جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ بیان 1 اکتوبر 2023 کے خواتین بیان سے لیا گیا ہے

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان موجودہ مہنگائی اور پریشانیوں کو نہ صرف حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتا ہے بلکہ انسانی خواہشات اور عیش و عشرت کی بڑھتی ہوئی عادتوں کو بھی اس کی بنیادی وجہ بتاتا ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا ایک عارضی ٹھکانہ ہے اور اس سے بے جا محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔ انسان کو مال و دولت سے دل لگانے کے بجائے اپنی ضروریات کو محدود رکھنا چاہیے اور آخرت کی تیاری پر توجہ دینی چاہیے۔

بیان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ فقیر لوگ جنت میں امیروں سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ کمزوروں کی وجہ سے رزق دیتا اور مدد کرتا ہے۔ زہد کا مطلب صرف موٹے کپڑے پہننا یا سادہ کھانا کھانا نہیں بلکہ دنیا کی چیزوں سے لمبی امیدیں وابستہ نہ کرنا اور دل میں مال کی محبت نہ رکھنا ہے۔ اس میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مثال دی گئی ہے جنہوں نے اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور ان کا صدقہ جاریہ آج تک قائم ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب انسان کو مال ملتا ہے تو وہ اترائے نہیں اور جو چیز فوت ہو جائے اس پر غم نہ کرے، کیونکہ یہ سب اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے۔

بیان میں نشے کی لت کے نقصانات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ کس طرح یہ انسان کی صحت، مال اور عزت کو تباہ کر دیتا ہے۔ یہ نصیحت کی گئی ہے کہ لوگوں کے پاس موجود چیزوں سے بے رغبت رہیں تاکہ لوگ بھی آپ کو پسند کریں اور اپنے دل کو صرف اللہ کی محبت کے لیے خاص کریں۔ آخر میں یہ زور دیا گیا ہے کہ اپنی خواہشات کو ضروریات نہ سمجھیں، سادگی اپنائیں اور متکلفانہ زندگی سے بچیں تاکہ اندرونی سکون اور اطمینان حاصل ہو سکے۔

﴿وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّاۙ ۝ وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاؕ﴾1

فَالْأَکْلُ کَذٰلِكَ لَا یَکُوْنُ مِمَّنْ رَّضِيَ بِالْفَقْرِ، وَالْحُبُّ کَذٰلِكَ لَا یَکُوْنُ لِمَنِ اتَّصَفَ بِالزُّھْدِ۔

وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ:

''يَدْخُلُ الفُقَرَاءُ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ بِخَمْسِ مِائَةِ عَامٍ نِّصْفِ يَوْمٍ''2

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ:

''اِبْغُونِيْ فِيْ ضُعَفَاءِكُمْ، فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ''3

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ:

''إِذَا رَأَیْتُمُ الْعَبْدَ یُعْطیٰ زُھْدًا فِي الدُّنْیَا وَ قِلَّةَ مَنْطِقٍ فَاقْتَرِبُوْا مِنْهُ، فَإِنَّه یُلقِي الْحِکْمَةَ''4۔

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ:

''اِزْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبُّكَ اللهُ وَازْهَدْ فِِيْ مَا عِنْدَ النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ''5۔

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ:

''أَوَّلُ صَلَاحِ هٰذِهِ الْأُمَّةِ بِالْيَقِيْنِ وَالزُّهْدِ، وَأَوَّلُ فَسَادِهَا بِالْبُخْلِ وَالْأَمَلِ''6۔

وَقَالَ سُفْیَانُ: ''لَیْسَ الزُّھْدُ فِي الدُّنْیَا بِلُبْسِ الغَلِیْظِ وَالْخَشِنِ وَأَکْلِ الْجَشَبِ، إِنَّمَا الزُّھْدُ فِي الدُّنْیَا قَصْرُ الْأَمَلِ''7۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ۔ ﴿لِكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْؕ- وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ﴾8

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات! آج کل بہت زیادہ مہنگائی کا رونا رویا جارہا ہے۔ آج کل ہر شخص پریشان ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہورہی ہیں۔ کچھ لوگ دو دو تین تین کام کرتے ہیں پھر بھی مسائل حل نہیں ہوتے۔ یہ معاملہ یکطرفہ نہیں ہے بلکہ دو طرفہ ہے، دو طرفہ اس معنے میں ہے کہ ایک طرف تو واقعی مہنگائی ہے اور پریشانیاں ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن وہ بھی ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے، اگر کوئی کہتا ہے کہ حکمرانوں کی وجہ سے آتا ہے تو حکمران ہم لوگوں نے منتخب کیے ہوئے ہیں: "اَعْمَالُکُمْ عُمَّالُکُمْ" تمہارے جو حکمران ہیں وہ تمہارے اعمال ہیں، وہ بھی ہمارا ہی کرتا دھرتا ہے، لیکن دوسری طرف ہماری خواہشات اور عیش و عشرت کی جو زندگی ہے جس کے ہم عادی ہیں، وہ اتنی آگے بڑھ گئی ہے کہ اس کے لئے ہمارے وسائل پورے نہیں ہورہے ہیں، نتیجتاً جب وسائل پورے نہیں ہورہے ہیں، اخراجات زیادہ ہیں آمدنی کم ہے، پریشانی تو ہوگی، یہی وجہ ہے۔ کیسے اخراجات بڑھ گئے ہیں؟ لوگ مجھ سے سوال کریں گے۔ وہ جو پہلے عیش و عشرت کی بات تھی وہ اب ضرورت سمجھی جارہی ہے، مثلاً refrigerator ہے یہ اب ضرورت ہے، ضرورت سمجھی جارہی ہے، AC ہے اس کو ضرورت سمجھا جارہا ہے، اور کار، اس کو بھی ضرورت سمجھا جارہا ہے، ایک وقت میں ایک سالن سے زیادہ یہ اب ضرورت سمجھا جارہا ہے اور تو چھوڑیں اپنے گھر کے صاف ستھرے کھانے کو چھوڑ کر ہوٹلوں پہ جا کر کھانا یہ اب ضرورت سمجھا جارہا ہے، مطلب یہ سب ہم لوگوں نے پیدا کیے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور اگر کوئی کہہ دے کہ بھئی ایسا نہیں ہونا چاہئے، کہتے ہیں پھر زندگی کا کیا مزہ؟ چونکہ اسی زندگی کو مقصد سمجھا گیا ہے تو پھر تو یہی کہیں گے۔ تو اس کا جو حل ہے وہ کیا ہے؟ تو آج کا جو موضوع ہے وہ اصل میں یہی ہے:

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

مطلب یہ ہے کہ یہاں اگر چیزوں کے ساتھ ہم نے جی لگا لیا تو پھر تو یہ تماشا ہوگا پھر ہم تماشا بنیں گے، لیکن اگر ہم نے دنیا کے ساتھ جی نہیں لگایا، جی ہم نے آخرت کے ساتھ لگایا اور دنیا میں گزارا کررہے ہیں، سبحان اللہ! پھر اللہ پاک ہمیں وہ کچھ نصیب فرمائے گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا ہماری ضرورت ہے لیکن دنیا کے ساتھ محبت یہ ہمارے لئے نقصان دہ ہے، ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيْئَةٍ‘‘9۔ ’’دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔‘‘ اور ’’اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ‘‘ ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔ یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ اس دنیا کو اگر ہم آخرت کمانے کے لئے استعمال کرتے ہیں پھر تو یہ دنیا بڑی اچھی چیز ہے اس کا ایک ایک لمحہ ایک ایک منٹ ایک ایک سیکنڈ بہت قیمتی ہے، مثلاً مجھے ایک سیکنڈ مل گیا زیادہ، اس میں میں نے کہا ’’اَللّٰہ‘‘، مجھے ایک دفعہ زیادہ نصیب ہوگیا، سبحان اللہ! اس کا اجر ہم وہاں دیکھیں گے ان شاء اللہ کہ کتنا اجر ملا اس کا۔ اور خدانخواستہ ہم نے اس دنیا کے ساتھ محبت کرکے آخرت کی چیز کو چھوڑ دیا تو پھر وہاں پریشانی ہی پریشانی ہوگی اور یہاں بھی اطمینان نصیب نہیں ہوگا، یہ بات میں نے کس چیز سے شروع کی تھی؟ بے اطمینانی سے شروع کی تھی کہ لوگوں کو اطمینان حاصل نہیں ہے، اطمینان کب حاصل ہوتا ہے؟ اطمینان اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب تک آپ کا دل کم میں لگا ہو تو اس سے تھوڑا زیادہ مل جائے، اطمینان، اور اگر آپ کا دل بہت زیادہ چاہتا ہو اس دنیا میں، تو اس سے کم ملے گا تو بے اطمینانی، یہی بات ہے۔ تو گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے دل کی demand جو ہے وہ ہمارے اطمینان کا فیصلہ کررہی ہے کہ ہمارے دل کی demand کیا ہے؟ اگر ہمارے دل کی demand یہاں پر دنیا کے لحاظ سے کم ہے اور آخرت کے لحاظ سے زیادہ ہے، تو آخرت کی چیز ہمیں نہیں ملے گی تو بے چین ہوں گے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، آپ ﷺ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرما رہے ہیں: "اَرِحْنِیْ یَا بِلَالُ"10 اے بلال مجھے راحت پہنچا اذان دے کر۔ تو آپ ﷺ کو راحت کس چیز سے مل رہی تھی؟ اذان سے راحت مل رہی تھی، اس وقت راحت لوگوں کو بظاہر کس چیز سے ملتی ہے؟ میوزک سے ملتی ہے، تو پھر کیا ہوگا؟ پھر تو یہی چیز ہوگی۔ کیونکہ قرآن کی تلاوت، اذان، صحبتِ صالحین، یہ چیزیں ایسی ہیں جو کہ بعد میں انسان کو ما شاء اللہ اطمینان دلاتی ہیں، اُس وقت پتا نہیں چلتا لیکن بعد میں اطمینان اس سے ملتا ہے اور جو میوزک ہے وہ اس وقت فوری طور پر instant آپ کو مزہ ہوگا لیکن وہ آپ کے اطمینان کو کھرچ رہا ہے، آپ کو مزید بے اطمینان کررہا ہے، تو یہ بات ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو یہ نشے جو ہوتے ہیں یہ کیا چیز ہے؟ دنیا میں ہم نشے والوں کو دیکھتے ہیں ناں کہ جو نشے والے ہیں ابتدا میں تھوڑے نشے سے ان کو، تھوڑے سے جو ہے ناں ان کو نشہ ہوجاتا ہے، بعد میں اس پہ عادی ہوجاتے ہیں تو اس سے زیادہ چاہتے ہیں، بعد میں جب اس پہ عادی ہوجاتے ہیں تو اس سے بھی زیادہ چاہتے ہیں، تو اس طریقے سے وہ گویا کہ اس کی جو طلب ہے اس کی بڑھتی جاتی ہے، تو اگر اس سے کم ملتی ہے تو بے اطمینان ہوتا ہے، تو اگر بڑھا دو گے تو صحت کا کباڑا ہے، کم کرو گے تو اطمینان نہیں ہے، اب بتاؤ فائدہ کیا ہوا؟ اگر بڑھاتے ہو تو صحت کا کباڑا ہے، مثلاً شراب کو لے لو، تو میں جرمنی میں تھا، میں نے اپنے ڈاکٹر سے کہا کہ please check my liver میرا جگر جو ہے ناں اس کو آپ چیک کرلیں کہ اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے، اس نے مجھے فوراً کہا I will not check your liver میں تمہارے جگر کو چیک نہیں کروں گا، میں نے کہا کیوں؟ اس نے کہا کیونکہ آپ مسلمان ہیں اور مسلمان شراب نہیں پیتا، جو شراب نہیں پیتا اس کا جگر کیوں خراب ہو۔ یہ مجھے ایک عیسائی ڈاکٹر کہہ رہے ہیں، ایسے سیدھی سیدھی بات، فوراً کہہ دیا I shall not check your liver کیونکہ آپ مسلمان ہیں اور مسلمان شراب نہیں پیتا اور جو شراب نہیں پیتا اس کا جگر کیوں خراب ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شراب ایک نشہ ہے، اس کے بعد demand پھر بڑھتی ہے، بڑھتی ہے بڑھتی ہے اتنی بڑھتی ہے کہ صحت کا کباڑا کردیتا ہے، اس طرح چرس ہے افیون ہے اور یہ دوسرے ہیروئین وغیرہ تو بڑی خطرناک چیز ہے، اللہ تعالیٰ بچائے۔ آج کل ہمارے جوانوں کے اندر یہ چیز پھیل رہی ہے، کالجوں میں یونیورسٹیوں میں باقاعدہ ایک سازش کے تحت یہ چیز پھیلائی جارہی ہے اور طریقہ یہ کرتے ہیں کہ پہلے مفت پلاتے ہیں، gang جو ان کا ہوتا ہے دوست اور یاری دوستی کا، کہتے ہیں اس لئے تو کہتے ہیں ناں بھئی ذرا دوستی کے لئے جو منتخب کرو تو اس میں ذرا سوچو کہ اس کا مجھے فائدہ ہے یا نقصان ہے، تو جن کی یاری دوستی ایسے لوگوں کے ساتھ ہوگی تو پھر ان کو لے جاتے ہیں گپ شپ میں پھر ان کو ظاہر ہے یہ جو ہیروئین ہے اس کا، تو ایسی عجیب چیز ہے کہ اس کا تو دھواں لیتے ہیں ناں تو پاس بھی بیٹھا ہو تو اس کو وہ تو متاثر ہوگا، تو اس وقت اس کو ایک عارضی فرحت نصیب ہوتی ہے ملتی ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ تو بہت زبردست چیز ہے پھر خود ہی اس کا شوق ہوجاتا ہے تو پہلے مفت پلاتے ہیں جب عادی ہوجاتا ہے اچھی طرح پھر پیسے بٹورتے ہیں اور پھر اچھی طرح کنگال کرتے ہیں صحت بھی ان کی خراب کرلیتے ہیں، اس وقت پاکستان کے اندر اور ہندوستان کے اندر اگر چور ہیں تو زیادہ تر ہیروئینچی ہیں، اگر اپنی عصمتوں کو بیچنے والے ہیں تو ہیروئینچی ہیں، مردوں میں بھی عورتوں میں بھی، کیونکہ ان کو لت جو پڑ جاتی ہے، اس کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنا سب کچھ لوٹاتے ہیں اپنی عزتیں بھی لوٹاتے ہیں اپنا مال بھی لوٹاتے ہیں اپنا خاندان بھی لوٹاتے ہیں، بعض گھر تباہ ہوگئے اس طریقے سے کہ شوہر ہیروئینچی ہوگیا تو بیوی کا زیور چوری ہوگیا، وہ پتا نہیں گھر کی فلاں چیز غائب ہوگئی، تو فلاں چیز غائب ہوگئی، پتا چلا کہ وہ تو یہ کررہا ہے، اور یہ پھر اتنے بے حیا اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں کہ ان کو مارو ان کو کوئی پروا نہیں ہے، ان کو گالیاں دو ان کو کوئی پروا نہیں، کیونکہ ان کو صرف ایک خواہش ہوتی ہے کہ مجھے ہیروئین مل جائے۔ میں یہاں بازار میں کسی کام سے گیا تو بہت سارے sweeper جمع تھے، میں نے کہا یہ کیا بات ان کا کوئی خواہ مخواہ کوئی جلسہ ہے یا کوئی پروگرام ہے کیا چیز ہے؟ تو میں ذرا معلوم کرنے کے لئے ٹھہر گیا، میں نے کہا آخر یہ کیا کررہے ہیں؟ تو وہاں اندر کی طرف جو جگہ تھی، اندر پتا نہیں دکانیں ہیں یا نہیں، کبھی میں تو نہیں گیا تھا لیکن اس وقت میں چلا گیا تو وہ جو ہے ناں وہ ایک نوجوان سا sweeper تھا وہ آیا تو اس نے پُڑی اٹھائی ہوئی تھی اس کو اس طرح دکھایا سب لوگ اس کے پیچھے چل پڑے، کیا بات تھی؟ اب وہ جاکر اس کا دھواں نکالیں گے اور دھواں میں شرکت کریں گے اور سب کی عیش ہوجائے گی، یہ ہے life۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ جو چیز ہے ناں میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ دنیا کی جو چیزیں ہیں ناں ان کا معاملہ اس طرح ہی ہوتا ہے، فوری طور پر تو آپ کو اس کا اثر ہوگا لیکن بعد میں اگر آپ اس کے عادی ہوگئے ہیں اور اس کی لت پڑ جائے تو پھر بڑا نقصان ہوگا، یہ دنیا کی ساری لذتوں کے ساتھ ہے، دیکھیں میں آپ کو بات بتاؤں، یہ ہمارے مسالے جو ہیں جو ہم کھاتے ہیں یہ مسالے نہیں تھے یہ حکیموں نے نسخے بتائے تھے کہ اپنے کھانے میں یہ چیزیں ملا دیا کرو تو اس کا یہ فائدہ ہوگا اس کا یہ فائدہ ہوگا اس کا یہ فائدہ ہوگا، وہ ایک controlled amount ہر چیز کی ملائیں تو اس سے ایک نسخہ بنتا ہے، لیکن اگر آپ اس کو taste کے حساب سے لیں کہ بھئی اس میں یہ چیز بڑھ جائے تو مزہ زیادہ ہوگا، تو مزہ تو زیادہ ہوجائے گا لیکن نسخہ تو باقی نہیں رہے گا وہ نسخہ تو نہیں رہے گا ناں، چونکہ ہر چیز کی ایک خاص مقدار مفید ہوتی ہے اس سے زیادہ ہوجائے گا تو اس سے نقصان شروع ہوجاتا ہے، paracetamol یہ گولی ہے اور اس کو عام لوگ بھی جانتے ہیں استعمال کرتے ہیں بخار میں، بخار اس سے اتر جاتا ہے، ایک کھا لو یا دو کھا لو بخار اتر جائے گا۔ لیکن اگر آپ ایک دم بیس گولیاں کھا لیں تو بخار کے ساتھ آپ کا liver بھی اتر جائے گا، مطلب یہ ہے کہ وہ بھی خراب ہوجائے گا، اب کیا چیز ہے؟ تو یہ تو مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کی اپنی ایک مقدار ہے تو دنیا کی جو مقدار ہمارے لئے مفید ہے ناں وہ کتنی ہے؟ وہ بتاتا ہوں۔ دنیا کی جو مقدار ہے وہ ہمارے لئے اتنی مفید ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے اتنی قوت حاصل کرلیں کہ اپنی عبادات، اپنے معاملات صحیح طور پہ کرسکیں، یہ کیا ہے؟ یہ ہے دنیا جو بضرورت ہے، اتنی دنیا ہمارے لئے کافی ہے باقی اس سے زیادہ جو ہے اس میں کچھ gray area ہے ایک خاص حد تک زیادتی قابل برداشت ہے اگر آپ میں قوت ایمانی ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ اس پہ شکر کرسکیں اور آپ مطلب یہ ہے کہ اس کو صحیح طور پہ برت سکیں، اس کے جو حقوق ہیں وہ پورے کرسکیں۔ مثلاً زکوٰۃ اس میں نکال سکیں، پڑوسیوں کی خدمت کرسکیں، رشتہ داروں کو کھلا سکیں، مطلب یہ اس کی مطلب وہ جائز ضروریات ہیں اس کو پورا کرسکیں تو پھر یہ ٹھیک ہے۔ لیکن ایک حد سے زیادہ جب ہوجاتا ہے تو پھر یہ چیز نہیں رہتی، کیسے نہیں رہتی؟ بتاتا ہوں، آپ کو دس روپے میں پانچ روپے خیرات کرنے والے بہت ملیں گے، جس کی جیب میں دس روپے ہیں اس میں پانچ روپے خیرات کرسکتا ہے۔ کیوں ہوسکتا ہے نہیں ہوسکتا؟ لیکن دس لاکھ میں کوئی پانچ لاکھ کرسکتا ہے؟ کتنے لوگ ہوں گے؟ دس لاکھ میں کوئی پانچ لاکھ خیرات کرسکتا ہے؟ وہ زکوٰۃ نہیں دے سکتا پانچ لاکھ روپے خیرات کرنا تو بڑی بات ہے زکوٰۃ تو صرف ڈھائی فیصد ہے، اس کے لئے بہانے ڈھونڈتا ہے کیونکہ مال کے ساتھ محبت ہوگئی ہے کثرتِ مال نے اس کو جکڑ لیا ہے، کثرتِ مال نے اس کو جکڑ لیا ہے۔ وہ ایک دکاندار تھے، ایک سادہ آدمی آیا اس نے اپنا ایک روپیہ، اس وقت روپیہ کی بڑی قیمت تھی، وہ اس کا گلہ جو تھا ناں مطلب جس میں پیسے ڈالتے ہیں اس کی طرف اس طرح کیا تھا اس نے کہا بھئی کیا کررہے ہو؟ کہتے ہیں لوگوں نے کہا پیسے پیسے کو کھینچتا ہے، تو اس نے کہا چلو کھینچو، تو پیسے کیا کھینچتا، تو آخر میں غصے ہوکر اس نے پھینک دیا اس میں گلہ میں پھینک دیا کہ اس نے تو کام نہیں کیا، تو اس نے کہا دیکھو ناں کھینچ لیا ناں زیادہ پیسوں نے تھوڑے کو کھینچ لیا، زیادہ پیسوں نے تھوڑے کو کھینچ لیا۔ بات تو ٹھیک ہوگئی۔ تو اسی طریقے سے کثرت مال جو ہے وہ تمہیں اپنی طرف پھر کھینچے گی، پھر تمہاری value نہیں رہے گی پھر مال کی value رہے گی، یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے جب آپ کا مال بڑھ جائے تو مال کی value اکثر مطلب پھر آدمی کی value ختم ہوجاتی ہے جو مالدار ہے اس کی value ختم ہوجاتی ہے value کس چیز کی بن جاتی ہے مال کی کیونکہ وہ اپنے اوپر بھی خرچ نہیں کرسکتا پھر اگر اس کی اپنی value ہوتی اپنا مال اپنے اوپر تو خرچ کرتا ناں، پھر اپنے اوپر بھی خرچ نہیں کرسکتا، جو اس کے لئے آخرت میں فائدہ ہے اس کا ہی فائدہ ہے ناں وہ بھی نہیں کرسکتا یعنی گویا کہ روح پہ خرچ نہیں کرسکتا جسم پہ خرچ کرسکتا ہوگا اور وہ بھی پورا نہیں، تو پھر اس کا مطلب اپنا فائدہ تو اس کا نہیں ہوا ناں اس میں، جب اپنا نہیں ہوا تو مال کی قیمت بڑھ گئی اور آدمی کی قیمت کم ہوگئی۔ تو یہی چیز ہے کہ مال کے ساتھ جو محبت ہے یہ خطرناک ہے۔

تو اب دیکھو اللہ پاک کیا فرماتے ہیں، یہ بات سن لو۔ اللہ جل شانہٗ فرماتے ہیں تم لوگ میراث کا مال سارا سمیٹ کر کھاتے ہو، یعنی دوسرے شرکاء اور مستحقین کو بھی نہیں دیتے اور مال سے بے انتہا محبت کرتے ہو، میراث ایسا مال ہے جس میں آپ نے کچھ بھی نہیں کیا، جو آپ نے خود کمایا وہ تو علیحدہ چیز ہے ناں اس کی تو بات الگ ہے، لیکن میراث ایسا مال ہے جس میں آپ نے خود کچھ نہیں کیا، آپ کو مفت میں مل رہا ہے، تو جو مال آپ کو مفت مل رہا ہے اس میں بھی آپ جو مستحقین دوسرے اس کے ہیں، دوسرے وارث ہیں جو کمزور ہیں، ان کا مال ہڑپ کرجاتے ہو، تو یہ اعلیٰ درجے کی حرص ہے، یہ اعلیٰ درجے کی، مثلاً آپ نے کوئی مال کما لیا اور وہ آپ کسی کو نہیں دے رہے تو یہ بھی حرص ہے، مطلب یہ کہ آپ اچھے کاموں میں خرچ نہیں کررہے، بخل ہے، تو مال کی حرص ہے تبھی تو بخل ہے، تو وہ بھی۔ لیکن جو مال آپ نے خود کمایا نہیں اور پھر اس میں آپ بخیل نہیں حریص ہیں کہ آپ اس دوسرے کے مال کو ہڑپ کررہے ہیں اور آپ جو ہے ناں مطلب ہے کہ اس کو برا بھی نہیں سمجھ رہے۔ تو یہ بات ہے کہ اللہ پاک ہمیں اس سے بچائے، تو جو فقر ہے وہ مطلب یوں سمجھ لیجئے کہ تنگدستی، اور تنگدستی سے مراد یہ ہے کہ مطلب آپ کے ہاتھ پیر اتنے کھلے نہیں ہیں آپ بہت زیادہ خرچ نہیں کرسکتے، تو اس پر قناعت کرنے کا حکم ہے، اسی کو زہد کہتے ہیں، اس پر قناعت کرنے کا حکم ہے یعنی جو اللہ پاک نے آپ کو دیا ہے اس پہ آپ قناعت کرلیں کہ ہاں بس میری قسمت میں اتنا تھا مل گیا، یہ نہیں کہ آپ مال کمانے کی کوشش نہ کریں، یہ نہیں ہے۔ ہوتا کیا ہے محنتیں تو سارے کررہے ہیں لیکن کیا سارے لوگ ایک جیسے ہیں؟ بلکہ اگر دیکھا جائے تو بعض لوگ محنت کم کرتے ہیں اور مالدار زیادہ ہوتے ہیں اور بعض لوگ بہت محنت کرتے ہیں مالدار کم ہوتے ہیں، مثلاً مزدور کو آپ لے لیں مزدور زیادہ محنت کرتا ہے لیکن اس کے پیسے کم ہیں، اس کے مقابلہ میں جو کرسی پہ بیٹھنے والے لوگ ہیں، جو صرف کاغذ قلم چلانے والے لوگ ہیں وہ زیادہ کماتے ہیں یا دکان پر بیٹھے لوگ ہیں وہ زیادہ کماتے ہیں، تو کیا بات ہے؟ مطلب محنت والی بات نہیں ہے، وہ تو جتنا مقدر میں ہے اتنا ملتا ہے چاہے، آپ کو محنت کرکے ملے چاہے بغیر محنت، جیسے میراث کا مال بغیر محنت کے ملتا ہے، اس میں تو انسان کچھ بھی محنت نہیں کرتا، تو اس کو مل جاتا ہے۔

وہ ہمارے ایک کزن ہیں اس کا بیٹا امریکہ چلا گیا وہاں اس نے پتا نہیں کسی موقع پہ ایک بڑھیا کی خدمت کی، پتا نہیں اس کو بچایا یا کیا بات ہے، وہ تفصیل ہمیں معلوم نہیں ہے لیکن اس کی خدمت کی، بڑھیا اس کا بڑا خیال رکھنے لگی، تو اس بڑھیا نے کچھ عرصے کے بعد اس سے کہا میں اپنا سارا مال آپ کے نام کرنا چاہتی ہوں، اس نے کہا کہ یہ کیوں؟ ایسا تو نہ کریں مطلب مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ اگر آپ یہ نہیں مانتے تو پھر میں بلی کے نام کرتی ہوں، اس کا کوئی وارث تھا نہیں، پھر میں بلی کے نام اس کو کرتی ہوں، تو اس نے کہا کہ بلی کے نام سے تو پھر بہتر ہے کہ میرے نام ہو، تو انہوں نے کہا پھر ٹھیک ہے کرلو۔ اب اس کا بہت بڑا گھر ادھر ملا ہے اور سارا کچھ مطلب اس کو مفت میں سارا کچھ مل گیا، اب اس نے کیا محنت کی اس میں، کچھ بھی نہیں کیا، لیکن اس کو مل گیا۔ تو اس طرح بھی ہوتا ہے ناں، اس طرح بھی ہوتا ہے، سب کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا لیکن کسی کے ساتھ ایسا بھی ہوسکتا ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ جتنا آپ کو اللہ نے دیا ہے اس پر قناعت ہو، کسی کو تھوڑا دیتے ہیں کسی کو زیادہ دیا، یہ مطلب اس کی حکمت ہے کہ کس کو کس حالت میں رکھتے ہیں، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں اگر ان کو مالدار بنا دیا جائے تو دین سے نکل جاتے ہیں، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو غریب ہوجائیں تو دین سے نکل جاتے ہیں، تو جو غریب ہونے سے دین سے نکلتا ہے اللہ پاک اگر اس کو تھوڑا سا دیتے ہیں تو یہ ان کے ایمان کی حفاظت ہے اور اگر مالدار مطلب جو ہے ناں جو مال سے دین سے نکل جاتے ہیں تو ان کو جو نہیں دیتے تو ان کے ساتھ احسان ہے کیونکہ وہ اپنے ایمان کو بچا سکتے ہیں، تو بہرحال فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو جتنا کسی کے بارے میں فیصلہ ہو اس پر وہ کیا ہے؟ مطمئن ہوجائے اور اس پہ قناعت کرے۔ اسی کو کہتے ہیں زہد کہ مال وغیرہ کی طرف رغبت اور محبت نہ کی جائے اور یہ خود مامور بہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص فقر پر راضی ہو وہ اس طرح اندھا دُھند کام نہیں کر سکتا اور جو شخص زاہد ہو اس کو اس طرف التفات بھی نہیں ہو سکتا۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’فقیر لوگ جنت میں امیروں سے پانچ سو سال یعنی آدھا دن پیشتر داخل ہوں گے۔‘‘ فقراء، یہ عام حکم ہے یہ نہیں اس میں special case نہیں ہے، special case بہت ہیں۔ مطلب وہ کچھ لوگ ہیں جو مالدار بھی ہیں، آپ ﷺ کے وقت میں بعض غریب صحابہ تھے، انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہمارے پاس تو مال نہیں کہ ہم زکوٰۃ دے دیں یا ہم اس کی خیرات کرتے، یہ کرتے وہ کرتے، مالدار لوگ بہت آگے چلے گئے ہیں ہم کیا کریں؟ آپ ﷺ نے ان کو کچھ ذکر سکھایا کہ یہ کرو تو اس کا قائم مقام۔ اب مالداروں کو اس کا پتا چل گیا اس وقت مالدار بھی ایسے نہیں تھے، انہوں نے بھی وہ شروع کردیا، انہوں نے شروع کیا تو، پھر انہوں نے شکایت کی یارسول اللہ اب تو یہ ہوگیا۔ فرمایا اب میں کیا کروں اگر اللہ پاک نے ان کو دیا ہے تو اس میں میں کیا کروں؟ تو مقصد میرا یہ ہے کہ یعنی special case ہیں دونوں طرف ہیں، ایسے غریب بھی ہیں جو غریب بھی ہیں اور تباہ حال بھی ہیں آخرت کے لحاظ سے، ایسے مالدار بھی ہیں جو تباہ حال ہیں آخرت کے لحاظ سے، ایسے غریب بھی ہیں جو آخرت کے لحاظ سے بہت آگے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت کچھ دیا ہے ادھر کے لئے، اور ایسے مالدار بھی ہیں جن کو آخرت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے، وہ خیرات کے ذریعہ سے اور صدقات کے ذریعہ سے اللہ پاک ان کو آگے لے جاتے ہیں۔ اب جیسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، اب عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا مال بظاہر ان کا تھا، بظاہر ان کا تھا، اگر کہا جاتا کہ یہ کس کا ہے؟ تو کس کا بتاتے ہم؟ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔ لیکن حقیقت میں وہ دوسرے لوگوں کا تھا، کیونکہ اکثر وہ خود اپنے اوپر اتنا خرچ نہیں کرتے جتنا دوسروں پہ خرچ کرتے تھے۔ وہ ایک واقعہ ہے آپ ﷺ نے ایک صاحب کو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا جاؤ وہ آپ کی مدد کریں گے، کیونکہ آپ ﷺ لوگوں سے قرض لے کر بھی لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں کے پاس بھی بھیج دیا کرتے تھے، تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیا، اب وہ جس وقت گیا تو وہ اس وقت ایسی حالت تھی کہ رات ہونے والی تھی تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز آئی کہ اپنے گھر والوں سے کہہ رہے ہیں یہ دیا ویسے جل رہا ہے اس کو بجھا دو اس کی ضرورت اب کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ کمال ہے یہ تو مجھے تو آپ ﷺ نے ان کے پاس بھیجا ہے یہ تو دیا بھی برداشت نہیں کرسکتا تو مجھے کیا دے گا، تو دروازہ خیر بہرحال کھٹکھٹانا تھا، دروازہ کھٹکھٹایا تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے، جی کیا بات ہے؟ جی مجھے آپ ﷺ نے آپ کے پاس بھیجا ہے، انہوں نے کہا فرمایئے، کوئی خدمت؟ یہ کہ آپ میری مدد کریں گے، کہا ہاں ٹھیک ہے، تشریف لایئے۔ ان کو بٹھا دیا، اب بٹھا کر جو ہے ناں وہ ان کو کچھ پوچھا کر پھر اس کے بعد چیزیں لائے ہیں، اچھا یہ بھی آپ کا، پھر اور لائے یہ بھی آپ کا، پھر یہ بھی آپ کا، وہ حیران ہورہا ہے کہ کیا وہی عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، آخر میں اس نے پوچھا انہوں نے کہا کہ حضرت سمجھ نہیں آئی ہے، کہتے کیا بات ہے؟ کہتے ہیں ابھی میں نے باہر یہ بات سنی ہے اور ابھی آپ اس طرح دے رہے ہیں، یہ کیا بات ہے؟ فرمایا وہ تو میرے ساتھ معاملہ تھا ناں تو میرے ساتھ تو اللہ حساب کرے گا کہ آپ نے اپنے اوپر کیا خرچ کیا ہے؟ تو اس کا حساب تو میں نہیں دے سکتا، تو میں کہتا ہوں کہ تھوڑے سے تھوڑا خرچ ہو تاکہ حساب نہ ہو۔ اور یہ آپ کو جو دے رہا ہوں اس کا تو اللہ میرے ساتھ حساب نہیں کرے گا اس پر تو اللہ پاک اجر دے گا، تو میں کیوں آپ کو نہ دوں۔ اب یہ بات ہے۔ اب اس وجہ سے ما شاء اللہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ تین دفعہ تو آپ ﷺ کی طرف سے بشارت ملی ہے جنت خریدنے کی، تین دفعہ، یعنی باقاعدہ جنت خریدی ہے کیونکہ آپ ﷺ اعلان فرماتے کہ اگر کوئی یہ کام کرے گا تو جنت خرید لے گا، تین دفعہ ایسا ہوا ہے۔ اور میرے خیال میں شاید دنیا میں واحد ایسی شخصیت ہے کسی اور کا نام مجھے کم از کم معلوم نہیں ہے اگر ہے تو مجھے نہیں معلوم کسی کو معلوم ہو تو بتا دے میرے علم میں اضافہ ہوجائے گا، وہ یہ ہے کہ ابھی تک اس کا اکاؤنٹ چل رہا ہے، مدینہ منورہ میں اس کا اکاؤنٹ ہے اور ان کے جو نام کا جو مطلب چل رہا ہے کاروبار ہورہا ہے، اس پہ جتنے پیسے بنتے ہیں، وہ وقف ہورہے ہوتے ہیں، غریبوں میں بانٹے جارہے ہوتے ہیں۔ اور ما شاء اللہ! وہ سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ چودہ سو سال تک یہ چل رہا ہے۔ اس میں کتنی حکومتیں آئیں، مخالفین کی بھی آئیں، موافقین کی بھی آئیں، سب قسم کی حکومتیں آئی ہیں، لیکن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اکاؤنٹ بند نہیں ہوسکا۔ یہ اللہ جل شانۂ کی بات ہے۔ چونکہ انہوں نے اپنے مال کو اللہ کے لئے جمع کیا تھا۔ جو کمایا تھا وہ ایک دفعہ قحط کا زمانہ تھا۔ تو ان کا غلہ آگیا اونٹوں پر، باہر سے کہیں سے لایا۔ جو کاروباری لوگ تھے، وہ فوراً پہنچ گئے جی خریدنے کے لئے۔ انہوں نے کہا جی ہم پچاس فیصد نفع آپ کو دیتے ہیں، آپ مطلب ہمیں دے دیں۔ انہوں نے کہا جی مجھے اس سے زیادہ ملتا ہے۔ ساٹھ فیصد، ستر فیصد، اسی فیصد، نوے فیصد، سو فیصد، حتیٰ کہ تین سو فیصد تک چلے گئے۔ قحط کا زمانہ تھا۔ اب حضرت نے فرمایا کہ مجھے اس سے زیادہ ملتا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اب ہماری بس ہوگئی، آخر ہم نے بھی کچھ کمانا ہے پھر، تو اس پر جو ہے ناں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کی مرضی۔ وہ چلے، جیسے تھوڑے سے آگے چلے گئے۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خادموں سے کہا کہ مدینہ منورہ کے غریبوں کو بلاؤ۔ اب غریب بلائے گئے اور ان کو مفت دے رہے ہیں۔ کاروباریوں کو پتا چل گیا، واپس آگئے۔ حضرت! آپ نے تو فرمایا تھا ہمیں اس سے بھی زیادہ ملتا ہے اور آپ تو مفت دے رہے ہیں۔ فرمایا اللہ پاک کم از کم دس گنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کم از کم دس گنا دیتے ہیں تو ہزار فیصد تو ہوگیا ناں۔ تو میں وہی لے رہا ہوں۔ اب جس کی ایسی تجارت ہو، تو ان کی تو بات ہی اور ہے ناں۔ ان کی بات میں نہیں کررہا ہوں، لیکن جو فقراء صابرین ہیں، زاہدین ہیں، تو وہ تو پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے، وہ تو پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ آخرت میں ایک دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اس واسطے پانچ سو سال کو آدھا فرمایا، آدھا دن۔

حدیث شریف میں آتا ہے۔ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: ’’مجھ کو (یعنی میری خوشی کو کمزوروں کی دل جوئی) میں تلاش کرو۔ کیونکہ کمزوروں کی وجہ سے تم کو بھی رزق دیا جاتا ہے یا (یوں فرمایا کہ) تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘

دیکھیں جس کے پاس مال ہے ناں، تو اس کے مصارف ہوتے ہیں۔ مال کے مصارف ہوتے ہیں۔ تو اس کے کئی مصارف ہوسکتے ہیں۔ آپ اس سے گھر بھی بنا سکتے ہیں، آپ اس سے چیزیں بھی، گھر کی خرید سکتے ہیں، آپ اس سے مطلب یہ ہے کہ کوئی اور کام بھی دنیا کا کرسکتے ہیں۔ یہ مصارف ہیں۔ لیکن آپ اگر غریبوں کو اور کمزوروں کو دے دیں، یہ بھی ایک مصرف ہے۔ کون سا مصرف ہے؟ کہ اللہ جل شانہٗ ان کمزوروں کی وجہ سے آپ کو رزق دے رہا ہے۔ مثلاً بعض لوگ supporters ہوتے ہیں، پتا نہیں financers ہوتے ہیں کچھ غریب لوگوں کی وہ مدد کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے ان کو دے رہے ہوتے ہیں۔ اب کیونکہ یہاں پر اس طرح تو نہیں کہ آسمان سے برسے کسی کے اوپر، یہ تو اللہ تعالیٰ کا نظام نہیں ہے، کیونکہ اللہ پاک کا نظام تو test کا ہے، مطلب یعنی امتحان کا ہے۔ تو امتحان کو باقی رکھنے کے لئے وہ جو عام ذرائع ہیں، وہی چلتے ہیں۔ اسی میں اللہ تعالیٰ اپنا نظام چلاتے ہیں۔ تو اب یہ ہے کہ ایک کما رہا ہے۔ اب اگر وہ غریبوں کو نہیں دے رہا، اس کی کمائی میں کم فائدہ ہوتا ہے مثلاً، اب اس نے ایک غریب کی ذمہ داری لے لی، اس کی کمائی میں حصہ ڈال دیا اللہ پاک نے۔ کیوں؟ آپ کو پتا ہے یہ تجارت وغیرہ جو ہوتی ہے اس میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ کس وقت کیا ہوجائے اور آپ کو کس چیز میں نفع ہوجائے، کس چیز میں نقصان ہوجائے، کوئی پتا نہیں ہوتا، اس میں ہوشیاری وشیاری زیادہ کام کی نہیں ہے۔ ’’نصیب اپنا اپنا‘‘ والی بات ہے، مطلب ہر ایک کا اپنا نصیب ہے۔ حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ بڑے سے بڑا کاروباری بھی بالکل down ہوجاتا ہے، کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آتا۔ اس نے دوسرے لوگوں سے قرض لیا ہوتا ہے اور اب مثال کے طور پر اس کا فروٹ کا container آرہا ہے اور راستہ block ہوگیا، تین دن وہ اُدھر رہا، اس کا سارا فروٹ ضائع ہوگیا۔ وہ کیا کرے گا؟ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں جو ہیں ناں انسان کے بس میں نہیں ہوتیں۔ بارش ہوجائے، زلزلہ ہوجائے، بیماری آجائے، اچانک وہ کچھ مطلب crisis بن جائیں، جن کی وجہ سے قیمتیں تبدیل ہوجائیں بہت زیادہ۔ تو اب یہ بات ہے کہ مثلاً آج آپ نے پورا container منگوایا پیٹرول کا اور اگلے دن قیمت down ہوگئی، تو اس کے حساب سے آپ کے پیسے تو گئے اور اگر up ہوگئی تو بغیر کسی چیز کے خرچ کیے آپ کے مال میں بڑا اضافہ ہوجاتا ہے۔ تو یہ ساری چیزیں جو ہوتی ہیں یہ انسان کے سامنے بس وہ کھیل کی طرح ہورہی ہوتی ہیں اور اسی میں انسان کھیل رہا ہوتا ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ کمزوروں کی وجہ سے اللہ پاک دیتے ہیں۔ گھر میں کوئی کمزور ہوتا ہے۔ یہ جنرل ضیاء الحق جو تھے، وہ ان کی ایک بیٹی تھی جو معذور تھی، ذہنی طور پہ معذور تھی۔ اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان میں کچھ باتیں تھیں ما شاء اللہ، کچھ نیک لوگوں کے ساتھ ان کا ملنا جلنا تھا ناں، نتیجتاً کچھ چیزیں انہوں نے سیکھی ہوئی تھیں۔ تو اپنی اس بیٹی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ آپ کیوں اس طرح کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے تو اس کی وجہ سے مل رہا ہے، مجھے تو اس کی وجہ سے مل رہا ہے۔ یعنی جو میری بیٹی ہے، چونکہ وہ ایک کمزور ہے، ظاہر ہے وہ ضعیف ذات ہے، تو اللہ تعالیٰ مجھے اس کی وجہ سے دے رہا ہے۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض کمزوروں کی وجہ سے اللہ جل شانہٗ لوگوں کو دیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے شاگردوں کے ذریعہ سے بیواؤں اور یتیموں اور بے آسرا لوگوں کو انہوں نے وظیفے مقرر کیے ہوئے تھے اور ان کو پتا چلتا تھا کہ وہ شاگرد جو ہوتے تھے وہ دے رہے ہیں۔ تو گویا کہ وہ ان کے مشکور ہوتے تھے۔ اب کسی کو دو دے دیئے، کسی کو چار دے دیئے، کسی کو تین دے دیئے، وہ اس طریقہ سے تقسیم ہوگئے۔ کسی کو پتا نہیں چل رہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کررہے ہیں۔ اس کا پتا اس وقت چلا جب حضرت فوت ہوئے تو سب بند ہوگئے، پھر پتا چلا اوہو! یہ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کررہے تھے۔ تو مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کی تو یہ بات تھی کہ وہ ان چیزوں پر تو جو احادیث شریفہ ہیں ان کے سامنے تھیں، تو ان پر تو عمل کرتے تھے۔ فرمایا آپ ﷺ نے کہ "جب تم ایسے آدمی کو دیکھو جس کو دنیا سے بے رغبتی اور کم گوئی کی عادت دی گئی ہو تو اس کے پاس رہا کرو، کیونکہ اس کو حکمت اور دانائی کا القاء کیا جاتا ہے"۔ حکمت اور دانائی۔ دیکھیں اللہ جل شانہٗ کا اپنا ایک نظام ہے۔ کچھ ذرائع ظاہری ہوتے ہیں، کچھ ذرائع باطنی ہوتے ہیں۔ تو یہ ایک باطنی ذریعہ ہے۔ دنیا سے جو بے رغبتی ہے وہ ایک چیز کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہے۔ کیسے؟ کیونکہ جب دنیا کی بے رغبتی نہیں ہوتی تو اس کا نفس اس میں شامل ہوتا ہے، تو وہ جو اس کی سمجھ ہے وہ بھی نفس زدہ ہوتی ہے۔ مطلب وہ حقیقت کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ وہ کوئی بھوکا تھا ناں تو کسی نے اس سے پوچھا تھا کہ دو اور دو کیا ہوتا ہے؟ کہتا ہے چار روٹیاں۔ ظاہر ہے بھئی دو اور دو چار ہوتا ہے۔ مطلب اس کو روٹیوں کی پڑی ہوئی تھی۔ تو اب اگر جس کو جس چیز کی پڑی ہو تو ہر چیز میں اس میں وہی اس کو نظر آتا ہے ناں۔ تو اس طرح مطلب یہ ہے کہ جو شخص نفس زدہ ہو تو اس کو ہر چیز میں نفس کی خواہشات کے مطابق سمجھ آتی ہے۔ وہ جو ہمارے اللہ والے ہوتے ہیں ناں وہ اللہ والوں کی سوچ کو تصور میں بھی نہیں لاسکتے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ اس طرح سوچ سکیں، کیونکہ اس کی ساری سوچ نفس زدہ ہے تو کیسے مطلب جو ہے ناں وہ کرے گا؟ تو یہ بات ہے کہ مطلب ایک ایسا آدمی جس کو دنیا سے بے رغبتی ہو اور کم گوئی، کم گوئی اصل میں یہ ایسی چیز ہے جس میں انسان کے عیوب چھپ جاتے ہیں اور جب وہ بولتا ہے تو سوچ سمجھ کر بولتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں ناں "پہلے تولو پھر بولو"۔ تو اگر کم گو نہیں ہوگا تو تولے گا کب؟ بغیر تول کے چلتا رہے گا تو کچھ باتیں صحیح کرے گا، کچھ باتیں درمیان میں غلط بھی کرے گا۔ تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ حکمت اور دانائی نصیب فرماتے ہیں۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "تو دنیا سے بے رغبت رہ، (یہ بہت عجیب حدیث شریف ہے، اس کو ذرا اچھی طرح غور سے سن لیں۔) تم دنیا سے بے رغبت رہو، اللہ تعالیٰ تجھ کو دوست رکھے گا اور جو لوگوں کے پاس ہے اس سے بھی بے رغبت رہ، وہ لوگ بھی تجھے دوست بنا لیں گے"۔

یعنی دنیا سے بے رغبت رہنا ظاہر ہے پھر آپ کا اللہ پاک کی طرف تعلق ہوگا۔ نتیجتاً اللہ آپ کو دوست بنا لے گا، اور جو لوگوں کے پاس ہے اس کی طرف نہ دیکھ، یعنی ان سے گویا کہ آپ کوئی خواہش نہ رکھو، وہ بھی آپ کی قدر کریں گے، بڑا صابر شاکر آدمی ہے دیکھو کبھی بھی کسی کے اوپر۔۔۔۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں یہ جو Middle East وغیرہ لوگ جاتے ہیں ناں ہمارے پاکستانی، ہندوستانی بھائی، تو ان سے میں کہا کرتا ہوں کہ دیکھو عربوں کو دوست بنانے کا ایک طریقہ ہے، ان کی جیب پہ نظر نہ رکھو۔ اگر آپ ان کی جیب پہ نظر نہیں رکھتے اور برابر کی برابر بات کرتے ہیں ناں آنکھ میں آنکھ ڈال کے، وہ بہت جلدی دوست بن جاتے ہیں۔ یہ میرا تجربہ ہے۔ وہ بہت جلدی دوست بن جاتے ہیں۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ آپ کی ان کے مال پہ نظر نہیں ہے تو پھر آپ ان کو نظر آجائیں گے۔ لیکن جب اُن کے مال کے اوپر آپ کی نظر ہوگی تو آپ کا یہ ان کے مال کے اوپر نظر رکھنا یہ نظر آئے گا، نتیجتاً آپ ان کے لئے مسکین ہیں۔ پھر وہ آپ کو جو کچھ بھی کہہ دیں، ٹھیک کہتے ہیں۔ یہی کہتے ہیں ناں مسکین مطلب ہمارے لئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے یہی بات ہے کہ جو بھی جاتا ہے ان کی جیب پہ نظر رکھتا ہے شیخ ہمیں کچھ دے گا. بھئی خدا کے بندو! اللہ تمہیں دے گا، شیخ تمہیں کیا دے گا؟ شیخ کو کون دے رہا ہے؟ شیخ کو بھی تو اللہ دے رہا ہے۔ اکبر بادشاہ کا ایک دوست تھا، بڑا جگری دوست تھا، اس لئے اس کے لئے کوئی پابندی نہیں تھی، کسی وقت بھی آسکتا تھا۔ وہ ایک وقت آیا تو باقی جو لوگ تھے وہ جو خادم تھے وہ بھی ان کو جانتے تھے، تو ان کو روک تو نہیں سکتے، ان کو بٹھا دیا عزت سے، حضرت تھوڑی دیر تشریف رکھئے، وہ بادشاہ سلامت عبادت کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے جی، صحیح ہے، اچھی بات ہے۔ انتظار میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ فارغ ہوگئے تو ان کو بتایا گیا جی فلاں آئے، انہوں نے کہا اچھا بلاؤ۔ تو بلا لیے گئے۔ بلا لیے گئے تو انہوں نے آتے ہی کہا حضرت کیسے آنا ہوا؟ ان سے پوچھا۔ انہوں نے کہا آپ بتائیں آپ کیا کررہے تھے؟ کہا میں دعا کررہا تھا اللہ تعالیٰ سے۔ تو کیا مانگ رہے تھے؟ کہا میں اللہ سے مانگ رہا تھا کہ میری جو بادشاہی ہے اس کو قائم رکھے اور اس میں آرام ہو، امن ہو، لوگوں کو فائدہ ہو، میں اللہ پاک سے یہ مانگ رہا تھا۔ انہوں نے کہا اب بتائیں آپ کس کام سے آئے؟ انہوں نے کہا کام تو تھا، لیکن اب اس سے کہہ دوں گا جس سے تو کہہ رہا تھا۔ اب اس سے کہہ دوں گا جس سے تو کہہ رہا تھا۔ یہی بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شیخ کو بھی تو اللہ ہی دے رہا ہے ناں، تو شیخ سے کیوں مانگ رہے ہو؟ وہ تو خود فقیر ہے۔ آپ کہیں گے کہ بھئی شیخ فقیر کیسے ہوا؟ فقیر وہ، توانگری کہتے ہیں "تونگری بہ دل است نہ بہ مال"۔ جو مالداری ہے ناں یہ دل کے ساتھ ہے مال کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ کیسے؟ ایک دفعہ ایک بزرگ کے پاس کوئی بہت بڑا ہدیہ لے کے آیا تھا، مالدار ہوگا وہ، ہدیہ لے کے آیا۔ انہوں نے کہا جی حضرت آپ جہاں پر جس مستحق کو دینا چاہیں تو دے دیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا مال بڑھ جائے؟ سمجھا کہ شاید حضرت میرے لئے کوئی دعا کرنا چاہتے ہیں۔ فرمایا ہاں۔ فرمایا آپ ہی اس کے سب سے بہتر مستحق ہیں، یہ لے لو، ان کو واپس کردیا۔ کیونکہ آپ میں ابھی طلب ہے۔ جب طلب ہے تو پھر آپ مستحق ہیں۔ کیونکہ فقیر تو وہی ہے جس کو طلب ہو مال کی، جس کے پاس ایک کروڑ ہے اور دو کروڑ چاہتا ہے وہ فقیر ہے بیچارہ۔ جس کے پاس پچاس روپے ہیں اس کو اگر پروا نہیں ہے وہ مالدار ہے، وہ مالدار ہے، کیوں؟ اس کو مال کی طرف وہ نہیں ہے، التفات نہیں ہے۔ وہ اپنا کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کیے ہوئے ہے کہ اللہ پاک کھلائے گا، اللہ پاک پلائے گا اور ایسے ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کھلاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہی پلاتا ہے۔ ہاں! بظاہر آپ کو ایسے نظر آتا ہے لیکن ہوتا تو اللہ تعالیٰ سے ہی ہے۔

نیز ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ "اس امت کی پہلی اصلاح یقین اور زہد ہے"۔

یقین اور زہد ہے۔ یعنی اللہ پر یقین ہو اور دنیا سے بے رغبتی ہو۔ یہ ہے پہلی اصلاح۔ اس وجہ سے ہمارے صوفیاء جتنے بھی گزرے ہیں، ان میں جو پہلے حضرات گزرے ہیں، ان میں زہد زیادہ تھا۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، دوسرے حضرات، مطلب جو ہے زہد بہت زیادہ تھا، بہت زیادہ زہد تھا۔ تو فرمایا کہ مطلب جو ہے ناں میری امت کی جو پہلی اصلاح ہے وہ کیا ہے؟ یقین اور زہد ہے اور اس کا اوَّل فساد بُخل او اَمَل (یعنی ہَوَس ہے)۔ کہتے ہیں "سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں"۔ مطلب آدمی کی لمبی لمبی امیدیں، میں یہ کرلوں گا، یہ کرلوں گا، یہ کرلوں گا، یہ کرلوں گا۔ یہ ہمارے طلحہ محمود صاحب جو ہیں ناں یہ وزیر جو تھے ابھی، ان کے والد صاحب محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے نیک آدمی تھے، مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے اور حضرت کی خدمت میں کبھی کبھی ہم حاضر ہوا کرتے تھے اور بہت شفقت اور بہت محبت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ہم بار بار اُدھر جائیں لیکن ظاہر ہے بار بار جانا تو مشکل ہوتا تھا۔ تو کبھی ہم جاتے تھے تو فرماتے آؤ گے پھر؟ ہم کہتے جی ان شاء اللہ آئیں گے۔ ہاں ایک سال کے بعد آؤ گے مجھے پتا ہے، ایک سال کے بعد آؤ گے۔ تو مطلب یہ ہے کہ بڑی محبت کرتے تھے۔ تو ایک دن فرمایا یہ طلحہ نے کچھ لمبا ہی پھیلایا ہے کام، اتنا نہیں پھیلانا چاہئے تھا۔ اس وقت بھی ان کا رسوخ اور یہ تمام لوگوں کے ساتھ آنا جانا اور یہ ویسے تو سنیارے ہیں ناں، راجا بازار میں ان کی دکان مطلب تھی ناں سنیاروں کی، تو مطلب یہ ہے کہ وہ فرمایا کہ طلحہ نے کچھ کام زیادہ ہی پھیلایا ہے، اتنا نہیں ہونا چاہئے۔ اب دیکھو مالدار تھے، بہت مالدار تھے، لیکن دل میں اس کے مال کا اثر نہیں تھا بلکہ نیک لوگوں پہ خرچ کرنا یہ ان کا کام ہوتا تھا۔ یہ حقانیہ مدرسہ کے شوریٰ میں تھے، وہاں مجھے ساتھ لے گئے تھے ایک دفعہ، حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بہت ما شاء اللہ، یعنی فقیر مزاج شخص تھے۔ مالدار تھے لیکن بہت ما شاء اللہ فقیر مزاج تھے۔ تو یہ بات ہے کہ جن کو اللہ جل شانہٗ نے یعنی طولِ امل نہیں دیا ہوتا وہ کہتے ہیں زیادہ ہو گیا ہے۔ مثلاً بیس جوڑے بنا لیے، وہ کہتے ہیں یہ کیوں بیس جوڑے ہیں؟ بھئی بیس جوڑے سے کیا ہوتا ہے؟ پتا نہیں زندہ رہتے ہیں نہیں رہتے، کم ہونے چاہئیں۔ اس طرح عالی شان مکانات اور بڑے لمبے لمبے سلسلے یہ طولِ امل ہے، یعنی واقعتاً انسان حیران ہو جاتا ہے۔ retirement کے بعد کچھ زیادہ ہی انسان کام کو پھیلاتا ہے۔ مطلب آدمی سمجھتا ہے بھئی شاید ابھی اس کو نئی زندگی مل گئی، یہ مرے گا نہیں، حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ retirement کے بعد موت کی تیاری کرنی چاہیے۔ یعنی حکومت نے آپ کو سمجھا کہ اب آپ ہمارے کام کے قابل نہیں ہیں یا آپ کو کسی کمپنی نے سمجھا کہ آپ کام کے قابل نہیں ہیں، تو پھر کس چیز کے قابل ہیں؟ وہاں کی تیاری کے۔ ﴿فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۝ وَاِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ﴾11 تو یہ چیز مطلب ہے کہ اب موت کی تیاری کرو، موت کی تیاری کرو، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ واقعتاً retirement کے بعد کچھ ہوس کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے اور آدمی سمجھتا ہے پتا نہیں میں کتنا عرصہ زندہ رہوں گا، اللہ پاک بچائے۔

اور سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ایک بزرگ گزرے ہیں، بہت بڑے بزرگ تھے، حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر تھے، فقیہ تھے اور صوفی بھی تھے۔ بڑے فقیہ ہیں یہ اصل میں امام صرف چار نہیں تھے یہ کافی زیادہ تھے جن میں سفیان رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے، لیکن بعض حضرات کو شاگرد ایسے نہ ملے جو ان کے کام کو آگے چلا سکیں بس وہ ان کے ساتھ ہی ختم ہو گیا، اور بعض کو مل گئے جیسے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو مل گئے تو وہ پھر یہ ہوا کہ ان کا کام اتنا آگے بڑھا کہ اس وقت تقریباً 60-65 فیصد لوگ ان کی فقہ پہ چل رہے ہیں دنیا کے مسلمان۔ تو یہ مطلب ان کا۔ پھر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مل گئے، ان کی بھی فقہ بہت اچھی خاصی ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا اس کے بعد ہے پھر اس کے بعد امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ۔ مطلب میرا یہ ہے کہ کافی سارے امام تھے جن میں امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔ فرمایا کہ زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی موٹا اور سخت کپڑا پہننا نہیں ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ آپ کو اچھے کپڑے دے دے اور جو ہے ناں وہ مطلب یہ ہے کہ اچھا کھانا دے دے تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ کھانے والا اور اس پہ شکر کرنے والا اور روزہ رکھنے والا، اس پہ صبر کرنے والا یہ دونوں برابر ہیں۔ تو ایک کو شکر کے ذریعہ سے مل رہا ہے دوسرے کو صبر کے ذریعہ سے مل رہا ہے تو اس میں مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ تو دل کا لگنا ہے، دل کس چیز کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ یہ دل ہے ناں یہ بہت بڑا اسٹیشن ہے، مطلب یہ ہے اس کو آپ صرف اللہ کے لئے خاص رکھیں کسی اور کے لئے نہیں۔ تو دل کس کے ساتھ لگا ہوا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ کیا ہے، وہ زاہد ہے یا نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ ان کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک ملنگ آئے بیعت کرنے کے لئے، ملنگ بھی عام ملنگ نہیں تھے یعنی اللہ والے تھے، بیعت کرنے کے لئے آئے۔ حضرت کو دیکھا کہ وہاں بڑا کروفر ہے، بہت زبردست شان و شوکت ہے، یعنی مطلب جو ہے ناں وہ بہت کچھ ہے، تو لوگ بھی ہیں، ان پہ خرچ بھی ہو رہا ہے۔ تو ایسا ہوا کہ انہوں نے کہا کہ

نہ مرد است آنکہ دنیا دوست دارد

مطلب یہ تو مرد نہیں ہے جو کہ دنیا کو دوست رکھتا ہے۔ چلو واپس، چلے گئے، یعنی دل اچاٹ ہو گیا کہ بھئی میں ان سے کیا اصلاح لوں گا یہ تو خود ہی دل ان کا دنیا میں لگا ہوا ہے۔ تو چلا گیا، چلتے چلتے چلتے تھک گیا، ایک جگہ پہ ظاہر ہے اس وقت گاڑیاں واڑیاں تو اتنا مسئلہ نہیں تھا، بس پیدل ہی چلنا ہوتا تھا، تھک گیا تو سستانے کے لئے بیٹھ گیا۔ تو نیند آ گئی، خواب میں دیکھتا ہے کہ محشر کا عالم ہے اور نیکیاں تولی جا رہی ہیں۔ تو ان کو بتایا گیا کہ آپ کی کچھ نیکیاں کم ہیں اگر کسی سے لے آؤ تو وہ جنت ہے ورنہ پھر دوسری جگہ ہے۔ اب یہ ڈر کے مارے ادھر ادھر ڈھونڈ رہا ہے، کوئی نظر آجائے، ہر ایک آدمی منہ موڑے ہوئے ہے۔ یہ بڑا پریشان ہو گیا میں کس سے مانگوں اور کوئی بھی تیار نہیں ہے، بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ راستے میں کھڑا ہو گیا تو دیکھا کہ حضرت عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ اپنے لاؤ لشکر اور مریدوں کے ساتھ جا رہے ہیں جنت بڑے مزے سے۔ تو انہوں نے کہا اچھا ان کو ملا، مطلب جانتے تو ہیں ممکن ہے یہ کچھ کر لیں۔ راستہ میں کھڑے ہو گئے، انہوں نے دور سے آواز دی اوہ فلانے کیا مسئلہ ہے؟ کہا حضرت کچھ نیکیاں کم ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے جو ڈھیر ساری جمع کی ہیں ان میں سے جتنی چاہئیں وہ لے لو، تمہارا کام بن جائے گا۔ اور بس اس کے ساتھ اس کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو میسج ہے، فوراً about turn۔ چلتے چلتے چلتے پھر حضرت کی خانقاہ پہ پہنچ گئے۔ خانقاہ پہ پہنچ گئے تو السلام علیکم، حضرت اپنے مریدوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، وعلیکم السلام! بھئی کیسے آنا ہوا؟ حضرت بیعت کے لئے آیا ہوں۔ نہیں نہیں بھئی بیعت اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک وہ شعر نہیں سناؤ گے جو جاتے ہوئے تو نے کہا تھا۔ حضرت کو کشف ہو چکا ہوگا۔ انہوں نے کہا حضرت وہ جاہلیت کی بات تھی اس میں میں کیا بات ہے بس توبہ کر چکا ہوں۔ انہوں نے کہا نہیں نہیں جب تک سناؤ گے نہیں بیعت نہیں کرتا۔ تو انہوں نے کہا کہ

نہ مرد است آنکہ دنیا دوست دارد

تو انہوں نے کہا کہ اس کا دوسرا مصرعہ بھی معلوم ہے؟ کہا نہیں، انہوں نے کہا وہ ہے:

اگر دارد برائے دوست دارد

رکھتا ہے تو اللہ کے لئے رکھتا ہے دوست کے لئے رکھتا ہے۔ بس پھر اس کے بعد وہ پھر انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے جی عقلاً تو جواب ہو گیا ناں، تو اب عملاً جواب دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا اچھا مجھے بتاؤ آپ کو اعتراض کس بات پر تھا؟ انہوں نے کہا یہ مال و دولت اور یہ تمام چیزیں اس پر میرا ذہن نہیں کام کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا آخر کرنا کیا چاہتے تھے؟ آپ کس چیز کو صحیح سمجھتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے؟ انہوں نے کہا جہاد پہ چلتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ چلو میں بھی چلتا ہوں ساتھ، اٹھ کے روانہ ہو گئے۔ اب روانہ ہو گئے تو انہوں نے کہا اچھا حضرت میں تھوڑی دیر کے لئے اجازت اگر ہو تو میں اپنا کشکول لے آؤں، پیچھے رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا اب بتاؤ دنیادار کون ہے؟ میں تو آپ کے ساتھ ویسے چل پڑا، کسی کو کہا بھی نہیں کہ میں جا رہا ہوں۔ یہ سارا ساز و سامان چھوڑ کے میں روانہ ہو گیا۔ آپ کو کشکول کی فکر ہو گئی ناں۔ تو دنیادار کون ہے؟ بس یہی بات ہے کہ دنیادار وہ ہے جس کا دل دنیا میں لگا ہوا ہے۔ اور دنیا کی چوٹی پر بیٹھا ہوا ہے جس کا دل دنیا میں لگا ہوا نہیں وہ دنیادار نہیں ہے۔ اس لئے دنیا کا ہاتھ میں ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے، دنیا کا دل میں ہونا مسئلہ ہے۔ اگر دل میں، پریشانی ہے۔ ہاتھ میں، تو اللہ کی نعمت ہے استعمال کرو، اللہ کی رضا کے لئے استعمال کرو۔ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔

اللہ جل شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے یہ بات یعنی ہر مصیبت (وغیرہ کا مقدّر ہونا اس لئے بتلا دیا) تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے تم اس پر اتنا رنج نہ کرو اور تاکہ جو چیز تم کو عطا فرمائی ہے اس پر اِتراؤ نہیں اور اللہ تعالیٰ اِترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جو قسمت ہے کسی کی، تقدیر پر جو ایمان ہے، وہ اس لئے ہے کہ جو چیز آپ سے جاتی رہے تو آپ کو اس پہ قلق نہ ہو۔ مسلمانوں کو اتنی بڑی زبردست یعنی اللہ تعالیٰ نے نعمت دی ہے سکون کی ﴿اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ۝ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾12 اب یہ جو ہے ناں یہ بات ہے یہ مسلمانوں کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ اب دیکھیں مصیبت آئی، تکلیف آئی، ہم اللہ کے لئے ہیں اور اللہ کے پاس جانے والے ہیں۔ بات ختم۔ جتنا اس پہ یقین مضبوط ہوگا بات اتنی جلدی ختم ہو جائے گی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تو تکلیف کا احساس کون ختم کرے گا؟ پریشانی تو ہوگی۔ لوگ خودکشیاں کر لیتے ہیں، غم اور تکلیف کی وجہ سے خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکتے لیکن جن کا اللہ پر ایمان ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہیں اور اللہ کے پاس جانے والے ہیں، وہ ان چیزوں سے اتنے نہیں دل برداشتہ ہوتے، طبعاً کچھ نہ کچھ ہوتے ہیں لیکن عقلاً نہیں ہوتے، کہتے ہیں جی اگر ایک چیز نہیں ہے تو دوسری چیز ہے، یہ کیا مسئلہ ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ وہ پروا نہیں کرتے اور اگر زیادہ ملے اس پر اتراتے نہیں ہیں، کہتے ہیں بس یہ تو اللہ کی طرف سے ہے ناں، تو پھر اللہ کی مرضی کے مطابق خرچ کرو، اس پہ اترانے کی کیا بات ہے، یہ تو تم چوکیدار ہو اپنے مال کے، یعنی اللہ نے مال اس لئے دیا ہے تاکہ تم اللہ کی راہ میں اللہ کی مرضی سے اللہ پاک کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق خرچ کر لو، بس یہی والی بات ہے تو یہی مطلب۔ اور فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں فرماتے۔ اور آپ ﷺ نے دعا میں فرمایا: ’’اے اللہ مجھ کو مسکین کرکے زندہ رکھ اور مسکین ہی کرکے موت دے دے اور مساکین ہی کے زمرے میں میرا حشر فرما دے‘‘۔ یہ بات ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے آپ کا کن کے ساتھ ہونا پسند ہے؟ مساکین کے ساتھ، مساکین کے ساتھ۔ تو یہ بات ہے کہ اور اللہ پاک کی بھی خاص رحمت ان کی طرف مبذول ہوتی ہے، لہٰذا مسکینوں کے ساتھ ہی بیٹھنا چاہیے، مسکینوں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے، اس میں انسان کو مطلب راحت ملتی ہے۔ متکبرین کے ساتھ بیٹھنے سے انسان کو بہت گھبراہٹ ہوتی ہے۔ یہ میں نے دیکھا ہے، مطلب یہ میں نے آپ کو کتابی بات نہیں بتائی یہ میں خود دیکھ چکا ہوں، بھگت چکا ہوں۔ متکبرین کے ساتھ بیٹھنے سے کیا مسئلہ ہوتا ہے وہ قصہ بتانے کا وقت نہیں ہے ورنہ بتا دیتا۔ تو بہرحال یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو اپنی حفاظت میں لے لے اور جیسے میں نے پہلے ابتدا میں کہا تھا کہ لوگ مہنگائی سے بہت پریشان ہیں تو ٹھیک ہے پریشانی تو یقیناً ہے لیکن ایک تو اس میں ہماری شامتِ اعمال ہے کہ جن کو ہم نے منتخب کیا ہوا ہے وہی ہمارے اوپر مسلط ہوتے ہیں تو پھر ہمارے ہی کام ہمارے سامنے آتا ہے ناں۔ تو ایک تو یہ بات ہے۔ اور دوسری بات سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم لوگوں نے خواہشات کو ضروریات سمجھ لیا ہے۔ خواہشات کو ضروریات سمجھ لیا ہے۔ پہلے وقتوں میں سبحان اللہ دل کھلے ہوتے تھے جو کچھ میسر ہوتا تھا وہ خود بھی کھا لیتے تھے دوسرے آجاتے ان کو بھی ساتھ شامل کر لیتے وہ کوئی پروا نہیں ہوتی تھی، پریشانی نہیں ہوتی تھی، کیونکہ وہ چیز ایسی ہوتی تھی۔ اب جتنا مسجد خوبصورت ہوتی جاتی ہے اس پہ تالے لگنے شروع ہو جاتے ہیں، کیوں مولانا مفتی صاحب ایسا ہی ہے ناں۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ چور ادھر آتے ہیں پھر، چیزیں لے جاتے ہیں تو ان کی پھر حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ تو اسی طریقہ سے جتنے ڈرائنگ روم خوبصورت ہو رہے ہیں تو مہمان کے لئے نہیں ہیں صرف اپنا دل خوش کرنے کے لئے ہیں، یہ بھی میں ویسے ایسی ویسی بات نہیں کر رہا ہوں یہ میں نے دیکھا ہے، کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان کے صوفوں پہ مہمان بھی جب بیٹھتے ہیں ناں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ تو اب مجھے بتاؤ رکھے کس لئے ہیں؟ رکھے کس لئے ہیں؟ تو یہ مطلب دنیا کے ساتھ دل لگا ہوا ہے ناں اور کیا ہے؟ دنیا کے ساتھ دل لگا ہوا ہے، تو پہلے وقتوں میں یہ چیز نہیں ہوا کرتی تھی، حجرے ہوا کرتے تھے حجروں میں آ کر سارے بیٹھ جاتے، ہر ایک اپنے گھر سے مطلب ایک روٹی زیادہ لے آتا تھا سالن تو جتنا ہی ہوتا وہ تو تقسیم ہو جاتا۔ وہ ایک روٹی زیادہ لے آتا تھا ایک روٹی اگر وہ کھاتا تو دو روٹی لے آتا تھا اس طرح دو کھاتا تو تین روٹیاں لے آتا اور سب مہمان کا بھی ہو جاتا خود بھی کھا لیتے آپس میں گپ شپ، چلو کام ہو گیا ٹھیک ہے کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ اب تو مسئلہ بہت زیادہ ہے کیوں تکلفات بھی بہت زیادہ ہیں۔ اور پھر خود بھی مال کے ساتھ دل لگا ہوا ہے خرچ کرنا بھی نہیں چاہتے، لہٰذا پریشانی ہو جاتی ہے۔ کوئی آدمی آتا ہے تو دل پہ بھاری سا پڑ جاتا ہے اوہ! یہ کب جائے گا۔ تو بس پھر تو مسئلہ ہوگا۔ تو ہم لوگوں نے عیش و عشرت کو ضرورت سمجھا ہے، ایک آدمی کے پاس ایک کار ہوتی ہے اوہ جی! یار ویسے آج کل دیکھو ناں چلو ایک بیٹا بھی تو ہے، دوسرا بھی ہے، دو کاریں ہونی چاہیئں، بھئی خدا کے بندو! یہ کیا بات ہے؟ جب کاریں نہیں ہوا کرتی تھیں اس وقت بھی ہماری زندگی گزرتی تھی۔ اور اس طریقہ سے، بلکہ صرف کار تو نہیں ہوتی کار کے ساتھ بہت سارے لوازمات بھی آجاتے ہیں ناں اور بھی تو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، تو وہ ہوتا ہے۔ اس طرح مکان عالی شان بنا لیا، لیکن حالت یہ ہے کہ ایک نواب صاحب تھے اس نواب صاحب کا انگلینڈ سے بیٹا آگیا تو مغرب کے وقت اس کو کہا کہ بھئی ہوٹل میں جلدی بکنگ کرلو پھر جو ہے ناں وہ کمرے نہیں ملتے یعنی اس کے گھر میں اپنے بیٹے کے لئے جگہ نہیں تھی، یہ ہے بات، پھر کس پہ خرچ کرو گے؟ یہ مسائل ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ تھوڑا سا پیچھے کی طرف دیکھیں کہ پیچھے کیا ہو رہا تھا اور ذرا ہم بھی واپس کھسک جائیں کچھ تو ہو جائے ناں کچھ ہو جائے تو پھر ان شاء اللہ کچھ نہ کچھ راحت مل جائے گی، یہ tension ہماری کچھ نہ کچھ دور ہو جائے گی، ورنہ پھر کیا ہے ورنہ پھر یہی رونا روتے رہیں گے۔ تو اس کا حل یہی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں جن کے دل ایسے ہوں اور ایسی باتیں سنیں جن میں یہ باتیں کی جا رہی ہوں۔ پھر کیا ہوگا؟ ہمارے دل بھی بدل جائیں گے ان شاء اللہ۔ پھر ہم لوگ بھی۔۔۔۔ وہ گئے تھے مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تو اس نے کہا ہمارے ہاں تو اس وقت تو دہی مل سکتا ہے، کیونکہ گاؤں وغیرہ میں تو کہیں اور سے تو نہیں چیزیں منگوائی جاسکتیں، ہوٹل ووٹل تو نہیں ہوتے، وقت ایسا تھا۔ ہم نے کہا حضرت شہر والوں کے لئے دہی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ دہی تو خالص ملتی نہیں شہر میں، تو یہ تو بہت زبردست چیز ہوتی ہے شہر والوں کے لئے تو ہم تو شہر سے آئے ہیں لہٰذا دہی تو ہمیں بڑی پسند ہے، کہتے ہیں پھر تو آپ بہت اچھے مہمان ہیں، یعنی بہت سہولت والے مہمان ہیں آپ کے اوپر تو ہمیں کوئی tension نہیں ہے۔ تو اتنی بات ہمارے ساتھ کر رہے تھے کہ اطلاع آ گئی کہ فلاں صاحب بھی آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا بھئی وہ فلاں مہمان آ رہا ہے اس کے لئے تو جو پکے گا تم بھی کھا لو گے ٹھہر جاؤ، تو یہ تکلف نہیں تھا آرام سے ہمیں رخصت کر رہے تھے۔ تو مقصد یہی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ یہ تکلفات دور کر لیں ہم، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو جو صحیح چیز ہے اس کے اوپر ہمارے دل کو لے آئے اور ہمارے دل کے اندر اپنی محبت کو پیدا فرمائے، دنیا کی محبت سے ہمارے دل کو فارغ کر دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ




  1. ۔ (الفجر: 19.20)

  2. ۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 2353)

  3. ۔ (ترمذی، رقم الحدیث: 1702)

  4. ۔ (شعب الإیمان للبيهقي، رقم الحدیث: 4631، ابن ماجہ، رقم الحدیث: 4101، واللفظ للبیھقي)

  5. ۔ (شعب الإيمان للبيهقي، رقم الحدیث: 10044)

  6. ۔ (شعب الإيمان للبيهقي، رقم الحدیث: 10350)

  7. ۔ (مشکٰوة المصابیح، رقم الحدیث: 5282)

  8. ۔ (الحدید: 23)

  9. ۔ مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5213) ترجمہ: ’’دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔‘‘

  10. ۔ ’’أَرِحْنَا بِهَا يَا بِلَالُ‘‘ (شرح مشکل الآثار: ج 14، ص: 167)

  11. ۔ (الم نشرح: 7-8) ترجمہ: ’’لہذا جب تم فارغ ہوجاؤ تو (عبادت میں) اپنے آپ کو تھکاؤ۔ اور اپنے پروردگار ہی سے دل لگاؤ۔‘‘

  12. ۔ (البقرۃ: 156-157) ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں۔‘‘

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے - خواتین کیلئے اصلاحی بیان