جہد کن در بیخودی: شیخِ کامل اور اصلاحِ نفس

(یہ درس منظوم مثنوی مورخہ 14 مئی 2024 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھمجناب مدثر شہزاد صاحب
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

درسِ مثنوی کا پہلا (فارسی) مرحلہ مکمل ہو چکا؛ اب منظوم اردو ترجمہ کے ساتھ تشریح جاری ہے تاکہ “قال” دل کے “حال” بن جائے۔ “کانٹا” کی تمثیل سے واضح ہوا کہ روحانی مرض کا علاج ماہرِ فن شیخ ہی کرتا ہے—غلط تدبیریں زخم بڑھاتی ہیں؛ حکایتِ بادشاہ و کنیزک میں حکیمِ نبّاض نبض و اشارات سے عشق کی جڑ پہچان کر درست علاج بتاتا ہے، اور رزقِ حرام/گناہ قبولیتِ عمل کو روکتے ہیں جس کا حل توبہ و اصلاحِ معاش ہے۔ خلاصہ: اخلاص و اخفا، مرشدِ کامل کی صحبت، اور “جہد کن در بیخودی” کے اصول پر چل کر نوافل کے دوام سے قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے اور منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا رومی جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور تصنیف مثنوی شریف کا درس ہوا کرتا ہے اور چونکہ پہلے یہ گزشتہ پندرہ سال میں اَلْحَمْدُ للہ اس کا جو فارسی حصہ ہوچکا ہے تو آج کل اس کا جو منظوم ترجمہ ہے اس سے ماشاء اللہ تعلیم ہورہی ہے۔

11

پیر کا کانٹا ملے مشکل سے جب

دل کے کانٹے کا کیا ہو سوچ لو تب

اگر پیر کا کانٹا جو ہے ناں نکالنا اتنا مشکل ہے اس کے لئے آپ کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے، تو جو دل کا کانٹا اس کو کیسے معلوم کیا جائے کیسے اس کے لئے ترتیب بتائی جائے؟

12

ہر کوئی دیکھ سکتا دل کا کانٹا گر

غم سے پھر مجبور ہوتا کیوں کر

مطلب ہر کوئی اگر ایسا کام کرے پھر

تیرِ غمزہ کا زخم نظروں سے نہاں ہوتا ہے اگر وہ ہر کس و ناکس معالج کو نظر آتا تو غمِ عشق سے ہر شخص شفایاب ہوتا رہتا۔ اس شعر میں یہ ہے کہ اگر ہر ناقص معالجِ امراضِ نفسانیہ ہونے کی قابلیت رکھتا تو کسی کو بھی روحانی تکالیف پیش نہ آتیں۔ حالانکہ دیکھا جاتا ہے کہ ہزاروں مرید باوجود اپنے پیروں، مرشدوں کے ساتھ نسبت رکھنے کے شفائے روحانی سے محروم ہیں۔ لہذا تہذیبِ نفس و تزکیۂ روح کے لیے کامل کی طرف رجوع کرنا چاہیے نہ کہ ناقص کی طرف۔

اب ذرا ایک بات سنو! حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجددیت کوئی معمولی بات نہیں ہے، حضرت نے ایک بات فرمائی ہے اور وہ بات وہی کرسکتے تھے ہم کرتے تو ہمیں لوگ جوتیاں ماریں حضرت نے یہ بات فرمائی کہ شیخ کے لئے ماہر فن ہونا ضروری ہے یہ لوازمات میں سے ہے اور اس کا متقی ہونا برکات میں سے ہے یعنی وہ برکت ہوجاتا ہے اس کا متقی ہونا لیکن اس کا ماہر فن ہونا یہ لوازمات میں سے ہے، بغیر اس کے وہ کر ہی نہیں سکتا کام، یہ بات ہے یعنی جس کو مطلب تشخیص کا طریقہ ہی نہیں آتا پہلے معلوم کرے بھئی وجہ کیا ہے؟ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں بہت زبردست مثال ہے ڈاکٹر عمر صاحب چونکہ انگلینڈ سے پڑھے ہوئے ہیں ان کے جو پروفیسر تھے اس نے اس کو ایک طریقہ سکھایا جو جہاں پاکستان میں شاید کسی کو نہیں آتا، میرا اپنا خیال ہے ہوسکتا ہے آتا ہو، لیکن بہرحال میری معلومات میں نہیں وہ طریقہ ان کو یہ سکھایا کہ مثلاً کسی کی بارہ علامات ہیں بیماریوں کی مختلف، مثلاً اس کو نیند نہیں آتی اچھا وہ جو ہے ناں وہ چڑچڑا ہوگیا ہے کھانے کو جی نہیں چاہتا بات کرنے کو مطلب مختلف عوارض ہیں اس کو وہ لکھیں پورا، پھر ان کو آپس میں جوڑیں کہ یہ تین چار پانچ جو علامات ہیں اس سے تو یہ مطلب نکلتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو یہ ہوگیا اور پھر یہ چار پانچ مطلب یہ نکل گیا اور پھر اس سے یہ نکل گیا تو بیس علامات سے آپ کو چار چیزوں کا پتا چلا، پھر وہ چار کا آپس میں دیکھو کہ وہ کس کس کی جوڑی برابر ہورہی ہے تو اخیر میں یا دو نکلیں گے یا ایک نکلے گا تو بس اس کا علاج کرلو ٹھیک ہوجائے گا یہ فن ہے، یہ فن ہے اب اگر یہ فن کسی کو نہیں آتا تو کیا وہ علاج کرسکے گا؟ تو یہ مطلب تو اس طرح یہ شیخ جو ہوتا ہے ہو بھی فن دان ہوتا ہے ناں مطلب وہ فن کے ذریعہ سے معلوم کرتا ہے کہ بھئی بنیادی چیز تو یہی ہے، جیسے حضرت نے واقعہ فرمایا واقعہ کہ ایک صاحب تھے پیر صاحب ان کی ایک مرید بیعت ہوئے خانقاہ میں رہنے لگے، اب حضرت ان کو جو بتائیں اس سے اس کو فائدہ نہ ہو جو بتائیں اس کو فائدہ نہ ہو جو بتائیں، حضرت بڑے پریشان ہوگئے کہ یہ کیا بات ہے مسئلہ کیا ہے؟ کسی طرف راستہ نہیں نکل رہا اخیر میں اس کو بلایا اس کو کہا بھئی صاحب آپ جب آئے ہیں ادھر تو آپ کی کیا نیت تھی؟ خانقاہ میں آنے کی آپ کی نیت کیا تھی کس وجہ سے آپ آئے ہیں یہاں ادھر مقصود کیا ہے آپ کا اس نے کہا کہ حضرت آپ کا فیض بہت زیادہ ماشاء اللہ چاروں طرف پھیل رہا ہے، لوگوں کو آپ سے فائدہ ہورہا ہے تو میں بھی کہتا ہوں اگر ایسا فیض مجھے مل جائے تو میں بھی پوری دنیا میں یہ فیض پھیلا دوں اور لوگوں کو فائدہ ہونے لگے، کہا اف ہو تو تو ابھی سے پیر بنا ہوا ہے نکالو اس کتے کو اس کو خوب ڈانٹا صرف اپنی اصلاح کی نیت کرو اور کچھ نہیں اگر آپ لاکھوں لوگوں کی اصلاح کرلیں اور خود بے اصلاح ہوں تو آپ کا کیا فائدہ؟ آپ جہنم میں جائیں گے باقی لوگ جنت میں چلے جائیں تو تمھیں کیا فائدہ سبحان اللہ بات تو یہی ہے۔ یہ عمر بن عبدالعزیز سے کوئی بدو نے کہا تھا اے عمر یاد رکھو کہ تیری وجہ سے اگر لاکھوں لوگ جنت میں چلے اور تو خود دوزخ میں چلا جائے پھر کیا ہوگا؟ یہ بات تو یہ چیز اگر ہم دیکھیں تو صحیح بات ہے ہمیں بالکل پتا چلے بھئی ہمیں کرنا کیا ہے ہمیں کیا ہے احمد رحمۃ اللہ علیہ چشتی جن کے اشعار سنتے سنتے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ فوت ہوئے تھے ناں شہید ہوئے تھے وہ احمد جام رحمۃ اللہ علیہ خود کیا کہتے ہیں:


احمد تو عاشقیست بمشیخت ترا چہ کار؟

اے احمد تو تو عاشق ہے تجھے مشیخت سے کیا مطلب

دیوانہ باش، سلسلہ شد شد نشد نشد

دیوانہ بن جا سلسلہ ہو یا نہ ہو تجھے کیا


تو تو عاشق ہے عاشق کے لئے کیا مطلب ہے اب یہ جو بات حضرت نے فرمائی ناں کہ اس کو بس اس سے توبہ کرایا اور پھر فرمایا بہت تھوڑی محنت سے اَلْحَمْدُ للہ وہ چل پڑا، نقطہ وار پھنسا ہوا تھا ناں یہ فن کی بات تھی ماشاء اللہ ان کو نکال لیا اس چیز سے نکال لیا اس طرح ایک اور صاحب تھے پیر صاحب وہ بھی ماہر فن تھے بہت اللہ والے تھے ان کے بھی ایک مرید کو فائدہ نہیں ہورہا تھا تو حضرت گھبرائے اور اللہ پاک سے دعا کی کہ یا اللہ اس کا مسئلہ کیا ہے؟ یہ تو سب کچھ کر رہا ہے لیکن اس کو فائدہ نہیں ہورہا یہ کیا وجہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو الہام ہوا کہ اس کا رزق حرام ہے اس وجہ سے اس کو فائدہ نہیں ہورہا، شیطان نے اس کو اس لائن پہ لگا دیا ہے عبادات کی لائن پر تو اپنے آپ کو بزرگ سمجھ رہا ہے اور حالانکہ رزق اس کا حرام ہے اس کا کوئی چیز قبول نہیں ہورہا تو بس پھنسا ہوا ہے، اب دیکھو کتنی باریک بات۔۔۔۔ اس کو بلایا بیٹا بتا دو آپ کا رزق کا ذریعہ کیا ہے؟ کمانے کا معاش کا طریقہ کیا ہے انہوں نے جو طریقہ بتایا واقعی ناجائز تھا حرام تھا، اف ہو آپ کی تو ساری محنتیں رائیگاں جارہی ہیں آپ لکڑیاں کاٹ کاٹ کے لاکے اس کو بیچ دیا کریں اور بس باقی جو ہے ناں اور کچھ نہ کریں، یہی آپ کے لئے کافی ہے کہتے ہیں کہ پھر اس کے لئے فرض نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا بڑی محنت سے پڑھتا تھا تو اب اگر کسی کو نوافل کی بھی توفیق ہورہی ہو قرآن کی اور ذکر کی اور رزق اس کا حرام ہو، اب بتاؤ مفتی صاحب کدھر جائے گا وہ؟ خطرناک بات ہے ناں آپ حیران ہوں گے کہ اس دور کے اندر یہ جو بینک والے نہیں ہوتے جن میں ذرا تھوڑے سے دیندار type لوگ ہوتے ہیں تو آپ ان کو دیکھیں گے کہ بڑی لمبی لمبی تسبیح لیے ہوتے ہیں اور خیرات صدقات بھی بہت کرتے ہیں، ان کو بھی اسی طرح لائن پہ لگایا ہوتا ہے کہ چونکہ قبول تو ہو نہیں رہی تو بس وہ جو کررہے ہوتے ہیں تو بس اس سے ان کی شہرت بھی ہورہی ہوتی ہے اور فائدہ تو ان کو نہیں ہورہا تو شیطان کبھی کبھی ایسا چال بھی چل لیتا ہے، تو میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ واقعی اگر کوئی باکمال پیر ہو تو اس کا فن آتا ہو اس کو تو وہ اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں مطلب لوگوں کو بچا لیتے ہیں تو یہاں پر بھی بات ہے۔

13

دم کے نیچے گدھے کا کانٹا رکھے

گدھا جانے کیا اس بس کود لے

مطلب گدھے کے نہیں یہ شریر لڑکے نہیں ہوتے وہ رکھ لیتے ہیں ناں کوئی کانٹا تو وہ پھر اچھلتا ہے ظاہر ہے اور کیا کرسکتا ہے اس کے ساتھ تو کچھ نہیں کرسکتا تو بس اچھلتا ہے، کیونکہ اچھلنے سے تو اور مزید وہ زخمی ہوتا ہے تو

کوئی (شریر آدمی) گدھے کی دم کے نیچے کانٹا رکھ دیتا ہے۔ گدھا اس کو نکالنا نہیں جانتا (اور) کود پڑتا ہے۔

14

دور جلنے کو کودے وہ بار بار

زخموں سے کردے جسم وہ تار تار

گدھا کانٹے کو دور کرنے کے لیے جلن اور درد سے (تنگ آ کر) دولتیاں چلاتا ہے (جس سے) سینکڑوں جگہ زخم کھاتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ وہ

15

کب اچھلنے سے رفو درد ہو مگر

کانٹا ہے جس جا توجہ ہو ادھر

(مگر) وہ دولتیاں جھاڑنا اس کے کانٹے کو کب دور کر سکتا ہے۔ کوئی دانا چاہیے جو خاص (کانٹے) کی جگہ پر توجہ کرے۔

16

جہد سے وہ کانٹے کو تر کرے

ہے عقلمند جو اسے باہر کرے

(وہ حاذق احتیاط سے) اچھے اور اس مضبوط گڑے ہوئے کانٹے کو کریدے (واقع میں) عقلمند چاہیے جو کانٹا نکالے۔

17

وہ حکیم بھی اس طرح استاد تھا

جابجا ٹٹولنا اس کو یاد تھا

یعنی وہ بھی اس ترتیب سے چل رہے تھے

اوپر کے اشعار میں خارِ دل یعنی مرضِ عشق کی مشکلاتِ تشخیص اور دشوار یابی کا ذکر کیا تھا اور گدھے کی مثال سے اشارہ کیا تھا کہ نفس و شیطان کس طرح روحانی امراض کے کانٹے دل میں بو دیتا ہے اور مریضِ نادان اپنی بد تدبیری سے بجائے فائدہ کے نقصان و ضرر کو ترقی دے لیتا ہے۔ پھر فرمایا کہ ان کانٹوں کو نکالنے اور ان امراض کو دفع کرنے کے لیے کوئی حاذق، ماہرِ معالجہ اور صاحبِ تجربہ حکیم ہونا چاہیے۔ اب اس شعر میں کہتے ہیں کہ وہ طبیبِ غیبی انہی اوصاف کا حکیم تھا۔

یہ آج کل اس طرح ہے آج کل بھی اس طرح ہے کہ جو لوگوں کو مسائل ہیں، میں ایک مثال دیتا ہوں یہ ہمارے جو نفسیاتی ماہرین ہیں یہاں کے نفسیاتی ڈاکٹر جو ہوتے ہیں یہ پڑھے ہوئے ہیں یورپ سے یا یورپ کی کتابیں پڑھے ہوئے ہیں، اب یورپ کی کتابیں جو پڑھتا ہے تو وہ ظاہر ہے انہی کی case studies study کرکے مطلب ڈاکٹر بنے ہیں ناں تو پھر انہوں نے جو طریقے اختیار کیے ہوتے ہیں وہ اپنے لحاظ سے وہ ان کو معلوم ہوتے ہیں وہ اپنے طریقہ پہ ادھر کے جو ہیں ان کو معلوم ہی نہیں ہوتے تو کیا کرتے ہیں؟ depression کے مریض کو کیا کہتے ہیں آپ ٹیلی ویژن دیکھیں آپ سینما دیکھیں یہ باتیں تو میں کرسکتا ہوں بعض ایسی باتیں بھی کہتے ہیں جو میں یہاں پر میں زبان پر نہیں لاسکتا کم از کم میں یہاں زبان پہ نہیں لاسکتا، ایسی باتیں بھی ان کو بتاتے ہیں یعنی مجھے مریضوں نے خود بتائے ہیں تو وہ کیا ہے وہ مطلب اس چیز کو اب بات یہ ہے کہ یہ بجائے اس طریقہ سے وہ جو ہے ناں وہ کرلیتے ہیں لیکن بیماری تو ان کی نہیں جاتی نقصان ان کا بڑھتا ہے، نقصان ان کا بڑھتا ہے لیکن جو صحیح لوگ ہوتے ہیں مثال کے طور پر کسی شخص کو depression اس وجہ سے کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہوا ہے اور گناہ کی وجہ سے اس کو گناہ کا نشہ تو کہتے ہیں، نہیں نہیں کچھ بھی نہیں اس سے کچھ بھی نہیں ہوتا اس سے کچھ نہیں ہوتا آپ بھول جاؤ اس کو یہ ان کو کہتا ہے حالانکہ وہ علاج نہیں ہے بھئی اس کے دماغ سے دل سے ایمان تو نہیں نکال سکتے، آپ جو صحیح حازق ڈاکٹر ہوگا مسلمان ہوگا اس کو کہے توبہ کرلو اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمانے والے ہیں بس سب کچھ ختم ہوجائے گا، آن کی آن میں ختم ہوجائے گا بس تو اب یہ جو مطلب ہمارے لحاظ سے جو ہمارے culture اور ہمارے مذہب کے لحاظ سے جو بات ہے وہ جو جانتا ہوگا تو وہی علاج کرے گا ناں ورنہ پھر گدھے والی بات ہوگی بس دولتیاں جھاڑے گا اور نقصان مزید بڑھے گا۔

18

اس کنیز سے سادگی سے سوال کو

پوچھتا معلوم کرنے حال کو


19

راز کی باتیں بیاں کرنے لگی

حال اپنوں کے وہ بتانے لگی


20

قصہ اس کی خوب وہ سننے لگے

نبض پر وہ ہاتھ سے کچھ جاننے لگے


21

یہ کہ کس کے نام پر اچھلے نبض

حال عشق اس کی بیان کرلے نبض

کس کے نام پر نبض اچھلی ہے یہ reflex action ہے ناں مطلب اس کو تو انسان control نہیں کرسکتا، پہلے شہروں کا پتا کرتے تھے، پھر اس کے بعد محلوں کا پتا کرتے ہیں پھر لوگوں کا پتا کرتے رہے، پھر اخیر میں جب صحیح تو بس نبض اچھل پڑا تو بس اس کے بعد پتا چل گیا اس کو کہ کہاں پر مسئلہ ہے ٹھیک ہے ناں نکال لیا اس کو۔

21

یہ کہ کس کے نام پر اچھلے نبض

حال عشق اس کی بیان کرلے نبض

نبض نے اس کا حال بیان کردیا۔

عشقِ مجازی چونکہ ایک دماغی کیفیت ہے اور دماغ اعصاب کا مرکز ہے اس لیے حالاتِ عشق میں یہ عام بات ہے کہ معشوق کے سامنے آنے سے یا اس کا ذکر سننے سے یا اس کے تخیّل سے عاشق کے جسم میں ایک خاص اعصابی تحریک کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلًا تغیّرِ رنگ، سُرعتِ نبض، بستگیِ زبان وغیرہ۔ وہ طبیبِ الٰہی اس قسم کی علامات کے ذریعہ کنیزک کے معشوق کا سراغ لگانا چاہتا تھا۔

22

اپنے دوستوں کو کنیز پھر گن گئی

بعد ازاں دوسرے شہر کو چھڑ گئی


23

پوچھا اس سے جب شہر سے نکلی تو

کس شہر میں بعد ازاں جا بسی تو


24

شہر ایک کا نام وہ لینے لگی

نبض و رنگ میں پر تغیر نہ ہوئی


25

مالکوں اور شہروں کے نام لے چکی

اپنے احوال کی اور مقامات کی


26

شہر شہر و خانہ خانہ کا بیان

کرلیا پر نہ تھی تبدیلی عیاں

مطلب اس سے وہ نکل نہیں رہا تھا تو اس طرح مطلب یہ ہے کہ اگر دیکھیں تو اس طریقہ سے وہ چل رہا تھا، آہستہ آہستہ چل رہا تھا، آہستہ آہستہ چل رہا تھا، بالآخر صحیح جگہ پہنچ گیا۔ تو میرے خیال میں اس کے اگلے دن اس کا انتظار بہتر ہوگا کیوں اس کے بعد پھر کیا ہوا۔ ٹھیک ہے ناں؟ اللہ جل شانہ ہم سب کو اصل بات تک پہنچا دے اور وہ کیا ہے کہ ساری چیزیں جو ہیں ناں یہ ختم ہونے والی ہیں اور وہاں کی زندگی اصل ہے، اگر وہ زندگی ہماری اچھی ہوگئی تو پھر ہم کامیاب ہیں ورنہ یہ زندگی چاہے ہماری کیسی ہی کتنی اچھی کیوں نہ ہو، لیکن ہے تو عارضی۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، اکثر یہ سفر میں جب ہم جاتے ہیں تو ریل کے ذریعہ سے جاتے ہیں یا جہاز کے ذریعہ سے جاتے ہیں تو جہاز میں Lounge ہوتا ہے اس میں بیٹھتے ہیں VIP Lounge بھی ہوتا ہے جس میں بڑے لوگ جاتے ہیں عام Lounge بھی ہوتا ہے اور اس طریقہ سے ریلوے اسٹیشن پر بھی جگہیں ہوتی ہیں۔ اب وہ جگہیں بے شک کتنی اچھی کیوں نہ ہوں اس کو لوگ مستقل نہیں سمجھتے کہ یہ میری جگہ ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں اس کو پروا نہیں ہوتی کہ نہ بھی ہو تو گزارا کرلیتے ہیں، کہ ٹھیک ہے جی بس جارہے ہیں کیا مطلب، لیکن اپنے گھر کے بارے میں پریشان ہوتے ہیں کہ وہاں پر وہ چیز ہے یا نہیں ہے وہاں پر فلاں چیز نہیں فلاں چیز نہیں، اس کے لئے بندوبست کرتے ہیں، تو اسی طریقہ سے یہاں جو ہماری زندگی عارضی ہے یہ تو بس جتنے بھی ہیں لیکن سانس ہیں وہ پورے ہوجائیں اس کے بعد پھر جانا ہے تو وہاں کا حساب اصل ہے اللہ جل شانہٗ ہم سب کو وہاں کی اصل زندگی جو ہے وہ ہماری اچھی کردے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

عنوان ہے:

جہد کن در بیخودی خود را بیاب


مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا

کر فنا اپنی جو ہے یہ آب و تاب

نفس کی آلائشوں کو دور کر

چھائی تیرے دل پہ جو ہیں بے حساب

آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں

دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب

کان تیرے حق سے رو گرداں نہ ہوں

اور نہ سنوائے غلط نفس خراب

خود سے تو گم ہو صرف وہ یاد ہو

پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب

تو سمجھ جائے کہ تو کچھ بھی نہیں

اور سب کچھ اس کا ہی ہے لاجواب

اپنے خود کو عشق میں معدوم کر

تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب

جس میں تو اس کا ہی ہے اور وہ ترا

ہر وقت سنتا ہو تو اس کا خطاب

تو کرے وہ جو اسے منظور ہو

وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب

خود کو پہچانو شبیر کہ کیا ہو تم

ختم شد واللہ اعلم بالصواب


اپنی رضا کو مٹا کے اللہ کی رضا میں مشغول رہو، فقط جو اللہ چاہے وہی کرو پھر جو تو چاہے گا اللہ وہی کرے گا مطلب یہ بات ہے۔ اور یہ بالکل حدیث شریف موجود ہے جس میں فرماتے ہیں کہ اصل قرب تو فرائض کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن نوافل کے ذریعہ سے انسان اتنی ترقی کرتا ہے کرتا ہے کرتا ہے، اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس وہ پکڑتا ہے میں اس کے پاؤں جس سے وہ چلتا ہے میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ تو کیا بات ہے یہ مطلب نوافل میں انسان اپنے آپ کو مٹا دیتا ہے کہ اپنی خواہشات ختم کرکے اس کی خواہش کے مطابق۔






جہد کن در بیخودی: شیخِ کامل اور اصلاحِ نفس - درس اردو مثنوی شریف - دوسرا دور