فتنوں سے حفاظت: عزلت اور اجتماعیت کا اسلامی توازن

( یہ بیان 25 جون 2020 کے سیرت کے بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ درس سیرت النبیﷺ کی روشنی میں گوشہ نشینی (عزلت) کے اسلامی اصول بیان کرتا ہے۔ اسلام میں تنہائی کی اجازت صرف دو صورتوں میں ہے: اول، جب کسی شخص کی ذات دوسروں کے لیے باعثِ شر ہو، اور دوم، جب معاشرے میں فتنہ اس قدر عام ہو جائے کہ اصلاح ناممکن ہو اور اپنا ایمان بچانا مقصود ہو۔ اس کی بنیاد اس فقہی اصول پر ہے کہ نقصان سے بچنا فائدہ حاصل کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ اس تصور کو عبادات کے فلسفے سے جوڑتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ ہر عبادت نفس کے ایک خاص رذیلے کا علاج ہے۔ نماز تکبر کا، روزہ نفسانی خواہشات کا، اور زکوٰۃ مال کی محبت کا توڑ ہے۔ لہٰذا، عبادات محض رسومات نہیں بلکہ نفس کی اصلاح اور فتنوں سے حفاظت کا ایک مکمل نظام ہیں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

تمہید:

معزز خواتین و حضرات! آج جمعرات ہے اور جمعرات کے دن ہمارے ہاں حضرت محمد ﷺ جو اللہ جل شانہٗ کے محبوب ہیں، ان کی سیرت پر بات ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہمیں آپ ﷺ کی سیرت کو پڑھنے کی، اس کو سمجھنے کی اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یہ سیرت کے جو اسباق ہیں ہم سیرت النبی جو حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی معرکۃ الآراء تصنیف ہے شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی اور ان کی، وہاں سے ہم اَلْحَمْدُ للہ اس کا درس دیتے ہیں۔

’’اسلام میں گوشہ گیری اور عزلت نشینی کی اجازت صرف دو موقعوں پر ہے ایک اس شخص کے لئے جس میں فطرتاً بدی ہے جس کی سرشت دوسروں کو نفع پہنچانا نہیں بلکہ تکلیف دینا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو برائی سے بچنے کی تدبیر بتائی ہے کہ وہ لوگوں سے قطع تعلق کرلے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک بدو نے آکر آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے بہتر شخص کون ہے؟ فرمایا "ایک تو وہ جو اپنی جان و مال کو خدا کی راہ میں قربان کرتا ہے دوسرے وہ جو کسی گھاٹی میں بیٹھ کر اپنے رب کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رہنے دے"۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب العزلۃ راحۃ من خلاط السوء) اس تعلیم نبوی نے انسانوں کی دو قسمیں کردیں ایک وہ جن کو خلق اللہ کی ہدایت اور خدمت کی فطری توفیق ملی ہے تو ان پر یہ فرض ہے کہ وہ مجمع اور ہجوم میں رہ کر ان کی بھلائی کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ اس راہ میں ان کی دولت بھی خرچ ہوجائے اور ان کی جان بھی کام آجائے، دوسرے وہ لوگ ہیں جن کی طبعًا مردم آزاری اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کا مادہ ہے۔ ان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح اسی میں ہے کہ وہ اپنے کو مجمع سے الگ رکھ کر خدا کی عبادت میں اپنا وقت صرف کریں تاکہ وہ گناہ کے بار سے اور لوگ ان کے آزار سے محفوظ رہیں۔

تشریح:

یہاں پر ایک فقہ کا بھی مشہور قانون (ہے جو) شاید اسی سے نکلا ہو اور وہ یہ ہے کہ جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت زیادہ اہم ہے۔ یعنی اگر آپ فائدہ کے لئے کام کرنا چاہیں لیکن اس میں نقصان کا احتمال ہو تو پھر اس فائدے کو چھوڑیں اور نقصان سے بچیں۔ مثال میں دیتا ہوں لیکن مثال ذرا کوری سی ہے، مثلاً نوجوانوں کی class fellows ہوتی ہیں کلاس میں اور ویسے یونیورسٹیوں میں اکھٹے پڑھنے والی ہوتی ہیں تو ان کے دل میں (شیطان یہ بات) ڈال دیتا ہے کہ ان کو تبلیغ کرو۔ اب بظاہر تو یہ بڑی اچھی بات ہے، گویا کہ دین کی بات ہے لیکن حقیقت میں وہ شیطان کی planning ہوتی ہے، یہ ان کو تبلیغ کرنے کے لئے جائے گا اور ان کی تبلیغ میں آجائے گا۔ ؎

شکار کرنے کو آئے شکار ہوکر چل دیئے

اب ایسے وقت میں کیا کرنا چاہئے؟ ان کو کہا جائے ان کو تبلیغی نہیں کرنی بس۔ اب وہ کہے یہ تو تبلیغ سے روکتے ہیں۔ بھائی! تبلیغ سے نہیں روکتے، شکار ہونے سے روکتے ہیں۔ 66 KW کی بجلی ہو تو ڈیڑھ فٹ کے فاصلے سے بھی آپ اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے۔ تو آپ کو کوئی کہے کہ اوہ اس کے قریب نہ جاؤ، (آپ کہیں کہ) یہ تو کچھ نہیں کہتا، تو چلو پھر جاؤ، دیکھنا پھر بچنا بھی چاہے گا تو نہیں بچ سکتا، پھر وہ گیا۔ تو یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔ دجال کے بارے میں بھی کہتے ہیں عام لوگوں کو بھی حکم ہوگا کہ بھاگو ادھر سے، اس کو تبلیغ نہیں کرنا۔ ہمارے ایک teacher تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، فوت ہوگئے، ہمیں reactor analysis پڑھا رہے تھے تو ایک دن سوال کیا:

There is hundred curie source what you will do with that

Hundred curie source ہے radiation کا، آپ کیا کریں گے اس کے ساتھ؟ تو ہم نئے نئے سٹوڈنٹس تھے لہٰذا ہم نے تو اپنے ذہنی گھوڑے دوڑائے تو کوئی کہتا تھا reshielding کریں گے، یہ کریں گے وہ کریں گے وہ مسکرا رہے تھے، تو جب سب نے کہا تو کہتے ہیں:

Gentleman you will run away from there

آپ کی بہادری یہی ہے کہ ادھر سے بھاگو، وہاں پر یہ والا معاملہ نہیں ہے کہ آپ اس کی shielding کرلیں، shielding کرتے کرتے آپ کا ہوجائے گا سب کچھ۔ تو یہ میں اس لئے عرض کررہا ہوں کہ کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں۔ بھائی! میں آپ کو بات بتاؤں چلو بھر پانی میں تنکا بہہ جاتا ہے لیکن آبشار میں ہاتھی بھی چلا جاتا ہے، ہاتھ بھی نہیں رک سکتا۔ تو اگر intensity زیادہ ہو کھینچنے کی نفس کی خواہش کی، تو اس کے سامنے آپ کی ساری روحانیت بیٹھ جائے گی۔ وہ جو آپ نے سوچا ہے وہ ساری سوچ آگے پیچھے ہوجائے گی، پھر وقت پہ آپ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ لیکن ایک شخص ہے جس کو وہ روحانیت حاصل ہے صحیح معنوں میں نفس پر control ہے وہ کرلے گا۔ آپ اس کو دیکھ کر سوچیں کہ میں بھی کرتا ہوں۔ ہر ایک ہر کام نہیں کر سکتا۔ تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت اہم ہے۔ یہ میں نے ساری مثالیں اس کی دی ہیں۔ تو یہاں پر بھی یہ بات شاید آئی ہے۔

اس تعلیم نبوی نے انسانوں کی دو قسمیں کردیں ایک وہ جن کی خلق اللہ کی ہدایت اور خدمت کی فطری توفیق ملی ہے تو ان پر یہ فرض ہے کہ وہ مجمع اور ہجوم میں رہ کر ان کی بھلائی کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ اس راہ میں ان کی دولت بھی خرچ ہوجائے اور ان کی جان بھی کام آجائے دوسرے وہ لوگ ہیں جن کی طبعاً مردم آزاری اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کا مادہ ہے۔ ان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح اسی میں ہے کہ وہ اپنے کو مجمع سے الگ رکھ کر خدا کی عبادت میں اپنا وقت صرف کریں تاکہ وہ گناہ کے بار سے اور لوگ ان کے آزار سے محفوظ رہیں۔ دوسرا موقع جس میں آنحضرت ﷺ نے عزلت نشینی کی اجازت دی ہے وہ ہے جب مجمع و آبادی یا قوم و ملک میں فتنہ و فساد کا بازار اس طرح گرم ہو کہ وہ اس کی روک تھام سے عاجز اور اس کی اصلاح سے قاصر ہو تو ایسے موقع پر اس کے لئے پسندیدہ یہی ہے کہ وہ جماعت سے ہٹ کر گوشہ گیر ہوجائے۔

تشریح:

آسان سی بات بتاتا ہوں، corona آگیا تو مفتیوں نے بھی فتویٰ دیا کہ مسجد جانا چھوڑ دیں اپنی اپنی جگہوں پہ جماعت کرلیں کیونکہ بیماری کا اندیشہ ہے۔ اب کیا وجہ ہے بھائی؟ وہ چیز ایسی عجیب چیز ہے کہ نظر نہیں آتی لیکن سب لوگ اس سے ڈرے ہوئے ہیں۔ تو اسی طریقہ سے جب گناہوں کی وبائی کیفیت ہوجائے تو پھر اس وقت تیس مار خان نہ بنو پھر اپنے آپ کو علیحدہ کرلو اسی میں خیر ہوگی۔ اگر کوئی اس قسم کی حالت میں آجائے کہ گناہوں کا ایک سمندر ہو جیسے سونامی ہوتا ہے، تو سونامی کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں؟ اس کے سامنے تو جہاز بھی نہیں ٹھہرتے، تنکوں کی طرح اڑتے ہیں، تو ایسی صورت میں جب اس قسم کے حالات ہوں تو پھر تو بھاگنا ہی ہے، پھر تو اس کے سامنے ٹھہرنا اپنے آپ کو (ہلاک کرنا ہے) ہماری پشتو میں کہتے ہیں: ”خر غیرت وکړو نو ګاډی ووښلو“ ترجمہ یہ ہے کہ گدھے نے غیرت دکھائی تو گاڑی نے اس کو مار دیا۔ تو ظاہر ہے کہ اگر اس قسم کے حالات ہوں تو پھر غیرت والی بات نہیں کرنی، پھر تو بھاگنا ہے کیونکہ ایمان کا بچانا سب سے زیادہ لازم ہے۔ وہ جو ہمارے پاس جمع پونجی ہے، وہ تو یہی ہے اگر یہی ہماری ختم ہوجائے تو پھر کیا ہوگا ہمارے پاس؟ ؎

جس کو ہو جان و دل عزیز ان کی گلی میں جائے کیوں

مطلب اپنے آپ کو بچانا لازم ہے۔

چنانچہ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ "ایک ایسا زمانہ لوگوں پر آئے گا جس میں ایک مسلمان کی بہترین دولت بکری ہوگی جس کو لے کر وہ بارش کی جگہوں اور پہاڑوں کی گھاٹیوں کو تلاش کرے گا تاکہ وہ اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچا سکے" (صحیح بخاری کتاب الادب باب العزلت راحۃ من خلاط السوء) گوشہ گیری اور عزلت کے یہ دو موقع بھی در حقیقت نہایت صحیح اصول پر مبنی ہیں۔ پہلے موقع میں ایسے فرد کا جس سے جماعت اور مخلوق کو فائدہ کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہو الگ رہنا جماعت اور فرد دونوں کے لئے فائدہ مند ہے اور دوسرے موقع پر جب کہ جماعت کا نظام ابتر ہوگیا ہے اور کوئی فرد جو بجائے خود نیک اور سعید ہو لیکن اپنی کمزوری کے باعث وہ اس جماعت کی اصلاح پر قادر نہ ہو تو اس کے لئے جماعت کے دائرہ اثر سے اپنے کو باہر رکھ کر ہی اپنی نیکی اور سعادت کی تکمیل مناسب ہے۔‘‘

فرشتوں کے متعلق فرمایا: ﴿وَمَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ﴾ (الانبیاء: 19)

جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے غرور نہیں کرتے۔

سعادت مند اور با ایمان مسلمانوں کے متعلق فرمایا: ﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ﴾ (السجدہ: 15)

میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیتوں سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اپنے پروردگار کی پاکی بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے۔

اس قسم کی اور آیتیں بھی قرآن پاک میں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت اور غرور و استکبار باہم مقابل کے متضاد معنی ہیں۔

تشریح:

یعنی تکبر کو دور کرنے کے لئے عبادت بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ تکبر اپنے اوپر نظر ہے کہ میں کچھ ہوں اور نماز اور عبادت اللہ پر نظر ہے کہ میں کچھ نہیں، اللہ ہی ہے، میں اس کے سامنے ماتھا ٹیک رہا ہوں۔ تو یہ تکبر کا علاج ہے بنیادی۔ اصل میں جتنی بھی ہماری عبادات ہیں وہ کسی نہ کسی رذیلے کا علاج ہیں۔ تکبر کا علاج نماز میں ہے بڑا، ویسے تو بہت ساری بیماریوں کا علاج ہے لیکن بڑی چیز یہی ہے، قرآن نے بتا دیا ہے۔ اور روزے کا تقویٰ ہے یعنی فسق و فجور سے بچنا۔ یعنی حب باہ سے بچنے کا جو سلسلہ ہے وہ روزے میں ہے اور حب جاہ سے بچنے کا جو حل ہے وہ نماز میں ہے اور حب مال سے بچنے کا حل زکوٰۃ میں ہے۔ دیکھو! تین عبادتیں ہماری ہیں اور تین بڑے جذبے ہیں نفس کے، حب جاہ کا توڑ نماز میں ہے، حب باہ کا توڑ روزے میں ہے اور حب مال کا توڑ زکوٰۃ میں ہے اور ان سب کا مل کے توڑ حج میں ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب سے زیادہ اخیر میں نکلتا ہے انسان کے دماغ سے خناث تکبر کا، لہٰذا سب سے اخیر میں انسان کی نماز بنتی ہے۔ لوگوں نے اس کو سب سے آسان سمجھا ہوا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اخیر میں بنتی کون سی چیز ہے؟ جب انسان صدیقین کی range میں چلا جائے پھر اس کے بعد نماز نماز ہوگی اس کی۔ ورنہ اس سے پہلے خام ہوگی۔ یہ نہیں کہ آپ اس وقت پڑھنا ہی بند کرلیں کہ یہ کامل نہیں ہے تو میں پڑھتا نہیں۔ نہیں بھائی، وہ غیر کامل بھی نہ پڑھنے والے سے اچھا ہے، لیکن اس کو کامل آپ نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ جب تک غرور ہمارے اندر ہے، تکبر ہمارے اندر ہے تو ہماری نماز پوری نہیں بنی کیونکہ وہ اس کے توڑ کے لئے تو ہے، اگر وہ ہمارے اندر ہے تو اس کا مطلب ہے ابھی ہماری نماز نے کام شروع نہیں کیا پورا، مکمل نہیں ہوا۔ اور فسق و فجور کا مادہ جب تک ہم میں ہے تو ابھی تک روزہ ہمارا ٹھیک نہیں ہوا اگر فسق و فجور کا مادہ ہم میں ہے یعنی حب باہ، تو اس کا مطلب ہے روزہ ہمارا ٹھیک نہیں ہوا، ویسے ٹھیک ہے نہ ہونے سے یقیناً بہت اچھا ہے لیکن ابھی ٹھیک نہیں ہوا۔ اور جب تک ہم میں مال کی محبت ہے تو اس کا مطلب ہے زکوٰۃ کا معاملہ فی الحال درست نہیں ہوا۔ ابھی اس پر مزید محنت کی ضرورت ہے۔

اب یوں کہہ سکتے ہیں ایک طرف تو یہ ہمارے اخلاق کو سنوارنے کے tools ہیں تو دوسری طرف ہمارے اخلاق کے سنوارنے کے meters ہیں۔ یعنی ہم اس سے check کر سکتے ہیں کہ ہم کدھر ہیں، where do we stand ان چیزوں میں۔ ہماری حب جاہ کیا ختم ہوئی ہے یا نہیں؟ تو نماز کو دیکھو۔ ہمارا روزہ ٹھیک ہوا ہے یا نہیں؟ تو پھر اس طرح فسق و فجور کو دیکھو، اگر فسق و فجور کا مادہ ہے تو اس کا مطلب ہے روزہ ٹھیک نہیں ہوا، ابھی روزے میں کمی ہے۔ تو یہ ہمارے گویا کہ bilateral ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہماری آنکھیں اور دل آپس میں interact کرتے ہیں، بیمار دل کی وجہ سے آنکھیں غلط استعمال ہوتی ہیں اور صحیح دل آنکھوں کے غلط استعمال سے بیمار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کان بھی ہیں، اس طرح زبان بھی ہے، اس طرح دماغ بھی ہے؛ یہ تمام چیزیں دل کے ساتھ connected ہیں۔ تو دل ان کو دے بھی رہا ہے، دل ان سے لے بھی رہا ہے، IOs ہیں، مطلب یہ ہے کہ input output systems ہیں ان کے، یعنی آدمی اس کی وجہ سے ان چیزوں کا صحیح استعمال کر سکتا ہے اگر دل کو ٹھیک کرلیا۔ اور اگر یہ غلط استعمال ہوا تو دل خراب بھی ہوجائے گا۔ تو ان عبادات کا ہمارے نفس کی اصلاح کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور ہمارے نفس کی اصلاح کا ان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے، bilateral ہے۔ تو اللہ پاک نے جو فرمایا: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ﴾5 بالکل صحیح ہے، ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾6 بالکل صحیح ہے، اس طرح زکوٰۃ کا، اس طرح حج کا، یہ ساری چیزیں بالکل صحیح ہیں لیکن اس کے لئے جس محنت کی ضرورت ہے وہ محنت اپنی جگہ پہ ہوگی۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


فتنوں سے حفاظت: عزلت اور اجتماعیت کا اسلامی توازن - درسِ سیرۃ النبی ﷺ - دوسرا دور