اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی بہت ہی اہم اور مشہور کتاب ”ہمعات“ یہ اس کا درس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے فیوض و برکات سے ہمیں وافر حصہ نصیب فرما دے۔
متن:
نسبتِ اویسیہ
ان نسبتوں میں سے جو ارباب تصوف کے یہاں معتبر ہیں، ایک نسبتِ اویسیہ ہے۔ "نسبتِ اویسیہ" کو طہارت اور سکینہ کی نسبتوں کے درمیان برزخ سمجھئے۔ یعنی یہ ان دونوں سے ربط رکھتی ہے۔
نسبت اویسیہ کی تفصیل یہ ہے کہ انسان میں ایک نفس ناطقہ ہے جو بمنزلہ ایک آئینے کے ہے۔ جس میں انسان کی روحانی کیفیات کا بھی عکس پڑتا ہے اور اس کے جسمانی احوال کا بھی۔
تشریح:
برزخ اس کو اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ اس کا ایک سرا روحِ ملکوتی کے ساتھ لگا ہوا ہے دوسرا روحِ ہوائی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ روحِ ہوائی طبعی ہے، یعنی انسان کے جو خوراک اور ماحول اور ان تمام چیزوں سے اثر لیتی ہے تو وہ طبعی چیز ہے۔ ڈاکٹر لوگ اسی کو روح کہتے ہیں۔ ہاں جی، اور جو روحِ ملکوتی ہے، عالم مثال سے ہے۔ وہ یہاں کی چیز ہی نہیں ہے تو وہ ملکوتی ہے۔ اور یہ جو نفس ناطقہ ہے ان دونوں کی combination ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک طرف یہ ہے، ایک طرف یہ ہے، تو برزخ ہے، اس وجہ سے نفس ناطقہ ہے جو بمنزلہ ایک آئینے کے ہے۔ جس میں انسان کی روحانی کیفیات کا بھی عکس پڑتا ہے۔ (روح ملکوتی کا بھی اثر ہے) اور اس کے جسمانی احوال کا بھی۔ (یعنی روح ہوائی کا بھی اثر ہے۔)
متن:
انسان کی ان روحانی کیفیات اور اس کے جسمانی احوال میں سے ہر ہر کیفیت اور حالت کے لئے اس میں قدرت نے ایک استعداد رکھی ہے۔ چنانچہ اس کی وہ استعدادیں جن کا تعلق جسمانی احوال سے ہے اور وہ استعدادیں جو اس کی روحانی کیفیات سے متعلق ہیں ان دونوں میں کلی تنافر اور اختلاف ہے۔
تشریح:
روح اور جسم یہ ایک جیسے تو نہیں ہیں۔ ایک جگہ پہ ہیں، یہ مطلب نہیں کہ (موجود) نہیں (ہیں) دونوں موجود ہیں انسان میں، لیکن ایک جیسے تو نہیں ہیں روح روح ہے جسم جسم ہے۔
متن:
روحانی کیفیات میں سے ایک کیفیت یہ ہے کہ سالکین راہِ طریقت جب عالم ناسوت کی پستی سے نکل کر عالم ملکوت کی بلندی پر فائز ہوتے ہیں۔
تشریح:
ناسوت کی پستی کیا ہے؟ وہ نفس میں ہے، ہاں جی، نفس کا جب انسان تابع ہوتا ہے تو یہ ناسوت کا پابند ہوتا ہے، ہاں جی، یہ ناسوت کا پابند ہوتا ہے۔ اور جس وقت یہ اس سے نکل جاتا ہے تو یہ ملکوت کا جامہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس وجہ سے چونکہ جب انسان اپنے نفس میں گھرا ہوتا ہے تو اس کو قریب ترین چیز ہی نظر آسکتی ہے اس لئے یہ عاجلہ میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس کو قریب ترین چیز ہی نظر آسکتی ہے، بلند چیزیں اس کو نظر نہیں آتیں۔ مطلب ان کے اوپر نظر نہیں جاتی۔ اور جب انسان کا روحِ ملکوتی کے ساتھ تعلق ہوجاتا ہے تو اس کو قریبی چیزیں کچھ بھی نظر نہیں آتیں کہ کیا ہیں، ہاں جی۔ جیسے ایک ہوشیار سٹوڈنٹ ہوتا ہے اس کو کامیابی پڑھنے میں نظر آتی ہے اور جو ناکام سٹوڈنٹ ہوتا ہے اس کو آرام میں فائدہ نظر آتا ہے۔ مطلب کام چوری میں مزہ آتا ہے، ہاں جی۔ کیونکہ ظاہر ہے اس کے جسمانی تقاضے ہوتے ہیں۔ تو اس طرح وہ عقل سے کام لیتا ہے۔ عقل بھی تو ایک قدرتی استعداد ہے جو اللہ تعالی نے نصیب فرمائی ہے جو نفس سے ذرا مختلف ہے، تو اس وجہ سے جس پہ عقل کا غلبہ ہوتا ہے وہ ان چیزوں سے اثر نہیں لیتے۔ لیکن جس پہ عقل کا غلبہ نہیں ہوتا نفس کا غلبہ ہوتا ہے اس کی عقل بھی نفس کے پیچھے چلنا شروع کرلیتی ہے، ہاں جی۔ تو یہاں پر بھی روح اور نفس کی بات ہے۔
متن:
سالکین راہ طریقت جب عالم ناسوت کی پستی سے نکل کر عالم ملکوت کی بلندی پر فائز ہوتے ہیں اور خسیس اور ناپاک اعتبارات کو کلیتاً ترک کردیتے ہیں (وہی نسبتِ طہارت والی بات جو پہلے گزری ہے) تو اس حالت میں وہ لطیف اور خوشگوار کیفیات میں اس طرح سرشار ہوجاتے ہیں گویا ان کے نفوس ان کیفیات میں ڈوب کر بالکل فنا ہوگئے۔ (یعنی وہ نفس کے جو اثرات ہوتے ہیں وہ کالعدم ہوجاتے ہیں۔) چنانچہ اس مقام میں ان سالکوں کی حالت اس مشک کی سی ہوجاتی ہے جس میں پوری قوت سے ہوا بھر دی گئی ہے اور اس کی وجہ سے وہ اس طرح پھول گئی ہے کہ خواہ اسے آپ پانی میں ڈال دیں وہ کسی طرح تہ آب نہیں ہوتی۔ (مطلب یہ ہے کہ وہ پستی کی طرف نہیں جاتی، ہاں جی۔)
ان نفوس کو جب یہ کیفیت حاصل ہوجاتی ہے تو اس وقت ان کے آئینۂ دل پر اوپر سے ایک رنگ کا فیضان ہوتا ہے جس کی برکت سے ان کو نیک روحوں سے خاص مناسبت پیدا ہوجاتی ہے۔
تشریح:
کیونکہ روحان روح، نیک روح، چونکہ ایک طرف طہارت ہے۔ حضرت نے فرمایا ناں کہ نسبت طہارت اور سکینہ کے درمیان bridge ہے تو اس طرح مطلب یہ ہے کہ طہارت کے حصول کے ذریعہ سے اور سکینہ کے اوپر، تو ان دونوں کے درمیان برزخ ہے تو اس میں یہ ہے کہ طہارت کی وجہ سے چونکہ اس کو پاکی حاصل ہوگئی تو اس وجہ سے اب وہ پاک روحوں کی طرف جائے گا یا پاک ارواح کے ساتھ ان کو مناسبت ہوجائے گی۔ تو پاک ارواح کے ساتھ مناسبت جب ہوجاتی ہے پھر کیا ہوتا ہے؟
متن:
اور نیز ان نیک روحوں کی کیفیات مثلاً انس و سرور، انشراحِ قلبی، عالمِ غیب کی طرف جذب و توجہ اور ان حقائقِ اشیاء کا انکشاف جو دوسروں کے لئے راز سربستہ کا حکم رکھتے ہیں، غرضیکہ ان نیک روحوں کے ساتھ اس طرح کی مناسبت سے یہ نفوس ان کیفیات سے بہرہ مند ہوجاتے ہیں۔
تشریح:
اب یہاں پر ایک بہت باریک نکتہ ہے۔ بزرگوں نے عمریں لگائی ہوتی ہیں ترقی میں، مثلاً مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ یا اکابر انہوں نے عمریں لگائی ہوتی ہیں۔ ان کی ایک روحانی پرواز جتنی ان کو حاصل ہوچکی ہوتی ہے، ہوچکی ہوتی ہے۔ اب اگر کسی کو اس وقت جو زندہ ہے شخص، عالم ناسوت میں ہے، ان کو ان ارواح کے ساتھ تعلق پیدا ہوجائے اور وہ چیزیں جو ان کی آخری چیزیں ہیں ان کو transmit ہونی شروع ہوجائیں، تو اس کی کتنی خوش قسمتی ہوگی؟ یعنی اس نے بغیر محنت کے کتنی چیزوں کو حاصل کیا؟ ان کی بالکل آخری چیزوں کو مطلب گویا کہ وہ حاصل کرلیتے ہیں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہ ہم نے حضرت حاجی صاحب کے کچے پھل کھائے تھے اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے پکے پھل کھائے ہیں۔ یعنی بڑھاپے میں چونکہ ان سے رابطہ ہوا تھا ناں تو جو ان کی ترقی کا آخری stage تھا اس وقت حضرت ان کے ساتھ ملے ہیں تو لہٰذا انہوں نے حضرت نے پکے پھل کھائے ہیں، ہاں جی۔ تو یہ اسی طرح مطلب یہ ہے کہ اس سے بھی اوپر stage کی بات ہے کہ جو فوت ہوجاتے ہیں، فوت ہوتے وقت اس کی کیا حالت ہوگی، تو اگر کسی کو یہاں اس کے ساتھ رابطہ ہوجائے اور تعلق ہوجائے تو ان کی ترقی کا آپ کیا کہہ سکتے ہیں۔ یہ ہے وہ بہت بڑی بات جو اویسی نسبت میں حاصل ہوتی ہے۔ البتہ ایک بہت اہم بات میں عرض کرنا چاہوں گا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ایک ہوتی ہے اویسی نسبت اور ایک ہوتا ہے اویسی سلسلہ۔ اویسی نسبت حقیقت ہے exist کرتی ہے، اویسی سلسلے کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اویسی سلسلے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کی وجہ (یہ ہے کہ) سلسلے کا تعلق افراد کے ساتھ ہے یعنی ایک نے دوسرے سے لیا دوسرے نے تیسرے سے لیا تیسرے نے چوتھے سے اس طریقہ سے Step by step ۔ اس میں سلسلہ اہم ہوتا ہے، گویا کہ chain۔ جیسے حدیث شریف، حدیث شریف میں chain اہم ہوتا ہے، درمیان میں کوئی کڑی بھی miss نہیں ہونی چاہئے، کوئی کڑی miss ہوگئی تو حدیث منقطع ہوگئی۔ آپ کم از کم اس کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے، وہ منقطع ہوگیا۔ خواب میں اگر آپ ﷺ کی زیارت ہوجائے اور آپ ﷺ کسی کو کچھ فرما دیں تو وہ حدیث نہیں ہے، وہ خواب ہے۔ اگرچہ بہت اچھا خواب ہے لیکن اس کو حدیث شریف نہیں کہیں گے، ہاں جی۔ خواب میں اگر کسی نے آپ ﷺ کی زیارت کی اس کو صحابی نہیں کہیں گے۔ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں؟ اس کو صحابی نہیں کہیں گے۔ مطلب یہ کہ گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ اس کے لئے chain بہت اہم ہے کڑی، جس کو ہم کہہ سکتے ہیں استناد، سند۔ مطلب ایک نے دوسرے سے، دوسرے نے تیسرے، تیسرے نے چوتھے سے اور یہ باقاعدہ ایک Transparent system ہوتا ہے، ایک Transparent system ہوتا ہے جس کو سارے لوگ check کر سکتے ہیں۔ ہاں جی تو یہ سلسلہ ہوتا ہے۔
ہماری سمجھ کے مطابق جتنے بھی بڑے بڑے اولیاء گزرے ہیں یہ سب تقریباً اویسی بزرگ تھے لیکن ان کو سلسلوں میں لایا گیا تاکہ transparent ہوجائیں تاکہ ان سے استفادہ ہو سکے، کیونکہ اویسی بزرگ کے ساتھ جتنا بھی کچھ ہے اس کو ظاہر بھی نہیں کر سکتا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جو دوست دوست کا راز نہ رکھ سکے وہ دوستی کے قابل نہیں ہے۔‘‘ جو دوست دوست کا راز نہ رکھ سکے وہ دوستی کے قابل نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے اویسی طور پر جو کچھ ملا وہ اس کے ساتھ راز ہے اس وجہ سے بڑے بڑے لوگوں نے نہیں بتایا اپنے بارے میں کہ ان کو کیا ملا۔ ٹھیک ہے ناں، کیوں، وجہ کیا ہے؟ ان کا دوسروں کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ ان کا استفادہ کے ساتھ تعلق ہے، افادہ کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ افادہ کے ساتھ تعلق transparent سلسلے کا ہے۔ لہٰذا اپنے سلسلے کا اظہار لازم ہے جیسے سند کا بتانا لازم ہوتا ہے۔ ایک حدیث شریف روایت کرتے ہوئے اس کی سند بتانا لازم ہوتا ہے۔ حوالہ جس کو ہم کہتے ہیں، وہ لازم ہوتا ہے۔ لیکن خواب آپ کے اوپر حجت ہے، باقیوں کے اوپر ہے ہی نہیں۔ آپ کا بے شک کتنا ہی اچھا خواب کیوں نہ ہو آپ کے اوپر حجت ہے، دوسروں کے اوپر تو نہیں ہے۔ دوسرے اس سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ تو یہ اصل میں بنیادی بات ہے کہ سلسلہ اویسی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اویسی نسبت ہے، مثلاً کسی کو آپ ﷺ سے ہے تو آپ ﷺ سے جس جس کو بھی ہو سکتا ہے اس کے درمیان میں سلسلے کو ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ وہ نظام سب کے لئے open ہے ناں۔ اب یہ تو نہیں کہ آپ ﷺ کی نسبت اس کو ہو، پھر وہاں سے کسی اور کو اویسی ہو، پھر وہاں سے کسی۔ اس کے لئے تو اویسی chain کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ تو direct ہے۔ تو اس کی مثال radiation کی طرح ہے اور سلسلہ کی مثال conduction کی طرح ہوتی ہے یعنی Point to point جیسے ذرے سے ذرہ جیسے حرارت لیتا ہے اُس طریقہ سے۔ مثال کے طور پر یہ end گرم ہے اور یہاں جب گرمی پہنچے گی اس کے ذریعہ سے تو ایک سلسلہ ہے۔ اور ادھر ایک heat کا source ہے اور درمیان میں کچھ بھی نہیں اور یہاں دوسرا ہے وہ اس کی وجہ سے گرم ہوتا ہے تو یہ radiation ہے۔ تو یہ جو direct گرم ہونا ہے یہ اویسی نسبت کی طرح ہے اور یہ جو conduction کے ذریعہ سے آرہی ہے، یہ کیا ہے؟ یہ سلسلے کی طرح ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں ہمارا سلسلہ اویسیہ ہے تو That never exist، سلسلہ اویسیہ exist نہیں کرتا، اویسی نسبت exist کرتی ہے۔ اس وجہ سے حضرت نے نام کیا رکھا ہے؟ نسبت اویسیہ، نسبت اویسیہ۔ تو نسبت اویسیہ ہے بہت بڑی نسبت جیسے ابھی تفصیلات آرہی ہیں، لیکن ایک تو اختیاری نہیں ہے اختیاری نہیں ہے، یہ کسی کو کسی وقت بھی حاصل ہو سکتی ہے، فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ وار نہیں ہے بلکہ direct ہے۔
متن:
مثلاً انس و سرور، انشراحِ قلبی، عالمِ غیب کی طرف جذب و توجہ اور ان حقائقِ اشیاء کا انکشاف جو دوسروں کے لئے راز سربستہ کا حکم رکھتے ہیں، غرضیکہ ان نیک روحوں کے ساتھ اس طرح کی مناسبت سے یہ نفوس ان کیفیات سے بہرہ مند ہوجاتے ہیں۔ اب یہ دوسرا سوال ہے کہ یہ مناسبت انبیاء کی نیک روحوں سے ہو یا اولیاء امت کی روحوں سے یا فرشتوں سے۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سالک کو کسی خاص روح سے خصوصی مناسبت پیدا ہوجاتی ہے۔
تشریح:
کسی بھی وجہ سے، یا نسبی لحاظ سے۔ نسبی لحاظ سے بھی ہو سکتا ہے، ہاں جی، یا سلسلہ کی مناسبت سے۔ مثال کے طور پر ایک قادری ہے سلسلہ میں ہے اس کو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی محبت بہت حاصل ہوجائے ان کے ایصال ثواب کرنے میں اور تمام۔ اس کے ذریعہ سے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی روح کے ساتھ مناسبت ہوجائے تو بس ٹھیک ہے possible ہے، ناممکن نہیں ہے۔ ہاں جی، یا کسی اور وجہ سے، بعض دفعہ کوئی کام ایسا کرلے جس کے لئے اللہ جل شانہ نے اُس روح کو استعمال کیا ہو، پہلے گزرا ہے نسبت سکینہ میں ہاں جی، کہ جو بزرگانِ دین جس فکر کے ساتھ دنیا سے تشریف لے گئے ہوں اب اس فکر پر جو لوگ بھی کام کررہے ہیں ان کی توجہ یعنی اگر یہ زندہ ہوتے مثال کے طور پر اور کسی بھی جگہ ہوتے تو ان کو پتا چلتا تو ان کی طرف متوجہ ہوتے یا نہ ہوتے؟ ان کی دعائیں ساتھ ہوتیں، ان کی توجہات ساتھ ہوتیں، اگر communication ہوتی تو ان کے ارشادات ساتھ ہوتے۔ تو یہ اگر دنیا میں ہوتے تو بالکل اس طرح۔ تو اب دنیا میں نہیں لیکن اگر وہ پردہ درمیان میں جو ہے برزخ کا وہ اگر اللہ پاک ہٹا دے کسی کے لئے، جو عین ممکن ہے، اگر ہٹا دے تو اب ان کے پاس جو کچھ ہے چونکہ ان کو پتا ہے کہ یہ تو میرا کام کررہے ہیں یہ میرا کام کررہے ہیں، تو وہ پھر یہ ہے کہ لہٰذا آپ دے دیں ان کو، جو ان کے پاس ہے، وہ مطلب جو ہے دے دیں۔ البتہ ایک ادب ہے، چونکہ یہ پردہ اللہ ہٹاتا ہے، یہ پردہ کوئی اور نہیں ہٹا سکتا یہ پردہ چونکہ اللہ ہٹاتا ہے لہٰذا اس کی نسبت اللہ کی طرف ہوگی، اس روح کی طرف نہیں ہوگی۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ مطلب چونکہ وہ چیز چونکہ اللہ کی طرف سے مل رہی ہے اللہ پاک نے اس کو اس روح کے ساتھ ملا دیا تو اس وجہ سے اس کی نسبت کس کی طرف کی جائے گی؟ اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے گی۔ یہ اصل میں بہت بڑی حفاظت ہے عقائد کی، عقائد کی حفاظت ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، بارہا اَلْحَمْدُ للہ میں اس پر بات کرچکا ہوں، اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ، زندہ بزرگوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ رکھا ہوتا ہے تو کسی کی نظر اس بزرگ پر ہو کہ وہ دے رہے ہیں، تو یہ خطرے کی طرف چلا گیا اور اگر کسی کی نظر گئی کہ اللہ دلوا رہے ہیں تو وہ فائدے کی طرف چلا گیا۔ کیونکہ دلوا کون رہے ہیں؟ اللہ دلوا رہے ہیں ناں؟ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ان کو الہام ہوا کہ فلاں ایک جگہ پہ جوان ہے، ان کا ایک مسئلہ ہے وہ مسئلہ حل کرو۔ الہام کس کی طرف سے ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ اب ظاہر ہے ان کو فوراً پتا چل گیا کہ یہ تو محبوب ہے اللہ کا ولی ہے، تو لہٰذا میں ان کی خدمت کروں، تو وہ جلدی جلدی پہنچ گئے، حضرت اس صاحب کی خدمت میں پہنچ گئے، فرمایا آپ کا کیا مسئلہ ہے؟ انہوں نے کہا: آپ کو کیسے؟ کہا: بس مجھے کہا گیا ہے، اچھا!۔ بتا دیا گیا کیونکہ اس کو بھی پتا چل گیا کہ اللہ نے بھیج دیا ہے، تو انہوں نے بتا دیا۔ حضرت نے وہ مسئلہ حل کردیا۔ اس کی وجہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے اسباب بنائے ہوتے ہیں ناں۔ تو جیسے یہ چیزیں اسباب ہیں اس طرح وہ بھی ایک سبب ہے ناں، اسباب بنا دیئے، جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو سبب بنا دیا، کرنے والے تو اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔ پانی میں پیتا ہوں تو پیاس کون بجھا رہا ہے؟ اللہ بجھا رہے ہیں۔ لیکن ذریعہ کس کو بنایا؟ پانی کو بنا دیا۔ تو اب یہ ہے کہ یہ جو بات ہے کہ ہم جو پانی پینے کے بعد کہتے ہیں: اَلْحَمْدُ للہ۔ تو ہم کہتے ہیں پانی کا شکر ہے؟ ہم کس کو کیا کہتے ہیں؟ ہم کہتے ہیں اَلْحَمْدُ للہ، اللہ پاک کا شکر ہے، چونکہ پیاس ہماری اللہ پاک نے بجھا دی۔ تو اسی طریقہ سے اب یہ اگر کسی کی شیخ پر نظر ہو یا کسی بزرگ کے اوپر نظر ہو، تو وہ معاملہ خطرناک چلا جاتا ہے۔ اور اگر اس کی اللہ پہ نظر ہو اس کا تعلق بھی اللہ کے لئے ہو، اللہ کے لئے محبت ہو، اللہ ہی کے لئے مان رہا ہو، اللہ ہی کے لئے سب کچھ کررہا ہو تو سبحان اللہ! یہ محفوظ بھی ہے اور اللہ پاک تو پھر جو دینا چاہے تو وہ دے دے، اس کے لئے کوئی۔ کہتے ہیں اگر کوئی اپنے شیخ کو قطب سمجھے تو اس کو قطب کا فیض ملے گا بے شک وہ قطب نہ ہو، کیونکہ دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے ناں، دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے، دے تو اللہ تعالیٰ رہے ہیں۔ بس یہی اصل میں وہ باریک سا فرق ہوتا ہے۔ تو اب اگر زندہ کے ساتھ یہ مسئلہ ہے تو جو فوت شدہ ہے تو اس کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہوگا؟ تو دے کون رہا ہے؟ اللہ دے رہا ہے۔ رستہ کس نے نکالا؟ اللہ نے۔ اللہ نے ملا دیا۔ ان کی روح کو آپ کی روح کے ساتھ ملا دیا۔ آپ کی روح عالم ناسوت میں ہے، اس کی روح عالم ارواح میں ہے، یہ درمیان میں بہت بڑا پردہ جو تھا وہ اللہ پاک نے پھاڑ دیا۔ اب آپ کی روح اس کے ساتھ مل گئی اس کی روح کو جو کچھ ملا ہے وہاں سے آپ کو transmit ہورہا ہے اور ما شاء اللہ آپ کو اللہ تعالیٰ اس سے فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اس پہ آپ اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ مزید بھی عطا فرمائے۔
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7)
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سالک کو کسی خاص روح سے خصوصی مناسبت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اس طرح کہ سالک نے اس بزرگ کے فضائل سنے اور اسے اس بزرگ سے غیر معمولی محبت ہوگئی۔ چنانچہ اس محبت کی وجہ سے سالک اور اس بزرگ کی روح کے درمیان ایک کشادہ راہ کھل جاتی ہے۔ یا یہ ہوتا ہے کہ یہ خاص روح جس سے کہ سالک کو مناسبت خصوصی پیدا ہوگئی، اس کے مرشد یا آباؤ اجداد میں کسی بزرگ کی روح تھی اور اس بزرگ کی روح میں ان لوگوں کے لئے جو اس سے منسوب ہیں، ارشاد و ہدایت کی ہمت موجود ہے۔
تشریح:
یعنی اللہ نے اس میں رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ ہر فوت شدہ شخص میں یہ چیز نہیں ہوتی، یہ بعض ارواح میں ہوتی ہے۔ اللہ پاک نے بعض ارواح میں یہ چیز رکھی ہوتی ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں، میں نے وعظ میں پڑھا ہے حضرت کے، فرمایا کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے خواب میں دیکھا، حضرت آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے فوت ہونے کے بعد بھی ایک خلافت دے دی۔ تو حضرت نے خود اس کی تشریح فرمائی کہ شاید یہ ان بزرگوں میں ہوا یعنی ان ارواح میں ہوگیا جن کو اللہ تعالیٰ فوت ہونے کے بعد بھی استعمال فرماتے ہیں لوگوں کی ہدایت کے لئے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ بعض حضرات ایسے ہوتے ہیں، بعض اللہ والے ایسے ہوتے ہیں جن کو موت کے بعد بھی، فوت ہونے کے بعد بھی ان کی روح کو اللہ پاک لوگوں کی ہدایت کے لئے استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ ان میں ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں، ان بزرگوں میں یہ وہ ہیں اَلْحَمْدُ للہ۔ تو یہ چیز ہوتی ہے۔ خود ان کے بیٹے مولانا عبدالحلیم صاحب انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے کسبِ فیض آپ کی وفات کے بعد حضرت سے کیا ہے۔ خود تو عالم تھے، ہندوستان میں کام کررہے تھے، ان کو فوت ہونے کے بعد موقع ملا ہے، ہاں جی۔ تو آئے پھر بس مراقب رہتے تھے بس۔ تو ظاہر ہے بعض بزرگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ فوت ہونے کے بعد بھی ان کی روح کو استعمال فرماتے ہیں۔
متن:
یا یوں ہوتا ہے کہ سالک اپنے فطری جذبے یا جبلی تقاضے سے جس کا کہ سمجھنا نہایت مشکل ہے، کسی خاص روح سے مناسبت پیدا کرلیتا ہے۔
جبلت۔ جبلت ایسی چیز ہے جو غیر اختیاری ہے، جبلت انسان خود اپنی تبدیل ہی نہیں کر سکتا، ناممکن ہے۔ ہر چیز تبدیل ہو سکتی ہے، جبلت تبدیل نہیں ہو سکتی ہاں جی۔
چنانچہ سالک اس بزرگ کو خواب میں دیکھتا ہے اور اس سے مستفید ہوتا ہے۔
یہ فقیر (اب دیکھیں خود اپنی بات پہ، حضرت بہت بڑے اویسی بزرگ تھے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، ہاں جی۔) یہ فقیر جب عالم ارواح کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے وہاں ارواح کی یہ طبقے دیکھے۔ (اب دیکھیں خود اپنی کیفیات بتا رہے ہیں)۔
ایک ملاء اعلیٰ کا طبقہ: اس طبقے میں میں نے عالی مرتبہ اور کائنات کا انتظام کرنے والے فرشتوں مثلاً جبرائیل اور میکائیل کو پایا۔ نیز میں نے اس مقام پر بعض ایسے انسانی نفوس کو دیکھا کہ وہ ان ملائکہ کبار سے ملحق ہیں اور سرتاپا ان کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ جب کسی سالک کو اس طبقے کے ساتھ ”نسبت اویسی“ حاصل ہو تو اس کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ سالک کے لوحِ دل پر ذات باری کی ”صورت علمی“ اس طرح منقش ہوجاتی ہے کہ کائنات کے انتظام کے سلسلہ میں قدرتِ الہٰی کے یہ چار کمالات یعنی ابداع، خلق، تدبیر اور تدلّی ایک ہی بار اس ”صورت علمی“ کے ضمن میں اس کے دل پر ظاہر ہوجاتے ہیں۔
تشریح:
یہ عبقات میں حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تشریح کی ہے چار جو ہیں: ابداع، خلق، تدبیر اور تدلی، یہ صورت علمی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ صورت علمی سے مراد یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے علم ازلی میں جو چیزیں موجود ہیں، ’’تھی‘‘ بھی کہنا میں ذرا جرأت انسان نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ کے لئے تو 'تھی اور تھا' نہیں ہے ناں، اللہ کے لئے تو سب چیزیں ماضی حال مستقبل ایک جیسے ہیں ہاں جی، تو یہ ساری چیزیں موجود ہیں، پھر جس چیز کو اللہ نے وجود کا رنگ دے دیا تو وجود کا رنگ جو دیا ہے وہ ظاہر ہے تخلیق ہے، تو پیدا ہوگئے۔ اب جن چیزوں کو پیدا کرنا ہے، جن چیزوں کو پیدا فرمایا اور جو چیزیں موجود ہیں یہ سب صورت علمی کے ساتھ ہیں ناں، ٹھیک ہے ناں؟ تو اب اگر کسی پہ صورت علمی کھل جائے، ملحق ہوجائے تو بس عالم تکوین اس پہ کھل جائے گا۔ ٹھیک ہے ناں؟ جو عالم تکوین ہے اس پہ کھل جائے گا۔
متن:
اور سالک کو قدرت الہٰی کے ان چار کمالات کا علم بغیر کسی ارادے اور قصد کے اور بِدون غور و فکر سے کام لئے حاصل ہوجاتا ہے۔
تشریح:
بھئی غور تو اس کو کرنا پڑے جو باہر سے سوچ رہا ہو۔ جس کو اندر داخل کیا گیا اس کو غور و فکر کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں جی، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بھی درس دیا کرتے تھے مثنوی شریف کا اور ایک دوسرے پروفیسر تھے فارسی کے وہ بھی درس دیا کرتے تھے، تو حاجی صاحب جب تشریف لائے تو اس پروفیسر صاحب کے درس کے لوگ آہستہ آہستہ کم ہوتے گئے، کم ہوتے گئے، کم ہوتے گئے۔ کیونکہ حاجی صاحب کا پتا چلا تو ادھر جانا شروع ہوگئے اور پھر جب وہاں گئے تو وہیں کے ہوکے رہ گئے۔ اب پروفیسر صاحب کے ساتھ بہت تھوڑے لوگ رہ گئے۔
پروفیسر صاحب نے محسوس کیا کہ یہ کیا بات ہے، مطلب پتا نہیں حاجی صاحب کے پاس کون سی گیدڑ سینگھی ہے کہ سارے لوگ ان کی طرف جارہے ہیں، کیا وجہ ہے؟ تو چلو ہم بھی چل کے دیکھتے ہیں۔ تو ایک دفعہ وہ بھی درس میں شامل ہوگئے۔ اب درس میں شامل ہوگئے تو خود ہی بس وہیں کے ہوگئے، اب اپنا درس چھوڑ دیا اور حاجی صاحب کے درس میں بیٹھنا شروع کرلیا۔ تو اپنے پرانے دوستوں میں سے ان سے کسی نے کہا کہ پروفیسر صاحب! کیا بات ہوئی؟ آپ تو ما شاء اللہ کافی عرصہ سے درس دیا کرتے، اپنا درس کیوں چھوڑ دیا؟ انہوں نے کہا بتاؤں کیوں چھوڑ دیا؟ کہتے ہیں بتا دیں۔ کہتے ہیں میری مثال ایسی تھی کہ جیسی کسی مکان کے باہر کسی کو کھڑا کیا جائے اور اس کو مکان کے اندر کی پوری تفصیلات پتا ہوں کہ اس میں اتنے کمرے ہیں، اتنے مطلب پردے لگے ہوئے ہیں، اتنے باتھ روم ہیں، اتنے یہ ہیں، اتنے یہ ہیں، اور سارا باہر سے پورا نقشہ اندر والا سمجھا دیا جائے، یہ تو میرا کام تھا۔ حاجی صاحب کا کام بڑا آسان تھا، مکان کے اندر لے جاتے ہیں اور دکھاتے: یہ دیکھو، یہ دیکھو، یہ فلاں چیز ہے، یہ فلاں چیز ہے، یہ فلاں چیز ہے۔ بس کہتے کہ یہی فرق ہے بس۔ مقصد یہ ہے کہ کیفیات طاری کروا دیتے ہیں، جو کیفیات حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اشعار میں بیان فرماتے ہیں وہ حاجی صاحب طاری کرا دیتے۔ جب طاری کرا دیتے تو خود ہی سمجھ میں آجاتا کہ یہ چیز کیا ہے۔ ایک ہوتا ہے ابن الحال، ایک ہوتا ہے ابو الحال، جو ابن الحال ہوتا ہے اس پہ حال طاری ہوتا ہے، ابو الحال وہ ہوتا ہے جو حال اپنے اوپر خود طاری کرتا ہے یعنی جس قسم کا حال ہو اس قسم کا اپنے اوپر وہ طاری کر لیتا ہے۔ تو اب یہ جو اس قسم کی بات ہوتی ہے ظاہر ہے تو اُن کا معاملہ پھر مختلف ہوتا ہے۔
متن:
اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظام عالم کے متعلق جو کلی تدبیریں اور عمومی فیصلے حظیرۃ القدس میں طے ہوتے ہیں، ”نسبت اویسی“ کی تاثیر سے یہ خود بخود سالک کے دل پر نقش ہوجاتے ہیں۔ یہ نسبت بیشتر انبیاء کو حاصل ہوتی ہے اور جو علوم و معارف انبیاء سے ظاہر ہوتے ہیں وہ اکثر اسی نسبت کے سرچشمے سے پھوٹتے ہیں۔
ملاء اعلیٰ کے بعد میں نے عالم ارواح میں ایک دوسرا طبقہ ملاء سافل کا دیکھا۔ (نیچے درجہ والا طبقہ ملاء اعلیٰ کے بعد) جس شخص کو اس طبقے سے ”نسبت اویسی“ حاصل ہو اس کی علامت یہ ہے کہ اسے خواب اور بیداری دونوں حالتوں میں فرشتے نظر آتے ہیں اور فرشتوں کی جماعت جن کاموں پر مامور ہے سالک ان کو ان کاموں کو کرتا اور اس ضمن میں آتے جاتے دیکھتا ہے اور وہ انہیں جانتا اور پہچانتا بھی ہے۔
عالم ارواح کا تیسرا طبقہ مشائخ صوفیہ کی ارواح کا ہے۔ یہ ارواح خواہ مجموعی پر یکجا ہوں یا فرداً فرداً الگ الگ۔ جس شخص کو اس طبقے سے ”نسبت اویسی“ حاصل ہوتی ہے، ضروری ہے کہ اسے اس نسبت کی وجہ سے صوفیاء کی ان ارواح سے عشق و محبت پیدا ہو اور وہ ”فنا فی المشائخ“ ہوجائے۔ اس حالت میں ”فنا فی المشائخ“ کی یہ کیفیت اس کی زندگی کے ہر ہر پہلو میں مؤثر ہوتی ہے۔ (نظر آتی ہے) جیسے کہ درخت کی جڑوں میں پانی دیا جاتا ہے تو اس پانی کا اثر تازگی کی صورت میں درخت کی ہر شاخ، ہر پتی اور اس کے پھولوں اور پھل تک میں سرایت کرجاتا ہے۔ لیکن ”فنا فی المشائخ“ کی اس نسبت سے ہر شخص میں ایک سی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس کی وجہ سے ایک شخص پر ایک حال وارد ہوتا ہے اور دوسرے پر ایک دوسری کیفیت طاری ہوتی ہے۔ ”فنا فی المشائخ“ کی نسبت کے سلسلہ میں مشائخ کے عرسوں کا قیام،
تشریح:
کیا کہا؟ عرسوں کا قیام۔ یہ عرس کو جو ہم پابندی کرتے ہیں ناں یعنی نہیں مانتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے اس کو غلط طریقہ سے منانا شروع کیا، اس کا لوگوں نے غلط مطلب لے لیا۔ ورنہ عرس کا اصل مقصد کیا تھا؟ جو مجھے معلوم ہے واللہ اعلم بالصواب، عرس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی بزرگ فوت ہوجاتا تو ان کی فوتگی کے دن وہ حضرات جمع ہوجاتے ہیں، ان کے لئے ایصال ثواب کرتے اور ساتھ وعظ و تمحیص بھی کرتے تھے۔ اور اس میں یہ ہوتا تھا کہ جن کاملین کی تکمیل بھی ہوچکی ہوتی تھی وہ ان غیر کاملوں کی تکمیل کرنے کے لئے جمع ہوتے تھے تاکہ ان سے استفادہ کر سکیں، ایک gathering اس مقصد کے لئے۔ جیسے ہمارا جوڑ۔ ہمارے جوڑ میں اور اُس جوڑ میں صرف ایک فرق ہے، وہ یہ کہ ہم صوفی اقبال صاحب کے وفات کے دن جمع نہیں ہوتے، وفات کے دن جمع نہیں ہوتے کسی اور دن جمع ہوتے ہیں جو بھی ہم نے ترتیب بنائی ہوتی ہے تو یہ اس کا نعم البدل ہے عرس کا، یہ عرس کا نعم البدل ہے۔ کیونکہ عرس کے ساتھ لوگ پھر اس کو نتھی کرلیتے ہیں وفات کے دن کو، تو چونکہ وہ شرعاً ثابت نہیں ہے تو اس پہ زور دینے سے معاملہ خراب ہوتا ہے۔ لہٰذا کیوں خواہ مخواہ ہم اس پہ زور دیں، کسی اور دن جمع ہوجائیں ناں، جو مقصد ہے اس کو حاصل کریں، ذریعے کے پیچھے ہم کیوں پڑیں؟ تو یہ جو ہمارا جوڑ ہے اصل میں بنیادی طور پر یہ کیا ہے؟ یہ اس وقت کے عرس کا قائم مقام ہے، جو عرس ہوتا تھا تاکہ لوگ جمع ہوجائیں، کاملین غیر کاملین کے لئے ذریعہ بن جائیں تکمیل کا۔ تو اس مقصد کے لئے لوگ جمع ہوتے تھے اور اس وقت بالکل صحیح نیت کے ساتھ جمع ہوتے تھے اور لوگوں کو واقعی فائدہ ہوتا تھا۔ تو ہمارے بڑے بڑے علماء بھی پہلے عرس میں جایا کرتے تھے۔
اب تو میں کہتا ہوں کہ عرس میں جانا ناممکن رہا۔ اس کی وجہ کہ عرسوں کا حلیہ بگڑ گیا ہے، عرسوں میں اب شرکیہ اور پتا نہیں فسق والی چیزیں اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں۔ خود ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جو عرس ہوتا ہے اس میں ہم کبھی نہیں جاتے، کیونکہ اس کا کاکا صاحب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس کا نفس کی خواہشات کے ساتھ تعلق ہوتا ہے، تو اس وقت ہم کیوں جائیں؟ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں؟ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اپنے شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کے دن لوگوں کو آنے سے روکتے تھے، نہیں آنے دیتے تھے بلکہ جو عرس میں شامل ہونے کے لئے آتے ان سے بات بھی نہ کرتے اور فرماتے کہ تم لوگوں نے ان لوگوں کی تعداد کو بڑھا دیا جو فسق و فجور میں مبتلا ہیں۔ کثرتِ سواد ہوگیا، لہٰذا منع فرماتے تھے، تو منع بوجوہ ہے، وجہ ہے منع ہونے کی اور وہ کیا ہے؟ کہ لوگوں میں فساد آگیا۔ اور یہ چونکہ ذرائع ہیں تو ذرائع جو ہوتے ہیں وہ مقصد کے ساتھ نتھی ہوتے ہیں اگر مقصد اس سے پورا نہیں ہوتا ہو تو پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر کیا اس کے ساتھ چمٹنا چاہئے۔ اگر آپ پھر بھی اس کے ساتھ چمٹتے ہیں تو آپ نے اس کو واجب سمجھ لیا ناں۔ تو مستحب کو بھی واجب اگر کوئی سمجھے تو تبدیلی واجب ہوجاتی ہے۔ تو چہ جائے کہ جو مستحب بھی نہ ہو، صرف جائز ہو؟ یہی اصل میں بنیادی چیز ہے جو بات ہے۔ تو حضرت نے جو فرمایا ہے ان دنوں عرس ناجائز نہیں ہوا کرتا تھا۔ اور یہی وہ مسئلہ ہوتا ہے کہ لوگ نہیں سمجھتے۔ لوگ بعض دفعہ جو عرس کے حق میں بولنے والے ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لکھا ہے۔ بھائی لکھا ہے لیکن کس دور میں لکھا ہے؟ لکھا ہے لیکن کس دور میں لکھا ہے؟ اُس دور کی بات آپ اِس دور پہ تو منطبق نہیں کر سکتے ناں۔ وہ دور تو اچھا دور تھا اُس وقت ان تمام باتوں کی مطلب سمجھ تھی۔ اب چونکہ سمجھ نہیں ہے لہٰذا اب اس کے ساتھ attach ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تو خیر بہرحال یہ عرس والی بات ہوگئی۔
عرسوں کا قیام، ان کی قبروں کی پابندی سے زیارت کرنا، وہاں جاکر فاتحہ پڑھنا، ان کی ارواح کے نام سے صدقہ دینا، ان کے آثار و تبرکات، ان کی اولاد اور ان کے متعلقین کی تعظیم و تکریم میں پورا پورا اہتمام کرنا یہ سب امور داخل ہیں۔
تشریح:
میں اپنا مشاہدہ بتاتا ہوں، اب بھی یہ چیزیں چل رہی ہیں اور صحیح بھی چل رہی ہیں اور غلط بھی چل رہی ہیں۔ صحیح بھی چل رہی ہیں، غلط بھی چل رہی ہیں۔ صحیح والوں کو اِسی طرح فائدہ ہورہا ہے اور غلط والوں کو نقصان ہورہا ہے۔ سمجھ میں آئی ناں بات؟ کم از کم میرے سامنے جو چیزیں ہیں بالکل میں دیکھتا ہوں کہ صحیح بھی چل رہی ہیں، مثال کے طور پر قبروں کی زیارت کرنا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو صحیح طریقہ سے باقاعدہ ان کو روحانی فائدہ ہورہا ہے اور وہاں جاکے ما شاء اللہ ان کو ہوتا ہے، اور ایسے ہیں جو شرک میں مبتلا ہیں اور مشرک بن رہے ہیں، ایسا بھی ہے۔ میں خود ایک دن آرہا تھا نوشہرہ سے زیارت کاکا صاحب جارہا تھا، تو بہت رش تھا، ان دنوں بسیں کم تھیں تو رش بہت زیادہ ہوتا تھا تو میں بھی کھڑا تھا میرے سامنے ایک بوڑھا بابا بھی کھڑا تھا تو ویسے انسان کے ساتھ کوئی قریب ہو تو کوئی بات چیت تو شروع ہی ہوجاتی ہے۔ بابا جی آپ کہاں سے آئے ہیں؟ انہوں نے دور جگہ بتائی کہ فلاں جگہ سے۔ میں نے کہا کس لئے آئے ہو؟ کہتا وہ میرا ایک پھوڑا جو ہے کیا ہوگیا تھا تو بہت علاج کیا لیکن ٹھیک نہیں ہوا، تو کسی نے کہا کہ کاکا صاحب چلے جائیں تو وہاں یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ میں نے کہا ہاں ہاں یہ تو واقعی اللہ تعالیٰ کرے کہ ٹھیک ہوجائے۔ تو میں آپ کو صحیح طریقہ بتا دوں تاکہ آپ کو فائدہ ہوجائے؟ کہتے ہیں کیوں نہیں بیٹا بتاؤ۔ میں نے کہا وہاں پہ جاکے یوں کرنا کہ مسجد اس کے پاس قریب ہے دربار کے پاس وہاں جاکر دو رکعت پڑھ لینا ایصال ثواب کے لئے، پھر جاکے بزرگ کے مزار پہ، لیکن طواف نہ کرنا، طواف سے ناراض ہوتے ہیں، ہاں جی طواف نہیں کرنا یعنی سرہانے چلے گئے تو واپسی اس طرح آئیں، پائنتی سے جائیں تو پائنتی سے واپس آجائیں۔ طواف نہ کرنا اس سے ناراض ہوتے ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ اچھا ٹھیک ہے۔ میں نے کہا وہاں جاکر جتنا آپ قرآن پڑھ سکتے ہیں پڑھ کے اس کا ایصال ثواب کرلیں اور پھر آکر وہاں اسی مسجد میں دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ لیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں چونکہ وہ اللہ کے ولی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے آپ کی دعا بھی قبول فرمائیں گے تو ان شاء اللہ آپ کا کام ہوجائے گا۔ تو کہتے ہیں ما شاء اللہ آپ نے بالکل صحیح طریقہ بتایا، میں اسی پر عمل کروں گا، اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے۔ اب اگر میں اس کو کہتا کہ تو کیوں کر آیا ہے؟ اور اس طرح میں ذرا اس کو۔ تو کیا ہوتا؟ کیا وہ میری بات مانتے؟ پتا نہیں کیا کہتے اور خود بھی گناہگار ہوتے اور مجھے بھی ساتھ خراب کرتے۔ تو اب اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ کہ ان کو صحیح طریقہ مل گیا۔ تو اسی طریقہ سے مطلب جو بزرگوں کے مزار پہ جاتے ہیں، صحیح طریقہ یہ ہوتا ہے اور صحیح طریقہ سے استفادہ کا طریقہ بھی ہوتا ہے، ما شاء اللہ بہت فائدہ ہوجاتا ہے۔ لیکن ہاں! ہر ایک کے لئے اپنا اپنا انداز اور طریقہ ہوتا ہے۔ ایک منتہی ہوتے ہیں یعنی صاحبِ نسبت ہوتے ہیں ان کا انداز الگ ہوتا ہے، اور ایک جو صاحبِ نسبت نہیں ہوتے ان کا انداز الگ ہوتا ہے۔ طریقہ پھر پوچھ لینا چاہئے کہ کس طریقہ سے جاؤں؟ تو اسی طریقہ سے ہوجاتا ہے۔ تو اس طرح مطلب یہ ہے کہ جب انسان جائے۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے واقعہ بتایا ہے، وعظ میں میں نے پڑھا ہے کہ شاہ رفیع الدین صاحب شاہ ولی اللہ کے جو (صاحبزادے) تھے، وہ کہتے ہیں وہ تشریف لے جارہے تھے تو ساتھ دو طالبعلم بھی تھے، تو حضرت تو بہت صاحب کشف تھے تو بیٹھ کے مراقب ہوگئے مزار پر، مزار پر مراقب ہوگئے تو ان طالبعلوں نے بھی آنکھیں بند کرلیں، مراقب ہوگئے۔ تو کہتے ہیں میں نے پیچھے سے ان کو دو مار دیں کہ وہ آنکھیں تمھاری بند ہیں تو یہ آنکھیں کیوں بند کردیں؟ مطلب وہ نظر کشفی جو تمھیں حاصل نہیں ہے تو یہ خواہ مخواہ نمائش کے لئے آنکھیں بند کردیں۔ ہاں جی۔ تو اب یہ والی بات ہے کہ مطلب لوگ خواہ مخواہ جس کو کہتے ہیں ناں ”ما مه شمیره ددګډ یم“ پشتو میں اس کا کیا ترجمہ کریں؟ بڑی زبردست ضرب المثل ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’مجھے گنو مت میں تمہارے اندر شامل ہوں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی وجہ کے، وہ جو ہے ناں وہ یہ ہے کہ بغیر کسی وجہ کے، کوئی مطلب نہیں اور میں بھی شامل ہوں۔ ہاں جی تو یہ اصل بات ہے کہ جو اہل ہیں ان کے لئے بہت کچھ ہے، ان کے لئے بہت کچھ ہے اور جو اہل نہیں ہیں تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو خراب نہ کریں۔ بلاوجہ مطلب جو ہے ناں اپنے آپ کو خراب نہ کریں۔ تو اس میں یہی والی بات ہے کہ فاتحہ پڑھنا، ان کی ارواح کے نام سے صدقہ دینا۔ کیا خیال ہے؟ میں ایصال ثواب کر سکتا ہوں ارواح کو؟ یہ صدقہ دینا ہے ناں، ایصال ثواب صدقہ ہے ناں، میں کوئی کھانے کی چیز پکا کے اللہ کے راستے میں دوں۔ ہاں! البتہ اس میں اصل چیز کیا ہے وہ؟ وہ نسبت موجود ہو اس میں، نسبت کیا ہے؟ اللہ کے لئے ہو۔ یعنی چیز اللہ کے لئے اور ثواب اس کے لئے ہو۔ مثال کے طور پر اگر میں نے مرغ ذبح کیا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر تو یہ ہلاک ہوگیا۔ نہ میں کھا سکتا ہوں نہ کوئی اور کھا سکتا ہے۔ اور اگر میں اللہ کے نام پر ذبح کردوں اور اس کا ثواب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو بخش دوں تو سبحان اللہ! بالکل ایصال ثواب ہے، میں خود بھی کھا سکتا ہوں دوسرے بھی کھا سکتے ہیں اور حضرت کو ثواب بھی پہنچ جائے گا اور آپ کو فائدہ بھی پہنچ جائے گا۔ ہاں جی تو اب صرف اتنا فرق ہے، اگر وہ کوئی نہیں کر سکتا تو پھر ہم کیا کہیں؟ پھر تو ظاہر ہے شامت ہی ہے ناں اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔ تو اسی طریقہ سے بزرگوں کے نام پر صدقہ کرنے کا مطلب یہی ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ ہمارے اکابر یہ کیا کرتے تھے۔
مجھے خود اس دفعہ مکہ مکرمہ کے یعنی حاضری کے موقع پر ایک بہت بڑے بزرگ ہیں مولانا سیف الرحمٰن صاحب انہوں نے یہ واقعہ بتایا، وہاں استاذ ہیں، کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا وہاں پر جو ہے ناں قبے جو تھے گھر، کہتے ہیں میں جب یہاں پر آیا پہلی دفعہ تو مجھے، ایک صاحب کا نام لیا اس وقت مجھے نہیں یاد کہ فرمایا کہ حاجی صاحب کے لئے ایصال ثواب کے لئے عمرہ کرو، حاجی صاحب کے ایصال ثواب کے لئے عمرہ کرو۔ کہتے ہیں میں نے حاجی صاحب کے ایصال ثواب کے لئے عمرہ کرلیا۔ کہتے ہیں اس کے بعد اَلْحَمْدُ للہ مجھے وہاں لے بھی لیا گیا اور ساتھ مجھے حاجی صاحب کے گھر میں ٹھہرایا گیا۔ اب جنہوں نے ٹھہرایا ان کو اس کا کیا پتا کہ وہ یعنی ان کے ایصالِ ثواب کے لیے عمرہ کیا ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ تو مطلب یہ ہے کہ یہ من جانب اللہ (اللہ پاک کے) انتظامات ہوتے ہیں تو ایصال ثواب سے کام بنتے ہیں، ایصال ثواب سے کام بنتے ہیں۔ لیکن یہ اپنا ایک اندرونی نظام ہے پورا، پورا ایک اندر پورا نظام ہے۔ البتہ یہ ہے کہ جیسے اس دنیا میں خیر اور شر ملے ہوئے ہیں، اس طرح اس چیز میں بھی خیر اور شر ملا ہوا ہے۔ تو شر سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور خیر کو حاصل کرنا ہے۔
متن:
اولاد اور ان کے متعلقین کی تعظیم و تکریم۔
تشریح:
یہ تو مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب طریقہ سے سمجھایا اس چیز کو اور وہ یہ ہے کہ ہمارے خاندان کے ایک بزرگ تھے مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو اسیر مالٹا تھے، شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے خصوصی خدام میں سے تھے۔ تو میری ملاقات بھی حضرت کے ساتھ بہت عرصہ کے بعد ہوئی، مجھے اصل میں حضرت کا پتا ہی نہیں تھا۔ چونکہ ہم اپنے گاؤں میں تھے میرے والد صاحب کو پتا تھا لیکن والد صاحب کی طرف سے ہمارے سامنے کبھی ذکر ہی نہیں ہوا، مطلب خیال ہی نہیں آیا یا جو بھی بات تھی تو میرا کوئی اس طرح نہیں تھا تعلق، حالانکہ والد صاحب کا ان کے ساتھ بڑا قریبی تعلق رہا تھا۔ تو تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک دن کہا کہ کیا مولانا عزیر گل صاحب کو آپ نے دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ تو کہتے ہیں کمال ہے اتنی تاریخی شخصیت کو ابھی تک آپ نے نہیں دیکھا، جس کے لئے اتنے دور دور سے لوگ آتے ہیں، آپ کو ابھی تک پتا بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا میں کیا کروں؟ مجھے کسی نے بتایا نہیں۔ کہتے ہیں ابھی چلتے ہیں۔ حالانکہ حضرت مفلوج بھی تھے لیکن میرے ساتھ چل پڑے کیونکہ حضرت کا گاؤں تسنیم الحق صاحب کے گاؤں کے بالکل قریب تھا، تو مجھے حضرت لے گئے اور میرا تعارف دو طریقہ سے کیا، ایک میرے والد صاحب کے reference سے کہ فلاں کا بیٹا ہے، بہت خوشی ہوئی۔ اور پھر ساتھ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بھی کیا کہ مولانا صاحب کا مرید ہے، تو حضرت اور بھی خوش ہوئے فرمایا اگر مولانا صاحب کے پاس جاتے ہو پھر میرے پاس کیوں آتا ہے؟ اصل کام تو مولانا صاحب کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا صاحب کو اس لئے بٹھایا تاکہ جن کو ہدایت دلوانا ہو ان کے ذریعہ سے اس کو ہدایت دلوا دے۔ مطلب یہ فرمایا۔ خیر، اَلْحَمْدُ للہ پھر اس کے بعد حضرت کے ساتھ میرا آنے جانے کا تعلق ہوگیا تو جایا کرتا تھا اَلْحَمْدُ للہ۔ تو کچھ ایک عرصہ میں نے دیکھا کہ حضرت کی میری طرف بہت توجہ ہوگئی تو میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے یہ، حالانکہ حضرت تو بڑے مستغنی قسم کے بزرگ تھے، پرواہ ہی نہیں کرتے تھے، تو میں نے کہا یہ کیا بات ہوگئی؟ تو میں نے جب سوچا تو میں نے کہا اچھا اصل وجہ سمجھ میں آگئی۔ وہ ان کا ایک پوتا تھا اسلام آباد میں اپنے جو ہے ناں ماموں کے ساتھ رہتا تھا، چھوٹا سا تھا، زکریا، تو ان کو انگلی سے پکڑ کر میں ویسے اپنے ساتھ پھرایا کرتا تھا ناں تو کبھی میں کوئی ایک دعا سکھا دیتا تھا کبھی دوسری دعا سکھا دیتا، کبھی کوئی اور ذکر سکھا دیتا تھا اور وہ جاکر اپنی زبان میں اپنے گھر میں بات کرتا کہ شبیر uncle نے مجھے یہ سکھایا ہے، شبیر uncle نے مجھے سکھایا ہے، تو وہ وہاں جاکر report کرتا تھا۔ حضرت کو بھی پتا چلتا تھا۔ تو یہ باتیں حضرت کو پہنچتی تھیں اس سے توجہ ہوگئی میری طرف، تو مجھے فوراً پتا چلا اوہ یہ تو زکریا کے کمالات ہیں۔ مطلب اس وجہ سے ہم ان کی نظروں میں آگئے۔ اب مجھے بتاؤ اگر ایک زندہ بزرگ کی نظروں میں آپ آسکتے ہیں کہ آپ ان کی اولاد کے لئے مطلب بھلائی کا سوچ رہے ہیں، تو جو فوت شدہ بزرگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کچھ دیا ہے، تو ان تک جب بات پہنچے گی تو کیا وہ متوجہ نہیں ہوں گے؟ ظاہر ہے متوجہ ہوں گے۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کیسے ولی اللہ بن گئے؟ آپ کو یاد ہوگا، ان کا واقعہ یہ تھا کہ وہ پہلوان تھے اور شاہی پہلوان تھے۔ تو ایک دن ایک دبلے پتلے پہلوان نے اس کو challenge کردیا، تو یہ خود حیران ہوگئے، بادشاہ بھی حیران لوگ بھی حیران یہ کیا کر سکتا ہے، مطلب دیکھیں ناں کوئی جوڑ ہی نہیں، ہاں جی لیکن بہرحال اصول کے مطابق تو لینا تھا۔ ٹھیک ہے جی ہوگیا، wrestling کی date طے ہوگئی، تو وہ جو پہلوان جب ہاتھ ملاتے ہیں ناں پنجہ ملاتے ہیں پہلے، شروع کرنے سے پہلے، تو اس نے کہا کہ میں سید ہوں اور مجھے ضرورت ہے اور میں نے کہا کہ اس طریقہ سے کچھ پیسے مل جائیں تو میرا کام بن جائے گا، تو انہوں نے کہا کہ ایک سید کو میں کیسے گراؤں، ہاں جی تو خود اپنے آپ کو گرا دیا۔ کوئی اس طرح کرتب کرلیا کہ گر گئے۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ Foul play ہے ٹھیک نہیں۔ مطلب دوبارہ کشتی ہو۔ دوبارہ کشتی ہوئی تو دوبارہ انہوں نے اپنے آپ کو گرا دیا۔ جو خود اپنے آپ کو گراتا ہے تو کتنی مرتبہ ہو تو وہ تو۔ تیسری دفعہ بھی ہوگیا۔ بادشاہ نے کہا بس ٹھیک ہے ہوگئی بات، اس کو تو انعام و اکرام سے نوازا، ان کو خوب جھاڑ پلائی۔ کیا میں نے اس لئے تمھیں تیار کیا تھا؟ اور یہ کیا تھا اور وہ کیا تھا اور عین موقع پہ تو نے۔ سر نیچے کیے سنتے رہے، کیا مطلب کہہ سکتے تھے ان کو، کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ اخیر میں بہت ہوا تو انہوں نے کہا حضرت بات اس طرح ہوئی۔ کہا: بالکل ٹھیک کیا ہے، بالکل ٹھیک کیا۔ ہاں جی۔ بادشاہ بھی دل والا تھا، انہوں نے کہا: بالکل ٹھیک کیا ہے۔ پھر اس کے بعد خواب دیکھا، خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے میرا خیال رکھا، میری اولاد کا اکرام کیا میں نے بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کرلی، اللہ تعالیٰ نے آج سے تمہارا نام اولیاء میں رکھ دیا۔ یہ ہیں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا۔ اب یہ مجھے بتائیں کہ مطلب یہ چیز وہ ہے یا نہیں ہے؟ بات تو یہی ہے۔ تو اگر کوئی اللہ والوں کی اولاد کے ساتھ اعزاز اور اکرام کرتا ہے تو یہ باتیں اس طرح رائیگاں نہیں جاتیں، یہ کہیں کہیں record ہوتی ہیں۔