مراقبہ اور اسکے احکام

درس نمبر 4 حصہ دوم ( یہ بیان 26 ستمبر 2019 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھمحضرت شیخ سید عبید الرحمٰن صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان مراقبے (روحانی غور و فکر) کی حقیقت اور اس کے درست طریقہ کار کے بارے میں ہے، جس کا مقصد روح کو جسمانی قیود سے آزاد کر کے اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔  روح اور نفس کے تعلق کو غبارے اور پتھر کی مثال سے سمجھایا گیا ہے، جہاں روحانی ترقی کے لیے ذکر سے روح کو طاقتور بنانا اور مجاہدے سے نفسانی خواہشات کو کمزور کرنا ضروری ہے۔ مراقبے کا اصل مقصود اللہ کے نور کا ہر شے پر محیط ہونے کا مشاہدہ کرنا اور پھر اس تصور سے بھی بلند ہو کر "بے رنگی" کی نسبت حاصل کرنا ہے۔ بیان میں اس خطرے سے خبردار کیا گیا ہے کہ سالک کو تمہیدی مشقوں میں نہیں پھنسنا چاہیے، کیونکہ یہ مقصود نہیں بلکہ محض ذرائع ہیں۔ اسی اصول کو واضح کرتے ہوئے شریعت کو منزل اور طریقت کو اس تک پہنچنے کا راستہ قرار دیا گیا ہے۔ ذاتی واقعات کے ذریعے یہ نکتہ سمجھایا گیا ہے کہ علمی بحثوں میں الجھنے کے بجائے ایک کامل شیخ کی صحبت اور رہنمائی اصل کامیابی کی کنجی ہے۔ لہٰذا، اصل کامیابی ذرائع پر عبور حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ خلوص کے ساتھ مقصدِ حقیقی (اللہ کی رضا) کی طرف بڑھتے رہنے میں ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اب اس کے بعد مراقبہ اور اس کے احکام ہیں۔

ذکر کے بارے میں حضرت نے بات چیت جو ارشاد فرمائی ہے کہ ذکر کے آداب کیا ہیں۔ اس میں ایک بات یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وجد اور شوق کی کیفیت حاصل کرنے کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے اور اس ضمن میں بات آگے آئی ہے یعنی مختلف طریقے اذکار کے بتائے گئے ہیں۔

سالک کو جب وجد و شوق کی کیفیت حاصل ہوجائے تو اسے چاہئے کہ لوگوں سے بات چیت کم کردے اور دنیا کے کاروبار سے کنارہ کش ہوجائے اور نیز جسمانی لذتوں اور اس طرح کی دوسری باتوں کو ترک کردے اور اس طرح وجد و شوق کی کیفیت کو اپنے اندر راسخ اور مستحکم کرے، تاکہ اس کی یہ کیفیت اس کے لئے کوئی ڈھکی چھپی چیز نہ رہے، بلکہ یہ بالکل واضح اور نمایاں ہوجائے۔ جب سالک راہ طریقت میں اس مقام پر پہنچ جائے تو پھر اس کو مراقبہ کرنا چاہئے۔

مطلب یہ ہے کہ یہ چونکہ روحانیت کے لئے سارا کچھ کیا جارہا ہے، اس وجہ سے روحانیت کے لئے جسمانیت کی چیزوں کو جتنا ہوسکتا ہے کم کرنا پڑتا ہے، تاکہ اس پر جسمانیت کا اثر کم سے کم ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ روح کو جسم نے باندھا ہے اور اس کو آگے نہیں جانے دے رہا۔ اس وجہ سے اگر آپ روحانیت کے کام کررہے ہیں تو جسمانیت کی چیزوں کو کم کرنا پڑے گا، تب روحانیت میں رسوخ حاصل ہوگا، جیسے میں اکثر مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک غبارہ ہے، جس میں hydrogen گیس بھری ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا پتھر بندھا ہوا ہے، تو اگر غبارے کی اڑان کی قوت، یعنی جتنا وہ اڑ سکتا ہے، اس پتھر کے وزن سے زیادہ ہو تو یہ غبارہ اوپر جائے گا اور اگر پتھر کا وزن اس غبارہ کی اڑان کی قوت سے زیادہ ہو تو غبارہ نیچے آئے گا، اڑ نہیں سکے گا، برابر ہوگا تو اپنی جگہ پہ کھڑا ہوجائے گا۔ تو اسی طرح روحانیت کو ہم اس غبارے کی اڑان کی قوت اگر قرار دیں اور پتھر کا جو وزن ہے، اس کو ہم نفس کا ثقل قرار دیں یعنی نفسانی جو خواہشات ہیں، جو انسان کو نیچے کی طرف لے جاتی ہیں، نفس امارہ ہے، تو وہ نفس کی جو خواہشات ہیں، وہ نیچے جو لا رہی ہیں، تو اب دو ہی چیزیں ہیں یا تو آپ اپنے غبارے کی اڑان کی قوت کو بڑھا دیں، یعنی بہت زیادہ hydrogen گیس اس میں بھر دیں، تو تب بھی غبارہ اوپر اڑے گا، اگرچہ پتھر کا وزن اپنی جگہ پر ہو، یا پھر یہ ہے کہ پتھر کے وزن کو کم کرلیں تو غبارہ اوپر اڑے گا اور اگر دونوں کرلئے تو سبحان اللہ! پھر تو بڑی اچھی بات ہوجائے گی۔ تو یہاں جو بات ہوئی اس میں دونوں کیے جارہے ہیں، گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ روحانیت کو اگر بڑھایا جارہا ہے تو ساتھ ساتھ جسمانیت کو کم کیا جارہا ہے، جسمانی تقاضوں کو دبایا جائے گا۔ جس وقت یہ کیفیت حاصل ہوجائے تو اب روحانی اڑان ہوگی، کیونکہ مراقبہ روحانی اڑان ہے، مراقبہ کیا ہے؟ روحانی اڑان ہے۔ تو اب مراقبہ کے لئے انسان تیار ہوگیا، ایسی صورت میں اب اس کو مراقبہ کرنا چاہئے۔

مراقبہ اور اس کے احکام ہیں

مراقبے سے بحیثیت مجموعی مراد یہ ہے کہ سالک اپنی قوت ادراک کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کے تصور میں لگا دے یا وہ نزع کی اس حالت کا دھیان کرے جب روح بدن کو چھوڑتی ہے۔

دیکھیں ناں! بات وہی ہے یعنی یا تو اللہ جل شانہٗ کی صفات کے ساتھ اپنے آپ کو متعلق کردے، جو ان تمام چیزوں سے بالا ہے، تو ایک بالائی قوت کے ساتھ آپ کا تعلق ہوجائے گا۔ اور یا پھر یہ ہے کہ جس وقت وہ انسان ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ والی حالت کہ جو نزع کی حالت ہے، تو نزع کی حالت میں روح آزاد ہوگی، تو اِس وقت اُس کا دھیان اگر کرلے تو تب بھی یہ بات حاصل ہوگی۔

یا اس طرح کی کسی اور کیفیت پر سالک اپنی توجہات کو یوں مبذول کردے کہ اس کی عقل اس کے وہم و خیال کی قوت اور اس کے تمام کے تمام حواس "توجہ" کے تابع ہوجائیں اور سالک پر ایسی کیفیت طاری ہوجائے کہ جو چیزیں محسوسات میں سے نہیں ہیں، وہ اس کو محسوس نظر آئیں۔ مراقبے کے معاملہ میں سب سے خوش نصیب وہ شخص ہے جس کو قدرت کی طرف سے غیر محسوس چیزوں پر توجہ کرنے کی طبعاً زیادہ استعداد ودیعت ہوئی ہو۔ چنانچہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگوں پر قوت خیال غالب ہوتی ہے اور وہ خیال کو اپنے سامنے اس طرح محسوس دیکھتے ہیں کہ اس کی طرف وہ ہاتھ سے اشارہ کرتے ہیں، بلکہ بعض تو زبان سے اس سلسلہ میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ لوگ انہیں پاگل کہنے لگتے ہیں۔

مراقبے کی بہت سی قسمیں ہیں اور ان کا ذکر ہم دوسری جگہ پر کر آئے ہیں یہاں ہم اس ضمن میں صرف انہیں چیزوں کا ذکر کرتے ہیں، جن کا علم ہمیں الہام کے ذریعہ عطا ہوا ہے۔ مراقبے میں سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آدمی کو ماسوی اللہ سے کلیتاً فراغت حاصل ہوچکی ہو۔ (وہی والی بات ہے مطلب وہی میدان کارزار جو ہے، ان میں سے کسی اور چیز کے ساتھ دل نہ لگا ہو۔) اور فراغت حاصل کرنے کا طریقہ ہم پہلے بتا آئے ہیں۔ (وہی ذکر و اذکار کا جو طریقہ ابھی گزرا ہے۔) اس کے بعد سالک کو چاہئے کہ وہ اس خیال کو اپنا نصب العین بنائے اور اسی طرف اپنی پوری توجہ مبذول کردے کہ حق سبحانہٗ اس کو اور اس کے علاوہ تمام کی تمام چیزوں کو نیچے سے اوپر، دائیں سے بائیں سے، اور اندر سے اور باہر سے الغرض ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اور گو حق سبحانہٗ ہر جہت سے پاک اور منزہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود سالک کو چاہئے کہ وہ اس ذات اقدس کو مراقبے میں اپنے سامنے یوں دیکھے جیسا کہ فضا میں ہوا جاری و ساری نظر آتی ہے یا جس طرح گارے میں پانی رواں دواں ہوتا ہے، غرضیکہ ذات باری کی ہمہ گیری کو وہ چشمِ بصیرت کے سامنے اس طرح متشکل کرے کہ اس کو ہر طرف حق سبحانہٗ ہی کا نور جلوہ گر نظر آئے اور وہ پوری دل جمعی سے اس بات پر یقین کرے کہ کون و مکان میں نور الہیٰ کی یہ جلوہ گری میرے فکر و مجاہدہ کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ نور از خود بغیر میری کسی سعی و کوشش سے جلوہ فگن ہے۔

مراقبے میں حق سبحانہٗ کے نور کو اس طرح جلوہ گر دیکھنا ہی مراقبے کا اصل مقصود ہے۔

اب اگر آپ تھوڑا سا اس میں یہ تصور کریں: ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِؕ﴾ (النور: 35) اگر یہ کر لیں تو ظاہر ہے تمام سماوات و ارض کو اس نے منور کردیا ناں، تو یہ اسی کا مراقبہ ہوجائے گا ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِؕ﴾۔

مراقبے میں حق سبحانہٗ کے نور کو اس طرح جلوہ گر دیکھنا ہی مراقبے کا اصل مقصود ہے۔ اب یہ سالک کی اپنی استعداد پر منحصر ہے کہ وہ اس کیفیت کو چھ ماہ میں حاصل کرے یا تین ماہ میں۔ یا اس کے حصول میں اسے صرف ایک ہفتہ لگے۔ مرشد کو چاہئے کہ جب سالک حق سبحانہٗ کے نور کو اس طرح محسوس طور پر دیکھنے لگے تو وہ "نسبت بیرنگی" کی طرف اس کی رہنمائی کرے۔

بے رنگ بھی نہیں ہے۔ بے رنگ بھی نہیں ہے یہ تو میری سوچ ہے۔ مطلب اللہ تعالیٰ کی ہر چیز اس طرح جاری و ساری ہے، لیکن یہ نور والی جو چیز ہے، یہ چیزیں تو منور کردیتا ہے، لیکن اللہ پاک خود تو ان چیزوں سے پاک ہے۔

اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرشد سالک کو اس امر کی تلقین کرے کہ وہ حق سبحانہٗ کے نور کے اس محسوس تصور میں سے اشیاء کے وجود کو جن کو یہ نور گھیرے ہوئے ہے خارج کرکے اور جہات کے خیال کو ذہن میں کلیتاً نکال کے حق سبحانہٗ کے نور کو اشیاء و جہات سے بالکل پاک و منزہ دیکھے۔ اس طرح اگر وہ تھوڑی سے کوشش کرے گا تو اس کو "نسبت بیرنگی" حاصل ہوجائے گی۔ الغرض "نور محسوس" کا تصور مراقبے کا پہلا قدم ہے اور یہ "نسبت بے رنگی" کا مقام اس کا دوسرا قدم۔

مشائخِ تصوف کے ہاں بہت سے مراقبے مروج ہیں، بعض مراقبے دل کو ادھر ادھر کے خیالات سے فارغ کرکے پورے اطمینان کے ساتھ ذات واحد کی طرف متوجہ کرنے کے لئے استنباط کیے گئے ہیں۔ اس قسم کے مراقبوں کے لئے ناک پر نظر جمائے رکھنے کی مشق کی جاتی ہے (یہ اصل میں اشغال ہیں) اور بعض مراقبے نفس کی خواہشات کو دبانے اور اسے اس قابل بنانے کے لئے کیے جاتے ہیں کہ وہ ذات مجرد کی طرف پوری طرح متوجہ ہوسکے۔

یعنی گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ focus کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے مراقبہ میں اور نفس کی خواہشات کو دبانے کی بھی تربیت دی جاتی ہے کہ نفس کی خواہشات سے انسان کیسے detach ہوتا ہے۔

اس قسم کے مراقبوں کے لئے آفتاب کو مسلسل دیکھنے یا خلا کی طرف نظر جمانے کی مشق کی جاتی ہے اور بعض مراقبوں سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ نفس درجہ بدرجہ اپنے اندر اتنی استعداد پیدا کرلے کہ وہ تصورات کو اپنے ذہن میں متشکل دیکھ سکے۔ اس غرض کے لئے اللہ کا نام کاغذ پر لکھ کر اس کو برابر دیکھنے کی مشق کی جاتی ہے۔

اور دل کا تصور حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ دل کی شکل بنا کر اس کے اوپر ’’اللہ‘‘ سنہری حروف سے لکھ کر اس کی طرف دیکھا جاتا ہے اور پھر محسوس کیا جاتا ہے کہ میرے دل کے اوپر ایسے لکھا ہوا ہے اور پھر وہ ایسا نظر بھی آتا ہے، تو یہ بھی ایک مشق ہے۔

اسی طرح بعض اور مراقبے ہیں جن میں ذات حق کی طرف توجہ کرنے کے طریقے متعین کیے گئے ہیں۔ مشائخ نے اس توجہ کی دو قسمیں کی ہیں، ایک توجہ اسم کی طرف اور دوسرے یہ کہ مسمی کی طرف توجہ کی جائے (نام کا تصور، پھر نام والے کا تصور) توجہ بہ اسم کی مثال نبض کی حرکت کی سی ہے کہ اس کی رفتار مسلسل نہیں ہوتی، بلکہ آہرن پر ہتھوڑے کی چوٹوں کی طرح اس کی حرکت الگ الگ ہوتی ہے اور توجہ بہ مسمی کو یوں سمجھئے کہ سالک کا خیال دور دراز پہنائیوں کی جاکر خبر لائے۔

مطلب یہ ہے کہ جیسے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہم کرتے ہیں تو اسم کے لئے تو بالکل نبض کی طرح ہوتا ہے، جیسے حرکت ہورہی ہے اور مسمیٰ تو ظاہر ہے وہ جیسے وراء الوراء ذات ہے، تو اس کی طرف توجہ جو ہے ایک وراء الوراء ذات کی طرف توجہ ہے۔

گویا کہ وہ ایک دھاگا ہے کہ اسے جتنا بھی کھینچے برابر کھنچتا چلا جاتا ہے یا اس کی مثال ایک ایسی آواز کی ہے جو برابر آرہی ہے اور کان قوت سماعت سے کام لئے بغیر اس آواز کا تصور کررہا ہے۔

مراقبے سے سالک کے اندر جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو اس وقت اسے وہ مقام حاصل ہوجاتا ہے، جس کو لطائف کی زبان کھل جانے کا مقام کہتے ہیں۔ یعنی دل و دماغ اور انسان کی دوسری استعدادوں کو گویا کہ قوت گویائی مل جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض مشائخ مراقبوں میں سالک کو کسی ایک نسبت کو ملحوظ نظر رکھنے کی تلقین کرتے ہیں مثلاً وہ اسے ’’اَنْتَ فَوْقِیْ اَنْتَ تَحْتِیْ‘‘ کا ذکر کرنے کو کہتے ہیں۔ (یعنی تو میرے اوپر) اس سے سالک کے لئے نسبت توحید کی راہ نزدیک ہوجاتی ہے۔ الغرض یہ میدان بڑا وسیع ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے ذوق اور ادراک کے مطابق مختلف قسم کے مراقبے تجویز کیے ہیں۔

’’وَلِلنَّاسِ فِیْمَا یَعْشِقُوْنَ مَذَاھِبُ‘‘

لیکن اس ضمن میں فقیر پر یہ حقیقت ظاہر کی گئی ہے کہ ذکر و اذکار اور مراقبہ و مجاہدہ کے معاملہ میں حق سبحانہٗ کو مطلوب یہ ہے کہ اذکار میں سے وہ ذکر کیا جائے، جس کی شریعت نے اجازت دی ہے اور مراقبہ ایسا ہو کہ سالک کی توجہ فوراً ذات باری کی طرف مبذول ہوجائے۔ مراقبے کے سلسلے میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ سالک اس کی تمہیدی مشقوں میں ہی پھنس کر رہ جائے، کیونکہ اگر وہ اس حالت میں مر جائے گا تو اسے آخرت میں حسرت اور رنج ہوگا۔ مثلاً اگر سالک مراقبے کی تمہیدی مشقیں کررہا ہو یعنی وہ مسلسل آواز سننے میں مصروف ہو یا خلا کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کی مشق میں لگا ہوا ہو یا وہ آفتاب کی طرف دیکھنے یا ناک پر نظر جمانے کی مشق کررہا ہو اور اس کو موت آجائے تو اندازہ لگایئے کہ آخرت میں اسے اپنی اس محرومی کا کتنا صدمہ ہوگا۔

مطلب یہ ہے کہ دیکھو! ایک ہے مراقبات کی تیاری کا اور ایک ہے مراقبہ کا اور ایک ہے مراقبہ کے مقصود کا، تو ہم نے نہ تو مراقبہ کی تیاری میں پھنسنا ہے، نہ محض مراقبہ میں پھنسنا ہے، بلکہ ہمیں سیدھا اپنے مقصود کی طرف جانا ہے۔ باقی چیزوں میں بضرورت ہی وقت لگانا ہے اور اصل مقصود کی طرف بڑھ جانا ہے۔ جتنی باتیں بھی حضرت نے بتائی ہیں، یہ حضرت کے اپنے وقت کی باتیں ہیں، اس وجہ سے ہم نہ ان کی تردید کرتے ہیں اور نہ ہم اس کو اس طریقہ سے اپناتے ہیں، لیکن اس سے کم از کم یہ پتا چل سکتا ہے اور پتا چل گیا کہ اس قسم کی چیزیں مشقوں میں آسکتی ہیں، ضروری نہیں کہ یہی مشقیں ہوں، جیسے انہوں نے خود کہا ’’وَلِلنَّاسِ فِیْمَا یَعْشِقُوْنَ مَذَاھِبُ‘‘ والی بات ہے، لیکن یہ بات ہے کہ کم از کم ہم نے ایک بات سمجھ لی کہ اس قسم کی چیزیں بھی ہوتی ہیں، جو مقصود کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ میں نے آپ کو ایک چیز (میرے خیال میں) پہلے بتائی تھی، جو پہلے بیانات سنتے آرہے ہوں ان کو یاد ہوگا کہ MBBS جو ڈاکٹری ہے، اس میں بنیادی مضامین جو ہیں، وہ کیا ہیں؟ وہ میڈیسن اور سرجری ہے، پھر اس کے بعد اس کی specializations ہیں اور یہ آخری سال میں پڑھائے جاتے ہیں اور پہلے چار سال ساری کی ساری اس کی تیاری کے ہیں یعنی پہلے جب جاتے ہیں تو ان کو Bio-chemistry اور اس طرح اور اس قسم کی جو چیزیں ہوتی ہیں، وہ پڑھائی جاتی ہیں، hygiene پڑھائی جاتی ہے، اس طرح جو مختلف مضامین ہیں Physiology اور hygiene تو یہ چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، اس کے بعد پھر اور بہت ساری چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، جو بنیادی کام کرتے ہیں Pharmacology, Normal Pathology, Anatomy یعنی یہ ساری چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی ڈاکٹری نہیں ہے، یہ ڈاکٹری کی تیاری ہے یعنی بعد میں جب ان کو سرجری میں وہ چیزیں پڑھائی جائیں گی تو ان میں جب ان کا ذکر آئے گا تو وہ تو ذرائع ہیں ان کے، تو کم از کم وہ سمجھتا تو ہو کہ میں کیا کررہا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوائیوں کے ساتھ ایک literature ہوتا ہے، وہ اندر پڑا ہوتا ہے، اب پڑا تو یقیناً ہے، ہر ایک پڑھ سکتا ہے، لیکن کیا اس کو ہر ایک سمجھتا ہے؟ یہ ڈاکٹروں کے لئے پڑا ہوتا ہے، کیونکہ ڈاکٹر اس کی بنیادی تمام چیزیں جانتے ہیں کہ کون سی چیز کیا ہے، جیسے microorganism، آپ کو کیا پتا microorganism کیا چیز ہے؟ Positive microorganism, Negative microorganism اس میں لکھا ہے کہ اس میں یہ یہ چیزیں، یہ چیزیں ہیں، یہ اس طرح ہیں اور یہ اس طرح ہے۔ اب آپ کے لئے صرف انگریزی ہے، لیکن اُن کے لئے باقاعدہ علم ہے، ڈاکٹر کے لئے باقاعدہ علم ہے آپ کے لئے محض انگریزی ہے۔ تو اب یہ ہے کہ آپ اس چیز کو اگر دیکھیں تو آپ کیا اس کے بغیر اُدھر جاسکتے ہیں میڈیسن اور سرجری میں؟ کیا اس میں ہمیشہ رہ سکتے ہیں؟ نہ اس میں ہمیشہ رہنا اچھا ہے اور نہ آپ براہِ راست بغیر اس کے جاسکتے ہیں۔ تو جتنی اس کی افادیت اِدھر ہے، اسی طرح ان چیزوں کی افادیت اُدھر ہے۔ یہ بات حضرت نے اس لئے بیان فرمائی ہے کہ بعض لوگ واقعی ان چیزوں میں پھنس جاتے ہیں۔ فلسفیانہ بحثوں میں لوگ پھنس جاتے ہیں، حالانکہ وہ صرف ایک ذریعہ ہے، منطق مقصود نہیں ہے، ایک ذریعہ ہے آپ لوگوں کے لئے۔ آپ منطقی بحثوں میں ہی لگ جائیں، آگے جاکر جن چیزوں کے لئے اس کو استعمال کرنا ہے، اس کی باری نہ آئے تو کیا خیال ہے، کتنا کمایا؟ یعنی ان کو معقولات کہتے ہیں، تو ان معقولات سے منقولات کی طرف جانا ہوتا ہے، تو جو معقولات میں پھنس گیا اس کو معقولی کہتے ہیں، پھر وہ معقولی ہی رہے گا، ان کے اندر کچھ خاص قسم کی کمیاں ہوتی ہیں جو پائی جاتی ہیں، دینیات سے کمزوری جن میں ہو، ان میں وہ کمی پائی جاتی ہے، جس کا پتا بھی چلتا ہے، لیکن اس کو آپ بیکار بھی تو نہیں کہہ سکتے۔ اب جو شخص ان معقولات میں بہت بڑا مقام طے کرچکا ہے، جو منقولات کی طرف جانے والا ہے، ان چیزوں کو استعمال کرنا ان کے لئے تو ایک رحمت ہے، لیکن خود اس کے لئے وہ کیا ہے؟ تبھی پتا چلتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو جو ایک بدو نے نصیحت کی تھی کہ عمر! یاد رکھو! اگر تیری وجہ سے لاکھوں لوگ جنت میں چلے جائیں اور تو خود جہنم چلا جائے تو پھر کیا ہوگا؟ یعنی تو لوگوں کے لئے جنت کا ذریعہ بن جائے، لیکن خود نہ جاسکے تو تیرا کام تو نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ ذرائع میں پھنسنا نہیں، لیکن ذرائع سے استغنا بھی نہیں ہے، نہ ذرائع میں پھنسنا ہے، نہ ذرائع سے استغنا ہے، یہ بنیادی نکتہ ہے۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ تصوف سارے کا سارا مقصود نہیں ہے، یہ ذریعہ ہے، ذریعہ شریعت پر آنے کا ہے۔ پس اگر کوئی صوفی بن گیا، لیکن شریعت پر نہیں آیا تو اس نے نہ تصوف پہچانا، نہ شریعت پہچانی، مطلب وہ بالکل ہی غائب ہوگیا، ختم ہوگیا، مطلب وہ چیز اس کو حاصل نہیں ہوئی جو اس کو حاصل ہونا چاہئے تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں شریعت اور ہے طریقت اور ہے۔ اس کے دو معنے ہیں، ایک صحیح ہے، دوسرا غلط ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ شریعت جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے، تو طریقت اس کی کوئی مخالف چیز ہے، جس کی اس میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس کی الگ دنیا ہے، مطلب اس میں طریقت کے ذریعہ سے بھی انسان کامیاب ہوسکتا ہے یا شریعت کے ذریعہ سے کامیاب ہوسکتا ہے، یہ تو الحاد ہے، یہ الحاد ہے کہ کوئی آدمی شریعت کے ذریعہ سے کامیاب ہو، کوئی آدمی طریقت کے ذریعہ سے کامیاب ہو، یہ الحاد ہے۔ اس میں طریقت کو مقصود بنا دیا بعض لوگوں کے لئے، یہ غلط ہے، لیکن اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ شریعت اور ہے طریقت اور ہے، اس لحاظ سے کہ شریعت مقصود ہے اور طریقت اس پر آنے کا ذریعہ ہے، اس لحاظ سے مختلف ہے، تو پھر یہ بات صحیح ہے، کیونکہ شریعت میں تو تبدیلی نہیں ہوسکتی، طریقت میں تو مستقل تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ کیوں؟ لوگ تبدیل ہورہے ہیں، حالات تبدیل ہورہے ہیں، بیماریاں تبدیل ہورہی ہیں، جیسے صحت ایک ہے، لیکن صحت پہ لانے کے طریقے لاتعداد ہیں، اسی طریقہ سے شریعت ایک ہے، لیکن شریعت پر آنے کے طریقے لاتعداد ہیں، ان طریقوں کو طریقت کہتے ہیں، تو اس لحاظ سے مختلف ہیں، لیکن یہ ایسے مختلف نہیں ہیں کہ کوئی علیحدہ سے یہ چیز ہے، یہ نہیں، بلکہ مقصد ایک ہی ہے اللہ کو راضی کرنا۔ تو اللہ پاک نے راضی کرنے کے لئے جو نظام بھیجا ہے، وہ شریعت ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، اس پر لانے کے لئے جو نظام اللہ پاک نے لوگوں کے قلوب پر اتارا ہے، جس میں مسلسل تبدیلیاں ہوتی ہیں حالات و واقعات اور اشخاص کے لحاظ سے، وہ صرف اس پر لانے کے لئے ہیں، تاکہ اس نظام پر آسکیں اور پھر اللہ پاک کو راضی کرسکیں، تو یہ بالکل صحیح ہے۔ تو اس لحاظ سے پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب جو سادہ لوگ ہوتے ہیں، وہ ملحدوں کے چکر میں بھی آجاتے ہیں، کہتے ہیں بھئی! یہ تو طریقت کی باتیں ہیں، یہ تو شریعت والے اس کو نہیں جانتے، شریعت اور ہے طریقت اور ہے، یہ شریعت کی بات ہوگی، وہ لوگوں سے مستغنی ہیں۔ تو یہ سادہ لوگ ہیں، انہوں نے اس ایک معنی کو لے لیا اور اس کا مطلب غلط لے لیا، لہٰذا نقصان ہوگیا۔ لیکن ان کو بتایا جائے کہ بھئی! فی نفسہٖ تو یہ مختلف ہے، لیکن مقصد کے لحاظ سے ایک ہے، ایک مستقل ہے اور دوسرا متغیر ہے اور یہ متغیر اس مستقل پہ آنے کے لئے ہے، بس پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے، پھر بالکل ٹھیک ہے اور یہی ہمارے بزرگوں نے ہمیں سمجھایا ہے۔ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب نے جو اپنا واقعہ سنایا ہے حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا، تو اس میں حضرت نے یہی بتایا ہے کہ میں آرہا تھا، چار مہینے میں نے لگا لئے، تو میرے ذہن میں تھا کہ (کیونکہ میرے والد صاحب چاہتے تھے) میں حضرت کے ساتھ مل لوں، تو میں نے کہا یہ تو صوفی ہے، یہ تو مجھے بیعت کے لئے کہے گا، تو میں نے اپنے ذہن میں بڑے سوالات بنائے ہوئے تھے کہ میں حضرت سے یہ سوالات پوچھوں گا۔ کہتے ہیں کہ جب میں آگیا، حضرت کے ساتھ ملاقات ہوگئی، حضرت اس طرح لیٹے ہوئے تھے تو میں نے کہا کہ حضرت! یہ بیعت کیا ضروری ہے؟ حضرت نے فرمایا ہرگز نہیں، بس اس سے تو میرا سارا سلسلہ ٹوٹ گیا، کیونکہ میں تو سوچ کے آیا تھا کہ وہ کہیں گے کہ ضروری ہے اور پھر میں سوالات کروں گا، سوالات کے لئے تو جگہ نہیں بنی۔ یہاں تک تو معاملہ ایک تھا، اب آگے جاکے حضرت نے بھی پھر جوابی کاروائی کی اور پھر اس طرح اٹھ گئے اور فرمایا: لیکن یہ بھی بتا دوں کہ تمہارا تبلیغ میں چلنا پھرنا بھی ضروری نہیں ہے، تمہارا تبلیغ میں چلنا پھرنا بھی ضروری نہیں ہے، تمہارا یہ کام بھی ضروری نہیں ہے، یہ بھی ضروری نہیں ہے، یہ بھی ضروری نہیں ہے، یہ بھی ضروری نہیں ہے، بلکہ تمہارا نماز پڑھنا بھی ضروری نہیں، تمہاری یہ چیزیں بھی ضروری نہیں۔ اصل میں تو اللہ کی رضا ہے، یہ تو سب باقی ذرائع ہیں، کچھ مستقل ہیں، کچھ متغیر ہیں۔ بس کہتے ہیں کہ میرا سارا کچھ ختم ہوگیا، بہہ گیا، مجھے تو بالکل ٹکنے ہی نہیں دیا ناں حضرت نے، اس پر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے بیعت فرمائیں۔ فرمایا ہاں! ضرور۔ تو اس طرح حضرت کو بیعت فرمایا۔

میرے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہوا ہے، وہ عرب صاحب جو تھے، جن کی مجھ سے ملاقات ہوئی، گھنٹہ سوا گھنٹہ اس کے ساتھ بات چیت ہوئی، ماشاء اللہ اس کی تصوف کے بارے میں اتنی معلومات تھیں کہ میں خود impress ہوگیا ان سے بہت زیادہ کہ سبحان اللہ! اس وقت بھی اتنے لوگوں کی معلومات ہوسکتی ہیں، بڑی پرانی پرانی یہ جو شجروں کے اندر نام لکھے ہوئے ہیں ان کی کتابیں، متقدمین کی۔ میں نے کہا کمال ہے، عرب تھے، عربوں کے پاس اتنے وسائل ہیں، لیکن پھنسا کہاں تھا؟ اب دیکھو! سب کچھ کے بعد مجھ سے کہتے ہیں شیخ! میں اللہ اور اپنے درمیان کسی کو حائل نہیں کرسکتا۔ اب بظاہر یہ ان کا بہت بڑا نکتہ تھا، تو میں نے کہا شیخ! کم از کم ایک کو تو کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کون سا؟ میں نے کہا رسول اللہ۔ وہ ہل گیا بالکل، جیسے خواب سے جاگا ہو، کہتے ہیں: نَعَمْ نَعَمْ۔ میں نے کہا کہ اُس ایک تک پہنچنے کے لئے آپ کو تین بڑے گروہوں کو ماننا پڑے گا۔ کہتے ہیں: کون؟ میں نے کہا امھات المؤمنین، اہل بیت اور عام صحابہ، کیونکہ سارے علوم ہمیں انہی ذرائع سے معلوم ہوئے ہیں، کیونکہ ہماری خود کی ملاقات تو ہوئی نہیں، تو کہتے ہیں: نَعَمْ۔ میں نے کہا ان تینوں تک پہنچنے کے لئے تین اور بڑے گروہوں کو ماننا پڑے گا، کہتے کون؟ میں نے کہا محدثین کرام، فقہاء کرام، صوفیاء کرام، (چونکہ مانتا تو تھا کہ ان کی کتابیں انہوں نے پڑھی ہوئی تھیں) تو کہتے ہیں نَعَمْ، یہ بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے کہا لیکن یہ بات ہے کہ محدثین اور فقہاء کرام کی بات تو آپ کو علماء سے حاصل ہوجائے گی، صوفیاء کرام کی بات آپ کو اپنے شیخ سے حاصل ہوگی اور شیخ ان تمام صوفیاء کرام کے علوم کا نچوڑ ہے اس شخص کے لئے، تو اس کے ذریعہ سے آپ پہنچیں گے پھر۔ پھر اس پر خاموش ہوگئے، کچھ کہا نہیں۔ گھنٹہ سوا گھنٹہ کی discussion تھی، وہ اتنی آسان بات تو نہیں تھی، جس طرح میں نے ابھی کی ہے، کیونکہ سامنے بات کرنے والے تھے، کوئی اس طرح خاموش آدمی تو نہیں تھے، جیسے آپ خاموش بیٹھے ہوئے ہیں، وہ تو بات کرنے والے تھے، خیر ایسا ہے کہ وہ خاموش ہوگئے، کچھ کہا نہیں۔ چند دنوں کے بعد یہاں خود تشریف لائے خانقاہ میں اور بیعت ہوئے اور اس کے بعد پھر ما شاء اللہ! ذکر بھی لے لیا، یہی جہری ذکر جو ہم کرتے ہیں اور باقاعدہ کرنے لگے، بس ان پہ بات کھل گئی، معلوم ہوگیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعتاً بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی چیز میں پھنسا ہوتا ہے جس کی وجہ سے (ایسے ہوتا ہے) اس کے لئے وہی چیز حجاب اکبر ہوتی ہے۔ تو اس نے علم اس میں بہت حاصل کیا تھا، صوفیاء کرام کی کتابوں سے علم بہت حاصل کیا تھا، لیکن وہ علم اس کے لئے حجاب بن گیا تھا۔ جیسے کہتے ہیں ’’اَلْعِلْمُ حِجَابٌ اَکْبَرُ‘‘۔ اب ایک سادہ آدمی ان چیزوں میں نہیں پھنستا، وہ تو جلدی مان لیتا ہے، لیکن جو عالم ہوتا ہے، ان کے لئے وہ علم حجاب بن جاتا ہے، وہ آسانی سے مانتا ہے؟ آگے سے بولتا ہے، آپ ایک دلیل دیں گے، وہ آگے سو دلیلیں دیں گے اور بات چلتی جائے گی اور اس طریقہ سے چلتی جائے گی، اور نتیجہ ڈھاک کے تین پات، وہی والی چیز محرومی۔ لیکن اگر خوش قسمت ہو، جیسے حضرت نے فرمایا کہ بعض خوش قسمتوں کو (اگر خوش قسمت ہو تو) ان چیزوں کی معرفت اللہ پاک ویسے دے دیتے ہیں کہ وہ غیر محسوس چیزوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت پہلے سے رکھتے ہیں، نتیجتاً ان کو جو چیزیں دوسرے لوگوں کو بڑی محنت سے ملتی ہیں، ان کو مفت میں مل جاتی ہیں۔ اَلْحَمْدُ للہ! ہم بھی ان خوش قسمت لوگوں میں تھے، اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ۔ ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے باقی تفصیلات کو، بس صرف ایک بات تھی کہ پشاور یونیورسٹی جب ہم گئے، ہم تو انجینئرنگ میں داخلہ لینے کے لئے گئے تھے، ہم تو کسی مدرسہ میں داخل نہیں ہوئے تھے، نہ کسی خانقاہ میں داخل ہونے کے لئے گئے تھے، لیکن وہاں کسی اللہ والے کو جب بیٹھے دیکھا اور ان کے پاس لوگوں نے پہنچا دیا تو بغیر کسی حیل و حجت کے دل نے گواہی دی کہ یہ جگہ بیٹھنے کی ہے اور یہی ہماری خوش قسمتی تھی۔ اگر اُس وقت درمیان میں کوئی ادھر ادھر کی بات ہوتی دل میں کہ بھائی! یہ تو نہیں ہوسکتا، یہ تو فلاں ہے، یہ فلاں ہے، تو رہ جاتے۔ بہت سارے لوگ رہ گئے تھے، یعنی صرف یہ نہیں کہ میں رہ جاتا، بہت سارے لوگ رہ گئے تھے، لیکن اللہ کا شکر ہے ہمیں یہ چیز پیش نہیں آئی اور یہی ہماری خوش قسمتی تھی۔ بس پھر ہم بیٹھ گئے اور کمال کی بات یہ ہے کہ ہم تصوف کے نام پر ادھر نہیں بیٹھے تھے، کیونکہ اس وقت ہم ان چیزوں کو جانتے ہی نہیں تھے، ہم صرف ایک شخصیت پر متفق ہوگئے کہ یہ صحیح ہے بس۔ ان کو ہم مولانا صاحب کہتے اور ابھی تک مولانا صاحب کہتے ہیں، کبھی ان کو ہم نے صوفی صاحب، شیخ صاحب نہیں کہا اور کسی نے نہیں کہا، ان کے خلفاء بھی ان کو یہ نہیں کہتے، مولانا صاحب کہتے ہیں، ان کی شہرت، ان کی معرفت مولانا صاحب کے ساتھ تھی۔ لیکن اَلْحَمْدُ للہ! ہمارے لئے ان تمام چیزوں تک پہنچنے کے لئے ذریعہ بن گئے اور بڑے بڑے لوگ اُدھر آتے تھے حضرت کے پاس، مولانا تقی عثمانی صاحب اور اس طرح مفتی محمود صاحب اور مولانا مفتی یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ اور کیا کیا اکابر، تشریف لاتے تھے، مفت میں ہمیں زیارتیں ہوتی تھیں، لیکن ہمارے لئے محور جو تھا، وہ مولانا صاحب تھے، یہ خوش قسمتی تھی، اس کے ذریعہ سے اللہ پاک نے ہمیں ان چیزوں تک رسائی عطا فرمائی۔ اس وقت ہمیں پتا بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کام کریں گے، یہ تو بعد کی بات ہے، اس وقت تو ہمیں یہ نہیں پتا تھا، ہم تو صرف اس کو دیکھ رہے تھے اور absorb کررہے تھے، بس یہی بات تھی اور جب کبھی کوئی مسئلہ ہوا تو حضرت کے پاس دوڑے اور بھاگے مشورہ کے لئے۔ تقریباً چار سال کے بعد مجھ سے سید تسنیم الحق صاحب پوچھتے ہیں کہ کیا آپ حضرت سے بیعت ہیں؟ میں نے کہا کیا حضرت بیعت کرتے ہیں؟ تو وہ حیران ہوگئے، اچھا! آپ کو پتا نہیں ہے؟ یونیورسٹی کن کی برکت سے دیندار بنی ہوئی ہے؟ آپ کو کیا پتا ہمیں معلوم ہے کہ پہلے کیسے تھے، یہ تو حضرت کی برکت سے ایسے ہوئے ہیں۔ اچھا! چلو ٹھیک ہے، لیکن وہ ’’چلو ٹھیک ہے‘‘ لڑکپن والی چلو ٹھیک ہے والی بات تھی، بھول گئے، ختم ہوگئی بات، اختلاف نہیں، لیکن سستی تھی۔ پھر بعد میں سستی جاری رہی، لیکن اللہ پاک کی مدد بھی جاری رہی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام ہوتا ہے، تو خوابوں کا سلسلہ شروع ہوا، اب خوابوں میں چیزیں نظر آنے لگیں کہ یہ ایسا اور یہ ایسا اور یہ ایسا۔ تو اخیر میں اَلْحَمْدُ للہ! اللہ پاک نے بالکل واضح طور پر گویا (بتلا دیا کہ) نہیں کرو گے تو پھر معاملہ بڑا خطرناک بن جائے گا، تو پھر اُدھر چلے گئے حضرت کے پاس اور حضرت سے بیعت ہوئے۔ اس طریقہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کام میں قبول فرمایا اَلْحَمْدُ للہ۔ میں جتنا بھی اپنے پیچھے نظر دوڑاتا ہوں تو شکر ہی شکر کرتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ للہ! اگر نہ ہوتا تو پتا نہیں ہم کدھر ہوتے اور کیا کرتے اور کن چیزوں میں پڑے ہوتے۔ تو حضرت نے بھی یہ باتیں ہمیں جو سمجھائی ہیں یعنی حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے، تو اس کو آدمی یہ نہ سمجھے کہ صرف یہی ہیں، یہ تو صرف حضرت نے ایک جھلک دکھائی ہے کہ اس قسم کی چیزیں بھی ہوتی ہیں اور ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا معاملہ ہوتا ہے، بس اس کو فیصلہ یہ کرنا چاہئے کہ شیخ کو چننا چاہئے اور شیخ سے پھر نہیں کہنا چاہئے کہ مجھے فلاں چیز کرا دو، بس جو شیخ کرائے، تو وہی کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ خود کرے گا تو یہ ایسا ہے جیسے حکیم کو یا ڈاکٹر کو دوائی بتانے والی بات کہ مجھے فلاں دوائی دے دو، کیا حکیم اور ڈاکٹر کو کوئی یہ کہہ سکتا ہے؟ وہ تو اس کا فن ہی نہیں ہے، تو کیسے وہ کہے گا۔ بس یہ ساری باتیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ دوائیوں کی باتیں ہوگئی ہیں، لیکن صرف یہ دوائی نہیں ہے، بہت کچھ اور ہے۔ تو جن کو اللہ پاک نے اس چیز کے لئے قبول فرمایا تو ان کے دل پر ڈالتے ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ