اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج بدھ کا دن ہے اور بدھ کے دن ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ان کے مکتوبات شریف کا درس ہوتا ہے۔ ہم اس قابل نہیں ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی جملہ برکات عطا فرمائے۔ البتہ الحمد للہ، اللہ پاک نے آج کل کے دور میں یہ جو نعمت ہمیں نصیب فرمائی، اس پر اللہ پاک کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے۔ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ارشاد فرمایا کہ "حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات سے فائدہ اٹھانا بہت مفید ہے کیونکہ اس میں بہت اعلی مضامین ہیں" بہت اعلی مضامین، بہت گہرے مضامین اس کے اندر ہیں موجود۔ لیکن بس آج کل یہ بڑا مسئلہ ہے کہ کتابوں کے اندر چیزیں پڑی ہوتی ہیں اور کتابوں سے باہر نہیں آتیں۔ تو یہ جو کوشش ہے، یہ یہی ہے کہ بزرگوں کی جو تعلیمات ہیں وہ کم از کم ہمارے سامنے آجائیں۔ تو جو کام ہو چکا ہے کم از کم اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ باقی جو وقت کی ضرورت کے لحاظ سے جو کام کرنا ہوتا ہے اس سے تو ظاہر ہے کسی نے انکار نہیں کیا، وہ تو وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا اور ہونا چاہیے، لیکن جو کام ہو چکا ہے، اس کو تو کم از کم دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے تو فائدہ اٹھانا چاہیے آج ہے مکتوب نمبر 260۔ ان شاء اللہ اس کی بات ہوگی۔
مکتوب نمبر 260
حقائق آگاہ، معارف دستگاہ، مظہر فیضِ الٰہی، منبعِ رحمت نامتناہی مخدوم زادہ میاں شیخ محمد صادق سلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا۔
اس طریقے کے بیان میں جس سے آپ کو ممتاز کیا گیا ہے جو تینوں ولایتوں کی تربیت کرنے والوں کے ضمناً بیان میں ہے جس میں ایک ولایتِ صغری جو ولایتِ اولیاء ہے اور (دوسری) ولایتِ کبریٰ جو ولایتِ انبیاء ہے، اور (تیسری) ولایتِ علیا جو ولایتِ ملاء اعلیٰ ہے۔ اور یہ بیان ہر قسم کی ولایت پر نبوت کی فضلیت ہونے پر مشتمل ہے، اور لطائف عشرۂ انسانی کے بیان میں کہ ان میں سے پانچ عالمِ امر سے متعلق ہیں اور دوسرے پانچ عالمِ خلق سے جو کہ نفس اور عناصرِ اربعہ ہیں اور ہر کمال کی خصوصیت جو ان لطائف میں سے ہر ایک کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور عالمِ امر پر عالمِ خلق کی افضلیت کے بیان میں مع ان کمالات کے جو عنصرِ خاکی سے مخصوص ہیں، اور عجیب و غریب علوم و معارف کے بیان میں جو ہر مقام کے مناسب ہیں اور ان جیسی اور باتوں کے بیان میں۔
یہ کچھ اصطلاحات آرہی ہیں۔ مثلاََ ولایت صغریٰ، ولایت کبریٰ اور ولایتِ علیاء۔ اس طریقے سے بحث بہت چلتی ہے کہ ولایت افضل ہے یا نبوت افضل ہے۔ تو اس کے بارے میں حضرت کا اپنا ایک opinion ہے۔ اور لطائفِ عشرہ: پانچ جو عالم امر سے ہیں، اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ تو پرانی بات نئی بات ایک ہی ہے۔ البتہ جو پانچ عالم خلق سے ہیں ان میں سے ایک نفس ہے اور باقی عناصر اربعہ ہیں تو یہ اصل میں یہاں پر ایک بات کرنا ضروری ہے، اس کی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چونکہ یہ جو تجرباتی چیزیں ہیں وہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں مثلاً: پہلے چار عناصر بیان کئے جاتے تھے یہی یعنی خاک، باد، آب اور آتش۔ یہ عناصر اربعہ کہلاتے تھے۔ لیکن آج کل کے سائنس کے دور میں element اس کو نہیں کہتے. اس وجہ سے لوگ confuse ہو جاتے ہیں کہ کیا مطلب ہے! مثلاََ 116 elements ہیں جس میں مثلاً ہائیڈروجن اور ہیلیم اور اس طرح بڑھتے جاتے ہیں، آکسیجن بھی آتا ہے اور سوڈیم اور پوٹاشیم اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں، یہ سب عناصر ہیں۔ تو 116 عناصر ہیں، اب ہم جو کہیں گے وہ یہ عرض کریں گے کہ یہ اصل میں چار طبیعتیں ہیں۔ حکماء نے بھی یہ بیان کیا ہے چار طبیعتیں بیان کی ہیں اس وقت ان کو عناصر کہا جاتا تھا تو یہ چار طبیعتیں ہیں خاکی، آبی، آتشی ، بادی۔ یہ ابھی بھی حکماء کی تحقیق اسی میں ہے طبیعتیں ہیں۔ تو لہذا یہ چاروں طبیعتیں چونکہ انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں اور نفس یہ بھی آپ کہہ سکتے ہیں طبیعت ہی ہے۔ تو یہ طبعی چیزیں ہیں اور باقی جو پانچ روحانی چیزیں ہیں۔ طبعی چیزیں جسمانی ہوتی ہیں تو اس لحاظ سے پھر کوئی confusion نہیں رہے گی۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر دور میں ہر چیز کو اس وقت کی terminology میں بیان ہونا چاہیے۔ یہ ضروری ہے۔ قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر آیا ہے "بِلِسَانِ قَوْمِہٖ" ۔ تو "بِلِسَانِ قَوْمِہٖ" میں یہ بات آ جاتی ہے کہ جس کو لوگ جانتے ہوں، جس کو لوگ سمجھتے ہوں کیونکہ واقعتاً باقی صرف اور صرف بعض اوقات نزاعِ لفظی ہوتی ہے یعنی کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو ایک ہی ہوتی ہے لیکن الفاظ اس کے مختلف ہوتے ہیں اس پر لوگ لڑتے رہتے ہیں حالانکہ وہ چیز ایک ہی ہوتی ہے مثلاََ ایک عالم تھے جو بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے لیکن تھے معتدل، تو ان کے ساتھ میری بات چیت ہو رہی تھی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو علمِ غیب حاصل تھا توعلم غیب آپ کے نزدیک کیا ہوتا ہے، کیا یہ ذاتی ہوتا ہے یا عطائی ہوتا ہے؟ کہتے ہیں عطائی ہوتا ہے۔ میں نے کہا کیا کُلی ہوتا ہے یا جزوی ہوتا ہے؟ کہتے جزوی ہوتا ہے۔ میں نے کہا دائمی ہوتا ہے یا وقتی ہوتا ہے؟ کہتے وقتی ہوتا ہے۔ تو میں نے کہا یہ تو ہم بھی مانتے ہیں، ہم اس کو انباء الغیب کہتے ہیں۔ اس قسم کا جو غیب ہے اس کو انباء الغیب کہتے ہیں غیب کی خبریں کیونکہ وقتی طور پر کسی کو بھی کچھ کا بھی اللہ تعالیٰ بتا سکتا ہے لیکن مستقل نہیں جیسے یعقوب علیہ السلام ۔ اتنی دور سے یوسف علیہ السلام کے پیراہن کا معلوم ہو گیا کہ آ رہا ہے اور خوشبو آ رہی ہے، لیکن جس وقت اللہ پاک نے نہ دکھانا تھا، نہ محسوس کرانا تھا تو یوسف علیہ السلام بالکل پاس کنعان میں تھے، نہیں پتہ چلا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، بدر کا جو واقعہ ہوا ہے، مسلمانوں کو پتہ نہیں چلا، کافروں کو پتہ چلا وہ مینگنیوں سے پتہ چلا تو جب معلوم ہونا ہو تو ملاء اعلیٰ میں جو ہو رہا ہوتا ہے وہ بھی معلوم ہوتا ہے اور جب نہيں معلوم ہو رہا ہو تو بالکل پاس کوئی چیز ہو تو نہیں معلوم ہوگا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ پاک ہی کرتے ہیں، جب بھی اللہ پاک چاہیں تو کرا سکتے ہیں۔ تو میں نے کہا غیب کی خبروں پہ تو کسی کو اعتراض نہیں ہے اور یہ تو اگر آپ کہتے ہیں تو آپ کا اور ہمارا ایک ہی چیز ہے۔ تو اس نے کہا بالکل یہی بات ہے، لوگ لڑتے رہتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ پھر انہوں نے خود ہی مثال دی، یہ اس عالم کی مثال ہے کہتا یہ شیشہ ہے، ہمارا ڈیسک تھا وہاں پر پیاس میں تو درمیان میں شیشہ تھا، اوٹ کا ایک شیشہ جس آگے کوئی نظر نہیں آتا، تو کہتے ادھر کوئی بیٹھا ہوا ہے تربوز کھا رہا ہے دوسرا یہاں پر watermelon کھا رہا ہے، وہ کہتا ہے یہ watermelon ہے دوسرا کہتا ہے تربوز ہے اور آپس میں لڑپڑیں حالانکہ تربوز اور watermelon ایک ہی چیز ہے اصل میں زبان کا فرق ہے تو ایسا ہوتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے اندر دریا کے اِس پار جو پشتو ہے وہ تھوڑا سا فرق ہے، اور اس پار تھوڑا سا فرق ہے، اِس پار جو کمینہ کا جو لفظ ہے کمینہ وہ خاکسار کو کہتے ہیں، کم اپنے آپ کو دکھانے والا کمینہ اور اس طرف کمینہ اردو والا کمینہ ہے جو اردو میں کمینہ کہتے ہیں۔ تو یہ واقعہ ایسے ہوا کہ ایک بئی خان ایک بڑے نیک آدمی تھے اور مالدار، تو اس کے رشتہ دار اس طرف بھی تھے اور تھے اس طرف کے تو آپس میں کوئی ایک آدمی بات کر رہا ہے، اس کی تعریف کرنا چاہتا ہے بئی خان کی کہ وہ بہت کمینہ ہے تو کہتے اس کے رشتہ دار کو تو غصہ آگیا اس کا نام سنتے ہی کہ یہ تو گالی دے رہا ہے تو اچھا ہوا کہ اس کی طرف بڑھا نہیں ہے، کہ اس نے کہا کہ بس وہ میں جا رہا تھا پیچھے سے اس کی کار آرہی تھی، تو اس نے میرے لیے کار روکی، بڑی منت سے مجھے ساتھ بٹھالیا پھر اس کو پتا چلا کہ یہ کمینہ کا مطلب کچھ اور لے رہا ہے اب یہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں، بعض دفعہ یعنی اس کو نزاعِ لفظی کہتے ہیں، تو نزاعِ لفظی چیز ہے، fact ہے۔ اس وجہ سے ایک مقولہ ہے mathematicians کے ہاں، کہتا ہے ایک mathematician تھے اس نے اپنے کمرے کے اوپر صاف لکھا تھا کہ
Define your terminology before entrance
جب آپ اندر آرہے ہو تو اس سے پہلے پہلے اپنی terminology بتاؤ کہ تم کس چیز سے کیا مطلب لیتے ہو۔ تو یہ واقعی اس قسم کی چیزیں ہیں۔ تو اب یہ جو باتیں ہیں عناصر اربعہ، کوئی آج کل کا سائنسدان اگر اس کو پڑھے گا تو بڑی بد گمانی ہو جائے گی کہ بھئی یہ کیا ہے یہ تو اب آج کل نہیں ہے تو کس طرح کہہ دیا حالانکہ وہ چیز آج کل ہے ہاں نام تبدیل ہو گیا، جو چیز بتائی گئی وہ تو ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم اَلْحَمْدُ الِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَعَلَیْھِمْ وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنَ (شروع اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان اور بڑا رحم والا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اور سید المرسلین اور آپ کے آل و اصحاب پر صلوٰۃ و سلام ہو)۔
اے فرزند اللہ جل شانہٗ تم کو سعادتمند کرے، جاننا چاہئے کہ عالمِ امر کے پانچ لطائف ہیں:قلب، روح، سر،خفی اور اخفٰی، جو انسانی عالمِ صغیر کے اجزاء ہیں، ان کے اصول عالمِ کبیر میں ہیں،
ایک ہے عالم صغیر
وَ فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْن
یہ عالم صغیر ہے اور ایک ہے عالم کبیر اس کے بارے میں
سَنُرِیٌھِمْ اٰیَاَتِنَا فِی الْاٰفَاقِ
تو یہ عالمِ کبیر ہے۔ عالمِ صغیر کو تو ظاہر ہے ہے جو انسان ہے کہا جاتا ہے عالم کبیر کو حضرت شاہ ولی اللہ نے نفسِ کلیہ کہا ہے۔ وہ عالمِ کبیر فرماتے ہیں اس کو یا شخصِ اکبر بھی کہتے ہیں۔ تو یہ جو چیزیں ہیں مطلب عالم صغیر جو ہے اس کا جو جڑیں ہیں یعنی لطائف کی یعنی عالم صغیر کی مثال کے طور پر میرا قلب یہاں ہے اس کی جڑ یہاں پر ہے لیکن نہیں اس کا سرا یہاں پر ہے لیکن جڑ عرش سے اوپر ہے اگر میرا تعلق اس سرے کا اپنی جڑ کے ساتھ active ہو گیا تو اس کا مطلب ہے یہ لطیفہ بیدار ہوگیا، لوگ لطیفہ بیدار ہونا پھڑکنے کو کہتے ہیں، بہت سے لوگ اس میں جو ہے ناں وہ کنفیوز ہیں حالانکہ اس پھڑکنے کو نہیں کہتے وہ اسی چیز کو کہتے ہیں کہ جس وقت جیسے مثال کے طور پر آپ continuity چیک کرتے ہیں ناں وہ electricity میں تو مطلب دیتے ہیں ناں اس کو کہ مطلب وہ وہاں آگے چارج پہنچتا ہے نہیں پہنچتا یہی بات ہے ناں تو اسی طریقہ سے جو وہاں جڑ پہ واقع ہورہا ہے وہ یہاں سرے پہ آپ sense کرتے ہیں یا نہیں کررہے یا جو سرے کے ساتھ ہورہا ہے وہ وہاں جڑوں پہ پہنچ رہا ہے یا نہیں پہنچ رہا یہ بیدار ہے قلب بیدار اس کو کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ جو یہاں پر سرا ہے یہ تو محدود ہے ، محدود سے مراد یہ ہے کہ بس یہاں تک ہے ناں لیکن اگر وہاں سے ہوگیا تو پھر وہاں کے لئے تو سارا ایک ہے تو وہ تو پھر کافی بڑا نظام ہے تو اس لئے اس کو کہتے ہیں بیدار ہونا۔ یعنی active ہوجاتا ہے لطیفہ اور زندہ ہوجاتا ہے آپ کہہ سکتے ہیں مطلب لطیفہ زندہ ہوجاتا ہے تو یہ لطائف اگر زندہ ہوجائیں صحیح معنوں میں تو پھر واقعتاً اللہ تعالیٰ ان کی نظر کو بہت بڑھا دیتے ہیں اس کی سماعت کو بھی بہت بڑھا دیتے ہیں مطلب وہ جو ہے ناں اس کے حساب سے کیونکہ وہاں سے پھر وہ چیز آرہی ہے ناں تو اس وجہ سے ہم اس کو عالم کبیر کہتے ہیں
قلب، روح، سر،خفی اور اخفٰی، جو انسانی عالمِ صغیر کے اجزاء ہیں، ان کے اصول عالمِ کبیر میں ہیں، جس طرح عناصرِ اربعہ جو کہ انسان کے اجزاء ہیں اور اپنے اصول عالمِ کبیر میں رکھتے ہیں اور ان پنجگانہ لطائف کے اصول کا ظہور عرش کے اوپر ہے جو لامکانیت سے موصوف ہے یہی وجہ ہے کہ عالمِ امر کو لامکانی کہتے ہیں۔
لامکانی کو میں کیسے سمجھاؤں کیا خیال ہے یہاں مشرق و مغرب شمال جنوب ہے و جہاں یہ سورج نہیں ہوگا تو مغرب اور مشرق کیسے ہوگا ظاہر ہے اس کا وجود ہی نہیں ہوگا جو دن رات والا معاملہ ہے وہ ایسا تو نہیں ہوگا یہاں کا دن رات اور ہے وہاں کا اور ہے لہٰذا اس وجہ سے وہ لامکان ہے اس کے بارے میں نہ dimensions کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ تو محدود ہے اور وہ تو لامحدود ہے تو لہٰذا اس وجہ سے اس کو لامکان کہتے ہیں یعنی space کا جو تصور یہاں پر ہے وہ تصور وہاں پر exist نہیں کرسکتا وہ تصور وہاں پر exist نہیں کرسکتا تو لامکان ہے۔
دائرہ امکان (تمام ممکنات) تمام موجودات اس کو تمام ظاہر ہے دائرہ مکان کہتے ہیں یعنی جہاں جہاں پر تکوین ہوا ہے تکوین کا عمل جہاں جہاں تک ہوا ہے وہ کیا ہے دائرہ امکان کہلاتا ہے خواہ وہ خلق ہو یا امر، یعنی خواہ وہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے تدریجی مراتب کے مطابق پیدا کیا ہو یا اپنے امر کُن سے پیدا کیا ہو خواہ وہ صغیر ہو یا کبیر ، ان اصول کی نہایت تک تمام ہو جاتا ہے یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو اصول بنائے گئے ہیں بتائے گئے ہیں یہ ساری چیزیں دائرہ امکان جو موجودات ہیں وہ وہاں تک ہی ہیں اس کے بعد جو ہے وہ ہم نہیں جاتے کہ موجودات، بلکہ اس کو بھی ہم نہیں جانتے یہ جو موجودات ہیں اس کو بھی ہم کہاں جانتے ہیں یعنی سائنسدان جو ہیں جو اس کے ماہر سائنسدان ہیں NASA کا جو ویب سائٹ ہے اس کے اوپر آپ جائیں تو ان کی statement ہے کہ اگر ہماری دوربینیں اتنی بڑی ہوجائیں جتنی کہ ہماری خواہش ہے پھر بھی ہم پوری کائنات کو نہیں دیکھ سکتے، یہ ناممکن ہے، ناممکن ہے تو جب یہ جو دائرہ امکان ہے اس کو ہم ظاہر ہے نہیں پا سکتے تو جو اس سے لامکان باہر ہے دائرہ امکان سے جو باہر ہے وہ کیسے اس کے بارے میں ہم لوگ معلوم کرسکتے ہیں یا ہم بتا سکتے ہیں ہاں الا کہ اللہ جل شانہ کسی کو وحی کے ذریعہ سے یا جیسے پیغمبر کو وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے یا الہام کے ذریعہ سے اولیاء اللہ کو جیسے بتایا جاتا ہے بس وہی ہے کیونکہ اس کا اور کوئی source ہے ہی نہیں مثلاً یہ جو سماوات کی دنیا ہے سماوات جس کو آسمان کہتے ہیں یہ سائنسدان نہیں مانتے۔ سائنس کی تعریف میں آسمان صرف آپ اسی حد نظر کو کہتے ہیں جہاں تک نظر پہنچ سکتی ہے اس سے زیادہ کا آسمان وہ نہیں جانتے۔ ہم جو آسمان کہتے ہیں جس میں دروازے بھی ہیں سارا نظام ہے وہ جو وہ آسمان ہے وہ وحی کے ذریعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے یہ سائنس کے ذریعہ سے نہیں ہے سائنس کی پرواز وہاں تک ہے ہی نہیں اور سائنس کی پرواز وہاں تک کیسے ہو کہ خود سائنس اپنی زبانی کہتا ہے کہ اتنے دور ستارے موجود ہیں کہ وہ 12 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہیں 12 ارب نوری سال۔ 12 ارب نوری سال کا مطلب ہے کہ 12 ارب سال روشنی سفر کرتی رہے اور روشنی کا سفر ہے ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ اتنا دور ستارے ہیں۔ اچھا جب اتنے دور ستارے ہیں اور یہ سارے ستارے آسمانِ دنیا کے نیچے ہیں کیونکہ نظر آتے ہیں یا نظر آسکتے ہیں جو بھی ستارے نظر آسکتے ہیں وہ شریعت کے مطابق بھی آسمانِ دنیا کے نیچے ہیں وہ آسمانِ دنیا سے اوپر نہیں ہیں کیونکہ آسمانِ دنیا سے اوپر کی چیز نظر نہیں آسکتی یہ جو کہتے تھے ناں چاند چوتھے آسمان پر یہ سائنسدانوں کی باتیں تھیں اس وقت کا سائنس یہ تھا یہ شریعت کی باتیں نہیں ہیں ورنہ کون سی حدیث شریف میں ثابت ہے۔ یہ شریعت کی باتیں نہیں ہیں تو یہ جو آسمان ہے، قرآن شریف میں
زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ (الملک: 5)
تو یہ ستارے جو ہیں یہ کیا ہیں یہ تو چراغ ہیں اور یہ آسمانِ دنیا کو اس کے ذریعہ سے مزین کیا گیا ہے تو یہ چیز جو ہے ناں سائنس کو اگر ملا دیں اس کے ساتھ تو یہ سارے آسمانِ دنیا کے نیچے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسمانِ دنیا بارہ ارب نوری سال سے زیادہ کے فاصلے پہ ہیں کیونکہ ظاہر ہے ستاروں سے اوپر ہے ناں تو ستاروں سے اوپر ہے تو بارہ ارب نوری سال اس سے زیادہ فاصلے پر ہے جب اس سے زیادہ فاصلے پر ہے تو یہ روشنی وہاں تک بارہ ارب نوری سال پہنچتی ہے تو کیسے مطلب یہ معلوم کریں گے اس کو؟ یہ تو ان کے بس میں ہی نہیں تو آسمانِ دنیا تک ان کا کوئی وہ نہیں ہے اپنے آسمان تک لہٰذا آسمانوں کا جو علم ہے یہ ہمیں وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے یہ ہمیں سائنس کے ذریعہ سے نہیں معلوم ہوسکتا
اور عدم کا وجود سے ملنا جو امکان کا منشاء ہے اس مقام میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔
یعنی جو چیز عدم ہے سبحان اللہ! کیا بڑا نکتہ بیان فرمایا حضرت نے، بڑا نکتہ۔ مطلب دیکھیں عدم کچھ نہیں تو جو کچھ نہیں تھا اس میں سے کچھ کو اللہ نے وجود بخشا یعنی تجلی کے ذریعہ سے وہ ممکن بن گیا وہ ممکن بن گیا اس کے بعد جو ممکن نہیں بنا وہ کیا چیز ہے وہ وہی عدم ہے ناں، وہی عدم ہے ناں اس کے علاوہ باقی کیا رہتا؟ مطلب عدم جو وجود نہیں بنا جو موجود نہیں ہوا تو عدم ہی رہا تو لہٰذا یہ مطلب یہ اس مقام کا منتہا ہے اور اس کے بعد پھر عدمِ محض ہے یہ جو موجودات جو ہے اس کا، تو یہ فرمایا کہ
اور عدم کا وجود سے ملنا جو امکان کا منشاء ہے اس مقام میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ اور جب سالک رشید محمدی المشرب عالمِ امر کے پنجگانہ لطائف کو ترتیب وار طے کر کے ان کے اصول میں جو کہ عالمِ کبیر میں ہے یہاں نہیں، عالم صغیر والا نہیں، لوگ تو عالم صغیر پھڑکنے پہ خوش ہوجاتے ہیں ناں کہ بس لطیفہ چل پڑا ہے یہاں عالم صغیر میں سیر کرتا ہے سیر کا میں نے اس دن بتایا تھا کہ یہ سیر سپاٹا نہیں ہے سیر کا مطلب منزل طے کرنا ہے سیر کا مطلب کیا ہے منزل طے کرنا۔ اور بلند فطرتی لیکن ساتھ ہی فوراً فرمایا بلکہ محض فضلِ خداوندی اگرچہ بلند فطرتی بذاتِ خود فضلِ خداوندی ہے لیکن تشریح اس لیے ضروری ہے کہ انسان سے نظر اٹھ جائے اور اللہ تعالی پہ نظر چلی جائے ورنہ ویسے انسان کی نظر انسان پہ ہی چلتی ہے ٹھیک ہے ناں
تو وہ تو نفس ہے نا۔ جب بھی کوئی سرکشی کرتا ہے تو اپنے نفس کی وجہ سے کرتا ہے۔ اور اپنے دل کی محبت اگر غلط ہو تو اس کی وجہ سے کرتا ہے۔ یہ مطلب اس کا۔ تو فنا میں انسان اپنے اِن تمام چیزوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ مطلب اس کی طرف ان کی نظر نہیں ہوتی۔ تو یہاں پر بھی فرمایا کہ
حقیقتِ فنا کا آغاز متحقق ہو جاتا ہے اور ولایتِ کبریٰ کی ابتدا میں جو کہ ولایت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام تسلیمات ہے، قدم رکھا جاتا ہے۔
یہ بعد میں حضرت فرمائیں گے کہ یہ ولایت تو انبیاء کا ہے لیکن انبیاء کے نقشِ قدم پہ چلنے والوں کو کچھ تھوڑا سا حصہ اس کا مل جاتا ہے مطلب یہ والے۔
جاننا چاہئے کہ وہ دائرہِ ظل انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ تمام مخلوفات کے مبادی تعینات کو شامل ہے
یعنی جو تعین جیسے عین ہوتا ہے نا، کسی مخلوق کا عین ، اُس کا مبادی کیا ہے اور وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے؟ مطلب کس چیز سے آگے نکلا ہے۔
اور ہر ایک اسم کا ظل کسی نہ کسی شخص کا مبداء تعین ہے۔ مطلب جو بھی اسمِ الہی ہے، اس کا جو ظل ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی شخص کا مبدا تعین ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت صدیقؓ جو انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے بعد افضل البشر ہیں ان کا مبداء تعین اس دائرہ کے اوپر نقطۂ فوق ہے۔
اور یہ جو (بعض مشائخ نے) کہا ہے کہ جب سالک اس اسم تک جو اس کا مبداء تعین ہے پہنچ جاتا ہے تو اس وقت سیر الی اللہ کو تمام کر لیتا ہے اس اسم سے مراد اسمِ الٰہی جل شانہ، کا ظل جاننا چاہئے ۔ یعنی اسم نہیں ہوتا، ظل، کیونکہ ظاہر ہے مطلب یہ ہے کہ اس میں بعد میں تفصیلات ہیں۔ اور وہ اس اسم کی جزئیات میں سے ایک جزئی ہے نہ کہ اس اسم کی اصل۔ جیسے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا نام ہے صفاتی ، مثلا رحیم ہے کریم ہے ، وہاب ہے۔ جو بھی ، تو اس اسم کا اصل نہیں ہے بلکہ اس کا ظل ہوتا ہے۔ اور وہ دائرہ ظل حقیقت میں اسماء و صفات کے مرتبہ کی تفصیل ہے۔
ایک ہوتا ہے نقطہ اور ایک ہوتا ہے اس کے گرد دائرہ۔ تو دائرہ جو ہوتا ہے مطلب وہ تفصیل بتاتے ہیں۔ محیط جو ہوتا ہے وہ تفصیل بتاتا ہے۔
مثلاً علم ایک حقیقی صفت ہے جس کی بہت سی جزئیات ہیں اور ان جزئیات کی تفصیل اس صفت کے ظلال ہیں جو اجمال کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور اس صفت کی ہر ایک جزئی انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ باقی اشخاص میں سے کسی نہ کسی شخص کی حقیقت ہے، اور انبیاء و ملائکہ کے مبادی تعینات ان ظلال کے اصول یعنی مفصلہ جزئیات کی کلیات ہیں۔
یعنی ایک مطلب دیکھو، باقی لوگوں کے تو ظلال ہیں ناں اور پھر انبیاء کرام جو ہوتے ہیں ان ظلال کے جو اصول ہیں ان کے مبادی تعینات ہیں۔
مثلاً صفت العلم اور صفت القدرۃ اور صفت الارادہ وغیرہ اور بہت سے اشخاص ایک صفت میں جو کہ ان کا مبداء تعین ہے ۔مختلف اعتبارات کے لحاظ سے باہم شرکت رکھتے ہیں۔
یعنی مطلب دیکھیں جیسے انسان ہے۔ لیکن انسان بوڑھا بھی ہوتا ہے، انسان جوان بھی ہوتا ہے، انسان بچہ بھی ہوتا ہے۔ تو یہ مختلف اعتبار ہیں نا۔ تو اب انسان تو سب ہیں لیکن اعتبار اس میں ہر ایک کا اپنا اپنا ہے مطلب جوان الگ ہوتا ہے۔ تو میں کہتا ہوں بھئی اس سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تو بوڑھا کتنا فائدہ اٹھائے گا، جوان کتنا فائدہ اٹھائے گا، بچہ کتنا فائدہ اٹھائے گا، یہ ہر ایک کا اپنا اپنا اعتبار ہے۔
مثلاً حضرت خاتم الرسلﷺ کا مبداء تعین شان العلم ہے نیز یہی صفت العلم ایک (خاص) اعتبار سے حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والتسلیمات کا مبداء تعین ہے، اور نیز یہی صفت ایک (اور خاص) اعتبار سے حضرت نوح علی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والتسلیمات کا مبداء تعین ہے۔ اور ان اعتبارات کے تعین کا ذکر خواجہ محمد اشرف کے مکتوب (251) میں ہو چکا ہے۔ اور یہ جو بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ حقیقتِ محمدی تعینِ اوّل ہے ، حقیقت محمدی کا بھی تفصیلی بیان گزر چکا ہے مکتوب نمبر 209 میں۔جو حضرتِ اجمال ہے اور وحدت کے نام سے مسمیٰ ہے۔ یعنی تعین اول سے مراد یہی ہے ناں کہ سب سے پہلے اللہ پاک نے کیا کیا؟ مطلب اس سے پھر بعد میں یہ ساری چیزیں۔
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے،نقشِ روئے محمد ﷺ بنایا گیا
ان کی مراد جو کچھ اس فقیر پر ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ دائرہ ظل کا مرکز یہی ہے۔ یعنی یہاں سے ظلال سارے منتشر ہو چکے ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم (اور اللہ سبحانہ ہی جانتا ہے)۔ اس دائرہ ظل کو تعینِ اوّل خیال کیا ہے اور اس کے مرکز کو اجمال جانتے ہوئے وحدت کا نام لیا ہے اور اس مرکز کی تفصیل کو جو اس دائرہ کا محیط ہے واحدیت گمان کیا ہے، اور دائراۂ ظل کے مقام سے اوپر جو اسماء و صفات کا دائرہ ہے، ذاتِ بے چون جو تعین سے مبرا ہے تصور کیا ہے، کیونکہ صفت کو انہوں نے عینِ ذات کہا ہے ۔ یہ اصل میں حضرت کا opinion اس سے مختلف ہے۔ لیکن وہ دوسروں کا opinion بتا رہے ہیں کہ لوگوں نے اس کو عین، مطلب جو اس سے اوپر والا دائرہ ہے اس کو عین ذات کا کہا ہے۔اور ذات پر زائد نہیں جانا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ حضرت کے نزدیک جو صفات ہیں وہ زائد ہیں ذات کے اوپر، مطلب وہ علیحدہ ہیں۔ یعنی یوں سمجھ لیں وہ صفت ایک وجود رکھتا ہے علیحدہ۔ ایک وجود علیحدہ رکھتا ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس دائرہ ظل کا مرکز، دائرہ فوق کے مرکز کا ظل ہے یعنی دیکھیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ جو دائرہ ظل ہے، اس کا جو مرکز ہے، دائرہ فوق کے مرکز کا، جو کہ دائرہ ظل کی اصل ہے اور اسماء و صفات، شیون و اعتبارات کے دائرہ سے موسوم ہے۔ یعنی صفات اس سے لیے گئے ہیں۔ صفات شئونات سے لیے گئے ہیں۔ حضرت کی تحقیق کے مطابق جو صفات ہیں وہ شئونات سے لیے گئے ہیں۔ لہذا ان کا جو ہے ناں وہ اس اصل ہے چونکہ ذات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور یہ ظلال ہیں۔ حقیقت میں حقیقتِ محمدی اسی دائرہ اصل کا مرکز ہے جو اسماء و شیونات کا اجمال ہے کیونکہ حضرت نے شان علم کو اللہ جل شانہ کی ذات کے ساتھ وہ کیا ہوا ہے۔ یعنی، جو ہے ناں وہ اس پر بڑی تفصیل حضرت نے بیان فرمایا۔ اور اس دائرہ میں ان اسماء و صفا ت کی تفصیل واحدیت کا مرتبہ ہے اور ظلالِ اسماء کے مرتبہ میں وحدت اور واحدیت کا اطلاق کرنا ظل کو اصل کے مشابہ سمجھنے پر مبنی ہے، یعنی ظل جو ہے اس کو اصل قرار دیا گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اور سیر فی اللہ کا اطلاق بھی اس مقام میں اسی قسم سے ہے۔
کیونکہ وہ سیر فی الحقیقت سیر الی اللہ میں داخل ہے۔ اسی طرح ہے۔۔۔ اس کے بعد اگر اسماء و صفات کے دائرہ میں جو کہ اس دائرہ ظل کا اصل ہے سیر فی اللہ کے طریق پر عروج واقع ہوجائے تو وہاں ولایتِ کبریٰ کے کمالات شروع ہو جاتے ہیں۔ یعنی انبیاء کرام ۔ اور یہ ولایتِ کبریٰ (بلاواسطہ اصلی طورپر) انبیاء علیہم الصلٰوۃ والتسلیمات کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی پیروی کے باعث ان کے اصحاب کرام بھی اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں، اس دائرہ کے نیچے کا نصف حصہ ، نیچے کا نصف حصہ، اسماء و صفاتِ زائدہ کو متضمن ہے زائدہ، یہاں پر زائدہ لے لیا۔ یعنی وہ زائد ہے ذات پر اور اس کا نصف بالائی حصہ شیون و اعتباراتِ ذاتیہ پر مشتمل ہے۔
عالمِ امر کے پنجگانہ (لطائف و مراتب) کے عروج کی انتہا اسماء و شیونات کے دائرہ کی نہایت تک ہے۔ اس کے بعد اگر محض فضل ایزدی جل شانہ سے مقام صفات و شیونات پر ترقی واقع ہوجائے تو ان کے اصول کے دائرہ میں سیر واقع ہوگی، اور دائرہ اصول سے گزرنے کے بعد ان اصول کے اصول کا دائرہ ہے اس دائرہ کے طے کرنے کے بعد دائرہ فوق سے ایک قوس (نصف دائرہ کے مانند) ظاہر ہوگی اس کو بھی قطع کرنا پڑتا ہے۔ اور چونکہ اس دائرہ فوق سے قوس کے علاوہ اور کچھ ظاہر نہیں ہوا اس لئے اسی قوس پر بس کیا گیا۔ شاید اس جگہ کوئی راز ہوگا جس پر (عالم غیب سے) اطلاع نہیں بخشی گئی۔ اور اسماء و صفات کے یہ اصول سہ گانہ جو مذکور ہوئے حضرت تعالیٰ و تقدس میں محض اعتبارات ہیں جو کہ صفات وشیونات کے مبادی ہوگئے ہیں۔ ان اصول سہ گانہ کے کمالات کا حاصل ہونا نفسِ مطمئنہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس (نفس) کو اس مقام میں اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور اسی مقام میں شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے۔
اصل میں یہاں پر ایک بات درمیان میں آ سکتی ہے کہ کسی کو ذہن میں یہ آسکتا ہے کہ یہ تو یہاں پر کیسے نفس مطمئنہ حاصل ہو گیا نفس کی تو تربیت تو ہوئی نہیں؟ تو جو فنا حاصل ہوتا ہے وہ نفس کو فانی کرنے کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے تو وہ تو گزر چکا ہے۔ وہ فنا کے ذریعے سے وہ چیز حاصل ہوتا ہے۔ تو فنا کا مرتبہ تو گزر گیا ہے۔ اب فنا کے مرتبے میں یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے حجابات ہیں تو مختلف حجابات قطع ہوتے ہیں۔ تو ایک ہے ظلماتی حجابات اور ایک ہوتے ہیں نورانی حجابات۔ تو ظلماتی حجابات بھی قطع کرنے پڑتے ہیں، پھر نورانی حجابات بھی قطع کرنے پڑتے ہیں، اس سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس سے پھر جو ہے نا یہ چیز جب آجاتی ہے نا تو پھر یہ نفس مطمئنہ یعنی حاصل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت یعنی اللہ جل شانہٗ کے عظمت کا مشاہدہ بلا حجاب ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات کا نہیں۔ اللہ کی عظمت کا جو مشاہدہ ہے وہ بلا حجاب ہوتا ہے۔ تو جب یہ بلا حجاب ہوگا تو ایسی صورت میں پھر انسان اپنے بارے میں کیا؟ تو نفس تو گیا۔ تو ایسی صورت میں نفس مطمئنہ کی حالت حاصل ہو جاتی ہے پھر۔ یعنی وہ پھر اللہ پاک کی عظمت کے سامنے وہ پھر surrender کر لیتا ہے۔ اور کچھ نہیں، اللہ پاک جو بھی اللہ پاک کا حکم ہوتا ہے اس پہ تیار ہوتا ہے۔
اس (نفس) کو اس مقام میں اطمینان حاصل ہو جاتا ہے نفسِ مطمئنہ اور اسی مقام میں شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے۔ یعنی دل۔ یعنی دل اور نفس دونوں یہاں پر۔ دل کو شرح صدر حاصل ہو جاتا ہے۔ اور نفس کو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ اور عقل کو سمجھ آ جاتی ہے۔ ٹھیک ہے۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں، اور سالک اسلامِ حقیقی سے مشرف ہوجاتا ہے۔ اسلام حقیقی، نہ کہ تقلیدی سے، وہ جا کے مطلب اسلام حقیقی سے مشرف ہو جاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں نفسِ مطمئنہ صدارت کے تخت پر جلوس فرماتا ہے اور مقامِ رضا پر ترقی کرتا ہے۔ راضی برضا ۔یہ مقام ولایتِ کبریٰ کی انتہا کا مقام ہے جو ولایتِ انبیاء علیہم الصلٰواة والتسلیمات کا مقام ہے۔ یہاں پیغمبروں کو تو یہ مقام اصلاً حاصل ہوتا ہے اور ان کے امتیوں کو تبعاً حاصل ہوتا ہے۔ تبعاً حاصل ہوتا ہے۔
جب اس فقیر کی سیر یہاں تک ہو چکی تو وہم و خیال میں آیا کہ سب کام مکمل ہو چکا ہے، (اتنے میں عالمِ غیب سے) ندا آئی کہ’’ یہ سب کچھ اسمِ ظاہر کی تفصیل تھی جو کہ پرواز کے لئے ایک بازو ہے، اور اسمِ باطن کی سیر ابھی باقی ہے۔
آج کل کے نقشبندیوں کو اگر دیکھیں۔ کیا خیال ہے؟ ہاں جی یہ باتیں آتی ہیں؟ بس یہی مسئلہ ہے۔ اصل میں سبحان اللہ کا لفظ اور ہے اور سبحان اللہ کی حقیقت اور ہے۔ دونوں بہت فرق رکھتے ہیں ۔ اللہ اکبر کے الفاظ اور ہیں اور اللہ اکبر کی حقیقت اور ہے۔
جو کہ عالمِ قدس کی طرف پرواز کرنے کے لئے دوسرا بازو ہے، اور جب تو اس کو بھی مفصل طور پر انجام دیدے گا تو اس وقت تجھے پرواز کے لئے دو بازو عطا ہوں گے‘‘۔ اور جب اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے اسمِ باطن کی سیر بھی انجام پاچکی تو دو بازو میسر ہو گئے۔ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰنَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰنَا اللّٰهُ ، لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ (اعراف7آیت) (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو اس کی ہدایت بخشی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ بخشتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے ہیں)۔
اے فرزند! اسمِ باطن کی سیر کی نسبت کیا لکھا جائے۔ اس سیر کا حال استتار وتبطن (درپردہ رہنے) ہی کے مناسب ہے۔ یعنی پردہ ہی رہے اِس پر۔البتہ اس مقام کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا جاتا ہے کہ اسمِ ظاہر کی سیر صفات میں ہے بغیر اس بات کے کہ اس کے ضمن میں ذات تعالیٰ و تقدس ملحوظ ہو، صفات ہی میں جاتا ہے۔ صفات ہی کے بارے میں بات ہوتی ہے۔ اور اسمِ باطن کی سیر بھی اگرچہ اسماء میں سے ہے لیکن اس ضمن میں ذات تعالیٰ ملحوظ ہے اور یہ اسماء ڈھالوں (سپر) کے مانند ہیں جو حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے حجابات ہیں۔
کیا میں بتاؤں؟ یہ ذرا بہت باریک بات ہے۔ یہ اللہ پاک کا اسم، مثلاً کریم لے لیں۔ اب اللہ تعالی جب کرم فرماتا ہے تو لوگ خوش ہوتے ہیں۔ بہت اچھا۔ لیکن اللہ پاک اگر اپنی حکمت بالغہ سے کچھ اور فرمائے، مثلاً کچھ تربیتاً حالات بھیجے، ایسی صورت میں جو صرف صفت کریم میں فانی ہوگا، وہ تو وہ نہیں رہے گا۔ اللہ کے ساتھ وہ تعلق تو نہیں رہے گا۔ تو یہ حجاب ہو گیا یا نہیں ہو گیا؟ یہ حجاب بن جاتا ہے۔ تو یہ، یہ جو ہے مطلب ان حجابات سے نکلنا یہ بہت، یعنی اسماء سے ذات کی طرف کا سفر جو ہے یہ کافی مطلب وہ ہوتا ہے۔ تو فرمایا کیسی عجیب بات فرمائی،
اور یہ اسماء ڈھالوں کے مانند ہیں جو ذات تعالی و تقدس کے حجابات ہیں۔ مثلاً صفتِ علم میں ذات تعالیٰ ہرگز ملحوظ نہیں ہے لیکن اُس کے ’’ اسمِ علیم‘‘میں ذات تعالیٰ صفت کے پردہ میں ملحوظ ہے، کیونکہ علیم ایک ذات ہے جس کی صفت ’’علم‘‘ ہے پس’’علم ‘‘ کی سیر’’اسمِ ظاہر‘‘ کی سیر ہے اور ’’علیم کی سیر ’’اسِم باطن‘‘ کی سیر ہے۔
باقی تمام صفات و اسماء کا حال بھی اسی پر قیاس کریں۔
یہ اسماء جو اسمِ باطن سے تعلق رکھتے ہیں ملائکہ ملاء اعلیٰ علیٰ نبینا وعلیہم الصلواة والتحیات کے تعینات کے مبادی ہیں، اور ان اسماء میں سیر کا آغاز کرنا ولایتِ علیا میں قدم رکھنا ہے جو کہ ملاء اعلیٰ کی ولایت ہے۔ اور اسمِ ظاہر و اسمِ باطن کے بیان میں جو علم اور علیم کے درمیان فرق ظاہر کیا گیا ہے، تم اس فرق کو تھوڑا نہ سمجھو اور نہ یہ کہ کہو کہ ’’علم‘‘ سے ’’علیم‘‘ تک بہت کم راستہ ہے، بلکہ وہ فرق ایسا ہے جیسا کہ مرکزِ زمین سے محدّب (سطحِ) عرش کے درمیان ہے ،نیز اس فرق کی نسبت ایسی ہے جیسے قطرہ کو دریائے محیط کی نسبت کا فرق ہے، کہنے کو تو یہ نزدیک ہے لیکن حاصل ہونے پر بہت دُور ہے اور ان مقامات کا ذکر جو مجمل طور پر بیان کیا گیا ہے وہ بھی اسی قسم سے ہے مثلاً کہا گیا ہے کہ پنجگانہ (لطائف و مراتب) عالمِ امر کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے تاکہ دائرہ امکان تمام ہو جائے۔
یہ واقعتاً ہمارے جو الفاظ ہوتے ہیں، مراقبات کے، مختصر ہوتے ہیں۔ لیکن کیا وہ مقام اتنا مختصر ہے؟ اس پہ تو بہت وقت لگتا ہے۔
صوفی نشود صافی، تا در نکشد جامے
بسیار سفر باید، تا پختہ شود خامے
اس مختصر سی عبارت میں ’’سیرالی اللہ‘‘ کا پوری طرح ذکر آگیا ہے، لیکن اس سیر کے حاصل ہونے میں پچاس ہزار سالہ راہ کی مدت کا اندازہ کیا گیا ہے۔ تَعۡرُجُ الۡمَلٰٕٓكَةُ وَ الرُّوۡحُ اِلَيۡهِ فِىۡ يَوۡمٍ كَانَ مِقۡدَارُهٗ خَمۡسِيۡنَ اَلۡفَ سَنَةٍ (معارج70آیت4) (فرشتے اور روح اس کی جانب ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے)۔ اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ حق تعالیٰ جل سلطانہ کی عنایت کے جذب و کشش سے کوئی بعید نہیں کی اس مدتِ دراز کے کام کو طرفتہ العین (آنکھ جھپکنے) میں میسر کر دے۔
باکریماں کارہا دشوار نیست
(کریموں پر نہیں ہیں کام دشوار)
اورا سی طرح سے یہ جو کہا گیا ہے کہ دائرۂ اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے، تمام اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کا طے کرنا کہنے میں تو آسان ہے لیکن طے کرنے میں بہت مشکل ہے۔ اور مشائخ نے اس سیر کو طے کرنے کی دشواری کے متعلق فرمایا ہے کہ مَنازِلُ الوَصُولِ لَا تَنْقَطِعُ اَبَدُ الَابَدَینِ (وصول کی منزلیں ابدالآباد تک کبھی ختم نہیں ہوتیں)۔ اور مشائخ نے ان مراتب کی سیر کے پورا ہونے کو ناممکن سمجھا ہے
نہ حسنش غایتے دراد نہ سعدی راسخن پایاں
بمیرد تشنہ مستسقی و دریا ہمچناں باقی
(نہ اُس کے حُسن کی حد ہے نہ سعدی کا سخن آخر
مرے پیاسا ہی مستسقی مگر دریا رہے جاری)
یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ وصول (الی اللہ) کے مراتب کا انقطاع تجلیات ذاتیہ کے اعتبار سے کہا گیا ہے نہ کہ تجلیاتِ صفاتیہ کے اعتبار سے، اور (مشائخ نے) حُسن سے مراد حُسنِ ذاتی قرار دیا ہے نہ کہ حُسنِ صفاتی۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ وہ تجلیاتِ ذاتیہ شیون و اعتبار کے ملاحظہ کے بغیر نہیں ہیں اور وہ حُسن ذاتی صفاتِ جمالیہ کے روپوش (حجاب) کے بغیر نہیں ہے کیونکہ اس مقام میں ان روپوشوں کے بغیر گفتگو کی مجال نہیں ہے:مَنْ عَرفَ اللّٰہ کَلَّ لِسَانُہُ (جس نے اللہ تعالیٰ کہ پہچان لیا اس کی زبان گنگ ہوگئی)۔
اصل میں بات یہ ہے کہ جتنا جتنا انسان کے اوپر اللہ پاک اس چیز کا فیضان کھولتا ہے، اور اس کی معرفت بڑھتی ہے، تو اس معرفت کے ساتھ ہی یہ معرفت بھی ہوتی ہے کہ کتنی بات کرنی ہے۔ کتنی بات کرنی ہے۔ یعنی یہ والی بھی ساتھ ساتھ مطلب یعنی ادب۔ وجہ یہ ہے کہ بیان کرنا ہوتا ہے الفاظ کے ساتھ۔ اور چیز ہے کیفیت کا۔ تو کیفیت کو الفاظ میں بیان کیا نہیں جا سکتا۔ تو جس وقت کیفیت کو کوئی الفاظ میں بیان کرتا ہے، تو فتنہ بنتا ہے۔ فتنہ بنتا ہے۔ تو ایسی صورت میں اس فتنے سے بچنے کے لیے خاموشی ضروری ہے۔ تو اس خاموشی کا جو مطلب ہے، مطلب جس پر جتنا کھولا جاتا ہے، تو اس کے مطابق وہ اتنا ہی خاموش ہوتا ہے۔
اور تجلی ایک قسم کی ظلیت چاہتی ہے ۔
دیکھیں سبحان اللہ، یہ بہت بڑی بات ہے۔ تجلی۔ کیوں؟ اللہ جل شانہ کی ذات وراءالوراء ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ اور تجلی جب کسی کے اوپر وارد ہوتی ہے تو گویا کہ اللہ جل شانہ اپنی شان کو اس کی سمجھ کے مطابق اس پہ جلوہ فگن کرتا ہے۔ تو اب ظاہر ہے، وہ شخص تو ادھر نہیں جا سکتا نا، تو پھر اللہ پاک کی وہ جو ہے نا، وہ ظل کے طور پر، جس کو تجلی کو جو ہے نا وہ کہتے ہیں ظلیت۔ وہ ظل کے طور پر آتی ہے۔ تو ایسی صورت میں جو کہتا ہے کہ یہی خدا ہے، وہ ظاہر ہے وہ بیچارہ مارا گیا۔ لیکن وہ جب اس کو پتہ چل جائے کہ یہ تجلی ہے، تو تجلی کے بارے میں اس کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ ظل ہے۔ لہذا وہ اس لیے تجلی صوری کا جو لفظ ہے، وہ بھی اسی طرح ہے۔ کیونکہ انسان تصور صورت کا کر سکتا ہے۔ تصور صورت کا کر سکتا ہے۔ تو وہ جو بے صورت تصور ہے، وہ ابتدا میں نہیں ہو سکتی۔ تو اس پر تجلی جب ہوتی ہے، تو اگر اس کا شیخ کامل نہ ہو، تو وہ گمراہ ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ جو شیخ کامل ہوتا ہے، وہ اس کو سمجھاتا ہے کہ یہ نہیں ہے۔ اسی لیے فرمایا ہے، دیکھو اصول ہے آپ حضرات نے پڑھا ہوگا۔ کہ اس میں فرمایا کہ جس چیز کے بارے میں تمہیں یہ خیال ہے کہ یہ اللہ ہے، تو سمجھو کہ اللہ نہیں ہے۔ یعنی یہ چیز آپ کے ذہن میں بالکل ایسا واضح و راسخ ہونا چاہیے کہ درمیان میں اور کوئی بات نہ ہو۔ یعنی جیسے ہی آپ کو اللہ کے بارے میں کوئی خیال آ گیا کہ اللہ ایسے ہے، تو سمجھو کہ اللہ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ وجہ کیا ہے؟ ہمارا ذہن اس کا ادراک کر ہی نہیں سکتا۔ ہمارا قلب اس کا ادراک کر ہی نہیں سکتا۔ جب ادراک نہیں کر سکتے، تو اللہ پاک ایسا نہیں۔ ہاں، اللہ پاک نے اپنے موجودگی کا احساس جو دلایا ہے، یہ اس کا فضل ہے۔ کیفیتِ حضوری جو دیا ہے، یہ اس کا فضل ہے۔ جس کی وجہ سے وہ تجھے اپنے قریب کر رہا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تُو نے اللہ کو دیکھ لیا ہے۔ اللہ کو دیکھنا تو ممکن نہیں، لیکن یہ ممکن ہوگا کہ آپ کو وہ کیفیت حاصل ہو جیسے دیکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے کیفیت کا تقاضا ہے۔ دیکھنے کا تقاضا نہیں۔ دیکھنے کے بارے میں تو صاف فرمایا”:لن ترانی“۔ اس میں تو دوسری بات ہے نہیں۔ البتہ یہ کیفیت کا تقاضا ہے:
ان تعبداللہ کانک تراہ
تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔
تو جیسے والی جو بات ہے، وہ تو ہو سکتی ہے۔ مطلب آپ یوں کہہ سکتے ہیں اپنی جو قلب و عقل کی جو آنکھ ہے، جو معرفت، قلب و عقل سے مراد معرفت۔ یعنی آپ کو محبت اور معرفت سے جو آنکھ ملی ہے، محبت اور معرفت سے جو آنکھ ملی ہے، اس آنکھ کو آپ اتنا قوی کر دیں کہ وہ اس کیفیت کو حاصل کر لے، جس کیفیت کو آپ واقعی آنکھ سے دیکھنے سے حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ جنت اور دوزخ اگر ہمارے سامنے بھی کیے جائیں تو ہمارے ایمان میں ذرا برابر فرق نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ چیز پہلے سے کیفیتاً حاصل کی تھی۔ جو کوئی چیز کیفیتاً پہلے سے حاصل ہو، تو اس کو دیکھنے سے... یا حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو فرمایا تھا، وہ اور زیادہ اور زیادہ واضح بات ہے۔ کہ انہوں نے فرمایا کہ اب مجھے دیکھنے کی خواہش نہیں ہے کہ مجھے آپ کی زبان پر زیادہ یقین ہے، بمقابلہ اپنی آنکھ کے۔
تو یہ، یہ جو ہے نا ظلیت۔ فرمایا ہے کہ
اور تجلی ایک قسم کی ظلیت چاہتی ہے لہٰذا اس مقام میں شیون کے ملاحظہ کے بغیر چارہ نہیں پس وہ منازلِ وصول اور مراتبِ حُسن اسی اسماء و شیونات کے دائرہ میں داخل ہیں جس کا انقطاع (طے کرنا ان (مشائخ) کے نزدیک دشوار ہے۔ لیکن وہ امر جو اس درویش پر ظاہر کیا گیا وہ تجلیات و ظہورات سے ماوراء (بالاتر) ہے، خواہ وہ تجلیات ذاتی ہوں یا صفاتی اور حسن و جمال سے وراء ہیں خواہ وہ حُسن ذاتی ہو یا صفاتی؟ مختصر یہ کہ مطالبِ بلند اور مقاصدِ ارجمند کے موتیوں کو مختصر طور پر عبارات کی لڑی میں پرودیا ہے اور دریائے بیکراں کو چند کوزوں میں بھر دیا ہے۔ فَلَاتَکُنْ مِنَ القَاصِرِینَ (پس کم ہمت نہ ہو)۔
عارفانہ کلام
اسمِ ظاہر اور اسمِ باطن کی تجلیات
اسمِ ظاہر سے ہے ظہور اس کا، اسمِ باطن سے برآمد حیرت اس کی جب ذات ہے وراء الورا، اس کو دیکھنے کی ہو کیسی قدرت
قدرتوں کا کہ جس سے اظہار ہو، اسمِ ظاہر میں نمایاں ہے یہ
خیال اور عقل سے باہر باہر، ذات اس کی ،اس کی شان و شوکت
وہ ہی ہر چیز میں نمایاں محسوس، بند آنکھوں سے بھی نظر آئے
آنکھیں پھاڑ پھاڑ اس کو دیکھ نہ سکیں،بے ثمر ہوگی ان کی یہ محنت
جنت میں اس کی نعمتوں کا اظہار ، کردے مبہوط ہر جنتی کو جب
نصیب اس کا جب دیدار ہوگا ، ماند پڑجائے گی ہر اک نعمت
جنت میں اس کی نعمتوں کا اظہار ، کردے مبہوط ہر جنتی کو جب
نصیب اس کا جب دیدار ہوگا ، ماند پڑجائے گی ہر اک نعمت
شکر ایماں پہ ہو نصیب شبیر کو، لازمی شرط ہے اس کی دید کی جو یہ
کلمہ طیبہ نصیب ہو اس کو، باور اس کا ساتھ بوقتِ رحلت
متن:اب ہم اصل مطلب کی طرف آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسمِ ظاہر اور اسم باطن کے دونوں بازوؤں کے حصول کے بعد جب (اس فقیر کو) پرواز میسر ہوئی اور عروجات واقع ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ ترقیاں اصالت کے طور پر عنصرِ ناری کے نصیب ہیں اور عنصرِ ہوائی اور عنصرِ آبی کے ملائکہ کرام علیٰ نبینا و علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کو بھی ان سہ گانہ عناصر سے حصہ ملا ہے، جیسا کہ وارد ہوا ہے کہ بعض ملائکہ آتش اور برف کی مخلوق ہیں اور ان کی تسبیح یہ ہے سُبْحَانَ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ النَّارَ والثَّلْجَ (تعریف ہے اس ذات کی جس نے آگ اور برف کو جمع کر دیا) (یعنی ملائکہ کو آتش اور برف کو ملا کر مخلوق کیا) اور اس سیر کے دوران ایک واقعہ پیش آیا کہ گویا میں ایک راستہ پر جا رہا ہوں اور چلتے چلتے تھک گیا ہوں ۔ چوب اور عصا کی آرزو پیدا ہوئی کہ شاید ان کی مدد سے (بقیہ) راہ طے کر سکوں لیکن میسر نہیں ہوئی اور ہرخس و خاشاک پر ہاتھ ڈالتا ہوں تاکہ راستہ کی تقویت کا باعث ہو لیکن راستے طے کرنے کے بغیر بھی چارہ نہیں ہے۔ اور جب کچھ مدت اسی حال میں سیر کی تو ایک فنائے شہر (شہر کی حدود) ظاہر ہوا، اس فنا کی مسافت طے کرنے کے بعد شہر میں داخل ہوا۔ (اس وقت) مجھ کو مطلع کیا گیا کہ اس شہر سے مراد تعین اوّل ہے جو تمام اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کے مراتب کا جامع ہے۔ اور نیز ان مراتب کے اصول اور ان کے اصول کے اصول کا جامع ہے اور اعتباراتِ ذاتیہ کا منتہا ہے جن کے درمیان تمیز کرنا علمِ حصولی کے مناسب ہے، اس کے بعد اگر سیر نصیب ہو تو وہ علم حضوری کے مناسب ہوگی۔اے فرزند! علمِ حصولی اور علمِ حضوری کا اطلاق حضرت جل سلطانہ، کے ہاں بطور تشبیہ و تمثیل (مشابہ اور مثال) و تنظیر (نظیر) کے اعتبار سے ہے (نہ کہ حقیقت کی رو سے) کیونکہ وہ صفات جن کا وجود ذات تعالیٰ و تقدس کی ذات کے وجود پر زائد ہے ان کا علم علمِ حصولی کے مناسب ہے اور وہ اعتبارات ذاتیہ جن کا ذات تعالیٰ و تقدس پر زائد ہونا ہرگز متصور نہیں ہے ان کا علم علمِ حضوری کے مناسب ہے۔
تشریح:لا الہ الا اللہ۔ لا الہ الا اللہ۔
یہ جو کیفیتِ حضوری ہوتا ہے، یہ بھی اصل میں اس قسم کی کیفیت ہوتی ہے کہ انسان کو کوئی ایسا پتا تو نہیں چلتا کہ جیسے کوئی چیز کو سامنے دیکھ رہا ہو۔ لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے جیسے میں کسی کے سامنے ہوں۔ یہ کیفیتِ حضوری ہے۔ اور دوسرا جو کیفیت ہوتی ہے وہ وہی صفات کی رو سے ہے۔ صفات کی رو سے ہے نا کہ اللہ پاک مجھے دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے سن رہے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ظاہر ہے وہ سب چیزوں پہ قادر ہیں۔ اب یہ صفات کے ذریعے سے ہے۔ یہ صفات، تو یہ علمِ حصولی والی بات ہے۔ اور وہ جو کیفیتِ حضوری جو ہوتا ہے وہ علمِ حضوری کی بات ہے۔ یعنی اس میں دائرۂ محسوسات... اس میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے کہ جیسے میں اللہ کے سامنے ہوں۔ ظاہر ہے اللہ کو دیکھ تو نہیں سکتا۔ لیکن... ظاہر ہے۔ ظاہر ہے اس کو الفاظ میں تو کوئی بیان نہیں کر سکتا لیکن بہرحال ایسا ہے جیسے کہ...یا کریم...
متن:ان کا علم علمِ حصولی کے مناسب ہے اور وہ اعتباراتِ ذاتیہ جن کا ذات تعالیٰ و تقدس پر زائد ہونا ہرگز متصور نہیں ہے ان کا علم علمِ حضوری کے مناسب ہے ورنہ ہاں سوائے اس تعلق کے جو علم کو اپنے معلوم سے ہے اس امر کے بغیر کہ معلوم سے اس میں کیا حاصل ہوتا ہے اور کچھ نہیں ہے پس سمجھ لیجئے۔اور یہ تعینِ اوّل اشارہ ہے اس جامع شہر کا جو تمام انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلٰوۃ والتسلیمات کی تمام ولایات کا جامع ہے اور ولایتِ علیا کی منتہا ہے جو اصالۃ ملاء اعلیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس مقام میں یہ ملاحظہ کیا گیا کہ آیا یہ تعینِ اوّل ’’ حقیقتِ محمدی‘‘ ہے۔ معلوم ہوا کہ حقیقت محمدی وہی ہے جس کا ذکر اوپر ہوا اور اس کو تعین اول اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ وہ اسماء وصفات اور شیون و اعتبارات کے جامع ہونے کے اعتبار سے اس تعین اوّل کے ظل کا مرکز ہے،
تشریح:اس تعینِ اول کے ظل کا مرکز ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظلال کے مقام پر ہیں اس وقت۔
متن:اور وہ سیر جو اس شہر سے اوپر واقع ہو وہ کمالاتِ نبوت کی ابتدا ہے۔ جن کا حصول انبیا علیہم الصلٰوۃ والتحیات کے خاص مخصوص ہے اور یہ کمالات مقامِ نبوت سے ناشی (پیدا) ہوئے ہیں۔ اور انبیاء کے کامل تابعداروں کو بھی ان کی پیروی کے طفیل ان کمالات میں سے کچھ حصہ حاصل ہے، اور لطائفِ انسانی کے درمیان عنصر خاکی کو بھی...
تشریح:یہ اصل میں وہی والی عنصر کا جیسے میں نے مثال دی نا کہ وہ جو خاکی صفت ہے یا یوں سمجھ لیجیے کہ اس کی خاکی طبیعت ہے۔ کیونکہ مٹی سے تو بنا ہے۔ تو وہ تو ہے... باقی آبی خاصیت بھی ہے اس میں۔ "وجعلنا من الماء کل شئ حی"۔ تو جو آبی خاصیت بھی اس میں ہے اور ہوائی بھی ہے۔ روحِ ہوائی جو موجود ہے۔ مطلب ظاہر ہے ہوائی بھی ہے اور اس طریقے سے یہ ہے کہ آتشی بھی ہے۔ یہ جو انرجی ہے سارے کیا چیز ہے؟ تو یہ آتشی ہے۔ تو طبیعتیں تو سارے موجود ہیں۔ لیکن اس کو پہلے عناصر کہا جاتا تھا۔ ہاں جی۔ لیکن اب اس کو عناصر نہیں کہا جاتا، یہ طبیعتیں ہیں۔متن:عنصر خاکی کو بھی اصالت کے طور پر ان کمالات کا کافی حصہ حاصل ہے۔ اور تمام اجزائے انسانی خواہ وہ عالمِ امر سے ہوں یا عالمِ خلق سے سب کے سب اس مقام میں اسی عنصرِ پاک کے تابع ہیں اور اس کے طفیل اس دولت سے مشرف ہیں، اور چونکہ یہ عنصر بشر کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے لازمی طور پر’’ خواصِ بشر‘‘ ’’خواصِ ملائکہ‘‘سے افضل ہو گئے۔
تشریح:مطلب یہ ہے کہ... شیطان کو یہی تو دھوکہ ہوا تھا نا۔ اس نے کہا "خلقتنی من نار وخلقتہ من طین"۔ تو اس نے یہ خاک کے مقام کو نہیں سمجھا تھا۔ تو لہٰذا وہ گمراہ ہو گیا۔ فرشتے سمجھ گئے، حکمِ الٰہی کے سامنے surrender کر گئے اور انہوں نے سجدہ کیا۔
متن:کیونکہ جو کچھ اس عنصر کو میسر ہوا ہے کسی کو بھی میسر نہیں ہوا۔ اور دُنُوّ (نزدیک ہونا) کے بعد تدلی (قریب ہونا) کی حقیقت اس مقام میں ظاہر ہوئی اور فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ اَوۡ اَدۡنٰىۚ (نجم53 آیت9) (دو کمانوں کا فاصلہ تھا یا اس سے بھی کم) کا راز بھی اس مقام پر منکشف ہوتا ہے۔۔۔اور اس سیر میں معلوم ہوتا ہے کہ تمام ولاتیوں کے کمالات خواہ وہ ولایتِ صغریٰ ہو یا ولایتِ کبریٰ یا ولایتِ علیا سب کے سب مقامِ نبوت کے کمالات کے ظلال ہیں اور وہ تمام کمالات خاص ان کمالات کی حقیقت کے لئے شح اور مثال کی طرح ہیں۔ اور روشن ہو جاتا ہے کہ اس سیر کے ضمن میں ایک نقطے کا قطع کرنا مقامِ ولایت کے تمام کمالات کو طے کرنے سے زیادہ ہے۔
تشریح:اصل میں واقعتاً اس مقام کو سمجھنا انتہائی مشکل چیز ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں، ذرا ایک ذرا، میرے خیال میں ذرا تھوڑا سا علمی بنیادوں پہ بات کرتے ہیں۔ کہ... ولی جتنا بھی اونچا ہو جائے، صحابی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔ ہے نا یہ بات؟ طے شدہ ہے۔ صحابی چاہے جتنا اونچا ہو جائے، نبی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ اب کیوں نہیں پہنچ سکتا؟ اعمال کے لحاظ سے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ اعمال کے لحاظ سے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ وہ اصل میں وہ جو روحانیت ہے، اس مقام سے بات ہے۔ اب یہ روحانیت کا ادراک سب کو نہیں ہوتا، لہٰذا یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کہ... عام آدمی صحابی کے مقام کو کیسے نہیں پہنچ سکتا۔ اور صحابی جو ہے نا وہ نبی کے مقام کو کیسے نہیں پہنچ سکتا۔ حالانکہ ظاہری اعمال میں... تھوڑی سی جھلک اگر آپ جان سکتے ہیں تو یہ... کہ جیسے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ بھی وہی کر رہے ہیں جو ہم کر رہے ہیں لیکن آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں، تو کیوں یہ کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو تمہارا نفس اس کو کھا جاتا ہے۔ تمہارا نفس اس کو کھا جاتا ہے۔ اب وہ جو بات ہے، مطلب ظاہر ہے اس میں ایک قسم کی بات ہے کہ اعمال تو انسان کے ہوتے ہیں لیکن پھر وہ جو روحانیت و نفسانیت والی جو بات ہے، وہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ لہٰذا باقی کتنا رہتا ہے۔ تو صحابہ کرام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ایک مد کا فرمایا کہ وہ جو خیرات کر لے تو... ایک مد، وہ پہاڑ، احد کے پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرنے سے زیادہ ہو گا۔ تو ایک عام آدمی اس کو نہیں سمجھ سکتا۔ مثال کے طور پر اگر اخلاص لیں تو عام لوگوں میں بھی بہت اخلاص نظر آتا ہے۔ تو وہ کیسے، وہ کیا بات ہے؟ تو یہاں پر وہ چیز ہے، وہ نقطے یہاں پر ہیں لیکن ان نقطوں کی تشریح بہت مشکل ہے۔ تو بس خبر پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے پھر یہی ہو سکتا ہے۔متن:ایک نقطے کا قطع کرنا مقامِ ولایت کے تمام کمالات کو طے کرنے سے زیادہ ہے۔ لہٰذا قیاس کرنا چاہئے کہ ان تمام کمالات کو سابقہ تمام کمالات کے ساتھ کیا نسبت ہوگی۔ دریائے بیکراں کو بھی ایک قطرہ کے ساتھ کچھ نہ کچھ نسبت ہوتی ہے (لیکن) یہاں تو یہ نسبت بھی مفقود ہے، مگر ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ مقامِ نبوت کو مقامِ ولایت کے ساتھ ایسی نسبت ہے جیسی کہ غیر متناہی کو متناہی کے ساتھ ہے۔
تشریح:بہرحال اللہ جل شانہٗ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ مبارک میں اشارے موجود ہوتے ہیں۔ اور بڑے سادہ زبان میں ہوتے ہیں۔ تو یہ جو سادہ زبان میں اشارے ہوتے ہیں، بعض دفعہ جو عارفین ہوتے ہیں، ان کے لیے تو بہت اہم نکات ہوتے ہیں۔ لیکن جو عارفین نہیں ہوتے، محجوبین ہوتے ہیں، ان کے لیے بہت بڑا حجاب بن جاتا ہے۔ بہت بڑا حجاب بن جاتا ہے۔ وہ اس کو اتنے ہی الفاظ سمجھ لیتے ہیں جس طرح الفاظ۔ اس کے پیچھے جو حقیقت ہوتی ہے، چونکہ محجوب ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اس کو اپنے لیے بھی اس طرح جان لیتا ہے۔ یعنی جیسے نبی کا جو مقام ہے اور صحابی کا مقام کا میں نے عرض کیا، جو محجوبین ہیں، وہ پھر کیا کرتے ہیں؟ وہ یہی کرتے ہیں کہ ان کو اپنے برابر سمجھ لیتے ہیں۔ "قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الیّ انما الٰھکم الٰہ واحد"۔ اب مثلکم پہ نظر پڑ جاتی ہے۔ یہ بعد میں جو ہے، اس کے اوپر نظر ہٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس کے اندر بہت بڑا فاصلہ ہے یہ جو حضرت نے فرمایا۔ بہت بڑا فاصلہ ہے۔ "چہ نسبت خاک را با عالم پاک"۔ مطلب وہ بہت بڑا، بہت بڑا فرق ہے۔ تو یہ جو فرق ہے، نہ جاننے کی وجہ سے وہ جو... حتیٰ کہ اللہ پاک معاف فرمائے، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ایسی جہالتوں سے... کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی جسم مان لیتے ہیں۔ صرف محجوبیت کی وجہ سے۔ چونکہ محجوب ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ہاتھ کا... "بل یداہ مبسوطتان"۔ اور ساق کا...، اور اس طرح، تو وہ اس سے وہ اپنے اوپر استدلال کر لیتے ہیں۔ تو یہ ساری چیزیں وہی محجوبیت کی وجہ سے ہوتی ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے "لیس کمثلہ شئ" کا جو تنزیہ ہے، اس کا ادراک نہیں ہے۔ نتیجتاً وہ کچھ سے کچھ سمجھ لیتے ہیں۔تو اگر آپ دیکھیں تو ہمارے کتاب جو ہے نا... حقیقتِ توحید و رسالت... اس کے اندر یہ دونوں جمع ہیں۔ توحید میں اللہ جل شانہٗ کی تنزیہ بیان کی گئی ہے۔ اللہ جل شانہٗ کی تنزیہ۔ اور حقیقتِ محمدی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بیان کیا گیا ہے۔ کہ اللہ پاک کے ساتھ کیا تعلق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور مخلوق کے ساتھ کیا تعلق ہے باقی مخلوق کے ساتھ۔، یہ حقیقتِ محمدی میں ہے۔ تو یہ دونوں کو اکٹھا جو کیا گیا ہے، یہ الحمدللہ بہت ان شاءاللہ اس کا فائدہ ہو گا۔ حقیقتِ توحید و رسالت۔ ان شاءاللہ یہ کتاب آئے گی... حضرت ہی کی ہے۔ ہم نے تو صرف حضرت ہی کی بات کو بیان فرمایا ہے لیکن بہرحال آج کل کے دور کے لحاظ سے جو اس کی تشریح ممکن تھی، اس کے لحاظ سے مطلب یہ ہے۔ تو حقیقتِ توحید و رسالت میں ان شاءاللہ العزیز یہ دونوں مضامین... یعنی جو اللہ جل شانہٗ کی ذات کی جو تنزیہ ہے، وہ بہت ضروری ہے۔ اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام ہے، وہ بہت ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو اگر عام لوگوں کے مقام سمجھا جائے تو وہ تو بہت بڑی جہالت ہے۔ یہود اور نصاریٰ کے اندر یہی بات تھی۔ کہ یہود نے پیغمبر کو اپنے طرح سمجھا۔ اور نصاریٰ نے پیغمبر کو خدا سمجھا، ان کے مقام کی وجہ سے۔ دونوں غلط۔ نہ تو پیغمبر خدا ہے اور نہ پیغمبر ہماری طرح ہے۔ وہ جو اصل ہے، وہ دونوں رہ گئے۔ یہی چیز ہمارے لوگوں میں بھی آ گئی۔ ان کی وجہ سے یہ آ گئی۔ کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا باقی اولیاء اللہ کو، صحابہ کرام کو اپنی طرح سمجھا۔ اپنی طرح سمجھا، بالکل یہود کی وہی...، ایک یہودی تھا، اس نے ہمارے یوسف صاحب کو کہا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ مسلمان ہو گیا تھا وہ۔ اس نے کہا جتنے فرقے ہمارے ہیں وہ سارے آپ لوگوں میں ہیں۔ جتنے فرقے ہمارے اندر ہیں وہ سارے آپ لوگوں میں ہیں۔ ان کی بات سچی اس لیے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا ہے، وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہود میں 71، نصاریٰ میں 72، اور عنقریب میری امت میں 73 ہو جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا نا؟ لیکن ناجی وہ ہو گا، ناجی ان میں سے ایک ہو گا۔ تو پوچھا یا رسول اللہ! ناجی کون ہو گا؟ فرمایا "ما انا علیہ واصحابی"۔ جس پر میں اور میرے صحابہ چلیں۔ اب ذرا دیکھو، 71 کے 71 عیسائیوں میں شامل ہو گئے اور ایک ان کا روٹ اصل، 72 ہو گئے۔ 72 کے 72 مسلمانوں میں شامل ہو گئے، ایک اصل... 73 ہو گئے۔ ٹھیک ہے نا؟ تو وہ جو اصل ہے وہ کون سے ہیں؟ "ما انا علیہ واصحابی"۔ باقی وہی ہیں۔ جو بیک ڈور سے داخل ہو گئے ہیں۔ جیسے مطلب نصاریٰ میں یہودی داخل ہو گئے تو نصاریٰ مسلمانوں میں داخل ہو گئے۔ تو بالکل دیکھا جائے مسلمانوں کے اندر بھی ایسے ہیں جو پیغمبروں اور اولیاء اللہ کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں۔ اور ایسے بھی ہیں جو خدائی صفات ان کو دے دیتے ہیں، اولیاء اللہ کو، انبیاء کرام کو، خدائی صفات۔ وہ سمجھتے ہیں ان میں۔ تو دونوں چیزیں ہو گئیں یا نہیں ہوئیں؟ تو یہی بات ہے کہ درمیان میں جو ہیں "ما انا علیہ واصحابی"، یہ لوگ ہیں۔ جو بالکل صحابہ کے عقیدے پر ہے، جو سنت پر چل رہا ہے، وہ انہی کو کہتے ہیں اہل السنت والجماعت۔ اصل بنیاد دراصل ہماری یہی ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو صحیح اہل اہلسنت والجماعت پر رکھے۔ وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔