اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! آج جمعہ کی رات ہے اور جمعہ کی رات ہمارے ہاں سیرت کے موضوع پر بات ہوتی ہے اور اس کے لئے ہم نے ’’سیرت النبی‘‘ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب، وہ انتخاب کی ہے۔ حضرت کا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ ’’سیرت النبیﷺ‘‘ اس میں پورا دین آجاتا ہے، کیونکہ دین آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلنے کا نام ہے، تو اس وجہ سے دین کے سارے شعبے سیرت سے متعلق ہیں اور ہمیں آپ ﷺ کی سیرت پاک سے پوری زندگی استفادہ کرنے کا حکم ہے اور جتنا جتنا ہمارے طریقے آپ ﷺ کے طریقوں کے مطابق ہوتے جائیں گے، اتنی اتنی ہمیں کامیابی ہوتی جائے گی اور ہم لوگ حقیقی اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے۔ تو آج نماز کے بارے میں بات ہے۔
نماز
﴿اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾1
اسلام کی عبادت کا یہ پہلا رکن ہے جو امیر و غریب، بوڑھے جوان، عورت مرد، بیمار و تندرست، سب پر یکساں فرض ہے۔ یہی وہ عبادت ہے جو کسی شخص سے کسی حال میں بھی ساقط نہیں ہوتی۔ اگر اس فرض کو کھڑے ہوکر نہیں ادا کرسکتے تو بیٹھ کر ادا کرو اور اگر اس کی بھی قدرت نہیں ہے تو لیٹ کر کرسکتے ہو۔ اگر منہ سے نہیں بول سکتے تو اشاروں سے ادا کرو۔ اگر رک کر نہیں پڑھ سکتے تو چلتے ہوئے پڑھو۔ اگر کسی سواری پر ہو تو جس طرف وہ چلے اسی رخ پڑھو۔
نماز کیا ہے؟ مخلوق کا اپنے دل، زبان اور ہاتھ سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار، اس رحمان و رحیم کی یاد اور اس کے بے انتہا احسانات کا شکریہ، حسن ازل کی حمد و ثنا اور اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار، یہ اپنے محبوب سے مہجور روح کا خطاب ہے، یہ اپنے آقا کے حضور میں جسم و جان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرض نیاز ہے، یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے، یہ خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کی گرہ اور وابستگی کا شیرازہ ہے، یہ بے قرار روح کی تسکین، مضطرب قلب کی تشفی اور مایوس دل کی دوا ہے، یہ فطرت کی آواز ہے، یہ حساس و اثر پذیر طبیعت کی اندرونی پکار ہے، یہ زندگی کا حاصل اور ہستی کا خلاصہ ہے۔
اور میں اخیر میں عرض کروں کہ یہ کوئی شاعری نہیں ہے، حقیقی بات ہے۔ کیسے؟ اصل میں ہمارا جسم دو چیزوں کا مرکب ہے، جسم اور روح۔ جسم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اس کو کہتے ہیں "نفسانیت"۔ اور روح کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اس کو کہتے ہیں "روحانیت"۔ عام زندگی میں ہر وقت ہم نفسانیت کی ضد میں ہوتے ہیں۔ عام طور پر عام زندگی میں ہم نفسانیت کی ضد میں ہوتے ہیں، ہمارا کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ملنا جلنا، بات کرنا، دیکھنا، سونا، سننا، الغرض ہر چیز نفسانیت کی ضد میں ہے، نفس کی خواہشات میں گھرے ہوئے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں، بھی نفس کی دعوت ہے، سن رہے ہیں، بھی نفس کی دعوت ہے، بول رہے ہیں، بھی نفس کی دعوت ہے، سوچ رہے ہیں، بھی نفس کی دعوت ہے، چل رہے ہیں، پکڑ رہے ہیں، سب کچھ نفس کی دعوت ہی دعوت ہے، اس میں گھرے ہوئے ہیں۔ اب اس نفسانیت سے روحانیت کی طرف کیسے آجائیں؟ تو ایک ایسی چیز ہونی چاہئے، جس میں ہر چیز روحانیت ہو، جس میں نفسانیت نہ ہو، جس میں ہر چیز روحانیت ہو۔ جب اس قسم کی بات ہو تو کیسے ممکن ہے، جبکہ ہم لوگ اس طرح نفسانیت کے بھنور میں گھرے ہوئے ہیں۔ کیسے ہم باہر جائیں؟ کیسے ہم چلے جائیں ادھر سے؟ تو اللہ جل شانہٗ نے اسی تقاضے کی بنیاد پر تاکہ ہم لوگ یہ کرسکیں، اللہ جل شانہٗ نے ایک ایسی عبادت ہمیں عطا فرما دی، جو ہر شخص کو دن میں پانچ وقت یعنی کرنی پڑتی ہے پانچ وقت، صبح اس سے شروع اور رات سونے سے پہلے یہ مطلب وہاں تک۔ یہ مطلب گویا کہ ہماری پوری ایک دن کی، چوبیس گھنٹے کی ایک روٹین ہے، عین جس وقت سورج سر پہ کھڑا ہو، اس وقت بھی نماز ہے، جب شروع ہو رہا ہو یعنی جس کو کہتے ہیں روشنی شروع ہو رہی ہو، اس وقت بھی نماز ہے اور جس وقت روشنی کی آخری کرن بھی غائب ہو جائے، آسمانی روشنی کی، اس وقت بھی نماز ہے اور درمیان میں مزید دو نمازیں۔ پھر balance سبحان اللہ! یعنی آپ دیکھیں! ظہر کی نماز ہے، وہ تو وسط میں ہے۔ تو ایک عصر اور ایک مغرب کی نماز درمیان میں آگئی، تو اس طرف سے اشراق اور چاشت اگرچہ نفل ہے، لیکن یہ نماز بھی اگر ہم پڑھیں، تو ماشاء اللہ! وہ ایک balance آجاتا ہے۔ تو یہ جو نماز ہے، وہ کیا ہے؟ یہ اصل میں ہجرت ہے۔ نفس سے اللہ کی طرف ہجرت ہے، نفس سے اللہ کی طرف ہجرت ہے۔ آپ ﷺ کو معراج ہوئی تھی دنیا سے لامکان کی طرف، اس کو معراج شریف کہتے ہیں۔ تو یہ جو نماز ہے، یہ بھی اصل میں معراج ہے۔ ’’اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (نماز مومنین کی معراج ہے) یعنی گویا کہ اس میں ہم یہاں نہیں رہتے۔ جس وقت ہم نے تکبیر تحریمہ کہا، لوگ اصل میں ناموں پہ غور نہیں کرتے۔ تحریم کا مطلب کیا ہے؟ یعنی حرام کرنے والی۔ تکبیر تحریمہ یعنی ساری نفسانیت، تمام چیزیں، تقاضے حرام، اب نہیں کچھ کرسکتے۔ اب یہاں سے ہجرت کرلی، یہاں سے چلے گئے آپ، اب یہاں نہیں ہیں۔ باقی لوگوں کو بھی assume کرنا چاہئے کہ وہ یہاں نہیں ہیں اور خود کو بھی اپنے آپ کو assume کرنا کہ میں یہاں نہیں ہوں۔ کوئی آپ سے بات نہیں کرسکتا، کوئی آپ سے مشورہ نہیں کرسکتا، سلام کرے، آپ جواب نہیں دے سکتے، کیونکہ آپ یہاں نہیں ہیں۔ تو جس وقت آپ کو یہ پتا ہے کہ میں یہاں نہیں ہوں اور جب آئیں گے، تو پھر "السلام علیکم ورحمۃ" اللہ، دوبارہ دنیا میں آپ آرہے ہیں، سلام کے ساتھ آپ آرہے ہیں۔ تو گویا یہ جو وقت تمھارا تھا، یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا روحانی طور پر، آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دے دیا کہ تم میرے ساتھ ہو جاؤ۔ آپ اگر اس کو ضائع کرلیں، یہ آپ کی اپنی بات ہے۔ کوئی بادشاہ اگر کسی کو وقت دے دے اور وہ ادھر ادھر وہ دیکھتا رہے۔ اس بادشاہی محفل کا فائدہ نہ اٹھا دے۔ تو ظاہر ہے قصور اس کا ہے، اگرچہ بادشاہ نے تو اس کو موقع دیا ہے۔ تو اس طرح ہر نماز کے اندر اللہ تعالیٰ موقع دیتا ہے کہ تم میرے پاس آجاؤ، تمام دنیا سے کٹ کٹا کے آجاؤ۔ یہ سورۃ مزمل میں اس کا اشارہ موجود ہے،
﴿وَتَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا﴾2 (یعنی کٹ کٹا کے اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ)
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ نماز کو روحانیت کا ایک وقت سمجھیں کہ روحانیت میں ہے، اسی وجہ سے روحانیت کے جتنے تقاضے ہیں، وہ سارے کے سارے اس میں رکھے گئے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ سب سے پہلے ثناء ہے یعنی اللہ پاک کی ثناء، پھر اس کے بعد دنیا سے روحانیت کی طرف لے جانے کے لئے جو اسباب ہیں، وہ سورۃ فاتحہ میں سارے موجود ہیں، پورے موجود ہیں۔ یعنی اگر آپ دیکھیں! تو یہ اصل میں عالم ناسوت سے عالم لاهوت تک کے لئے ایک سفر ہے اور اس میں جو موانع ہیں، اس سے بھی اپنے بچنے کے لئے دعا ہے۔ کیسے؟ سب سے پہلے آپ اپنا ایک مطلب اقرار کرتے ہیں، ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾3 یعنی سب سے پہلے یہ والی بات کہ تمام چیزوں سے کٹ کٹا کے آپ جتنی چیزوں کی تعریفیں کررہے ہوں، تعریفوں سے کٹ کٹا کے اصل تعریف کرنے والے کی طرف چلے جاتے ہیں یعنی جس کی تعریف ہوسکتی ہے، وہ ہے ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ پھر وہ دو نام ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾4 جس میں اس دنیا میں، اس دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، سارا اس کے تابع ہے، پھر ﴿مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾5 جن کے ساتھ ہمارا آخری زندگی کا سارا وابستہ ہے کچھ، پھر ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾6 یہ گویا کہ ہم لوگ اللہ کی عبادت کرنے کی ٹھان لیتے ہیں اور اللہ ہی سے مانگنے کے لئے گویا اپنے آپ کو تیار کرلیتے ہیں۔ اس کے لئے سیدھے راستے پہ چلنے کا وہ ہے کہ اس پہ سیدھے راستے پہ چلیں، تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے مانگیں، ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾7 پھر راستہ ان لوگوں کا یعنی صراط مستقیم پہ چلنا کیسے ہے؟ ان لوگوں کا راستہ جن پر انعام ہوا ہے، ان لوگوں کے راستہ پہ چلنا ہے، صراط مستقیم ہے، پھر by process of elimination معلوم کرنا ہے کہ کون سا نہیں ہے صراط مستقیم، ان لوگوں کا راستہ صراط مستقیم نہیں ہے، جو ﴿الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ﴾8 جن پہ اللہ کا غصہ ہے، وہ لوگ بھی صراط مستقیم پر نہیں، جو لوگ گمراہ ہوچکے ہیں۔ گویا کہ یوں سمجھ لیں پورے کا پورا دین کا خلاصہ سورۃ فاتحہ میں آگیا۔ پھر اس کے بعد۔۔۔ سورۃ فاتحہ تو فاتحہ ہے نا، اس کے بعد تو پورا قرآن ہے، تو اگرچہ قرآن پاک کے کچھ حصہ کی قرأت کرلیتے، لیکن آگے گویا کہ آپ کہتے میرے لئے قرآن کے اندر رہنمائی موجود ہے، اس سے میں رہنمائی لوں گا۔ پھر اس کے بعد اتنی عظیم ہستی جن کا تذکرہ ہوا۔ تو اب یہ بات ہے کہ اس کے سامنے جھک جائیں، اس کی عظمت کا احساس کرتے ہوئے ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘۔ پھر جس وقت ہم دوبارہ اٹھیں، تو ہم اس بات کا اقرار کرلیں کہ واقعتاً ہم نے جو حمد کی ہے اللہ تعالیٰ کی وہ اللہ پاک نے سن لی ہے ’’سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ اور جب سن لی تو اپنی طرف سے بھی حاضری لگائیں ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘، پھر اس کے بعد تکبیر تو ہے ہر ہر لمحے میں۔ تو پھر جب انسان اعلیٰ کے سامنے جاتا ہے، تو اپنے آپ کو پستی میں پاتا ہے۔ جتنا انسان کسی اعلیٰ کے سامنے ہوتا ہے، اتنا ہی اپنے آپ کو پستی میں پاتا ہے، لہٰذا ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعَلیٰ‘‘ اس کے لئے ہم لوگ تمام کے تمام جھک جاتے ہیں یعنی سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ اس طریقے سے پوری رکعتیں ہم لوگ repeat کرلیتے ہیں۔ اخیر میں ہم لوگ معراج شریف کا ایک پورا rehearsal کرلیتے ہیں التحیات کی شکل میں، پھر درود شریف۔ پھر دعا۔
الغرض یہ ہے کہ یہ ساری باتیں مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ما شاء اللہ! یعنی نماز کی صورت میں مل رہی ہیں، نماز کی صورت میں مل رہی ہیں۔ تو جیسے میں عرض کررہا تھا کہ یہ کوئی شاعری نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے نماز، اس کو ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے۔
ترجمہ: ’’نماز قائم کرو‘‘۔(البقرۃ: 43)
(المزمل: 8)
ترجمہ: ’’تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔
ترجمہ:’’جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’جو روز جزاء کا مالک ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔
ترجمہ: ’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما‘‘۔
ترجمہ: ’’جن پر غضب نازل ہوا ہے‘‘۔