اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ﴾1
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ: "مَنْ يَّضْمَنْ لِّيْ مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ"۔2
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَّقِتَالُهٗ كُفْرٌ"۔3
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ"۔4
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "إِنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ وَّإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِيْ إِلَى الْجَنَّةِ...، وَإِنَّ الْكَذِبَ فُجُوْرٌ وَّإِنَّ الْفُجُوْرَ يَهْدِيْ إِلَى النَّارِ"۔5
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "أَ تَدْرُوْنَ مَا الْغِيْبَةُ؟ قَالُوْا: اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ، قَالَ: ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ، قِيْلَ: أَفَرَاَيْتَ إِنْ كَانَ فِيْ أَخِيْ مَا أَقُولُ؟ قَالَ: إِنْ كَانَ فِيْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَهٗ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيْهِ فَقَدْ بَہَتَّهٗ"۔6
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "مَنْ صَمَتَ نَجَا"۔7
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهٗ مَا لَا يَعْنِيْهِ"۔8
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "مَنْ كَانَ ذَا وَجْھَیْنِ فِي الدُّنْيَا كَانَ لَهٗ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِسَانَانِ مِنْ نَّارٍ"۔9
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "مَنْ عَیَّرَ أَخَاہُ بِذَنْبٍ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی یَعْمَلَہٗ"۔10 یَعْنِيْ مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَّابَ مِنْہُ۔
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "لَا تُظْهِرِ الشَّمَاتَةَ لِأَخِيْكَ، فَيَرْحَمُهُ اللّٰهُ وَيَبْتَلِيْكَ"۔11 وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "إِذَا مُدِحَ الْفَاسِقُ غَضِبَ الرَّبُّ تَعَالٰی وَاهْتَزَّ لَہُ الْعَرْشُ"۔12
صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! اللہ جل شانہٗ کے دو نظام چل رہے ہیں، ایک نظام تکوینی ہے اور ایک نظام تشریعی ہے۔ تکوینی نظام میں انسان ظاہری طور پر بے بس ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ شامل ہوتا ہے، اور تشریعی نظام میں اللہ جل شانہٗ نے جتنا اختیار دیا ہے، اتنے کا مکلف بناتا ہے۔ یہ دونوں نظام ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ مثلاً، تکوینی نظام میں ہم دیکھتے ہیں گرمی ہے، بارش ہے، یا بیماری ہے، صحت ہے، مالداری ہے، غربت ہے، یہ ساری چیزیں تکوینی ہیں۔ اس میں بظاہر انسان بے بس ہوتا ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ یہ چیز ہوگئی، اور اس میں سمجھتا ہے کہ یہ تو ویسے ہی ہوگیا، اتفاقاً ہوگیا۔ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ اس پر بڑی حیرت فرماتے تھے کہ اتفاق سے ہوگیا! اور فرمایا کہ اللہ جل شانہٗ کے کارخانہ میں ’’اتفاق سے ہوگیا‘‘ یہ نہیں ہے۔ اللہ جل شانہٗ کا ہر کام پورے ایک نظم کے ساتھ، ارادہ کے ساتھ، ترتیب کے ساتھ چلتے ہیں۔ لہٰذا اس میں یہ بات نہیں ہوتی کہ اتفاق سے ہوگیا۔ قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾13 زمین و آسمان کے درمیان جو کائنات ہے یعنی اس کے اندر فساد برپا ہوگیا لوگوں کے اعمال کی وجہ سے۔ مثلاً بارشیں وقت پہ آنے لگیں، اس کا بھی کوئی سبب ہوتا ہے، جن کو ہم بے وقت کہتے ہیں اس کا بھی ایک سبب ہوتا ہے۔ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اس سے کچھ حالات پیدا ہوتے ہیں، ناشکری کرتے ہیں اس سے بھی کچھ حالات پیدا ہوتے ہیں۔ ہم کسی تکلیف پہ صبر کرتے ہیں، اس سے بھی کچھ حالات پیدا ہوتے ہیں، اور کسی تکلیف پر صبر نہیں کرتے اس سے بھی کچھ حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اشارے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دیئے ہیں، مثلاً یہ اشارہ ہے: ﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾14 اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو میں اس نعمت کو بڑھا دوں گا۔ اب دیکھیں نعمت بڑھتی ہے تو یہ تکوینی ہے، نعمت کا بڑھنا کیا ہے؟ تکوینی ہے۔ لیکن شکر کرنا کیا ہے؟ یہ تشریعی ہے۔ تو تشریعی کے اوپر تکوینی نظام منحصر ہے۔ اس وجہ سے اگر کوئی اچھی زندگی گزارنا چاہتا ہے، تو اس کا سب سے آسان اور اچھا طریقہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے احکامات انتہائی شوق اور محبت کے ساتھ ماننا شروع کر لے۔ اچھی زندگی اس کو مل جائے گی۔ اچھی زندگی کی تعریف لوگوں کے ہاں مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اچھی زندگی اس کو کہتا ہے کہ بہت سارا مال اس کو مل جائے، یہ اس کی اچھی زندگی ہوتی ہے۔ لیکن وہی مال اس کے گلے کا پھندا بن جائے، پھر کیا ہو؟ اچھی زندگی ہے؟ مال بذاتِ خود تو مقصود نہیں ہے، مال سے تو عافیت مقصود ہے۔ ایک شخص ہے اس کو مال نہیں ملا لیکن عافیت اس کو مل گئی۔ اب اچھی زندگی کس کو مل گئی؟ ایک شخص ہے اس کو عین وقت پر اتنا ملتا ہے جتنا کہ وہ خرچ کرتا ہے، اس کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے۔ دوسرے کے پاس خزانہ ہے لیکن جیسے جیسے وہ خرچ کرتا ہے تو اس کے ہاتھ سے نکلتا جاتا ہے اور وہ پریشانی میں مبتلا ہوتا جاتا ہے۔ بتاؤ کس کے پاس عافیت ہے؟ عافیت تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اب یہ جو عافیت ہے، یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس لئے اس کے مانگنے کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دعا پہ بڑے خوش ہوتے ہیں: ’’اَللّٰہُمَّ إِنِّی أسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ‘‘، سکھایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی اچھی زندگی گزارنا چاہتا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اچھی زندگی کہتا ہے، اور حقیقت میں وہی اچھی زندگی ہوتی ہے، تو بس اللہ تعالیٰ کے احکامات پر شوق اور محبت کے ساتھ عمل کرنا شروع کر دے۔
اب میں آپ کو ایک بات بتاؤں: آج کل ہمارے لوگوں کے کیا حالات ہیں وہ بتاتا ہوں۔ چونکہ ہمیں اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے پاس لوگ آتے ہیں، مختلف طرز فکر کے لوگ آتے ہیں، اور جو وہ کرتے ہیں وہ نظر آتا ہے، اور جو بتاتے ہیں وہ بھی معلوم ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مثال کے طور پر کسی کا بچہ آگیا ہمارے پاس، یعنی بیعت ہوگیا یا ویسے مجلس میں آنے لگا۔ اول تو والدین منع کرتے ہیں، ان کو خیال ہوتا ہے کہ خراب ہو جائے گا۔ پہلے تو منع کرتے ہیں۔ منع نہیں ہوا، اس کا بس نہیں چلا، مطلب اس کے دل میں شوق زیادہ ہے یا وہ بات ہے مطلب بس نہیں چلا اس کے اوپر، آتا رہا۔ اب والدین کہتے ہیں اچھا ٹھیک ہے جی۔ پھر وہ ہم سے توقع کرتے ہیں کوئی دم درود کرکے ان کو اول درجہ میں پاس کرائیں۔ ان کی نوکری فوراً ہو جائے، پھر تو یہ بزرگ ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سارا گڑبڑ ہے۔ پھر مخالفت ہوگی۔ ایسے لوگوں میں ہم لوگ بھی بڑے طاق ہوگئے ہیں۔ ہم کہتے ہیں: لے جاؤ اپنے بچوں کو، ہمیں کوئی پروا نہیں ہے۔ ہم نے کوئی اس کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ہے۔ ہاں! البتہ یہ کنفرم بات ہے کہ جو ہمارے پاس آتے ہیں، اَلْحَمْدُ للہ خراب نہیں ہوتے۔ خراب نہیں ہوتے، بے شک وہ ان کو خراب کہہ دیں، اِس کے بارے میں میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بھی خراب نہیں کہیں گے، اُن کی اپنی سوچ ہے۔ خراب نہیں ہوتے، کیسے خراب نہیں ہوتے؟ بتاتا ہوں۔ ایک شخص ہے، اس میں پچاس نمبر لینے کی صلاحیت ہے۔ ویسے مثال دے رہا ہوں۔ وہ ہمارے پاس آگیا، اس نے فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں، wheeling کرنا چھوڑ دیا، فضول پھرنا چھوڑ دیا، جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہفتے میں ہمارے پاس آتا ہے وہ اس کا لگ گیا، باقی اس کا سارا ٹائم بچ گیا۔ وہ موبائل کے ساتھ کھیلنا جو ہے وہ بچ گیا۔ اب بتاؤ، ظاہری اعتبار سے اس کو فائدہ ہوگا یا نقصان ہوگا؟ مطلب یہ ہے کہ ایک گھنٹہ تو اس کا لگ گیا ہفتے میں، لیکن اس کے کتنے گھنٹے بچ گئے؟ اچھا، گھنٹے صرف بچے نہیں ہیں بلکہ جو گھنٹے اس کے پاس ہیں ان کی افادیت بھی بڑھ گئی، کیوں؟ اس کے دماغ میں فلمیں نہیں گھوم رہیں، اس کے دماغ میں مختلف پلاننگ نہیں ہو رہیں فضول چیزوں کی۔ اب اس کا دماغ فارغ ہے پڑھنے کے لئے۔ اب اگر وہ پچاس نمبر کی بجائے وہ یہاں آنے کی وجہ سے ستر لے لے، تو فائدہ ہوگیا یا نقصان ہوگیا؟ فائدہ ہوگیا۔ لیکن والدین کیا کہیں گے؟ اس نے نوے کیوں نہیں لیے؟ اس وجہ سے خراب! بھئی خدا کے بندے! آپ نوے والا لائیں، پھر دیکھیں، جو پہلے سے نوے والا ہے، پھر اس کا دیکھیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے! لیکن پہلے سے پچاس والا آئے گا، تو 70-75 پہ جائے گا نا، اس کو تو آپ نوے نہیں دلا سکتے، ورنہ چلو لے جاؤ، پھر ان کو نوے دلواؤ، پھر ہم دیکھیں گے کہ کتنا تم وہ ہو! تو یہ جو بات میں عرض کر رہا ہوں، یہ ہمارا روزمرہ کا مسئلہ ہے۔
حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بہت بلند فرمائے، ہمارے شیخ۔ حضرت چونکہ نوجوانوں میں کام کرتے تھے، یونیورسٹی میں بیٹھے ہوئے تھے، طلباء، اساتذہ اور ظاہر ہے پروفیسرز یہ حضرات حضرت کے پاس آیا کرتے تھے۔ یہی ان کا حضرت کا ماحول تھا۔ تو لاہور کا ایک بچہ حضرت سے بیعت ہوگیا۔ والد کو مزہ آگیا۔ والد صاحب آتے اور حضرت مولانا صاحب سے کہتے کہ میرے بیٹے کو یہ کہہ دینا۔ حضرت چونکہ بہت حلیم الطبع تھے اور لوگوں کی باتیں سنتے تھے۔ ہم جیسے نہیں تھے، ہم تو اکھڑپن کرتے ہیں۔ حضرت تو اس طرح نہیں کرتے تھے، بہت تحمل کے ساتھ سنتے تھے۔ تو خیر ایسا ہے کہ مانتے جاتے تھے۔ چار دفعہ، پانچ دفعہ ہوگیا۔ اخیر میں حضرت تنگ ہوگئے۔ آخر ظاہر ہے ایک حد ہوتی ہے۔ کیونکہ والد جو کہہ رہا ہے وہ تو اپنے experience پہ کہہ رہا ہے، اور مولانا کا اپنا experience۔ ضروری نہیں کہ والد جو کہہ رہا ہے مولانا صاحب کے نزدیک وہ ٹھیک بھی ہو۔ ضروری تو نہیں ہے۔ ان کا اپنا experience ہے، شریعت کی بات ہوتی ہے، دوسری چیزیں ہوتی ہیں۔ خیر ایسا ہوا کہ مولانا صاحب تنگ ہوگئے، تو مولانا صاحب نے تنگ ہو کے کہا: "بھئی اپنے بیٹے کو لے جاؤ، مجھے آپ کا بیٹا نہیں چاہئے۔ میں نے کسی کتاب میں نہیں پڑھا کہ کسی بزرگ سے کوئی بچہ بیعت ہو جائے تو وہ بزرگ اس کے والد صاحب سے بیعت ہو جائے۔ میں نے کسی کتاب میں ابھی تک نہیں پڑھا۔ لہٰذا میں آپ کی ساری باتیں نہیں مان سکتا۔ اگر آپ اس کی تربیت کر سکتے ہیں تو کریں پھر، میں نہیں کرتا۔" یہی جواب اس کو چاہئے تھا بیچارے کو، کیا کہیں؟ اب چونکہ حضرت نے تو تجربہ کرلیا اور ہمارے سامنے ہوگیا تجربہ، تو ہم تو inventing the wheel again نہیں کر سکتے تھے نا، ہم تو تجربے نہیں کر سکتے تھے، بس ٹھیک ہے، ہمارے سامنے تو ایک بہت بڑا تجربہ آگیا۔ تو ہم نے اس تجربہ سے فائدہ اٹھا لیا۔ اب ہمارے پاس جب بچے آتے ہیں، تو اگر ان کے والدین کچھ ایسے نخرے کرتے ہیں، تو جو مولانا صاحب نے اخیر میں جواب دیا تھا، ہم ان کو پہلے دن دیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں: بھئی یہ ہم سے نہیں ہوگا۔
ایک صاحب تھے، ما شاء اللہ! اب تو پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ والد صاحب کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے نہیں تھے، ہوتے ہیں خاندانی مسائل ہوتے ہیں۔ تو خیر ایسا ہوا کہ وہ آئے، مجھ سے بیعت ہوگئے۔ اب آتے رہے ہیں، اور والد صاحب کے بارے میں اس کی جو رائے تھی وہ تو اس وقت وہ تھی جو بھی تھی۔ والد صاحب کو پتا چل گیا، والد صاحب میرے راستہ میں کھڑے ہو جاتے اور مجھے بتاتے جی اب میرے بیٹے کو یہ کہہ دیں، میرے بیٹے کو یہ کہہ دیں۔ چونکہ میرے سامنے تو وہ مولانا صاحب کا سارا نظام موجود تھا، میں نے اس سے کہا: "دیکھو بھئی صاحب! صرف مجھے ایک بات کا جواب دو، پھر بعد میں میرے تمام جوابات اس پر منحصر ہوں گے جو آپ جواب دیں گے۔" کہتے ہیں: کیا؟ میں نے کہا: یہ بتاؤ، ابھی تک آپ کے بیٹے کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان ہوا ہے میرے پاس آنے کی وجہ سے؟ صاف بتاؤ۔ کہتے ہیں: بہت فائدہ ہوا ہے۔ تو میں نے کہا: یہ فائدہ آپ کی تربیت کی وجہ سے ہوا ہے یا ہماری تربیت سے ہوا ہے؟ کہتے ہیں: آپ کی تربیت سے ہوا ہے۔ میں نے کہا: اب پھر مجھ پر چھوڑ دیں نا، ان شاء اللہ آئندہ بھی فائدہ ہوگا نا۔ اب اگر میں آپ کی باتیں ماننے لگوں تو اس میں فائدہ کا امکان ہے یا نقصان کا امکان ہے؟ اور پھر میں نے ان سے عرض کیا، میں نے کہا: دیکھو سنو! میرے راستے میں کھڑے نہ ہو جانا، کیونکہ ان کا اور آپ کا تعلق اچھا نہیں ہے۔ اگر اس نے آپ کو میرے ساتھ دیکھ لیا تو مجھ سے بھی کٹ جائے گا، وہ کہے گا یہ تو میرے والد کا ہوگیا۔ پھر میرے پاس ظاہر ہے نہیں آئے گا، تو جو فائدہ ہو رہا ہے وہ نہیں ہوگا بقول آپ کے، جو فائدہ ہو رہا ہے وہ نہیں ہوگا، تو کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ اس کو فائدہ ہو، بے شک وہ آپ کی وجہ سے نہ ہو کسی اور وجہ سے ہو؟ کہتے ہیں: بالکل ہے۔ میں نے کہا: پھر آئندہ خیال رکھنا۔ اَلْحَمْدُ للہ اس کو بات سمجھ آگئی، اللہ کا شکر ہے، اب وہی بچہ اس کی خدمت کر رہا ہے۔ طریقہ کار ہوتا ہے، مطلب اس طرح تو نہیں ہوتا۔ دیکھو! جب کوئی ڈوب رہا ہوتا ہے دریا میں، تو طریقہ یہ نہیں ہے کہ اس کے سامنے اس کو پکڑ کے نکالو، ورنہ یہ جو بچانے والے ہیں وہ بھی ڈوب جائیں گے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے جاؤ اور اس کو ساحل کی طرف دھکیل دو، خود نہ اٹھاؤ اس کو، پانی اس کو اٹھائے گا، تم صرف دھکیلتے رہو، جب قریب پہنچ جائے تو پھر اس کو اٹھاؤ۔ یہ طریقہ ہے، ورنہ اگر آپ سامنے گئے تو آپ بھی ڈوب گئے وہ بھی ڈوب گیا۔ تو اسی طریقے سے تربیت کے جو مختلف طرق ہوتے ہیں، وہ اپنے اپنے تجربے کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ اس کو دیکھنا چاہئے۔ بہرحال سب سے بڑی چیز کیا ہے؟ وہ ہے اللہ جل شانہٗ کی ذات جس نے ہمیں سب کچھ دیا، اور جو دیا اس کے مطابق بتا بھی دیا کہ اس کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ کارخانے میں سے جو چیز بنتی ہے، تو وہ چیز جب جاتی ہے لوگوں کے پاس product کی صورت میں، تو اس کے ساتھ ایک pamphlet بھی جاتا ہے، اور وہ pamphlet یہ ہوتا ہے اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کو کیسے استعمال کرنا ہے، اس کی احتیاطیں کیا ہیں، کن چیزوں سے اس کو دور رکھنا ہے، اور کس طریقے سے perform کرے گا۔ بلکہ manuals ہوتے ہیں، maintenance manual ہوتا ہے، اس کا operation کا manual ہوتا ہے، مختلف ہوتے ہیں، اُسی سے لوگ سیکھتے ہیں۔ تو اسی طریقے سے اللہ جل شانہٗ نے ہمیں ایک پورا نظام دیا ہوا ہے، اور وہ نظام کیا ہے؟ اَلْحَمْدُ للہ ہم انسان ہیں، ہماری آنکھیں ہیں، کان ہیں، زبان ہے، دماغ ہے، دل ہے، ہاتھ پاؤں ہیں، جسم کے سارے اعضاء ہیں۔ ان اعضاء کا جو تکوینی کام ہے وہ بھی ہو رہا ہوتا ہے، مثلاً آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں، کان سن رہے ہوتے ہیں، اور دماغ سوچ رہا ہوتا ہے، زبان بول رہی ہوتی ہے۔ یہ اس کے تکوینی functions ہیں۔ اللہ نے ان کو ایسا بنا لیا ہے۔ لیکن ایک اس کا تشریعی نظام ہے، اور وہ تشریعی نظام یہ ہے کہ ان کو کیسے کرنا چاہئے؟ کر تو یہ بہت کچھ سکتے ہیں۔ چھری کسی کے پیٹ میں بھی جا سکتی ہے اور پھل بھی کاٹ سکتی ہے۔ اب یہ ارادہ چھری والے کا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ، آیا اس کو کسی کے پیٹ میں گھونپ لیتا ہے یا اس سے پھل کاٹتا ہے یا اس سے جانور ذبح کرتا ہے، یہ اس کے اوپر منحصر ہے۔ اسی طریقے سے آنکھ جو ہے اللہ تعالیٰ نے ایک نظام دیا ہمیں، اور یہ اعمال کی مشین ہے۔ اسی آنکھ کے ذریعے سے ہم بہت خیر کما سکتے ہیں، اسی آنکھ کے ذریعے بہت شر میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس طرح اللہ پاک نے زبان دی ہے، تو یہ زبان جو ہے یہ چھوٹی سی چیز ہے لیکن اس کے ہلانے سے جو اعمال وجود میں آتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ اور تھوڑا سا خیال نہیں رکھا تو گناہوں کا بوجھ کا بوجھ ہی اٹھانا پڑے گا، بوجھ کا بوجھ۔ چھوٹے سے چھوٹا سا عضو ہے۔ اب یہ جو اس کا کام ہے، تو تین قسم کے کام یہ کرتا ہے۔ ایک وہ جو مطلوب ہے جس پہ اللہ تعالیٰ اجر عطا فرماتے ہیں، ایک تو وہ ہے، اس سے تو ہوگا فائدہ ان شاء اللہ، اجر ملے گا، اور سکھ کا سانس آپ لیں گے۔ ہماری پشتو میں ضرب المثل ہے کہ بات زبان سے کہتی ہے:
"تم مجھے منہ سے نکالو، میں تمہیں شہر سے نکلوا دیتی ہوں۔"
یہ بالکل صحیح ہے۔ خدانخواستہ کوئی بات بے وقت کہی تو پتا نہیں کیا سے کیا ہو جائے۔ قتل ہو جاتے ہیں، قوم کی قوم تباہ ہو جاتی ہیں کسی غلط بات کے کہنے کی وجہ سے۔ اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے اگر وہ کلمہ کفر ہے تو سارے اعمال ساقط، ختم ہو جاتے ہیں۔ ایک بھی باقی نہیں رہتا اگر پھر ایمان بھی لے آئیں تو، اب یہ ہے کہ وہ بات جو ہے وہ تو چھوٹی سی ہوتی ہے لیکن اس کے جو اثرات ہیں وہ تو پھر بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس طرح توبہ ہے، ما شاء اللہ سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ جو زبان ہے یہ عضو چھوٹا سا ہے لیکن اثرات اس کے بہت زیادہ ہیں اور اس کے اوپر چیک رکھنا ہوگا۔ تو پہلی چیز تو یہ ہے کہ جو اس سے اچھی چیزیں وجود میں آتی ہیں جو مطلوبہ اعمال اس سے وجود میں آتے ہیں، اَلْحَمْدُ للہ! بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اس سے جو برے اعمال وجود میں آتے ہیں، چونکہ بہت زیادہ ہیں، اور ابتدا میں انسان کو اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ بری چیز سے اچھی چیز کی طرف اور آ جائے۔ اس وقت یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے کہ وہ بری چیز کو روک دے۔ مثال کے طور پر آپ کو جانا تھا پشاور اور جا رہے ہیں آپ لاہور، تو پہلا تو یہ کام ہوگا کہ آپ رکیں گے نا؟ پہلا کیا کام ہوگا؟ رکیں گے، پھر موڑیں گے، پھر جو ہے نا پشاور کی طرف جائیں گے۔ اسی طریقے سے جو بری چیزیں ہیں زبان سے نکالنا، اس کا جو پہلا step ہوتا ہے وہ خاموشی ہے، جب تک انسان خاموشی نہیں سیکھتا، خاموش رہنا نہیں سیکھ سکتا، اس وقت تک وہ کلماتِ خیر اس کے لئے کافی مشکل ہوتے ہیں۔ تو خاموش رہنا بہت ضروری ہے، اِس کو سیکھنا چاہئے۔ تو
آپ ﷺ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"مَنْ صَمَتَ نَجَا"۔15
’’جس نے خاموشی اختیار کی اس کو نجات مل گئی۔‘‘
وجہ کیا ہے کہ کم از کم ان بری چیزوں سے بچ گیا جو زبان کی ہیں، مثال کے طور پر غیبت کر رہا تھا، غیبت سے بچ گیا، جھوٹ بول رہا تھا، جھوٹ سے بچ گیا، لعنت ملامت کر رہا تھا، اس سے بچ گیا۔ الغرض جو بھی زبان کی غلط مشغولی کی چیزیں ہیں، جو بھی زبان کی غلط مشغولی کی چیزیں ہیں، اس کے پہلے step میں کیا کریں گے؟ خاموش۔ خاموشی اختیار کرنا۔
اب چونکہ آپ ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم سب کو بتا سکتے تھے کہ اللہ کیا چاہتے ہیں؟ ہم لوگ تو پتا نہیں، ہم تو پتا نہیں کر سکتے تھے کہ اللہ پاک کیا چاہتے ہیں؟ اللہ جل شانہٗ تو براہ راست بات نہیں فرماتے، بلکہ کسی طریقے سے بات فرماتے ہیں۔ تو اس میں سب سے بڑا طریقہ پیغمبروں کا اور پھر اس کے بعد کتابوں کا ہے۔ فرشتوں کا جو طریقہ تھا یہ اللہ کا معاملہ تھا پیغمبروں کے ساتھ، فرشتے اترتے تھے، فرشتوں کے ذریعہ سے وحی آتی تھی، تو ہم لوگوں کے لئے تو پیغمبر ہی ذریعہ ہیں یا کوئی الہام کا نظام ہے۔ لیکن الہام چونکہ بذاتِ خود اس کو عام آدمی چیک نہیں کر سکتا، اس میں شیطان بھی تصرف کر سکتا ہے، عین ممکن ہے کہ جس کو آپ اللہ کی طرف سے الہام سمجھ رہے ہوں وہ الہامِ شیطانی ہو، آپ کو پتا نہ ہو۔ تو اس وجہ سے الہام کا جو تعین ہے کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے، وہ بھی یہی وحی کرے گی۔ اگر وحی کے ساتھ ٹکرائے گا تو پھر اس کو ہم نہیں مانیں گے۔ تو اب یہ جو چیز ہے کہ ہم لوگوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ کیا ہے؟ پیغمبر کا طریقہ۔ تو آپ ﷺ نے جو ہمیں ارشاد فرمایا ہے وہ میں آپ کو سناتا ہوں۔ کیونکہ ہمیں اپنی زبان کو استعمال کرنے کے بارے میں آپ ﷺ کی تعلیمات کی ضرورت ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
"جو شخص مجھے اس چیز کی ضمانت دے جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان میں ہے اور اس کی جو دونوں رانوں کے درمیان میں ہے، میں اس شخص کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔" (بخاری شریف)
وجہ یہ ہے کہ دو جگہیں یہ فساد کی جڑیں ہیں جس سے بے انتہا فساد معاشرے میں آتا ہے، اور معاشرے کا جو فساد ہوتا ہے وہ بہت بڑا گناہ ہوتا ہے۔ ایک ہوتا ہے ظاہر کے گناہ، ایک ہوتا ہے چھپ کے گناہ۔ چھپ کے گناہ، گناہگار ہوتا ہے، فاسق نہیں ہوتا۔ اعلانیہ گناہ کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔ اعلانیہ گناہ کرنے والا کیا ہوتا ہے؟ فاسق ہوتا ہے۔ تو اس وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا یہ دو باتیں ہیں، ایک دو جبڑوں کے درمیان ایک زبان اور جو دو رانوں کے درمیان ہے، اس کی اگر کوئی ضمانت دے کہ اس کو ٹھیک استعمال کریں گے، میں ان کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
ایک بات یاد رکھئے، میں اکثر اس بات کو عرض کرتا رہتا ہوں کہ دیکھو جس چیز میں وعدہ ہو نا، اس میں calculation نہ کریں۔ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہو، کیونکہ اس میں calculation کرنا ایسا ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کیا۔ وہ گائے والا واقعہ یاد کرو جنہوں نے calculation کی کہ اچھا پھر اس کا رنگ کیا ہے؟ اور پھر اس کا یہ کیا ہے؟ اور کیا کرتا ہے؟ کیا؟ ان کے لئے شرائط بڑھتی گئیں۔ ان کے لئے شرائط بڑھتی گئیں، اور اگر وہ پہلے ہی وقت میں مان لیتے کہ گائے کا وہ کر لو، گائے کو ذبح کر لو، بس بات پوری ہو جاتی۔ کوئی بھی گائے ذبح کر لیتے کوئی مشکل نہ ہوتی۔ لیکن انہوں نے اپنے لئے مشکل ڈال لی۔ تو اس طرح یہ اگر ہم دیکھیں کہ جہاں پر وعدہ ہو کہ تم یہ کرو تو میں یہ کر دوں گا، بس پھر وہاں پر مزے کرو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیکھو اگر اس پر ہم جو عمل کریں گے، یہ دو چیزیں ہیں، اس پر اگر ہم عمل کریں گے تو کیا ہوگا؟ اس کے ساتھ جتنے شرور ہیں وہ تو ختم ہوگئے نا، وہ تو ختم ہوگئے، اور پھر ان شرور کی وجہ سے جو ہمارے اندر خیر آئے گی اس کی وجہ سے بہت ساری اور چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی اس کے اوپر جو رحمت آئے گی اس کے ذریعے سے ہمارا کام ہو جائے گا۔ تو اور کیا چاہئے؟ اندھے کو کیا چاہئے؟ دو آنکھیں! تو یہی بات ہے کہ میں اگر آج سے فیصلہ کر لوں بھئی میں نے ان چیزوں کا تو بہت خیال رکھنا ہے، میں نے ان چیزوں میں تو اپنی زبان کا خیال رکھنا ہے، میں اپنی زبان کو غلط استعمال نہیں کروں گا، اور اپنی فَرج کا خیال رکھنا ہے، میں اس کو غلط استعمال نہیں کروں گا، بس اس کے بعد میں باقی چیزیں جو ہیں ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ذرائع پیدا فرما دیں گے۔ تو ایک تو یہ والی بات ہے کہ گویا کہ تربیت کا بہت بڑا اصول اس کے اندر شامل ہے تربیت کا۔
یہ فرمایا:
’’وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسّلَامُ: أَتَدْرُونَ مَا الْغِيْبَةُ؟‘‘
"کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟"
"قَالُوْا: اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ۔"
صحابہ کرام نے کہا: "اللہ اور ان کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔"
یہ بھی صحابہ کرام کا طریقہ تھا، ان کو جب پتا چل جاتا کہ آپ ﷺ کے ذریعے سے کچھ علم ملنے والا ہے، تو اس میں رکاوٹ نہیں بنتے تھے۔ اپنی بات پھر نہیں کرتے تھے، اپنی بات پھر نہیں کرتے تھے۔ کیوں؟ ان کو پتا تھا کہ آپ ﷺ کی طرف سے کچھ ملنے والا ہے، تو فوراً کہہ دیتے: "اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ۔" اللہ اور اللہ کے رسول کو زیادہ پتا ہے، ہمیں مل جائے وہ نعمت۔" تو پھر آپ ﷺ کی طرف سے ما شاء اللہ بات آ جاتی۔ تو یہاں پر یہ بھی بات آئی ہے:
"أَتَدْرُونَ مَا الْغِيْبَةُ؟"
"کیا تمہیں پتا ہے کہ غیبت کیا چیز ہے؟"
"قَالُوْا: اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ۔" قَالَ: "ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ"
"کسی کے پیٹھ پیچھے وہ بات کرنا جو اس کو پسند نہیں ہے، یہ غیبت ہے۔"
مثلاً آپ نے کہہ دیا وہ تو اس کا قد چھوٹا ہے، تو کیا خیال ہے کوئی اس کو پسند کرے گا؟ اگر اس کے بارے میں کہا، اگرچہ حقیقت ہے، حقیقت ہے لیکن پسند تو نہیں کرے گا۔ کسی لَنگ والے شخص کو، یعنی جس کے پیر میں لَنگ ہو، اس کو اگر کوئی کہہ دے، "او لنگڑے!" تو خوش ہوگا؟ اس کے بارے میں اگر آپ نے پیٹھ پیچھے کہا "فلاں لنگڑا" تو آپ نے وہ بات کر لی نا جو اس کو پسند نہیں ہے۔ ہاں، تو اب دیکھیں، اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کے ذریعے ہماری رہنمائی فرماتے ہیں۔ یہ یاد رکھیں، صحابہ کرام اَلْحَمْدُ للہ ہمارے لئے بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ کہ وہ پہلے مخاطب تھے اور انہوں نے جو سوالات کیے، انہوں نے جو خاموشی اختیار کی، وہ بھی ہمارے لئے خیر تھی، اور جو انہوں نے سوالات کیے وہ بھی ہمارے لئے خیر تھے۔ اب سوال کیا کر رہے ہیں؟
"قِيْلَ:
کہا گیا
أَفَرَاَيْتَ إِنْ كَانَ فِيْ أَخِيْ مَا أَقُولُ؟"
"کیا وہ چیز جو میرے بھائی کے اندر ہے اس کے بارے میں میں کہہ رہا ہوں، یہ بھی غیبت ہے؟"
یعنی اس کے اندر واقعی وہ عیب ہو۔
"قَالَ: إِنْ كَانَ فِيْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَهٗ"
فرمایا: "جس کے بارے میں تو کہہ رہا ہے اور اس کے اندر وہ عیب ہے وہی تو غیبت ہے۔"
پھر تو تو نے غیبت کر لی۔
"وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدْ بَہَتَّهٗ"
"اور جو تم کہہ رہے ہو اس میں وہ ہے نہیں وہ تو بہتان ہے"
اور تو نے اس کے اوپر بہتان لگا دیا، وہ تو اس سے زیادہ سخت ہے۔
ہمارے کچھ تیس مار خان لوگ یہ کہتے ہیں ہم اس کے منہ پر یہ بات کر سکتے ہیں۔ بھئی منہ پر بات کر سکنا اور بات ہے، لیکن کیا کر سکنا جائز ہے؟ کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ مثلاً لنگڑے کو لنگڑا کہنا جائز ہے؟ او لنگڑے! یہ جائز ہے؟ اس کا نام ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا نام وہ بنایا ہوا ہے اس نام سے اس کو پکارو نا۔ تجھے اس کے لنگڑے ہونے سے کیا غرض ہے؟ وہ تو اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ہے، تم اس تکوینی نظام پر اعتراض کیوں کرتے ہو؟ اس کے لئے تکوینی نظام، تمہارے لئے تشریعی نظام ہے۔ تجھے شریعت یہ اجازت نہیں دیتی کہ اس کو اس نام سے پکارو۔ بے شک وہ لنگڑا ہے لیکن اس کو لنگڑے سے پکارنا جائز نہیں ہے۔ اس کو لنگڑے کے ساتھ پکارنا جائز نہیں ہے۔ اس کو آپ اپنے نام سے پکارو جو اس کا نام ہے۔ تو یہاں پر جو ہے نا یہ والی بات ہے کہ اگر سامنے بھی ہو تو وہ تو اور زیادہ سخت بات ہے، کسی کا دل دکھانا کوئی اچھی بات ہے؟ آپ اس کو کہہ دیں گے۔ یہ بالکل ایسی بات ہے، ہماری پشتو میں کہتے ہیں کہ کوئی شخص تھا وہ گندگی کا ڈھیر اس کو ہم ډېران کہتے ہیں، تو ډېران پہ وہ نماز پڑھ رہا تھا تو کسی نے کہا بھئی ډېران پہ نماز نہیں ہوتی۔ اس نے کہا، میں نے کئی دفعہ پڑھی ہے، ہوگئی ہے۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہے، بھئی تو نے پڑھی ہے تو ہوگئی ہے، ہوگئی کا پتا تو تجھے نہیں لگ سکتا، وہ تو ادھر پتا چلے گا۔ تو شریعت کا حکم سمجھ۔ شریعت کا حکم جو تمہارے پاس ہے اس کے مطابق تجھے عمل کرنا ہوگا، باقی قبول کرنے والا نہ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
میں آپ کو ایک بات سناؤں۔ اِس وقت جہالت بہت زیادہ ہے۔ ایک ہوتی ہے جہالت جس کا علاج ہو سکتا ہے، دوسری جہالت ایسی ہوتی ہے وہ اپنے جہل کے اوپر ڈٹ جاتے ہیں اور اس کا علاج پھر نہیں ہوتا، اور سب سے بڑی جہالت یہ ہوتی ہے کہ جو جہالت کو دور کرنے والی چیز ہے، اس کے لوگ خلاف ہو جائیں، وہ سب سے بڑی جہالت ہوتی ہے۔ کیسے؟ حج کے موقع پر ایک بڑے میاں تھے، ہمارے ساتھ گروپ میں تھے۔ گیارہویں ذی الحج ہے، گیارہویں ذی الحج کو جو رمی ہے، تین چھوٹے، وسطیٰ اور بڑے شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اس کا وقت زوال سے شروع ہوتا ہے مغرب تک ہوتا ہے، البتہ معذوروں کے لئے مغرب کے بعد بھی ہوتا ہے۔ عورتوں کے لئے، معذوروں کے لئے اور بوڑھوں کے لئے مغرب کے بعد بھی ہوتا ہے۔ ویسے بہتر وقت ان کا زوال سے لے کے مغرب تک ہے۔ زوال سے پہلے اگر کسی نے کی تو وہ ہوگی نہیں، زوال سے پہلے اگر کی ہوگی تو ہوگی نہیں۔ اب ایک شخص ہے وہ دس بجے آگیا جی ہم نے رمی کر لی۔ میں نے کہا رمی آپ نے کیسے کی؟ رمی کا تو ابھی وقت ہی نہیں ہوا۔ اس وقت بھی بارہ نہیں بجے تھے۔ میں نے کہا، رمی آپ نے کیسے کی؟ رمی کا تو وقت ہی نہیں ہے! تو مجھے کہتے ہیں کہ ایک صاحب نے صحیح حج کیا تھا مسائل پہ عمل کرکے اور دوسرے نے مسائل پہ عمل نہیں کیا تھا، اس کا حج قبول ہوگیا، پہلے والے کا نہیں قبول ہوا۔ میں نے کہا، اب اس کے ساتھ کوئی حساب کیا جا سکتا ہے؟ اس کو کیسے سمجھائیں گے مجھے بتاؤ؟ بھئی اس کو کیسے پتا چلا؟ کوئی ٹیلی فون آیا اس کو؟ کوئی اس پہ وحی آگئی کہ تیرا حج قبول ہوگیا؟ بھئی ہم لوگ تو اندھے ہیں، ہمیں تو جتنا علم اللہ تعالیٰ عطا فرما دے بس وہی ہم وہی روشنی ہے۔
﴿قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ﴾16 ۔
یہ فرشتوں کا کلمہ ہے:
﴿قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ﴾
کہا فرشتوں نے "تو پاک ہے، ہم تو کچھ نہیں جانتے ﴿لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ﴾ مگر وہ جو تو نے ہمیں بتا دیا۔" اب یہ والی بات ہمارے اوپر بھی ہے جتنا بتایا اللہ تعالیٰ نے وہی علم ہے نا؟ اپنی طرف سے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں: "میرے خیال میں ایسا ہونا چاہئے،" یہ بہت بڑا گستاخی کا کلمہ ہے۔ جو کہتے ہیں: "میرے خیال میں ایسا ہونا چاہئے" بھئی اللہ تعالیٰ کے حکم میں تمہارا خیال نہیں چلے گا۔ اجتہادی بات جو ہوتی ہے اس کی بھی اپنے limits ہیں۔ یہ نہیں کہ ہر چیز میں اجتہاد کرو۔ آج لوگ بیٹھ جائیں، پارلیمنٹ بیٹھ جائے کہ دیکھو نمازیں اگر تین ہو جائیں تو کیا بات ہے؟ لوگوں کی مصروفیت زیادہ ہوگئی۔ تو کیا خیال ہے وہ اجتہاد قبول ہوگا؟ بے شک وہ زبردستی اس کو نافذ بھی کر دیں، وہ مجرم ہوں گے، اور جو ان کی باتیں مانیں گے وہ بھی مجرم ہوں گے۔ حکم نہیں بدلے گا کیونکہ:
﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ﴾17
فیصلہ ہوچکا ہے دین مکمل ہوگیا ہے، اب اس کے بعد اس میں تبدیلی کوئی نہیں کر سکتا۔ تو یہ "میرے خیال میں، میرے خیال میں" جو رٹ لگاتے ہیں آج کل میڈیا کی وجہ سے یہ مسائل زیادہ ہوگئے ہیں، یہ انتہائی درجہ کی گستاخی کی باتیں ہیں، لیکن لوگ جانتے نہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر جو پڑھے لکھے جاہل ہوتے ہیں نا، اس میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ سادہ لوگ تو کہتے ہیں کہ جی بس اللہ پاک کو پتا ہے جی، ’’اللہ نو پتا سی‘‘، بس وہ تو اپنے آپ کو چھڑا دیتے ہیں، وہ بچا دیتے ہیں اپنے آپ کو۔ لیکن جو پڑھے لکھے جاہل ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو پھنساتے رہتے ہیں: "میرے خیال میں ایسا ہونا چاہئے، میرے خیال میں ایسا ہونا چاہئے، میرے خیال میں!" یہ میرے خیال والی بات نہیں چلے گی۔ دیکھو میں آپ کو خیال والی بات بتاتا ہوں، بہت زبردست بات ہے۔ قرآن شریف میں آتا ہے، سبحان اللہ!
﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ﴾18
"اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔"
اللہ پاک نے کیا فرمایا؟ سود کو مٹاتا ہے، صدقات کو بڑھاتا ہے۔ خود فرمایا اللہ پاک نے فرمایا۔ اب لوگ کیا کہتے ہیں؟ ٹھیک ہے، اس آیت کے مقابلے میں ان کی بات میں نہیں کروں گا۔ ویسے کسی سے پوچھو بھئی سود سے پیسہ بڑھتا ہے یا کم ہوتا ہے؟ تو لوگ کیا کہیں گے؟ بڑھتا ہے بظاہر، لیکن حقیقت میں کم ہوتا ہے۔ صدقات سے ظاہر میں تو پیسہ کم ہوتا ہے، حقیقت میں بڑھتا ہے۔ اب "میرے خیال میں" کی کہاں گنجائش ہے؟ آپ کے خیال کی تو دور کی بات ہے جو آپ کے مشاہدہ کی چیز ہے اس کو بھی اللہ نے رد کر دیا، "نہیں اس طرح نہیں ہے۔ اس طرح نہیں ہے۔" اللہ پاک نے فرمایا۔ بے شک تجھے سمجھ آئے، تجھے سمجھ نہ آئے یہ علیحدہ بات ہے۔ دیکھو اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
﴿وَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا٘﴾
"ان کی آنکھیں ہیں لیکن اس سے وہ دیکھتے نہیں۔"
﴿وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَاؕ﴾
"ان کے کان ہیں لیکن ان سے وہ سنتے نہیں۔"
﴿وَلَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا٘﴾
"ان کے دل ہیں لیکن اس سے وہ سمجھتے نہیں۔"
اللہ پاک فرماتے ہیں: ان کی آنکھیں ہیں، اللہ خود گواہی دیتا ہے: ان کی آنکھیں ہیں لیکن اس سے وہ دیکھتے نہیں ہیں، ان کے کان ہیں لیکن ان سے وہ سنتے نہیں ہیں، ان کے دل ہیں لیکن اس سے وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ تو "میرے خیال میں" کی گنجائش آگئی؟ "میرے خیال میں" کی گنجائش نہیں ہے۔ اب یہ جو بات ہے، یہ والی بات اس کو ہم لوگوں کو سمجھنا ہوگا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "مَنْ صَمَتَ نَجَا"19
’’جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پائی۔‘‘
خاموشی دو قسم کی ہے: ایک تو یہ ہے کہ انسان بولے نہیں، خاموش رہے، سنتے رہیں، زیادہ سنا اور کم بولا، ہماری پشتو میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ نے تجھے دو کان دیئے ہیں، ایک زبان دی ہے، لہٰذا زیادہ سنو اور کم بات کرو۔"
یہ والی بات ہے۔ تو ایک تو یہ والی بات ہے کہ انسان کم بولے، یہ خاموشی کی طرف قدم ہے، اور زیادہ سنے۔ جو زیادہ سنتا ہے اور کم بولتا ہے وہ لوگوں سے خیر لیتا ہے، اپنے شر سے لوگوں کو بچاتا ہے۔ وہ لوگوں سے خیر لیتا ہے اور اپنے شر سے لوگوں کو بچاتا ہے۔ تو یہ جو بات ہے کہ انسان خاموش رہے، ایک تو یہ اس قسم کا ہے۔
دوسرا یہ ہے کہ اللہ کا حکم آگیا، سمجھ میں نہیں بات آئی، خاموش۔ مثلاً 1400 سال بعد ایک چیز کا پتا چلنا تھا سائنس کے ذریعے سے یا کسی اور ذریعے سے، اور حکم 1400 سال پہلے آگیا، کیا 1400 سال انتظار کیا جا سکتا ہے کہ اچھا میں عمل تب کروں گا جب مجھ پر یہ بات کھل جائے گی؟ عمل تو اس وقت لازم ہوگیا، سمجھ بعد میں آئے گی، اور نہ بھی آئی تو کوئی بات نہیں۔ یہ جو نہیں آئی اور پھر عمل کرلیا، یہ بہت بڑی سمجھ ہے۔ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان کی خدمت میں حاضری تھی، تین بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک بات آئی وہ جس کے بارے میں میرے پاس انفارمیشن تھی، ان حضرات نے ایک بات کی، میں نے اپنی انفارمیشن ان حضرات تک پہنچائی کہ یہ بات میں نے اس طرح سنی ہے۔ ان حضرات نے سن لی۔ صبح میں جا رہا ہوں روضہ اقدس پہ سلام کرنے کے لئے، اور حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ سلام کرکے آ رہے ہیں واپس۔ میں دائیں طرف ہوں، حضرت بھی اپنے دائیں طرف ہیں، لہٰذا میری دوسری سمت میں ہیں۔ میں cross کرکے وہاں پہنچ گیا اور حضرت کو سلام کیا۔ میں نے کہا، "حضرت کل جو ہماری بات ہوئی تھی میں اس میں ڈر رہا ہوں کیونکہ مجھ میں ادب نہیں ہے، بے ادبی کی ہے، اس کی میں معافی چاہتا ہوں، میں نے آپ کے سامنے بات اس طرح کی۔" تو حضرت بہت خوش ہوئے، فرمایا، "یہی ادب ہے، یہی ادب ہے، جو اپنے آپ کو ادب والا کہتا ہے اس میں ادب نہیں ہے۔" دیکھو کیسی زبردست بات فرمائی! جو اپنے آپ کو ادب والا کہتا ہے اس میں ادب نہیں ہے، جو اپنے آپ کو ادب والا نہیں سمجھتا اس میں ادب ہے۔ سمجھ میں آگئی نا بات؟ تو اب یہ جو بات ہے میں عرض کر رہا تھا کہ کوئی چیز سمجھ میں نہیں آئی بات، اور اس سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں کی، حکم پہ اس طرح عمل کیا جس طرح حکم ہے، بے شک سمجھ نہیں آیا، یہی بہت بڑی سمجھ ہے، یہی بہت بڑی سمجھ ہے وہاں نہیں بولنا۔ "جہاں نہیں بولنا، وہاں نہیں بولنا۔" یہ بہت بڑی سمجھ ہے۔ تو یہاں "مَنْ صَمَتَ نَجَا" میں یہ بات بھی آتی ہے، اس جگہ پہ خاموش ہو جاؤ، بات نہ کرو کیونکہ بات کرنے سے انسان پھنس جاتا ہے۔
پھر فرمایا:
"وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهٗ مَا لَا يَعْنِيْهِ"۔20
"کسی مسلمان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ وہ چیز ترک کر لے جس کا کوئی مطلب نہیں، فائدہ نہیں، اس چیز کو ترک کر لے۔"
اس میں چونکہ کھل کے فرمایا: "مَا لَا يَعْنِيْهِ" ہے، اس میں صرف والی بات نہیں۔ بلکہ فرمایا گویا کہ اس میں دونوں چیزیں شامل ہیں، دنیاوی بھی اور آخرت کے لحاظ سے بھی بات آگئی۔ لہٰذا جس میں کوئی اخروی فائدہ نہیں ہے، جس میں کوئی دنیاوی جائز فائدہ نہیں ہے، مثال کے طور پر آپ دنیاوی جائز کام کر رہے ہیں، مثلاً آپ کوئی چیز بیچ رہے ہیں اور آپ مسلسل "کیلے لے لو، امرود لے لو، امرود لے لو، امرود لے لو، امرود!" ناجائز نہیں ہے، ناجائز نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیاوی فائدہ ہے اس میں جائز اور ایک ذریعہ کاروبار ہے، مطلب جس کے ذریعہ سے آپ کو حلال مال ملتا ہے، تو وہ جائز ہے۔ لیکن فرمایا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہ "اگر کوئی شخص ایک ایسا کلمہ جس کی دنیاوی لحاظ سے بھی ضرورت نہیں ہے اور دینی لحاظ سے بھی ضرورت نہیں ہے منہ سے نکالے گا تو اس کے دل میں ظلمت آ جائے گی۔" مثلاً، مثال دی حضرت نے، مثال دی ہے، مثال بڑی زبردست دی ہے۔ حضرت کو اللہ تعالیٰ نے بڑا سلیقہ عطا فرمایا تھا۔ مثال یہ دی کہ
ایک شخص جا رہا ہے اور آپ اس کو دیکھو، "جی کہاں جا رہے ہیں؟" فرمایا، "اس کی ضرورت نہیں تھی، آپ نے کیوں اس سے پوچھا؟ عین ممکن ہے وہ آپ کو نہ بتانا چاہتا ہو۔ آپ نے اس کو پریشانی میں ڈال دیا، کنفیوژن میں ڈال دیا، وہ ممکن ہے چھپانے کے لئے کچھ آگے پیچھے تردد کرنا پڑے اس کو، خواہ مخواہ اس کو تردد میں ڈال دیا، کیا ضرورت تھی؟" فرمایا اس کلمے کی ضرورت نہیں تھی۔
اب دیکھ لو ہم اس طرح کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ ہمارے معاملات کتنے گڑبڑ ہوگئے ہیں۔ تو یہ لایعنی کی مثال ہے اور جو خلافِ شرع کی مثال ہے، مثلاً برے نام لینا، او فلانے، نام کو بگاڑ لینا، بڑے اچھے اچھے نام ہوتے ہیں اور ایسے بگاڑ دیتے ہیں آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نام بگاڑ لیتے ہیں، آپ ﷺ کا نام ساتھ ہوتا ہے بگاڑ لیتے ہیں۔ یہ میں سمجھتا ہوں پتا نہیں کیسے دل ہیں؟ یہ کیسے برداشت کرتے ہیں؟ ہمارے ساتھ ہمارے ایک ساتھی تھے، تو ان کا نام تھا عبدالمتین۔ گاڑی میں جاتے تھے ہمارے ساتھ، تو بعض لوگ کہتے: "متین صاحب!" میں نے کہا: "نہیں، متین صاحب نہیں، عبدالمتین صاحب، پورا نام لو، کیونکہ متین کا مطلب اور ہے، عبدالمتین کا مطلب اور ہے۔" بہت خطرناک کام ہے، لوگ پروا نہیں کرتے۔ عبداللہ، عبداللہ نام ہے، بہت اچھا نام ہے۔ تو چونکہ last نام، جو یورپ وغیرہ میں اور امریکہ وغیرہ میں پڑھ کے آ جائے تو دماغ خبطی ہو جاتا ہے ناں؟ مطلب ظاہر ہے یہ بھی تو مصیبت ہے! تو last نام کہتے ہیں، "اللہ بول رہا ہوں"، بکواس کرتے ہو۔ مطلب یہ جو چیز ہے مطلب وہاں چونکہ بھئی وہ تو جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں، ہمارا ان کے ساتھ کیا مقابلہ؟ ہم ان سے کیوں سیکھیں گے؟ ہم نے تو سیکھنا ہے آپ ﷺ سے اور صحابہ کرام سے۔ ہم نے اُن سے کیا سیکھنا ہے؟ ہاں! ان کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہے، کس نے آپ کو کہا ہے کہ نہ کرو؟ ہاں جائز کے لئے استعمال کرو، ٹیکنالوجی کے لئے ضرور، ٹیکنالوجی ان سے لو، لیکن ٹیکنالوجی کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی ہر چیز جو ہے نا آپ کے لئے قابل تقلید ہوگئی۔ جو ان کی صحیح چیز ہے صحیح ہے، جو غلط ہے غلط ہے، چاہے مسلمان ہو چاہے کافر ہو، جو اس کی صحیح چیز صحیح ہے، غلط ہے غلط ہے۔
جرمنی میں تھا تو وہاں پر ہماری چونکہ مسجدیں دور دور تھیں، اور دوستوں میں ہم نے نظام کیا ہوتا تھا کہ مغرب کی نماز مثلاً فلاں جگہ پڑھنی ہے اکٹھے ہو کے، ظہر کی نماز فلاں جگہ پڑھنی ہے، وہ مختلف اس طرح تقسیم کیے ہوتے تھے۔ تو علی بابا کے ہاں مغرب کی نماز ہماری آ جاتی تھی، تو وہاں میں گیا تو نماز وہ پڑھ چکے تھے، میں ذرا لیٹ ہوگیا تھا۔ تو جب میں گیا تو اس کے ساتھ جو مالک تھے اس دکان کے، ان کے ساتھ ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ تو ظاہر ہے میں نے کہا کہ گاہک ہے چونکہ دکاندار جو تھے، تو میں نے ان کو سلام کیا اور آگے جا کر میں مصلے پہ کھڑا ہوگیا۔ مغرب کی نماز تھی، میں نے پڑھنا شروع کر دی۔ میں نے نماز پڑھی تو مجھے اس دوست نے کہا کہ آپ کو پتا ہے یہ لڑکی، (میں نے دیکھا کہ وہ لڑکی چلی گئی۔) کہتے ہیں، وہ لڑکی کیا کہہ رہی تھی؟ میں نے کہا، مجھے کیا پتا کہ کیا کہہ رہی تھی؟ آپ سے بات کر رہی ہوگی۔ کہتے ہیں، وہ آپ کو اس طرح گھور گھور کے دیکھ رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کاش میرے والد بھی اس طرح ہوتے! دیکھو کیسے کتنے مزے سے عبادت کر رہے ہیں، کتنا سکون ہے ان کے چہرے پہ، اور ایک ہم ہیں۔ یہ دیکھو خود اپنی باتیں بتا رہی ہیں، مطلب ظاہر ہے اس میں ہمیں درمیان میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ہم ہیں کہ دن کو گدھوں کی طرح کام کرتے ہیں، ظاہر ہے ان کے کام واقعی ٹف ٹائم ہوتے ہیں، اور پھر شام کو bar میں جاتے ہیں، وہاں پیتے ہیں ناچتے ہیں تھک جاتے ہیں پھر شام کو آ کے بستر پر گر پڑتے ہیں پھر صبح اٹھتے ہیں پھر وہی کام ہمارا شروع ہو جاتا ہے۔ کیا ہم اسی کے لئے پیدا ہوئے ہیں؟ یہ وہ اپنی life style خود describe کر رہی ہے۔ یہ حال ہے۔ اب ہم ان کی نقل کریں گے یا وہ ہماری نقل کرنا چاہتے ہیں؟ جو ان کے اچھے لوگ ہیں وہ ہماری نقل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ان کے پیچھے چلنا چاہتے ہیں۔
بھئی خدا کے بندو! ایک عالم تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، heart-problem ہوگیا، bypass operation ہوگیا اس کا۔ bypass operation سے پہلے جب ان کو بتایا کہ bypass ہوگا، تو اس نے کہا، جی اس پہ کتنا خرچہ آئے گا؟ اس نے کہا، چار لاکھ روپے۔ تو رو پڑا، وہ عالم جو تھا وہ رو پڑا۔ تو ڈاکٹر بڑے اچھے آدمی تھے، انہوں نے کہا: "حضرت آپ روئیں نہیں، آپ ہمارے بڑے ہیں، میں پوری کوشش کروں گا کہ کم سے کم خرچ آپ کا ہو۔ میں کوشش کرکے اس کو ڈھائی لاکھ میں کروا دوں گا، ڈیڑھ لاکھ کم کر دوں گا۔" تو اس عالم نے کہا: "نہیں، اللہ نے مجھے بہت کچھ دیا ہے، میں اس لئے نہیں رو رہا، چار لاکھ روپے ہی دوں گا۔" ایسے لوگ تبلیغ کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اجر عطا فرمائے۔ دیکھو اصل کیا ہے؟ یہ ابھی سن لو، ایسے لوگ تبلیغ کر سکتے ہیں! انہوں نے کہا: "میں آپ کو چار لاکھ روپے ہی دوں گا۔" انہوں نے کہا: "جی حضرت رونے کا سبب؟" فرمایا: "رونے کا سبب یہ ہے کہ جس اللہ نے 70، 75 سال اس دل کی حفاظت فرمائی، اس کو کوئی بیماری نہیں آنے دی، اس نے تو ہم سے کچھ بھی نہیں لیا، اس نے تو ہم سے کچھ بھی نہیں لیا، اور ہم اس کا شکر ادا نہیں کر رہے ہیں۔ اور دیکھیں آپ اس کو ڈھائی لاکھ میں کرنا چاہتے ہیں، ہم آپ کا شکر بھی ادا کریں گے، ہم آپ کی تعریف بھی کریں گے کہ دیکھو آپ نے، کیا ہوگیا؟ ایک بیمار دل کو تھوڑا سا سہارا دیا، اس کی بیماری کم ہوگئی، اس طرح تو نہیں بنا سکتے جس طرح پہلے تھا، لیکن بہرحال کچھ سہارا مل جائے گا، اور ہم آپ کی اتنی تعریف کریں گے، کاش! ہم یہ تعریف اللہ پاک کی بھی کرتے۔" سبحان اللہ، کیسی بڑی بات ہے۔ liver transplant لوگ کرتے ہیں، پچاس ساٹھ لاکھ روپے تقریباً خرچ آتا ہے، کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اتنی بڑی چیز ہمارے پہلو میں پڑی ہوئی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ہم سے کچھ بھی نہیں لیا۔ kidney کام کر رہی ہے، دماغ کام کر رہا ہے، دل کام کر رہا ہے، پھیپھڑے کام کر رہے ہیں، اور کمال کی بات ہے کہ ایسے اندر پورے نظام بنے ہوئے ہیں کہ بیمار ہوتا ہے تو اکثر بیماریاں تو جسم خود ٹھیک کرتا ہے۔ وہ مدافعتی نظام ہوتا ہے، اور اتنا زبردست نظام ہوتا ہے کہ انسانوں میں وہ نظام نہیں پایا جاتا۔ کیا خیال ہے ڈاکٹر صاحب انفیکشن کے against جو نظام برپا ہوتا ہے اس طرح انسانوں میں ایسا ہے؟ انسانوں میں ایسا نظام نہیں پایا جاتا۔ وہ ایسے پورا ایک ایمرجنسی declare ہو جاتی ہے۔ یہ جس کو ہم Pus کہتے ہیں، یہ اصل میں وہ ہمارے شہید جو ہوتے ہیں کیا ہوتے ہیں؟Neutrophils وہ شہید ہو چکے ہوتے ہیں، یہ ان کا ہوتا ہے، میدان جنگ ہوتا ہے۔ ہم لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر کیا کیا رکھا ہوا ہے اور کیا کیا چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ یعنی آپ دیکھیں نا میں عینک کے ساتھ دیکھ رہا ہوں، اَلْحَمْدُ للہ یہ بھی اللہ کی بڑی نعمت ہے، اَلْحَمْدُ للہ اس پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ نظر کمزور ہوگئی لیکن عینک کی وجہ سے ما شاء اللہ اپنی جگہ پہ آگئی، لیکن بے شک آگئی ہے لیکن جب میں سیڑھیاں اترتا ہوں اس سے مجھے مسئلہ ہوتا ہے، کیونکہ by focal ہے، مجھ اتارنا پڑتے ہیں، سیڑھیاں اترتے وقت عینک اتارنی پڑتی ہے، کیونکہ میری نگاہ split ہو جاتی ہے، کچھ کچھ دکھائی دیتا ہے، کچھ کچھ دکھائی دیتا ہے۔ اس میں عین ممکن ہے میں قدم ایسا لوں جس سے میں گر پڑوں۔ اب دیکھ لو جس ڈاکٹر نے مجھے prescribe کیا اس کا بھی مشکور، جس نے عینک بنوائی اس کا بھی مشکور، بڑی کوشش کی، بڑی محنت کی، لیکن بہرحال ہے تو artificial، قدرتی تو نہیں ہو سکتا۔ اور جو آنکھ کا نظام ہے، میں آپ کو بتاؤں انسان حیران ہو جاتا ہے، Million Rods and cones اس میں مصروف ہیں، اور پھر کمال کی بات ہے یعنی ایک موٹے سے nerve میں ساری information pass ہو رہی ہے، پھر وہاں یہ ما شاء اللہ سینٹر میں پہنچ کے decode بھی ہو رہی ہوتی ہے، اور image الٹا بنتا ہے، الٹا بنتا ہے نا؟ اور پھر ہم اس کو سیدھا دیکھتے ہیں۔ کیا نظام ہے اللہ پاک نے بنایا ہوا ہے! اب یہ جو مطلب میرا یہ ہے کہ اللہ پاک نے جتنے بھی ہمیں نظام دیئے ہوئے ہیں، تکوینی نظام ہیں، اگر ہم اس تکوینی نظام کو study کر لیں اور اس کے ذریعے سے ہمیں جو معرفت حاصل ہو، اس معرفت کے ذریعے سے ہم شریعت پر دل سے عمل کرنے والے بن جائیں، تو پھر کیا ہوگا؟ سبحان اللہ ہمارے اعمال کی قیمت بہت بڑھ جائے گی۔ ہمارے اعمال کی قیمت بہت بڑھ جائے گی۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں نمازوں سے افضل ہوتی ہے۔"
اس کی وجہ اس کے اندر جو معرفت ہے وہ شامل ہوتی ہے۔ تو یہ جو میں عرض کر رہا ہوں کہ معرفت حاصل کرنا ان چیزوں کے اندر غور کرکے، لیکن یہ معرفت ویسے حاصل نہیں ہوتی، اس کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے، اور وہ ضرورت ہے ذکر کی اور فکر کی۔ جب تک ذکر اور فکر نہیں ہوگا، تو انسان چیزوں کو دیکھتا جائے گا اور enjoy بھی کرتا جائے گا، لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے، روحانی فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ روحانی فائدہ اٹھانے کے لئے ذکر فکر ضروری ہے۔ یہ میں نہیں کہتا ہوں، یہ اللہ پاک نے فرمایا ہے، فرمایا:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ- رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾21
بہت دور چلا گیا۔
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "مَنْ كَانَ ذَا وَجْھَیْنِ فِي الدُّنْيَا كَانَ لَهٗ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِسَانَانِ مِنْ نَّارٍ"۔22
فرمایا آپ ﷺ نے کہ: "جو دو چہروں والا ہوگا، کسی کے ساتھ کچھ اور کسی کے ساتھ کچھ، تو قیامت کے دن آگ کی زبان ان کو دی جائے گی۔"
اور دوسری بات فرمائی:
"وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: "مَنْ عَیَّرَ أَخَاہُ بِذَنْبٍ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی یَعْمَلَہٗ"۔23 یَعْنِيْ مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَّابَ مِنْہُ۔
یہ بھی بہت بڑی عجیب بات ہے جو کہ آج مطلب سامنے آ رہی ہے۔
فرمایا: "جس نے کسی اپنے بھائی کو کسی گناہ جو وہ کر چکا ہو اور اس سے توبہ کر چکا ہو، اگر اس کو اس کے اوپر وہ طنز کیا یا اس کے اوپر بات کی کہ تُو ایسا ہے۔ فرمایا کیا ہوگا کہ وہ اس وقت تک مرے گا نہیں جو وہ جس کو غیرت دے رہا ہے وہ کرے نہیں۔"
مطلب یہ چیز ہے، مطلب یہ کہ اگر کوئی توبہ کرچکا ہے پھر آپ اس کو نہ touch کریں۔ کیونکہ اللہ اس کو معاف کرچکا ہے تو تُو کون ہوتا ہے درمیان میں پڑنے والا؟ بلکہ میں آپ کو بتاؤں تاریخ کے اندر جو لوگ تباہ ہوئے ہیں اور جن کی تباہی کی اطلاع کی گئی ہے، ایک تو ہوتا ہے بہت سارے لوگ تباہ ہوئے لیکن اس کی اطلاع نہیں ہوئی، جن کی اطلاع ہوئی ہے ان میں سے بہت سارے لوگ یہ ہیں جنہوں نے ایسا عمل کیا کہ اللہ کے فیصلے میں مداخلت کرنا چاہی، اللہ کے فیصلے میں مداخلت کرنا چاہی۔ مثال کے طور پر اللہ جل شانہٗ کسی کو معاف کرتا ہے اور یہ اس کو معاف نہیں کرتا اور اس کے ساتھ پھر وہی چیز لگا لیتا ہے۔ بھئی جب وہ توبہ کرچکا ہے، معاف ہوچکا ہے، پھر اس کے بعد تو کون ہوتا ہے درمیان میں پڑنے والا؟ تو یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔
متفق علیہ حدیث شریف ہے۔
"چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔"
اور فرمایا کہ
"بے شک نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بے شک جھوٹ بدی ہے اور بدی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے۔" (مسلم شریف)
بہرحال باتیں بہت ساری ہیں، اللہ کرے کہ ہم سب کو سمجھ آ جائے۔ بنیادی طور تو سمجھ کی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی زندگی میں ایسی چیزوں کو دیکھیں کہ کہیں ایسا تو ہم نہیں کر رہے جن کا یہاں پر تذکرہ ہے۔ مثلاً غیبت کا تذکرہ ہے کہیں غیبت تو نہیں کر رہے؟ کہیں کسی پہ چوٹ تو نہیں کر رہے؟ آج کل آپ حیران ہوں گے، میں تو شادی بیاہ کی محفلوں میں اس لئے شریک بھی نہیں ہوتا۔ اب مجھ میں ہمت نہیں ہے شریک ہونے کی، کیونکہ شادی بیاہ کی محفلوں میں عموماً میں دیکھتا ہوں کہ لوگ ایک دوسرے کے اوپر آوازیں کستے ہیں، استہزاء کرتے ہیں، مذاق کرتے ہیں، ٹولیاں بنا کر کسی کو وہ بنا لیتے ہیں اور پھر ان کے پیچھے پڑتے ہیں، یہی ان کی گپ شپ ہوتی ہے۔ اب وہ بیچارہ جو جواب نہیں دے سکتا کسی وجہ سے کمزور ہے یا کوئی اور، ان کی لوگ درگت بنا لیتے ہیں، اور جو لوگ زبان، لسّان ہوتے ہیں، تیز زبان والے ہوتے ہیں، وہ ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ کتنی خطرناک بات ہے؟ بہت خطرناک بات ہے! اچھا کمال کی بات ہے کہ آپ شرافت کے ساتھ رہنا چاہیں گے تو آپ کو لوگ شرافت سے رہنے بھی نہیں دیں گے، ضرور آپ کو involve کرنا چاہیں گے، کوئی نہ کوئی Comment کریں گے، مطلب ہے کہ آپ کی زبان سے کچھ بولنا شروع پھر پڑ جائیں گے کتوں کی طرح پڑ جاتے ہیں، صحیح بات عرض کرتا ہوں کتوں کی طرح پڑ جاتے ہیں۔ جیسے کتوں سے انسان اپنے آپ کو بچاتا ہے اس طرح ان سے پھر انسان اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ تو یہ کیا چیز ہے؟ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانا چاہئے۔
اور یہ آپ کو ایک بات بتاؤں، جو شریعت میں پابندیاں رکھی گئی ہیں، ان پابندیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت سمجھو، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے آپ کو بہت ساری چیزوں سے بچت ہوگی۔ مثلاً میں کہتا ہوں جی خواتین کے لئے پردہ ہے۔ پردے سے خواتین بے شک تنگ ہوتی ہوں لیکن اللہ پاک نے اس کی وجہ سے اتنی چیزوں سے بچایا ہوتا ہے کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔ امریکہ سے ایک خاتون آئی تھیں مسلمان ہو کے آئی تھی، اس نے پردہ کیا ہوا تھا۔ یہاں ماڈرن خواتین کے ساتھ ان کی ملاقات ہوگئی تو ماڈرن خواتین اس سے کہتی ہیں کہ "آپ کیوں گرمی میں؟ کیا گرمی نہیں لگتی کہ آپ نے اس طرح اپنے آپ کو چھپایا ہوا ہے کپڑے میں؟" اس نے ایک چھوٹا سا جواب دیا: "جہنم کی گرمی اس سے زیادہ ہے۔" جہنم کی گرمی اس سے زیادہ ہے اور یہ بات بالکل صحیح بات ہے۔ اس طرح ایک اور امریکہ سے خاتون آئی تھی، تو یہاں پر جو ماڈرن خواتین تھیں ان کے ساتھ ملاقات ہوئی، تو وہ ان کو کہتی ہیں "جی آپ کے ہاں تو یہ بھی نہیں ہوتا، نندوں کے درمیان جو لڑائیاں ہوتی ہیں، بھابھیوں کے ساتھ لڑائی ہوتی ہے، جو ساس اور بہو کی لڑائی ہوتی ہے، وہ ما شاء اللہ خواتین کام کرتی ہیں لہٰذا کوئی مسئلہ آپ کو نہیں ہوتا، ہمارے ہاں تو یہ بہت ساری چیزیں ہیں۔" وہ سنتی رہی، سنتی رہی، سنتی رہی، اخیر میں انہوں نے کہا: "شکر کرو کہ تمہارے پاس یہ تو ہے، نند بھی ہے، بھاوج بھی ہے، ساس بھی ہے، بہو بھی ہے، ماں بھی ہے، بیٹا بھی۔ ہمارے ہاں تو یہ چیزیں ہیں ہی نہیں، ختم ہوگئی ہیں، وہاں تو خاندان اڑ گئے، خاندان اڑ گئے، خاندان ہیں ہی نہیں۔"
جرمنی میں جب ہم تھے تو ہمارے ساتھ ایک عرب فیملی تھی اور اس کے ساتھ ایک جرمن خاتون رہتی تھی، تو جب وہ جگہ میں نے hire کر لی تو مجھے وہ عرب ساتھی کہنے لگے "آپ آ تو رہے ہیں اچھی بات ہے، اچھی جگہ ہے، لیکن یہاں ایک شیطان عورت رہتی ہے، وہ جو بہت تنگ کرے گی آپ کو، تو بس وہ پہلے سے آپ کو بتانا تھا تاکہ آپ ذہنی طور پہ تیار رہیں۔" میں نے کہا "ان شاء اللہ مجھے تنگ نہیں کرے گی۔" اس نے کہا "چلو ٹھیک ہے جی، آپ کو تنگ نہیں کرے گی تو ٹھیک ہے۔" اچھا میں جب آگیا تو چار پانچ دن تو ان کے ساتھ ملاقات ہی نہیں ہوئی نا، وہ اپنے کام پہ ہم اپنے کام پہ، لہٰذا کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر میں نے ذرا کچھ معلومات کیں، پتا چلا کہ اس کے جو بچے ہیں وہ ان کو چھوڑ کے گئے ہیں، یہ المیہ وہاں بہت زیادہ ہے۔ بچے اٹھارہ سال بس پھر، چھوڑ کے چلے گئے، اب ان کے لئے بہت ذہنی نفسیاتی المیہ تھا۔ اب ایسے لوگوں کے لئے پھر ظاہر ہے نفسیاتی عوارض تو ہوتے ہیں، تو ان کے لئے پھر اس طرح treatment بھی ہوتی ہے۔ میں نے اپنے گھر والوں سے کہا، میں نے کہا، آپ اس طرح کریں، کیک بنا لیں اور ہم ان کو گفٹ کریں گے۔ انہوں نے کیک بنا لیا، وہاں تو فارغ ہوتے ہیں۔ کیک بنا لیا۔ ہماری چھوٹی بچی تھی اس وقت ساڑھے تین سال کی عمر تھی اس کی، تو اس کو میں نے دیا کہ یہ لو یہ کیک اور یہ جا کے bell مارو اور جس وقت یہ باہر آئے تو اس کو کہنا Geschenk ،Geschenk وہ تحفے کو کہتے ہیں Geschenk۔ اب چھوٹی بچی اور وہ بھی ظاہر ہے کوئی چیز لے جائے اور کہہ دے Geschenk! اب اس نے جب دروازہ کھولا تو وہ تو بالکل خوشی سے پاگل ہوگئی، بچی کو دیکھا اور ایسے انداز میں، تو اس نے اس کو اٹھا لیا۔ ہمیں جب دیکھا کہتی ہے، یہ آپ کی بچی ہے؟ تو ہم نے کہا، جی بالکل ہماری بچی۔ اچھا! کیا آپ ہمیں کھیلنے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے نہیں دے سکتے؟ میں نے کہا، ٹھیک ہے جی لے لو۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ان کے ساتھ بڑے کھلونے جتنے ان کے پاس تھے وہ سارے ان کو دے دیئے اور بڑی خوش ہوگئی۔ اس کے بعد پھر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد پھر وہ ہمیں واپس کر دی، بس اس کے بعد پھر ہماری خادمہ بن گئی۔ ہمارا خیال رکھتی تھی۔ تو میں نے ان کو کہا، میں نے کہا سمیر عمودی جو تھا، میں کہا، کیا حال ہے؟ کہتے ہیں، آپ کے ساتھ پتا نہیں کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا، مجھے ان کے مرض کا پتا ہے۔ تو وہاں یہ چیزیں ہیں ہی نہیں، وہاں یہ چیزیں ہیں ہی نہیں، وہ لوگ ان چیزوں کو ترستے ہیں، اور ہم لوگ؟ ہم لوگ ان چیزوں سے تنگ ہیں۔ بھئی خدا کے بندو! ہر نعمت کے ساتھ۔ ہر پھول کے ساتھ کچھ کانٹا تو ہوتا ہے نا؟ پھول کے ساتھ کانٹا ہوتا ہے، تو پھول کو تو dis-own کرو نا! چلو کانٹے سے اپنے آپ کو بچاؤ، اس کے لئے بھی شریعت نے احکامات بتائے ہیں، لیکن اس کی وجہ سے پھول کو تو dis-own نہ کرو نا؟ تو یہ جو یہ والی بات ہے کہ خاندانی مسائل جو ہوتے ہیں، میں آپ کو صاف بتاؤں تھوڑا سا ذرا سوچنے کی بات ہوتی ہے، ساری باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ ساس تھوڑا سا یہ سوچے کہ میں خوشی سے بہو کو بیاہ کے لائی ہوں، اور میرے بیٹے کی خوشی جو ہے وہ میری خوشی ہے، اور یہ سارا کچھ چھوڑ کے آ رہی ہے، اپنا سارا کچھ چھوڑ کے آ رہی ہے۔ اب صرف اس گھر کا ہی اس کا مسئلہ ہے، تو ساس کی سوچ تو یہ ہونی چاہئے، اور بہو کی سوچ یہ ہونی چاہئے کہ اس عورت نے جس کی میں مخالف ہوں اس نے اس کو پالا ہے، پوسا ہے، ان کے ساتھ راتوں کو اٹھتی تھی اور پتا نہیں کیا کیا ان کی خدمتیں کی ہیں اور کیا کیا اس کے ارمانیں تھیں، کیا کیا اس کی۔ اب آج اگر میں اس سے اس کو چھین لوں تو اس کے دل پہ کیا گزرے گی؟ وہ یہ سوچے۔ دونوں سوچیں حقیقت کی ہیں۔ اب اگر ان حقیقتوں کو ملا دیا جائے تو ما شاء اللہ بہت اچھا معاملہ ہوگا، اور اگر ان کو نہ ملایا، ہر ایک نے اپنے اپنے حصے کا آسمان دیکھ لیا، تو بس اس کے بعد پھر تو لڑائی ہوگی۔ بس تھوڑا سا حقیقی انداز میں سوچنے کی دیر ہے، ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ۔
۔ (ق: 18)
۔ (بخاری، رقم الحدیث: 6474)
۔ (بخاری، رقم الحدیث: 48، مسلم، رقم الحدیث: 64)
۔ (بخاری، رقم الحدیث: 6056، مسلم، رقم الحدیث: 105)
۔ (مسلم، رقم الحدیث: 2607)
۔ (مسلم، رقم الحدیث: 2589)
۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 2501)
۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 2317)
۔ (سنن الدارمی، رقم الحدیث: 2806)
۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 2505)
۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 2506)
۔ (شعب الإيمان للبيهقي، رقم الحديث: 4544)
۔ (الروم: 41) ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔‘‘
۔ (ابراھیم: 7) ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘
۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 2501)
۔ (البقرہ: 32) ترجمہ: ’’وہ بول اٹھے آپ ہی کی ذات پاک ہے جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں۔‘‘
۔ (المائدہ: 3) ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔‘‘
۔ (البقرۃ: 276) ترجمہ: ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘
۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 2501)
۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 2317)
۔ (آل عمران: 190-191) ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔‘‘
۔ (سنن الدارمی، رقم الحدیث: 2806)
۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 2505)