اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج بدھ کا دن ہے بدھ کے دن ہمارے ہاں، یعنی ہماری خانقاہ میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات شریفہ کی تشریح ہوتی ہے۔ آج مکتوب نمبر 253 سے شروع کیا جا رہا ہے۔
مکتوب نمبر 253
متن: مشیخت مآب شیخ ادریس سامانی کی طرف صادر فرمایا۔۔۔ ان کے سوالات کے جواب میں اور اس راہ کی بے نہایتی اور رمز و اجمال کے طور پر بعض مقامات و منازل کی تفصیل کے بیان میں۔
حمد و صلوۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد عرض ہے کہ اس طرف کے فقراء کے اوضاع و احوال حمد کے لائق ہیں، اور اللہ سبحانہ کے حضور میں آپ کے لیے آنحضرت علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے پسندیدہ طریقے پر سلامتی، عافیت، ثابت قدمی اور استقامت کا سوال کرتا ہوں۔۔۔ اُن احوال و مواجید کا بیان (آپ نے) مولانا عبد المؤمن کی زبانی حوالہ کیا تھا، اور ان کا جواب چاہا تھا۔
مولانا نے مفصل طور پر اس کو بیان کر کے کہا کہ آپ نے فرمایا ہے’’اگر میں زمین کی طرف نظر کرتا ہوں تو زمین کو نہیں پاتا اور اگر آسمان کی جانب دیکھتا ہوں تو اس کو بھی نہیں پاتا اور اسی طرح عرش و کرسی، بہشت و دوزخ کا وجود بھی نہیں پاتا، اور اگر کسی شخص کے پاس جاتا ہوں تو اس کا وجود بھی نہیں پاتا اور خود کو بھی موجود نہیں جانتا۔۔۔ اور حق جل شانہ کا وجود بے پایاں ہے اس کی نہایت کو کسی نے نہیں پایا۔ بزرگان (مشائخِ طریقت) اسی مقام تک کی گفتگو کرتے ہیں اور یہاں تک پہنچ کر وہ (مزید) سیر سے عاجز ہو گئے ہیں اور اس معنی سے زیادہ (سلوک) اختیار نہیں کر سکے۔۔۔ اگر آپ بھی اسی کو کمال سمجھتے ہیں اور اسی مقام میں ہیں تو پھر میں آپ کے پاس کس لیے آؤں اور کیوں تکلیف برداشت کروں۔ اور اگر اس کمال کے علاوہ کوئی اور امر ہے تو اس کی اطلاع دیں تاکہ میں ایک دوست کے ساتھ جو بہت زیادہ درد و طلب رکھتا ہے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اس تردد کے حصول کی وجہ سے حاضر ہونے میں چند سال توقف رہا۔‘‘
میرے مخدوم! یہ احوال اور انہی احوال کے مثل (واقعات) قلب کے تلوینات کی وجہ سے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان احوال والے شخص نے مقاماتِ قلب سے ابھی چوتھے حصے سے زیادہ طے نہیں کیا، مقاماتِ قلب کے تین حصے اور طے کرنے چاہئیں تاکہ قلب کا معاملہ پورے طور پر طے ہو جائے۔ قلب کے بعد روح کا معاملہ اور روح کے بعد سِر ہے، سِر کے بعد خفی پھر اس کے بعد اخفی ہے۔ ان باقی ماندہ چاروں (مقامات) میں سے ہر ایک کے احوال و مواجید علیحدہ ہیں لہٰذا ہر ایک کو جدا جدا طے کرنا چاہئے اور ہر ایک کے کمالات سے مزین ہونا چاہئے۔۔۔ عالمِ امر کے ان پنجگانہ (پانچوں لطائف) سے گزرنے کے بعد اور ان کی اصول کی منازل کو درجہ بدرجہ طے کرنے کے بعد، اور اسماء وصفات کے مدارجِ ظلال طے کرنے کے بعد جو کہ بدرجہ ان اصولوں کے اصول ہیں، اسماء و صفات کے تجلیات اور شیون و اعتبارات کے ظہورات ہیں، ان تجلیات سے گزرنے کے بعد تجلیاتِ ذات تعالیٰ و تقدس ہے۔ اس وقت یہ معاملہ نفس کے اطمینان پر آجاتا ہے اور پروردگار جل سلطانہ کی رضا کا حصول میسر ہو جاتا ہے۔ اور وہ کمالات جو اس مقام (رضا و اطمینان کے مقام) پر حاصل ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں سابقہ کمالات دریائے محیط کے مقابلے میں قطرہ کا حکم رکھتے ہیں۔ اس جگہ شرح صدر میسر ہوتا ہے اور (انسان) اسلامِ حقیقی سے مشرف ہو جاتا ہے۔
کارایں است غیر ایں ہمہ ہیچ
(کام بس یہ ہے اور باقی سب ہیچ ہے)
اسماء وصفات کی وہ تجلیات جو عالمِ امر کے ان پنجگانہ منازل کو مع ان کے اصولوں اور اصولِ اصول کے قطع کرنے سے پہلے متوہم معلوم ہوتی ہیں وہ عالمِ امر کے بعض خواص کے ظہورات ہیں جو بے چونی اور لا مکانیت سے کچھ حصہ رکھتے ہیں نہ کہ اسماء و صفات کی تجلیات سے۔ کسی سالک نے اسی مقام پر کہا ہے کہ میں تیس 30 سال تک روح کو خدا سمجھ کر اس کی پرستش کرتا رہا۔ لہٰذا وصول کہاں اور سیری کس کے لیے۔ شعر
کَیْفَ الْوُصُوْلُ اِلَی سُعَادَ وَ دُوْنَھَا
قَلَلُ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُیُوْفٌ
(کس طرح پہنچوں درِ محبوب تک ۔۔۔ درمیاں ہیں پُر خطر کوہ اور غار)
چونکہ آپ نے خصوصیت کے ساتھ اس راہ کی حقیقت کی طلب ظاہر کی تھی لہٰذا مختصر طور پر اس کا کچھ بیان تحریر کیا گیا ہے۔ وَالْاَمْرُ عِنْدَ اللہِ سُبْحَانَہٗ (اور اصل معاملہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے)۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلَی مَنْ لَّدَیْکُمْ (آپ پر اور آپ کے احباب پرسلام ہو)۔
تشریح:
اصل میں حضرت کا جو ذوق ہے وہ یہی ہے کہ کسی جگہ رکا نہ جائے اور اس راستے میں ہوتا یہی ہے کہ جو جس منزل پر ہوتا ہے اس منزل کو ہی اصل منزل سمجھ لیتا ہے۔ مثال کے طور پر سیڑھیاں کوئی چڑھ رہا ہے تو پہلی سیڑھی پر چڑھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تو منزل پہ پہنچ گیا۔ اب وہیں کھڑا رہ جائے تو منزل کیسے پائے۔ پھر دوسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو کہہ دے کہ میں بس منزل پر پہنچ گیا۔ تو اس میں چونکہ اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں، لہٰذا شیخِ کامل کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہیں سے انسان کو ملتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ میں نے تو ابھی کچھ بھی نہیں کیا۔ تو یہی بات حضرت نے بھی فرمائی ہے کہ انھوں نے تو اپنے خیال میں بہت کچھ پایا، کہ فنا تک پہنچ گئے اور ہر چیز کی فنا حاصل کی، لیکن یہاں پہ بات ہے کہ جو اپنے آپ کو فانی سمجھتا ہے وہ فانی کدھر ہے، وہ تو فانی نہیں ہوا۔ فنا تو اس وقت ہے جس وقت انسان اس فنا کو بھی فنا نہ جانے۔ تو ایسی صورت میں بغیر شیخ کامل کے کون دستگیری کر سکتا ہے۔ اس وجہ سے حضرت نے فرمایا کہ یہ تلوین اور تمکین، تلوین اس کو کہتے ہیں جس میں رنگ بدلتے ہیں اور تمکین میں یہ ہوتا ہے کہ کسی خاص مقام پہ (جس کو Establish ہونا کہتے ہیں) Establish ہو جائے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ یہ اصل میں راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ مجھے بھی حضرت نے ارشاد فرمایا تھا اس طرح کہ دور کرو، دور کرو یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، تو راستے کے کھیل تماشوں میں انسان رہ جاتا ہے، اور اپنے آپ کو کامل سمجھنے لگتا ہے، یہ بہت زیادہ غلط فہمیاں ہوتی ہیں اس مسئلے میں، انہی غلط فہمیوں سے انسان کو نکلنا ہوتا ہے۔ حضرت تھانویؒ نے بھی ذرا اس پر دوسرے انداز میں کلام کیا ہے۔ حضرت نے اس کو ایک واقعے کے ساتھ Relate کیا ہے۔ ایک صاحب تھے جو کہتے تھے کہ میں جاہل کی بزرگی نہیں مانتا، اس کا قول تھا کہ میں جاہل کی بزرگی نہیں مانتا، خیر! لوگ اس کو کہتے کہ آپ سختی کر رہے ہیں، یہ کر رہے ہیں، وہ کر رہے ہیں۔ اُس علاقے میں ایک نیک آدمی رہتے تھے، بزرگ تھے لیکن زیادہ عالم نہیں تھے جاہل تھے، یہ صاحب چونکہ کافی۔۔۔۔ تو اس نے رات کے وقت اس کی چھت کے اوپر چڑھ کر جب وہ تہجد کے لیے باہر نکل آیا تو اس نے ایک پیاری سریلی سی سیٹی بجائی تو اس شخص نے کہا کون ہے؟ آپ کون؟ تو اس نے اوپر سے بہت میٹھی زبان میں کہا میں جبرائیل۔ اس نے کہا جبرائیل یہاں پہ کیسے؟ کہتے ہیں: بس آپ نے بہت ترقی کی، تو میں آپ کو خبر دینے کے لیے آیا ہوں کہ بس جتنی ترقیاں مقصود تھیں وہ تو آپ کر چکے، اس کے بعد چاہے آپ عمل کریں نہ کریں آپ کی مرضی ہے، شوق سے کریں تو ضرور کریں، لیکن آپ سے کوئی مطالبہ نہیں ہے مزید۔ اگر آپ نماز پڑھیں نہ پڑھیں، قرآن پڑھیں نہ پڑھیں، روزہ رکھیں نہ رکھیں، یہ سب آپ کی اپنی خوشی کے لیے ہوگا، ویسے مطالبہ نہیں ہے۔ بس میں صرف آپ کو یہ بشارت دینے آیا تھا۔ تو اس کے بعد وہ غائب ہو گیا۔ تو یہ صاحب لوٹا رکھ کر جا کر بستر پہ لیٹ گیا کہ ٹھیک ہے جب مطالبہ نہیں ہے تو میں کیا کروں، صبح فجر کی نماز میں بھی نہیں گیا۔ اب چونکہ نمازی تو پکے تھے تو لوگوں کو حیرانی ہوئی کہ کہاں پہ گیا ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ چلو عیادت کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں ممکن ہے بیمار ہو۔ اب دروازے پہ آئے تو دروازہ بھی انہی نے کھولا۔ تو انہوں نے کہا کہ آپ گھر پر ہیں؟ انہوں نے کہا جی۔ تو آپ نماز کے لیے کیوں نہیں آئے؟ ہم تو آپ کی عیادت کے لیے آئے ہیں۔ تو یہ ذرا بڑا گردن اکڑ کے بیٹھ گیا اور کہا کہ بس ٹھیک ہے کبھی کبھی آیا کروں گا آپ لوگوں کی خبر رکھنے کے لیے، ویسے مجھے اطلاع دے دی گئی ہے کہ اب مجھے ضرورت نہیں ہے کچھ کرنے کی، بس وہ میری عبادتیں قبول ہوگئی ہیں۔ تو پیچھے وہ آدمی جو شرارتی تھا وہ لوگوں میں کھڑا تھا، تو اس نے اسی طرح سیٹی بجائی جس طرح رات کو بجائی تھی، تو اس کے کان کھڑے ہو گئے اور پیچھے کی طرف دیکھا تو اس نے کہا کہ میں نہیں کہتا تھا کہ میں جاہل کی بزرگی نہیں مانتا۔ اب دیکھ لیا آپ نے؟ اس کو میں اگر دھوکا دے سکتا ہوں تو شیطان کیسے دھوکا نہیں دے سکتا۔ تو یہ بات ہے کہ واقعتاً بنیادی باتیں پکی باتیں ہونی چاہئیں۔ اور وہ کیا ہیں؟ وہ قرآن اور سنت ہیں۔ قرآن اور سنت کی پکی بات ہے، باقی باتیں ظنی باتیں ہیں۔ ظنی باتیں پکی باتوں اور قطعی باتوں کے مطابق ہوں تو ٹھیک ہے، بہت اچھی بات ہے، تفصیلات ہیں۔ لیکن اگر اس کے مخالف ہوں تو ایک قدم بھی اس کے ساتھ نہیں چلنا۔ یہی بات شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے ساتھ بھی کی گئی تھی، باقاعدہ شیطان نے کی تھی۔ اور اس نے کہا کہ بس آپ کی عبادت قبول کی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ حضرت شیخؒ نے مراقبہ کیا، فوراً سر اٹھایا، فرمایا: خبیث میں تجھے جان گیا ہوں، تو شیطان ہے۔ تو مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے، وہ جو روشنی سی تھی وہ تاریکی میں بدل گئی اور بھاگنے لگی اور کہا کہ اے عبد القادر! تو مجھ سے اپنے علم کی وجہ سے بچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ کمینے جاتے جاتے بھی وار کر جاتا ہے، میں اللہ کے فضل سے بچ گیا ہوں۔ مطلب یہ وار بھی اس کا کارگر نہیں ہوا۔ تو اب ظاہر اس طرح کے وار تو کرتے ہیں کہ انسان کو بزرگی کا ڈھونگ رچوا دیتا ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ مجھے سب کچھ مل گیا ہے۔ حالانکہ اس کو کچھ بھی نہیں ملا، تو اس کے لیے پھر ضروری ہوتا ہے کہ کسی شیخ کامل کے پاس ہونا، ورنہ پھر یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے لیے گڑھا خود ہی کھود لیتا ہے۔ تو یہاں پر بھی حضرت نے ان کو فرمایا کہ ابھی تو آپ قلب میں چکر لگا رہے ہیں ابھی تو بہت ساری منازل ہیں، ابھی تو آپ مقامِ قلب ہی میں ہیں، کیونکہ مقامِ قلب میں ابھی نفس کے ساتھ مقابلہ روح کا جاری ہے، تو ابھی تو نفس کے شکار ہیں آپ، پہلے تو ریاضت کے یا سلوک کے ذریعے سے اپنے نفس سے چھٹکارا حاصل کر لو، روح کو علیحدہ کرلو، پھر اس کے بعد جو روح علیحدہ ہو جائے گی پھر آپ روح میں پہنچیں گے، پھر روح سے آپ نے سِر میں جانا ہے۔ سِر کے اپنے مکاشفات ہیں اور اپنے مقامات ہیں۔ پھر آپ نے سِر سے خفی میں جانا ہے، پھر خفی سے اخفٰی میں جانا ہے۔ تو یہ تو کوئی اس طرح بات نہیں ہے کہ پہلے انہوں نے حضرت نے بالکل بے پرواہی کے ساتھ فرمایا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں اب کمال حاصل کر چکا ہوں تو پھر میں کس لیے آؤں آپ کے پاس، مجھے تو کچھ چاہیے ہی نہیں تو میں خواہ مخواہ تکلیف کیوں اٹھاؤں آپ کے لیے۔ اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ نہیں! کوئی اور بات ہے جس کو آپ سمجھنا چاہتے ہیں، تو پھر ٹھیک ہے میں کسی اور ساتھی کے ساتھ حاضر ہو جاؤں گا۔ پھر فرمایا کہ یہ احوال جو ہیں یہ تلوینات کی طرح ہیں قلب کی تلوینات ہیں۔ گوناگوں مقامات اس کے اندر ہیں، ان کی سیر ہو رہا ہے۔ تو ابھی تو جو آپ کی حالت ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھے حصے سے زیادہ آپ نے طے نہیں کیا، یعنی جو آپ کے احوال ہیں، جو نظر آتا ہے، تو چوتھے حصے سے بھی زیادہ آپ نے طے نہیں کیا۔ تو ابھی تو آپ نے قلب کے تین حصے پورے کرنے ہیں۔ پھر اس کے بعد روح کا معاملہ آئے گا، روح کے بعد پھر سِر ہے، سِر کے بعد پھر خفی ہے اس کے بعد اخفٰی ہے۔ پھر اس کے پانچ عالمِ امر ہیں، کیونکہ لطائف سارے عالم امر میں سے ہیں، تو یہ جو عالمِ امر کے پانچ لطائف ہیں ان کو درجہ بدرجہ گزرنے کے بعد پھر اسماء و صفات کے جو مدارج ظلال ہیں، ان کو طے کرنے کے بعد جو ان اصولوں کے اصول ہیں، کیونکہ یہ لطائف جو ہیں یہ بھی تو اصل ہیں۔ اصل میں ایک ہوتا ہے اِدھر جو محسوس ہو رہا ہے یہ تو اس کا سرا ہے، اس کی اصل جڑ جو ہے وہ تو عرشِ بالا سے اوپر ہے۔ پھر وہاں سے جو اُس کے اصول ہیں، اسماء و صفات، جیسے مبدأ تعین ابھی تھوڑی دیر پہلے گزرا ہے، جو اِن کے اصول ہیں اُن اصول تک پھر آپ کی رسائی ہوگی۔ اور پھر اصول سے آگے جا کر تجلیات اور شیون و اعتبارات کے جو ظہورات ہیں ان سے گزرنے کے بعد پھر اللہ جل شانہٗ کی تجلیات کا سلسلہ شروع ہوگا۔ تو اس کے بعد پھر اگر آپ وہاں تک پہنچیں گے، اور اللہ پاک نے فضل فرما دیا تو اس پہ آپ کا قلب قلبِ سلیم اور نفس نفسِ مطمئنہ اور عقل عقلِ فہیم جب ہو جائے گا تو پھر آپ کو جو حقیقی صورتحال نظر آئے گی تو پھر پتہ چلے گا کہ گزشتہ جو چیزیں تھیں وہ تو اس کے مقابلے میں سمندر کے مقابلے میں قطرہ کی طرح تھیں۔ وہی والی بات ہے کہ جتنا انسان آگے بڑھتا ہے علم مزید بڑھتا ہے تو جہل کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ آدمی کو پتا چلتا ہے کہ مجھے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ جو سمجھتا ہے کہ کچھ حاصل ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ اسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اور جو کہتا ہے کہ مجھے کچھ حاصل نہیں ہوا تو اس کو حاصل ہونے کی امید ہے۔ میں نے حضرت سید تسنیم الحق صاحب سے ایک دفعہ عرض کیا، (حضرت اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے، تو ہر چیز کی نفی کرتے تھے کہ نہیں میرے پاس یہ نہیں ہے) میں نے ایک دن کہا کہ آپ حضرات سے سنا ہے کہ جو کہتا ہے کہ میرے پاس کچھ ہے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا اور جو کہتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے تو اس کے پاس کچھ ہو سکتا ہے۔ تو آپ کہتے ہیں کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، لہٰذا آپ کے پاس کچھ تو ہو سکتا ہے۔ تو ہنس پڑے، کہتے ہیں کہ آپ نے تو میرے ساتھ وہ حرکت کی ہے جو قومِ زط والوں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کیا تھا کہ علی رضی اللہ سے کہا تھا کہ تو خدا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ظالموں یہ کیا کہتے ہو؟ تو انہوں نے ان کے لیے گڑھے بنائے اور ان میں آگ جلائی، اور کہا کہ ان کو پھینکو یہ مجھے خدا کہتے ہیں۔ تو جب ان کو گرایا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ اب تو یقین ہو گیا کہ آپ خدا ہیں، کیونکہ آگ کی سزا اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں دیتا۔ تو فرمایا کہ آپ نے میرے ساتھ بالکل وہی حرکت کی کہ جس چیز کا میں انکار کر رہا ہوں اسی کو اس چیز کی بنیاد بنایا۔ تو اصل بات یہ ہے کہ جس کو اللہ جل شانہٗ کا (مقام تو تصور ہی نہیں ہو سکتا کہ معلوم ہو جائے) لیکن اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک ہو جائے تو اپنے آپ کو بھول جائے گا، کچھ بھی نہیں کہے گا اپنے آپ کو اور کچھ بھی نہیں سمجھے گا اپنے آپ کو۔ جو اپنے آپ کو کچھ سمجھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی مسئلہ ہے۔ تو ابھی اسی موضوع پہ میرے خیال میں شاید میں نے کچھ وہاں منٰی میں کہا تھا، وہ میں سنا دیتا ہوں امید ہے ان شاء اللہ کہ فائدہ ہو گا۔
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
یہاں پر یہ بات بتائی کہ فکرِ آگہی یعنی گویا کہ جاننے کی جو فکر ہے، جو حاصل ہو گیا اس سے کیا حاصل ہوا اور کیا حاصل نہیں ہوا، پتا چلا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اپنی نظروں سے جو میں گر گیا تو میں نے حقیقی عزت پا لی۔
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
پھنسے ہوئے تھے جال میں اپنی شان کے ہر دم
اس کا بھرم کھلا اُس کی عظمت کو پا گئے
جب تک اپنی ذات کا بھرم نہیں کھلتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک نہیں ہوتا۔ یعنی سٹوڈنٹس جس وقت امتحان آ جاتے ہیں تو داڑھی بھی رکھ لیتے ہیں، نمازیں بھی پڑھنا شروع کر لیتے ہیں، سب کچھ کرنا شروع کر لیتے ہیں اور جیسے ہی امتحان گزر جائے پھر داڑھی بھی کاٹ لیتے ہیں اور پھر نمازیں بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ تو یہ کیا چیز ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ کے لیے رکھتے تو ایسا ہوتا پھر؟ اللہ تعالیٰ کے لیے تو نہیں رکھے، اللہ تعالی کے لیے تو یہ کام نہیں کیا، اپنی ذات کے لیے کیا، اپنی دنیا کے لیے کیا۔ جب دنیا کے لیے کیا تو اللہ کی عظمت کا ادراک نہیں ہوا اور محسوس ہی نہیں کیا۔ اس طرح بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے کاروبار میں پھنسے ہوتے ہیں یا کسی اور چیز میں، جب ان کے معاملات اوپر آ جاتے ہیں تو پھر وہاں سے ادھر ادھر کی باتیں نکلنے لگتی ہیں، تو پتا چلا کہ ابھی اللہ کے ساتھ تعلق حاصل نہیں ہوا۔ دنیا کے لیے اللہ کے ساتھ تعلق ہے اور دنیا پہ ذرا تھوڑا سا سخت وقت آ گیا تو سارا کچھ آگے پیچھے ہوگیا۔ تو اصل میں یہ بات ہے کہ جب تک انسان اپنے آپ سے نہیں نکلا ہوتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک نہیں ہو سکتا۔
اس کا بھرم کھلا اُس کی عظمت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
خوش فہمیوں کے جال سے نکلے تو اس کے بعد
دیکھا جو اس کو شانِ عبدیت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
خوش فہمیوں کے جال سے۔ انسان خوش فہمیوں کے جال میں ہوتا ہے، یہ ہو جائے گا یہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا یہ ہو جائے گا۔ بہت ساری خوش فہمیاں ہوتی ہیں۔ تو اُس وقت تک وہ بندگی اختیار نہیں کرسکتا جب تک وہ خوش فہمیوں کے جال سے نہیں نکلا ہوتا۔ دیکھو! عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی، لیکن وہ اپنے بارے میں کیا سوچ رہے تھے؟ کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت آپ کو تو زندگی میں بشارت ملی، تو پھر آپ اس طرح کیوں سوچتے ہیں؟ فرمایا جو کام ہم نے آپ ﷺ کے سامنے کئے ان پہ تو اطمینان ہے لیکن اب وحی کا سلسلہ تو بند ہے، تو اِس کے بعد جو ہم نے کام کئے ان کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ دیکھو! کس طرح نظر ہے۔ چونکہ اُس وقت تک جو بات تھی تو وہ تو ٹھیک ہے، لیکن اب چونکہ اللہ نے زندگی زیادہ دی اب اس کے بعد ہمیں کیا اطمینان کہ کس طرف کیا بات ہو جائے۔ ﴿اَللهُ الصَّمَدُ﴾ اللہ تعالیٰ صمد ہیں۔ تو اصل میں یہ بات ہوتی ہے۔
قرآن ایک کتاب تھی رکھی تھی جو پڑھی
دل سے تو اس پیغامِ محبت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
یعنی قرآن کو لوگ اگر صرف ایک کتاب سمجھ لیں اور بس کبھی کبھی اس کو اٹھا کر دیکھ لیا کریں تو اس کا الگ اثر ہے، لیکن جس وقت اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کا پیغام سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ کتنی محبت کرتے ہیں، کیسے اللہ پاک نے اپنی شان کے مطابق بات نہیں کی، ہماری سمجھ کے مطابق بات کی ہے، یہ پیغامِ محبت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق بات کرتا تو ہمیں قرآن سمجھ میں آتا؟ ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ تو یہ تو پیغامِ محبت ہے۔
حج گو کہ چند کاموں کے کرنے کا تھا اک نام
دیکھا اسے تو شاہراہ محبت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
کسی بھی حج کی کتاب کو لے لو تو اس میں آپ کو کیا ملے گا؟ حج کے اتنے فرائض ہیں، اتنے واجبات ہیں، اتنی سنتیں ہیں، اتنے مستحبات ہیں، یہ ہو جائے گا تو یہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا تو یہ ہو جائے گا۔ حج کے بارے میں یہی لکھا ہوتا ہے۔ تو چند کاموں کے کرنے کا ایک نام تھا کہ بس ایک Set of actions کہ یہ کرو گے یہ کرو گے یہ کرو گے، یہی کچھ تھا، تو بات تو صحیح ہے، لیکن اس کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟ یہ کام ایسے کیوں ہوئے ہیں؟ اس طرح کیوں بتایا جا رہا ہے؟ جب اس پر آپ غور کریں گے تو شاہراہِ محبت ہی نظر آئے گی۔ ابراھیمؑ کی محبت، اسماعیلؑ کی محبت، ھاجرہ بی بی کی محبت، آدمؑ اور حوا بی بی کی محبت، یہ سب محبتوں کے واقعات ہیں۔ اُن محبت کے واقعات کو اللہ نے قبول فرما کر ہمارے لیے مشعلِ راہ بنا دیئے۔ ظاہر ہے ہمارے لیے تو شاہراہ ہے، تو ہم لوگ یہ کام کر کے ان کاموں کی نقل کرتے ہیں، گویا کہ ان چیزوں کو حاصل کرنے کی طلب پیدا کرتے ہیں، ہم ان چیزوں کو جان کر اسی طرح اُس راستے پر جانا چاہتے ہیں اور اصل حج کا تو فائدہ یہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ نماز پڑھ لیں بالکل اس کے اندر آپ کچھ بھی صحیح طریقے سے (نہ کریں)، جیسے کہتے ہیں قرآن تو پڑھ لیں لیکن خشوع و خضوع نہ ہو اور آپ جلدی جلدی نماز پڑھ لیں، اگرچہ قومہ اور جلسہ سب میں جلدی ہو، لیکن واجب ترک نہ ہوچکا ہو تو وہ نماز تو ہو جائے گی، آپ کو دوبارہ تو نہیں پڑھنی پڑے گی۔ لیکن اس نماز کی وہ برکات حاصل ہوں گی؟ جب نماز کے سارے سلسلے ہی ٹیڑھے ہیں۔ ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ﴾ (الکعنوت: 45) یہ چیزیں حاصل ہوگی؟ یہ تو اس کی کیفیت کے ساتھ حاصل ہوں گی، جب آپ نماز کی اُن چیزوں کو اُسی طریقے سے کریں گے، اس کے اندر جو احوال و کیفیات ہیں آپ کو اس طرح حاصل ہوں گی، پھر آپ کو نماز کی وہ برکات بھی حاصل ہوں گی۔ اس طرح حج کے ساتھ بھی ہے۔ تو یہ جو حج ہے یہ اصل میں شاہراہِ محبت ہے۔
ٹوٹے ہوئے الفاظ میں شاعری جو کی شبیرؔ
اس کے فضل سے خوب اس کی نصرت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ