اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
﴿وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾1
وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾2
وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾3
وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾4
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ’’أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ۔‘‘5
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! ربیع الاول کا مہینہ شروع ہے، اور ربیع الاول کے مہینے میں جو واقعات ہوئے ہیں وہ میرے خیال میں سب کو معلوم ہیں کہ آپ ﷺ اسی مہینے میں دنیا میں تشریف لائے ہیں، اسی مہینے میں اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں، اسی مہینے میں ہجرت شروع فرمائی، اسی مہینے میں ہجرت کامل ہوئی، اور بھی روایات آپ ﷺ کے ساتھ اس کے تعلق کی ہیں۔ تو ربیع الاول کا مہینہ جو ہے یہ آپ ﷺ کے ساتھ ایک زمانی نسبت رکھتا ہے، جیسے مدینہ منورہ مکانی نسبت رکھتا ہے۔ تو مدینہ منورہ جب کوئی جائے اور آپ ﷺ یاد نہ آئیں تو یہ بڑی عجیب بات ہوگی، اور آپ ﷺ یاد آئیں اور آپ ﷺ کے لیے محبت کا جذبہ پیدا نہ ہو یہ بھی بڑی عجیب بات ہوتی ہے، اور آپ ﷺ یاد آئیں اور درود کوئی نہ پڑھے تو یہ بھی بہت عجیب بات ہے۔
یہ ساری باتیں فطری ہیں اور مومن کے لیے اس سے انکار ممکن نہیں ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے مومن کے لیے یہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ مجھے اپنے والدین سے زیادہ، اپنی اولاد سے زیادہ، بلکہ سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھیں، بلکہ ایک روایت کے مطابق جب تک اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ سمجھیں۔ تو اس وجہ سے آپ ﷺ کے ساتھ اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کی ہر نسبت کی قدر کریں اور ہر نسبت سے ہم آپ ﷺ تک پہنچیں، آپ ﷺ کی پیروی کریں، آپ ﷺ کے ساتھ محبت کریں، آپ ﷺ کے پیغام کو سمجھیں اور آپ ﷺ کے پیغام کو پھیلائیں، یہ فطری بات ہے۔ تو اس وجہ سے ہم اس مہینے میں آپ ﷺ کا ذکر بھی کرتے ہیں، اس انداز میں کہ ہمیں عمل میں آسانی ہوجائے، آپ ﷺ کی سنتوں پر چلنے میں۔ ایک یہودی تھا، تو وہ سن رہا تھا کہ آپ ﷺ پہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ﴾6 تو اس نے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بات کسی نے عرض کی، تو حضرت نے فرمایا: اس دن ہماری دو عیدیں تھیں، ایک جمعہ کا دن تھا، ایک حج کا دن تھا۔ پس ہماری عید جو ہے وہ یہی ہے کہ ہم پیروی کریں اور اللہ جل شانہٗ جس پر خوش ہیں وہ ہم کام کریں، باقی عیدین کی بات ہے، دو عیدیں ہیں، اس کے علاوہ کوئی اور عید نہیں ہے، یعنی جس کو ہم عرفی عید کہتے ہیں وہ تو دو ہیں، لیکن اگر کوئی مطلب چاہے کہ جو ہے ناں مطلب اللہ تعالیٰ کو راضی کرلے تو اللہ پاک جس وقت بھی راضی ہو، وہ ہماری عید ہے۔ اور اللہ پاک راضی ہوتے ہیں آپ ﷺ کے طریقوں پر، تو آپ ﷺ کے طریقوں پر جتنا ہم چلیں گے وہ ہماری خوشی ہے۔ اب ذرا میں عرض کروں گا کہ دیکھو خوشی کی دو قسمیں بنائی گئی ہیں، ایک خوشی یہ جو ہمیں دونوں جہاں میں خوشیاں نصیب کرے، ایک خوشی تو یہ ہے، ایک خوشی وہ ہے جو ہمارے نفس کو خوش کرلے اور روح کو زخمی کرے، یہ خوشی بھی ہوتی ہے، مثلاً موسیقی جو ہے اس کو لوگ روح کی غذا کہتے ہیں، حالانکہ یہ روح کو زخمی کرنے والی چیز ہے، ہاں نفس کی غذا ہے، کیونکہ نفس اس سے اثر لیتا ہے اور ہیجان اس میں آتا ہے اور نفسانی خواہشات ابھرتی ہیں۔ میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہوں جو ہمارے سامنے ہوا ہے۔ ہاسٹل میں تھے ہم تو free night ان کا ایک وہ ہے کہ مطلب سٹوڈنٹس free night مناتے ہیں، جس میں جو انتظامیہ ہے وہ ان کے ساتھ help کرتی ہے، جو چاہتے ہیں ان کو وہ کرنے دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ شرافت کا ایک معیار ہوتا ہے تو اس سے باہر نہیں جانے دیتے، لیکن یہ ہے کہ یہ بات مطلب ایک طے شدہ بات ہوتی، تو ہاسٹل میں free night تھی، تو ان لوگوں نے میوزک کا بندوبست کیا ہوا تھا، وہ آئے تھے وہ جو ناچنی والی تھیں اور وہ گانے والیں اور مطلب وہ مطلب جو musical instruments چلانے والے وہ سب آگئے تھے، انہوں نے پروگرام شروع کیا، پروگرام جب شروع ہوگیا تو ایک بوڑھا آدمی، بوڑھا تو نہیں تھا، لیکن ادھیڑ عمر آپ کہہ سکتے ہیں، مطلب یوں کہہ سکتے ہیں کہ بڑھاپے میں داخل ہونے والا، وہ کسی کا چچا تھا، سٹوڈنٹ کا، وہ آیا تھا ان کے ساتھ، تو جو میوزک تھا اس نے اس کو inspire کیا اور وہ سیدھا بھاگا اسٹیج کی طرف اور وہاں ناچنے لگا، اب سٹوڈنٹس کے لیے تو ایک مزے کی چیز ہوتی ہے، لہٰذا وہ تو تالیاں بجانے لگے اور گویا کہ داد دینے لگے، اس کو اور مزید مستی آگئی، نتیجتاً ناچتے ناچتے کچھ سفلی حرکات بھی شروع کرلیں، جس پر وہ ڈوم بھی شرما گئے، نتیجتاً انہوں نے میوزک بند کرلیا اور پھر ان سے کہا، پھر یہ خود ویسے ناچ رہے تھے تو پھر لوگوں نے پکڑ کے اس کو زبردستی سٹیج سے اتارا، تو میں نے دیکھا میں نے کہا دیکھیں موسیقی ہے ناں موسیقی، یہ کہتے ہیں نفس مطلب کہ غذا ہے، تو نفس کے اندر جو گندگی تھی وہ چھپی ہوئی تھی، اگر یہ موسیقی نہ ہوتی تو یہ چھپی ہوئی رہتی، اس کو کچھ نہیں ہونا تھا، اس کی شرافت بدستور جاری رہنی تھی، اس کے بھتیجے کی بھی عزت مطلب باقی تھی، لیکن جس وقت میوزک بجنا شروع ہوگیا تو وہ گندگی باہر آگئی اور وہ ایسی باہر آئی کہ اس نے اس کی کوئی عزت باقی نہیں چھوڑی اور اس کے بھتیجے کی بھی کوئی عزت نہیں رہی۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جو کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے، پتا نہیں وہ کون سے پاگل خانے سے باہر آئے ہوئے ہیں، موسیقی روح کی غذا، موسیقی تو روح کو زخمی کرتی ہے۔ یہ میں کیوں کہہ رہا ہوں، موسیقی کے شوقین لوگ اب جو مقدس چیزیں ہیں ان کو بھی زخمی کررہے ہیں، وہ نعتیں لوگ پڑھتے ہیں اور اس میں موسیقی کو شامل کرلیتے ہیں، کچھ لوگ تو باقاعدہ شامل کرلیتے ہیں musical instruments کے ساتھ وہ پڑھتے ہیں اور کچھ لوگ جو کرتے ہیں وہ یوں کرتے ہیں کہ کمپیوٹر کے ذریعے وہ sensitize کرلیتے ہیں ان کے ساتھ musical tone، تو اگرچہ وہ میوزک باہر بجا نہیں ہوتا، لیکن کمپیوٹر، کمپیوٹر کے ذریعہ آج کل بہت کچھ ہوسکتا ہے، وہ sound کو sensitize کرلیتے ہیں، اس پر مجھے اشکال تھا کہ میں اگرچہ میں سنتا تو نہیں تھا اس کو، لیکن اس پر میں کچھ بات بھی نہیں کرتا تھا، کیونکہ بات کرنے کے لیے دلیل چاہیے ہوتی ہے، ویسے تو میوزک ساتھ ہو اس کی تو میں خود مخالفت کرتا تھا خوب، کیونکہ اس پر فتویٰ موجود ہے، لیکن باقی بات اس پر چونکہ فتویٰ موجود نہیں تھا تو مجھے اس پر ذرا ڈر تھا کہ میں ایک بات کروں گا تو ایسا نہ ہو کہ میری طرف سے زیادتی ہوجائے، اخیر میں میں نے باقاعدہ ایک بہت بڑے مفتی سے پوچھا، انہوں نے جو دلیل دی ناں وہ اتنی زبردست تھی، انہوں نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ موسیقی اگر کوئی شخص اپنی آواز کو خوبصورت کرلے وہ موسیقی نہیں ہے، اس کو تغنی کہتے ہیں، تو تغنی تو قرآن میں بھی ہوسکتی ہے، وہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، مثال کے طور پر میں خوبصورت آواز سے قرآن سناؤں، خوبصورت آواز سے نعت پڑھوں، خوبصورت آواز سے کوئی حمد پڑھوں، اس پہ کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس میں اگر میں کسی آلے کا سہارا لوں اور اس میں اس کو میں muscial صورت دوں جس ذریعہ سے بھی ہو لیکن وہ آلے سے ہو، وہ مطلب کوئی بندے کا نہ ہو بلکہ آلے سے ہو تو وہ میوزک کے حکم میں آتا ہے، وہ میوزک کے حکم میں آتا ہے۔ اب اس میں آلہ کمپیوٹر ہے، کمپیوٹر انسان تو نہیں ہے ناں، کمپیوٹر بھی تو ایک instrument ہے، آپ باقاعدہ اس پر ہر قسم کا sound generate کرسکتے ہیں، sensitize کرسکتے ہیں، تو اس وجہ سے یہ چیز جو ہے ناں کیا ہے؟ یہ موسیقی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ پھر میں نے اس پر بات کرنی شروع کرلی۔ تو آج کل یہ مسئلہ بہت زیادہ ہوگیا ہے، بہت زیادہ ہوگیا ہے کہ کمپیوٹر میں echo کی سیٹنگ اس طرح کرلیتے ہیں کہ اس میں میوزک generate ہوجاتا ہے اور پھر جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ musical بنایا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کی جو محبت ہے میں نے عرض کیا ناں وہ تو ہمارے لیے لازمی حصہ ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے اور آپ ﷺ کی محبت کا جذبہ یہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کی تعریف کرلیں اور آپ ﷺ کی پیروی کریں، آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلیں، یہ محبت کا تقاضا ہوگا، تو آپ ﷺ کی تعریف ہمارے مشاہیر نے کی ہے، سبحان اللہ۔ صحابہ کرام سے نعتیں ما شاء اللہ منقول ہیں، تابعین سے منقول ہیں، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی نعت موجود ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی موجود ہے، اس طرح مطلب ہے کہ حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ، مشہور نعتیں تھیں اور اس طرح جو ہے ناں مطلب ہے کہ ہمارے اور بزرگانِ دین، ہمارے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ان کی نعت، حضرت جو ہے ناں نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی نعت مشہور نعت ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ نعت جو ہے یہ ایسی چیز ہے جو ہمارے دل کی آواز ہے، ہمارے دل کے اندر آپ ﷺ کی محبت ہے، اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ۔ اب اس محبت کو اگر الفاظ کا نام دیا جائے اور الفاظ کو نظم کی صورت دی جائے تو یہ نعت شریف بن جاتی ہے، ویسے نعت شریف کے لیے نظم کا ہونا ضروری نہیں ہے، الفاظ میں بھی، سادہ الفاظ میں بھی نعت ہوتی ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے تھے کہ ایک دفعہ میں پڑھ رہا تھا قرآن پاک، تو اس میں یہ ایک آیت آئی: ﴿لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ﴾7 اور یہ پورا رکوع ہے جس میں اللہ پاک کی بڑی صفات بیان کی گئی ہیں، تو کہتے ہیں فرمایا قلب پہ وارد ہوا کہ یہ نعت ہے قرآن میں، یہ قرآن میں نعت ہے۔ فرمایا کہ میں حیران ہوگیا کہ یہ کیسے نعت ہے، اس میں تو اللہ کی صفات بیان کی گئی ہیں، اس میں تو آپ ﷺ کی صفات نہیں بیان کی گئیں، اللہ پاک کی صفات بیان ہوئیں، تو یہ نعت کیسے، حمد ہوسکتی ہے۔ اس پر فرمایا کہ دوبارہ یہ بات وارد ہوئی کہ ذرا غور کرو یہ کیا تم پڑھ رہے ہو، ﴿لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ﴾8 اگر یہ قرآن ہم کسی پہاڑ کے اوپر نازل کرلیتے تو خشیت سے مطلب جو ہے ناں اس کا وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا، تو یہ آپ ﷺ ہی کا سینہ ہے جو اس کو برداشت کیا ہوا ہے۔ تو یہ آپ ﷺ کی تعریف ہے، تو یہ نعت ہے۔ تو قرآن میں نعت موجود ہے: ﴿یٰسٓ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾9 اب یہ جو ہے ناں کیا ہے، یٰسٓ طٰہٰ، اور بہت ساری آیات کریمہ موجود ہیں ﴿وَالضُّحٰى وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰى﴾10 تو یہ سب نعتیں ہیں، اَلْحَمْدُ للہ قرآن پاک میں موجود ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے خود بھی ایسے الفاظ فرمائے ہیں، اس طرح جو ہے ناں وہ صحابہ کرام نے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ موجود ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موجود ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موجود ہیں، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موجود ہیں، فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے موجود ہیں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، میرے پاس اَلْحَمْدُ للہ موجود ہیں، اللہ کا شکر ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ مجھے نصیب فرمایا ہے۔ تو کبھی کبھی ہم اس کو پڑھ بھی لیتے ہیں۔ تو یہ بات ہے کہ یہ ساری چیزیں کیا ہیں، نعت شریف بذات خود بہت اونچا جذبہ ہے اور بعض حضرات صرف نعت کے ذریعہ سے اولیاء اللہ بن گئے ہیں، نعت پڑھتے پڑھتے، نعت لکھتے لکھتے کہ ان کی یہ چیزیں اتنی اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں کہ ان کو اللہ پاک نے اپنا ولی بنا دیا۔ ہمارے حاجی محمد امین صاحب رحمۃ اللہ علیہ پشتو کے مشہور ما شاء اللہ شاعر گزرے ہیں، وہ بہت بڑے، خود نعتیں پڑھتے تھے، اسی کے ذریعہ سے اللہ پاک نے ان کو ترقی دی، مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ ان کا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو ہے ناں یہ تو بہت اونچی چیز ہے، تو ربیع الاول میں ہم نعت سنتے ہیں، لیکن وہ نعت جس میں میوزک کی آمیزش ہو اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جیسے قرآن کو میوزک کے ساتھ نہیں پڑھا جاسکتا اس طرح نعت کو بھی میوزک کے ساتھ نہیں پڑھا جاسکتا، چاہے وہ میوزک باقاعدہ جہری میوزک ہو یا اس طرح sensitized ہو جیسے کمپیوٹر کے ذریعہ سے اس میں echo کے ذریعہ سے introduce کیا گیا ہو، یہ سب میوزک میں آتے ہیں۔ سادہ سادہ نعتیں، بالکل وہی جو ہے ناں مطلب جس میں اللہ اور اللہ کے نبی کی تعریف ہو، بس وہ مطلب ہمارے لیے کافی ہے، باقی یہ جو درمیان میں یہ ہم لوگ لیپا پوتی کرلیتے ہیں ناں اپنی مرضی کی نفس کی خواہش کے مطابق، اس کی گنجائش نہیں ہے، اس کی گنجائش نہیں ہے، اس سے ہم بچیں، یہ اصل میں ذوقِ سلیم کی بات ہے، جب ذوقِ سلیم نہ ہو تو ان کو یہ چیزیں اچھی نظر آتی ہیں اور جب ذوقِ سلیم ہو تو وہ اس سے allergic ہوتے ہیں، وہ اس کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ چشتی بزرگ تھے، نسبت چشتی تھی حضرت کی، اس کے باوجود جب میں حضرت سے بیعت ہوا تو پہلی چیزیں دو ملیں جو حضرت کی برکت سے بغیر کسی محنت کے، وہ ایک یہ تھی کہ میوزک نہیں سن سکتا تھا، میوزک سنتے ہی سر میں درد ہوجاتا تھا، حتیٰ کہ بسوں میں آتے جاتے میوزک لگایا ہوتا ہے ناں لوگوں نے تو اس سے میرے سر میں درد ہوجاتا، تو حضرت کو میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ کیا کروں میں؟ بسوں میں جانا پڑتا ہے، انہوں نے میوزک لگایا ہوتا ہے، میرے سر میں درد ہوجاتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: ’’یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پڑھ لیا کرو، ’’یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ یہ پڑھ لیا کرو۔ اَلْحَمْدُ للہ اس کی برکت سے بچت ہوگئی۔ مقصد میرا یہ ہے کہ یہ دیکھو ناں چشتی بزرگ ہیں، لیکن ہمیں کس طرف لے جارہے تھے، اصل میں چشتی لوگوں کے ساتھ بھی لوگوں نے، چشتی حضرات کے ساتھ بھی لوگوں نے اپنی نفس کی خواہش کے لیے یہ چیزیں باندھ لی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ چشتی بزرگ اس طرح کرتے ہیں، نہیں نہیں! وہ musical نہیں تھا۔ ہمارے خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ جن کے بارے میں یہ لوگوں نے بالکل پکی کہانی بنائی ہوئی ہے کہ حضرت نے یہ قوالی ایجاد کی ہے، یہ قوالی جو ہے یہ حضرت نے ایجاد کی ہے۔ اگر آپ اس کو قوالی کے عرفی یعنی صحیح معنی جو اس کا مطلب ہے اس میں لے لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ قوالی کا مطلب کیا ہے، مطلب آپ خوبصورت انداز میں کسی کلام کو پڑھنا، یہ قوالی ہوتی ہے، تو وہ جو جائز ہے اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن میوزک کے ساتھ یہ نہیں۔ کیونکہ حضرت نے باقاعدہ ’’فوائد الفوائد‘‘ میں ارشاد فرمایا کہ جو قوالی ہے، (اس کو سماع کہتے ہیں) سماع کے لیے چار شرطیں ہیں، فرمایا سماع حرام بھی ہوتا ہے اور مباح بھی ہوتا ہے، تو یہ ہے کہ جن میں یہ چار شرطوں میں سے کوئی بھی شرط نہ پائی جائے تو وہ حرام سماع ہے اور اگر ان میں سے ساری چار شرطیں پائی جائیں تو پھر یہ مباح سماع ہے۔ اب شرائط سن لو، پہلی شرط کلام عارفانہ ہو، کلام عارفانہ ہو، یہ تو سب مان لیتے ہیں، کلام تو عارفانہ کہیں سے بزرگ کا لے لیتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن فرمایا پڑھنے والے عارف ہوں، یعنی قوال بھی عارف ہوں، وہ جانتا ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، دوسری بات۔ تیسری بات یہ کہ سننے والے بھی عارفین ہوں، ان میں کوئی عورت موجود نہ ہو، کوئی بچہ موجود نہ ہو، زنانہ وکودک نباشد، مطلب یہ ہے کہ کوئی عورت موجود نہ ہو اور کوئی بچہ موجود نہ ہو، یہ تین باتیں ہوگئیں۔ یہ باتیں میں اس لیے کرتا ہوں کہ یہ بیان خواتین کے لیے ہے، تو خواتین کو تو یہ باتیں معلوم ہونی چاہئیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین یہ بہت ہی زیادہ sensitive ہوتی ہیں، sensitive ہوتی ہیں، اس وجہ سے ان کے اوپر اثر زیادہ ہوتا ہے اور پھر اپنے اوپر کنٹرول نہیں کرسکتیں، اس کی تو باقاعدہ حدیث شریف موجود ہے، وہ آپ ﷺ کے ساتھ ازواج مطہرات جارہی تھیں، تو مطلب یعنی وہ ہودج میں، تو اس میں یہ ہوا کہ وہ جو اونٹ کو لے جانے والے ہوتے ہیں ناں، تو حدی خواں بھی ان میں ہوتے تھے، وہ حدی وہ پڑھتے تھے، اس سے وہ اونٹوں کو جوش آتا تھا اور وہ تیز چلتے تھے، تو وہ حدی جو پڑھتے تھے تو آپ ﷺ نے ان کو روکا کہ بھئی حدی نہ پڑھو، شیشے ہیں ٹوٹ جائیں گے، قواریر، شیشے ہیں، ٹوٹ جائیں گے، مطلب زنانہ موجود ہیں، ان کے سامنے نہ پڑھو، اونٹوں پہ اثر ہوگا یا نہیں ہوگا لیکن ان پہ ہوجائے گا۔ تو پتا چلا کہ یہ چیزیں ان کے لیے نہیں ہیں اور بچہ بھی اس طرح ہوتا ہے کہ بچہ بھی مطلب ان چیزوں کو سمجھتا نہیں ہے، تو فرمایا زنان و کودک نباشد، مطلب یہ نہیں ہونے چاہئیں، اور آخری بات یہ فرمائی آلات چنگ و رباب نباشد، musical instruments نہ ہوں۔ اب اگر کوئی ان چار شرائط پر عمل کرے گا تو مجھے بتاؤ وہ کیسی قوالی ہوگی، وہ یہی ہے جو ہمارے ہاں ہوتی ہے، جو پڑھی جاتی ہے، بس ظاہر ہے وہ یہی قوالی ہے، یہی سماع ہے۔ خود یہی قریب ترین ہمارے جو بزرگ گزرے ہیں حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے، بہت بڑے اکابر میں سے تھے۔ یہ مجھے باقاعدہ روایت یعنی پہنچی ہے، جس کو کہتے ہیں ناں زبانی بھی اور کتابی بھی، کتابی تو اِدھر کتاب موجود ہے، جو ہے ناں وہ مولانا عبدالرحیم اثر رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے روحانی رابطہ، پشتو میں لکھی ہے روحاني تڑن، اس کا ترجمہ ہے روحانی رابطہ، اس میں 114 پاکستان کے اولیاء اللہ کی مطلب وہ ہیں، خود نوشت، مطلب ان کے مطلب اس میں وہ ہے سیرت، اس میں حضرت مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے، تو حضرت کے بارے میں فرمایا کہ ایک دفعہ ایک قوال قوالی کررہے تھے، ظاہر ہے وہ ان شرائط کے ساتھ جو شرائط خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، اور یہ چونکہ چشتی نظامی تھے ناں، تو چشتی نظامی میں تو پھر یہ چیز تھی، تو وہ قوالی کررہے تھے، تو ان کا ہاتھ اٹھا، ہاتھ اٹھا، ہاتھ اٹھا تو حضرت نے فوراً روک دیا، فرمایا: آئندہ تم میری مجلس میں قوالی نہیں کرو گے، تو انہوں نے کہا حضرت کیا غلطی ہوگئی؟ فرمایا: تو نے ڈوموں کی طرح حرکت کیوں کی، ڈوموں کی طرح یہ حرکت کیوں کی؟ آئندہ میری مجلس میں نہ آنا، اس نے معافی مانگی، انہوں نے کہا معافی معافی ہے، لیکن آئندہ آنا نہیں ہے، بہت سارے لوگوں سے سفارش کرائی، کسی کی سفارش حضرت نے نہیں مانی اور اس کو وہاں سے رخصت کردیا۔ اب اندازہ کرلو چشتی بزرگ ہے، قوالی کی محفل ہے، لیکن حضرت کس چیز پہ گرفت فرما رہے ہیں، تو اصل لوگ یہی تھے مطلب جنہوں نے ان چیزوں کو سنبھالا ہے، باقی جو لوگ ہیں وہ تو صرف عیاشی کررہے ہیں، مطلب وہ تو صرف ان کے نام لے کے عیاشی کررہے ہیں، ورنہ یہ میں نے کتاب میں تو پڑھا ہی تھا، لیکن مفتی ظہیر صاحب کے جو والد صاحب تھے، وہ مجھے کہنے لگے کہ میرے ماموں اس وقت اس مجلس میں موجود تھے، جنہوں نے مطلب یہ واقعہ جو ہوا تھا میرے ماموں اس مجلس میں موجود تھے، انہوں نے ہمیں بتایا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بالکل یعنی دونوں راستوں سے پتا چل گیا۔ تو بہرحال میں عرض کرتا ہوں کہ یہی بات ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں ہونا چاہیے، بنیادی بات یہ ہے، شریعت کے خلاف۔ دیکھو آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا تقاضا کیا ہے، آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ﷺ کے پیغام کو سمجھیں، آپ ﷺ کے طریقہ کو سیکھیں، آپ ﷺ کے طریقہ پر عمل کریں، کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾11 البتہ بالتحقیق تمہارے لیے تمہارے جو ہے ناں آپ ﷺ کے طریقہ میں بہترین نمونہ موجود ہے، آپ ﷺ کی سیرت میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ اب ہمارے پاس اب دیکھو میں اپنی طرف سے کوئی چیز گھڑ کے پیش کرلوں، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس کے مقابلہ میں بالکل ایک سادہ سی سنت میں جو ہے ناں مطلب اختیار کرلوں اور لوگوں کو سمجھاؤں، یہ میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک مہمان آئے تھے، بزرگ تھے، تو مطلب ظاہر ہے کچھ عارفانہ باتیں ہورہی تھیں، اس میں ایک شعر کسی نے پڑھا، اس شعر سے تقریباً سب کو وجد آگیا، اس مہمان کو بھی آیا، جب اس کو وجد آیا تو ساتھ سرہند کی زمین بھی ہلنے لگی، سرہند کی زمین ہلنے لگی جیسے زلزلہ ہوتا ہے، تو حضرت نے اپنے خادم سے کہا مسواک، میری مسواک لے آؤ، تو مسواک لایا تو مسواک کو زمین پر گاڑھ دیا، تو زمین رک گئی اور پھر فرمایا دیکھو یہ آپ کا جو وجد ہے ناں اس سے سرہند کی زمین ہلنے لگی، یہ آپ کی کرامت، یہ آپ کی کرامت، اور اگر میں چاہوں تو شاید سرہند کے مردے اٹھنے لگیں، یہ میری کرامت، لیکن یہ سنت مسواک ہے ناں اس کے مقابلہ میں نہ آپ کی کرامت ہے نہ میری کرامت ہے، یہ جو مسواک کی سنت ہے اس کے مقابلہ میں نہ آپ کی کرامت چل رہی ہے نہ میری کرامت چلتی ہے۔ خود حضرت نے بالکل اخیر میں بات جو فرمائی تھی بالکل آخری، اَللّٰہُ اَکْبَر، فرمایا بہت سارے معارف آتے رہے، بارش کی طرح برستے رہے، بہت کچھ اللہ نے دے دیا ما شاء اللہ، لیکن اب تو میرے دل میں صرف یہ آتا ہے کہ بس کوئی مردہ سنت ہو جو میں زندہ کرلوں، یہی میری خواہش ہے، اس کے علاوہ باقی سارے جو اذواق ہیں وہ میں نے اہلِ ذوق کے سپرد کر دیئے ہیں، وہ ان کے لیے ہیں۔ ہمارے جد امجد کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے، ان کے بیٹے حضرت مولانا حلیم گل رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے ان کے بارے میں کتاب بھی لکھی ہے، انہوں نے اس سے پوچھا حضرت سے کہ حضرت بزرگوں کے مقامات ہوتے ہیں، آپ کا کون سا مقام ہے، تو حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عجیب جواب دیا، فرمایا میں نے بزرگی بزرگوں کے لیے چھوڑی ہے، درویشی درویشوں کو بخشی ہے، علم علماء کے حوالے کیا ہے، میری کیا ہے، بس وہ جو اللہ نے بندگی کا ایک طاق میرے گلے میں ڈالا ہے، میں چاہتا ہوں کہ موت تک یہ طاق میرے گلے میں ہو اور میں اس پر عمل کرتا رہوں، یہ میرا مقام ہے۔ گویا کہ دوسرے لفظوں میں فرمایا کہ عبدیت اور عبدیت وہ مقام ہے جس پر انسان کی نجات ہوتی ہے، عبدیت وہ مقام ہے جس پر انسان کی نجات ہوتی ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا: ﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾12 اے نفس مطمئنہ یا مطمئن نفس لوٹ جا اپنے رب کی طرف ایسی حالت میں کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے راضی ہے، پس میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ ’’تو میرے بندوں میں داخل ہوجا‘‘ وہ کیا ہے یہ اصل بات ہے، بس ہم جتنی بھی کوشش اور محنت کریں تو کس چیز کے لیے کریں، اللہ کے بندوں میں داخل ہوجائیں۔ اور اب بتاتا ہوں۔ عجیب مطلب اہم بات، کہ ہم جب کلمہ پڑھتے ہیں ناں شہادت: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘، ہم اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ ﷺ اللہ کے بندے ہیں اور اللہ کے رسول ہیں، اللہ کے بندے ہیں اور اللہ کے رسول ہیں۔ اب یہ دو باتیں جو آپ ﷺ کی ہیں ناں یہ ہمارے لیے بہت اہم ہیں، عبد ہونے کے لحاظ سے، جب ہم پیروی کریں گے تو کس چیز کی پیروی کریں گے؟ کہ ہم بھی عبدیت آپ ﷺ سے سیکھیں گے، اللہ پاک کی بندگی آپ ﷺ نے کیسے کی، یہ بھی تو آپ ﷺ کی پیروی ہے ناں، تو مطلب یہ ہے کہ بندگی میں پیروی، پھر یہ آپ ﷺ رسول ہیں، لہٰذا جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائیں اس کی ہم پیروی کریں، دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کی بندگی رسالت سے براہِ راست منور ہے، مطلب یہ ہے کہ جو اللہ نے بتایا وہی کیا آپ ﷺ نے، اور ہمیں حکم کیا ہے؟ وہ کرو جو آپ ﷺ نے کیا ہے، تو اب ہم وہی کریں جو آپ ﷺ نے کیا ہے، لہٰذا ہم آپ ﷺ کی پیروی کریں یا یوں سمجھ لیں کہ ہم اللہ کی بندگی کریں یا اللہ کی بندگی آپ ﷺ کی پیروی ہے اور آپ ﷺ کی پیروی اللہ کی صحیح بندگی ہے، سمجھ میں آگئی ناں بات؟ اس کو جس طریقہ سے بھی آپ چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں۔ تو اب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی جو پیروی ہے وہ ہم کیسے کریں، یہ ایک بات ہے، اس کے لیے ہمیں آپ ﷺ کی سیرت کو پڑھنا چاہیے عمل کی نیت سے، اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت کو بڑھانا چاہیے، تاکہ ہم لوگ آپ ﷺ کی سیرت کو پڑھتے ہوئے ہم آپ ﷺ کے وہ طریقے اپنائیں جو آپ ﷺ کی سیرت میں موجود ہیں امت کے لیے۔ ایک تو یہ والی بات ہے ناں کہ محبت نہ ہو تو بڑی بڑی چیزیں بھی نظر نہیں آتیں، بڑی بڑی سنتیں نظر نہیں آتیں، مثلاً شادی کی سنت ہے، نظر نہیں آتی، کپڑوں کی سنت ہے، نظر نہیں آتی، داڑھی کی سنت ہے، نظر نہیں آتی، بولنے چالنے کی سنت ہے، نظر نہیں آتی، رہن سہن کی سنتیں ہیں، نظر نہیں آتیں، اگر محبت نہ ہو۔ اور اگر محبت ہو تو پھر میں آپ کو واقعہ بتاتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ جارہے تھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ، راستہ میں ایک جگہ رکے، چادر لے کے رفع حاجت کے لیے تشریف فرما ہوئے، پھر وہاں سے اٹھے، ساتھیوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی نشانیاں نہیں پائی گئیں جیسے حضرت کو ضرورت ہی نہیں تھی بیٹھنے کی، پوچھا حضرت آپ کو ضرورت تھی؟ فرمایا نہیں، تو پھر آپ کیوں بیٹھے؟ natural question، پھر آپ کیوں بیٹھے؟ فرمایا اِدھر سے میں آپ ﷺ کے ساتھ ایک دفعہ گزر رہا تھا، آپ ﷺ ادھر اس مقصد کے لیے تشریف فرما ہوئے تھے، میرے دل نے گوارا نہیں کیا کہ اس میں اس حالت سے گزر جاؤں کہ میں نے وہ کام نہ کیا ہو کہ جو آپ ﷺ نے کیا ہے۔ اب اندازہ کرلو یہ سنت نہ مؤکدہ ہے نہ مستحبہ ہے، کون سی سنت ہے؟ حضرت سنت زوائد نہیں، سنت محبت ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ محبت کی وجہ سے، اور کچھ نہیں اور اس کی کوئی وجہ نہیں بن سکتی، مطلب محبت ہی کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کیا ہے، یہ بات ہے۔ تو اب یہ ہے کہ اگر ہمیں محبت ہو تو ہم ایسی سنتوں کو بھی نہ چھوڑیں اگر محبت ہو، اور اگر محبت نہ ہو تو پھر آپ بتاتے جائیں ناں لوگوں کو، یہ سنت ہے، ان کے لیے سب سے بڑی چیز کی ضرورت ہے نفس کی خواہش پوری ہونی چاہیے، اس کے مقابلہ میں جو کچھ بھی ہے وہ منظور نہیں ہے۔ اب دیکھ لیں مومن تو ہیں اَلْحَمْدُ للہ سارے اللہ کا شکر ہے، اَلْحَمْدُ للہ ایمان سب رکھتے ہیں، اب مومن ہونے کی وجہ سے معلوم ہے سب کو، اور مطلب یہ ہے کہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور ایسا ہونا چاہیے، لیکن عمل نہیں ہے، عمل نہیں ہے، عمل نہیں ہے، تو کون سی وجوہات ہیں جو عمل نہیں ہے، ذرا تھوڑا سا اس پہ غور کرلیں، دو وجوہات ہیں simple، دو وجوہات ہیں، دل میں محبت نہیں ہے آپ ﷺ کی، نفس پر قابو نہیں ہے، یہ دو باتیں ہیں، نفس پر قابو نہیں، دل میں محبت نہیں ہے، پس ہمارا مسئلہ کیسے حل ہوگا، کہ دل میں آپ ﷺ کی محبت آجائے، اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت آجائے اور نفس پر ہمارا قابو ہوجائے، بس یہی بات ہے۔ تو محبت کو پیدا کرنے کے لیے جو چیزیں ہیں، اللہ کی محبت کو پیدا کرنے کے لیے اللہ کا ذکر ہے اور آپ ﷺ کی محبت کو پیدا کرنے کے لیے آپ ﷺ کا ذکر ہے، اور اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾13 اور ہم نے بلند کیا تمہارے لیے تمہارا ذکر، حضرت مطلب جو ہے، اس کے بعد حدیث شریف میں آتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ ﷺ سے پوچھا کہ قرآن میں جو آیت ہے اس کا مطلب معلوم ہے، انہوں نے کہا کہ کیا؟ فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں جہاں میرا ذکر ہو وہاں تیرا ذکر ہوگا، جہاں میرا ذکر ہوگا وہاں تیرا ذکر ہوگا، اب اللہ پاک کا ذکر تو ہر جگہ، ہر چیز میں، لہٰذا آپ ﷺ کا ذکر بھی ہر جگہ ہر، چیز میں، یعنی اس کے لیے وہ ہمیں کرنا پڑے گا۔ تو اب دیکھ لیں اللہ کے ذکر کے ذریعہ سے اللہ کی محبت آتی ہے دل میں، آپ ﷺ کے ذکر کے ذریعہ سے آپ ﷺ کی محبت دل میں آتی ہے، یہ تو دل کو تو اس سے بھر لو اور نفس کو قابو کرنے کے لیے بزرگوں کے پاس جا کے اپنے نفس کی اصلاح کروا لو، یہ لازم بات ہے۔ ہمارے اکابر نے یہی کام کیا تھا، انہوں نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا تھا، بلکہ ان کا ایک طریقہ تھا باقاعدہ آپ کتابوں میں پڑھ لیں، بلکہ جتنے بھی بڑے بڑے اکابر ہیں ان کے سوانح پڑھ لیں، ایک فقرہ آپ کو بہت common ملے گا اور وہ یہ ہے کہ کتنے عرصہ میں مروجہ علوم سے فارغ ہوگئے اور پھر بعد میں اپنی اصلاح کے لیے کسی بزرگ کی خدمت میں جانے کے لیے فلاں جگہ تشریف لے گئے۔ یہ بات بالکل آپ کو تقریباً سارے اکابر جتنے بھی مشہور اکابر ہیں ان کے سوانح میں یہ بات آپ کو ملے گی، یعنی باقاعدہ ایک قسم کا رائج تھا، وہ کہ لوگ جو ہیں ناں باقاعدہ علم حاصل کرنے کے بعد یہی پہلا کام کرتے تھے، اس وقت یہ چیز بہت ہی un-common ہوگئی ہے، بلکہ عین ممکن ہے کہ جو علم حاصل نہ کرتے ہوں وہ تو شاید اس طرف متوجہ ہوجائیں اور جو علم حاصل کرتے ہوں شاید وہ محروم ہوجاتے ہوں، یہ بلکہ آج کل یہ بھی ایک المیہ ہے، تو نتیجہ کیا ہے، الفاظ ہیں جان نہیں ہے، نماز ہے جان نہیں ہے، روزے ہیں جان نہیں ہے، وہ مطلب ان چیزوں سے خالی ہیں، بس یہی بات ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ اپنے بیٹے سے، (طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اپنے بیٹے سے) کہا کہ آپ بیان کریں، انہوں نے بیان شروع کیا، اب کوئی تنکے توڑ رہا ہے کوئی کیا کررہا ہے کوئی کیا کررہا ہے، پروا نہیں ہے، مطلب ظاہر ہے کہ بیان، پروا نہیں ہے، حضرت مجبوراً اٹھے، اچھا ٹھیک ہے، آپ بیٹھ جائیں، حضرت بیٹھ گئے، صرف کہا کہ کل میں نے روزہ رکھنے کے لیے سحری کے لیے دودھ رکھا تھا، تو جب اٹھا تو ایک بلی آگئی اور اس نے اس کو ٹھوکر ماری، وہ سارا دودھ گر گیا، تو اس کو سن کر سارا مجمع رونے لگا، تو بیٹا حیران ہوگیا کہ میں نے تو اتنے زبردست قسم کے وہ جو ہے ناں مضامین وہ بیان کیے، کسی کو اثر نہیں ہوا، حضرت نے صرف ایک واقعہ بیان کیا جس میں کوئی ایسی بات تھی نہیں، تو انہوں نے کہا ابا جی! کیا بات تھی؟ فرمایا تو زبان سے کہتا ہے میں دل سے کہتا ہوں، بس یہی بات ہے، تو زبان سے کہتا ہے اور میں دل سے کہتا ہوں، تو دل کا دل پر اثر ہوتا ہے، زبان کا زبان پر اثر ہوتا ہے، آپ زبانی باتیں سن لیں، آپ کی زبان پر بھی آجائیں گی، پھر آپ بھی زبان سے کہتے رہیں، یہی زبان سے اس کا دل تک پہنچنا جو ہے یہی بہت بڑی بات ہے، یہ آسان بات نہیں ہے کہ جو زبان پر ہے وہ آپ کے دل تک پہنچ جائے، اسی کے لیے بڑی محنت ہے، بڑی محنت ہے کہ میں جو زبان کی بات ہے وہ اس کو دل تک پہنچا لوں اور میرا دل بھی اس سے متاثر ہوجائے، پھر بات ہوجائے گی۔
صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے
بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے
صوفی اس وقت تک صافی نہیں ہوسکتا جب تک کہ عشق کا جام نہ کھینچے، بہت بڑا لمبا سفر ہے خام سے پختہ ہونے میں۔ بہت لمبا سفر ہے۔ تو لمبا سفر کیا ہے؟ نفس درمیان میں حائل ہے، کیونکہ ہمارا نفس ہے ناں نفس، یہ ہر چیز پہ اثر انداز ہے، ہماری زبان پر بھی اثر انداز ہے، ہماری آنکھوں پر بھی اثر انداز ہے، ہمارے کانوں پر بھی اثر انداز ہے، ہمارے دماغ پر بھی اثر انداز ہے، ہمارے دل پر بھی اثر انداز ہے، ہر چیز پر اثر انداز ہے، جب تک یہ نفس کا جال ٹوٹا نہیں اس وقت تک یہ چیزیں آزاد نہیں ہیں، جب تک آزاد نہیں ہیں، ہر چیز کے اندر نفسانیت ہوگی، مثلاً میں باتیں کررہا ہوں اس لیے کہ آپ لوگ اس کو واہ واہ کریں، یہ میرا نفس ہوگا، یہ میرا نفس ہوگا، اس پر پھر کیا بات ہوگی، واہ واہ ہوجائے گی، بس وہ جو چیز جس کے لیے میں نے کیا تھا وہ حاصل ہوجائے گا اور جو اصل چیز ہے، یعنی اس سے کوئی فائدہ اٹھانا اور اس سے عمل پہ آجانا، وہ نہ میں نے اس کے لیے بات کی تھی اور نہ لوگوں نے اس کو لے لیا، بات ختم ہوگئی۔ تو اس وجہ سے اگر ہم لوگ ذرا تھوڑا سا اس پر سوچیں کہ رکاوٹیں کیا ہیں، ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہوگا، تو کرنا یہی ہے کہ ہم اپنے نفس کو قابو کریں، حدیث شریف میں بھی اس کی بات ہے، فرمایا: عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لیے کام کیا اور بیوقوف وہ ہے جس نے اپنے جو نفس ہے اس کو آزاد چھوڑ دیا، جو کرنا چاہتا تھا وہ کرنے دیا اور پھر بعد میں صرف تمناؤں سے وہ اطمینان حاصل کرتا رہا۔ بس اور کچھ نہیں، تو یہ چیز نہیں ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو حفاظت میں، مطلب سب کی حفاظت فرمائے۔
یہ میں کچھ واقعات پڑھ لیتا ہوں تاکہ ذرا ہمارے ایمان بھی تازہ ہوجائیں اور آپ ﷺ کا جو مقام ہے وہ ہمارے سامنے آجائے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے ’’نشر الطیب فی ذکر الحبیب‘‘، یہ حضرت نے جو لکھی ہے ناں اس کی وجہ میں آپ کو بتا دوں، جس وجہ سے آج کل اس کو پڑھنا چاہیے، کہ وہ جو ہے ناں مطلب ہے کہ ذرا مطلب معلوم ہوجائے کہ آج کل ہمیں کیا کرنا ہے، طاعون کی بیماری آئی تھی طاعون کی، اور بہت پھیلی ہوئی تھی، اس سے بہت ساری اموات ہورہی تھیں، حضرت نے فرمایا کہ ہمارے اکابر کا طریقہ تھا کہ جب کبھی کوئی مسئلہ اس طرح ہوتا، یعنی وبائی شکل یا کوئی اس طرح مصیبت کی بات آتی، تو آپ ﷺ کا ذکر لوگ شروع کرتے، اس سے رحمت اترتی اور اس بات کا علاج ہوتا۔ تو فرمایا کہ ہم نے بھی ’’نشر الطیب فی ذکر الحبیب‘‘ شروع کی اور فرمایا کہ جتنا کام اس میں ہوتا تھا اتنے ہی ہمیں اس سے وہ دور ہوتا نظر آتا تھا، مطلب یہ ہے کہ وہ۔۔۔۔ اور جب کبھی سستی ہوتی تو پھر وہ قریب آجاتا، تو یہ اب مجھے بتائیں کہ آج کل ہمیں اس کی ضرورت ہے یا نہیں ہے؟ آج کل یہی حالات ہیں ناں، اب دیکھو کہ ڈینگی کا مسئلہ شروع ہوگیا اور بہت زیادہ، تھوڑا بھی نہیں، بہت زیادہ شروع ہوگیا، تو اب یہ ہے کہ بچانے والا تو اللہ کی ذات ہے، کرونا وہ جرثومہ بھی نہیں تھا، وائرس تھا، مطلب ایسا وائرس آدمی کیا کہے، چھوٹی سی چیز لیکن سب دنیا کو تگنی کا ناچ نچایا، اور ڈینگی ایک مچھر ہے، اور مچھر جو ہے ناں اس کو آدمی کیا کرے، بس جب پورا ہوتا ہے تو پھر وہ آجاتا ہے۔ تو اب یہ ہے کہ بچانے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائیں، اللہ تعالیٰ کی، تو یہ میں چند مطلب جو ہے ناں سیرت پاک سے کچھ روایتیں پڑھتا ہوں، ان شاء اللہ اللہ پاک کی طرف سے مدد ہوگی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک یہودی مکہ میں آرہا تھا، سو جس شب میں آپ ﷺ پیدا ہوئے اس نے کہا کہ اے گروہ قریش کیا تم میں آج کی شب کوئی بچہ پیدا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم کو معلوم نہیں۔ کہنے لگے کہ دیکھو کیونکہ آج کی شب اس امت کا نبی پیدا ہوا ہے، اس کے دونوں شانوں کے درمیان میں ایک نشانی ہے جس کا لقب مہرِ نبوت ہے، چنانچہ قریش نے اس کے بعد سے جاکر تحقیق کی تو خبر ملی کہ عبداللہ بن عبدالمطلب کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے۔ وہ یہودی آپ ﷺ کی والدہ کے پاس آیا۔ انہوں نے آپ ﷺ کو ان لوگوں کے سامنے کردیا۔ جب اس یہودی نے وہ نشانی دیکھی تو بے ہوش ہوکر گر پڑا اور کہنے لگا: بنی اسرائیل سے نبوت رخصت ہوگئی۔ اے گروہِ قریش! سن لو! واللہ! یہ تم پر یہ ایسا غلبہ حاصل کریں گے کہ مشرق اور مغرب سے اس کی خبر شائع ہوگی۔ روایت کیا ہے اس کو یعقوب بن سفیان نے اسناد حسن سے یہ فتح الباری میں ہے۔ تو آپ ﷺ کے بارے میں پیشین گوئیاں گزشتہ کتابوں میں موجود تھیں، جیسے اب ہمیں امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں پیشین گوئیوں کا پتا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس طرح ہوگا، اس طرح ہوگا، اس طرح ہوگا، یہ باتیں ہیں اور لوگ اسی وجہ سے پہچان بھی لیں گے ان شاء اللہ۔ تو اب تو نبی چونکہ نہیں آسکتا تو اب تو ظاہر ہے بس ایسے ہی، تو یہ جو ہے ناں مطلب لیکن اس وقت چونکہ آپ ﷺ تشریف نہیں لائے تھے تو آپ ﷺ کے بارے میں وہ پیشین گوئیاں موجود تھیں، حتیٰ کہ وہ کتابیں جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہے کہ وہ آسمانی کتابیں ہیں جیسے وید اس میں بھی نشانی موجود تھی، وید میں کلکی اوتار، کلکی اوتار اس کے نام سے باقاعدہ ایک پنڈت ہے، اس نے ریسرچ کی ہے، اس نے اپنی ریسرچ اپنے تمام پنڈتوں کو دکھائی کہ اس میں اگر کوئی غلطی ہو تو وہ نکال لیں، وہ کوئی اس میں غلطی نہیں نکال سکا، تو اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ جو ہماری کتابوں میں پیشین گوئیاں کہ ایسا وہ آئے گا جو یہ کرے گا یہ کرے گا، وہ آچکا ہے، تم اس کے انتظار میں ہو، وہ محمد تھے، وہ محمد تھے، اور وہ جو ہے ناں مطلب آچکے ہیں، ان کی ساری نشانیاں موجود ہیں، اس نے باقاعدہ ثابت کیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے پاس موجود ہے، اس پہ نیٹ پر ہے، مطلب یہ کلکی اوتار۔ آپ کے پاس ہے؟ ہاں، تو یہ مطلب یہ ہے کہ یہ چیز ہے، تو عیسیٰ علیہ السلام نے ﴿اِسْمُہٗ أَحْمَدُ﴾14 قرآن پاک میں مطلب آیا ہے، موسیٰ علیہ السلام نے بتایا تو سب نے یہ بتایا تھا، اس وجہ سے بنی اسرائیل کو پتا تھا کہ ایسا آئے گا، اور حتیٰ کہ وہ جو مدینہ منورہ کے یہودی تھے ناں، وہ انصار کے جو دو قبیلے تھے اوس و خزرج ان کو ڈراتے تھے کہ نبی جو آئے گا ہم ان پر ایمان لائیں گے اور تمہیں پھر ماریں گے۔ خدا کی شان کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت ان کو نصیب فرما دی اوس و خزرج کو، اور یہودی مارے گئے، کیونکہ ایمان نہیں لائے، تو دیکھیں یہاں پر دیکھیں جس وقت اس کو پتا چل گیا کہ آپ ﷺ نبی ہیں تو بجائے اس کے کہ ایمان لاتے تو کیا کیا؟ بے ہوش ہوگئے اور جب ہوش میں آگئے تو کیا بات شروع کی، وہی کینہ اور حسد والی کہ یہ تو ایسا ہے کہ جو آپ کے اوپر غلبہ حاصل کرے گا اور تمہیں اس طرح کریں گے، تمہیں اس طرح، تاکہ ان کے دشمن بنا دیئے جائیں، تو یہ شیطانی کام ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
ساتویں فصل: یوم و ماہ و سن و وقت و مکان و ولادت شریفہ میں۔
یوم و تاریخ: سب کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ تھا، یعنی پیر کا دن تھا، تاریخ میں البتہ اختلاف ہے کہ آٹھویں تھی یا بارہویں۔ ماہ: سب کا اتفاق ہے کہ ربیع الاول تھا، سن: سب کا اتفاق ہے کہ عام الفیل تھا۔ اب دیکھو کون کون سی چیزیں اتفاقی ہوگئیں، سن، مہینہ، دن، دن متعین ہے کہ پیر کا دن تھا، لیکن تاریخ متعین نہیں ہے، یعنی اختلاف ہے اس میں، اب اگر یہ تین موجود ہوں حساب کے ذریعہ سے معلوم کیے جاسکتے ہوں کہ عام الفیل کے ربیع الاول میں پیر کا دن کس کس تاریخ کو پڑ سکتا تھا، معلوم ہوجائے گا ناں، تو جو حساب دان ہیں وہ معلوم کرلیتے ہیں، تو سب سے پہلے اس کو ایک ترکی کے astronomer نے یہ calculate کرکے بتایا تھا، بعد میں تمام لوگوں نے اس کی تصدیق کی جو astronomers ہیں، بلکہ خود میں نے بھی پھر calculate کیا تو وہ بالکل وہی پایا کہ پیر کا دن جو ہے بنتا ہے 08 یا 09 ربیع الاول کو، 08 یا 09 ربیع الاول کا، 08 یا 09 اس لیے کہتے ہیں کہ چونکہ چاند کے نظر آنے میں ایک دن کا اختلاف ہوسکتا ہے، بالخصوص علاقوں میں تو اختلاف ہو ہی جاتا ہے، جیسے اگر سعودی عرب میں 09 ہے تو آج ممکن ہے اِدھر 08 ہو، کیونکہ اِدھر پیچھے چلتے ہیں، تو اس قسم کی بات تو ہے، اب آج کل اتنا آسان ہوگیا ہے کہ جمعہ جو مطلب جو مطلب جو ہے ناں جو حج ہے آپ ﷺ کا کہ حج کا جمعہ جو تھا اس کا جو چاند ہے اس کا باقاعدہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کتنا بلند تھا افق سے، افق سے کتنا بلند تھا، یہ باقاعدہ اس کا حساب اب کیا جاسکتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معلوم ہوسکتا تھا اور ہوگیا، تو اب پتا چل گیا کہ 08 یا 09 ربیع الاول ہے، تو عموماً 12 کو سمجھا جاتا ہے، تو 12 نہیں ہے۔ اب چلو یہ تو جو بھی بات ہے وہ تو اللہ کو پتا ہے لیکن یہ جو تاریخ میں اختلاف ہے اس سے کم از کم ایک بات کا تو پتا چل گیا ناں کہ آپ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی نے بھی یہ دن نہیں منایا، اگر مناتے تو کیا یہ تاریخ چھپ جاتی، دیکھو دن موجود ہے، مہینہ موجود ہے، اس کے لیے وہ روایتیں موجود ہیں، سن موجود ہے، لیکن تاریخ کا اختلاف ہے، یہ اختلاف ہی اس بات کو بتا رہا ہے کہ یہ منایا نہیں جاتا، منانے کا کس وقت ہوا ہے، یہ بھی بتاتا ہوں، یہ نیٹ پر آپ دیکھ لیں، آپ کو مل جائے گا، ملک مظفر، یہ مصر کا ایک بادشاہ تھا، دو تین سو سال پہلے 11 سن ہجری، جو ہے ناں مطلب 1100 ہجری ہے تو اس میں یہ آیا ہے، تو اس کی بادشاہت کو خطرہ ہوگیا، اس کی بادشاہت ختم ہونے والی تھی، اس نے اپنی بادشاہت کو بچانے کے لیے آپ ﷺ کی محبت کو ایک ذریعہ بنایا کہ میں عید میلاد النبی شروع کردوں گا تو لوگ میری support کریں گے اور اس کی وجہ سے میری بادشاہت کی حفاظت ہوجائے گی، اس نے start کیا تھا۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ اس وقت ہماری حکومت بھی یہی پلان کررہی ہے کہ اس دن کو شایان شان منانے کے لیے اور باقاعدہ اپنے گھر کو بھی سجا کر دکھا رہے ہیں کہ دیکھو میں نے کیسے سجایا ہوا ہے، بھئی اپنے دل کو سجاؤ، سنت سے سجاؤ، آپ ﷺ کے طریقہ سے سجاؤ، یہ کیا سجانے والی بات ہے، یہ سجانے والی بات ہے؟ کون سے صحابی نے اپنا گھر سجایا ہے، ایک آدمی ثابت کریں، کون سے صحابی نے مطلب اس دن جو ہے چراغاں کیا ہے، ایک روایت ثابت کرلیں چاہے ضعیف ہی کیوں نہ ہو، ثابت تو کرکے دکھائیں ناں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے نفس کی خواہشات ہیں، ہم میلا ٹھیلا چاہتے ہیں، ہم یہ چیزیں چاہتے ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ شاید یہ اس سے۔۔۔۔ اس سے نجات نہیں ہوگی، نجات کس چیز سے ہوگی؟ سنت سے ہوگی: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾15 اے میرے حبیب! اپنی امت سے کہہ دیں اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ پاک تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ بس یہی بات ہے، یہ بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے، باقی اس کے علاوہ یہ بات کہ میں اپنے نفس کی کسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اس کو اس چیز کا نام دے دوں، یہ الٹی طرف جارہی ہے بات، اس وجہ سے ہمیں اس سے بچنا چاہیے اور بات جیسے میں نے عرض کیا کہ خود بخود ثابت ہورہا ہے کہ اس دن کو منایا نہیں جاتا تھا، کیونکہ تاریخ میں اختلاف کیوں ہے، اچھا۔
آٹھویں فصل بعض واقعات زمانۂ طفولیت کے:
پہلی روایت، ابن شیخ نے خصائص میں ذکر کیا ہے کہ آپ کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کی جنبش دینے سے ہلا کرتا تھا، کوئی ناممکن نہیں، کیونکہ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے فرشتے، اور فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ دوسری روایت، بیہقی اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے، حضرت حلیمہ کہتی تھی کہ انہوں نے جب آپ کا دودھ چھڑایا ہے تو آپ نے دودھ چھڑانے کے ساتھ ہی سب سے اول جو کلام فرمایا تھا وہ یہ تھا: ’’اَللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيْرًا، وَسُبْحَانَ اللّٰهِ بُكْرَةً وَأَصِيْلًا‘‘ جب آپ ذرا سیانے ہوئے تو باہر تشریف لے جاتے اور لڑکوں کو کھیلتا دیکھتے مگر ان سے علیحدہ رہتے، یعنی کھیل میں شریک نہیں ہوتے تھے۔
تیسری روایت، ابن سعد اور ابن عساکر نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو کہیں دور نہ لے جانے دیا کرتیں، ایک بار ان کو کچھ خبر نہ ہوئی آپ اپنی رضاعی بہن شیما کے ساتھ عین دوپہر کے وقت مواشی کی طرف چلے گئے، حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی تلاش میں نکلیں یہاں تک کہ آپ کو بہن کے ساتھ پایا، کہنے لگیں کہ اس کو گرمی میں کیوں لائی ہو؟ بہن نے کہا اماں میرے بھائی کو گرمی نہیں لگی، میں نے ایک بادل کا ٹکڑا دیکھا جو ان پر سایہ کیے ہوئے تھا، جب ٹھہر جاتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب یہ چلنے لگتا تو وہ بھی چلنے لگتا تھا، یہاں تک کہ اس موقع تک اسی طرح پہنچے۔ ظاہر ہے آپ ﷺ کے لیے پوری کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے، پوری کائنات کو اللہ پاک نے پیدا کیا ہے، اگر میں تجھے نہ پیدا کرتا تو پوری کائنات کو نہ پیدا کرتا۔
چوتھی روایت، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں طائف سے بنی سعد کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ کو چلی گئی، اس قبیلہ کا یہی کام تھا، اور اس سال میں سخت قحط تھا، میری گود میں میرا ایک بچہ تھا مگر اتنا دودھ نہ تھا کہ اس کو کافی ہوتا، رات بھر اس کے چلانے سے نیند نہ آتی اور نہ ہماری اونٹنی کا دودھ ہوتا، میں ایک دراز گوش پر سوار تھی جو غایت لاغری سے سب کے ساتھ نہ چل سکتا تھا، ہمراہی بھی اس سے تنگ آگئے تھے، ہم مکہ آئے تو رسول اللہ ﷺ کو جو عورت دیکھتی اور سنتی کہ آپ یتیم ہیں کوئی قبول نہ کرتی، کیونکہ زیادہ انعام و اکرام کی توقع نہ ہوتی اور ادھر ان کو دودھ کی کمی کے سبب کوئی بچہ نہ ملا، میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ تو اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ میں خالی جاؤں، میں تو اس یتیم کو لاتی ہوں، شوہر نے کہا بہتر ہے، شاید اللہ تعالیٰ برکت کرتے، غرض میں آپ کو جاکر لے آئی، جب اپنی فرود گاہ پر لے آئی اور گود میں لے کر دودھ پلانے بیٹھی تو دودھ اس قدر اترا کہ آپ اور آپ کے رضاعی بھائی نے خوب آسودہ ہو کر پیا اور سو گئے، میں اور میرے شوہر نے جو اونٹنی کو جاکر دیکھا تو تمام دودھ ہی دودھ بھرا تھا، غرض اس نے دودھ نکالا اور ہم سب نے خوب سیر ہو کر پیا اور رات بڑے آرام سے گزری اور اس کے قبل سونا میسر نہیں ہوتا تھا، شوہر کہنے لگے حلیمہ تو تو بڑی برکت والے بچے کو لے آئی، میں نے کہا ہاں مجھ کو بھی یہی امید ہے، پھر ہم مکہ سے روانہ ہوئے اور میں آپ کو لے کر اسی دراز گوش پر سوار ہوئی، پھر تو اس کا یہ حال تھا کہ کوئی سوار اس کو پکڑ نہیں سکتی تھی، میری ہمراہی عورتیں تعجب سے کہنے لگیں کہ اے حلیمہ ذرا آہستہ چلو، یہ وہی تو ہے جس پر تم آئی تھی، میں نے کہا ہاں وہی ہے، وہ کہنے لگی کہ بے شک اس میں کوئی بات ہے۔ پھر ہم اپنے گھر پہنچے، وہاں سخت قحط تھا، سو میری بکریاں دودھ سے بھری آتیں اور دوسروں کے اپنے جانوروں میں ایک قطرہ دودھ نہ ملتا، میری قوم کے لوگ اپنے چرواہوں سے کہتے کہ ارے تم بھی وہاں چراؤ جہاں حلیمہ کے جانور چرتے ہیں، مگر جب بھی وہ جانور خالی آتے اور میرے جانور بھرے آتے، کیونکہ چراگاہ میں کیا رکھا تھا، وہ تو بات ہی اور تھی، غرض ہم برابر خیر و برکت مشاہدہ کرتے رہے یہاں تک کہ دو سال پورے ہوگئے اور میں نے آپ کا دودھ چھڑایا اور آپ کا نشو و نما اور بچوں سے زیادہ تھا، یہاں تک کہ دو سال کی عمر میں اچھے بڑے معلوم ہونے لگے، پھر ہم آپ کو آپ کی والدہ کے پاس لائے، مگر آپ کی برکت کی وجہ سے ہمارا جی نہیں چاہتا تھا کہ آپ ادھر رہیں، لہٰذا ہم نے چاہا کہ آپ اور ہمارے ساتھ رہیں، اس لیے آپ کی والدہ سے اصرار کرکے وباءِ مکہ کے بہانے سے پھر اپنے گھر لے آئی، سو چند ہی مہینے میں ایک بار آپ اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ مواشی میں پھر رہے تھے کہ یہ بھائی دوڑتا ہوا آیا اور مجھ سے اور اپنے باپ سے کہا کہ میرے قریشی بھائی کو دو سفید کپڑے والے آدمیوں نے پکڑ کے لٹایا اور شکم چاک کیا، میں اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں، سو ہم دونوں گھبرائے ہوئے گئے، دیکھا کہ آپ کھڑے ہیں مگر رنگ خوف سے متغیر ہے، میں نے پوچھا بیٹا کیا بات ہے، فرمایا دو شخص سفید کپڑے پہنے ہوئے آئے تھے اور مجھ کو لٹایا اور پیٹ چاک کرکے اس میں سے کچھ ڈھونڈ کر نکالا، معلوم نہیں کیا تھا، ہم آپ کو اپنے ڈیرے پر لائے اور شوہر سے کہا، شوہر نے کہا حلیمہ اس لڑکے کو آسیب کا اثر ہوا ہے، قبل اس کے کہ اس کا زیادہ ظہور ہو ان کو گھر پہنچا، میں والدہ کے پاس لے گئے، کہنے لگی تو تو اس کا رکھنا چاہتی تھی پھر کیوں لے آئی، میں نے کہا اب خدا کے فضل سے ہوشیار ہوگئے اور میں اپنی خدمت کرچکی ہوں، خدا جانے کہ اتفاق کیا ہوجائے، اس لیے لائی، انہوں نے فرمایا یہ بات نہیں سچ بتلا، سچ بتلا، میں نے سب کا سب بیان کیا، کہنے لگی کہ تجھے ان پر شیطان کے اثر کا اندیشہ ہوا، میں نے کہا ہاں، کہنے لگی ہرگز نہیں، واللہ شیطان کا ان پر کچھ اثر نہیں ہوسکتا، میرے بیٹے کی ایک خاص شان ہے، انہوں نے بعض حالات حمل و ولادت کے بیان کیے جو پانچویں فصل میں دوسری اور تیسری روایت اور چھٹی فصل کی پہلی روایت کے اخیر میں مذکور ہوئے تھے، اچھا ان کو چھوڑ دو اور خیریت کے ساتھ جاؤ، جیسے کہ۔
اب یہ جو ہے ناں یہ والی باتیں ما شاء اللہ اس میں بیان کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ہر شخص کا، یہاں تو ایک مسلسل روایت بیان کی ہے، لیکن ہمارے ایک اور بزرگ ہیں مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ، انہوں نے بڑی حالت جذب میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے ’’النبیُّ الخاتم‘‘، میں مدینہ منورہ جب گیا تھا حج کے موقع پہ تو وہاں ایک ہندوستانی عالم سے ملنا ہوا، تو اس نے مجھے کہا کہ آتے ہوئے آپ نے ’’النبیُّ الخاتم پڑھی‘‘ ہے، میں نے کہا کہ نہیں پڑھی، کہتے ہیں کہ کاش آپ اس کو پڑھ کے آتے، میرے دل میں بڑا ہوگیا، میں نے کہا کمال ہے کیا بات ہے میں جاکر اس کو ضرور پڑھوں گا کہ کون سی بات ہے اس کے اندر، کیا بات ہے، خیر یہاں آکر میں نے تو وہ النبی الخاتم جو ہے ناں مطلب ہے کہ پھر ہم نے لے لی، وہ واقعی اتنی جذب میں لکھی ہوئی ہے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں، اب یہی بات جو یہاں حضرت نے اس انداز میں کی ہے۔ ناں، تو یہاں پر حضرت نے کس انداز میں کی ہے، فرماتے ہیں: یہ دیکھیں ناں انداز دیکھیں:
’’دائی حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا: فہموں کی قلابازیاں اس مسئلہ میں بھی تقریباً اس قسم کی ہیں جو حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق سمجھ کے پھیر سے بلاوجہ پیدا ہوئیں، آپ کو حلیمہ سعدیہ سے دودھ ملا۔ (لکھا ہے ناں ہر جگہ لکھا ہوا ہے؟) حلیمہ یا حلیمہ کی اونٹی، حلیمہ کی بکریوں، حلیمہ کے شوہر، حلیمہ کے بچوں، بلکہ آخر میں قبیلے والوں تک ان سب کو دودھ آپ ہی کے ذریعہ سے ملا، اس میں واقعہ کیا ہے اس کو سب جانتے ہیں لیکن نہیں جانتے یا نہیں جاننا چاہتے۔ (اس طرح انہوں نے ما شاء اللہ یعنی اس انداز میں کیا ہے ناں کہ جو ہے ناں وہ) کہتے ہیں کہ اپنی ماتا سے آدمی آزاد ہوسکتے ہیں لیکن دھرتی ماتا کی غلامی کا طوق کس کی گردن میں نہیں کہ آدمی کے بچوں کو جو کچھ ملتا ہے زمین کی چھاتی سے ملتا ہے، وہ جو کچھ کھاتا ہے جو کچھ پیتا ہے جو کچھ پہنتا ہے جس میں رہتا ہے، حتیٰ کہ جس میں بالآخر دفن ہوتا ہے، زمین اور زمین زادوں کے سوا کوئی اور چیز ہے؟ اس جھوٹ میں سچ کا کتنا ہے اس لیے دیکھو کہ اس واقعی آزادی کی راہ درست کرنے کے لیے وہ اس سرزمین سے اٹھایا جاتا ہے جو ایسی ہر چیز کے پیدا کرنے میں عقیم اور بانجھ ہے، (کوئی چیز اس میں نہیں پائی جاتی) جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آدمی ان ہی پر جی رہا ہے، جن چیزوں سے زندگی پیدا ہوتی ہے، عجیب بات ہے کہ ان کی پیدائش کا اس زمین میں امکان نہیں اور جن سے موت کی پیداوار ہوتی ہے، شاید دنیا کا یہ علاقہ اسی کا جہاں ہے، اسی کا مکان ہے، جھلسانے والی لُو، تپتی ہوئی ریت، جلے ہوئے گرم پہاڑ، یہ اور اسی قسم کی چیزوں پر اس غیر ذی زرع وادی کی بنیاد ہے اور انہیں تباہیوں سے یہ بِن کھیتی کا بیابان آباد ہے، جو باطل پروردگاروں کی بندگی سے مسجودِ ملائکہ کی ذریّت کو رستگاری بخشنے آیا تھا، اس کے دعویٰ تجربی ثبوت اس شکل میں کس درجہ بے نقاب ہو کر سامنے آیا جب اسی سرزمین سے اٹھا کر دنیا کو دعوت دیتا ہے، کیا اس کی دعوت میں زور اس لیے پیدا ہوتا کہ وہ کشمیر کی گل ریز کیاریوں، سویٹزرلینڈ کی نزہت انگیز وادیوں، شام کے فواکہ خیز باغوں سے عالم کو پکارتا یا ایسی بے آب و گیاہ سرزمین سے۔‘‘
تو مطلب یہ ہے کہ پھر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی ظاہری سبب تھا وہ اس کو پہلے مٹا دیا تاکہ کسی کو یہ نہ موقع ملے کہ اس وجہ سے آپ ﷺ آپ ﷺ ہیں، ظاہری تمام چیزیں، رکاوٹیں ہٹا دیں، یعنی پہلے ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، حالانکہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، پھر تھوڑے ہی عرصہ میں ماں فوت ہوگئیں، پھر عبدالمطلب صاحب جو ظاہر ہے ان کو پالنے والے تھے، وہ دنیا سے اٹھ گئے، پھر ابوطالب صاحب جن کے بارے میں لوگ کہتے ہیں انہوں نے ان کی پرورش کی، فرمایا کیا پرورش کی، بلکہ آپ ﷺ جو کماتے تھے وہ ابوطالب صاحب کے کام آتا تھا، اس میں یہ لکھا ہے۔ تو مقصد یہ ہے کہ حضرت نے اس چیز میں اس انداز میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جیسے امی محض پیدا فرمایا تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ انہوں نے کسی اور کی بات کو لیا ہے، اتنے امی تھے آپ ﷺ کہ معاہدہ صلح حدیبیہ کا ہورہا ہے، تو جو سہیل تھا وہ جو مشرکین کی طرف سے تھا، اس نے اعتراض کیا کہ محمد رسول اللہ نہ کہو، کیونکہ اسی پہ تو اختلاف ہے، یہ محمد رسول اللہ کاٹو، صرف محمد بن عبداللہ کہو۔ تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضرت مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا، میں آپ کا نام نہیں کاٹ سکتا، تو آپ ﷺ نے فرمایا اچھا کدھر لکھا ہے؟ یعنی خود اپنے نام کو لکھا ہوا نہیں پڑھ سکتے تھے، کہاں لکھا ہوا ہے؟ تو ان کو جو ہے باقاعدہ جو ہے ناں مطلب انگلی وہاں پر لے جا کے پھر ان کے اوپر جو ہے ناں وہ کیا، اس کو جو ہے ناں محمد بن عبداللہ کیا، یہ ایسی بات ہے، لیکن ادب دیکھو ایک بہت بڑا ادب ہے، یعنی ہم اکثر لوگوں کو بتاتے ہیں، میں نے کہا بھئی ادب سیکھو آپ ﷺ سے، یہ مہر نبوت ہے، اس میں محمد، رسول، اللہ۔ عربی کا قاعدہ یا دائیں سے بائیں ہوتا ہے یا اوپر سے نیچے ہوتا ہے، نیچے سے اوپر نہیں ہوتا، نیچے سے اوپر نہیں ہوتا، یا اوپر سے نیچے ہوتا ہے یا دائیں سے بائیں ہوتا ہے، نہ یہ دائیں سے بائیں ہے نہ اوپر سے نیچے ہے، کیسے ہے؟ محمد نیچے لکھا ہوا ہے، حالانکہ پہلا نام ہے، اس کے بعد رسول ہے، اس کے بعد پھر اللہ ہے اوپر، ایسے لکھا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ یعنی دیکھیں، یعنی یہ باوجود اس کے کہ امی محض، لیکن کیا بات ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ بھی تھا جیسے اللہ کے قرآن نے کہا کہ جو کچھ آپ ﷺ نے فرمایا وہ وحی سے ہے جو آپ کو وحی ہوا تھا، ان کی طرف کوئی چیز منسوب نہیں، اگر منسوب تھا اس کی correction کردی، اس کو وہیں نہیں رہنے دیا گیا، بلکہ اس کی correction ہوگئی یا اس کو قبول کرلیا گیا یا اس کو تبدیل کرلیا گیا، لیکن یہ ہے کہ ہر چیز پہ وحی کا اثر آپ ﷺ کا، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ جو ہے اس چیز کو ہمیں سامنے لانا چاہیے، آپ ﷺ کی وہ محبت جو ہمیں اللہ کی محبت تک پہنچائے، وہ تو آپ ﷺ کی محبت ہے، اور آپ ﷺ کی وہ محبت جو ہمیں اللہ تک نہ پہنچائے، یہ آپ ﷺ کی محبت نہیں ہے، یہ آپ ﷺ کی محبت نہیں ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا کہ جو آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرے اور اس کے ذریعہ سے وہ اللہ تک نہ پہنچے، وہ اپنا عاشق ہے، وہ حضور کا عاشق نہیں ہے، بس یہی بڑی بات ہے۔ اس وقت ہم دیکھیں کہ آپ ﷺ کا نام تو لیا جاتا ہے، لیکن اس سے اس طرف نہیں جایا جاتا جہاں جانا چاہیے، پاس ہی نعتیں بڑے زور سے پڑھی جارہی ہیں، اِدھر اللہ پاک کی عبادت کی جاتی ہے مسجد میں، توفیق نہیں ہوتی کہ مسجد کے اندر جائیں اور نماز پڑھیں، ہوتی ہے یا نہیں ہوتی؟ نہیں ہوتی، کیسی محبت ہے آپ ﷺ کی؟ یہ محبت اپنی ذات کی محبت ہے، اپنا عشق ہے، اپنے نفس کا عشق ہے، اس کا آپ ﷺ کی محبت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اس وجہ سے ہمیں صحیح محبت پیدا کرنی چاہیے، ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ربیع الاول کی پہلے چھٹی ہوا کرتی تھی 12 ربیع الاول کو، اب بھی شاید ہو اس دفعہ لیکن پہلے چھٹی ہوا کرتی تھی، تو جب ہمیں چھٹی ملتی تو ہم اپنے شیخ کی خدمت میں چلے جاتے اور موقع مل جاتا، تو اس طرح 12 ربیع الاول کو ہم چلے گئے حضرت کے پاس، حضرت عام بیان فرماتے، کوئی خاص بات نہیں تھی جیسے حضرت کا عام طریقہ تھا، درمیان میں فرمایا ہم عید میلاد نہیں مناتے، لیکن خود عید میلاد بن جاتے ہیں، ہم عید میلاد نہیں مناتے لیکن خود عید میلاد بن جاتے ہیں، یعنی آپ ﷺ کی محبت کا غلبہ ایسا ہوجاتا ہے کہ وہ ہر چیز اس میں رنگی جاتی ہے، تو یہ بات تو صحیح ہے، ہمارے تمام اکابر کو اس وقت وہ بات ہوتی ہے، مطلب جو ہے ناں محبت کی بات ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن نمائشی انداز میں نہیں کہ وہ جھنڈا گاڑیں کہ ہم آپ ﷺ کے عاشق ہیں اور ایسے ہیں اور ایسے ہیں اور نعرے لگائیں، بھئی نعرے نہ لگاؤ، اپنے دل کے اوپر محنت کرو، اس کو اللہ پاک کا تابع بنا دو، اللہ کا عبد بنا دو اور آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلنے والا بنا دو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۔
۔ (الانبیاء: 107) ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
۔ (الم نشرح: 4) ترجمہ: ’’اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔‘‘
۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘
۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث: 32442) ترجمہ: میں بھیجی ہوئی رحمت ہوں۔‘‘
۔ (المائدہ: 3) ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔‘‘
۔ (الحشر: 21) ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم اسے دیکھتے کہ وہ اللہ کے رعب سے جھکا جارہا ہے، اور پھٹا پڑتا ہے۔‘‘
۔ (الحشر: 21)
۔ (یس: 1-4) ترجمہ: ’’یس۔ حکمت بھرے قرآن کی قسم تم یقیناً پیغمبروں میں سے ہو۔ بالکل سیدھے راستے پر۔‘‘
۔ (الضحیٰ: 1-2) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر) قسم ہے چڑھتے دن کی روشنی کی۔ اور رات کی جب اس کا اندھیرا بیٹھ جائے۔‘‘
۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
۔ (الفجر: 27-30) ترجمہ: ’’(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں۔ اور داخل ہوجا میری جنت میں‘‘۔
۔ (الم نشرح: 4) ترجمہ: ’’اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔‘‘
۔ (الصف: 6) ترجمہ: ’’جس کا نام احمد ہے۔‘‘
۔ (آل عمران: 31) (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘