مجھے خود اس دفعہ مکہ مکرمہ کے یعنی حاضری کے موقع پر ایک بہت بڑے بزرگ ہیں مولانا سیف الرحمٰن صاحب انہوں نے یہ واقعہ بتایا، وہاں استاذ ہیں، کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا وہاں پر جو ہے نا قبے جو تھے گھر، کہتے ہیں میں جب یہاں پر آیا پہلی دفعہ تو مجھے، ایک صاحب کا نام لیا اس وقت مجھے نہیں یاد کہ فرمایا کہ حاجی صاحب کے لئے ایصال ثواب کے لئے عمرہ کرو، حاجی صاحب کے ایصال ثواب کے لئے عمرہ کرو۔ کہتے ہیں میں نے حاجی صاحب کے ایصال ثواب کے لئے عمرہ کرلیا۔ کہتے ہیں اس کے بعد اَلْحَمْدُ للہ مجھے وہاں لے بھی لیا گیا اور ساتھ مجھے حاجی صاحب کے گھر میں ٹھہرایا گیا۔ اب جنہوں نے ٹھہرایا ان کو اس کا کیا پتا کہ وہ یعنی ان کے ایصالِ ثواب کے لیے عمرہ کیا ہے۔ ٹھیک ہے نا؟ تو مطلب یہ ہے کہ یہ من جانب اللہ (اللہ پاک کے) انتظامات ہوتے ہیں تو ایصال ثواب سے کام بنتے ہیں، ایصال ثواب سے کام بنتے ہیں۔ لیکن یہ اپنا ایک اندرونی نظام ہے پورا، پورا ایک اندر پورا نظام ہے۔ البتہ یہ ہے کہ جیسے اس دنیا میں خیر اور شر ملے ہوئے ہیں، اس طرح اس چیز میں بھی خیر اور شر ملا ہوا ہے۔ تو شر سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور خیر کو حاصل کرنا ہے۔
متن:
اولاد اور ان کے متعلقین کی تعظیم و تکریم۔
تشریح:
یہ تو مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب طریقہ سے سمجھایا اس چیز کو اور وہ یہ ہے کہ ہمارے خاندان کے ایک بزرگ تھے مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو اسیر مالٹا تھے، شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے خصوصی خدام میں سے تھے۔ تو میری ملاقات بھی حضرت کے ساتھ بہت عرصہ کے بعد ہوئی، مجھے اصل میں حضرت کا پتا ہی نہیں تھا۔ چونکہ ہم اپنے گاؤں میں تھے میرے والد صاحب کو پتا تھا لیکن والد صاحب کی طرف سے ہمارے سامنے کبھی ذکر ہی نہیں ہوا، مطلب خیال ہی نہیں آیا یا جو بھی بات تھی تو میرا کوئی اس طرح نہیں تھا تعلق، حالانکہ والد صاحب کا ان کے ساتھ بڑا قریبی تعلق رہا تھا۔ تو تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک دن کہا کہ کیا مولانا عزیر گل صاحب کو آپ نے دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ تو کہتے ہیں کمال ہے اتنی تاریخی شخصیت کو ابھی تک آپ نے نہیں دیکھا، جس کے لئے اتنے دور دور سے لوگ آتے ہیں، آپ کو ابھی تک پتا بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا میں کیا کروں؟ مجھے کسی نے بتایا نہیں۔ کہتے ہیں ابھی چلتے ہیں۔ حالانکہ حضرت مفلوج بھی تھے لیکن میرے ساتھ چل پڑے کیونکہ حضرت کا گاؤں تسنیم الحق صاحب کے گاؤں کے بالکل قریب تھا، تو مجھے حضرت لے گئے اور میرا تعارف دو طریقہ سے کیا، ایک میرے والد صاحب کے reference سے کہ فلاں کا بیٹا ہے، بہت خوشی ہوئی۔ اور پھر ساتھ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بھی کیا کہ مولانا صاحب کا مرید ہے، تو حضرت اور بھی خوش ہوئے فرمایا اگر مولانا صاحب کے پاس جاتے ہو پھر میرے پاس کیوں آتا ہے؟ اصل کام تو مولانا صاحب کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا صاحب کو اس لئے بٹھایا تاکہ جن کو ہدایت دلوانا ہو ان کے ذریعہ سے اس کو ہدایت دلوا دے۔ مطلب یہ فرمایا۔ خیر، اَلْحَمْدُ للہ پھر اس کے بعد حضرت کے ساتھ میرا آنے جانے کا تعلق ہوگیا تو جایا کرتا تھا اَلْحَمْدُ للہ۔ تو کچھ ایک عرصہ میں نے دیکھا کہ حضرت کی میری طرف بہت توجہ ہوگئی تو میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے یہ، حالانکہ حضرت تو بڑے مستغنی قسم کے بزرگ تھے، پرواہ ہی نہیں کرتے تھے، تو میں نے کہا یہ کیا بات ہوگئی؟ تو میں نے جب سوچا تو میں نے کہا اچھا اصل وجہ سمجھ میں آگئی۔ وہ ان کا ایک پوتا تھا اسلام آباد میں اپنے جو ہے نا ماموں کے ساتھ رہتا تھا، چھوٹا سا تھا، زکریا، تو ان کو انگلی سے پکڑ کر میں ویسے اپنے ساتھ پھرایا کرتا تھا نا تو کبھی میں کوئی ایک دعا سکھا دیتا تھا کبھی دوسری دعا سکھا دیتا، کبھی کوئی اور ذکر سکھا دیتا تھا اور وہ جاکر اپنی زبان میں اپنے گھر میں بات کرتا کہ شبیر uncle نے مجھے یہ سکھایا ہے، شبیر uncle نے مجھے سکھایا ہے، تو وہ وہاں جاکر report کرتا تھا۔ حضرت کو بھی پتا چلتا تھا۔ تو یہ باتیں حضرت کو پہنچتی تھیں اس سے توجہ ہوگئی میری طرف، تو مجھے فوراً پتا چلا اوہ یہ تو زکریا کے کمالات ہیں۔ مطلب اس وجہ سے ہم ان کی نظروں میں آگئے۔ اب مجھے بتاؤ اگر ایک زندہ بزرگ کی نظروں میں آپ آسکتے ہیں کہ آپ ان کی اولاد کے لئے مطلب بھلائی کا سوچ رہے ہیں، تو جو فوت شدہ بزرگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کچھ دیا ہے، تو ان تک جب بات پہنچے گی تو کیا وہ متوجہ نہیں ہوں گے؟ ظاہر ہے متوجہ ہوں گے۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کیسے ولی اللہ بن گئے؟ آپ کو یاد ہوگا، ان کا واقعہ یہ تھا کہ وہ پہلوان تھے اور شاہی پہلوان تھے۔ تو ایک دن ایک دبلے پتلے پہلوان نے اس کو challenge کردیا، تو یہ خود حیران ہوگئے، بادشاہ بھی حیران لوگ بھی حیران یہ کیا کر سکتا ہے، مطلب دیکھیں نا کوئی جوڑ ہی نہیں، ہاں جی لیکن بہرحال اصول کے مطابق تو لینا تھا۔ ٹھیک ہے جی ہوگیا، wrestling کی date طے ہوگئی، تو وہ جو پہلوان جب ہاتھ ملاتے ہیں نا پنجہ ملاتے ہیں پہلے، شروع کرنے سے پہلے، تو اس نے کہا کہ میں سید ہوں اور مجھے ضرورت ہے اور میں نے کہا کہ اس طریقہ سے کچھ پیسے مل جائیں تو میرا کام بن جائے گا، تو انہوں نے کہا کہ ایک سید کو میں کیسے گراؤں، ہاں جی تو خود اپنے آپ کو گرا دیا۔ کوئی اس طرح کرتب کرلیا کہ گر گئے۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ Foul play ہے ٹھیک نہیں۔ مطلب دوبارہ کشتی ہو۔ دوبارہ کشتی ہوئی تو دوبارہ انہوں نے اپنے آپ کو گرا دیا۔ جو خود اپنے آپ کو گراتا ہے تو کتنی مرتبہ ہو تو وہ تو۔ تیسری دفعہ بھی ہوگیا۔ بادشاہ نے کہا بس ٹھیک ہے ہوگئی بات، اس کو تو انعام و اکرام سے نوازا، ان کو خوب جھاڑ پلائی۔ کیا میں نے اس لئے تمھیں تیار کیا تھا؟ اور یہ کیا تھا اور وہ کیا تھا اور عین موقع پہ تو نے۔ سر نیچے کیے سنتے رہے، کیا مطلب کہہ سکتے تھے ان کو، کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ اخیر میں بہت ہوا تو انہوں نے کہا حضرت بات اس طرح ہوئی۔ کہا: بالکل ٹھیک کیا ہے، بالکل ٹھیک کیا۔ ہاں جی۔ بادشاہ بھی دل والا تھا، انہوں نے کہا: بالکل ٹھیک کیا ہے۔ پھر اس کے بعد خواب دیکھا، خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے میرا خیال رکھا، میری اولاد کا اکرام کیا میں نے بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کرلی، اللہ تعالیٰ نے آج سے تمہارا نام اولیاء میں رکھ دیا۔ یہ ہیں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا۔ اب یہ مجھے بتائیں کہ مطلب یہ چیز وہ ہے یا نہیں ہے؟ بات تو یہی ہے۔ تو اگر کوئی اللہ والوں کی اولاد کے ساتھ اعزاز اور اکرام کرتا ہے تو یہ باتیں اس طرح رائیگاں نہیں جاتیں، یہ کہیں کہیں record ہوتی ہیں۔
متن:
اوپر کی ان نسبتوں میں سے جس شخص کو کوئی نسبت بھی حاصل ہوگی، وہ لازمی طور پر اس خاص نسبت کے آثار کی طرف طبعاً میلان رکھے گا خواہ اس نے اس نسبت کے متعلق کسی سے کچھ سنا ہو یا نہ سنا ہو۔ یا کسی کو اس حال میں دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو۔ اس شخص کا اس خاص نسبت کی طرف یہ میلان طبعی اور فطری ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک شخص جب جوان ہوتا ہے اور اس کے اندر مادہ منویہ پیدا ہوجاتا ہے تو لامحالہ اس کو بیوی کی خواہش ہوتی ہے اور اس کے دل میں بیوی کے لئے عشق و محبت پیدا ہوجاتی ہے۔
الغرض سالک جب ان نسبتوں میں سے کسی ایک نسبت سے بہرہ مند ہوجاتا ہے تو عالم ارواح کے طبقوں میں سے جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے، جس طبقے کی بھی وہ نسبت ہوتی ہے اس طبقے کی ارواح کو وہ خواب میں دیکھتا ہے اور ان کے فیوض سے مستفید ہوتا ہے اور جب کبھی زندگی میں اسے خطرات اور مصائب پیش آتے ہیں تو عالم ارواح کے اس طبقے کی صورتیں اس کے روبرو ظاہر ہوتی ہیں اور اس ضمن میں اس کی جو بھی مشکل حل ہوتی ہے وہ اسے ارواح کی ان صورتوں کی طرف منسوب کرتا ہے۔ مختصراً یہ اور اس طرح کی اور چیزیں جو اسے حاصل ہوتی ہیں وہ اسی نسبت کا ثمرہ ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ ”نسبت اویسی“ رکھنے والے کو اس خاص نسبت کی جو ارواح ہیں، ان سے اس طرح کا ربط پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ چیز اس شخص کی روح کے جوہرِ اصلی میں داخل ہوجاتی ہے اور وہ بیداری اور حالتِ خواب میں اس کیفیت کو اپنے اندر یکساں پاتا ہے۔ لیکن جب یہ شخص سوتا ہے اور اس کے ظاہری حواس ںفسانی خواہشات کے اثر و تصرف سے امن میں ہوتے ہیں اور وہ فی الجملہ طبیعت کے تقاضوں اور اس کے احکام سے رہائی حاصل کرلیتا ہے تو اس حالت میں وہ تمام صورتیں جو اس کے دل کے اندر جمع ہوتی ہیں، خواب میں برملا طور پر اس کو اپنے سامنے نظر آتی ہیں اور وہ ان کی طرف پوری طرح متوجہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ سالک پر اس مقام میں عجیب عجیب چیزیں اور طرح طرح کے معاملات ظاہر ہوتے ہیں۔
الغرض ان اویسی نسبتوں میں سے سالک کو کسی نسبت سے بھی تعلق ہو۔ مجموعی طور پر ان سب نسبتوں کا حاصل یہ ہے کہ سالک رؤیا میں طرح طرح کے واقعات دیکھتا اور اچھی اچھی خوش خبریاں سنتا ہے اور نیز دوسرے لوگ اس کے متعلق جو خوابیں دیکھتے ہیں اور ان خوابوں میں اس شخص کی عظمت و جلال کے جو شواہد انہیں نظر آتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ لوگ اس کے معتقد ہوجاتے ہیں۔ نیز اس شخص کو مصائب اور پریشانیوں میں غیب سے مدد ملتی ہے اور وہ اکثر اپنی معاش کے معاملات میں تائید غیبی کو مصروف عمل پاتا ہے۔ اسی طرح وہ سالک جو کسی ظاہری پیر کے بغیر صوفیائے کرام کے طریقے پر گامزن ہیں اور انہیں اس ضمن میں "جذب" اور "راحت" کی کیفیات بھی میسر ہیں اور نیز غفلت اور مصروفیت کے تمام موانع کے باوجود ان کی توجہ غیب سے نہیں ہٹتی، ان سالکوں کی یہ حالت یقیناً اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کو ارواح کے ساتھ "نسبت اویسی" حاصل ہے۔
تشریح:
یہ ایک خاص طرف اشارہ ہے اور وہ اشارہ یہ ہے کہ بعض حضرات کو کسی خاص سلسلے والے پیر کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا، زندہ پیر کے ساتھ، لیکن ارواح کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب ان کی اصلاح بھی ہوجاتی ہے، ان کو فائدہ بھی ہوجاتا ہے، سارا کچھ ہوجاتا ہے لیکن وہ سارا کچھ اس کی اپنی ذات کے لئے ہوتا ہے کسی اور کے لئے نہیں ہوتا کیونکہ اور کے لئے پھر کرنے کے لئے transparency چاہئے۔ کیونکہ سند نہیں ہے نا، جیسے خواب میں آپ ﷺ کا نظر آنا صحابی کوئی نہیں بنتا اس سے وہ حدیث نہیں بنتی، تو اسی طریقہ سے اس کو خود تو فائدہ ہوگیا نا، آپ ﷺ کی زیارت بھی ہوگئی علم بھی مل گیا جو آپ ﷺ نے فرمایا وہ بات صحیح بھی ہوگی، ہاں جی۔ وہ باتیں ساری اپنی جگہ پر درست، ان کو فائدہ ہوگیا لیکن کیا وہ کسی اور کو اس پر تیار کر سکتا ہے؟ کیونکہ ظاہر ہے کسی اور کے لئے وہ حجت ہی نہیں۔ تو اسی طریقہ سے جو نسبت اویسی ہے یہ اپنے لئے ہوتی ہے تو ایسے لوگوں سے اللہ جو کام لیتے ہیں وہ دوسرے کام لیتے ہیں۔ عین ممکن ہے ان سے تکوینی کام لے لیں، عین ممکن ہے کہ کسی اللہ کے ولی کی طرف متوجہ ہونے کے بغیر اس کو بتائے کام لے لیں مثلاً کوئی اویسی بزرگ ہے وہ خود مشہور تو نہیں ہوئے ظاہر ہے کسی کو بتایا نہیں ہوگا نہ کسی کو پتا ہے، لیکن اللہ پاک اس کے دل میں ڈال لے کہ اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور وہ جو تمھیں ارواح سے ملا ہے اس کو communicate کردو۔ اب وہ چیز ادھر سے وہاں چلی گئی، ہاں جی تو اس کو فائدہ ہوگیا لیکن اس کو پتا بھی نہیں کہ کس نے دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ صرف ایک ذریعہ کے طور پہ استعمال ہوگیا کیونکہ وہ transparent لائن میں نہیں ہے۔ اور جن سے اللہ پاک transparent لائن میں بھی کام لینا چاہتے ہیں ان کو کسی transparent لائن کے ساتھ ملا دیتے ہیں اور سلسلے میں جوڑ دیتے ہیں چاہے نقشبندیہ میں جوڑیں، چاہے چشتیہ میں جوڑیں، چاہے قادریہ میں جوڑیں چاہے سہروردیہ میں جوڑیں۔ یہ پھر اس پر نہیں کہ وہ سارے سلسلے اللہ کے ہیں۔ ہاں جی تو اس میں جوڑ دیتے ہیں۔ جب جوڑ دیتے ہیں تو پھر ان سے اس میں کام لیتے ہیں۔ وہی جیسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ تھے، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی مثال موجود ہے، ان کے والد صاحب کی مثال موجود ہے، شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہاں جی، تو یہ مطلب اس طرح ہوتا ہے کہ بعض حضرات کو جیسے سلسلوں میں وہ جوڑ لیتے ہیں اس کی وجہ سے پھر ان سے سلسلوں میں بھی کام لیا جاتا ہے۔ ہاں جی ان کی طرف لوگ آتے ہیں ان سے بیعت ہوتے ہیں۔
کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بھی کچھ ایسے ہی تھا معاملہ، لہٰذا حضرت لوگوں کو ہٹاتے تھے حضرت کی طرف جو لوگ جاتے تھے ان کو روکتے تھے یہاں تک کہ جب لوگ آنے لگے تو حضرت نے ان سے مطلب لنگر کو بند کردیا تو جو محلے کے لوگ تھے یا اردگرد پہاڑوں میں جو لوگ رہتے تھے وہ ان کے لئے کھانا پکانے لگے زائرین کے لئے، تو حضرت نے پھر ان سے کہا کہ اگر میرے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہو تو ان کو کچھ نہ دو۔ تو ان سے بند کروایا، جب بند کروایا تو لوگ اپنے ساتھ برتن لانے لگے، برتن لانے لگے اور خود وہیں پکانے لگے تو حضرت نے خادموں کو حکم دیا کہ ان کے برتن توڑ دو تو ان کے برتن تڑوا دیئے گئے۔ جب برتن تڑوا دیئے پھر بھی وہ آنے لگے کہ ہم مر جائیں گے لیکن نہیں جائیں گے۔ پھر حضرت نے کہا اب میں معذور ہوں، خود لکھا ہے، اس میں موجود ہے مقامات قطبیہ اور مقالات قدسیہ اس میں موجود ہے۔ ہاں جی کہ پھر حضرت نے جو ہے نا مطلب یہ ہے کہ کہا میں معذور ہوں۔ بس ٹھیک ہے، اب اللہ پاک چاہتے ہیں تو میں کیا کروں؟ اور اللہ پاک نے لوگوں کے قلوب اس طرف متوجہ کرلیے تو میں کیا کروں؟ اس میں کیسے کر سکتا ہوں۔ تو یہ نظام ہوتا ہے کہ جو اویسی بزرگ ہوتے ہیں وہ تو اپنے آپ کو بچاتے رہتے ہیں، سامنے نہیں لاتے، ہاں اللہ پاک نے اگر اس کو استعمال کرنا ہو تو ایک علیحدہ بات ہے، پھر وہ اپنا ایک نظام ہے وہ چلتا ہے۔ لیکن یہ حضرات مطلب خود بخود نہیں آتے، کوشش کرتے ہیں کہ چھپے رہیں، ہاں جی۔ اب کوئی ظاہر کرتا ہے میرا سلسلہ اویسی ہے، بھئی کیا عجیب بات ہے، یعنی اویسیت کے بالکل خلاف بات ہے یا نہیں ہے کہ میں اویسی سلسلہ سے ہوں۔
متن:
نیز اس شخص کو مصائب اور پریشانیوں میں غیب سے مدد ملتی ہے اور وہ اکثر اپنی معاش کے معاملات میں تائید غیبی کو مصروف عمل پاتا ہے۔ اسی طرح وہ سالک جو کسی ظاہری پیر کے بغیر صوفیائے کرام کے طریقے پر گامزن ہیں اور انہیں اس ضمن میں "جذب" اور "راحت" کی کیفیات بھی میسر ہیں اور نیز غفلت اور مصروفیت کے تمام موانع کے باوجود ان کی توجہ غیب سے نہیں ہٹتی، ان سالکوں کی یہ حالت یقیناً اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کو ارواح کے ساتھ "نسبت اویسی" حاصل ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ وہ تفصیل سے اس نسبت سے واقف ہوں یا انہیں اس نسبت کا سرے سے علم ہی نہ ہو۔ (لیکن وہ magnet کا آپ کو پتا بھی نہیں لیکن وہ اثر تو ہوتا ہے اثر سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا۔) اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ اس سے پہلے اولیائے امت کی پاک روحوں کی بڑی کثرت تھی اور فضا ان سے بھری ہوئی تھی۔ وہ لوگ جن میں استعداد ہوتی، انہیں ان پاک روحوں کے توسط سے ملائکہ مقربین کی یہ نسبت حاصل ہوجاتی اور اس مقام سے ان کے لئے نبوت اور حکمت کے علوم مترشح ہوتے۔ چنانچہ اس نسبت رکھنے والوں میں سے جس کو انسانوں کے لئے مبعوث کیا جاتا اسے لوگ نبی کہتے اور جو اس طرح انسانوں کے لئے مبعوث نہ ہوتا وہ حکیم اور محدث کہلاتا۔ لیکن جب آنحضرت ﷺ کی بعثت عمل میں آئی اور آپ ﷺ کی بعثت کی جو صورت عالم مثال میں تھی وہ اس عالم اجسام میں منتقل ہوگئی اور اس سے یہ ساری فضا بھر گئی اور یہاں کثرت سے ارواحِ امت بھی پیدا ہوگئیں تو اس کی وجہ سے وہ کیفیت جو آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے تھی لوگوں کی نظروں سے روپوش ہوگئی بعینہٖ اس طرح جس طرح کہ فضا میں گھٹا چھا جانے سے آفتاب آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے جو بھی چیز اس عالم میں ظاہر ہوتی ہے، لامحالہ دوسرے عالم میں جسے عالم مثال کہتے ہیں، اس چیز کی ایک نہ ایک شکل اور صورت ہوتی ہے جس کی طرف یہ چیز منسوب ہوتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی شخص عالم غیب کی طرف توجہ کرتا ہے تو عالم غیب کی بھی اس کی طرف توجہ ہوتی ہے لیکن عالم غیب کی یہ توجہ اسے ہمیشہ متشکل نظر آتی ہے۔ توجہ عالم غیب کے اس مثالی مظہر کا قالب رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات تھی۔
آنحضرت ﷺ کی امت میں سے جس شخص نے کہ سب سے پہلے "جذب" کا دروازہ کھولا اور اس راہ پر وہ سب سے پہلے گامزن ہوئے وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ (یہ نقشبندی بزرگ لکھ رہا ہے، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں) اور یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کے تمام سلسلے ان کی طرف منسوب ہیں۔ گو ان سلسلوں کا تعلق باعتبار روایت کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ یہ معلوم ہو سکا ہے کہ آخر حسن بصری کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کون سا خصوصی علاقہ تھا، جو آپ کا دوسروں کے ساتھ نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود تمام کے تمام صوفیاء کا نسلاً بعد نسلٍ اس بات پر اتفاق چلا آتا ہے کہ طریقت کے سارے سلسلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف راجع ہیں۔ ظاہر ہے ان بزرگوں کا یہ اتفاق بغیر کسی وجہ کے نہیں ہو سکتا۔ فقیر کے نزدیک چونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس امت کے پہلے مجذوب ہیں اس لئے طریقت کے تمام سلسلے آپ کی طرف منسوب ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد اولیائے کرام اور اصحابِ طرق کا سلسلہ چلتا ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ قوی الاثر بزرگ جنہوں نے راہ جذب کو باحسن وجوہ طے کرکے نسبت اویسی کی اصل کی طرف رجوع کیا اور اس میں نہایت کامیابی سے قدم رکھا، وہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی ذات گرامی ہے۔ اسی بناء پر آپ کے متعلق کہا گیا ہے کہ موصوف اپنی قبر میں زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں۔
تشریح:
ان کو اللہ پاک نے یہ دیا ہوتا ہے لیکن یہ من جانب اللہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ بھائی! زندہ اور مردہ کو نہ دیکھو، دیکھو حکم کس کا ہے، حکم کس کا ہے۔ اگر زندوں کو حکم اللہ نہ دے تو زندہ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، ان سے کسی نے سوال کیا عین جلسہ میں کہ کیا مردے سنتے ہیں؟ ہاں جی، تو حضرت نے کہا کہ میں تو چیخ چیخ رہا ہوں میری زندہ نہیں سنتے تو مردوں کی بات میں کیا کروں؟ میری تو زندہ بھی نہیں سنتے۔ اب یہ جو بات ہے مطلب ظاہر ہے بات بالکل صحیح ہے کہ جو شخص وہ آنکھ نہیں رکھتا اس کو سمجھانا ناممکن ہے، اور جو شخص وہ کان نہیں رکھتا اس کو سنانا ناممکن ہے۔ تو لہٰذا ان کو سنانے کی ضرورت ہی کیا ہے، ان کو دکھانے کی ضرورت ہی کیا ہے، ان کو سمجھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیونکہ یہ دین کا کوئی بنیادی تقاضا تو ہے نہیں، معرفت کی بات ہے نا، تو معرفت کی بات تو نوافل کے درجہ میں آتی ہے۔ مطلب یہ تو ایک مزید اضافی چیز ہے، مطلب یہ کوئی دین کا بنیادی جزو تو نہیں ہے کہ آپ اگر نہ مانیں تو نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکْ یعنی مطلب یہ ہے کہ آپ کوئی نہ مانے تو بس ٹھیک ہے، صرف یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کے فائدے سے محروم ہوجائے گا۔ تو کوئی بات نہیں، ٹھیک ہے۔ مطلب ظاہر ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے دینا ہوگا تو دے دیں گے۔ لیکن یہ والی بات ہے کہ ہم لوگ انکار نہیں کر سکتے۔ مطلب جن کو اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا ہو یا بتا دیا ہو یا سمجھا دیا ہو تو وہ تو انکار نہیں کریں گے نا۔ مطلب ان کی بات تو ظاہر ہے الگ ہوگی۔
میں آپ کو کیا بتاؤں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے، پوچھ لیں علماء کرام سے، ان کی روایت ہے کہ جو حصہ آپ ﷺ کے علوم کا ہم تک پہنچا تھا وہ جو ہم نے بتا دیا تو بتا دیا اور ایک ایسا ہے کہ اگر وہ ہم بتا دیں تو لوگ ہماری گردن اتار دیں، لوگ ہماری گردن کو اتار دیں۔ تو اس کی وجہ یہی ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اہل کے لئے ہیں، نااہل کے لئے نہیں ہیں۔ جو اس کا اہل نہیں ہے اس کے اوپر نہ ثابت کرو، جو اہل ہے ان تک خود ہی پہنچ جائے گا۔ جو اہل ہیں ان تک خود ہی پہنچ جائے گا۔ جو نااہل ہے اس کی طرف کیوں خواہ مخواہ نسبت کرتے ہو؟ کوئی لازم چیز تو نہیں ہے، ہاں جی۔ تو یہی اصل میں بنیادی بات ہے جس پہ تشدد پہ لوگ آجاتے ہیں، تو نقصان اس پہ ہوجاتا ہے، تشدد میں نہیں آنا چاہئے مطلب سمجھانے میں بھی تشدد نہیں کرنا چاہئے اور انکار میں بھی تشدد نہیں کرنا چاہئے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو مجھے نہیں معلوم تو کیا وہ نہیں ہیں؟
ایک دفعہ ایک بڑے میاں بیٹھے تھے میرے بیان میں، تو میں نے بیان کرلیا تو بیان کے بعد مجھے کہتے ہیں یہ جو آپ نے باتیں بتائی یہ تو ہم نے نہیں سنیں۔ تو میں نے کہا کیا ساری باتیں آپ نے سن لی ہیں؟ آپ کا سننا لازم تو نہیں ہے کہ جو باتیں آپ نے سنی ہیں وہی دین ہے۔ یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ جو باتیں آپ نے سنی ہیں وہی دین ہوگا۔ تو ہم تو قرآن و سنت کی بات کر سکتے ہیں تو ظاہر ہے وہی ہمارا دین ہے، تو باقی اگر آپ نے نہیں سنا تو آپ کی اپنی مرضی ہے۔ تو مطلب بات یہ ہے کہ تشدد اس میں بھی نہیں ہونا چاہئے۔ انکار نہیں کرنا چاہئے، تشدد نہیں کرنا۔ ہاں! کہتے ہیں کہ بھئی مجھے پتا نہیں ہے۔ تو یہ ایک اچھی بات ہے، یہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ آدمی کہتا ہے مجھے نہیں معلوم۔ یہ خود حلیمی صاحب کے ساتھ کئی بار میں لڑا ہوں، ایسی باتیں میں نہیں مانتا تھا۔ ہاں جی تو میں ان کے ساتھ لڑتا تھا لیکن حضرت نے برا بھی نہیں مانا حضرت نے برا بھی نہیں مانا، کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ وہ جس وجہ سے میں نہیں مان رہا تھا وہ اس کو پتا تھا۔ تو لہٰذا اس نے مجھ پہ تشدد نہیں کیا۔ ہاں! البتہ مجھے سخت الفاظ ضرور کہتے، تم بر خود غلط ہو، یہ ہے، وہ ہے، فلاں ہے، سارا کچھ کرلیں۔ ساری باتیں سن لیتا میں، کیونکہ ظاہر ہے۔ لیکن اَلْحَمْدُ للہ اتنا اکرام دل میں ان کا تھا کہ مجھے اجازت دینے کے لئے خود سفر کیا، تشریف لائے راولپنڈی اور ٹیلی فون کیا ہمارے گھر، ان دنوں اکثر میں مجالس میں ہوتا تھا مختلف جگہوں پہ مجلسیں ہوتی تھیں، تو گھر والے بھی ناراض ہوتے تھے کہ یہ کیوں ہر وقت پرواز میں رہتا ہے۔ میری والدہ تو سخت ناراض ہوتی تھیں، تو ٹیلی فون کیا تو ٹیلی فون اس نے سنا، تو انہوں نے کہا کہ شبیر کدھر ہے؟ کہتی ہیں آپ کو پتا نہیں وہ تو آسمانوں پہ چلتے ہیں آج کل۔ کہتے ہیں وہ تو مجھے بھی پتا ہے، بس یہ پوچھنا تھا کہ اس وقت کون سے آسمان پر ہے۔ ہاں جی، خیر! بہرحال اس نے کہا کہ نمبر یہ لے لو جب وہ آجائیں تو ان کو یہ نمبر دے دینا، تو میں فلاں جگہ پہ ہوں۔ تو میں جب آیا تو اچھا ہوا کہ نمبر نوٹ کرلیا تھا۔ خیر بہرحال نمبر مجھے دیا تو میں نے ٹیلی فون کردیا، انہوں نے کہا: ہاں میں اپنی بیٹی کے ہاں آیا ہوا ہوں۔ تو میں نے کہا کہ کل ملاقات ہوگی۔ کہتے ہیں ہاں بالکل۔ پھر ہم چلے گئے۔ چلے گئے تو حضرت بہت خوش ہوئے اور پھر ہم نے درخواست کی ہم نے کہا کہ حضرت پیر کی مجلس ہے ہماری، کیونکہ اتوار کے دن آئے ہوئے تھے، پیر کی مجلس ہے تو اگر آپ اس میں تشریف لے آئیں ہمارے ساتھی بھی آپ کی زیارت کرلیں گے خوش ہوجائیں گے۔ تو مان لیا، تو ہم گاڑی میں جارہے تھے تو راستہ میں کہہ دیا کہ میں آپ کو اجازت دینا چاہتا تھا لیکن اب نہیں دوں گا۔ میں نے کہا کہ کیوں؟ کہتے ہیں آپ مشہور ہوگئے ہیں اور اب آپ سمجھیں گے کہ میں مشہور ہوگیا ہوں تبھی مجھے اجازت دے رہا ہے تو آپ کو اجازت کی قدر نہیں ہوگی۔ تو مجھے حضرت کی طبیعت کا پتا تھا، میں نے کہا کہ اب تو میں زبردستی لوں گا۔ اس نے کہا کہ کیوں؟ میں نے کہا اپنی چیز کوئی چھوڑتا ہے؟ انہوں نے کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے پھر دیتا ہوں، تو ساتھ ہی جیب سے نکالا اور مجھے printed وہ دے دیا۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ اخیر میں پھر کہہ دیا کہ جو کچھ میرے پاس تھا میں نے شبیر کو دے دیا۔ مقصد میرا یہ ہے کہ اَلْحَمْدُ للہ ان باتوں پہ ہم بھی وہ کرتے تھے، یہ نہیں کہ مطلب یہ باتیں ہم نے آسانی سے مانی ہیں۔ ہاں جی، ہم بھی کرتے تھے اور پرزور اختلاف کرتے تھے، لیکن جب اللہ پاک نے دکھا دیا تو پھر اس کے بعد انکار تو ہم نہیں کر سکتے۔ ہاں اس کے باوجود اگر ہمارے ساتھ کوئی اس طرح لڑے گا تو ان کے ساتھ بھی ہم اختلاف نہیں کریں گے، ہم کہتے ہیں بس ٹھیک ہے، لڑو۔ چونکہ ہم بھی کسی کے ساتھ لڑے تھے۔ اگر ہمارے ساتھ کوئی لڑے تو غلط بات تو نہیں ہوگی۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو بے شک نہیں مانے، ظاہر ہے یہ تو ایسی بات نہیں ہے، تو یہاں پر اس قسم کی بات ہے۔
متن:
اس ضمن میں فقیر کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر کا مسلک طریقت یہ ہے کہ جذب کی راہ کو طے کرنے کے بعد نسبت اویسی کا جو حاصل مقصود ہے اس کے رنگ میں سالک اپنے آپ کو رنگ دے۔ مزید برآں ملت مصطفوی میں بالعموم اور اس زمانے میں خاص طور پر ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑھ کر کوئی اور بزرگ خرق عادات اور کرامات میں مشہور نہیں ہیں، اس لئے ان کی یہ شہرت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ سالک جب عالمِ غیب کی توجہ کو اپنی طرف مبذول پائے تو وہ اس توجہ کو ان بزرگوں میں سے کسی نہ کسی صورت میں متشکل دیکھے۔ الغرض ان امور کے پیش نظر آج اگر سالک کو کسی خاص روح سے مناسبت حاصل ہوجائے اور وہاں سے اسے فیض پہنچے تو اس واقعہ کی اصل حقیقت غالباً یہ ہوگی کہ اسے یہ فیض یا تو آنحضرت ﷺ کی نسبت سے حاصل ہوا یا امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت سے یا اسے یہ فیض حضرت غوث اعظم کی نسبت سے ملا۔
راہِ طریقت کے بعض سالک ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں تمام ارواح سے نسبت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح کی نسبت بالعموم عارضی اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مثلاً سالک کو اس بزرگ سے غیر معمولی محبت ہے اور اس بزرگ کی قبر پر وہ اکثر جاتا ہے۔ اس نسبت کا انحصار ایک تو سالک کی اپنی استعداد پر ہوتا ہے کہ اس میں فیض حاصل کرنے کی خود کتنی قابلیت ہے۔ دوسری چیز اس خاص بزرگ کا اثر و نفوذ ہے جس سے سالک کو ربط ہوتا ہے۔ اب اگر وہ بزرگ اپنے سلسلہ کے متعلقین کی تربیت میں بڑی ہمت رکھتا تھا اور اس دنیا سے انتقال کے بعد بھی اس کی روح میں تاثیر و تصرف کی یہ ہمت ہنوز باقی ہے تو اس اعتبار سے سالک کے باطن میں اس نسبت کو پیدا کرنے میں مرشد کا اثر بڑا کام کرے گا۔ اس سلسلہ میں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سالک کو اویسی نسبت گو تمام عالم ارواح سے بالاجمال حاصل ہوتی ہے لیکن بعض اسباب ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ نسبت تمام ارواح کی بجائے کسی خاص بزرگ کی صورت میں متشخص نظر آتی ہے۔
یہ فقیر جب مشائخ صوفیاء کی ارواح کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے ان کی توجہ اور اس کے اثرات کو مختلف صورتوں میں اپنے اندر منعکس پایا۔ اس توجہ کے اثرات میں سے ایک اثر یہ تھا کہ اس طبیعت کی بہیمی قوتیں یکسر ملکی رنگ میں اس طرح رنگی گئیں گویا کہ بہمیت ملکیت میں بالکل فنا ہوگئی۔ اس سلسلہ میں فقیر کو بتایا گیا ہے کہ جب مشائخ صوفیاء کو انتقال فرمائے چار سو سال یا پانچ سو سال یا اس کے قریب گزر جاتے ہیں تو ان کے نفوس کی طبعی قوتیں جو زندگی میں ان کی ارواح کو خالص مجرد صورت میں ظاہر ہونے نہیں دیتی تھیں، اتنا عرصہ گزرنے کے بعد یہ طبعی قوتیں بے اثر ہوجاتی ہیں اور اس دوران میں ان نفوس کے "نسمہ" یعنی روح ہوائی کے اجزاء منتشر ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں جب ان مشائخ کی قبور کی طرف توجہ کی جاتی ہے، تو ان مشائخ کی ارواح سے اس توجہ کرنے والے کی روح پر ایک رنگ کا فیضان ہوتا ہے۔ اس فیضان کی مثال ایسی ہے جیسے آفتاب کسی مرطوب چیز پر اپنی شعاعیں ڈالے اور ان کی گرمی سے یہ رطوبت تحلیل ہوجائے۔ اور اس مرطوب چیز سے پانی کے قطرات ٹپکنے لگیں یا اس کی مثال یوں سمجھئے کہ توجہ کرنے والے کی روح ایک حوض کے مشابہ ہے جو پانی سے بھرا ہوا ہے اور آفتاب کی روشنی نے ہر طرف سے اس کا احاطہ کرلیا ہے۔ چنانچہ وہ حوض آفتاب کی شعاعوں سے اس طرح چمک اٹھتا ہے گویا کہ وہ حوض خود سرتاپا ایک شعاع بن گیا ہے۔ ارواح مشائخ کی طرف توجہ کرنے والا سالک جب اس منزل میں پہنچتا ہے تو اس میں "یادداشت" یا "توجہ بجانب غیب" کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اور یہ کیفیت اس شخص کی روح کو ہر طرف سے گھیر لیتی ہے۔
ان امور کے ضمن میں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ توجہ ارواح کا اثر دو طرح ہوتا ہے ایک تو یہ کہ توجہ کرنے والا اپنی روح کی اس حالت کا تصور کرے جو حالت کہ مرنے کے بعد قبر میں اس کی ہوگی اس کے بعد وہ روح کی اس حالت کو اپنے اوپر طاری کرے۔ اس سے اس شخص پر ایک رنگ کا فیضان ہوگا۔ سالک کو چاہئے کہ وہ اس رنگ میں غور و تامل کرے اور اس کی حقیقت کو پہچاننے کی کوشش کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ آلۂ مقیاس ظل سے آفتاب کی بلندی ناپی جاتی ہے یا جیسے ایک شخص اپنے چہرہ کو آئینے میں دیکھتا اور اسے پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔
توجہ ارواح کی اثر آفرینی کی دوسری قسم یہ ہے کہ مثلاً سالک نے ایک بزرگ کی قبر پر توجہ کی چنانچہ صاحب قبر کی روح اس پر منکشف ہوگئی اور سالک نے اس بزرگ کی روحانی کیفیات کا واضح طور پر مشاہدہ کرلیا۔ بعینہ اسی طرح جیسے کوئی شخص آنکھ کھولے اور اس کے سامنے جو چیز پڑی ہو، اسے وہ اچھی طرح سے دیکھ لے۔ لیکن یاد رہے کہ سالک کا یہ دیکھنا چشم ظاہر سے نہیں بلکہ چشم باطن سے ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اس سلسلہ میں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو فطری طور پر ملائکہ مقربین سے جو کائنات کے مدبر اور منتظم ہیں، خاص نسبت حاصل ہوتی ہے اور اسی نسبت کی وجہ سے انبیاء کے سامنے نفوس افلاک، ملاء اعلیٰ اور نیز اس "تجلئ حق" کی طرف جو کہ شخصِ اکبر کے دل پر قائم ہے، ایک کشادہ راہ کھل جاتی ہے اور وہاں سے ان کے نفوس پر کلی علم کی صورت کا فیضان ہوتا ہے۔ چنانچہ کلی علم کی موجودگی میں انبیاء کو تفصیلی علوم کی ضرورت نہیں رہتی۔ علمی صورت کا یہ فیضان انبیاء کے نفوس پر جس طریق سے ہوتا ہے یہ طریق راہ جذب اور راہ سلوک سے ایک الگ چیز ہے لیکن یہ جاننے کے باوجود جو لوگ انبیاء کے کلام کو وحدت الوجود پر حمل کرتے ہیں وہ نہ تو انبیاء کی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور نہ انہیں انبیاء کے خصوصی مسلک کی کچھ خبر ہے۔
تشریح:
یہ اصل میں نسبت اویسی کی بات ہے، اس میں پورے chapter میں کہیں اویسی سلسلہ کا نام آیا ہے؟ نہیں، کچھ بھی نہیں۔ تو نسبت اویسی exist کرتی ہے اور سلسلہ اویسیہ exist نہیں کرتا کیونکہ یہ دونوں By definiton مختلف ہیں۔ جو اویسی ہے وہ سلسلہ نہیں ہے اور جو سلسلہ ہے وہ اویسی نہیں ہے، ٹھیک ہے؟ جیسے radiation ہے وہ conduction نہیں اور جو conduction ہے وہ radiation نہیں ہے۔ تو بالکل اسی طریقہ سے یہ بات ہے۔ یہ دونوں چیزوں کو جمع کرنے کی کوشش کرنا یہ غلطی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے آزاد نظم والے ہیں (جانتے ہیں نا آزاد نظم والے کون تھے؟) یہ آج کل ایک آرٹ نکلا ہے جو ادیب تھے نا ادیب، اور شاعر نہیں تھے لیکن شاعروں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں تو انہوں نے نظم کی ایک نئی صورت نکالی جس کو آزاد نظم کہتے ہیں۔ وہ جو ہے نا نثر کو نظم کے رنگ میں وہ پیش کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بھی نظم ہے۔؎
میں چہکتا رہا وہ بھٹکتا رہا
جب کسی کو پتا چلے
تو ادھر سے ایک آگ
اس سے وہ ساری چیز حاصل ہوگئی۔
یہ نظم ہے، یہ آزاد نظم ہے۔ اب اس کا نظم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ تو اسی طریقہ سے جن لوگوں کو سلسلوں میں کچھ نہیں ملا، تو سلسلوں کے ثبوت تو دے نہیں سکتے تھے تو انہوں نے اپنے آپ کو کسی روح کے ساتھ جوڑ دیا جس کا کوئی ثبوت کوئی تلاش کر نہیں سکتے اور کہا کہ جی ہمیں وہاں سے نسبت حاصل ہوگئی۔ ہاں جی، ایک اس قسم کی بات ہوئی، ایک صاحب تھے جو تیرہ سال ایسے شخص کے ساتھ رہے، تیرہ سال بڑا وقت ہے، خدا کی شان! اس کے دل میں کوئی چیز ہوگی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت دینا چاہی، وہ خود واقعہ بیان کرتا ہے کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، خواب میں دیکھا کہ یہ کھنہ پل کے پاس سائیکل پر اور شیخ کی تلاش میں جارہا ہوں۔ کہتے ہیں پھر میں نے چند دنوں کے بعد خواب دیکھا کہ میں شیخ کی تلاش میں سائیکل پر جارہا ہوں اور ترامڑی چوک کے پاس ہوں۔ پھر اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں شیخ کی تلاش میں جارہا ہوں اور یہ نیلور کا جو barrier ہے اس کے پاس ہوں، اور اس کے بعد جو ہماری مسجد تھی جمعہ کی جہاں میں جمعہ پڑھاتا تھا وہاں پر میرے ساتھ ملاقات ہوگئی جو barrier کے بالکل پاس ہی تھا۔ اس وجہ سے مناسبت ہوگئی، پھر جمعہ ہمارے ساتھ ہی پڑھنا شروع ہوگیا لہٰذا مجلسوں میں بھی آنا شروع ہوگیا۔ مجھے کہا کہ حضرت یہ میرے پاس یہ کتاب ہے وہ اسی قسم کے لوگوں کی تھی، ہاں جی، تو یہ کتاب آپ ذرا پڑھ لیجئے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، میں نے لے لی کتاب۔ مجھے ان کی کتابوں کا پتا تھا کہ وہ کیا کرتے ہیں، وہ یہ کرتے ہیں کہ باتیں مستند کتابوں سے لے لیتے ہیں جیسے حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے لے لی یا مجدد صاحب سے لے لی یا شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے لے لی، تو وہ تو صحیح ہوتی ہیں تو اس کے ذریعہ سے پھر اخیر میں کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مقام یہ ہے۔ وہ بھی ٹھیک ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے مطلب صحیح بزرگوں کی تعلیمات سے لی ہوتی ہے۔ پھر ایک دن اچانک ان کو کشف ہوجاتا ہے کہ یہ مقام آپ کو حاصل ہوگیا۔ ہاں جی، میں اس میں صرف یہ ڈھونڈنا چاہتا تھا کہ اس میں یہ حرکت ہے یا نہیں ہے، تو میں نے وہ کتاب ان سے لے لی، وہ کتاب میں نے لے لی تو میں نے صرف اسی جگہ پڑھا جہاں اس قسم کی چیز ہو سکتی ہے، تو میں نے وہ پڑھا تو اس میں وہ چیز تھی بس میں نے بند کرکے رکھ دی۔ اگلی دفعہ جب ملاقات ہوگئی تو مجھ سے پوچھا وہ کتاب پڑھ لی؟ میں نے کہا چھوڑ دیں خرافات کو۔ کتاب واپس کردی، کہتے ہیں اچھا کمال ہے، یہ بات تو میں نے خواب میں سنی ہے آپ کی یہ بات۔ کیسے سنی؟ کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک underground ہسپتال ہے، بازار ہے، اس میں میں نیچے اترتا ہوں، تاریکی ہے، کلینک بند ہے، prescription میرے ہاتھ میں ہے، اب میں حیران ہوں کہ کیا کروں، کہتے ہیں اسی حیرانگی میں میرے دل سے پرزور آواز آتی ہے: ”چھوڑ دو ان خرافات کو، جاؤ شبیر کاکاخیل کے پاس“ وہ کہتے ہیں بس اس کے بعد میں اوپر چڑھ آیا سیڑھیوں کے اوپر، تو وہاں بس کھڑی ہے، بس میں میں بیٹھ گیا تو اس میں ایک اللہ کا نام روشن ادھر سے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں اس طرح چل رہا ہے۔ پھر میں خواب سے جاگ گیا۔ تو کہتے ہیں بالکل یہی آواز تو میں نے خواب میں بھی سنی ہے کہ چھوڑ دیں خرافات کو۔ میں نے کہا چلو دونوں باتیں ایک ہوگئی نا۔ تو پھر اس کے بعد وہ سلسلہ میں داخل ہوگئے۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ یہ باتیں ان لوگوں نے اسی طریقہ سے چلائی ہیں، لوگوں کو الو بنایا ہوا ہے، آج کل ویسے بہت ساری چیزیں ہیں، صرف وہ نہیں ہے، بہت سارے لوگ اپنے اپنے طریقوں پہ لوگوں کو الو بناتے ہیں۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا میدان ہے جو لوگوں نے بنایا ہوا ہے۔ سلسلہ اویسیہ اور نقشبندیہ بھی ساتھ ملا دیا، حالانکہ نقشبندی تو ایک پورا سلسلہ ہے اس کو اویسی کی کیا ضرورت ہے۔ وہ سلسلہ ہے، نقشبندی سلسلہ ہے، اس کے اندر کسی بزرگ میں اویسی نسبت ہوگی تو ہوگی نا، تو کیا کرتے ہیں وہ لنگر مخدوم، تین سو سال کا فاصلہ ہے، ان سے لے لیا اور پھر اس کے بعد سارا کام اپنا ہے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ بہت بڑی گمراہی ہے، اس کے خلاف سب سے پہلے آواز ہمارے شیخ نے اٹھائی ہے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے۔
یہ ایک بات بہت اہم بات ہے جو میں نے ان شاء اللہ کرکے پھر ان شاء اللہ ذکر کرتے ہیں۔
حاشیہ:
تصوف کے سلسلوں کا شجرہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ رسالت مآب ﷺ سے تصوف کے معارف لدنی حضرت علی نے حاصل کیے اور ان سے حضرت حسن بصری نے ان معارف کو اخذ کیا اور پھر ان سے صوفیاء کے تمام سلسلے چلتے ہیں۔ امام ولی اللہ ”قرۃ العینین“ میں لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا اتصال اور ان سے آپ کا خرقہ خلافت پہننا نہ اہل تشیع کے ہاں ثابت ہے اور نہ اہل سنت کے ہاں۔
تشریح:
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اللہ جل شانہٗ نے ان چیزوں کا جو اجرا فرمایا اس کے لئے ابتدائی نظام جو تھا وہ خیر القرون کے ذریعہ سے تھا۔ ”خَيْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِيْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ“ (مسلم، حدیث نمبر: 2533) جماعت سے جماعت والی بات، تو ان کے ذریعہ سے معارف جو حاصل کیے وہ تو (ہیں) اس کے بعد پھر عام طور پر جس کو کہتے ہیں شیخ اور مرید والی بات شروع ہوگئی۔ تو اس کی سب سے بڑی جو support ہے وہ یہ ہے کہ وہ زمانہ خیر القرون کا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ جتنے اہل حق ہیں ان سے اس کے خلاف ثابت نہیں ہے، انہوں نے انکار نہیں کیا حالانکہ اس وقت انکار کرنے والے بہت زیادہ تھے یعنی کسی ناجائز چیز کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ سمجھ میں آگئی نا بات؟ بڑے بڑے محدثین موجود تھے، بڑے بڑے فقہاء موجود تھے، ہاں جی بڑے بڑے نقاد اسماء الرجال والے موجود تھے۔ سب سے بڑی بات یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ جو رجال کے اندر سب سے سخت مشہور ہیں، اپنے استاد کو بھی معاف نہیں کرتے تھے، وہ ایسے مطلب اصحاب الرجال میں سے تھے کہ اپنے استاد کا بھی امتحان لیا وہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بہت اونچے کلمات کہتے ہیں۔ بات سمجھ میں آرہی ہے نا؟ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے اس نظام کو جو قائم کیا اس وقت، تو اس وقت کے لوگوں نے جب انکار نہیں کیا تو آج کے دور میں اس کے خلاف کیسے بات کی جا سکتی ہے؟ بات سمجھ میں آرہی ہے یا نہیں آرہی؟ اگر انکار کی بات ہوتی تو اس وقت کرنی چاہئے تھی نا، تو اس وقت کسی نے انکار نہیں کیا بلکہ ان کو مانا ہے، جب مانا ہے تو پھر اس کے بعد یعنی امام حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یہ سب حضرات موجود تھے اس وقت، یعنی مطلب اس کے فوراً بعد آئے ہوئے ہیں نا؟ تابعین ہیں نا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ تو یہ سب حضرات تھے تو انہوں نے ان چیزوں کا انکار نہیں کیا۔ نہ محدثین نے انکار کیا، نہ اسماء الرجال والے حضرات نے انکار کیا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کوئی نظم تھا جو ان کے اوپر کھل گیا تھا۔ لہٰذا انہوں نے تو اس کو (لیا) کیونکہ اس کو ذریعہ مانا گیا ہے اور ذریعہ جو ہوتا ہے وہ الگ ہوتا ہے اور مقصد الگ ہوتا ہے، مقصد میں جو فرق آتا ہے پھر اس کو مطلب تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر کسی نئے ذریعہ سے مقصد پرانا حاصل ہوتا ہو تو اس کے خلاف جو علماء حق ہیں وہ بات نہیں کرتے۔ تو چونکہ اس کا انداز میں تعارف ہوا ہے لہٰذا اس کے اوپر آج کل کے دور میں رد کرنا یہ کوئی بات نہیں بنتی۔ یہ والی بات ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ