علمِ وہبی کا نظام: آدابِ طلب اور فیضانِ صحبت

بیان کا یہ حصہ 21 مئی 2024 کےدرسِ مثنوی شریف سے لیا گیا یے

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


گزشتہ درس سے پیوستہ


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ

فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے، اور منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب "مثنوی مولانا روم" کا درس ہوا کرتا ہے۔


یہ اب تیسر اکلپ

(درسِ مثنوی شریف 13 ستمبر 2022 کا اقتباس)

21

نوحؑ نہ صد سال در راهِ سوی

بود ہر روزیش تذکیرِ نوی

ترجمہ: حضرت نوح علیہ السلام نو سال تک صراطِ مستقیم (کی دعوت) میں (اس حالت پر رہے کہ) ہر روز ان کا نیا وعظ ہوتا تھا (تو عمر کے حساب سے انہوں نے لاکھوں تازه وعظ کہے۔ یہ شان علومِ وہبی کی ہے نہ کہ کسبِی کی)۔

22

لعْلِ او تازه زِ ياقوتُ القُلوب

نے رسالہ خوانده نے قوتُُ القُُلوب

ترجمہ: ان کا (لبِ) لعل (ان کے دل بمنزلہ) یاقوت القلوب سے تازہ تھا۔ انہوں نے نہ رسالہ (قشیریہ) پڑھا تھا نہ قوت القلوب۔ (یعنی ان کا علم کسبِی نہ تھا، بلکہ وہبی تھا۔)

23

وعظ را ناموختہ ہیچ از شروح

بلکہ ینبوع كشوف و شرحِ روح

ترجمہ: انہوں نے وعظ کو کچھ (کتابوں کی) شرحوں سے (بھی) نہیں سیکھا تھا۔ بلکہ (یہ ان کے) مکاشفات کا چشمہ اور روح کی کشائش (تھی)۔

یہ اصل میں حضرت باتوں باتوں میں بہت ساری باتیں کہہ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے دوستی والی باتیں کیں کہ ان کی دوستی تھی تو دوستی کی وجہ سے، محبت کی وجہ سے ان کے دل ایک دوسرے کے لیے کھل جاتے تھے اور برسوں کی باتیں ان کو یاد آ جاتیں اور وہ باتیں آپس میں کرتے۔ پھر جو ہے ناں اس سے انہوں نے انتقال کیا کہ جو شیخ ہوتا ہے وہ مریدوں کا یار ہوتا ہے۔ تو مرید جب ان کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں تو ان کے سامنے اللہ پاک ان کی زبان کو کھول لیتے ہیں اور وہبی علوم ان کو عطا کرتے ہیں اور وہبی علوم شیخ پھر ان کو مریدوں کو دیتے ہیں۔ اس میں کچھ آداب وغیرہ بتا دیئے کہ خود ان کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کریں کیونکہ بحث و مباحثہ تو علمی باتوں میں ہوتا ہے عام جو کسبی علوم ہوتے ہیں، یہ تو وہبی علوم ہیں تو یہ تو وہبی علوم جو ہوتے ہیں وہ ادب کے ساتھ ملتے ہیں، کسبی علوم جو ہوتے ہیں وہ مطالعہ سے اور محنت سے ملتے ہیں جبکہ وہبی علوم میں یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا پیالہ جتنا وا کر لیا اس کے لیے، اتنا آئے گا، جیسے کہ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے شیخ کو قطب سمجھا تو ان کو قطب کا فیض اس سے ملے گا۔ وہ وہی والی بات ہے کہ اس نے اپنی جھولی اتنی پھیلائی کہ اس کے حساب سے وہ آگیا۔ تو یہ بات ہے کہ یہ ادب والی بات ہے کہ جتنا ادب کرو گے اور جتنا طلب کرو گے یعنی طلب با ادب کرو گے تو اتنا اللہ تعالیٰ نوازے گا اور اگر قیل و قال، حجت کرو گے تو بس وہ بند ہوجائے گا، وہ سلسلہ بند ہوجائے گا، وہ پھر جہاں سے آ رہا ہوگا وہاں سے بند ہوجائے گا کیونکہ اس کی گویا کہ ناقدری کی گئی، تو جب ناقدری ہوجاتی ہے، ویسے بھی حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

"حال جو ہوتا ہے یہ بڑا نازک مہمان ہوتا ہے، لہٰذا تھوڑی سے بے توجہی سے بھی حال واپس ہوجاتا ہے، روٹھ جاتا ہے۔"

تو اب ظاہر ہے کہ شیخ کے جو علوم ہیں وہ بھی ان کے حال کے درجے میں ہیں، یعنی کسبی نہیں ہیں وہبی ہیں۔ لہٰذا اگر ان کی ناقدری کی گئی تو رک جائیں گے اور وہ چیز نہیں ملے گی۔ تو اس وجہ سے اپنے آپ کو طالب بنانا چاہیے اور طالب کی انہوں نے مثال دی کہ اپنی آنکھوں کو اپنے شیخ کے چہرہ پہ قرین رکھو یعنی ان کے چہرے پہ آنکھ رکھو اور طلب کی نگاہ سے ان کو دیکھو، اسی حساب سے اس کی زبان آپ کے لیے کھلے گی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس میں مسائل آ سکتے ہیں۔ تو یہاں پر وہ بات چلی تھی۔

پھر انہوں نے انبیاء کرام کی مثالیں دیں کہ آدم علیہ السلام کی جو مثال دی کہ وہ

﴿وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰٓىِٕكَةِ ۙ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾

تو اللہ جل شانہٗ نے ان کو اسماء سکھا دیئے، تو اسماء کا سکھانے کا مطلب یہ کہ صرف سنا دیئے نہیں بلکہ اس کے دل پر القا کردیئے جب اس کے دل پہ القا کردیئے تو زبان تو صرف بیان کر رہی تھی، القا تو دل پہ ہو رہا تھا، یہ اصل میں بنیادی بات تھی کہ القا جو ہے دل پہ ہو رہا تھا اور زبان اس کو بیان کر رہی تھی تو اللہ پاک نے جتنے بھی نام آدم علیہ السلام کو القا فرمائے تھے وہ بڑی تفصیل کے ساتھ وہ بیان فرماتے تھے، اس کے لیے کچھ رکاوٹ نہیں تھی۔

پھر فرمایا کہ نوح علیہ السلام کی مثال دی کہ نوح علیہ السلام جو ہیں نو سو سال تک دعوت دیتے رہے اور ہر روز نیا وعظ کرتے تھے، اب نو سو سال میں 365 دن کو ضرب نو سو سے دے دو تو ہر روز اس کا نیا وعظ کتنا ہوجائے گا؟ تو وہ ظاہر ہے یہ کتاب والا علم تو نہیں ہے، یہ کتاب والا علم تو نہیں ہے، یہ ظاہر ہے وہبی علم ہے، اس سے حضرت آئے ہیں کہ ان انبیاء نے یہ جو وعظ تھے کچھ کتابوں سے نہیں لیے تھے، کتابوں کی شرحوں سے بھی نہیں لیے تھے بلکہ ان کے اوپر اتارے گئے تھے۔

24

ازاں مَے کاں مَے چو نوشیده شود

آبِ نطق از گنگ جوشیده شود

ترجمہ: (وہ وعظ) اس شراب (الٰہی کی مستی) سے (ادا ہوتا تھا) کہ وہ شراب جب پی لی جائے تو گونگے (کی زبان) سے (بھی) گویائی کا دریا جوش زن ہوجائے۔

25

طفلِ نوزادہ شود حبر و فصیح

حکمتِ بالغ بخواند چُوں مسیح

کیا عجیب بات ہے۔

ترجمہ: (اور اس کی بدولت ایک) نیا پیدا ہونے والا بچہ (بھی) عالم اور خوش گو بن جائے۔ (اور) حضرت مسیح عليہ السلام کی طرح حکمتِ بالغہ پڑھنے (اور سنانے) لگے۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شیر خوارگی میں لوگوں سے کہا۔ ﴿اِنِّي عَبْدُ اللّٰهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ﴾

مطلب انہوں نے کہا تھا، تو گویا کہ اللہ پاک نے جب ان کے۔ اب یہ دیکھو کسی سے سیکھا تو نہیں تھا، بچہ کیا اس طرح سیکھ سکتا ہے؟ تو اللہ پاک نے ان کی زبان پہ جاری فرما دیا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے اللہ نے کتاب دی ہے۔

اصل میں اس میں حضرت نے جو چیز بتائی کہ ایک مشائخ کا جو نظام ہے اور ایک انبیاء کرام کا ہے۔ مرشد جو ہوتا ہے وہ انبیاء کے نقش قدم پہ ہوتے ہیں، یعنی انبیاء کا کام ان سے لیا جاتا ہے، جب کہ جو تکوینی بزرگ ہوتے ہیں وہ فرشتوں کے نقش قدم پہ ہوتے ہیں، ان سے وہ کام لیا جو فرشتے کرتے ہیں۔ اس وجہ سے جو مرشدین ہیں ان کو بھی اللہ جل شانہٗ الہامی علوم دیتے ہیں، جیسے وحی کی جاتی تھی انبیاء کرام کو، اس طرح مرشدین کو الہامی علوم عطا فرماتے ہیں، اور الہامی علوم وہ عطا کیے جاتے ہیں جس کی ضرورت ہو، ضرورت کا مطلب ہے کہ جو سامنے بیٹھے ہوں جن کی جو ضرورت ہو وہی عطا کیے جائیں گے۔

تو یہ اصل میں بنیادی بات ہے کہ یعنی میں آپ کو خود واقعہ بتاتا ہوں ایک صاحب تھے ہمارے یعنی دوست تھے ابھی بھی اَلْحَمْدُ للہ ہیں کراچی میں ہیں اور بہت ذہین فطین آدمی تھے عبدالعلام اس کا نام تھا، تو ایک دن کسی بزرگ کے بارے میں گستاخانہ فقرہ کہا، مجھے بڑی حیرت ہوئی، میں نے کہا یہ کیا ہوا، بھئی یہ کیا بات کررہا ہے؟ تو میں نے کہا یہ آپ نے کیا کہا؟ کہتے ہیں کیوں آپ کو تکلیف ہوئی؟ میں نے کہا مجھے خوشی ہونی چاہیے؟ یہ تو آپ نے واقعی غلط بات کی، کہتے ہیں میرے دل میں جو کچھ ہے وہ تو اگر آپ کو پتا چل جائے تو آپ کو پاگل ہوجائیں۔ میں نے کہا خدا خیر کرے بھئی اس کے دل میں کیا ہے؟ خیر کھوج لگایا اور پتا چلا کہ حزب اللہ نامی ایک گروپ کراچی میں ہے جو بہت گستاخی کرتا ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مشرک کہتے ہیں، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مشرک کہتے ہیں۔ تو اس قسم کے لوگ ہیں وہ، تو ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اس کا ہوگیا تھا، میں نے کہا افوہ یہ تو بہت خطرناک ہوگیا، اب میں جتنا سمجھا سکتا تھا وہ نہیں سمجھا سکا، پھر میں نے کہا ان کو بزرگوں کے پاس لے جانا چاہیے، تو اس سے میں نے کہا بھئی آپ تو محقق آدمی ہیں ناں؟ کہتے ہیں ہاں، تو میں نے کہا محقق تو تحقیق کے لیے سفر بھی کرتے ہیں؟ کہتے ہیں ہاں، میں نے کہا آپ ایک چھوٹا سا سفر کرسکتے ہیں؟ کہتے ہیں کہاں کا؟ میں نے کہا پشاور کا، کہتے ہیں کرلوں گا لیکن یہ شرط ہے کہ مغرب کے بعد ٹھہرنا نہیں ہوگا، فوراً واپس۔ میں نے کہا ٹھیک ہے مانا، اچھا ہم چل پڑے، حضرت کا عصر کے بعد بیان ہوتا، مجلس ہوتی تھی، گاڑی ہمارے بس میں نہیں تھی پبلک ٹرانسپورٹ میں جارہے تھے، لیٹ ہوگئے، تو جب پہنچے تو عصر کی نماز پڑھی گئی تو حضرت نے بات شروع کی تھی، ہم نے نماز اپنی پڑھ لی اور حضرت کی مجلس میں بیٹھ گئے۔ اب بیان کے دوران تو میں کوئی بات نہیں کرسکتا تھا اس کے بارے میں، میرا تو خیال تھا کہ میں حضرت سے اس کا تعارف کراؤں گا۔ تو ممکن نہیں تھا، میرا دل تھا کہ اگر حضرت کا بیان جلدی ختم ہوجائے تو پھر بات کرلوں گا۔ حضرت کا بیان مغرب تک پہنچ گیا، اب تو میں نے کہا کہ شاید اس کی قسمت میں نہیں ہے، بہت تکلیف مجھے ہوئی، نماز پڑھ لی نماز پڑھنے کے بعد پھر ہم روانہ ہونے لگے تو ابھی جوتیوں کی جگہ پہ تھے، مجھے کہنے لگے آپ نے تو حضرت کے بارے میں کچھ مجھے بتایا ہی نہیں۔ یہ تو بہت بڑے بزرگ ہیں۔ میں نے کہا شاید مجھے چھیڑ رہے ہیں، میں نے کہا اس میں چھیڑنا نہیں ہوتا، کہتا ہے نہیں چھیڑ نہیں رہا بالکل صحیح بات کررہا ہوں۔ میں نے کہا کہ پھر ہمارے لیے تو معمول کی مجلس تھی آپ نے کیا دیکھا؟ کہتے ہیں معمول کی مجلس نہیں تھی۔ میں نے کہا چلو بتاؤ پھر، کہتے ہیں حضرت کے بیان کو سن کر میرے دل میں ایک اشکال آگیا، اشکالی تو تھے، اشکال آگیا، حضرت نے اس کا جواب دیا۔ میں نے کہا یہ چانس ہے، ہوسکتا ہے۔ کہتے ہیں اس جواب پر مجھے اشکال ہوگیا، حضرت نے اس کا بھی جواب دیا۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت مشکل کام ہے، اس پر بھی اشکال ہوگیا، حضرت نے اس کا بھی جواب دیا، میں نے کہا یہ تو ممکن نہیں، میں نے کہا یہ کیا ہورہا ہے، ادھر میں اشکال کررہا ہوں ادھر حضرت جواب دے رہے ہیں یہ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا چلو لوہا گرم ہے اب چوٹ لگانی چاہیے، میں نے کہا اچھا میں تو آپ کو بڑا ذہین آدمی سمجھتا تھا، آپ تو بہت بودے نکلے، کہتے ہیں کیا مطلب؟ میں نے کہا کہ مطلب یہ کہ دیکھو کیا آپ کو اس پر یقین نہیں ہے کہ جو تیرے دماغ میں ہے اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے؟ کہتے ہیں بالکل ہے۔ میں نے کہا کہ کیا تجھے اس پر یقین نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کی زبان پر جو جاری کرنا چاہیے کرسکتا ہے؟ کہتے ہیں مجھے کیا مسئلہ، یہ تو بالکل ٹھیک ہے، تو میں نے کہا خدا کے بندے تیرے دماغ میں سوال آیا، مولانا صاحب کی زبان پر اللہ پاک نے جواب ڈال دیا، کیا مسئلہ ہے اس میں؟ کہتے ہیں ایسا تو ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا بس یہی بات تھی تم لوگوں کے اندر گڑبڑ یہ تھی کہ تم سمجھتے ہو کہ جو کرامت ہے اولیاء کی، یہ ولی کا فعل ہے، ہم اس کو ولی کا فعل نہیں سمجھتے، ہم اس کو اللہ کا فعل سمجھتے ہیں۔ ہاں! ولی کی زبان پر یا ہاتھ پر اس کا اظہار ہوتا ہے، تو تم لوگ جب اس کو ولی کا فعل کہتے ہو تو کنفیوژ ہوجاتے ہو کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، جب کہ ہم چونکہ اللہ کا فعل سمجھتے ہیں تو ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ لہٰذا ہمیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ہمیں تو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ بس اَلْحَمْدُ للہ اللہ پاک نے اس پہ، ما شاء اللہ ہوگیا، حل ہوگیا، تو اس کا مطلب دیکھیں ناں اب یہ جو چیز تھی

یہ کیسے ہوا؟ یہ وہ نظام ہے جو اللہ پاک چلاتا ہے کہ جس کو۔ اچھا میں جب حضرت سے بیعت ہوا تھا پہلے دن جب گیا تو اب جو میرے دل کی بات ہے، حضرت اسی پہ بات کررہے ہیں، میں نے کہا کہ میں تو بڑا خوش قسمت ہوں آج سب باتیں اسی پہ ہورہی ہیں جو میرے دل میں ہیں، بڑا خوش قسمت ہوں۔ دوسرے دن گیا دوسرے دن بھی یہ حال، تیسرے دن گیا تیسرے دن بھی یہ حال، آخر میں حیران ہوگیا، میں نے اپنے جو سینئر پیر بھائی تھے ابھی بھی موجود ہیں ڈاکٹر شیر حسن صاحب دامت برکاتھم میں نے ان سے پوچھا، میں نے کہا شیر حسن صاحب یہ تو عجیب بات ہے میں تیسرے دن سے دیکھ رہا ہوں کہ جو میرے دل کی بات ہے حضرت وہی اسی پہ بات کررہے ہیں۔ کہتے ہیں صرف تیرے ساتھ نہیں ہورہا سب کے ساتھ ہورہا ہے، صرف تیرے ساتھ نہیں ہورہا۔ اب یہ جو چیز ہے یہ کون کرسکتا ہے؟ یہ من جانب اللہ ہوسکتا ہے، کیونکہ اللہ پاک کو سارے دلوں کا پتا ہے اور اچھا پھر یہ combination کہ ہر آدمی کو اپنا اپنا مل رہا ہے، لوگ مختلف ہیں لیکن ہر ایک آدمی کو اپنا اپنا مل رہا ہے یہ combination کون کرسکتا ہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔

اب دیکھو میں صاف عرض کرتا ہوں دوسروں کا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ دوسروں کا تو اپنا اپنا experience ہے، خود اپنی بات بتاتا ہوں، ابھی بات چل رہی ہے ناں، آن لائن چل رہی ہے، انگلینڈ سے فون آیا کہ آج ہمارے ایک سوال تھا اس کا آپ نے جواب دے دیا۔ بھئی انگلینڈ والوں کو۔ چلو میرے سامنے جو بیٹھے ہوئے ہیں وہ تو face reading سے بھی ہوسکتا ہے، چلو آپ کہہ دیں کہ face reading کی وجہ سے ہوا، لیکن وہ جو ادھر بیٹھے ہیں اس کی face reading کون کررہا ہے؟ وہ تو کوئی نہیں کرسکتا۔ تو اس کا مطلب ہے یہ من جانب اللہ چل رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے جو نظام چلایا ہے اسی کے تحت یہ سارا کچھ ہورہا ہے۔

تو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بہت واضح فرمایا ہے، حضرت نے فرمایا کہ تین systems ہیں جو ہمارے حوالے ہیں، ایک نظامِ قلب ہے، ایک نظامِ نفس ہے، ایک نظامِ عقل ہے، ان تینوں کو balance پہ لانا یہ ہمارے ذمے ضروری ہے، یہ ہمیں کرنا ہوگا، اس کی یعنی اصلاح کے لیے۔ اور یہ شیخ کا کام ہوتا ہے کہ اس کو کیسے balance کرتے ہیں، لیکن اسی کو سلوک بھی کہتے ہیں اسی کو سارا کچھ کہتے ہیں۔ جب یہ balance ہوجائے اس کے بعد پھر دو لطائف، دو نظام خود اللہ پاک دیتے ہیں تحفے کے طور پر، ایک ہے نظامِ روح ایک ہے نظامِ سِر۔ جو نظامِ روح ہے وہ قلب کو ملاء اعلیٰ کے ساتھ connect کرلیتا ہے، اور جو نظامِ سِر ہے وہ عقل کو ملاء اعلیٰ کے ساتھ connect کرلیتے ہیں۔ لہٰذا اب یہ آدمی جو سوچے گا یہ اپنی عقل سے نہیں سوچ رہا بلکہ وہ جو gifted ہے ملاء اعلیٰ کے ساتھ اس کے ذریعے سے سوچ رہا ہے، اس لیے

’’ اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ المُؤْمِنِ فَإِنَّهٗ يَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰهِ ‘‘

یہ وہ نورِ اللہ ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ اور دوسرا جو قلب ہے وہ اس کے ساتھ attach ہے، تو جو چیز مناسب ہو اللہ تعالیٰ اسی وقت اس پہ ڈال لیتے ہیں الہام کے ذریعہ سے، القاء کے ذریعہ سے۔ تو یہ دو نظام اللہ پاک پھر establish کرلیتے ہیں، اور پھر یہ ما شاء اللہ ایسا ہوتا ہے کہ یقین جانیئے ایک continuous نظام ہوتا ہے، یعنی اس میں discontinuity نہیں ہوتی، continuous نظام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور بندوں کی طرف سے اعمال ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے احوال طاری ہوتے ہیں، اور سلسلہ چل رہا ہوتا ہے، اب اگر کوئی اس کو سمجھ لے تو کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔ تو میرے خیال میں میں نے آپ کو تو سنایا تھا وہ جو مثنوی شریف کا جو سوال تھا ناں، آپ کو تو سنایا تھا ناں؟ میں ذرا ان کو بھی سنا دیتا ہوں وہ مناسب ہے کیونکہ اس میں یہی چیز سمجھائی گئی ہے۔ یہ مجھ سے ایک بہت سادہ آدمی نے سوال کیا تھا کہ آپ مثنوی شریف کا درس دیتے ہیں تو مجھے اس شعر کا مطلب سمجھائیں، تبلیغی جماعت کے تھے انتہائی سادہ آدمی، میں نے کہا یار اس آدمی شعر کون سا چنا ہے؟ وہ ہے:


مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا


اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا

کر فنا اپنی جو ہے یہ آب و تاب

اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا

کر فنا اپنی جو ہے یہ آب و تاب

نفس کی آلائشوں کو دور کر


اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا

کر فنا اپنی جو ہے یہ آب و تاب

نفس کی آلائشوں کو دور کر

چھائی تیرے دل پہ جو ہیں بے حساب



مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب



آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں

آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں

دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب


آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں

دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب

کان تیرے حق سے رو گرداں نہ ہوں


آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں

دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب

کان تیرے حق سے رو گرداں نہ ہوں

اور نہ سنوائے غلط نفسِ خراب



مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

خود سے تُو گم ہو صرف وہ یاد ہو


خود سے تُو گم ہو صرف وہ یاد ہو

پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب

خود سے تُو گم ہو صرف وہ یاد ہو

پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب

تو سمجھ جائے کہ تُو کچھ بھی نہیں


خود سے تُو گم ہو صرف وہ یاد ہو

پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب

تو سمجھ جائے کہ تُو کچھ بھی نہیں

اور سب کچھ اُس کا ہی ہے لاجواب


مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

اپنے خود کو عشق میں معدوم کر


اپنے خود کو عشق میں معدوم کر

تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب

اپنے خود کو عشق میں معدوم کر

تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب

جس میں تو اُس کا ہی ہے اور وہ ترا

اپنے خود کو عشق میں معدوم کر

تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب

جس میں تو اُس کا ہی ہے اور وہ ترا

ہر وقت سنتا ہو تو اُس کا خطاب



مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

تو کرے وہ جو اسے منظور ہو


تو کرے وہ جو اسے منظور ہو

وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب

تو کرے وہ جو اسے منظور ہو

وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب

خود کو پہچانو شبیرؔ کہ کیا ہو تم


تو کرے وہ جو اسے منظور ہو

وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب

خود کو پہچانو شبیرؔ کہ کیا ہو تم

ختم شد واللہ اعلم بالصواب



مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب



وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔


علمِ وہبی کا نظام: آدابِ طلب اور فیضانِ صحبت - درس اردو مثنوی شریف - دوسرا دور