محبت رسول ﷺ کا عملی تقاضا

(یہ بیان 29 اکتوبر 2021 کے جمعہ بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے مہینے میں آپ ﷺ کی ذات مبارکہ اور سنت کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس میں حضور اکرم ﷺ کو عالمین کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے، اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے طریقوں کی پیروی ہی انسان کے لیے دنیا و آخرت میں رحمت کا باعث ہے۔ ایمان کی کاملیت کے لیے آپ ﷺ سے والہانہ محبت کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے، جو والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر ہو۔ بیان کے مطابق، اللہ تعالیٰ سے محبت حاصل کرنے کا واحد راستہ آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرنا ہے، جس کے ذریعے انسان اللہ کا محبوب بن سکتا ہے۔ قیامت کے دن انسان سے وقت، مال کمانے اور خرچ کرنے، علم اور جسم کے استعمال جیسے اختیاری اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور ان تمام شعبوں میں سنت نبوی ﷺ کی پیروی کو ہی کامیابی کی کنجی بتایا گیا ہے۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سنت کا طریقہ ہر معاملے میں سب سے آسان اور بہترین ہوتا ہے، جبکہ نفسانی خواہشات کی پیروی بظاہر آسان لگنے کے باوجود درحقیقت مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ اذان کے جواب میں آپ ﷺ کے سکھائے ہوئے مسنون طریقے کو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ نیت کی صداقت کے ساتھ ساتھ عمل کا طریقہ بھی سنت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ مجموعی طور پر، یہ بیان اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اللہ کے کلام اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرنا ہی حقیقی کامیابی اور رحمت کا باعث ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾1

وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾2

وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾3

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ’’اَنَا رَحْمَۃٌ مُہْدَاۃٌ‘‘4 صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ۔

معزز خواتین و حضرات! آپ ﷺ کی ولادت پاک کا مہینہ چل رہا ہے۔ آپ ﷺ کو ہمارے لیے اللہ جل شانہٗ نے ہدایت کا ذریعہ بنایا ہے اور عالمین کے لیے رحمت بنا کر آپ ﷺ کو بھیجا گیا ہے۔ جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ عالمین کے لیے رحمت ہیں، تو یقیناً آپ ﷺ نے جتنے بھی اعمال فرمائے ہیں، ان سب کے ذریعہ سے عالمین میں رحمت کا ظہور ہوگا۔ لوگ جتنے جتنے بھی آپ ﷺ کے قریب آتے جائیں گے، تو رحمت ان کو ڈھانپ رہی ہوگی۔ آپ ﷺ کی ہر نسبت کے ساتھ جتنی انسیت اور محبت پیدا ہوتی جائے گی، اتنی اتنی اللہ پاک کی رحمتیں متوجہ ہو جایا کریں گی۔ اس لیے یہ یقینی بات ہے، آنکھیں بند کرکے کہی جاسکتی ہے کہ آپ ﷺ کے طریقے کو سارے طریقوں پر فضیلت حاصل ہے، اور آپ ﷺ کی محبت ساری مخلوقات سے زیادہ ہونے میں ہی انسان کا فائدہ ہے، جس کی تاکید آپ ﷺ نے خود بھی فرمائی ہے اور وہ یہ کہ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا، جب تک مجھ سے والدین سے زیادہ، اولاد سے زیادہ، بلکہ سارے لوگوں سے زیادہ محبت نہیں کرو گے۔ اور ایک روایت میں یہ کہ جب تک مجھ سے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبت نہیں کرو گے۔ اور آپ ﷺ کے طور طریقے، جس کو سنتِ نبوی کہتے ہیں، اس کے بارے میں تو اللہ جل شانہٗ کا خاص ارشاد مبارک ہے: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾5 اے میرے حبیب، اپنی امت سے کہہ دیجئے اگر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو، تو میرے طریقوں کو اپناؤ، میری پیروی کرو، اللہ پاک تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ پس جو چاہتا ہے کہ میں اللہ کا محبوب بن جاؤں، تو اس میں فلسفے بگھارنے کی ضرورت نہیں ہے، ادھر ادھر کی باتیں لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ہی کام کرے اور وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنت پر چلنا شروع کرے، تو اللہ پاک کے محبوب بن جاؤ گے، اس میں کوئی دوسری بات ہے ہی نہیں۔ اور انسان سے پوچھا جائے گا صرف اختیاری اعمال کا، غیر اختیاری اعمال کا آپ سے پوچھا ہی نہیں جائے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ سے نہیں پوچھیں گے کہ سید کیوں پیدا نہیں ہوئے؟ آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ کو اچھی خوابیں آتی ہیں یا نہیں آتیں؟ آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم کتنے ذہین ہو۔ یہ ساری باتیں جو غیر اختیاری ہیں، اس کا اللہ پاک نہیں پوچھیں گے۔ پوچھیں گے تو کس بات کی پوچھیں گے کہ تجھے جس چیز کا حکم ہوا تھا اور تم اس کو کرسکتے تھے، اس کو کیا ہے یا نہیں کیا؟ یہ باتیں پوچھی جائیں گی۔ لہٰذا اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ پاک کا محبوب بن جائے، تو ادھر ادھر باتیں کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ایک ہی راستہ بہت زبردست موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے طریقے پر چلنا شروع کرلے، اللہ پاک کا محبوب بن جائے گا۔ ہمارے بعض حضرات اس چیز میں پھنسے ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم محبوبین میں سے ہیں۔ اللہ کرے، ظاہر ہے اس میں کوئی ایسی بات تو نہیں کہ اس پر انسان کہے کہ بھئی یہ نہ ہو، ضرور ہو۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ جو بھی کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے محبوبین میں سے ہیں، تو اللہ کرے کہ وہ اللہ کے محبوب بن جائیں، ہم بھی، لیکن اس کے لیے کرنا کیا ہے؟ یہ بات تو میں نے ابھی پہلے ہی ابھی یہ کہہ دیا ہے کہ کوئی کسی سے نہیں پوچھا جائے گا، تم سید کیوں نہیں پیدا ہوئے ہو؟ تو اچھی خوابیں کیوں نہیں دیکھتے ہو؟ تم اللہ کے محبوب کیوں نہیں پیدا ہوئے ہو؟ یہ پوچھا ہی نہیں جائے گا۔ سوال کس چیز کا کیا جائے گا کہ تو نے اپنی زندگی میں اپنے وقت کو کیسے استعمال کیا؟ تو نے مال کیسے کمایا؟ تو نے مال کیسے خرچ کیا؟ تو نے علم کو کیسے استعمال کیا؟ اور تو نے اپنے جسم کو کیسے استعمال کیا؟ یہ پانچ سوالات ہیں۔ حدیث شریف میں ہیں، جو لوگ بھی اپنے آپ کو پریشان کرنا چاہتے ہیں، وہ ادھر ادھر کی باتوں میں ضرور لگیں، لیکن سوال تو یہ پانچ ہی ہیں جو کیے جائیں گے اور اس کے لیے ہمیں تیاری کرنی ہے۔ وقت کیسے استعمال کیا؟ سنت کے مطابق اعمال کرنے میں یا اپنے نفس کی خواہش کے مطابق اعمال کرنے میں۔ دو باتیں ہیں یہ اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے، اللہ جل شانہٗ کی مرضی کے مطابق یا اپنے نفس کی مرضی کے مطابق۔ نفس کی خواہش کے مطابق جو گزارے گا وقت، وہ اپنی مرضی کے مطابق گزار رہا ہے، اور جو سنت کے مطابق وقت گزار رہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق وقت گزار رہا ہے۔ دو باتیں ہیں، مسئلہ سامنے ہے۔ دوسری بات: تو نے مال کیسے کمایا؟ آیا آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق جو جائز طریقے ہیں اس کے مطابق کمایا یا جو ناجائز طریقے ہیں اس کے مطابق کمائے ہیں؟ سوال بھی آسان، جواب بھی بالکل معلوم۔ اگر سنت کے مطابق یعنی شریعت کے مطابق جائز طریقے سے کمایا ہے، بس ناجائز طریقوں سے کمایا ہے، فیل۔ مال کیسے خرچ کیا؟ شریعت کے مطابق جو جائز طریقے ہیں اس کے مطابق خرچ کیا یا ناجائز طریقوں کے مطابق خرچ کیا؟ جائز طریقے کون سے ہیں اور ناجائز طریقے کون سے ہیں؟ اس کے لیے ہم شریعت کی بات دیکھیں گے کہ شریعت کیا کہتی ہے؟ مثلاً کوئی مال کماتا ہے سود کے ذریعہ سے، رشوت کے ذریعہ سے، اقربا پروری اور ذخیرہ اندوزی اور ان چیزوں کے ذریعہ سے، تو کیا ہے؟ ناجائز، دھوکہ دہی، جھوٹ، فراڈ، ناجائز۔ صحیح جائز مضاربت کے ساتھ، تجارت کے ساتھ، ملازمت کے ساتھ یا کوئی اور جو جائز طریقہ ہو اس کے ذریعے سے کمایا ہے، بالکل ٹھیک، پاس۔ اپنے علم کو کیسے استعمال کیا؟ ظاہر ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آیا علم کو عمل کے لیے استعمال کیا یا صرف اس لیے کہ لوگ تمہیں عالم کہیں؟ اگر اس لیے کہ لوگ تمہیں عالم کہیں اور اپنے عالم ہونے پہ فخر کرو، ناجائز۔ اور اگر اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ کو میں راضی کرلوں، اس علم کے ذریعہ سے میں صحیح عمل کرلوں، تو یہ بالکل۔ اور آخری بات، میری آنکھ کیسے استعمال ہورہی ہے؟ میرے کان کیسے استعمال ہورہے ہیں؟ میری زبان کیسے استعمال ہورہی ہے؟ میرا دماغ کیا سوچ رہا ہے؟ میرے دل میں کون سی چیزیں ہیں؟ یعنی کس چیز کی محبت ہے؟ دنیا کی محبت ہے یا اللہ کی محبت ہے؟ اللہ کے رسول کی محبت ہے یا کچھ دوسری چیزوں کی محبت ہے؟ مثلاً میں مشہور ہوجاؤں اس چیز کی محبت ہے۔ اس کو حبِ جاہ کہتے ہیں۔ یہ تصویریں لوگ کیوں نکلواتے ہیں؟ اس لیے کہ لوگ ہماری تصویر کو دیکھ کر کہیں کہ کیسی اچھی تصویر ہے۔ واقعتاً بعض دفعہ انسان بڑا حیران ہوجاتا ہے، انسان کی بڑی چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہوتی ہیں، جن کو کنٹرول کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتا، لیکن صرف اپنے نفس کے تقاضے کے سامنے انسان ڈھیر ہوجاتا ہے۔ ان میں یہ تصویر اتارنا بھی ہے اور یہ ایسی عجیب چیز ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی اس میں مبتلا ہیں۔ پہلے وقتوں میں بھی فتنہ تھا، لیکن اتنا بڑا فتنہ نہیں تھا کہ اس پر خصوصی بات کرنی پڑے، لیکن آج کل یہ بہت بڑا فتنہ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے مجبوراً بات کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو کسی کسی کے پاس کیمرہ ہوتا تھا، کسی کسی کے پاس۔ اور عموماً لوگ جب ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں کیمرے دیکھتے، تو بڑی عمر کے لوگ ان پہ ناراض ہوتے اور وہ اس کو چھپا کے رکھتے۔ مطلب یہ ہے کہ یعنی وہ کوئی اتنی آزادی نہیں تھی اس کی۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ہر جیب کے اندر کیمرہ موجود ہے موبائل کی صورت میں، اور موبائل کی قیمتیں جو مہنگی ہوتی ہیں، ان میں سب سے بڑی وجہ کون سی ہے؟ یہی کیمرہ ہے کہ اس میں کیمرہ کون سا لگا ہوا ہے؟ وہ بڑا زبردست اس کا جو ہے ناں، وہ اشتہار جو ہوتا ہے، اس میں اس کا ذکر ہوتا ہے، اس میں ایسا کیمرہ ہے، ایسا کیمرہ ہے۔ کمپیوٹر، tablets کون سے مہنگے ہیں؟ جس میں انسان فلمیں زیادہ دیکھ سکتے ہوں، وہ مہنگے ہیں، عام چیزوں کے لحاظ سے یہ چیزیں جو ہوتی ہیں، وہ اتنی مہنگی نہیں ہوتیں۔ مثلاً سادہ موبائل آج کل کتنے کا ہے؟ تین ہزار روپے کا ہوگا شاید، پہلے دو ہزار روپے کا تھا، اب تین ہزار روپے کا ہوگیا ہے اور ان سے اچھا ہے، پہلے والوں سے اچھا ہے، مطلب اس کے مقابلہ میں اچھا موبائل ہے سادہ تین ہزار روپے کا۔ کیوں؟ اس کی مارکیٹ اتنی نہیں ہے۔ اور سمارٹ فون وہ ایسا عجیب وہ چلی ہے ناں بات کہ آپ کے ساتھ بہت اچھا تیز موبائل موجود ہوگا، لیکن star آ جائے گا اسی پر ہی، اوہ اس میں یہ ہے، اس میں یہ ہے، اس میں یہ ہے۔ قیمتی کیا ہے؟ چالیس ہزار، پچاس ہزار، ستر ہزار، لاکھ، ڈیڑھ لاکھ، یہ مطلب لوگوں کے پاس یہ موبائل کی قیمتیں ہیں اور لوگ لیتے ہیں۔ کیوں لیتے ہیں؟ بھئی جو ضرورت کی چیز ہے، وہ تو مختصر موبائل سے بھی پوری ہوجاتی ہیں، لیکن یہی چیزیں ہیں جو کہ انسان کو وہی نفس کی خواہشات جو ان سے لگی ہوتی ہیں، اس کی وجہ سے بڑے مہنگے مہنگے موبائل وہ خریدتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف فرمائے اور اس کی سمجھ عطا فرمائے۔ ابھی تک میں نے اپنے ارادہ سے کوئی موبائل نہیں خریدا، اللہ کا شکر ہے۔ اپنے ارادہ سے کوئی موبائل نہیں خریدا۔ کیوں؟ پہلے پہلے جو موبائل تھا وہ بالکل نیا نیا آیا تھا، ایک کیپٹن صاحب میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ شاہ صاحب ہم آپ کو فون کرتے ہیں آپ ملتے نہیں ہیں، تو آپ مہربانی کرکے یہ موبائل میں نے آپ کے لیے لیا ہوا کیونکہ ہمیں آرمی کی طرف سے مل رہے تھے، یہ 32 سو روپے کا ہے، بے شک مجھے آپ پیسے نہ دیں، لیکن آپ یہ موبائل رکھ لیں۔ اب اس نے اتنی محبت سے دیا اور بات بھی صحیح تھی، کیونکہ ظاہر ہے فون ایک ضرورت تھی اس وقت، تو اس میں یہ چیزیں نہیں تھیں، یہ جو ابھی ہیں، تو میں نے اس وجہ سے ان سے لے لیا اور پیسے ان کو بعد میں دے دیئے، کیوں؟ مناسب نہیں تھا، اگرچہ اس نے بڑی محبت کی، لیکن آخر ظاہر ہے پیسے میں نے زبردستی دے دیئے اور پھر اس طرح ہوتا گیا تو کوئی موبائل میں نے اپنی مرضی سے نہیں لیا۔ وجہ کیا ہے؟ کہ مجھے اس پر پیسہ ضائع کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ پیسہ ضائع کرنے کا اس پر مجھے کوئی شوق نہیں ہے کہ میں اپنا پیسہ اس چیز پر لگاؤں۔ وجہ کیا ہے؟ یعنی اس کے ساتھ کیا کیا چیزیں وابستہ ہیں؟ وہ انسان کی خواہشات۔ حج کے موقع پہ تھے ہم، ایک خاتون نے مجھے بہت contact کرنا شروع کیا، لیکن وہ حج میں آپ کو پتا ہے کہ وہ انسان مصروف ہوتا ہے، تو contact ہونا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ پوچھنا چاہتی تھی، پھر جب ان کا فون ملا تو مجھے کہتے ہیں کہ وہ جو آج کل وہ یکسوئی کو تباہ کرنے والی چیز ہے، وہ ہماری جیبوں میں موجود ہوتی ہے۔ یعنی اس نے بڑے اچھے انداز سے کہا: "آج کل یکسوئی کو تباہ کرنے والی چیز ہے، وہ ہمارے ہاتھوں میں، جیبوں میں موجود ہوتا ہے، اس سے یہ ہوتا ہے، کچھ باتیں کیں، اپنے احوال بتا دیئے، تو بات بالکل صحیح ہے، یہ یکسوئی کو تباہ کرنے والی چیز ہے۔ اس وقت بھی ہوشیار لوگ ہیں، جن کو میں جانتا ہوں، کم از کم جن کے پاس موبائل نہیں ہے۔ بڑے لوگ ہیں، مطلب سینئر لوگ ہیں، اور ضرورت کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے، تو شاید ان کو زیادہ ضرورت بھی تھی، لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں بس یہ ہمارے گھر میں جو فون پڑا ہوا ہے ناں، landline، یہ کافی ہے، کیونکہ اگر یہ ہم نے جیب میں رکھ لیا، تو ہم نہ سو سکیں گے نہ جاگ سکیں گے، مطلب یہ ہمارے ساتھ ایک مستقل بیماری لگ جائے گی۔ بالکل سو فیصد بات صحیح کی ہے کہ واقعی انسان کی یکسوئی کو disturb کرنے والا سب سے بڑا element آج کل یہ ہے۔ اب جب یہ جیب میں موجود ہوتا ہے ناں، تو لوگوں کو ویسے خارش ہوتی ہے۔ کوئی جگہ دیکھتے ہیں بس selfie! بھئی کیا عجیب لوگ ہو؟ یا کسی اور سے request کرلیں، آپ یہ تصویر ہماری بنا سکتے ہیں؟ کہاں پر؟ حج کے موقع پر، عرفات کو جاتے وقت، مزدلفہ میں، کیا کیا جگہیں ہیں، مطلب وہاں جہاں پر انسان کو دعاؤں کو جی چاہتا ہے ناں کہ انسان دعائیں کریں اور انسان جو ہے ناں مطلب، اب اسی ظالم چیز کا کرشمہ ہم نے دیکھا کہ خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھے ہیں اور تصویریں کس چیز کی کھنچوا رہے ہیں؟ ٹاور کی۔ پاس ٹاور ہے، مطلب جو ہے ناں وہ نظر آتا ہے حرم شریف میں بیٹھ کر بھی نظر آتا ہے اور خانہ کعبہ میں بیٹھ کر تلاوت لوگ کیا کرتے تھے؟ ذکر کیا کرتے تھے؟ خانہ کعبہ کو دیکھتے تھے، طواف کرتے تھے، یہی ہوتا تھا۔ اب وہاں بیٹھ کر اپنی فلمیں دیکھتے ہیں۔ یہی صورتحال ہے۔ اور جب ان سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں یہ اصل میں یہ تو ہم اس لیے بناتے ہیں ناں کہ دوسرے لوگوں کو بھی یہاں کا فائدہ ہو۔ یہ مجھے کہا گیا: "دوسرے لوگوں کو یہاں کا فائدہ ہو، ان کو ہم ذرا اس لیے بھیجے جاتے ہیں۔" بھئی وہ آپ کو دوسروں کو بھیجنے کی بات ہے، وہ آپ کے اوپر وہ نہیں لازم نہیں ہے۔ اگر کسی کو وہاں کے حرم کا کچھ بھی پتا نہ چلے، آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا۔ ان کا اپنا کام ہے، لیکن تو یہاں کیا کررہا تھا؟ یہ آپ کے اوپر حجت ہے۔ آپ یہاں آئے تھے، آپ یہاں کیا کررہے تھے؟ تو یہ اس لیے میں عرض کرتا ہوں ناں کہ یہ جو چیزیں ہیں، انسان کو جیسے ہوتا ہے ناں مطلب یہ جراثیم ہوتے ہیں ناں، تو بعض دفعہ contained ہوتے ہیں، لیکن ان کی environment اگر favourable ہورہی ہو ناں تو بہت جلدی پھیلنے لگتے ہیں اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔ تو اسی طریقے سے جب میری جیب میں موجود ہو اور environment سارا ادھر ادھر ہم دیکھتے ہیں ناں لوگ یہی کررہے ہوتے ہیں، بس یہ بھی انسان اس کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے اور پھر وہ یہی کرنے لگتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں ان چیزوں کے بارے میں جاننا چاہیے کہ ہم اپنا وقت کہاں لگا رہے ہیں؟ چوبیس گھنٹے کی زندگی ہے، چھبیس گھنٹے کبھی نہیں ہوگی، یعنی دن کو۔ دن میں چوبیس گھنٹے ہی ہوں گے۔ اب اس میں آپ نے سونا بھی ہے، اس میں آپ نے کھانا بھی ہے، نماز بھی پڑھنی ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو آپ کی ملازمت وغیرہ وہ بھی کرنی ہے اور پھر یہ ہے کہ جو وقت بچتا ہے، وہ آپ کن چیزوں میں لگاتے ہیں؟ تو اگر آپ کے پاس یہ چیزیں ہوں، تو پھر کیا ہوگا؟ وہ جو ذکر اذکار کے لیے وقت تھا، تیرا تلاوت کے لیے وقت تھا، وہی متاثر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہمیں اس کے بارے میں جاننا چاہیے کہ ہم یہ پانچ سوالوں کے جوابات کیسے دیں گے؟

آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا عملی نمونہ کیا ہے؟ کہ آیا ہم نے آپ ﷺ کی فکر کو اپنایا ہے یا نہیں اپنایا؟ آپ ﷺ جو فکر لے کے آئے تھے، کیونکہ ہمارے اعمال نامے تو وہاں پہنچائے جارہے ہیں، تو کس چیز پر خوش ہوں گے اور کس چیز پر خوش نہیں ہوں گے؟ یقیناً آپ ﷺ کے لیے محبت کے الفاظ جو بولے جاتے ہیں، اس کی بھی قدر ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن صرف الفاظ بولے جارہے ہیں یا اس کے پیچھے کوئی value بھی ہے؟ مثال کے طور پر پانچ ہزار روپے کا نوٹ ہے۔ اب اسی کے مطابق اسی کی طرح کاغذ پر اسی طرح کے اس پہ میں اس کی تصویر لے لوں۔ کیا اس کے پانچ ہزار روپے کوئی دے گا؟ نہیں دے گا ظاہر ہے وہ بلکہ پکڑا جائے گا۔ تو اسی طریقہ سے ہم صرف بات بولیں گے اور اس کے پیچھے عمل کی حقیقت نہیں ہوگی، کیونکہ عمل کے ساتھ اس کو attach کیا جائے گا، تو پھر اس کی value ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی مسلسل کہتا جائے سچ بولو، سچ بولو، سچ بولو اور بول جھوٹ رہا ہوتا ہے۔ اب بتاؤ اس کو سچا کہیں گے یا جھوٹا کہیں گے؟ عمل اس کا جھوٹ بولنے کا ہے، لیکن کہہ کیا رہا ہے؟ سچ بولو، سچ بولو، سچ بولو، سچ بولو، تو اس کو کیا کہا جائے گا؟ ظاہر ہے اس کو جھوٹا کہا جائے گا، کیونکہ اس کا عمل جھوٹ کا ہے، اس کا بول سچ کا ہے، لیکن عمل اس کا جھوٹ کا ہے۔ تو اس لحاظ سے ہمیں جو آپ ﷺ کی محبت کے الفاظ ہیں، اس کے پیچھے اس کی حقیقت ہونی چاہیے، اس کے پیچھے حقیقت ہونی چاہیے۔ مثلاً ایک جلوس آرہا ہے عید میلاد النبی کا، حضور ﷺ کی نسبت سے، اول تو حضور ﷺ کے وقت میں، حضور ﷺ کے بعد قرونِ اولیٰ میں، پھر اس کے بعد پھر اس کے بعد کبھی منایا گیا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ کوئی بھی اس کا مثبت میں جواب نہیں دے سکتا، نفی میں ہے۔ پھر آپ وہاں پر نعتیں پڑھ رہے ہیں، نعتیں کس طرح پڑھ رہے ہیں؟ نعت پڑھنے کا مطلب ہے کہ لوگ اس سے حضور ﷺ کی محبت حاصل کررہے ہیں یا نہیں کررہے؟ لیکن اگر مقابلہ میں کررہے ہیں کہ میری نعت سب سے زیادہ اچھی ہو، اس میں یہ جذبہ خودنمائی ہے یا نہیں ہے؟ اگر آپ اس جذبہ کے تحت کہ مطلب مجھے سب سے زیادہ کہا جائے کہ بھئی یہ اس کی نعت بہت اچھی ہے، تو یہ کیا ہوگا؟ اب یہ جذبہ خودنمائی اتنا زیادہ ہے کہ اپنی نعت کو پڑھوانے کے لیے، سننے کے لیے کسی اور کی نعت کی مخالفت کی جارہی ہے کہ وہ لوگ نہ سنیں۔ یعنی مطلب اتنا تیز لگایا جاتا ہے کہ وہ کسی کو نہ۔۔۔۔ اب یہ بھی تیز ہوگا، وہ بھی تیز ہوگا، وہ بھی تیز، کسی کو کچھ بھی کان پڑی نہیں سنائی دے گی۔ اب یہ کیا چیز ہے؟ بھئی ہوش و عقل کی بھی ضرورت ہے ناں؟ دیکھ لو کہ کیا کررہے ہو۔ خود ہی معلوم کرلو اپنے آپ سے پوچھو کہ میں کیا کررہا ہوں؟ کم از کم ہمارے علاقے میں تو ایسا ہی ہورہا ہے کہ نماز ہورہی ہوگی اور لوگ اس طرح پرزور اور پرشور انداز میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں نعتیں لگائی ہوں گی، نماز پڑھنے کی توفیق نہیں ہوگی۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ آپ ﷺ کی جو محبت ہے، اس کا جو مظہر ہے، وہ ہونا چاہیے عمل کہ ہم اس میں کیا اس کو عمل میں لارہے ہیں یا نہیں لارہے ہیں؟ اور یہ بالکل عقلی بات ہے کہ جس کے ساتھ بھی محبت ہوگی، اگر وہ کسی کو کرنے کے لیے کچھ کہہ دے کہ یہ فلاں کام کرو اور وہ یہ کہہ دے کہ یہ تو مجھ سے نہیں ہوسکتا، لیکن میں تجھ سے بہت محبت کرتا ہوں۔ تو وہ کیا سمجھے گا؟ وہ جو کہے گا، وہ خود اندازہ کرلو اور وہ کر بھی سکتا ہو، ایسی بات نہیں ہے۔ ایک بات پکی بات ہے کہ سنت کا طریقہ جو ہوتا ہے، یہ دنیا میں سب سے آسان طریقہ ہوتا ہے اس عمل کا، کیونکہ آپ ﷺ کی سنت عادیہ یہ تھی، یہ طریقہ تھا آپ ﷺ کا کہ اگر کوئی کام دو تین طریقوں سے ہوسکتا تھا، اس میں جو آسان ہوتا تھا، وہ آپ ﷺ لیتے۔ لہٰذا ان کے کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوں گے، ان میں آسان طریقہ آپ ﷺ نے اپنایا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم آسان کس کو سمجھتے ہیں؟ ہم آسان اس کو سمجھتے ہیں کہ جو ہماری نفس کی خواہش کے مطابق ہو، اس کو ہم آسان سمجھتے ہیں اور واقعتاً وہ آسان نظر بھی آتا ہے، لیکن اگر اس کو عقلاً دیکھیں، عقلاً اس کا analysis کریں، تو وہ آپ کو پتا چل جائے کہ آسان وہ ہے حضور ﷺ کا طریقہ۔ مثال کے طور پر شادی بیاہ کو دیکھیں، جو ایک معاشرتی event ہے، جو کہ ہر ایک کو پیش آتا ہے۔ جو بھی شادی کرنا چاہتا ہے، اس کا آسان طریقہ کیا ہے؟ آیا وہ جو ہم کررہے ہیں یا وہ جو مسنون طریقہ ہے، وہ ہے؟ پتا چل جائے گا۔ اس طرح غمی کے جو طریقے ہیں، آسان طریقہ کون سا ہے؟ چھوٹا کمرہ ہے، اس کے اندر اگر مسنون طریقے سے آپ بیٹھنا چاہیں، مسنون طریقے کے ساتھ آپ سونا چاہیں، تو اس میں آسکتے ہیں سات آٹھ آدمی آسکتے ہیں۔ اور اگر اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق صوفے رکھنے چاہیں اور بیڈ رکھنا چاہیں، تو پھر کتنے آئیں گے؟ ظاہر ہے اتنے آئیں گے جتنے وہ ہوتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے ہم ہر چیز میں اپنے نفس کی خواہش کے مطابق چونکہ چلتے ہیں، وہ ہمیں آسان نظر آتا ہے، لیکن عقل کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو مشکل ہوتا ہے۔ اگر عقل نفس آلودہ نہ ہو، کیونکہ اگر عقل ہی نفس آلودہ ہو، تو بڑی بڑی دلیلیں دیں گے، وہ کہیں گے یہ تو اس وجہ سے، یہ تو اس وجہ سے، یہ تو اس وجہ سے۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں، عقل نفس آلودہ ہوتا ہے۔ میں وہاں دفتر میں recruitment کا convenor تھا۔ ایک ہمارے بہت پرانے شناسائی تھے، سیکیورٹی گارڈ تھے، تو ہمارے ساتھ بہت ملا کرتے تھے۔ وہ جو ہے ناں میں دفتر میں بیٹھا ہوا، دروازہ knocking ہوا جی، اچھا آجائیں۔ بس سامنے آگئے، او! شبیر صاحب، وہ مجھے کسی نے کہا کہ ہماری بچی نے ٹیسٹ دیا ہے، وہ اس کا فیصلہ آپ کررہے ہیں۔ ہم نے کہا شبیر صاحب تو ہمارے بہت اچھے ساتھی ہیں، اس کو تو صرف کہنے کی دیر ہے۔ میں نے کہا یہ کون سا مشکل کام ہے؟ میں ابھی جاکے کہہ دیتا ہوں، ہوجائے گا۔ میں نے اس کے لیے کرسی، میں نے کہا اس پہ بیٹھ جائیں آپ۔ اس کے لیے چائے منگوائی۔ ظاہر ہے ملنے جلنے والے آدمی تھے۔ اس وقت اس میں ٹیسٹ دینے والوں میں تقریباً چھ سات سو لوگ تھے۔ اب اس میں یہ ہے کہ اس نے کہا جی اس طرح، میں نے کہا بھئی صاحب بات یہ ہے کہ آپ کو مجھ پر اعتماد ہے کہ میں حق بات کرتا ہوں، کسی پہ ظلم نہیں کرتا ہوں؟ کیا آپ کو میرے اوپر اعتماد ہے؟ کہتے ہیں کیوں نہیں، بالکل، آپ تو ایسے ہی ہیں۔ تو میں نے کہا پھر آپ کو مسئلہ کیا ہے؟ پریشانی کی کیا بات ہے؟ اگر اس کا حق ہوگا، تو ضرور اس کو دوں گا۔ اب یہ اس سے اس کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ پھر ادھر ادھر گھما پھرا کے اس پہ جی وہ بہت غریب ہے، یہ ہے وہ ہے۔ میں نے کہا جتنے بھی ٹیسٹ دیئے ہیں ناں، وہ سب غریب ہیں۔ کوئی بھی عورت باہر نہیں جاتی بلاوجہ، آخر کوئی مجبوری ہوتی ہے ہمارے علاقہ میں، کوئی مجبوری ہوتی ہے تبھی وہ باہر جاتی ہے۔ تو مجبور تو سب ہیں، تو میں اگر ایک مجبور کے لیے دوسرے مجبور کا حق ماروں، تو جائز ہوگا؟ اس سے پھر مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ پھر ادھر ادھر سے آخر بھئی، وہ کچھ اس طرح ہے، اس طرح ہے، اس طرح ہے۔ تقریباً گھنٹہ میرے ساتھ لگے رہے۔ جس وقت میں بہت تھک گیا ناں، میں نے کہا کہ اب اس کے ساتھ دو ٹوک بات کرنی چاہیے۔ میں نے کہا بات سنو، مجھے صرف ایک بات کا جواب دو، تو میں آپ کی بات ماننے کے لیے تیار ہوں، جو بھی کہنا چاہیں کہہ دیں۔ کہتے ہیں بالکل جی بتائیں جی کون سی بات؟ وہ سمجھ گیا شاید کچھ کام بن رہا ہے۔ میں نے کہا کہ ایسا طریقہ بتاؤ کہ آپ بھی راضی ہوجائیں اور اللہ بھی راضی ہوجائے۔ میرا اللہ پاک مجھ سے نہ پوچھے کہ یہ تو نے اس کے لیے جو غلط کام کیا تھا کیوں کیا تھا؟ بس آپ بھی راضی ہوجائیں اور اللہ بھی راضی ہوجائے، کوئی ایسا طریقہ بتاؤ۔ اور یہ بات سن لو، اگر ایک طرف اللہ ناراض ہوتا ہے اور تم راضی ہوتے ہو، تو میں اس میں تیرے ساتھ نہیں ہوں، میں اللہ کو راضی کروں گا، تجھے راضی نہیں کروں گا۔ یہ پکی بات۔ اس کے بعد ٹھنڈے ہوگئے۔ اب یہ وہ عقل ہے جو کہ نفس آلودہ ہے۔ اس کو ایک کام کرنا ہے، اس کے لیے دلیلیں ڈھونڈ رہا ہے۔ تو یہ چیز نہیں ہونی چاہیے۔ عقل ٹھیک ہے، اللہ پاک کی بہت بڑی دین ہے، اس کو اگر آزاد چھوڑو گے تب، اور اگر آپ نے اس کو پابند کردیا کسی نفسانی خواہش کا، تو پھر اس کے بعد وہ عقل جو فیصلے دے گی ناں، وہ عجیب فیصلے دے گی۔ اس کے لیے کہتے ہیں ایک جھوٹ بولنے کے لیے سو جھوٹ اور بولنے پڑتے ہیں، تو پھر اس قسم کا مسئلہ ہوگا اور پریشانیاں بڑھیں گی۔ لہٰذا ہم سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں کہ اللہ پاک سے بہتر بات کسی نے اتاری نہیں اور آپ ﷺ سے بہتر طریقہ کسی کا ہے نہیں۔ لہٰذا اللہ پاک کی بات پر، حضور ﷺ کے طریقے پر عمل کرلو، یہی بنیادی بات ہے۔ ﴿وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾6 کا بھی یہی تقاضا ہے، اگر آپ ﷺ کے طریقے پر عمل کرو گے، تو رحمت ہی رحمت ہے، اور اگر اس سے آگے پیچھے جاؤ گے، تو پھر زحمتیں ہی زحمتیں ہیں، مصیبتیں ہی مصیبتیں، یہاں پر بھی مصائب، اُدھر بھی مصائب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرما دے۔

اس بیان کے دوران اذان ہوئی تو اذان کے بعد حضرت نے فرمایا کہ:

ابھی ابھی ما شاء اللہ اذان ہوگئی ہے، یعنی اسی کے بارے میں کچھ عرض کرلیتا ہوں، یہ بھی تو آپ ﷺ کا مطلب اس میں طریقہ ہوگا۔ تو جو طریقہ ہوگا، وہ بہتر ہوگا۔ تو مسلم شریف کی روایت ہے کہ جب مؤذن اذان کہنے لگے، تو جن الفاظ سے وہ اذان کہہ رہا ہو، ان الفاظ میں جواب دو۔ اور جس وقت اذان پوری ہوجائے، تو پھر درود شریف پڑھو اور پھر وہ دعا پڑھو:

’’اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ القَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَنِ الوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ، اِنَّکَ لَا تُخلِفُ الْمِیْعَادَ‘‘ یہ دعا پڑھو۔ اب اگر میں ایسا کروں، تو اس میں کتنے فائدے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مؤذن جو الفاظ کہہ رہا ہے، یہ دعوت ہے اور شہادت ہے۔ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ صرف مؤذن پر تو یہ نہیں ہے ناں، ہم بھی تو شہادت دیتے ہیں، لہٰذا ہم اس کا اقرار کرتے ہیں ساتھ ساتھ کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، میں بھی گویا کہ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں۔ اب اس وقت جو طریقہ بہتر آپ ﷺ نے فرمایا، وہی بہتر طریقہ ہوگا۔ اب اس میں بعض لوگ ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کا جواب دیتے ہیں ’’صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘، کچھ لوگ انگوٹھے بھی آنکھوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ اب بات یہ ہے کہ چاہے کوئی کتنا ہی اچھی نیت سے کررہا ہو، لیکن حضور کے طریقہ سے بہتر تو کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا ظاہر ہے، مطلب یہ تو سو فیصد بات ہے۔ فرمایا گیا ناں: ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘7 تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ تو نیت کی اہمیت تو ہے اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اب اگر کوئی اچھی نیت کے ساتھ چوری کرلے، جائز ہوگا؟ مثال کے طور پر چوری کرکے میں نیت کرتا ہوں کہ سارے غریبوں کو میں وہ مال پہنچاؤں گا، تو چوری چیز کیا جائز ہوجائے گی؟ جائز نہیں ہوگی، بلکہ ان کو بھی حرام کھلا رہا ہوگا اور ان کو پتا ہوگا کہ یہ چوری شدہ مال ہے اور وہ خود کھا رہے ہوں تو وہ بھی گناہگار ہوں گے۔ تو اس وجہ سے ہم لوگ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، تو ہمیں وہی الفاظ، وہی طریقہ اپنانا چاہیے، جو آپ نے سکھایا ہے۔ ’’صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘ جب کہیں؟ جب اذان پوری ہوجائے، پھر درود شریف پڑھو۔ فرمایا حکم آگیا ناں؟ پھر درود شریف پڑھو اور اس کے بعد وہ دعا بھی پڑھو۔ تو ما شاء اللہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ پہ درست ہوجائیں گی اور اگر ہم اپنے جذبات کے مطابق فیصلہ کریں گے، اپنے خیالات کے مطابق فیصلہ کریں گے، بے شک کتنی ہی اچھی نیت کے ساتھ ہو، لیکن اگر حضور کے طریقے کے مقابلہ میں ہے، تو وہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، اس کے لیے ہم جوابدہ ہوں گے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ

سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘

  2. ۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘

  3. ۔ (الانبیاء: 107) ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

  4. ۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث: 100) ترجمہ: ’’بے شک میں رحمت ہوں جسے لوگوں کو بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔‘‘

  5. ۔ (آل عمران: 31)

  6. ۔ (الانبیاء: 107) ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

  7. ۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1) ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘

محبت رسول ﷺ کا عملی تقاضا - جمعہ بیان