طریقہ نقشبندیہ میں لطائف خمسہ اور سیر الی اللہ کا اجمالی بیان

مکتوب نمبر 257، دفتر اول (یہ بیان 11 اکتوبر 2017 کے مکتوبات شریف کے درس سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ متن بزرگان دین کے روحانی سفر اور عقائد سے متعلق گہرے نکات پر مشتمل ہے۔ اس میں سب سے پہلے میر محمد نعمان کو مخاطب کرتے ہوئے طریقہ نقشبندیہ کی اجمالی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ اس میں لطائف خمسہ (قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ) کی سیر، عالم صغیر اور عالم کبیر میں ان لطائف کے اصول کی منازل طے کرنے، اور پھر اسماء و صفاتِ الٰہی کے ظلال میں سیر کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد نفس مطمئنہ کے حصول اور مقامِ رضا کی انتہا کو بیان کیا گیا ہے، جہاں حقیقی اسلام اور شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔ اس میں اسمِ ظاہر اور اسمِ باطن کے کمالات کے حصول کے بعد سالک کے لیے عالم قدس میں پرواز کے دو بازو میسر آنے کا بھی تذکرہ ہے۔

اس کے بعد مکتوب نمبر 259 میں خواجہ محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کے فوائد، اور معرفتِ الٰہی میں عقل کی محدودیت پر بحث کی گئی ہے۔ اس میں یونانی فلسفیوں کے نظریات کا ذکر کرتے ہوئے نبوت کے انوار کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ متن میں ماتریدیہ کے اس موقف پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والے بُت پرست کو صرف عقل کی بنا پر معرفتِ الٰہی کے لیے مکلف ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ آخر میں اس سوال کا حل پیش کیا گیا ہے کہ انبیاء کی دعوت نہ پہنچنے والے مشرکین کا کیا حکم ہوگا؛ انہیں نہ تو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رکھا جائے گا اور نہ ہی جنت میں بھیجا جائے گا، بلکہ حساب کے بعد غیر مکلف حیوانوں کی طرح معدوم کر دیا جائے گا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مکتوب نمبر 257

میر محمد نعمان کی طرف اختصار کے طور پر طریقہ کے بیان میں صادر فرمایا۔

حمد و صلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ جو مکتوب شریف آپ نے شیخ احمد فرملی کے ہمراہ بھیجا تھا وصول ہو کر بہت زیادہ خوشی کا باعث ہوا۔ آپ نے وہ رسالہ جس میں طریقے کا بیان ہے طلب فرمایا تھا، اس کے مسودے (ابھی ویسے ہی) پڑے ہوئے ہیں، اگر توفیق نصیب ہوئی تو بیاض میں لکھ کر بھیج دیا جائے گا۔ فی الحال مختصر طور پر چند فقرے اس طریقے کے بیان میں تحریر کئے جاتے ہیں، گوشِ ہوش سے سماعت فرمائیں۔

میرے سیادت پناہ! وہ طریقہ جو ہم نے اختیار کیا ہے اس کی سیر کی ابتدا ’’قلب‘‘ سے ہے جو کہ ’’عالمِ امر‘‘ سے ہے، اور قلب کی سیر سے گزر کر مراتبِ روح ہیں جو اس سے اوپر ہیں اور روح سے گزرنے کے بعد معاملہ سِرّ کے ساتھ ہے جو اس سے اوپر ہے اور اسی طرح خفی و اخفیٰ کا حال ہے۔ ان لطائفِ پنج گانہ (پانچوں لطائف) کی منزلوں کو طے کرنے کے بعد اور ان میں سے ہر ایک کے متعلق علیحدہ علیحدہ علوم و معارف حاصل کرنے کے بعد اور ان احوال و مواجید کے ساتھ جو ان پنج گانہ لطائف میں سے ہر ایک کے ساتھ مخصوص (احوال) ہیں، ان کے متحقق ہونے کے بعد ان پنج گانہ (لطائف) کے اصول میں جو عالمِ کبیر میں ہیں، سیر واقع ہوتی ہے۔ کیونکہ جو کچھ بھی عالمِ صغیر میں ہے اس کی اصل عالمِ کبیر میں موجود ہے۔ عالمِ صغیر سے مراد انسان ہے اور عالمِ کبیر سے پوری کائنات کا مجموعہ مراد ہے۔ ان اصول پنج گانہ میں سیر کا آغاز عرشِ مجید سے ہوتا ہے جو انسان کے قلب کی اصل ہے۔ اس کے اوپر روحِ انسانی کی اصل ہے اور اس کے اوپر سرِّ انسانی کی اصل ہے اور سرِّ اصل کے اوپر خفی کی اصل ہے اور اصلِ خفی کے اوپر اخفیٰ کی اصل ہے۔ جب عالمِ کبیر کے ان پنج گانہ لطائف کو تفصیل کے ساتھ طے کر کے آخری نقطے پر پہنچتے ہیں تو دائرہ امکان پورا ہو جاتا ہے اور فنا کی منزلوں میں سے اوّل منزل میں قدم رکھنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر ترقی واقع ہو تو اسماء و صفاتِ واجبی جل سلطانہٗ کے ظلال میں سیر واقع ہوگی۔ یہ ظلال وجوب و امکان کے درمیان برزخ کی طرح ہیں اور عالم کبیر کے ان پنج گانہ مراتب کے لئے اصول کی مانند ہیں، نیز ان ظلال میں بھی اسی ترتیب سے سیر واقع ہوگی جس طرح ان کے فروع میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ اگر فضل ایزدی جل شانہٗ سے ان ظلال کے بکثرت منازل طے کر کے ان کے آخری نقطے پرپہنچ جائیں تو پھر اسماء و صفاتِ واجبی جل سلطانہٗ میں سیر شروع ہوگی اور اسماء و صفات کی تجلیات ظاہر ہوں گی اور شیون و اعتبارات کے ظہورات جلوہ فرما ہوں گے۔ اس وقت عالمِ امر کے پنج گانہ لطائف کا معاملہ طے ہو کر ان کا حق ادا ہو جائے گا۔

اس کے بعد اگر فضلِ خداوندی جل شانہٗ شاملِ حال ہو جائے تو اس مقام سے بھی ترقی کر کے نفس کے اطمینان کا معاملہ حاصل ہوگا اور مقامِ رضا کا حصول جو مقاماتِ سلوک کی انتہا ہے، میسر ہوگا۔ اسی مقام پر شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور اسلامِ حقیقی کے شرف سے بھی مشرف ہو جاتا ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ کمالات جو اس مقام پر حاصل ہوتے ہیں، عالمِ امر سے متعلق ہیں اور دریائے محیط کے مقابلے میں قطرے کی مانند ہیں۔ یہ سب کمالات جن کا ذکر کیا گیا، اسم ''ظاہر'' سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کمالات جن کا تعلق اسم ''باطن'' سے ہے، وہ دوسرے ہیں جن کا استتار (پوشیدہ ہونا) اور تبطن (باطن میں ہونا ہے) ہی مناسب ہے۔ جب ان دو مبارک اسموں کے کمالات پورے طور پر حاصل ہو جائیں تو سالک کی پرواز کے لئے دو بازو میسر ہو جاتے ہیں کہ ان دو بازوؤں کی قوت سے عالم قدس میں پرواز کرتا ہے اور بے اندازہ ترقیاں حاصل کرتا ہے۔ اس معاملے کی تفصیل بعض مسودات میں تحریر ہو چکی ہے، میرے فرزند ارشد ان کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسرے یہ کہ اگر ممکن ہو تو آپ ایک مرتبہ یہاں تشریف لائیں۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس مقام کو خالی نہ چھوڑیں اور اس انتظام کو درہم برہم نہ کریں اور خود تنہا یہاں آ جائیں اور دوستوں میں سے جس کسی کو پیش قدم (آگے بڑھا ہوا) اور مناسب سمجھیں اس جماعت کا پیشوا بنا کر اس علاقے کی طرف متوجہ ہوں (یعنی تشریف لے آئیں) و اللہ سبحانہٗ اعلم (اللہ سبحانہٗ بہتر جانتا ہے) کہ دوسرے وقت فرصت ملے یا نہ ملے۔ و السلام

"یہ اصل میں نقشبندی سلوک کا اجمالی بیان ہے۔ بار بار اس پر بات ہو چکی ہے اور حضرت نے بھی اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ لیکن چونکہ مکتوبات شریف میں تو ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا تعلق ہوتا ہے، تو اس وقت جتنے کی ضرورت ہوتی ہے حضرت فرما دیتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ہماری جو سیر ہے نقشبندی طریقے کی، اس کی ابتدا قلب سے ہوتی ہے، دل سے۔ اور دل کا معاملہ عالم امر سے ہے۔ ایک عالمِ خلق ہے یعنی جو مخلوقات ہیں اور ایک عالمِ امر ہے جو اللہ جل شانہٗ کے حکم سے متعلق ہے۔ تو پھر قلب کی سیر سے گزر کر پھر مراتب روح طے کرنے ہوتے ہیں جو قلب سے اوپر ہیں۔ اور روح سے گزرنے کے بعد معاملہ سر کے ساتھ ہے جو اس سے بھی اوپر ہے۔ اور پھر اس کے اوپر خفی ہے اور اس کے بعد اخفیٰ کا حال ہے۔ یہ پانچ لطائف، ان کا دور ہر نقشبندی سالک کو کرایا جاتا ہے۔ فرمایا جو پانچوں لطائف ہیں، ان کی منزلیں طے کرنے کے بعد اور ان میں سے ہر ایک کے متعلق جو علیحدہ علیحدہ علوم و معارف ہیں، ان کے حاصل ہونے کے بعد اور ان احوال و مواجید جو ان کے ساتھ متعلق ہیں، یہ اس کے بعد ان پانچ لطائف کے اصول میں، ایک ہوتا ہے۔۔۔۔ یہ تو یہاں پر ہے ناں ہمارے جسم کے اندر ہے۔ خیر عالمِ امر کے ساتھ یہ بھی ہوتا ہے لیکن ہے جسم کے ساتھ، چونکہ روح ہے۔ تو پھر اس کے بعد عالمِ کبیر کی سیر آتی ہے۔ یہ عالمِ صغیر ہے، عالمِ صغیر ہمارا جسم ہے اور عالمِ کبیر پوری کائنات کا جسم ہے۔ تو عالمِ صغیر کے جو پانچ لطائف ہیں، ان کو طے کرنے کے بعد پھر عالمِ کبیر میں جو ان کے اصول ہیں، اصل جڑ کو کہتے ہیں یعنی یہاں سرے ہیں ہمارے جسم کے اندر اس کے سرے ہیں اور اصول اس کی جڑیں ہیں۔ تو ان کی جڑوں کے ساتھ پھر رابطہ ہوتا ہے، ان سروں کے ذریعے سے پھر جڑوں کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔

اور چونکہ یہ جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے کہ جیسے کہ ہمارا جسم ہے، نفس ہے، اسی طرح پوری کائنات کا نفس ہے۔ اس کو نفسِ کلیہ حضرت نے فرمایا ہے، تو جیسے ہم لوگ، یہاں ہمارا قلب ہے تو وہاں عرش ہے یعنی قلب جو یہاں جس کا سرا ہے اس کا جو اصل ہے وہ عرش ہے۔ اس لیے قلب کو عرشِ اصغر کہتے ہیں۔ ویسے ہمارا قلب ادھر ہے لیکن اگر عالمِ کبیر کے ساتھ رابطہ ہو جائے تو پھر عرش کے اوپر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اس کا اثر قلب کے اوپر پڑتا ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ جب ہمیں ذکر سکھاتے تھے ’’اَللہُ اَللہْ‘‘ کا، تو فرماتے تھے کہ عرشِ الہی سے ایک نور ہمارے دل پر آ رہا ہے، ساتھ مطلب اس کا مراقبہ کراتے تھے۔ عرشِ الہٰی سے ایک نور ہمارے دل پر آ رہا ہے۔ تو گویا کہ اس ذریعے سے رابطہ عالمِ کبیر کے ساتھ کرایا جاتا تھا، عالمِ کبیر کے ساتھ۔ تو فرمایا کہ جو عالمِ کبیر ہے وہاں پر بھی اس کے اصول ہیں، اصول سے مراد کیا ہے؟ یعنی جو اس کی جڑیں ہیں، پس قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ، ان سب کے اصول وہاں پر موجود ہیں یعنی جڑیں اُدھر موجود ہیں۔ لہٰذا جن کے یہاں پر جو لطائف ہیں وہ بیدار ہو جاتے ہیں، تو اس کے بعد اللہ پاک مزید اگر ان پر فضل فرمائیں تو ان کا پھر عالمِ کبیر کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے اور وہاں پر وہ جو اصول ہیں، وہاں تک رسائی ہو جاتی ہے۔ پھر اس کو عالمِ کبیر کی سیر کہتے ہیں۔

کیونکہ جو کچھ عالمِ صغیر میں ہے اس کی اصل عالمِ کبیر میں موجود ہے۔ عالمِ صغیر سے مراد انسان ہے اور عالمِ کبیر سے پوری کائنات کا مجموعہ مراد ہے۔ ان اصول پنجگانہ میں سیر کا آغاز عرش مجید سے ہوتا ہے جو قلب کا اصل ہے اور ان کے اوپر روح انسانی کا اصل ہے اور اس سے اوپر سر انسانی کا اصل ہے، پھر اس کے اصل سے اوپر خفی کا اصل ہے اور پھر اصلِ خفی کے اوپر اخفٰی کا اصل ہے۔ جب عالمِ کبیر کے ان پنجگانہ لطائف کی سیر تفصیل کے ساتھ طے کر کے اس کے آخری نقطے پر پہنچتے ہیں تو ظاہر ہے چونکہ پوری کائنات کے اصول طے ہو جاتے ہیں تو دائرۂ امکان یعنی کائنات اس کا دائرۂ امکان پورا ہو جاتا ہے اور دائرۂ امکان طے کرنے کے بعد پھر اس کی فنائیت کی منزل آ جاتی ہے یعنی پھر فنائیت کی طرف جاتے ہیں۔ تو فنا کی جو اول منزل ہے اس میں پھر قدم رکھنا ہوتا ہے اور اگر اس کے بعد ترقی واقع ہو تو پھر جو اللہ پاک کے نام ہیں اور جو صفاتِ واجبی ہیں اللہ جل شانہٗ کی، ان کے ظلال میں سیر ہوگی۔ ظل سائے کو کہتے ہیں اور عکس کو بھی کہتے ہیں۔ لہٰذا جس اسم کے ساتھ جس کا رابطہ ہوگا اس کے ظلال میں اس کی سیر ہوگی۔ ہمارے قادری سلسلے میں باقاعدہ اسماء کے ذریعے سے بھی سلوک طے کرایا جاتا تھا۔ جیسے مطلب ’’یَا کَرِیْمُ، یَا رَحِیْمُ، یَا سُبْحَانُ، یَا عَظِیْمُ‘‘۔ مطلب اس ذریعے سے بھی سلوک کو طے کرایا جاتا تھا، یہ اسماء کے ذریعے سے ہے۔ اور اسمِ مربی کی باقاعدہ ہمارے نقشبندی سلسلے میں ایک ترتیب موجود ہے، اسمِ مربی تک اگر کسی کی رسائی ہو جائے تو اسمِ مربی اس کے لیے گویا دروازہ ہوتا ہے یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ اگر یہ سارے اسماء مطلب اگر اپنا جو مقصود ہے منزل، اس تک رسائی کا ذریعہ ہیں تو اس کا جو دروازہ ہوگا وہ وہی اسم مربی ہوگا۔ اسم مربی تک اگر پہنچ جائے گا تو وہاں سے بہت آسانی کے ساتھ اندر داخل ہو جائے گا۔ تو یہ جو ہے ناں اسماء اور صفات، اصل میں صفت، شان سے صفت نکلتی ہیں اور صفت سے پھر اسم نکلتا ہے۔ شان سے صفت نکلتی ہے اور صفت سے پھر جو ہے ناں وہ اسم نکلتا ہے۔ تو اسماء اور صفاتِ واجبی جو ہیں وہ مطلب جو ہے ناں کہ ان کے ظلال میں سیر ہوگی۔ اور فرمایا کہ یہ ظلال جو ہے وجوب و امکان کے درمیان برزخ ہے کیونکہ امکان تو پورا ہوگیا ناں، امکان کا سلسلہ تو پورا ہوگیا ہے۔ آگے وجوب کا سلسلہ شروع ہوگیا تو یہ جو نقطہ ہے یہاں سے جو سیر شروع ہوگی، یہ اصل میں اس کے برزخ میں واقع ہوگی یعنی frontier جس کو ہم کہتے ہیں سرحد، یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہاں سے پھر شروع ہوتا ہے۔

اور یہ ظلال وجوب امکان کے درمیان برزخ کی طرح ہے اور عالم کبیر کے ان پنجگانہ مراتب کے لئے اصول کی مانند ہے۔

یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ چونکہ پنجگانہ مراتب سے مراد، پہلے ہم نے پنجگانہ مراتب یعنی رؤوس کے لئے ہیں، یعنی جو یہاں پر ہیں، ہمارے جسم کے اندر، پھر عالم کبیر میں، جیسے پہلی منزل اس کی عرش ہے، ان کے ساتھ مطلب وہاں پر سیر ہوتی ہے تو ان اصول تک ہماری رسائی ہوتی ہے۔ تو چونکہ یہ اصول بھی عالمِ امکان میں ہیں، کائنات میں ہیں، کیونکہ عرش بھی تو کائنات میں ہے ناں، وہ کائنات میں ہیں، لہٰذا جب کائنات کے آخری سرے پر پہنچ جاتے ہیں، عالمِ امکان کے آخری سرے پر پہنچ جاتے ہیں، پھر اس کے بعد جو عالم یعنی جس کو کہتے ہیں ناں صفاتِ اور اسماء مطلب اسماء و صفاتِ وجوبی، گویا کہ دائرۂ وجوبی میں جو ہے ناں وہ انسان، لیکن وجوب میں نہیں بلکہ ان کے ظلال میں سیر واقع ہوتی ہے۔ تو ان کے جو ظلال میں سیر واقع ہوتی ہے یہ اصل میں ان کے لئے اصول کی مانند ہے، یعنی اصل کا اصل، اصل کا اصل، مطلب یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس سے ہے، اس کا تعلق اس کے ساتھ ہے، اُس کا تعلق پھر اِس کے ساتھ ہے۔ تو اصل کا جو اصل ہے جہاں سے وہ، جیسے مثال کے طور پر میرا جسم دماغ سے کنٹرول ہوتا ہے اور دماغ کے اوپر ایک سپر مائنڈ ہے، اس کے ساتھ مطلب جو ہے ناں وہ ساری چیزیں Attach ہیں، اس سے کنٹرول ہو رہا ہے۔ تو یہ چیز جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اصول کے جو اصل ہیں وہ اسی وجوبی دائرے میں ہیں۔

یہ ظلال وجوب امکان کے درمیان برزخ کی طرح ہے اور عالم کبیر کے ان پنجگانہ مراتب کے لئے اصول کی مانند ہے، نیز ان ظلال میں بھی اس ترتیب سے سیر واقع ہوگی جس ترتیب سے پہلے وہ ہے جس طرح سے فروع میں آ چکا ہے اور اگر فضل ایزدی جل شانہ سے ظلال کی بکثرت منازل طے کرنے کے بعد اس کے آخری نقطہ پر بھی کوئی پہنچ جائے تو پھر اسماء و صفات واجبی (یعنی ظلال کے بجائے پھر) اصل اسماء و صفات واجبی میں اس کی سیر ہوگی․

سیر سپاٹے والی بات نہیں ہے، مطلب جس طرح کا وہ سیر سپاٹا ہوتا ہے، سیر ہم اس کو کہتے ہیں کہ ترقی۔ اب جیسے میں لاہور جا رہا ہوں تو لاہور کے لئے میں ایک بامقصد طریقے سے جا رہا ہوں، ایک میں ویسے سیر کے لئے جا رہا ہوں۔ تو جب سیر کا لفظ ہم سنتے ہیں تو ہمارا خیال یہ ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مری جا رہا ہوتا ہے، کوئی مطلب ایبٹ آباد جا رہا ہوتا ہے، یہ وہ سیر نہیں ہے۔ اصل میں مقصد کی طرف ہم جا رہے ہیں لیکن چونکہ طے ہو رہا ہے تو جو چیز طے ہو رہی ہے اس کو ہم سیر کہتے ہیں۔ جیسے میں لاہور جا رہا ہوں تو منزل طے ہو رہی ہوتی ہے، تو اس طے ہونے کو سیر ہونا کہتے ہیں، یعنی سلوک کو طے کرنا ہوتا ہے۔ تو سلوک کو طے کرنے کا مطلب سیر الی اللہ تک جانا ہوتا ہے۔ سیر الی اللہ تک جانا ہوتا ہے۔ سیر الی اللہ کا مطلب کیا ہے؟ اللہ جل شانہٗ نے جو شریعت مقرر کی ہے اوامر و نواہی کی، اس کے لئے جتنی رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنے کو سیر الی اللہ کہتے ہیں۔ یہ Definition ذرا آسان ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ سیر الی اللہ جو ہے کیا ہے؟ مطلب یہ جو اوامر و نواہی، جو شریعت کے احکامات ہیں، اس کے لئے کچھ رکاوٹیں ہیں ہمارے اندر، کچھ قلب کی رکاوٹیں ہیں، کچھ عقل کی رکاوٹیں ہیں، کچھ نفس کی رکاوٹیں ہیں۔ ٹھیک ہے ناں؟ ان تمام رکاوٹوں کو جب دور کیا جاتا ہے تو یہ سیر الی اللہ ہے، اور اس پر جب انسان مسلح ہو جاتا ہے، پھر اس کے بعد جو ترقی کرتا ہے وہ سیر فی اللہ ہے۔ وہ سیر فی اللہ ہے۔ گویا کہ سیر الی اللہ کے ذریعے سے پھر اس کے بعد اس کے جو اعمال ہوتے ہیں وہ اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں ناں، تو جب اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں تو جتنے اعمال انسان کر رہا ہوتا ہے وہ سیر الی اللہ کی طرف ترقی کر رہا ہوتا ہے، ٹھیک ہے ناں جو جو کام جس کے حوالے ہوتا ہے، اس کے مطابق کام۔ تو وہ سیر فی اللہ ہے۔ تو اب یہاں پر مطلب جو ہے ناں یہ والی بات ہے کہ جو سیر والا لفظ میں بار بار کہہ رہا ہوں، تو اس سے سیر سپاٹا مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے جو ہے ناں مراد منزل طے ہونے والی بات ہے کہ منزل طے ہو رہی ہے۔

بکثرت منازل طے کر کے ان کے آخری نقطہ پر پہنچ جائیں تو پھر اسماء و صفات واجبی جل سلطانہٗ میں سیر شروع ہوگی اور اسماء و صفات کی تجلیات ظاہر ہوں گی۔

ہر اسم کی اپنی تجلی ہے، ہر صفت کی اپنی تجلی ہے، ہر شان کی اپنی تجلی ہے۔ تو یہ ظہور ہوں گی منکشف ہوں گی۔

اس وقت عالمِ امر کے پنجگانہ لطائف کا معاملہ طے ہو کر ان کاحق ادا ہو جائے گا۔

سیر الی اللہ پہلے طے ہوئی تھی، اب جو ہے ناں مطلب ہے کہ لطائف کا معاملہ مطلب ان کا حق ادا ہوگا۔

اس کے بعد اگر فضل خداوندی جل شانہٗ شامل حال ہو تو اس مقام سے بھی ترقی کر کے نفس کے اطمینان کا معاملہ حاصل ہوگا۔

یعنی گویا کہ نفس مطمئنه، نفس مطمئنه ہم اس کو تب کہہ سکتے ہیں جب جو حجابات ہیں وہ سارے دور ہو جائیں، حجابات دور ہو جائیں، تو حجابات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک حجابات ظلماتی ہوتے ہیں، ایک حجابات نورانی ہوتے ہیں۔ تو یہاں پر حجابات نورانی بھی ختم ہو جائیں گے تو لہٰذا یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ پھر ان کا حق ادا ہوگا۔

اور مقامِ رضا کا حصول جو مقام سلوک کی انتہا ہے میسر ہوگا اور اس مقام پر شرح صدر حاصل ہو جاتا ہے۔

چونکہ شرحِ صدر کا مطلب کیا ہے کہ جیسے میرے دل کا آئینہ ہے، اس پر حق کا انکشاف تب ہوگا جب آلائشیں دور ہو جائیں گی، جب آلائشیں دور ہو جائیں گی۔ جب آلائشیں دور ہو جائیں گی تو مطلب مجھے وہ چیز ویسے ہی نظر آئے گی جس طرح ہے۔ اسی کو شرحِ صدر کہتے ہیں۔ وہ چیز جیسی ہے ویسے ہی نظر آئے۔ اور جو زیغ والی بات ہے وہ درمیان سے دور ہو جائے گی۔ اسی کے لئے ہم کہتے ہیں: ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾1 اور ﴿رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ ۝ وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ ۝ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ ۝ یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ﴾2

یہ مطلب یہ ہے کہ یہ شرحِ صدر انسان کو حاصل ہو جاتا ہے اور اسلامِ حقیقی کے شرف سے بھی مشرف ہو جاتا ہے۔ اسلام اعمال کا نام ہے ناں، ایمان تو پہلے سے ہے ایمان تو غائب نہیں ہوتا۔ تو اسلام اعمال ہے۔ تو اعمال بھی دو قسم کے ہیں: ایک جسم کے اعمال اور ایک قلب کے اعمال ہیں۔ ٹھیک ہے ناں۔ تو یہاں پر جب دونوں قسم کے ادا ہو جائیں گے جب حجابات دور ہو جائیں گے، جب شرحِ صدر ہوجائے گا۔ تو پھر کیا ہوگا؟ پھر ظاہر ہے حقیقی اسلام کا شرف حاصل ہوجائے گا۔ حقیقی اسلام کا شرف حاصل ہوجائے گا۔

ان کے مقابلے میں وہ کمالات جو اس مقام پر حاصل ہوتے ہیں عالمِ امر سے متعلق ہیں اور دریائے محیط کے مقابلے میں قطرہ کے مانند ہیں۔ اور یہ سب کمالات جن کاذکر کیا گیا اسم ظاہر سے تعلق رکھتے ہیں۔

یعنی ابھی تک صرف ظاہر کا معاملہ ہی طے ہوا ہے، پھر اس کے بعد باطن کا معاملہ آجاتا ہے اور باطن کا معاملہ تو بس۔

میانِ عاشق و معشوق رمزیست

کراماً کاتبین را ہم خبر نیست

اس کے بعد پھر ایسا معاملہ ہوتا ہے جو ہر ایک سالک کا رب کے ساتھ اپنا اپنا ہی ہوتا ہے۔ وہ جو باطنی مطلب ہے مقامات ہیں۔

وہ دوسرے ہیں جن کا استتار (پوشیدہ ہونا) اور تبطن (باطن میں ہونا ہے) ہی مناسب ہے۔ جب ان مبارک دو اسموں کے کمالات پورے طور پر حاصل ہو جائیں تو سالک کی پرواز کے لئے دو بازو میسر ہو جاتے ہیں

جیسے اصول تک پہنچنے کے لئے فروع کے پر ہوتے ہیں، اصول تک پہنچنے کے لئے فروع کے پر ہوتے ہیں، پس یہ جو ہم لطائف کا دور کراتے ہیں، یہ اصل میں پروں کو وجود میں لانا ہوتا ہے تاکہ اصول تک پہنچ سکیں۔ ٹھیک ہے ناں؟ اس کے بغیر انسان مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کی جو روحانیت ہے وہ اپنے اصول تک نہیں پہنچ سکتی۔ تو جس وقت یہ پر پیدا ہو جائیں تو وہاں تک پہنچ جاتا ہے اس کے ذریعے سے اصول تک، پھر اصول کے پروں سے اصل الاصول تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر وہاں سے اسماء و صفاتِ واجبی تک پہنچ جاتا ہے ان پروں کے ذریعے سے۔ پھر وہاں سے جس وقت اسمِ ظاہر طے ہو جاتا ہے اور پھر اسمِ باطن، تو ان کے ذریعے سے بالائی جتنی بھی منازل ہیں وہاں تک انسان جاسکتا ہے۔ اب یہ ساری باتیں تو ہمیں Theoretical لگتی ہیں، Theoretical لگتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک انسان ان چیزوں سے گزرا نہ ہو تو ظاہر ہے Theoretical ہی ہیں۔ لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نصیب فرما دیں تو پھر وہ اسے Theoretical تو نہیں سمجھے گا، لیکن بیان پھر بھی نہیں کر سکے گا مطلب ظاہر ہے وہ چونکہ کیفیات ہیں اور کیفیات کو تو بیان کرنا بڑا مشکل ہے۔

کہ ان دو بازوؤں کی قوت سے عالم قدس میں پرواز کرتا ہے اور بے اندازہ ترقیاں حاصل کرتا ہے۔ اس معاملے کی تفصیل بعض مسودات میں تحریر ہو چکی ہے، میرے فرزند ارشد ان کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پھر بعد میں حضرت نے اپنی بات فرمائی کہ اگر آپ آنا چاہیں تو یہ انتظامی امور ہیں، اُس کا اِس کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ تو بہر حال اس میں ہمیں اجمالی طور پر جو طریقہ نقشبندی ہے اس کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟



  1. ۔ (اٰل عمران: 8) ترجمہ: ’’(ایسے لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے، اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بےانتہا بخشش کی خوگر ہے۔‘‘

  2. ۔ (طٰہ: 25-28) ترجمہ: ’’پروردگار! میری خاطر میرا سینہ کھول دیجیے۔ اور میرے لیے میرا کام آسان بنا دیجیے۔ اور میری زبان میں جو گرہ ہے اسے دور کردیجیے. تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔‘‘

طریقہ نقشبندیہ میں لطائف خمسہ اور سیر الی اللہ کا اجمالی بیان - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ - دوسرا دور