے حامل اور امانت دار اس فرض کو کس طرح ادا کرتے تھے، کن مؤثر دعاؤں کو پڑھتے تھے اور اس کی ادائیگی کے کیا اوقات تھے۔ جو کچھ ان میں رہ گیا تھا، وہ صرف عملی رسم و رواج اور بعد کے مذہبی مقتداؤں کی کچھ تجویزیں جن پر مذہبی فریضہ سمجھ کر عمل کیا جارہا تھا۔ سجدہ جو نماز کی روح اور نیاز الہیٰ کی انتہائی منزل ہے، اس کو یہود و نصاریٰ دونوں نے مشکل اور باعث تکلیف سمجھ کر چھوڑ دیا تھا اور اس طرح نماز کی ظاہری شکل و صورت بھی انہوں نے بگاڑ دی تھی۔ قرآن مجید میں ان کی اس صورت حال کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے۔
﴿فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَیَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَاۚ وَاِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ یَاْخُذُوْهُؕ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوْا مَا فِیْهِؕ وَالدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ وَالَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَؕ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ﴾ (الاعراف: 169-170)
’’ان کے بعد ان کے وہ جانشین ہوئے جن کو خدا کی کتاب باپ دادوں سے وراثت میں ملی، وہ صرف اس دنیاوی زندگی کا فائدہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو معاف کردیا جائے گا اور اگر ایسا ہی فائدہ اب بھی ان کے سامنے آئے تو لے لیں (اور مذہب کی پروا نہ کریں) کیا ان سے کتاب کا معاہدہ نہیں لیا گیا کہ وہ خدا کے متعلق سچ کے سوا کچھ اور نہ کہیں گے اور ان لوگوں نے جو کچھ اس (کتاب) میں ہے، اس کو پڑھا اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے ہے جو پرہیزگار ہیں، کیا تم نہیں سمجھتے؟ اور وہ لوگ جو کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں اور انہوں نے نماز کو قائم کیا تو ہم اپنی حالت درست کرنے والوں کی مزدوری کو برباد نہیں کرتے‘‘۔
سورۃ مریم میں تمام انبیاء صادقین کے ذکر کے بعد خدا فرماتا ہے۔
﴿فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ﴾ (مریم: 59)
’’ان کے بعد ان کے جانشین ایسے ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کردیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی‘‘۔
بقیہ اگلی قسط میں
بیان جاری ہے ---- ان شاءاللہ
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔