اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
47
وعدے جو کرتے ہو پورے بھی کرو
گر نہ ہوں پورے تو خام و سرد ہو
وعدہ خلاف آدمی کو سرد دل یا سرد مہر اس لیے کہا کہ اس میں اپنی صداقت کو قائم رکھنے کی سرگرمی نہیں ہوتی۔ خام کار اس لیے کہ وہ اپنے وعدوں کی بنا پر جو کام کرتا، کراتا ہے اس میں دوام اور پختگی نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کا اعتبار جاتا رہتا ہے اور کام بنتے بنتے بگڑ جاتے ہیں۔ ایفائے وعدہ شیوۂ پیغمبر ہے اور پیغمبروں کے حالات میں وعدہ وفائی کے بہت سے سبق آموز نظائر ملتے ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ "لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَ لَا تُمَازِحْہُ وَلَا تَعِدْہُ مَوْعِدَۃً فَتُخْلِفَہٗ"1 یعنی "تو اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر اور نہ اس سے (اس درجہ) مزاح کر (جس سے اسے تکلیف ہو) اور نہ اس سے کوئی وعدہ کر کے اس کے خلاف کر"
مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ مروت میں وعدہ کرلیتے ہیں مطلب کر نہیں سکتے، پورا نہیں کرسکتے، لیکن وہ مروت میں کرلیتے ہیں کہ اس کا دل دکھے گا، بھئی بعد میں جب پورا نہیں کرے گا تو پھر دل نہیں دکھے گا؟ پھر بھی تو دل دکھے گا بلکہ زیادہ دکھے گا، کیونکہ عین ممکن ہے آپ انکار کرلیں تو اپنے لئے کوئی بندوبست کرلیتا، کوئی راستہ اور ڈھونڈتا۔ اب آپ نے وعدہ کرلیا تو آپ نے خود بھی نہیں کیا اور اس کو دوسرے راستہ سے بھی روک دیا، تو نقصان ہوگیا ناں اس کے ساتھ
48
دل و جاں سے وعدہ پورا کرنا تو
در قیامت فیض اس کا دیکھ لو
وعدہ کو دل و جان سے پورا کرنا واجب ہے تاکہ تم قیامت میں اس (ایفائے وعدہ) کا فیض دیکھو۔
اب میں ذرہ پرانے، اس سے ایک بیان فارسی والا وہ کرتا ہوں، کیونکہ ظاہر ہے آپ حضرات تشریف لائے ہیں تو ہمارا تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا لیکن جو پرانے بیانات ہیں اس میں سے کچھ تھوڑا سا۔
دل کے کانوں سے سننا
(درسِ مثنوی شریف 11 اپریل 2023 کا اقتباس)
دفتر ششم حکایت نمبر 113
13
گوش دار آوازت آید دمبدمچُوں رسد بادہ نیاید جام کم
ترجمہ: کان کو متوجہ رکھ تجھ کو دم بدم آواز آئے گی۔ جب شراب مل گئی تو جام کی کوئی کمی نہیں (یعنی متوجہ بحق ہوجاؤ تو واردات کا القاء ہونے لگے گا۔ جب حسنِ حقیقی کی معرفت حاصل ہوگئی تو اس کے مظاہر کی کمی نہیں، جن میں اس کا مشاہدہ کیا کرو گے۔)
اب دیکھو میں آپ کو ایک طریقہ کی معرفت کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ لطیفہ قلب ہوتا ہے، نقشبندی حضرات اس کا بہت ذکر کرتے ہیں، اور حضرات بھی کرتے ہیں، لطیفہ قلب، دل کا ذکر۔ اب جب کہتے ہیں کہ آپ تصور کر لیں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے، اس وقت جو آپ کو کہا گیا، اس وقت آپ اس کی معرفت نہیں رکھتے۔ کیا کہا؟ جو پہلے پہلے آیا اس کی معرفت رکھتا؟ نہیں رکھتا، لیکن جو کہہ رہا ہے، وہ اس کی معرفت رکھ رہا ہے، اس کو اس کا experience ہے، اس کی معرفت رکھ رہا ہے۔ تو اب اپنے کان کو اس معرفت کی طرف متوجہ کرو، اپنے دل کے کانوں سے اس کی بات کو سن لو کہ ہو سکتا ہے، آپ چونکہ اس کے عارف نہیں ہیں تو آپ کے اندر سے آواز اٹھے گی کیسے ہوگا؟ لیکن اگر آپ اس پر اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ بتا رہا ہے تو ہوگا، اب یہاں سے گویا کہ کام شروع ہوگیا، جتنا آپ نے اس کے آواز پر کان لگایا اتنا اتنا اس کی معرفت کا کچھ حصہ آپ کی طرف منتقل ہونا شروع ہوجائے گا، ٹھیک ہے ناں؟ پھر آپ اس کی معرفت کے مطابق آپ کام شروع کرتے ہیں، یعنی جس طرح وہ کہتا ہے، اس کو نہ دیکھو کہ کیسے؟ یہ دیکھو کہ بتایا کیا ہے، بتایا کیا ہے؟ تو اس کو اس کے مطابق بیٹھ کر سوچنے لگو، سوچنے کی کیا بات ہے؟ بس اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ میرے دل میں ہو رہا ہے، سمجھ نہیں آ رہی، سمجھ نہیں آ رہی، لیکن بس مان رہا ہے، مان رہا ہے، اور یہی ماننا ہی کام بناتا ہے، تو اس نے ماننا شروع کیا، اور اس طرح کرنا شروع کر لیا، نتیجتاً کچھ عرصہ کے بعد تھوڑا تھوڑا جاننے لگ جاتا ہے کہ واقعی اس طرح ہو تو رہا ہے۔ ابھی تک پورا واضح نہیں ہے، لیکن بہرحال تھوڑا تھوڑا جاننے لگا، کچھ نہ کچھ ہو تو رہا ہے۔ اب اگر اس کچھ نہ کچھ معرفت سے اس کی اس معرفت کی طرف جس نے کہا ہے انتقال ہوگیا کہ اگر یہ اتنا ہو رہا ہے تو باقی بھی ٹھیک ہے، باقی بھی ہوگا، باقی بھی ہوگا، اور وہ اپنی کوشش میں مزید آگے بڑھے، یکسوئی کے ساتھ اَلْحَمْدُ للہ مطلب وہ جو ہے ناں متوجہ ہوجائے کہ اللہ اللہ میرا دل کررہا ہے، تو مزید یہ بات آگے بڑھے گی، نتیجتاً ایک وقت آئے گا کہ خوب وہ دیکھ رہا ہوگا کہ اللہ اللہ ہورہا ہے۔ اللہ اللہ ہورہا ہے۔ یعنی قلب کے اوپر کسی کی طاقت نہیں چلتی، آپ اپنے دل سے نہیں کروا سکتے، یہ تو تمہارے بس میں نہیں ہے، لیکن اس کام کے ذریعے سے جو معاملہ چلتا ہے، آہستہ آہستہ آپ کا نظام اس طرف چلنا شروع ہوجاتا ہے، اور آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوجاتے ہیں کہ سبحان اللہ یہ واقعی ایسا ہوتا ہے۔ اب جب یہ ہوگیا، آپ کو مزید یقین ہوگیا، اب دوسرا لطیفہ، تیسرا لطیفہ، پھر چوتھا لطیفہ، پھر پانچواں لطیفہ، اور اَلْحَمْدُ للہ ایک پورا نظام برپا ہوگیا، اتنا تو sense کے ساتھ ہوگیا، یہ صرف ہمارا sense ہے کہ ہو رہا ہے، اتنا کام تو ہوگیا کہ sense ہوگیا کہ ایسا ہو رہا ہے۔ اب وہاں سے آنا شروع نہیں ہوا کیونکہ رکاوٹیں ہیں، کیا بات ہے؟ رکاوٹیں ہیں۔ رکاوٹیں کس چیز کی ہیں؟ نفس کی ہیں، رکاوٹیں ہیں ابھی۔ ہم نے اِدھر سے لائن ملانا شروع کر لی، اب اُدھر سے جو آ رہا ہے اس کے لیے رکاوٹ ہے، وہ کیا ہے؟ وہ نفس ہے۔ تو جب یہ صورتحال ہوجائے تو فرماتے ہیں اب شوق جب پیدا ہوگیا، یہ جذب کہلاتا ہے، اس جذب کے شوق کو استعمال کر کے اپنے نفس کے ان موانع کو دور کرنا شروع کر لو، پتا چل گیا کہ اس چیز کے پیچھے پانی ہے لیکن پانی کے سامنے چٹان ہے، اس چٹان کو توڑنا پڑے گا، اس چٹان کے توڑنے پہ آپ لگ گئے، ہوتے ہوتے ہوتے، تھوڑا توڑا، زیادہ توڑا، زیادہ توڑا، حتیٰ کہ رستہ کھل گیا، اور پانی سبحان اللہ آنا شروع ہوگیا، بس یہی بات ہے۔ پھر لطیفہ قلب سے بھی آئے، لطیفہ روح سے بھی آئے گا، لطیفہ سر سے بھی آئے گا، لطیفہ خفی سے بھی آئے گا، لطیفہ اخفیٰ سے بھی آئے گا، اور ایک نظام ہے چل رہا ہے، پھر سبحان اللہ آپ حیران ہوں گے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن اس وقت تک یہ جو کام ہے تو کرنا پڑے گا ناں۔ اصل میں دیکھو یہ نظام مخفی جو ہے، یہ بھی اللہ پاک نے بنایا ہوا ہے، اور وہ نظام جو وحی کا ہے، وہ بھی اللہ پاک نے بنایا ہوا ہے۔ وحی کا نظام تو قطعی ہے، یہ نظام کیا ہے؟ ظنی ہے، وحی کا نظام کیا ہے؟ قطعی ہے، یہ نظام ظنی ہے، اگر آپ کا ظن صحیح مقام پہ پہنچ گیا تو جو وحی کہہ رہی ہے، وہی یہ بھی کہنے لگے گا، وہی یہ بھی کہنے لگے گا، لہٰذا آپ کو پتا چل جائے گا، واہ جی واہ! اس کو حضرت فرماتے ہیں شہود، ٹھیک ہے ناں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں؟ شہود، بس یہی چیز ہے۔ مطلب دیکھیں ناں یقین، علم الیقین، علم الیقین علم الیقین آپ کو ملا ہے، قرآن سے ملا، حدیث سے ملا، یہ آپ کو پورا یقین ہے کہ یہ قرآن ہے، یہ حدیث ہے، اور یہ سچ ہے، یہ غلط نہیں ہے، یہ علم الیقین کے طور پہ آپ نے مان لی، لیکن آپ نے ساتھ یہ محنت بھی جاری رکھی، اس محنت کے ذریعے سے جب آپ کو شہود ہونے لگا تو یہ علم الیقین عین الیقین سے ہوتے ہوئے حق الیقین تک پہنچنے کا راستہ بنا دے گا، علم الیقین آپ کے علم میں اضافہ کا ذریعہ ہے، لیکن چونکہ نفس کے عوامل موجود ہیں، لہٰذا عمل اس پہ ہونا آسان نہیں ہے، مشقت طلب ہے، مشقت طلب ہے، لیکن جس وقت یہ علم الیقین حق الیقین تک پہنچے گا، اس صورت میں جس وقت یہ نفس کے جو عوامل ہیں، وہ ختم ہو چکے ہوں گے، اس وقت آپ کو جو نظر آ رہا ہو اس کے مطابق آپ کر رہے ہوں گے، آپ کام کر رہے ہوں گے، جیسے صحابہ نے فرمایا تھا ’’اٰمَنّا وَصَدّقْنَا، اٰمَنّا وَصَدّقْنَا‘‘، ہم ایمان لائے اور ہم نے تصدیق کر لی، ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘، ہم نے سن لیا اور ہم نے مان لیا۔ اب تو بہت سارے لوگ سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، اور جب سن لیتے ہیں تو ان سنی کردیتے ہیں، تو نقصان کی بات ہے۔ ہمارا نفس درمیان میں حائل ہے، اب اس نفس کی جو ہے، جو رکاوٹیں ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے جو سلوک طے کرایا جاتا ہے، اس سلوک کے بارے میں بات ہوگی ان شاء اللہ، اس کے بارے میں بات ہوگی۔
ذات شناسیِ رومی سے خودیِ اقبال تک
(درسِ مثنوی شریف 26 جنوری 2021 کا اقتباس)
-19-
ای خنک آن را که ذات خود شناخت
اندر امنِ سرمدی قصری بساخت
ترجمہ: مبارک ہے وہ جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا۔ (اور ابدی) امن کے اندر (اپنے لیے) ایک محل (تعمیر) کر لیا۔
یعنی ذات کو پہچاننے کا مطلب کیا ہے؟ وہ ذرا عرض کرتا ہوں۔ انسانِ کامل جس کو اللہ تعالیٰ اپنا خلیفہ بنانا چاہتا تھا، اس کی جو صفات ہو سکتی ہیں، اس کی صلاحیت ہر انسان کے اندر موجود ہے، بے شک کوئی ضائع کیوں نہ کرے، لیکن ہے صلاحیت ہر انسان کے اندر حتیٰ کہ کافر میں بھی موجود ہے وہ صلاحیت موجود ہے۔ آخر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے جب مسلمان نہیں تھے، تو کیا کر رہے تھے؟ اور جس وقت مسلمان ہوگئے تو پھر کیا؟ تو کیا مطلب ان کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی؟ تو پہلے تو مطلب موجود تھا ناں تب ہی تو بعد میں اس طرح اس کا ظہور ہوا، تو کافر میں بھی وہ صلاحیت موجود ہوتی ہے، ہاں! اس کے لیے گویا کہ وہ environment چاہیے ہوتی ہے، وہ مطلب طریقہ کار چاہیے ہوتا ہے جس سے وہ نمو پا لے اور مطلب وہ چیز ظاہر ہوجائے۔ یعنی ہمارے تصوف کے اندر دو چیزیں ہیں، (اس کو اچھی طرح سمجھ لیں، یہ بہت بڑا نکتہ ہے) تصوف کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔ کیونکہ تصوف بذات خود ذریعہ ہے، یہ کوئی مقصود نہیں ہے، مطلب ذریعہ ہے، اور اس ذریعے کے لیے دو ذریعے ہیں، یعنی گویا کہ اس ذریعے کے دو ذریعے ہیں، دو طریقے سے گویا کہ یہ کام کرتا ہے، کیسے؟ ایک وہ جو ہمارے اندر ہیں لیکن ہم نے ان کو دبایا ہوا ہے، لیکن دبانا نہیں ہے، ان کو ظاہر کرنا چاہیے، اور ایک وہ جو ہمارے اندر ہیں جن کو دبانا چاہیے کیونکہ ان کو ایسا نہیں ہونا چاہیے، یعنی رذائل اور فضائل، رذائل اور فضائل۔ یعنی فضائل سے مراد وہ صلاحیتیں ہیں جو انسان کے اندر ہیں لیکن وہ ہمارے رذائل کی وجہ سے دبی ہوئی ہیں۔ ہر رذیلے کے پیچھے ایک فضیلت ہے، ریا کے پیچھے کیا ہے؟ اخلاص ہے، آپ ریا کو دبا دیں تو اخلاص آگے آ جائے گا، یعنی ریا کا نہ ہونا اخلاص ہے اور اخلاص کا نہ ہونا ریا ہے۔ تو اسی طریقے سے ہر رذیلے کے پیچھے ایک فضیلت ہے۔ اب کیا کرنا ہوتا ہے؟ اس فضیلت کو باہر نکالنا ہوتا ہے اور اس رذیلے کو دبانا ہوتا ہے۔ رذیلے کو دبانے کے لیے مجاہدہ ہے اور فضیلت کو اجاگر کرنے کے لیے یہ فاعلہ ہے۔ بس فاعلات اور مجاہدات یہ دو چیزیں ہیں جو تصوف کی بنیاد ہیں۔ فاعلات اور مجاہدات، بغیر اس کے کام نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ صرف فاعلات لیتے ہیں اور مجاہدات نہیں کرتے پھر بھی کام نہیں ہوگا، صرف مجاہدات کرتے ہیں فاعلات نہیں کرتے پھر بھی کام نہیں ہوگا، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو دونوں کرنے ہیں۔ تو اس وجہ سے مطلب ظاہر ہے آپ کو یہ استعمال کرنے ہوتے ہیں، اور شیخ چونکہ اس طریقے کو جانتا ہے کہ کسی رذیلے کو کیسے دبایا جا سکتا ہے اور کسی فضیلت کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ اس کام کو چونکہ جانتا ہے، اس کے اوپر گزرا ہوتا ہے، لہٰذا آپ جب اس کے ساتھ اپنے آپ کو attach کرتے ہیں، اس مقصد کے لیے attach کرتے ہیں تاکہ وہ آپ کو مطلب اس راستے پر لے جا سکے، بس یہی کام ہوتا ہے، ورنہ چیزیں آپ کے اندر خود موجود ہیں۔ میں نے کوئی بڑی جرأت والی بات تو نہیں کی ناں؟ کیوں بتا رہا ہوں؟ بعض لوگوں کو شاید یہ بُری لگے، اُن کا خیال ہوتا ہے شیخ ان میں ڈالتا ہے، کہتے ہیں یا نہیں کہتے؟ شیخ نہیں ڈالتا، اللہ پاک نے پہلے سے رکھا ہوا ہے، میری نظر اللہ پر کیوں نہ جائے، جاننی چاہیے ناں اللہ تعالیٰ نے پہلے سے رکھا ہوا ہے: ﴿فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا﴾2 دونوں چیزیں ہیں یا نہیں ہیں؟ دونوں چیزیں پہلے سے الہام ہیں، البتہ صرف یہ بات ہے شیخ کیا کرتا ہے؟ وہ procedure بتاتا ہے کہ کیا کرو تاکہ فضائل آگے آ جائیں اور رذائل دب جائیں، وہ اس پورے procedure کو جانتا ہے، اس طریقے کو جانتا ہے، کیونکہ یہ بڑی complicated چیز ہے۔ آپ تھوڑا سا غور کر لیں، معاشرت کے مسائل کو settle کرنا کتنا مشکل ہے، ہمارے پشتو میں کہتے ہیں: ’’دَ چیندخو تلل دی‘‘ یعنی کہ مینڈکوں کا تولنا ہوتا ہے، مینڈکوں کا تولنا یہ ہوتا ہے کہ آپ اتنے مینڈک لائے پھر سے jump لگا دیا، پھر آپ اور ڈالے پھر سے jump لگا دیا، تو یہ مطلب ہے کہ ایک رذیلے کو دباؤ دوسرا آیا، دوسرے رذیلہ کو دباؤ تیسرا آیا، مطلب یہ گویا کہ ایک عجیب قسم کا environment ہوتا ہے۔ اب شیخ کا کام کیا ہوتا ہے؟ وہی، ایک تو controlled dose دینا، ایک دم سارا نہ دینا، یہ مطلب شیخ کا کرنا ہوتا ہے، ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور دوسرا یہ ہے کہ راستے پہ باقاعدہ طریقے سے چلانا تاکہ وہ اس راستے کو طے کر سکے، تو یہ جو بات ہے مطلب ظاہر ہے وہ وہی کر سکتا ہے جو کہ پہلے اس راستے پہ گزرا ہو، جو پہلے راستے پہ، جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر کسی نے سلوک نہیں طے کیا تو نہ وہ خود پہنچا ہے اور نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے، نہ وہ خود پہنچا ہے نہ وہ دوسروں کو پہنچا سکتا، اس کی وجہ یہی ہے کہ جو خود نہیں اس راستے پہ گیا تو دوسروں کو کیسے لے جا سکتا ہے، اس کو معلوم ہی نہیں ہے۔ تو یہاں پر بھی یہ والی بات ہے جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا، یعنی اپنی صلاحیتوں کو پہچان لیا، اپنی صلاحیتوں کو پہچان لیا کہ مجھے اللہ نے کیا دیا ہوا ہے، اور اس کو میں استعمال کروں۔ میں آپ کو کیا بتاؤں! علامہ اقبال کی پوری شاعری صرف اسی چیز پر ہے، اگر میں کہہ سکتا ہوں تو، پوری شاعری صرف اسی نکتے پہ ہے، اسی کو elaborate کر رہا ہے، صرف اسی کو آگے بڑھا اسی کو explain کر رہا ہے، اسی کو سمجھا رہا ہے مختلف الفاظ میں سمجھا رہا ہے۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
یہی چیز سمجھا رہا ہے، تو تو شاہین ہے، توُ تو مومن ہے، توُ تو اللہ پاک کا خاص مطلب خلیفہ ہے، تو ان چیزوں میں کیوں پڑ گیا دنیا کی چیزوں میں۔
مجھے زیادہ اشعار تو یاد نہیں ہوتے تو اس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ تیرا سفینہ تو ہے بحر بیکراں کے لیے، تو فرات میں پھنس گیا ہے، تیرا سفینہ تو ہے بحر بیکراں کے لیے، تو ان چیزوں میں پڑ گیا۔
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیامہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
وہ یہی بار بار یہی کہہ رہا ہے، ہمارا کام کیا تھا ہم کس چیز کے لیے بنائے گئے تھے اور ہم کس چیز میں پڑ گئے ہیں، اور کون سے کام کر رہے ہیں، خودی کا مطلب صرف یہی ہے علامہ اقبال کا، اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے، یعنی اپنے نفس کو پہچاننا، اپنی صلاحیتوں کو جاننا، وہ مقام جاننا جو اللہ تعالیٰ تجھے دینا چاہتا ہے۔ ﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾3 وہ والی بات سمجھ میں آ جانا، یہ جو ہے ناں مطلب اصل بات تھی اور علامہ اقبال اس بات کو سمجھانا چاہتے تھے، آج پتا نہیں:
’’من چہ می سرایم و طنبورہ من چہ می سراید‘‘
کہ میں کیا کر رہا ہوں اور میرا طنبورہ کیا کہہ رہا ہے۔
تو علامہ اقبال کے جو شاہین ہیں، وہ پتا نہیں وہ کون سی باتیں کر رہے ہیں، اصل بات جو ہے ناں وہ یہ تھی کہ وہ قوم کو جگانا چاہتے تھے، اُن کی خفیہ جو مطلب صلاحیتیں ہیں صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ بننے کی اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بننے کی، اس طرح اور، تو یہ جو ہے ناں مطلب وہ کہتے ہیں تم وہ بن جاؤ، تم اس طرف آ جاؤ، یہ تم کن چیزوں میں پڑ گئے ہو؟
شکايت ہے مجھے يا رب! خداوندانِ مکتب سےسبق شاہيں بچوں کو دے رہے ہيں خاکبازی کا
یہی تو مطلب وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے یہ جو اسکولوں کے استاذ ہیں، ان سے یہ شکایت ہے کہ وہ جو ہے ناں شاہین بچوں کو جو آسمانوں میں اُڑتے تھے اور شکار کرتے تھے، اُن کو جو ہے ناں وہ زمین پر لَوٹنے کا طریقہ بتا رہے ہیں۔ تو یہ اصل میں بات ہے کہ مبارک ہے جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اور ابدی امن کے اندر اپنے لیے ایک محل تیار کر لیا۔
۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 1995)
۔ (الشمس:8) ترجمہ: ’’پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے۔‘‘
۔ (البقرة: 30) ترجمہ: ’’اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘