اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾1
وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ:
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾2
وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾3
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ: ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيْئَةٍ‘‘4
صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
بزرگو اور دوستو! جو بھی دنیا میں ہورہا ہے کسی قاعدہ سے ہورہا ہے، haphazardly نہیں ہوتا ہر چیز کے پیچھے اس کی theory موجود ہوتی ہے۔ اس theory کو discover کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر سمجھ میں آجائے تو پھر اس میں جو مقاصد حاصل کرنے ہوتے ہیں، اس کے لیے کچھ manipulations کی جاسکتی ہیں اور اس knowledge کو implement کیا جاسکتا ہے مفید نتائج کو حاصل کرنے کے لیے۔ ایک عام آدمی کی سوچ ہوتی ہے اور ایک researcher کی سوچ ہوتی ہے، دونوں میں فرق ہے۔ چائے آپ پی رہے ہیں cup میز کے اوپر پڑا ہوا ہے تھوڑی دیر میں چائے ٹھنڈی ہوگئی۔ عام آدمی کی سوچ یہاں تک ہے کہ تھوڑا ٹائم گزرنے سے چائے ٹھنڈی ہوجاتی ہے اس لیے جلدی پینی چاہیے، اور اس کو اس سے زیادہ کام بھی نہیں ہے۔ لیکن جو researcher ہوگا وہ اس پہ سوچے گا کہ چائے کیوں ٹھنڈی ہوئی! اس پہ غور کرے گا۔ کچھ نتائج اخذ کرے گا۔ کچھ سسٹم سمجھ میں آئے گا۔ اور پھر اگر وہ چاہے کہ چائے جلدی ٹھنڈی نہ ہو تو اس کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے، اس کے اوپر بھی کام کرسکتا ہے۔ اسی طریقے سے یہ ہماری جو زندگی کے اندر جو سوشل نیٹ ورک ہے اس میں بھی کوئی چیزیں haphazardly نہیں ہورہیں، کچھ procedure ہے، کچھ سسٹم ہے، طریقہ کار ہے، سمجھ میں آجائے بہت کچھ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اس سے۔ ہم دیکھتے ہیں مختلف لوگوں کو، مختلف behaviours ہیں، ایک ہی بات ہوتی ہے ایک آدمی اس سے بہت غصے میں آجاتا ہے سب کچھ خراب کردیتا ہے۔ دوسرا آدمی اس سے knowledge gain کرلیتا ہے، اپنی غلطی درست کرلیتا ہے، بہتری حاصل کرلیتا ہے۔ حالانکہ بات ایک ہی تھی۔ وہ کون سی چیز ہے جو ایک انسان کو ان تمام چیزوں میں کامیابی کے راستے پہ ڈال سکتی ہے۔
with due respect to all researchers now a days ہم لوگوں نے صرف ویسٹ کی طرف دیکھا ہے کہ ویسٹ والوں نے کیا ریسرچ کی ہے، صرف ویسٹ کی طرف دیکھا ہے، حالانکہ ہمارے ہاں بھی بہت researches ہوچکی ہیں، بالخصوص ان میدانوں میں کہ انسان انسان کیسے بن جائے! انسان انسان بن جائے بہت بڑی چیز ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ﴾5 یہ معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن انسان انسان تو بنے نا! اور یہ بھی یاد رکھئے کہ انسان اگر انسان نہیں بنے گا تو حیوانوں سے نیچے گر جائے گا ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ﴾6 پھر اس کے بعد اس کا یہ حال ہے کہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجائے گا، یہ اللہ جل شانہٗ کے الفاظ ہیں۔ تو اب اپنے آپ کو انسانوں کی صف میں لانے کے لیے اپنے آپ کو انسان بنانے کے لیے کچھ سوچنا پڑے گا کہ وہ کون سی چیز ہے جو ہمیں انسان بنا سکتی ہے اور خدانخواستہ اگر ان چیزوں کو نہ محسوس کریں اور نہ اس کو consider کریں تو پھر حیوانیت کے راستہ پہ ہم جاسکتے ہیں۔ تو میں آپ سے عرض کروں جیسے میں نے عرض کیا کہ ہم نے ویسٹ کو دیکھا ہے ویسٹ کی researches کو دیکھا ہے، ہم نے اپنے مسلمانوں کی research کو نہیں دیکھا، بڑے بڑے لوگ ہیں گزرے ہیں، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ایک ہستی ہیں گزرے ہیں، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، یہ بڑے لوگ ہیں انہوں نے researches کی ہیں، وہ researches documented ہیں موجود ہیں، ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن ہم لوگ ان سے استفادہ نہیں کرتے، باہر کی طرف دیکھتے ہیں۔ ابھی میں بتاتا ہوں کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کتنی بڑی ریسرچ ہے، یہ ہم آج کل emotional management کی باتیں کررہے ہیں نا! very good بڑی اچھی بات ہے لیکن کچھ اپنے بارے میں بھی سوچیں نا کہ ہم لوگوں نے اس کے بارے میں کیا کہا ہے یعنی ہمارے بڑوں نے، دیکھ لیں تین چیزیں ہیں ہر انسان کے اندر ہیں، کوئی انسان اس سے خالی نہیں ہے، ان تین چیزوں کی interaction یا انسان بناتی ہے یا حیوان بناتی ہے آپس میں، ان میں ایک تو دل ہے (قلب) ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾7 ’’بے شک قرآن میں نصیحت ہے ہر اس شخص کے لیے جس کا دل بنا ہو یا وہ کان لگا کر اہتمام کے ساتھ سننے والا ہو‘‘۔ ﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾8 ’’اس دن کچھ بھی کام نہیں آئے گا نہ مال نہ بیٹے مگر جو قلب سلیم ہوگا وہ کام آئے گا‘‘۔ آخر اللہ پاک نے فرمایا، اس کے اندر کچھ ہے نا ورنہ its ۔to discover آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجائے، اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجائے ’’اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ‘‘9 ’’آگاہ ہوجاؤ کہ وہ دل ہے‘‘۔ تو یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو دل ہے یہ جذبات؛ محبت، نفرت، شجاعت، بزدلی، ایمان، کفر ان تمام چیزوں کو handle کرتا ہے، یہ وہ سسٹم ہیں جو ان چیزوں پہ چلتا ہے، ایک کافر ہے اس کا دل بھی ہے، ایک مسلمان ہے اس کا بھی دل ہے، محبت کے بھی جذبات ہوتے ہیں نفرت کے بھی جذبات ہوتے ہیں، احساسات ہوتے ہیں، یہ سب دل کا میدان ہے۔ پھر فرمایا نفس ہر انسان کا موجود ہے، اللہ جل شانہٗ نے اس کو اس حد تک یعنی ظاہر کردیا ہے کہ ایک سورۃ میں، پوری سورۃ اس کے لیے اتری ہے، ویسے بہت ساری جگہ پہ اس کا بیان ہے، لیکن ایک خاص سورۃ بالکل اسی کے لیے اتری ہے اور وہ سورۃ ہے سورۃ شمس: ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَا وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنٰىهَا وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىهَا وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَا اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَسُقْیٰهَا فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا فَدَمْدَمَ عَلَیْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا وَلَا یَخَافُ عُقْبٰهَا﴾10 یہ اللہ پاک نے پوری سورۃ، اس میں کیا ہے؟ قسم کھائی ہے سورج کی، چاند کی، دن کی، رات کی، آسمان کی، زمین کی اور نفس کی، سات قسمیں ہوگئیں، سات بڑی نشانیوں کی قسمیں ہیں، سات بڑی نشانیوں کی قسمیں ہیں۔ ان قسموں کے بعد جو جوابِ قسم ہے یعنی کس لیے قسمیں کھائی ہیں؟ اللہ پاک فرماتے ہیں میں نے یہ قسمیں کس لیے کھائی ہیں کہ اس نفس کے اندر میں نے دو چیزیں رکھی ہیں، دو چیزیں رکھی ہیں، پہلی چیز اس کے فجور، دوسری چیز اس کا تقویٰ، نفس کے اندر اگر محنت نہ ہو اس کے اوپر تو فجور ہی ہوتے ہیں، اس کو کہتے ہیں نفس امارہ۔ نفس کے اندر اگر اس کے اوپر محنت نہ ہو تو اس میں فجور ہی ہوتے ہیں یعنی نفسِ امارہ۔ ہاں! آپ اس کی تربیت کرلیں۔۔۔۔ ہم ایک دفعہ مدینہ منورہ جارہے تھے راستہ میں ایک علاقہ آتا ہے جہاں بہت سارے بندر ہوتے ہیں، اس دفعہ بھی ہم جارہے تھے تو وہ گاڑیاں ذرا روک لیتے ہیں لوگوں کے لیے کہ دیکھو نا یہ کیا چیز ہے۔ تو اتنے سارے بندر آگئے، عادی ہیں وہ بندر، تو لوگ ان کے لیے چیزیں پھینک لیتے ہیں، کسی نے کیلے پھینکے، کسی نے کوئی دوسری، کسی نے بسکٹ پھینکے۔ ایک بڑا سا موٹا بندر اس نے چیزوں پہ قبضہ کرلیا تین چار کیلے اٹھا لیے، میں نے دیکھا، میں خود آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ایک مریل سی یعنی کمزور سی بندریا تھی یا بندر وہ اور ایک چھوٹا بچہ بندر یہ ان کو مسلسل اتنے اس سے دیکھ رہے تھے کہ شاید ہمیں کچھ دے دے، کیونکہ وہ تو اس نے تو قبضہ کرلیا نا، تو وہ دیکھ رہے تھے کہ ہمیں کچھ دے دے، ان کے سامنے بڑے مزے سے کھا رہا تھا چھیل رہا تھا اور کھا رہا تھا، یہ ہے جنگل کا قانون، کیا ہے؟ جنگل کا قانون۔ مقصد یہ ہے کہ چونکہ ان میں might is right ہے، طاقت ہے بس لے لیا، اور کوئی اس سے چھین لے۔ وہ والی بات تو نہیں ہے نا کہ وہ کسی کے لیے چھوڑے گا، لیکن وہ غیر مکلف ہے ان پہ کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن انسان اگر اس طرح ہوگا تو ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ﴾11 پھر وہ جانوروں سے نیچے ہوجائے گا۔ تو اب یہ جو چیز ہے نفس جو ہمارا ہے، اس کے اندر جو فجور ہیں ان فجور کی اصلاح کرنی پڑے گی، اس کو تقویٰ میں change کرنا پڑے گا، اگر اس میں ہم تھوڑے ہی کامیاب ہوگئے تو نفس لوامہ ہوگیا، اُس وقت انسان کو اپنی برائی نظر آنی شروع ہوجاتی ہے، آدمی سمجھنا شروع ہوجاتا ہے کہ میں غلط کررہا ہوں توبہ کرتا ہے، استغفار کرتا ہے، روتا ہے گڑگڑاتا ہے، پھر بھی اس سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ یہ نفس امارہ سے اچھا ہے، یہ نفس امارہ سے اچھا ہے۔ اس نے کچھ ترقی کرلی ہے لیکن بہرحال فی الحال ابھی کامل نہیں ہوا، جب یہ کامل ہوگا اور یہ جو نفس کا زور ہے وہ ٹوٹ جائے گا اور اس کا سارا شر خیر میں تبدیل ہوجائے گا، یہ surrender کرلے گا اللہ کے حکم کے سامنے، اس کو کہتے ہیں نفس مطمئنہ۔ یہ بہت honorable نفس ہے، اس کے لیے اللہ پاک نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائے، فرمایا: ﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾12 اے مطمئن نفس! اے مطمئن نفس! یعنی ترقی یافتہ، صحبت یافتہ اور خیر یافتہ جو نفس ہے وہ مطمئن نفس ہے، اللہ پاک اس کو فرمائے گا اے مطمئن نفس ﴿اِرْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً﴾ اپنے رب کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی: ﴿رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً﴾۔ ﴿فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ﴾ ’’پس داخل ہوجا میرے بندوں میں‘‘۔ ﴿وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ ’’اور داخل ہوجا میری جنت میں‘‘۔ اب ذرا پورے sequence سے اللہ پاک نے اس میں سمجھایا ہے۔ sequence کیا ہے؟ نمبر 1: نفس مطمئنہ بنانا پڑے گا، develop کرنا پڑے گا، نفس مطمئنہ۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ اللہ سے راضی ہوجائے گا، آپ حیران ہوں گے، آپ حیران ہوں گے کہ یہ کون سی بات ہے، بھئی اللہ تعالیٰ سے تو سب کو راضی ہونا چاہیے، نہیں بھئی! اللہ تعالیٰ سے سارے لوگ راضی نہیں ہیں، مجھے بتاؤ حسد کیوں کرتے ہیں؟ یہ لوگ یہ اللہ تعالیٰ سے راضی لوگ ہیں؟ leg pulling لوگ کیوں کرتے ہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ سے راضی لوگ ہیں؟ یہ جو دھوکہ کرتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ سے راضی لوگ ہیں؟ یہ جو جھوٹ بولتے ہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ سے راضی لوگ ہیں؟ سمجھ میں آگئی نا بات؟ سارا گند اسی نفس میں پڑا ہوا ہے، یہ جو فجور ہیں سارے کے سارے نفس نے contain کیے ہوئے ہیں۔ البتہ اگر اس نفس کے اوپر محنت ہوجائے اور نفس کے اوپر محنت کیا ہے؟ اس کو train کیا جائے، tame کیا جائے، جیسے جانور کو ہم tame کرتے ہیں، باقاعدہ اس کو اس طرح train کرنا پڑتا ہے، مجاہدات کے ذریعہ سے، ترغیبات کے ذریعہ سے اور ترہیبات کے ذریعہ سے، یعنی ڈرانے کے ساتھ لالچ کے ذریعہ سے مختلف طریقوں سے اس کو train کیا جاتا ہے اور اس کو جو ہے نا tame کیا جاتا ہے، جب یہ train اور tame ہوجائے اس کے بعد یہ نفس ماننا شروع کرلیتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس نفس کے اندر اتنی flexibility ہے کہ اگر آپ اس کو دبائیں تو دبے گا۔ نہیں دبائیں گے تو چڑھ پڑے گا آپ کے اوپر، یہ اس کی خاصیت ہے آپ اس کو دبائیں گے مثال کے طور پر آج ٪100 زور کے ساتھ آپ کو گمراہ کررہا ہے، آپ اس کی آج بات نہ مانیں کل اس میں اتنی طاقت نہیں ہوگی، کل یہ ٪95 زور لگائے گا، کچھ کم ہوجائے گا، آپ پھر بھی نہ مانیں اگلے دن ٪90، یہ میں نے مثال دی ہے اس طرح نہیں ہوتا اتنی جلدی جلدی، یہ تو میں صرف سمجھانے کے لیے کہہ رہا ہوں۔ تو اگلے دن ٪90 پھر ٪85 پھر ٪80 اس طریقہ سے ہوتا جائے گا معاملہ، یہ اس کا زور کم ہوتا جائے گا اور ما شاء اللہ اس میں خیر گویا کہ آتی جائے گی، نتیجتاً کیا ہوگا؟ اس کے فجور تقویٰ میں convert ہوں گے۔ اصل کیا ہے؟ نفس کی جو resistance ہے فجور کے لیے، وہ تقویٰ ہے، وہ تقویٰ ہے۔ لہٰذا میرے ذہن میں مثال کے طور پر میں مسجد سے باہر نکلتا ہوں، غیر محرم آرہے ہیں اور میرے نفس کے اندر ایک ہیجان برپا ہوگیا کہ میں ان کو دیکھوں، اس پہ اللہ مجھے نہیں پکڑتے، کیوں؟ کیونکہ اللہ پاک نے خود رکھے ہیں: ﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا﴾13 موجود ہے اس میں، اس پہ اللہ مجھے نہیں پکڑتے۔ ہاں! آگے حکم ہے نہ دیکھو۔ نفس کا حکم کیا ہے؟ دیکھو۔ اللہ کا حکم کیا ہے؟ نہ دیکھو۔ نفس کا حکم مان لیا فجور واقع ہوگئے، اللہ کا حکم مان لیا تقویٰ آگیا۔ لہٰذا جتنے زور سے نفس آپ سے یہ demand کررہا ہے اگر آپ نہ دیکھنے پہ قابل ہوگئے، اس کے قابل ہوگئے، تو آپ کو اس ڈگری کا تقویٰ حاصل ہوگیا۔ مثلاً کوئی 100 یونٹس face کررہا ہے فجور کا زور، اگر وہ نہیں کررہا 100 یونٹس تقویٰ لے چکا، 1000 یونٹس، 1000 یونٹس تقویٰ لے چکا، ایک لاکھ یونٹس، ایک لاکھ یونٹس کا مطلب جو ہے نا وہ تقویٰ لے چکا۔ اس وجہ سے مجھے نوجوان اکثر میرے پاس آتے ہیں کہ کیا کریں شاہ صاحب! بس آنکھ اٹھ ہی جاتی ہے کیا کریں؟ کیا کریں آنکھ اٹھ ہی جاتی ہے، تو ان کو ہم بتاتے ہیں نہیں! آنکھ کو نیچے کرنے کا طریقہ بھی ہے، پھر ان کو ہم طریقہ بتاتے ہیں۔ طریقہ کیسے بتاتے ہیں؟ ان کو کہتے ہیں بھئی کسی تنہائی میں آپ بیٹھ جائیں، تنہائی میں پانچ منٹ کے لیے نیچے دیکھو، پانچ منٹ کے لیے نیچے دیکھو، پھر اگلے دن تنہائی میں چھ منٹ، اگلے دن تنہائی میں سات منٹ، اگلے دن تنہائی میں آٹھ منٹ، پچیس منٹ تک اس کو پہنچا دو، یہ بیس دن میں ہوجائے گا۔ اب باہر آجاؤ لوگوں کے سامنے باتیں کرتے ہوئے ان سے interact کرتے ہوئے نیچے دیکھنا ہے اوپر نہیں دیکھنا پانچ منٹ کے لیے، اگلے دن چھ منٹ، اگلے دن سات منٹ، اگلے دن آٹھ منٹ، پچیس منٹ بیس دن میں پہنچ جائے گا، کتنا عرصہ گزر گیا؟ چالیس دن ایک چلہ۔ اس ایک چلہ میں آپ کو پچیس منٹ نیچے دیکھنے کی طاقت حاصل ہوگئی، پچیس منٹ اس مسئلہ میں بہت بڑی چیز ہے، اگر خدانخواستہ کہیں پھنس گئے پچیس منٹ میں پلاننگ کرلو میں ادھر سے کیسے شفٹ ہوسکتا ہوں، کیسے آگے پیچھے جاسکتا ہوں، اگر کچھ مسئلہ ہوگیا اپنے آپ کو بچانے کا، کام تو کرنا پڑتا ہے۔
تو بہرحال میں آپ سے اس لیے عرض کرتا ہوں کہ یہ جو فجور ہیں انسان کے نفس کے اندر، فجور جو انسان کے نفس کے اندر ہیں، اس کی اگر آپ نہ مانیں تو تقویٰ، گویا کہ 0 اور 1 والی بات، بس یہ ہے کہ یا یہ ہوگا یا یہ ہوگا، تو اگر فجور نہیں ہے تو تقویٰ اور اگر تقویٰ نہیں تو فجور، روشنی نہیں تو اندھیرا اندھیرا نہیں تو روشنی۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ تو یہ تو ہمارا ایک مسئلہ ہوگیا نفس کا۔ دل، دل کا یہ حال ہے جیسے میں نے کہا اس میں جذبات اور احساسات اور کفر، ایمان یہ ساری چیزیں آتی ہیں، اب دیکھ لیں جس طرح دو چیزیں اللہ پاک نے نفس کے اندر رکھی ہیں، سبحان اللہ! دو چیزیں انسان نے نفس کے اندر رکھی ہیں فجور اور تقویٰ، اسی طرح دل کے اندر بھی دو چینلز ہیں، پورے چینلز، ایک رحمانی چینل ہے ایک شیطانی چینل ہے۔ رحمانی چینل کو عموماً لوگ ضمیر کہتے ہیں اور شیطانی چینل کو وسوسہ کہتے ہیں، وسوسہ آتا ہے شیطان کی طرف سے، یہ کرو۔ اور رحمانی چینل سے آتا ہے یہ نہ کرو۔ یا کوئی اچھائی کی بات آتی ہے رحمانی چینل سے کہ یہ کرو، نماز کے لیے جاؤ۔ شیطانی چینل کی طرف سے آتا ہے نہ جاؤ۔ اب یہ مقابلہ چلتا رہتا ہے اور ایک حدیث شریف مجھے یاد پڑ رہی ہے، ایک حدیث شریف ہے اگر کوئی برائی کرتا ہے تو اس برائی کا فوری جو نقصان ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسری برائی اس کے لیے آسان ہوجاتی ہے۔ اور اچھائی کوئی کرتا ہے، نیکی کرتا ہے تو اس کی فوری خیر یہ ہے کہ اس کے لیے دوسری اچھائی آسان ہوجاتی ہے۔ اب دیکھ لو میں نے شیطان کی بات اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے مان لی، تو میرے لیے شیطان کا چینل مزید کھل جائے گا، رحمانی چینل کم ہوجائے گا، پھر اگلے دن ایسا پھر اگلے دن ایسا، حتیٰ کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ شیطانی چینل ٪100 کھل جائے اور رحمانی چینل بالکل بند ہوجائے۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن پاک میں ہے: ﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا٘ وَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا٘ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَاؕ اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ﴾14 یعنی ان کی آنکھیں ہیں لیکن دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں جن سے سنتے نہیں، ان کے دل ہیں سمجھتے نہیں ہیں۔ کیا ہے؟ یہ دل بالکل ہوگیا، ﴿خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰى سَمْعِهِمْؕ وَعَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ٘ وَّلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾15 یہ ایسے لوگوں کے لیے ہے۔ دوسری طرف اگر میں مان لوں اللہ تعالیٰ کی، اور شیطان کی نہ مانوں تو شیطان کا چینل بند ہوتا جائے گا رحمٰن کا چینل کھلتا جائے گا، کھلتا جائے گا کھلتا جائے گا حتیٰ کہ بالکل ٪100 کھل جائے گا اور شیطان کا چینل بالکل بند ہوجائے گا۔ یہ ایسے لوگوں کے لیے قرآن پاک میں ہے جو میرے ہیں تو ان کو گمراہ نہیں کرسکتا، جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کرسکتا۔ تو جب یہ والی بات ہے تو اب دیکھ لو possibility ہے نا دونوں possibility اس میں بھی ہیں۔ اور عقل ہے تیسری چیز، اس میں بھی possibility ہے، عقل کیا دنیاوی parameter سے calculate کررہی ہے یا آخرت کے parameter سے calculate کررہی ہے، calculation دونوں میں ہے thinking دونوں میں ہے، لیکن آیا آخرت کے لحاظ سے کررہا ہے یا دنیا کے لحاظ سے کررہا ہے، اگر دنیا کے لیے کررہا ہے تو سود کھائے گا، رشوت کھائے گا، گند میں پڑے گا۔ اور اگر آخرت کے حساب سے کرے گا تو رشوت نہیں کھائے گا، سود نہیں کھائے گا، حلال کمانے کی کوشش کرے گا، سچ بولے گا چاہے اس کو نقصان بھی دنیا کا کیوں نہیں ہو۔ لیکن اس کے لیے ایک سفر ہے، ایک سفر ہے، تو سفر کیا کرنا پڑے گا؟ نفس کے اوپر محنت ہے، دل کے اوپر محنت ہے، عقل کے اوپر محنت ہے، یہ تینوں چیزیں قرآن سے بھی ثابت ہیں، احادیث شریفہ سے ثابت ہیں، جس وقت ان میں کامیاب ہوجائے آدمی تو پھر کیا ہوتا ہے؟ سبحان اللہ جو قلب ہے وہ promote ہوجاتا ہے روح میں اور روح کا مقام کدھر ہے؟ وہ ملاء اعلیٰ میں ہے، لہٰذا پھر اس کے حساب سے اس کو انفارمیشن ملتی ہے، جس کو معرفت کہتے ہیں۔ اور جس وقت جو ہے نا مطلب یہ ہے کہ انسان کی عقل یعنی آخرت کے لحاظ سے سوچنا شروع کرلیتی ہے تو اس کو سِر کہتے ہیں جو ملاء اعلیٰ سے لیتی ہے، جو وہاں سے لیتی ہے وہاں کے حساب سے لیتی ہے، تو پھر کیا ہوتا ہے؟ سبحان اللہ! اس کو فراست حاصل ہوجاتی ہے۔ اب یہ دو چیزیں اگر حاصل ہوگئیں تو یہ پانچ لطائف ہوگئے قلب، نفس، عقل، روح اور سر۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یہ میں نے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے لیا ہے‘‘۔ یہ میں نے کس سے لیا ہے؟ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے۔ اب پتا چل گیا ریسرچ ہے نا، کبھی اس ریسرچ کو سنا ہے؟ یہ رفاہ یونیورسٹی ہے نا وہاں پر مجھے بلایا گیا تھا، تو وائس چانسلر صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے جو چیف ایگزیکٹو بیٹھے ہوئے تھے، میں نے ان کو یہ ماڈل بتایا۔ کہتے ہیں یہ مجھے لکھ کر دیں، یہ چیزیں آپ نے کہاں سے لیں؟ میں نے کہا شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں۔ کہتے ہیں یہ تو ہم نے پڑھا ہے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ہمیں تو کسی نے نہیں بتایا۔ میں نے کہا آپ نے ان کی ہسٹری پڑھی ہے، آپ نے ان کی theory نہیں پڑھی، ہسٹری میں تو یہ چیزیں نہیں بتائی جاتیں نا، وہ تو theory ہے، الگ ہے، تو حضرت کی ایک کتاب ہے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی وہ کیا ہے؟ ’’الطاف القدس عن معرفۃ النفس‘‘ اس کتاب پہ اَلْحَمْدُ للہ ہماری خانقاہ میں مسلسل درس ہوتا رہا ہے اور اب اس کے نام سے ایک کتاب آرہی ہے ’’لطائف کی حقیقت‘‘ یہ جو چیزیں میں عرض کررہا ہوں ’’لطائف کی حقیقت‘‘ کے نام سے ان شاء اللہ یہ کتاب آرہی ہے جس میں ساری چیزیں describe ہوں گی ان شاء اللہ۔ تو میں اس لیے عرض کرتا ہوں ذرا ہم اپنوں کی طرف بھی دیکھیں، ان شاء اللہ ہمیں بہت کچھ ملے گا۔
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ
۔ (الشمس: 9-10) ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
۔ (ق: 37) ترجمہ: ’’یقینا اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔‘‘
۔ (آل عمران: 190-191) ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔‘‘
۔ (جامع الأصول في أحاديث الرسول، رقم الحدیث: 2603) ترجمہ: ’’دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔‘‘
۔ (التین: 4) ترجمہ: ’’کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔‘‘
۔ (التین:5) ترجمہ: ’’پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کردیتے ہیں۔‘‘
۔ (ق: 37)
۔ (الشعراء: 88-89) ترجمہ: ’’جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد۔ ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا (اس کو نجات ملے گی)‘‘
۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 52)
۔ (الشمس: 1-15)
۔ (التین:5)
۔ (الفجر: 27-30) ترجمہ: ’’ترجمہ: ’’(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں۔ اور داخل ہوجا میری جنت میں‘‘۔‘‘
۔ (الشمس: 8)
۔ (الأعراف: 178) ترجمہ: ’’ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
۔ (البقرۃ: 7) ترجمہ: ’’اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔‘‘