اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! آج منگل ہے اور منگل کے دن ہمارے ہاں مثنوی شریف کا درس ہوا کرتا ہے۔ اور یہ اصل میں اس کا دوسرا دور ہے، جس میں جو فارسی کی جو مثنوی شریف ہے، اس کا منظوم اردو ترجمہ یہ اس سے تعلیم ہورہی ہے۔ اس میں ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے، اس میں پہلے ہی ترجمہ ہے۔ لہٰذا بات کافی حد تک سمجھ میں آسکتی ہے۔ یہ ابھی حضرت نے چونکہ حکایت نمبر 6 میں شمس کی بات آگئی ہے، تو اس سے اپنے پیر، اپنے شیخ کی طرف ان کا ذہنی انتقال ہوگیا، تو بات اس کی شروع ہے۔
24
بات ہوئی شروع شمس الدین کی جب
شرم سے سورج نے چھپایا منہ کو تب
یعنی ایک ممدوح خوبی میں سورج سے بڑھ کر ہے۔ (یعنی شمس الدین شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ) جوں ہی محبوب کا نام زباں پر آیا، سورج ماند پڑ گیا۔ سورج کو فلکِ چہارم سے منسوب کرنا بِنَاءً عَلَی الْعُرْفِ ہے، ورنہ آیاتِ قرآنی میں یہی پایا جاتا ہے کہ سورج اور ستارے فلکِ اوّل پر ہیں۔
یہ فارسی کے حصہ میں آیا تھا کہ جو سورج فلک چہارم پہ ہے، تو یہ اس ہیت کو تبدیل کرنا چاہئے۔ وہ یہ کہ بس اتنا ہی ہے کہ ممدوح خوبی میں سورج سے بڑھ کر ہے، جوں ہی محبوب کا نام زباں پر آیا، سورج ماند پڑ گیا۔ بس یہ کافی ہے۔
25
اب لیا میں نے جو ان کا نام ہے
ان کے احسانات بتانا کام ہے
ہاں! مطلب یہ کہ اب جو ان کا نام آگیا، تو اب ان کے احسانات بتانا بھی ضروری ہے۔
26
ذکر چاہے ان کا اب یہ دل مرا
بوئے پیراہنِ یوسف کی طرح
یعنی حضرت یعقوب کا قصہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ جب یوسف نے قافلہ والوں کو اپنی قمیص دے کر کہا کہ اس کو میرے والد کی آنکھوں سے لگا دیں، تو ان کی نورِ بصارت جو گریۂ فراق سے زائل ہو چکی تھی، پھر عود کر آئے گی۔ اس قافلہ کا قمیص کو لے کر مصر سے روانہ ہونا تھا کہ ادھر صدہا میل سے حضرت یعقوب کو اس کی خوشبو آنے لگی۔
قرآن پاک میں ہے:
﴿قَالَ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ﴾1
’’یعقوب علیہ السلام نے کہا اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا نہ سمجھو، تو مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے‘‘
یعقوب علیہ السلام کو اپنے عالی و موالی کے اعتراض کا اندیشہ تھا کہ کہیں گے ان کو ہر وقت یوسف کے ذکر کے سوا اور کوئی خیال ہی نہیں، اس لئے بطورِ عذر کہا ﴿لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ﴾
مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو بھی یہ خیال ہوا کہ سامعین کہیں یہ اعتراض نہ کریں کہ کہاں کنیزک کا قصہ اور کہاں اپنے مرشد کی مدح چھیڑ۔۔۔۔ اس لئے بطورِ عذر کہتے ہیں کہ میں بھی یعقوب کی طرح اب ریحِ محبوب سے بے خود ہورہا ہوں اور دل اس کے ذکر پر مجبور کررہا ہے۔ سامعین معاف فرمائیں۔
یہ تقریباً سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ خود فرما رہے تھے کہ ایک دفعہ ایک وکیل صاحب تھے، جو میرے مخالف تھے، ان دنوں چونکہ فارسی ہر ایک کو آتی تھی تقریباً، تو وہ بعد میں قائل ہوگیا اور مداح ہوگیا۔ تو ایک دن میں بیان کررہا تھا، تو یہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور بڑے مزے سے یہ شعر کہہ رہے تھے
تو مکمل از کمال کیستی
تو منور از جمال کیستی
(تو کس کے کمال سے مکمل ہے، تو کس کے جمال سے منور ہے) یہ بار بار کہتے جارہے تھے، تو کہتے کہ میں بھی جوان تھا، تو مجھے بھی جوش آگیا، تو میں نے کھڑے ہوکر کہا:
من مکمل از کمال حاجیم
من منور از جمال حاجیم
(میں اپنے حاجی صاحب کے کمال سے مکمل ہوں، میں اپنے حاجی صاحب کے جمال سے منور ہوں)
ہاں جی! تو یہ تقریباً سب کے ساتھ یہ معاملہ چلتا آرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نور باطنی کا جو حصول ہے، وہ تو بہت بڑی نعمت ہے ناں، تو جن کے ذریعہ سے نور باطنی حاصل ہو، تو اس کا احسان آدمی نہ مانے، تو کیا کرے؟ ویسے بھی قرآن پاک میں،
﴿هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ﴾2
کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ اور کچھ ہوسکتا ہے؟ تو جو بھی مطلب صحیح معنوں میں طالب ہے، تو ان کو اپنے شیخ کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔ اور یہ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ تو جذب کے بادشاہ تھے، تو حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے ذریعہ سے جو جذب ہوا، وہ یعنی گویا کہ تھوڑے عرصہ میں بہت آگے پہنچا۔ ہاں جی! تو اس وجہ سے حضرت ان کو شمس یعنی سورج کے نام سے وہ کررہے۔ شمس تو تھے ہی، نام بھی ان کا شمس تھا، لیکن یہ مطلب روحانی، باطنی نور کا جو منبٰی ہے، اس کو اس کا ذریعہ سمجھا۔ ہاں جی! وہ کہتے ہیں:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تاغلام شمس تبریزی نہ شد
(مولوی اس وقت مولانا روم نہیں بنے، جب تک کہ جب تک کہ شمس تبریز کے غلام نہیں بنا) ہاں جی! مطلب یہ بہت ساری جگہوں پہ وہ جب کبھی ذکر آتا ہے، مطلب کسی ایسی چیز کا، جس سے شیخ کی طرف نسبت ہو، تو بالکل بے خود ہوکر بات کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہاں جی! تو یہاں پر بھی اس طرح فرمایا:
27
چاہے دل کہ حقِ صحبت کے لئے
کچھ بیاں کردوں جو فائدے لئے
یعنی میری روح اس لئے مجھے مستعد کررہی ہے کہ سالہا سال کے حقِ صحبت کے لئے ان کے مبارک حالات میں سے کچھ نہ کچھ بیان کروں۔
28
کہ زمین و آسمان ہنسنے لگیں
عقل و روح دید فخر کرنے لگیں
یعنی رازِ توحید جو مرشد نے تعلیم کیا تھا، اس کو بیان کروں، تو عالم میں نشاط و انبساط کی لہر دوڑ جائے اور عقل و روح منور ہوجائیں۔
عقل اور روح۔ عقل جو ہے، وہ تعلق رکھتی ہے اپنے جسمانی علم کے ساتھ یعنی انسان جو علم اپنی آنکھ کے ذریعہ سے، کان کے ذریعہ سے، دماغ کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے، وہ عقل مطلب ادھر جاتا ہے اور عقل کا حصہ ہوجاتا ہے یعنی عقل ان کو استعمال کرتی ہے۔ جبکہ روح جو ہے، اس کا تعلق اللہ کے ساتھ ہوتا ہے، ملاء اعلیٰ کے ساتھ، تو اس لئے فرمایا عقل و روح اور دید یہ جو ہے ناں، مطلب یہ ان پہ فخر ہونا، تو یہاں پر یہ بات کی کہ رازِ توحید جو مرشد نے تعلیم کیا تھا، اس کو بیان کروں۔ یہ وہ توحید ہے، جس کو وحدت الوجود کہتے ہیں۔ ہاں جی! وحدت الوجود یعنی میں اس کی تعلیم جو ہے ناں، اس کو بیان کردوں اور اگر میں نے بیان کیا تو یہ عقل اور روح منور ہوجائیں گے۔
29
روح جو اپنے حبیب سے دور ہو
جیسے وہ اپنے طبیب سے دور ہو
روح اگر اپنے حبیب سے دور ہوئی یعنی اللہ تعالیٰ سے، تو پھر وہ ایسی ہے، جیسے اپنے طبیب سے کوئی دور ہوجائے۔یعنی کوئی وجہ ہے۔
میں نے (جوابًا) کہا اے (روح) جو پیارے (مرشد) سے دُور پڑی ہے، جیسے وہ بیمار جو طبیب سے دُور ہوجائے۔
30
لَا تُکَلِّفْنِیْ فَاِنِّیْ فِی الْفَنَا
کَلَّتْ اَفْھامِیْ فَلَا اُحْصِیْ ثَنَا
روح جو مدحِ شیخ پر مجبور کررہی تھی، مولانا اس سے عذر کرتے ہیں کہ میں سوزِ فراق سے بے خود ہورہا ہوں، ہوش و حواس ٹھکانے نہیں، تو میں کیا مدح کرسکتا ہوں؟
مطلب یہ ہے کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے کہ میں اس وقت معذور ہوں۔ ہاں جی! یہ ہوتا ہے، یہ بھی ایک حال ہے۔ اکثر جب ہم اپنے شیخ کے پاس جاتے، حضرت کے پاس تو میرے ساتھ اگر کوئی نئے ساتھی جاتے، تو میں ان سے کہتا کہ بھئی! بات یہ ہے کہ جو کچھ پوچھنا ہو، ادھر پوچھ لو، وہاں نہ پوچھنا۔ ہاں جی! کیونکہ وہاں پوچھو گے، تو عین ممکن ہے کہ میں حضرت کی طرف متوجہ ہوں اور میں آپ کو کچھ سے کچھ کہہ دوں، وہ حقیقت نہ ہو، تو پھر آپ مسئلہ کریں گے، اس وجہ سے اب جو کچھ پوچھنا ہے، مجھے یہاں سے پوچھو۔ تو مطلب یہ ہے کہ۔۔۔۔
31
کُلُّ شَیْءٍ قَالَہٗ غَیْرُ الْمُفِیْقِ
اِنْ تَکَلَّفَ اَوْ تَصَلَّفَ لَا یَلِیْقُ
یعنی غیر ذی ہوش جو بات کہے گا اگر (اس میں) تکلّف کرے گا یا خلاف (حقیقت) کہے گا، تو یہ لائق نہیں۔
میں جب مدہوش ہوچکا ہوں اس وقت، (حضرت کہہ رہا ہے) میں جو کہوں گا، تو صحیح بات نہیں ہوگی، یا میں تکلف کروں گا یا خلاف حقیقت بات کروں گا، تو دونوں ٹھیک نہیں ہیں۔ مطلب میں تکلفاً کچھ عرض کروں گا، کیونکہ اپنے حال میں تو ہوں گا نہیں۔ تو یہ بات ہے، مطلب یا پھر خلاف حقیقت ہوجائے گا، کیونکہ مجھے سمجھ نہیں آرہی ہوگی۔ تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔
32
جو تکلف سے ہو وہ بولنا ہے کیا
وہ بناوٹ ہے اسے کھولنا ہے کیا
ہاں جی! جو تکلف سے بولا جائے، وہ کیا بولنا ہے؟ ایک عجیب چیز ہے، اصل چیز تو نہیں ہے اور جس میں بناوٹ ہو، تو اس کو کھول کے کیا دیکھو گے؟ ہاں جی! اس میں اندر تو کچھ ہے ہی نہیں، سارا باہر ہی باہر ہے۔ ہاں جی!
33
ایک رگ بھی میری جو ہوشیار نہیں
اس لئے بولنے کو میں تیار نہیں
میری کوئی بھی رگ اس وقت ہوشیار نہیں ہے، میں سب پورا مدہوش ہوچکا ہوں، اس لئے میں بولنے کو تیار نہیں ہوں۔ آپ اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے کسی نے شراب پی ہو، تو جس نے شراب پی ہو، تو وہ بولنا چاہے تو کیسے بولے گا؟ ظاہر ہے اول تو اس کے بولنے کا طرز ایسا ہوگا، لوگ ہنس رہے ہوں گے اور بات بھی پتا نہیں کچھ سے کچھ کہہ دے، آگے پیچھے کرلے، تو حضرت عذر فرما رہے ہیں۔
34
سِرِّ وحدت کا بیان اس حال میں
کیسے کردوں ایسے قیل و قال میں
یعنی وحدت الوجود کا جو راز ہے، وہ میں کیسے اپنے قیل و قال میں بیان کروں؟ یہ قیل و قال کی بات تو ہے نہیں، یہ تو حال ہے اور حال جس پر طاری نہ ہو، اس کو سمجھ نہیں آسکتا، حال کی بات حال سے ہی معلوم ہو اور قال کی بات قال سے ہی معلوم ہو۔ تو حال کو اگر قال میں لاؤ گے، تو اس میں گڑبڑ کرو گے، اس میں مسئلہ ہوگا۔
تو اوپر عذر کرتے آئے ہیں کہ میں ہوش میں نہیں، تو مرشد کی مدح اور اس کے انعام کی تفصیل کیا کروں؟ چونکہ انعام سے مراد وحدت الوجود کا مسئلہ ہے، جس میں کمالِ الٰہی کا بیان ہوتا ہے، اس لئے آپ فرماتے ہیں کہ ایسی غیر ہوشمندی کی حالت میں انعامِ مرشد کو یعنی رازِ وحدت الوجود کو یا دوسرے لفظوں میں شرحِ صفتِ الٰہیہ کو کیا بیان کروں۔
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دیکھیں! اللہ جل شانہٗ کی ذات جو ہے، وہ وراءالوراء ہے، وہ سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اور اس کی جو صفات ہیں، اس میں غور کرنے کا حکم ہے، لیکن اس کے لئے ہمارا جسم اور ہمارا نفس مانع ہے، محجوب ہے اس کی وجہ سے۔ تو جیسے جیسے یہ حجاب کم ہوتا جائے گا، اتنی اتنی صفات الہٰیہ ہم پر کھلیں گی۔ ہاں جی! جیسے جیسے حجاب کم ہوتا جائے گا، ایسے ایسے یہ صفات ہم پر اللہ تعالیٰ کی کھلیں گی۔ تو یہ حجاب کے کم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے نفس کا جو اثر ہے، وہ معدوم ہونے لگے، تو نفس کا اثر جو معدوم ہوگا، تو فنائیت ہے۔ اور جو فنائیت ہے، اس میں ادراک کہاں؟ ہاں جی! تو یہ مقام ہے۔ کیونکہ فنائیت میں ادراک ہو نہیں سکتا اور بغیر فنائیت کے اللہ کی صفات سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ تو اس وجہ سے یہ دو اجتماع ضدین ہوگیا ناں، تو یہ مطلب یہ مقام حیرت مطلب ہوجاتا ہے۔ تو ایسی صورت میں یہ ایک ایسا حال ہے، جس پہ گزر رہا ہو، تو وہ جو سمجھ رہا ہے، وہ سمجھ رہا ہے اور دوسرا اس کو نہیں سمجھ سکتا۔ ہاں جی! دوسرے جو جن کے اوپر وہ حال نہیں ہے، وہ اس کو سمجھ نہیں سکتے، کیونکہ اس کے لئے قیل و قال کی ضرورت ہے اور قیل و قال سے یہ سمجھ میں نہیں آسکتا۔ ہاں جی! تو یہ ایک مشکل مسئلہ ہے اس وجہ سے، ہاں کہ اس کو یعنی گویا کہ یوں کہہ سکتے ہیں ہم کہ یہ علم جو ہے، یہ حالی علم ہے اور جب تک انسان خود اس تجربہ سے نہ گزرا ہو، اس کو اس چیز کا اندازہ نہیں ہوسکتا، کوئی بھی کتاب کے ذریعہ سے اس کو بیان نہیں کرسکتا، مطلب کتابوں میں یہ چیز نہیں آسکتی، تو اس کے لئے انسان کو خود سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہاں جی! وہ سفر جو روحانی سفر ہے، ہاں جی! وہ کرنا پڑتا ہے یعنی اپنی جسمانیت اور نفسانیت سے ہجرت الی روحانیت یہ سیر، مطلب یہ کرنا پڑتا ہے۔ جب تک کوئی یہ سیر نہ کرے، اس وقت تک اس کو نہ خود سمجھ آئے، نہ دوسروں کو سمجھ آسکے۔ ہاں جی! اور جب سیر کرلیں، تو پھر اس کو مطلب ظاہر ہے، جتنا حال حاصل ہے، اس حال کے مطابق ہی وہ بات کرسکتا ہے۔ تو یہاں پر حضرت نے یہ فرمایا کہ ایسی غیر ہوشمندی کی حالت میں ناں مرشد کے راز وحدت کو میں کیا بیان کروں؟ ہاں جی! فنائیت کے انداز میں۔
35
مدح سے حقِ مدح ہو کیا ادا
اپنی ہستی کی دلیل تو ہے خطا
یعنی یہ جو مدح ہے، ایسی غیر ہوشمندی میں اس سے کیا حقِ مدح ادا ہوا۔ ہاں جی! کیونکہ اس کے لئے ہوشمندی کی ضرورت ہے اور ہوشمندی کے لئے ہستی کی ضرورت ہے اور ہستی کا اس معاملہ میں خطا کی بات ہے۔ اب بتاؤ! کیونکہ ہستی جو ہے یہ کیا ہے؟ یہ نفس کی موجودگی کی بات ہے، تو ایسی صورت میں جو بات کرے، وہ دلیل تو خطائی دلیل ہوگی، تو یہاں پر مطلب جو ہے ناں، خود گویا کہ آپس میں بات کررہے ہیں۔
36
شرح اس ہجران کی ہو خونِ جگر
ملتوی کردو تا وقتِ دیگر
اس ہجر (و فراق پر مشتمل) اور خونِ جگر (پلانے والی چیز یعنی عشق) کی شرح کو (جو دوسرے لحاظ سے وحدت الوجود کا مسئلہ کہلاتی ہے) اب دوسرے وقت تک ملتوی رکھو۔
اصل میں یہ عشق ہی کا نتیجہ ہوتا ہے وحدت الوجود، کہ عشق کے ذریعہ سے نفسانیت دور ہوتی ہے، وقتی طور پر، یہ نہیں کہ مستقل طور پر، وقتی طور پر وہ دور ہوتی ہے۔ تو اس وجہ سے جو ہے ناں، وہ اس کو یعنی ہجر کہتے ہیں اور یہ جو ظاہر ہے یہ جو چیز ہے، یہ نفس کو جلاتی ہے اور نفس کا جو مرکز ہے، وہ کیا ہے؟ جگر ہے۔ ہاں جی! تو اس کا مطلب ہے کہ تو جگر کو جلانے والی چیز ہے، تو اس وجہ سے اب اس کی بات کو فی الحال ملتوی کردو۔
یعنی مسئلہ وحدت الوجود اہل اللہ کا مایۂ عشق ہے۔ اس کو ہجر اس لئے فرمایا کہ سیر فی اللہ کی کوئی انتہا نہیں۔ سالک ترقی کے جس مقام پر پہنچتا ہے اور جس تجلی سے بہرہ ور ہوتا ہے، اس پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ طلبِ زیادت میں اپنے آپ کو مبتلائے فراق سمجھتا ہے۔
میں آپ کو کیا بتاؤں؟ یہ لامحدود چیز کو کیسے آپ محدود کرسکتے ہیں؟ ہاں جی! تو اللہ تعالیٰ کی ذات کی جو ہے، مطلب معرفت، وہ صفات کے ذریعہ سے ہوتی ہے اور صفات اللہ پاک کی لامحدود ہیں، لہٰذا جتنا جتنا آگے بڑھتا ہے، اس پہ بات کھلتی ہے، بات کھلتی ہے، تو اس کو مزید ہجر کا احساس ہوتا ہے یعنی گویا کہ مزید اس کو شوق ہوتا ہے، محبت ہوتی ہے، عشق ہوتا ہے اور وہ مزید قریب ہونا چاہتا ہے، لہٰذا اس کا ہجر بڑھتا جاتا ہے یعنی یہاں پر یہ والی بات، وہ میرے خیال میں یہ موقع آگیا ہے، جو ہمارے کلام کا جس کے بارے میں میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ شاید یہ فوری طور پہ جو سمجھ میں آسکتا ہے یا مولانا تقی عثمانی صاحب کی سمجھ میں آسکتا ہے آج کل کے موجودہ دور میں اور یا پھر حکیم الاختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سمجھ میں فوری طور پہ آسکتا تھا یعنی اس کا۔۔۔ یہ ہے کہ تشریح کوئی کردے، پھر تو سب کی سمجھ میں آسکتا ہے، لیکن بغیر تشریح کے کوئی خود اس کو سمجھ لے، تو یہ شاید میرے خیال میں۔۔۔۔ اور اس میں یہی چیز ہے۔ اور جیسے میں نے کہا تھا، ایسے ہی ہوا، اس کے پہلے شعر کے بارے میں میں بتاتا ہوں کہ اس کے بارے میں پھر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی دین ہے، کیا بات ہے۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ اس کو سن کے ہمارے جلال صاحب کے والد صاحب ہیں، جو پشتو کے پروفیسر ریٹائر ہوئے ہیں، شاعر بھی ہیں، مجھے کہتا کہ آپ کی اردو شاعری پشتو سے بہت آگے ہے، ہم ان کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے تھے، میں اور جلال، کہتے ہیں نہیں پشتو زیادہ تیز ہے، کہتے نہیں نہیں، پھر مثال اس کی دی ہے، کہتے ہیں اس کے مقابلہ کا مجھے پشتو اشعار بتاؤ
در دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا
میں مستی میں یہاں پر کب سے آیا اور کب نکلا
یہ جو شعر ہے ناں، اس کے بارے میں ایک صاحب کو حکیم الاختر صاحب کی زیارت ہوئی، میں نے کہا ناں کہ حضرت اس کو سمجھتے یا مولانا تقی عثمانی صاحب۔ حضرت نے فرمایا یہ جو پہلا شعر اس کا فرمایا کہ یہاں آکر بھی یہی حال ہے ہمارا، یہاں آکر بھی ہمارا یہی حال ہے، تشنگی وہی باقی ہے، اور تشنگی ختم نہیں ہوتی، مطلب یہ فرمایا:
عمق کیا جانیں بحرِ عشق کی سادہ ہیں ہم کتنے
نتیجہ اس کی پیمائش کا بھی سوء ادب نکلا
یعنی جو عشق کے سمندر کا جو عمق ہے، گہرائی ہے، ہاں جی! یہ اس کا کیسے پتا چل سکتا ہے؟ ہاں! جو اس کی پیمائش کرتا ہے، وہ بھی بے ادبی ہے، کیونکہ بے ادبی اس لئے ہے کہ وہ کیسے اپنے آپ کو عاشق کہہ سکتا ہے کہ میں اتنا عاشق ہوں، کیونکہ عشق تو فنائیت چاہتا ہے، تو جس کی اپنے اوپر نظر پڑ گئی، تو وہ کیسے عاشق ہے؟ ہاں جی! یہ بھی بات ہے۔
یہاں چپ باش کچھ پوچھو نہیں یہ بحرِ حیرت ہے
یہاں پر سر جھکانا ہی تو ملنے کا سبب نکلا
مطلب یہاں پر قیل و قال کی ضرورت نہیں ہے؟ قیل و قال سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، یہاں تو بس اس میں گم ہوجانے والی بات ہے۔ ہاں جی! تو جو خاموش ہے، ہاں جی! سر جس نے جھکا لیا، عبدیت کا اظہار کرلیا، وہی ملنے کا سبب ہے۔
ذرا چشمِ تصور سے جمال اس کا تو دیکھو ناں
کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دم نکلا تو اب نکلا
مرے تارِ نفس کو نفس کے تاروں نے الجھایا
مرے دستِ طلب کو اس نے جب پکڑا تو تب نکلا
یہ انتہائی حقیقت پسندی کا شعر ہے اور وہ یہ ہے کہ میری روح (یعنی تار نفس کا مطلب روح ہے) کو نفس کی خواہشات نے گھیر لیا ہے۔ یہ وہی نقشبندی سلسلہ کا حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی statement ہے کہ روح عاشق تھی، لیکن اس کو نفس نے جو ہے ناں مطلب وہ پکڑ لیا ہے۔ تو اب اس حالت میں انسان کوشش کرتا ہے اللہ کے بننے کا، ہاں جی! تو کوشش تو کرنی چاہئے، لیکن کامیابی تب ہوگی، جب ادھر سے امداد ہوگی۔ ہاں جی! بغیر اس کے امداد کے یہ بہت مشکل راستہ ہے، اس کو کوئی اپنی کوشش سے ختم نہیں کرسکتا، مطلب یہ والی بات ہے۔ ’’میرے دستِ طلب کو اس نے جب پکڑا تو تب نکلا‘‘ مطلب یہ جو ہے ناں مطلب کوشش تو لازمی ہے، کوشش تو لازمی ہے، اس کا حکم ہے۔
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا﴾3 کوشش تو لازم ہے، لیکن اس کو نتیجہ تب ملتا ہے، جب انسان تب اس سے آزاد ہوتا ہے، جب وہاں سے مدد ہوتی ہے، ہاں جی! جب ادھر سے ہاتھ پکڑا جاتا ہے، تو پھر جو ہے مطلب گویا کہ انسان اس سے نکل سکتا ہے، ورنہ یہ میں بتاؤ واقعتاً یہ جو
﴿كَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَةَ وَتَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَةَ﴾4 ہے، یہ اتنی بڑی حقیقت ہے کہ کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا، بڑے سے بڑا ولی بھی گمراہ ہوسکتا ہے اس کی وجہ سے، ہاں جی! اور ہوئے ہیں، ہوئے ہیں، ’’بلعم بن باعوراء‘‘ ہوگیا تھا، ہاں جی! اس طرح اور بھی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یہ جو یہ اس چیز سے نکلنا بہت ہی زیادہ مشکل ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم خود اس سے تو نہیں نکل سکتے، لیکن جس وقت اللہ پاک دیکھ لیتا ہے کہ کوشش پوری کررہا ہے، جتنا اس کے بس میں ہے، وہ کررہا ہے، تو پھر اپنی بھی مدد ساتھ کرلیتا ہے، تو نکال لیتا ہے۔ اس کی مثال، اس کی جو ہے ناں حضرت کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی ماشاء اللہ! بڑی زبردست تشریح فرمائی۔ ان سے پوچھا گیا کہ حضرت! آپ کا جو کام ہے، یہ چیونٹی کی رفتار سے چل رہا ہے یعنی تبلیغی جماعت کا کام اور برائی جو ہے ناں جہاز کی رفتار سے پھیل رہی ہے، تو چیونٹی جہاز کو کیسے پکڑے گی؟ سوال بڑا مشکل تھا ناں، مطلب یعنی آسان سوال تو نہیں، حضرت نے پھر جواب دیا اور بالکل فنائیت والا جواب ہے، فرمایا: ہم نے کب کہا ہے کہ ہم پکڑیں گے؟ چیونٹی نہیں پکڑے گی، پکڑوائے گا اللہ تعالیٰ ہی، جب اللہ پاک فیصلہ کرلیں گے، تو چیونٹی کو ادھر پہنچا دیں گے۔ ہاں جی! تو یہ بات بالکل یہی بات ہے یعنی یہ جو انسان اس نفس کے چکر سے نہیں نکل سکتا، بہت ہی ظالم ہے، بہت ہی tight گرفت ہے اس کی، ہمہ وقت ہے، ہاں جی! ہمہ وقت ہے، ہر وقت ہے، تو ایسی صورت میں اس سے نکلنا کوشش کی بنیاد پر ممکن نہیں، لیکن کوشش لازمی ہے۔ یہ ہماری ریاضی کے قانون کے مطابق تو بالکل ٹھیک ہے، ہماری ریاضی کے قانون میں یہ بات ہوتی ہے کہ necessary condition اور sufficient condition تو بعض چیزوں کے بارے میں ریاضی میں آتا ہے کہ یہ necessary تو ہے، لیکن sufficient نہیں ہے یعنی لازمی تو ہے، لیکن مکمل نہیں ہے، اس کے لئے کچھ اور بھی چاہئے ہوتا ہے، تو یہاں پر بھی یہ بات ہے کہ necessary تو ہے، کوشش کرنا، لیکن یہ sufficient نہیں ہے اس کے لئے۔ اب ذرا غور فرما لیں ماشاء اللہ! تصوف کے جو تین stages ہیں، جذب، پھر سلوک، پھر جذب، تو پہلا جذب تو سلوک کے لئے ہے کہ سلوک اس کے ذریعہ سے طے ہوجائے، لیکن جب سلوک طے ہوجائے، تو کامیابی پھر جذب سے ہوتی ہے، وہ جذب وہبی سے ہوتی ہے، ہاں جی! اس لئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ہمارے ہاں وصال بذریعہ جذب ہوتا ہے یا تکمیلِ سلوک بذریعہ جذب ہوتا ہے، تو کیونکہ جذب وہبی جو ہے، جب تک حاصل نہ ہو، اس وقت تک جو ہے ناں مطلب وہ نہیں انسان ٹھہر سکتا ادھر، بار بار نفس کھینچے گا اس کو واپس، بار بار اس کو واپس نفس کھینچے گا۔ ہاں جی! تو اس کے لئے وہی آہ و زاری لازمی ہے، مطلب یہ ہے ناں یہ کوشش بھی لازمی ہے، لیکن اس کے ساتھ اللہ کے حضور آہ و زاری بھی لازمی ہے، آہ و زاری مسلسل کرتے رہیں، ہم مانگتے رہیں، روتے رہیں، گڑگڑاتے رہیں، تاکہ اللہ پاک کرم فرمائے اور ہمارے ہاتھ کو پکڑے۔
قبول درخواست آنے کی، کی پردہ نشین نے تب
شبیر بے آبرو نامحرم اس کا دل سے جب نکلا
یہ پہلے تو نفس کی بات تھی ناں، میرے تارِ نفس کو، نفس کی تاروں نے الجھایا، یہ تو نفس کے بارے میں بات تھی، یہ اب دل کے بارے میں بات ہے کہ دل میں جب تک دنیا کی محبت ہے، تو اللہ کی محبت نہیں ہوگی، کیونکہ اللہ کی محبت۔۔۔۔ کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی، ہاں جی! تو پہلے دنیا کی محبت دل سے نکالی جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ کی محبت آئے گی، پھر جو ہے ناں مطلب اس پہ stability آئے گی، ورنہ جھلکیاں تو آئیں گی، لیکن ٹھہرے گا نہیں۔ اس وجہ سے وہ جو ہے ناں، وہ دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا ہوتا ہے۔ ’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ‘‘5 دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔ تو اس کو نکالنا پڑتا ہے، جب تک یہ نہیں نکلتی، اس وقت تک یعنی وہ جو ہے ناں وہ نہیں ہوسکتا۔
در دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا
میں مستی میں یہاں پر کب سے آیا اور کب نکلا
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
میرے خیال میں آج کے لئے کافی ہے۔
(یوسف: 94)
(الرحمٰن: 60)
’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی‘‘۔(العنکبوت: 69)
نوٹ! حاشیہ میں تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔
’’خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرت ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو‘‘۔
(القیامہ: 20 21)
(مشکوۃ، حدیث نمبر: 5213)