توحید، سلوک اور نسبت طہارت

درس نمبر 6 (یہ بیان 10 اکتوبر 2019 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھمحضرت مفتی محمد صدیق صاحب دامت برکاتھمحضرت شیخ حافظ جلال محمود صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب "ہمعات" کے درس پر مبنی ہے، جس میں توحیدِ افعالی، توحیدِ صفاتی، اور توحیدِ ذاتی کی حقیقتوں کو واضح کیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق، طریقت کے مراحل طے کرنے کے بعد سالک کے سامنے "جذب" اور "سلوک" کی راہیں کھلتی ہیں۔ "جذب" وہ کیفیت ہے جس میں وجود کے تعینات کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور سالک اپنی "انا" کے مبدأ اول کی طرف لوٹ جاتا ہے، جبکہ "سلوک" سے مراد خضوع، طہارت اور عشق جیسی نفسی کیفیات کو اپنے اندر پیدا کرنا ہے۔ توحیدِ افعالی کے ذریعے سالک تمام کائنات کو ایک ذات کے فعل کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ توحیدِ صفاتی میں ایک ہی اصل کو مختلف مظاہر میں جلوہ گر دیکھنا شامل ہے، اور توحیدِ ذاتی وہ مقام ہے جہاں سالک کی نظر میں صرف اصل وجود ہی رہ جاتا ہے۔ بیان میں نسبتِ طہارت پر خاص زور دیا گیا ہے، جسے روحانیت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اس کے حصول کے طریقے اور اس کے اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، نیز روحانیت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی ایک کیفیت قرار دیا گیا ہے۔  

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ہمارے ہاں آج کل ’’ہمعات‘‘ جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب ہے، اس کا درس ہوتا ہے۔ آج ان شاء اللہ توحیدِ افعالی، توحیدِ صفاتی، توحیدِ ذاتی کے بارے میں بات ہوگی۔

توحیدِ افعالی۔ توحیدِ صفاتی۔ توحیدِ ذاتی:

راہ طریقت کے ان مراحل کو طے کرلینے کے بعد جب "بے نشانی" یا "بے رنگی" کی حقیقت کو سالک ایک حد تک پا لے تو اس کے سامنے دو راہیں کھلتی ہیں۔ ایک "جذب" کی راہ اور دوسری "سلوک" کی راہ۔ اس مقام پر مرشد کو اختیار ہے کہ اگر مناسب سمجھے تو سالک کو "جذب" کے راستے پر چلائے اور اگر چاہے تو اسے "سلوک" کے راستے پر ڈال دے۔ اس میں شک نہیں کہ تمام اکابر مشائخ کے نزدیک "صاحبِ جذب" کو "صاحبِ سلوک" پر ترجیح حاصل ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر راہ نورد طریقت کو بلا استثنا "سلوک" کی بجائے "جذب" کی راہ پر چلانا چاہیے، بعض سالک ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی طبیعت کو "راہِ سلوک" سے زیادہ مناسبت ہوتی ہے۔ اس لئے ان کے لئے تو "سلوک" ہی کی راہ قابل ترجیح ہوگی۔ لیکن بعض سالک ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی فطری استعداد "جذب" کا تقاضا کرتی ہے۔ چنانچہ ان کے لئے جذب کا راستہ اچھا رہتا ہے۔

جذب سے یہاں وہ کیفیت مراد نہیں جس میں کہ سالک کا دل عالمِ غیب کی طرف یکسر متوجہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کے دماغ سے ادھر ادھر کے خیالات بالکل نکل جاتے ہیں۔ اس کی عقل اپنا کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور وہ شریعت کے احکام اور معاشرت کے آداب سے بالاتر ہوجاتا ہے۔ یہاں جذب سے مراد وہ حالت ہے جس میں کہ وجود کے تعینات کے یہ پردے جن کا کہ سلسلہ اس کائنات سے لے کر ذات باری تک جو حقیقۃ الحقائق ہے، پھیلا ہوا ہے، سالک کی نظروں کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔ چنانچہ اس جذب ہی کی طفیل انسانی "انا" میں یہ استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اس مقامِ اصلی کی طرف لوٹ جاتا ہے جو اس انا کا مبداءِ اول ہے اور یہاں سے اس انا کا صدور ہوا ہے۔ غرض یہ کہ جذب سے سالک کی نظروں میں اجزائے وجود تحلیل ہوجاتے ہیں اور اس کے سامنے یہ تعیناتِ وجود کے پردے اٹھ جاتے ہیں۔ باقی رہا سلوک، سو اس سے مراد خضوع، طہارت اور عشق وغیرہ کی نفسی کیفیات میں سالک کا اپنے آپ کو رنگنا یا ان کیفیات کو اپنے اندر پیدا کرنا ہے۔

’’جذب‘‘ کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ سالک جب اجمالی طور پر عالم غیب سے آشنا ہوجائے تو مرشد کو چاہیے کہ اس سے زبانی یا قلبی ذکر بکثرت کروائے اور اس دوران میں سالک اپنی چشمِ بصیرت کو عالمِ غیب کی طرف برابر لگائے رکھے اور وہ اپنے دل کو بھی پوری طرح ادھر متوجہ کردے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر سالک چند روز عالم غیب کی طرف اس طرح توجہ کرے گا تو یقیناً اس پر "توحیدِ افعالی" کی حقیقت منکشف ہوجائے گی اور وہ محض فکر یا خیال سے "توحیدِ افعالی" کی حقیقت کا ادراک نہیں کرے گا۔ بلکہ اس پر یہ حالت طاری ہوجائے گی کہ وہ کل عالم اور اس کی تمام حرکت اور نمو کو ایک شخص واحد کی تدبیر کا اثر اور ایک ذات کے فعل کا نتیجہ سمجھے گا۔ اور اس کو عالم کی تمام حرکات و سکنات یوں نظر آئیں گی جیسے کہ پتلیوں کا تماشا ہوتا ہے کہ بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ پتلیاں از خود چل پھر رہی ہیں، لیکن اصل میں ان کے پیچھے پتلی والا بیٹھا ہوتا ہے جو تار سے سب پتلیوں کو حرکت دیتا ہے۔ اگر سالک پہلے ہی سے "توحیدِ افعالی" کا معتقد ہے تو اس شغل سے اس پر فوراً ہی توحیدِ افعالی کے اثرات نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً اس میں توکل کی صفت پیدا ہوجاتی ہے اور اپنے سارے معاملات اللہ کے حوالے کردیتا ہے۔ نیز وہ موت، زندگی، شفاء اور مرض کو ان کے جو اسباب و عوارض ہیں، ان میں منحصر نہیں سمجھتا بلکہ ’’کُلٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ‘‘ کا قائل ہوجاتا ہے، لیکن اس توکل کے یہ معنی نہیں کہ وہ اسباب و نتائج کا سلسلہ کو ہی بالائے طاق رکھ دے۔ اسباب و نتائج کا سلسلہ تو اللہ کی سنت ہے اور اس پر کار بند ہونا شریعت کی طرف سے فرض ہے۔ اگر سالک پہلے سے توحیدِ افعالی کا معتقد نہ ہو تو جذب سے توحیدِ افعالی کا عقیدہ وجدانی طور پر اس کے اندر پیدا ہوجاتا ہے۔

توحیدِ افعالی کے ضمن میں عالم کے جملہ افعال اور اعمال کو تدبیرِ خداوندی کی طرف منسوب کرنے میں اگر اس بات کا خیال رہے کہ سالک عمومی افعال اور کلی حوادث جیسے کہ فقر، غنا، شفا، مرض، موت، زندگی، عزت اور ذلت وغیرہ ہیں، ان کو وہ اللہ کی طرف منسوب کرے تو یہ مناسب اور عمدہ طریقہ ہے۔ باقی رہا یہ کہ درختوں کے پتوں کے ایک ایک ذرے میں اور اس طرح کی اور چھوٹی چھوٹی چیزوں میں تصرف و تغیر کا جو عمل جاری ہے، اس کو بھی اس ضمن میں دیکھنا ہمارے نزدیک "توحیدِ افعالی" کے اصل مقصد میں داخل نہیں، اگرچہ سالکانِ راہِ طریقت کو اکثر ان امور سے سابقہ پڑتا ہے۔ مشائخ اس منزل میں سالک کو کبھی ذکر کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اسے اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ وہ ذکر میں "لا فاعل فی الوجود الا اللہ" یعنی کائنات میں خدا کے سوا اور کوئی موثر و فاعل ذات نہیں ہے، کو ملحوظ نظر رکھے۔ اس سے دراصل ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سالک کو توحیدِ افعالی کی کیفیت جلد سے جلد حاصل ہوجائے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ ذکر و اذکار میں محض اس خیال کو ملحوظ نظر رکھنے سے کہ وجود کائنات میں اللہ کے سوا اور کوئی ذات موثر و فاعل نہیں، سالک کو توحیدِ افعالی کی نسبت حاصل نہیں ہوجاتی۔

بہرحال جس شخص کو توحیدِ افعالی کی نسبت حاصل ہوجائے وہ ناسوت یعنی عالمِ مادیات کو اپنے سامنے یوں پاتا ہے جیسے کہ وہ عالمِ غیب کا سایہ اور ظل ہے۔ اب ایک عقلمند آدمی کی مثال لیجئے اگر وہ سایے کو حرکت کرتا ہوا دیکھتا ہے تو وہ بلا کسی شک و شبہ کے بدایۃً اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ کوئی جسم موجود ہے، جس کا کہ میں سایہ دیکھ رہا ہوں۔ بعینہ یہی کیفیت اس شخص کی ہوتی ہے کہ جسے توحیدِ افعالی کی نسبت حاصل ہو۔

یہ شخص جب اس دنیا میں جس کو کہ وہ عالم غیب کا سایہ اور ظل سمجھتا ہے، اعمال و افعال ہوتے دیکھتا ہے تو یقیناً اسے وہ تدبیرِ غیبی نظر آجاتی ہے، جو ان سب اعمال و افعال کے پیچھے کام کررہی ہے۔

توحیدِ افعالی اس راہ کا پہلا قدم ہے۔ اس کے بعد توحیدِ صفاتی کا مرتبہ آتا ہے۔ توحیدِ صفاتی سے مراد یہ ہے کہ سالک مختلف صورتوں اور مظاہر میں صرف ایک اصل کو جلوہ گر دیکھے۔ اور بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات کا بداہۃً جان لے کہ سارے کے سارے اختلافات ایک ہی اصل میں ثابت اور موجود ہیں اور پھر وہ اس اصل کو نوع بنوع صورتوں میں جلوہ گر بھی دیکھے۔ اور ہر جگہ اس اصل کو پہچانے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کہ کوئی شخص نوعِ انسان کے تمام افراد میں ایک انسان کلی کا مشاہدہ کرتا ہے یا وہ موم کی مختلف مورتوں میں ایک ہی موم کی جنس کو ہر مورت میں موجود پاتا ہے۔ الغرض یہ ایک اصل جو وجود کے ہر مظہر میں اور کائنات کی ہر شکل میں مشترک ہے۔ سالک کو چاہیے کہ وہ اس اصل کو ہر چیز میں بے رنگ دیکھے اور کسی مظہر کے مخصوص رنگ کو اس میں موثر نہ مانے۔

یعنی اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کہ روشنی آ رہی ہے اور وہ مختلف آئینوں پہ پڑ رہی ہے جو مختلف رنگ کے ہیں، تو وہ رنگ اس کو نظر آئے گا۔ سرخ بھی نظر آئے گا، سبز بھی آئے گا، زرد بھی آئے گا، لیکن وہ ان رنگوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ سمجھے گا کہ اصل روشنی تو بے رنگ ہے۔ یہ صرف ان آئینوں کی اپنی اپنی وہ ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف نظر آتے ہیں، ورنہ یہ ہے کہ روشنی تو اصل میں ایک ہی ہے۔ گویا کہ ان سب، یعنی اس روشنی نے سب کو منور کیا ہوا ہے، لیکن ان کے اپنے اپنے رنگ جدا جدا ہیں، لیکن اصل میں اس میں ایک ہی روشنی آئی ہے، تو یہ گویا کہ اس طرح ہے۔ اچھا۔

سالک کو چاہیے کہ وہ اس اصل کو ہر چیز میں بے رنگ دیکھے اور کسی مظہر کے مخصوص رنگ کو اس میں موثر نہ مانے، لیکن اس کے ساتھ ہی سالک کو اس حقیقت سے بھی بے خبر نہ رہنا چاہیے کہ اس اصل کی یہ بے رنگی اور بعد میں اس نے مختلف مظاہر میں جو الگ الگ صورتیں اور گونا گوں رنگ اختیار کیے ہیں، ان دونوں حالتوں میں کوئی تضاد نہیں۔ اور اصل کی یہ بے رنگی اس امر میں مانع نہیں کہ یہی اصل مختلف صورتوں اور مختلف رنگوں میں ظہور پذیر نہ ہو۔ لیکن سالک کو ایک اصل کی یہ بے رنگی اور ہمہ رنگی محض غور و فکر کے ذریعہ نہیں بلکہ وجدانی طور پر اور بداہۃً مشاہدہ کرنی چاہیے۔

یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہوتا ہے عقل کے ذریعے سے اس بات کو حاصل کرنا، وہ تو انسان مانتا ہے، جیسے کسی چیز کا علم ہو تو اس کو اس طرح دیکھے۔ لیکن ایک اس حال کے درجہ میں اس کا پتا لگ جائے، یعنی اس کو محسوس کرنے لگے کہ ایسا ہی ہے، اس کو کسی دلیل کی ضرورت نہ ہو، بلکہ ایسا ہو جیسے واقعتاً اس کو دیکھ رہا ہے۔ یعنی علم الیقین سے عین الیقین کی کیفیت۔

بہرحال ایک ہی اصل کو وجود کے ہر مظہر میں دیکھنا یا غور و فکر کے ذریعہ ہوتا ہے یا وجدانی طور پر اور بداہۃً اور مشاہدۂ اصل کے یہ دونوں مقام باہم ملے جلے ہیں۔ جہاں ایک ختم ہوتا ہے وہیں سے دوسرے مقام کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس راہ میں بعض سالک تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ ساری عمر مشاہدۂ فکری کے مقام میں رہتے ہیں اور اس سے آگے کبھی ان کو ترقی نصیب نہیں ہوتی۔ لیکن جو سالک قویّ المحبت اور ذکی الذہن ہو وہ ان حالات کے بعد پوری طرح اس ایک اصل کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ اور ان مختلف صور اور اشکال کی طرف مطلق التفات نہیں کرتا۔ وہ وجود کی کثرت اور مظاہر کی بو قلمونی سے اپنی نظر اس طرح پھیر لیتا ہے گویا وہ انہیں بالکل بھول ہی گیا۔

خدا تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لئے یہ مقدر ہوچکا ہے کہ وہ اپنے انا میں جو عبارت ہے، ان کی "ہویت" سے توحیدِ صفاتی کا جلوہ دیکھیں یعنی ان کے لئے یہ انا آئینہ بنتا ہے اس اصل وجود کا جس کے مختلف مظاہرِ کائنات میں ظہور فرمایا ہے۔ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ جب سالک اپنے انا پر نظر کرتا ہے تو اس کی نظر اپنے انا تک رک نہیں جاتی بلکہ وہ اس انا کے واسطے سے اصل وجود تک، جو سب اناؤں کا مبدأ اول ہے، پہنچ جاتی ہے۔ اور جب سالک اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کی نظر میں صرف اصل وجود ہی رہ جاتا ہے۔

یعنی ﴿وَفِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ1

اور یہ تمام کے تمام مظاہر و اشکال بیچ سے غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ توحید ذاتی کا مقام ہے۔ لیکن جہاں کہیں ازلی ذوق کے ضمن میں توحیدِ ذاتی کا نام آتا ہے تو اس سے مراد ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جو اچک لینے والی بجلی کی طرح چمکتی ہے اور پھر چشمِ زدن میں غائب ہوجاتی ہے۔ بہرحال یہاں ہم جس توحیدِ ذاتی کا ذکر کررہے ہیں یہ سلوک کے مقامات میں سے ایک مقام ہے۔ جہاں کہ سالک آکر قرار پذیر ہوتا ہے۔

عام طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ سالک پہلے توحید افعالی کی نسبت حاصل کرتا ہے، پھر اس سے توحیدِ صفاتی کے مقام پر پہنچتا ہے اور وہاں سے وہ توحید ذاتی کا مرتبہ حاصل کرتا ہے، لیکن بعض سالک توحید افعالی سے براہ راست ایک جست میں توحید ذاتی تک پہنچ جاتے ہیں اور انہیں اس راہ میں توحید صفاتی سے گزرنا نہیں پڑتا۔ لیکن یہ چیز بہت کم سالکوں کے حصے میں آتی ہے۔ قصہ مختصر جب سالک توحید ذاتی کی نسبت حاصل کرلیتا ہے تو پھر وہ بلاتاخیر بے نشانی یاد داشت اور ذکرِ خفیہ کی نسبت کو پہنچ جاتا ہے۔ اس نسبت کی حقیقت یہ ہے کہ سالک حقیقۃ الحقائق یعنی ذات باری کی طرف کلیۃً ملتفت ہوجاتا ہے، چنانچہ جب سالک اس مقام پر پہنچ جائے تو اسے چاہیے کہ کچھ مدت اس مقام پر ٹھہرے، اور اپنے آپ کو ہر خیال اور ہر جہت سے مجرد کرکے پوری ہمت سے زیادہ سے زیادہ شغل اور وظیفہ کرے اور نسبتِ بے نشانی کی اصل حقیقت کی طرف اس طرح متوجہ ہو کہ اس پر یہ بات منکشف ہوجائے کہ یہی ایک حقیقت ہے جس سے ایک "خاص تعین" نے صادر ہو کر سالک کی "ھویت" یعنی اس کے انا پر نزول کیا۔ اور نیز اس کے انا پر حقیقتِ ازلی کے اس تعینِ خاص کے نزول ہی کا نتیجہ ہے کہ اسے بقا حاصل ہوتی ہے۔ یہ مقام راہِ جذب کی آخری منزل ہے۔

اس ضمن میں چند نکات کا جاننا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ جب سالک پر اس قسم کی وحدت منکشف ہوجائے تو اسے یہ یقین کرلینا چاہیے کہ اس کی جذب کی راہ طے ہوچکی، خواہ وہ اس مرحلہ پر توحید وجودی کا معتقد ہو یا نہ ہو۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سالک توحید افعالی سے توحید صفاتی حاصل کرتا ہے اور اس منزل سے جب وہ آگے بڑھتا ہے تو توحید ذاتی میں پہنچتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر وہ اس معاملے کی توجیہ یوں کرتا ہے کہ پہلے میں مغلوبیت کی حالت میں تھا اور میں نے ذات واجب کو جو ہر شے کی قیوم ہے، ممکن کے ساتھ اتحاد کی نسبت دے دی تھی، بالکل اسی طرح جس طرح کہ کوئی شخص خواب میں درندے کو دیکھتا ہے اور وہاں درندے کا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہ خواب دیکھنے والے کی اپنی غضبی قوت ہوتی ہے جو اسے درندے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ سالک جب اس مقام سے ترقی کرتا ہے تو پھر یہ حقیقت اس کے لئے بالکل منزہ ہوجاتی ہے۔ اور اس وقت وہ سمجھ جاتا ہے کہ تشبیہ کے مقام سے وہ تنزیہ کے مقام میں پہنچ گیا اور تشبیہ سے اس نے خلاصی حاصل کرلی۔ اب ایک اور سالک ہے، اور اس کو بھی یہی کیفیت پیش آتی ہے وہ اس کی توجیہ اس طرح کرتا ہے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کائنات کے ہر ذرہ میں ذات باری کا جلوہ ساری و جاری ہے۔ اب جو میں نے ذاتِ واجب کو ممکن کے ساتھ بصورتِ اتحاد دیکھا تو یہ ایک پردہ ہوا دوسرے پردہ کا، جس کو فقط میری نظر دیکھتی ہے ورنہ جہاں تک اصل کا تعلق ہے، وہ ان سب تشبیہات سے منزہ ہے۔

ان نکات میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ راہ سب کے نزدیک مسلم ہے اور اولیائے کاملین سے ہر ایک کو اس راہ سے گزرنا پڑتا ہے گو ان مقامات کی تعبیر میں ان میں آپس میں اختلاف ہے۔

عِبَارَاتُنَا شَتّٰى وَحُسْنُكَ وَاحِدٌ

وَكُلٌّ إِلٰى ذَاكَ الْجَمَالِ يُشِيرُ

لیکن قویّ المعرفة اور ذکی الذہن آدمی اگر چاہے تو ان اولیاء کے کلام کا حاصلِ مطلب سمجھ سکتا ہے۔ اور ان کی تعبیرات میں جو اختلاف ہے وہ ان سب کو ایک اصل کی طرف مرکوز بھی کرسکتا ہے۔ مزید برآں اولیاء میں آپس میں محض تعبیرات کا اختلاف نہیں ہوتا، بلکہ اس راہ کو طے کرنے کے مقامات میں بھی ان میں اختلاف ہوتا ہے۔ بعض ایک مقام پر تھوڑی دیر رکتے ہیں اور بعض کو زیادہ دیر وہاں ٹھہرنا پڑتا ہے، اسی طرح جیسے جیسے ان کی استعداد ہوتی ہے اسی کے مطابق ان کو مختلف احوال اور واقعات بھی پیش آتے ہیں۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اس فقیر کو بتایا گیا کہ شریعت میں سلوک کی راہ کی تو وضاحت کی گئی ہے، لیکن راہ جذب کو بیان نہیں کیا گیا۔ جس طرح کہ شریعت میں اسمِ اعظم اور لیلۃ القدر کی تصریح نہیں کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود جو لوگ شارع علیہ السلام کے اقوال کو راہِ جذب پر محمول کرتے ہیں، تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی علم النحو کی مشہور کتاب کافیہ ابن حاجب سے تصوف کے قوانین اخذ کرے۔ باقی رہا راہ سلوک کا معاملہ، سو اس کا لب لباب یہ ہے کہ سالک اپنے ملکات میں سے کوئی ملکہ اپنے اندر اس طرح پیدا کرے کہ وہ ملکہ اس کی روح کو پوری طرح احاطہ کرے اور سالک اس کے رنگ میں اس طرح رنگا جائے کہ اس کا جینا ہو تو اسی حال میں اور وہ مرے تو اسی حال میں مرے۔

چو میرد مبتلا میرد چو خیزد مبتلا خیزد

اس راہ میں جو کیفیت اور حالت سالک کے نفس میں اس طرح جاگزیں ہوجاتی ہے گویا کہ وہ اس کی ذات کے لئے لازمی خصوصیت بن گئی، اسے نسبت کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے اولیاء کے بہت سے مسالک ہیں۔ اس سلسلہ میں فقیر نے باطنی طور پر عالمِ ارواح کی طرف توجہ کی اور تصوف کے ہر طریقہ کی جدا جدا نسبت کا ادراک کیا اور نیز یہ نسبتیں کیسے حاصل ہوں؟ میں نے یہ چیز بھی بذریعہ الہام معلوم کی۔ چنانچہ آئندہ صفحات میں میں اس ضمن میں کچھ لکھتا ہوں۔

نسبتوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم راہ جذب سے زیادہ مشابہ ہے گویا کہ وہ ظل ہے جذب کا اور دوسری قسم راہِ وظیفہ و اوراد سے زیادہ قریب ہے گویا کہ وہ اس کا حاصل اور خلاصہ ہے۔ بعض سلف نے نسبت کی اس قسم کو "نسبتِ علمیہ" کا بھی نام دیا ہے۔

اس دوسری قسم میں سے ایک "انوارِ طہارت" کی نسبت ہے۔ اس کی نسبت کی حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص غسل کرتا ہے اور اپنے بدن سے ناپاکی دور کرتا ہے اور وضو کرکے صاف کپڑے پہنتا اور خوشبو لگاتا ہے تو اسے اپنے اندر ایک خاص قسم کا سرور اور انس محسوس ہوتا ہے، یہ سرور و انس کا احساس اس شخص کے طبعی قویٰ کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ اثر اور پرتو ہوتا ہے نفس کی ملکی قوت کا، جب یہ شخص بار بار اس کیفیت سے بہرہ مند ہوتا ہے تو اس شخص کا نفس اس کیفیت کو بطور ایک ملکہ کے اپنا لیتا ہے۔ اور یہ کیفیت اس کے لئے ایک مستقل خصوصیت بن جاتی ہے۔ عارف اس کیفیت کو پہچانتا اور اس سے لذت اندوز ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کے برعکس جب وہ ناپاک ہوتا ہے یا اس کا بدن اور اس کے کپڑے نجس ہوتے ہیں تو اس کی وجہ سے اس شخص کو انقباض اور وحشت ہوتی ہے اور اس کے دل میں قلق اور عزم و ارادہ میں انتشار و پراگندگی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے دماغ میں طرح طرح کے تشویشناک خیالات اٹھتے ہیں، لیکن جونہی وہ اعمال طہارت بجا لاتا ہے تو فوراً ہی اس پر وہی سرور و انس کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ اپنے اندر پہلے کا سا سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے۔ الغرض جب یہ شخص طہارت کا حاصل سرور و انس کی شکل میں اور ناپاکی کا اثر رنج و وحشت کی صورت میں جان لیتا ہے اور وہ ایک سے لذت پاتا ہے اور دوسری چیز سے اسے اذیت ہوتی ہے، تو طبعاً اس کا میلان اس طرف ہوگا کہ وہ طہارت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرے اور طہارت سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کو زیادہ سے زیادہ اپنے پیش نظر رکھے اور وضو اور غسل پر ہمیشہ کار بند رہے۔

یہ ماشاء اللہ بہت عمدہ بحث ہے، اس میں حضرت نے ایک مثال دی ہے۔ ایک ہوتی ہے نجاستِ حقیقی اور ایک ہوتی ہے نجاست حکمی۔ سب جانتے ہیں۔ نجاست حقیقی یہ ہوتی ہے کہ جو انسان کو گندگی لگ جائے تو اس کو دور کرتا ہے، یہ نجاستِ حقیقی ہوتی ہے۔ نجاست حکمی، جس سے انسان کا وضو ٹوٹتا ہے، اب اس میں جیسے مثال کے طور پر کسی شخص کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، تو وضو ٹوٹنے کی جو جگہیں ہیں، تو گویا نجاست اس کو touch کر گئی ناں، لیکن اس کو پورے جسم میں ناپاکی کا ادراک ہوتا ہے۔ یہ نجاست حکمی کا ایک مطلب جو ہے ناں، وہ اثر ہے روحانی۔ اب اس کا ادراک جو لوگ کرتے ہیں، تو ان کو بعض دفعہ چین نہیں آتا جب تک کہ وضو نہیں کرلیں، مطلب وہ باوضو رہتا ہے اور باوضو رہنے میں اس کی جو روح ہے، وہ خوش ہوتی ہے اور سرور حاصل کرتی ہے۔ اور اس کا یہ سرور جو ہے ناں، مطلب اس کو خود محسوس کرتا ہے، تو گویا کہ وہ علم سے حال کے درجہ میں پہنچ گیا۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ یعنی جو علمی جو وہ ہے، کیونکہ علم تو اس کو مطلب ہے، لیکن وہ حال کے درجہ میں اس نے محسوس کرلیا، تو اس کیفیت کو جب کوئی حاصل کرلیتا ہے، تو پھر ظاہر ہے، مطلب اس کا وہ خیال بھی رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے واقعی روحانی جو مدارج ہیں، ان کو حاصل بھی ہوتے ہیں، مثال کے طور پر، جو شخص۔۔۔۔ کہتے ہیں وضو جو ہے ناں، ’’الْوُضُوْءُ سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ‘‘ وضو مومن کا اسلحہ ہے۔ اب مثال کے طور پر، جو وضو کرتا ہے اور اس کو ظاہر ہے کہ اپنا اسلحہ سمجھتا ہے، روحانی کیفیت حاصل کرلے، تو اس کے اندر جو خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ یہ بڑا عجیب واقعہ ہے، شاہ جہان بادشاہ، اورنگزیب بادشاہ کے والد، اور ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ ان کے استاد تھے۔ ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا، ان دنوں شاہ جہان بادشاہ نے ریشمی کپڑے پہننے شروع کیے۔ ریشمی، یا جو بھی ہوں، بادشاہ بادشاہ ہوتے ہیں۔ تو چونکہ ریشمی کپڑا یہ مردوں کے لئے منع ہے، اس کی ایک محدود مقدار جائز ہوتی ہے، لیکن اس سے زیادہ جو ہے ناں، منع ہوتی ہے فقہی لحاظ سے۔ تو کسی نے ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ کے نوٹس میں یہ بات لانی چاہی، تو ان سے پوچھا کہ کوئی ریشمی کپڑا پہنے تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ سمجھ گئے کہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا، اچھا ٹھیک ہے، یہ آپ مجھ سے اس وقت پوچھیں جب میں جمعہ کے خطبہ دینے کے لئے ممبر پر بیٹھ جاؤں۔ جب میں جمعہ کے دن ممبر پر بیٹھ جاؤں خطبہ دینے، اس وقت مجھ سے پوچھنا۔ کہا، ٹھیک ہے۔ تو جب ممبر پہ بیٹھ گئے، تو وہ شخص کھڑا ہوگیا، انہوں نے کہا، حضرت جس نے، ریشمی کپڑا مردوں نے پہنا ہو تو ان کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا، حرام ہے، جو اس کو حلال سمجھتا ہے کافر ہے۔ حکم بھی یہی ہے، کیونکہ حرام کو کوئی حلال سمجھتا ہے تو کافر ہوجاتا ہے، حرام کو حرام سمجھ کے کرنا گناہ ہے اور حرام ہے، لیکن حرام کو حلال سمجھ کے کرنا، اس نے تو حکم ہی تبدیل کرلیا۔ اس نے اللہ کی بات گویا قبول ہی نہیں کی، تو وہ تو کفر ہی ہے۔ تو حکم دے دیا کہ مطلب یہ حرام ہے اور جو حرام کو حلال، مطلب جو اس کو حلال سمجھتا ہے، تو کافر ہے۔ اب CID والوں نے خبر پہنچا دی۔ ادھر سے انہوں نے ان کے warrant گرفتاری جاری کردیئے۔ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ موجود ہیں، اپنے والد کو warrant گرفتاری جاری کرتے ہوئے دیکھ لیا اور فوراً ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ۔ (ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ کو جانتے ہیں کون ہیں؟ نورالانوار کے جو ہیں ناں وہ ہیں) وہ یہ ہے کہ انہوں نے فوراً مطلب اپنے استاد جی کے پاس آگئے کہ حضرت غضب ہوگیا، آپ کے warrant گرفتاری جاری ہوئے ہیں، کیونکہ ادھر والد تھے، ادھر استاد تھے۔ انہوں نے کہا، اچھا، چلو میرا مصلیٰ اور لوٹا لے آؤ۔ لوٹے سے وضو کرلیا اور مصلے کے اوپر کھڑے ہوگئے۔ کہا، اب آنے دو۔ اب اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ صرف ان کے بیٹے نہیں تھے، ان کے شاگرد بھی تھے، مطلب جانتے تھے ان کے مقام کو۔ تو ڈر گئے کہ اب تو میرے والد کی شامت آگئی، کیونکہ یہ تو مسلح ہوگئے۔ یعنی اس کا جو اسلحہ ہے، وہ تو اس نے کرلیا ناں، حاصل کرلیا۔ اب یہ مسلح ہوگئے تو میرے والد کی خیر نہیں ہے۔ تو فوراً دوڑ کے اپنے والد کے پاس گئے۔ جیسے اپنے استاد کے پاس آگئے تھے، تو اپنے والد کے پاس دوڑ کے چلے گئے کہ حضرت غضب ہوگیا، وہ مسلح ہوگئے۔ اس نے وضو کرلیا اور مصلے پہ کھڑے ہوگئے۔ تو انہوں نے فوراً اپنا حکم واپس لے لیا، خلعت ان کے، مطلب جو ہے ناں، مطلب ان کے ہاتھ بھیج دی، معافی مانگی اور مسئلہ رفع دفع ہوگیا۔ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں؟ اب یہ جو وہ کیفیت ہے، جو اس کو حاصل تھی روحانیت کی۔ اصل میں پتا نہیں روحانیت لوگ کس چیز کو سمجھتے ہیں، آج کل یہ بھی بڑا مسئلہ ہے۔ روحانیت کی definition لوگوں نے change کرلی ہے۔ روحانیت کس کو کہتے ہیں؟ روحانیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی ایک کیفیت ہے، اس کو روحانیت کہتے ہیں۔ کیوںکہ روح کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے۔ روح کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے، نفس کا تعلق ہمارے ساتھ ہے۔ روح کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں، گویا کہ روح جو ہے ناں، ہمارے پاس اللہ پاک کا نمائندہ ہے۔ اب اگر مطلب ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق حاصل کرنا چاہیں، تو وہ روح ہی اس کا ایک ذریعہ ہے، اپنے جسم سے اگر آپ نکل سکتے ہیں، تو روح کا بن جاؤ، تو جسم سے نکل جاؤ گے۔ کیونکہ ابھی آپ کے اوپر اپنا جسم طاری ہے، یعنی آپ جسم کی باتیں مان رہے ہیں۔ آپ کو بھوک لگ گئی، آپ نے بھوک مٹانے کی کوشش کی۔ آپ کو پیاس لگ گئی، تو پیاس مٹانے کی کوشش کی۔ آپ کو نیند آگئی تو نیند پوری کرنے کی، یہ جسم کے تقاضے ہیں۔ تو شریعت نے اس کی باقاعدہ جائز مقداریں مقرر کی ہیں، نہیں کہ مطلب اس سے انکار ہے، کیونکہ جسم ’’وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا‘‘2 حدیث شریف ہے کہ تمھارے نفس کا بھی تمھارے اوپر حق ہے۔ تو کیا ہے؟ ان کے جائز جو مقدار ہے شریعت نے مقرر کی ہے، اس کا مطلب ہے۔ لیکن شریعت نے نفس کو یہ آزادی نہیں دی کہ وہ جو مرضی چاہے کرے۔ یہ اجازت نہیں دی ہے، بلکہ اس کے لئے مطلب جس کو کہتے ہیں، domains اور dimensions مقرر کیے ہیں، حدود مقرر کی ہیں۔ ﴿تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِؕ﴾3 جس کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے کہ مطلب یہ اللہ کے حدود ہیں، ان کو cross نہ کرو۔ تو اب یہ جو ہے ناں، مطلب حدود اللہ پاک نے مقرر تو کی ہیں ناں۔ تو اب یہ ہے کہ نفس جب حدود کو cross کرتا ہے، تو وہاں پابندی ہے۔ اب نفس بار بار حدود کو cross کرے گا، تو یہ تو بالکل انسان کو مردود بنا دے گا۔ تو اس وجہ سے اللہ پاک نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے سورۃ شمس میں: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾4 یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص، جس نے اپنے نفس کو ان تمام رذائل سے پاک کرلیا۔ جو اللہ کے مقابلہ میں بار بار آتا ہے، اس چیز کو دبا دیا۔ کیونکہ نفس کا جو بھی تقاضا اللہ کے مقابلہ کے لئے آپ کو کھڑا کرتا ہے، تو یہ تو تباہی ہے۔ تو اگر آپ نے اس کو دبایا نہیں، تو کسی نہ کسی وقت غرق کردے گا ناں، کسی نہ کسی وقت کوئی ایسا کام آپ سے کروا دے گا، جو مطلب آپ کو تباہی کی طرف لے جائے گا، جیسے شیطان سے ہوا، تو اس طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ وہ چونکہ خطرناک ہے، لہٰذا اس کا ایک مستقل بندوبست کرنا چاہیے ہوتا ہے، تاکہ یہ چیز نہ رہے۔ اس کو کہتے ہیں اصلاحِ نفس اور نفس کی تربیت۔ یعنی نفس کو آپ اس طرح tame کرلیں کہ یہ اتنا سر ہی نہ اٹھا سکے، کہ مطلب یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کھڑا کردے۔ ٹھیک ہے آپ کی ضرورت کو پورا کرلے، کیونکہ نفس کو اللہ تعالیٰ نے ضرورت کا احساس کا بھی دیا ہوا ہے۔ لہٰذا آپ کو بھوک لگے گی تو نفس کی وجہ سے لگے گی، روح کی وجہ سے نہیں لگے گی۔ آپ کو جو ہے ناں، مطلب بھوک نفس کی وجہ سے لگے گی۔ آپ کو نیند کی ضرورت نفس کی وجہ سے ہوگی۔ آپ کو شادی کی ضرورت نفس کی وجہ سے ہوگی۔ یہ تمام چیزوں میں اللہ کی حکمتیں ہیں۔ ﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾5 اس میں حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ لیکن آگے جاکر ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾6 میں limit بیان کی کہ یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص، جس نے اپنے نفس کے ان تقاضوں کو دبا دیا، جو اللہ کے مقابلے میں کھڑے کرنے والے ہیں۔ ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾7 اور یقیناً تباہ و برباد ہوگیا وہ شخص جو ایسا نہ کرسکا، یعنی جس نے اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دیا، جو کرنا چاہتا تو کرنے دیا۔ حدیث شریف میں بھی بالکل یہی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے، عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا۔ نفس کو ختم کیا والی بات نہیں ہے، بعض لوگ کہتے ہیں نفس مر گیا۔ نفس مرتا نہیں ہے، نفس قابو میں آتا ہے۔ کیوں؟ جانور کو ہم مارتے ہیں یا قابو میں کرتے ہیں؟ اگر اس سے کام لیتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟ جانور کو قابو میں کرتے ہیں، ٹھیک ہے ناں۔ تو جس طرح جانوروں کو قابو کیا جاتا ہے، اس طرح نفس کو بھی قابو کرنا ہوتا ہے، بلکہ جانوروں کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ استعمال آپ تب کرسکتے ہیں، جب آپ کے قابو میں ہوں۔ آپ نماز پڑھیں گے تو نماز آپ کی روح تو نہیں پڑھے گی ناں، نفس آپ کا جسم ہی پڑھے گا ناں۔ کیونکہ جب انسان فوت ہوجائے تو روح تو اس کی باقی ہے، تو کیا وہ نماز پڑھتی ہے۔ اس کے اوپر نماز پڑھنے کا حکم تو نہیں ہے۔ نماز پڑھنے کا حکم اس وقت ہے، جس وقت انسان کا جسم بھی موجود ہے، یعنی نفس بھی موجود ہے۔ تو گویا کہ شریعت کا نفاذ نفس کے اوپر ہوتا ہے، لیکن روح کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ شریعت کا حکم، شریعت کا جو نفاذ ہے، وہ نفس کے اوپر ہوتا ہے، لیکن روح کے ذریعہ ہوتا ہے۔ تو روح پر وہی روحانیت ہے کہ آپ روح کو، مطلب روح کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ہونے دیں، جیسا کہ پہلے تھا، ایسا ہونے دیں کہ تاکہ آپ کے لئے وہ ذریعہ بن جائے اللہ تعالیٰ سے لینے کا۔ آپ کے لئے ذریعہ بن جائے اور نفس کے اوپر اس کو۔۔۔۔ یہی وہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہے کہ جب عارف، مطلب جو ہے ناں، اس مقام پہ پہنچ جاتا ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ سے روح کے ذریعہ سے لیتا ہے اور نفس کے ذریعہ سے دیتا ہے، یعنی نفس کے ذریعہ سے implement کرتا ہے اور روح کے ذریعہ سے اللہ پاک سے لیتا ہے۔ connection روح کے ذریعہ سے بنتا ہے۔ تو اب اسی connection کو بنانے کا نام روحانیت ہے۔ تو جو روحانیت کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے، جو مطلب روحانیت کو حاصل کرلیتا ہے، وہ معاملہ دوسرا ہوتا ہے۔ وہ ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ کا معاملہ ایسا تھا۔ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کو اس کا پتا تھا۔ لہٰذا وہ ڈر گئے اور اپنے والد صاحب کے پاس چلے گئے کہ غضب ہوگیا، یہ تو مسلح ہوگئے، تو ان کو بھی پتا تو تھا، ملا جیون صاحب کی روحانیت کا تو پتا تھا۔ تو انہوں نے فوراً جو ہے ناں، مطلب رجوع کرلیا اور ان کے لئے جو ہے ناں مطلب خلعت بھیج دی اور معافی کی درخواست کی اور ما شاء اللہ اپنے حکم کو واپس لے لیا۔ تو یہی اصل میں بنیادی بات ہے۔ تو یہ جو جیسے میں طہارت کی بات کررہا تھا کہ طہارت بھی ایک روحانیت کی طرف۔۔۔۔ کیونکہ یہ نجاست حکمی روح کے ذریعہ سے ہے، یہ روحانیت کے ذریعہ سے ہے۔ کیونکہ روحانیت اس کا ادراک کرتی ہے، جسم اس کا ادراک نہیں کرتا۔ جسم تو حقیقی نجاست کا ادراک کرسکتا ہے، اس کا کرسکتا ہے، لیکن وہ جو روحانیت ہے، وہ اس کا نجاست حکمی کا ادراک بھی کرسکتا ہے۔ تو یہ فرمایا کہ:

نسبتِ طہارت کے حصول اور دل میں اس نسبت کے جاگزیں ہونے کی علامت یہ ہے کہ سالک پر ملکی واقعات بڑی کثرت سے ظاہر ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ اپنے سامنے انوار کو روشن پاتا ہے اور اپنے دل اور منہ میں سورج اور چاند کو داخل ہوتے دیکھتا ہے۔

یہ اصل میں میں جو پڑھ رہا ہوں، یہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے "ہمعات"، مطلب یہ ہے کہ شہرۂ آفاق کتاب ہے اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ جو تھے، یہ قرآن کے اور حدیث کے بہت بڑے عالم تھے۔ قرآن کا پہلا ترجمہ فارسی زبان میں جو کیا ہے، حضرت نے کیا ہے۔ اس سے پہلے ترجمہ کا وجود ہی نہیں تھا، کسی زبان میں ترجمہ نہیں ہوا تھا، بلکہ لوگوں کو عربی سیکھنی پڑتی تھی، یعنی عالم اس کو کہتے جس کو عربی آتی ہوتی تھی۔ تو ظاہر ہے مطلب ہے کہ یہ ان کو عربی جب تک نہیں آتی، تو وہ قرآن سے استفادہ نہیں کرسکتے تھے۔ تو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے لوگوں کے اس ضعف کو دیکھ کر کہ اب سب لوگ عالم تو بن نہیں سکتے، تو ان کے لئے کوئی درمیان کی صورت پیدا ہوجائے کہ ان کے لئے ترجمے کا ہو، کہ مطلب ترجمہ یعنی فارسی زبان میں کیا اور پھر احادیث شریفہ میں ان کا اتنا بلند مقام ہے کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے اکثر حصوں میں اگر آپ کو حدیث شریف کا علم ملتا ہے، تو ان میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا نام ضرور ہوتا ہے۔ یعنی سند کے لحاظ سے۔ یہ ہند و پاک میں تو ہے ہی، لیکن مطلب یہ ہے کہ اگر باہر بھی دیکھا جائے، ترکی میں دیکھا جائے، ماوراء النہر کو دیکھا جائے اور دوسری جگہوں پہ دیکھا جائے، تو یہ بھی مطلب اکثر ان میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا جو ہے ناں وہ، کیونکہ ان کے شاگرد پورے عالم کے اندر پھیل گئے تھے، لہٰذا حدیث شریف کا علم بھی، اور ساتھ ساتھ یہ تصوف کا علم بھی حضرت مطلب جو ہے ناں، اس میں بہت ہی زیادہ تھے اور اپنے صدی کے مجدد بھی تھے۔ مجدد سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی، مطلب ظاہر ہے، وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں mix ہوجاتی ہیں، یعنی حق اور باطل میں تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے، چیزیں تبدیل ہوجاتی ہیں، تو یعنی لوگ دین کو بے دینی سمجھنے لگتے ہیں اور بے دینی کو دین سمجھنے لگتے ہیں۔ misunderstanding جس کو ہم کہتے ہیں، مطلب وہ ہوجاتی ہے، تو کوئی مجدد پھر آتا ہے سو سال میں، جو اس misunderstanding کو ختم کرتا ہے اور صحیح ڈگر پر پھر دوبارہ سب کو لاتا ہے کہ یہ دین ہے اور یہ دین نہیں ہے، یہ صحیح ہے اور یہ غلط ہے۔ مطلب اس کے بارے میں یعنی تمیز کرنا سکھا دیتا ہے۔ تو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ نعمت حاصل تھی، جیسے کہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل تھی کہ انہوں نے حق کو حق بتایا اور باطل کو باطل بتا دیا۔ حدیث شریف میں اس کی دعا ہے باقاعدہ: "اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقّاً وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَهٗ"8۔ اے اللہ ہمیں حق حق دکھا دے اور اس کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، باطل باطل دکھا دے، اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ تو حق کا حق نظر آنا اور باطل کا باطل نظر آنا، بہت بڑی achievement ہے، جو مجدد اس معاملہ میں بہت آگے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن کو اپنے وقت کے مجدد کے ساتھ جس کو ہوتی ہے، یعنی مناسبت، وہ بہت ہی ہشاش بشاش رہتا ہے، پریشانی اس کو نہیں آتی۔ یعنی گویا کہ دین اس پہ صحیح صورت میں ظاہر ہوتا ہے، confusion کا شکار نہیں ہوتا۔ کیونکہ بہت سارے لوگ confuse ہوتے ہیں، مطلب جیسے مثال کے طور پر، کسی چیز کے بارے میں اس کو یہ پتا نہ ہو کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہے، جائز ہے یا ناجائز ہے، تو confuse ہی رہے گا ناں۔ اب ظاہر ہے، وہ جرات نہیں کرسکے گا۔ مثال کے طور پر آپ جاتے ہیں کسی جگہ پہ اور آپ کو راستہ کا پتا نہ ہو کہ اس طرف جانا ہے یا اس طرف جانا ہے، تو آپ اگرچہ دونوں راستوں پہ جاسکتے ہیں، لیکن confusion کے ساتھ جائیں گے ناں، آپ مطلب clear mind کے ساتھ تو اس میں نہیں جاسکتے، جب تک آپ کو علم نہ ہو کہ کون سا راستہ صحیح ہے اور کون سا راستہ غلط ہے، اس وقت تک آپ کو confusion ہوگی۔ تو اس confusion سے بچانے کے لئے جو حضرات تشریف لاتے ہیں، وہ ان کو مجددین کہتے ہیں اور صدی میں اللہ تعالیٰ ایک صاحب کو پیدا فرماتے ہیں، جو کہ مطلب یہ کام کرتے ہیں۔ تو یہ تقریباً یعنی چار صدیاں جو ہوئی ہیں، ان میں sub-continent کو اللہ پاک نے یہ نعمت عطا فرمائی ہے کہ یہاں پر یہ نعمت transfer ہوگئی کہ مجددین یہاں پر آئے اور اس کا مجھے اَلْحَمْدُ للہ ایک عجیب طریقہ سے شرح صدر ہوا۔ میں جرمنی میں تھا، جرمنی میں وہاں پر عرب حضرات ہوتے تھے، تو ظاہر ہے پڑھنے کے لئے آتے تھے اور کچھ کام کرنے کے لئے آتے تھے، کیونکہ مراکش وغیرہ بھی قریب ہے، تیونس اور یہ علاقے قریب ہیں، تو لوگ مطلب آتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے asylum بھی لی ہوئی تھی، مطلب اس وجہ سے اس لئے وہ آئے ہوئے ہیں۔ تو ان عربوں کا ایک حلقہ ہوتا تھا، جس میں میں بیٹھتا تھا، کیونکہ ظاہر ہے، دین کے لئے انسان کو کچھ نہ کچھ society کی ضرورت ہوتی ہے، community کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو مجھے بھی جب پتا چل گیا، تو میں بھی ان کے ساتھ بیٹھنے لگا۔ تو ان کے ہاں طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ایک شخص باقاعدہ ایک مضمون کی تیاری کرکے ہفتے میں، پھر اس مضمون کے اوپر بیان کرتے، پھر اس کے اوپر باقاعدہ لوگ questions کرتے، اس کے وہ جوابات دیتے اور تعلیقات بھی، تعلیقات comments کو کہتے ہیں، یعنی comment کوئی کرنا چاہتا تو یہ چیز ٹھیک ہے، یہ چیز غلط ہے، اس میں فلاں ہے، فلاں بات اس طرح ہے، تو اس کو تعلیق کہتے ہیں، تو یہ مطلب بھی ایسا ہوتا تھا۔ تو یہ عرب حضرات میں تھوڑی سی گرمی زیادہ ہے، مطلب یہ کہ غصہ بھی ہوجاتے ہیں، آپس میں الجھ بھی جاتے ہیں، تو مصری اور یہ تیونس والے، اس قسم کے، ظاہر ہے، گرم مزاج ہیں۔ تو ایسا ہوتا تھا کہ ان کی آپس میں الجھ جاتے، الجھ جاتے، تو ان کی گردن کی رگیں تن جاتیں اور چہرے سرخ ہوجاتے discussion میں، تو میں ہاتھ کھڑا کردیا، "عِنْدَیْ تَعْلِیْقٌ"، تو وہ کہتے شیخ کیا؟ تو مجھے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، جو اس صدی کے مجدد ہیں، ان کی کوئی نہ کوئی quotation سمجھ میں آجاتی، مطلب گویا کہ میں ان کے، حضرت کا ملفوظات بھی پڑھ چکا تھا، مواعظ بھی پڑھ چکا تھا، مجھے کوئی نہ کوئی quotation یاد آجاتی حضرت کی، تو میں ان کی زبان میں اس کو translate کرکے German language میں یا انگریزی میں، وہ مطلب جو ہے ناں، مطلب ان کو بتا دیتا۔ تو بس دونوں طرف مان جاتے، "عِنْدَکَ حَقٌ یَا شَیْخٌ" اور بات ختم ہوجاتی۔ اور یہ تقریباً ہر ہفتے ایسا ہونے لگا کہ کوئی نہ کوئی بات میں ان کا اختلاف اور پھر مجھے اللہ تعالیٰ یاد دلاتے، تو میں کہہ دیتا اور فوراً وہ کہتے اور بات ختم ہوجاتی۔ جب ہر ہفتے ہونے لگا، تو کچھ عرصہ کے بعد وہ سمجھے کہ شیخ کوئی بہت بڑا علامہ ہے، جن کو ساری چیزوں کا پتا ہے۔ تو مجھے بہت زیادہ regard کرنے لگے اور کافی مطلب ادب کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ بھئی یہ معاملہ تو غلط ہوگیا، اب ظاہر ہے، میں تو کسی عالم کی بات کررہا ہوں، میری بات تو نہیں ہے، تو ان کو آپ حق بتانا چاہیے کہ یہ میری بات نہیں ہے، تو فلاں صاحب کی بات ہے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ایک موقع مجھے بھی دیں، میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ کہتے ہیں شیخ ہم تو خود چاہتے ہیں، آپ ہمیں کچھ بات بتائیں۔ لیکن آپ نے کہا تھا کہ میں عربی جانتا تو ہوں، لیکن میں عربی میں بات نہیں کرسکتا، یعنی مشکل ہے، روانی نہیں ہے۔ تو اس وجہ سے ہمارا قانون چونکہ ایک ہے کہ عربی میں بات ہو اور آپ کہتے ہیں کہ اس میں مشکل ہے، تو اس وجہ سے معذوری ہے۔ ورنہ ہم تو چاہتے ہیں کہ آپ کچھ بات کرلیں۔ میں نے کہا کہ ان شاء اللہ میں کوشش کروں گا کہ کسی نہ کسی طریقہ سے عربی زبان میں کچھ بات کرلوں۔ کہتے ہیں کس موضوع پہ کریں گے؟ میں نے کہا کہ تصوف پہ۔ تو تصوف ان کے لئے ایک ایسا جیسے شجرہ ممنوعہ ہوتا ہے ناں، تو اچھل پڑے، کہتے ہیں کہ کیا کہیں گے تصوف میں؟ میں نے کہا کہ ابھی کہوں یا اس وقت کہوں؟ تو سمجھ گئے، کہتے ہیں نہیں نہیں! بس ٹھیک ہے جی، آپ اس وقت کہیں اور اعلان کردیا کہ شیخ ان شاء اللہ اگلے ہفتے تصوف کے موضوع پر بات کریں گے۔ منتظر رہنے لگے اور بلکہ کچھ اور لوگوں کو بھی پتا چل گیا، وہ بھی آگئے۔ بھئی تصوف پہ کیا کیا بات ہوگی۔ اچھا، جس وقت میں نے بات شروع کی، تو میں نے پہلے یہ بات کی، میں نے کہا کہ دیکھو، بات سنو، یہ آپ حضرات سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں میری ہیں، یہ آپ لوگوں کی غلط فہمی ہے، یہ میری نہیں ہیں۔ یہ ہند میں ایک عالم گزرے ہیں، جن کا نام ہے مولانا اشرف علی تھانوی، یہ میں آپ کو ان کی باتیں بتا رہا ہوں۔ تو دور بیٹھے ہوئے تھے، پروفیسر تھے ایک عرب، سعودی عرب کے، بحرین یونیورسٹی کے پروفیسر تھے، وہ visit پہ آئے تھے، تو اس نے فوراً کہا: "عِنْدَکَ حَقٌ یَا شَیْخٌ"، آپ صحیح کہتے ہیں، ہم بھی جانتے ہیں کہ اصل علم اہلِ ہند کے پاس ہے، یہ دیکھو اس کے الفاظ ہیں، بحرین یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی جانتے ہیں کہ اصل علم اہل ہند کے پاس ہے، ہمارے پاس سطحی باتیں ہیں، آپ ان کی عربی کتابیں مجھے بتا دیں تاکہ میں اپنی لائبریری کے لئے وہ خرید لوں۔ اور جو سمیر عمودی، جو ان کے صدر جلسہ تھے، وہ تو اتنے متاثر ہوئے کہ اس نے باقاعدہ۔۔۔۔ اچھا خیر، بیان پھر میں تصوف پہ کرلیا۔ تصوف پہ جب میں نے بیان کرلیا، بیس منٹ بیان میں نے کیا ہوگا، اب یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بیس منٹ کے بیان میں سب کی زبان سے بیک وقت جو لفظ نکلا، وہ کیا ہے؟ اگر یہ تصوف ہے تو پھر ہم سب صوفی ہیں۔ اگر یہ تصوف ہے، جو آپ نے تصوف کی بارے میں بات کی، تو پھر ہم سب صوفی ہیں۔ میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے، آپ صوفی ہیں۔ اچھا پھر سمیر عمودی جو تھے، جو صدر جلسہ تھے، وہ میرے پاس آئے اور پھر کہا کہ میرے لئے بھی شیخ ڈھونڈیں، میں بھی اس راستہ پہ جانا چاہتا ہوں۔ پھر میں نے ان کو اپنے شیخ، مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا address دے دیا، اس لئے کہ وہ عربی department کا چیئرمین تھا، تو میں نے کہا کہ کم از کم عربی میں تو ان کے ساتھ conversation کرسکے گا۔ تو ان کا نام میں نے اس لئے دیا۔ پھر انہوں نے حضرت کو خط بھی لکھا تھا۔ بہرحال یہ ہے کہ ان کو پتا چل گیا، تو ایک دن وہ بہت خوش خوش میرے پاس آئے سمیر عمودی، کہتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا ہے۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ خانہ کعبہ کی جدید تعمیر ہورہی ہے، خانہ کعبہ کی جدید تعمیر ہورہی ہے، اور ایک بزرگ تشریف لائے ہیں، تو لوگ کہتے ہیں، یہ مولانا اشرف علی تھانوی آرہے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہاں ہاں، میں ان کو جانتا ہوں، میں ان کو جانتا ہوں، میں ان کو جانتا ہوں۔ میں نے کہا سبحان اللہ، یہ تو اللہ پاک نے دکھا دیا، کیونکہ خانہ کعبہ کی جدید تعمیر تجدید ہے ناں، مجددیت ہے ناں، تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آپ کو گویا کہ اشارہ ہوگیا کہ وہ ہیں، اور میں ان کو جانتا ہوں، اس کا مطلب ہے کہ آپ کو ان شاء اللہ حضرت کا فیض ملے گا، ما شاء اللہ۔ بہرحال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بہت اچھی طرح ما شاء اللہ ادھر بات ہوگئی۔ وہاں پر کچھ حضرات تھے، ذرہ تھوڑے سے جو نہیں ہوتے؟ rigid لوگ ہوتے ہیں، تین آدمی تھے صرف، وہ میرے سخت خلاف ہوگئے کہ یہ سب society کو ہم سے لے لیا، مطلب خلاف ہوگئے، لیکن سامنے نہیں آتے تھے، بلکہ پیچھے پیچھے، اندر اندر بات کرتے تھے، میرے سامنے کچھ نہیں کہتے تھے، لیکن وہ سمیر عمودی کے سامنے چونکہ بات ہوتی، وہ مجھے بتاتے تھے، میں نے کہا بھئی آپ جواب نہ دیا کریں، بس ان کو کہنے دیں جو کچھ بھی کہتا ہے، تو کہنے دیں۔ شیخ عبد اللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ، یہ اسلامی یونیورسٹی کے یہاں پروفیسر تھے اور چونکہ میرا بھائی بھی ادھر پڑھ رہا تھا، تو ان کے استاد تھے، لہٰذا میرا ان کے ساتھ ملنا جلنا بھی ان کی وجہ سے تھا۔ بلکہ ایک دفعہ گھر میں دعوت بھی کی تھی ہماری کھانے کی، تو مجھے وہ جانتے تھے، اس وجہ سے۔ خیر! وہ آئے وہاں جرمنی میں، اپنے visit پہ آئے، تو انہوں نے سمیر عمودی سے کہا کہ آپ کے پاس اگر نمازوں کے اوقات کا کوئی نقشہ ہو تو مجھے دے دیں تاکہ میں نماز پڑھ سکوں اس کے ذریعہ سے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایک شیخ پاکستانی ہے، اس کا نقشہ ہے، اگر وہ چاہیں تو۔ کہتے ہیں کون ہے؟ کہتے ہیں شبیر احمد کاکاخیل۔ تو مجھے چونکہ جانتے، کہتے ہیں ہاں اگر ہے تو بس ٹھیک ہے، ان کا دیا ہوا بالکل صحیح ہوگا۔ اب وہ جو حضرات تھے، تین، بڑے rigid، وہ ادھر موجود تھے، تو کافی پریشان ہوگئے کہ شیخ بھی ان کا معتقد نکلا۔ تو انہوں نے کہا، شیخ وہ صوفی ہے۔ تو ان کا، جو مجھے تصوف کی وجہ سے تو نہیں جانتے تھے، میرے بھائی کے لحاظ سے جانتے تھے، کہتے ہیں وہ صوفی کیسے ہے؟ حیرت سے کہا۔ ’نَعَمْ صُوْفِیٌ یَتَکَلَّمُ عَلٰی التَّصَوُّفِ‘‘ تو انہوں نے کہا کہ، کہتے ہیں میں نے فوراً لقمہ دیا، میں نے کہا: ’’نَعَمْ ھُوَ صُوْفِیٌ وَلٰکِنْ مِنْ تَلَامِیْذِ مَوْلَانَا اَشْرَفْ عَلِیْ‘‘ یعنی وہ صوفی ہے، لیکن وہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ اثر میں سے ہے، بس حضرت تو ان کو جانتے تھے، چونکہ پاکستان میں رہ رہے تھے، کہتے ہیں: ’’اِذَا ھُوَ مِنْ تَلَامِیْذِ مَوْلَانَا اَشْرَفْ عَلِیْ، عَالِمٌ جَیِّدٌ وَعَالِمٌ حَقٌ لَیْسَ ھُوَ کَانَ صُوْفِیٌّ، أَنْتُمْ تَظُنُّوْنَ‘‘ وہ جو ہے ناں، بس سبحان اللہ، پھر تو ان کی بات ہی ختم ہوگئی۔ کیونکہ ظاہر ہے، شیخ نے بالکل کھل کے بتایا کہ بھئی وہ اس طرح نہیں ہے، جس طرح تم تصوف کو جانتے ہو، وہ قرآن و سنت کے تصوف کو مانتے تھے اور میں ان کو صحیح مانتا ہوں، مطلب انہوں نے تفصیل بتائی، اس کے بعد تو انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ یہ چیز میں نے وہاں دیکھی ہے کہ دیکھیں، مسائل ان کے ہیں، حل کہاں سے مل رہا ہے؟ حل حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔۔ ہندوستان میں، چاہے انہوں نے دیکھا بھی نہیں ہوگا ان کے علاقے کو، لیکن حل کہاں سے مل رہا ہے؟ ہندوستان سے مل رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا، یہی مجدد کی شان ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے وہ تمام علاقوں میں، جس قسم کے بھی مسائل ہوں، اللہ پاک ان کے اوپر کھول لیتے ہیں، اور وہ جو ہے ناں، مطلب مسائل کو آسان کرلیتے ہیں، مشکلات ختم ہوجاتی ہیں اور اس طرح مطلب وہ دین کو سمجھ لیتے ہیں، خیر۔

نسبتِ طہارت کے حصول اور دل میں اس نسبت کے جاگزیں ہونے کی علامت یہ ہے کہ سالک پر ملکی واقعات بڑی کثرت سے ظاہر ہوتے ہیں مثلاً وہ اپنے سامنے انوار کو روشن پاتا ہے اور اپنے دل اور منہ میں سورج اور چاند کو داخل ہوتے دیکھتا ہے اور نیز وہ خود اپنے آپ کو بلور اور شفاف جواہر کی طرح پاتا ہے۔

مزید برآں اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ لذیذ کھانے کھا رہا ہے اور دودھ، گھی اور اس قسم کی اور لطیف چیزیں اسے میسر ہیں اور وہ ریشمی کپڑوں میں ملبوس باغات میں زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن اس حالت میں ضروری ہے کہ اسے اپنے دل میں اطمینان خوشی اور تازگی بھی محسوس ہو اور اس معاملے میں اس کی مثال ایسی ہو جیسے کہ بیداری میں بھوکے کو کھانا مل جائے تو اسے بڑا آرام ملتا ہے۔

میں نے آپ کو بتایا ناں کہ ہشاش بشاش، ہشاش بشاش کی گویا کہ تشریح ہے ناں۔

ان نسبتوں کے ضمن میں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے اکثر یہ نسبتیں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص نے نسبتِ عشق حاصل کی اور جب یہ شخص اسی نسبت کی فی الجملہ تکمیل کرلیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کےا ندر طہارت کی نسبت بھی خود بخود بیدار ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جب وہ اپنے اندر نسبتِ طہارت کے آثار پاتا ہے تو چونکہ اس کے حصول میں اس نے کوئی کوشش نہیں کی تھی اس لئے وہ اس کو محض عنایت الہٰی کی دَین سمجھتا ہے۔ اسی طرح نسبتِ طہارت والا جب ملائکہ سے پوری مناسبت پیدا کرلیتا ہے اور اپنے نفس کو بھی پاکیزہ بنا لیتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے دل پر اس کیفیت کے ساتھ ساتھ عشق و محبت کا بھی رنگ چڑھ جاتا ہے۔

اب میں آپ کو بتاتا ہوں، ملکی انوارات کی بات حضرت نے فرمائی۔ فرشتے پاک مخلوق ہیں، فرشتے پاک مخلوق ہیں، نفس ان کے ساتھ نہیں ہے۔ انسان کے ساتھ نفس کی گندگی شامل ہے۔ اس نفس کی گندگی کو دور کرنے کا ذریعہ اللہ پاک نے جو شریعت کے ذریعہ سے ہم تک وضو اور غسل کا بتا دیا۔ اب غسل جو ہے، یہ دیکھیں ناں، مثال کے طور پر، وہ اس نجاست کو دور کرنے کا تو نہیں ہے ناں جس کے لئے غسل کیا جاتا ہے، پورے جسم پہ پانی بہایا جاتا ہے کہ ایک بال بھی خشک نہ رہے۔ تو یہ کیا بات تھی، یعنی اس کے ذریعہ سے پورا جسم۔ اچھا، یہ بھی عجیب بات ہے، کتابوں میں پڑھ لیں، اگر وضو کوئی کرتا ہے اور بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ابتدا میں نہ کہے، اللہ کا نام نہ لے، تو اس کا وضو ہوجائے گا، لیکن وضو کی طہارت کی وہ چیز اس کو حاصل نہیں ہوگی۔ مطلب یوں کہہ سکتے ہیں، اس کے پورے جسم کے اندر جو طہارت کی کیفیت ہے، وہ اس کو حاصل نہیں ہوگی، کیونکہ اس نے اللہ کا نام۔۔۔۔ اللہ کا نام حکمی نجاست کو دور کرتا ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ باقی تو اس کے چہرہ کو صاف کرلے گا، ہاتھ کو صاف کرلے گا، تمام، لیکن جو اللہ کا نام لیتا ہے، وہ اس کو۔۔۔۔ جیسے ہم ذبح کرتے ہیں، تو ذبح کے بعد پھر ہم اللہ اکبر کہتے ہیں، تو اللہ اکبر کیا ہے، اس کو حلال کردیتا ہے، اس کے رگ رگ کو حلال کردیتا ہے۔ تو اللہ کا نام اتنا important ہے کہ باقاعدہ اس کے ذریعہ سے سارے کاموں کی ابتدا ہوتی ہے، ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘۔ تاکہ مطلب یہ تمام چیزیں اس کے اندر سرایت کر جائیں۔ یعنی اس کے لئے ذریعہ کیا ہے؟ روحانیت ذریعہ ہے اور روحانیت کا ذریعہ کیا ہے؟ اللہ کا ذکر۔ روحانیت کا ذریعہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ذکر۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نفس کو پاک کرنے کا جو طریقہ ہمیں اللہ پاک نے بتایا، ایک تو اللہ کا ذکر ہے، دوسرا غسل اور وضو ہے، اس کے ذریعہ سے ہم لوگ مطلب وہ کرسکتے ہیں۔ اب اگر کسی کو یہ طہارت، مطلب جو روحانی، مطلب وہ چیز حاصل ہوجائے، تو وہ ملائکہ کے ساتھ ان کو مناسبت ہوجاتی ہے، تو ملائکہ کی کیفیات ان کے اوپر طاری ہونے لگتی ہیں، جو ملائکہ کی کیفیات ہیں، ان کے اوپر طاری ہونے لگتی ہیں۔ اب وہ چیزیں اگرچہ ہوتیں نہیں اس میں، لیکن وہ چیزیں ان کو حاصل ہوجاتی ہیں، بغیر ان چیزوں کے وہ چیزیں ان کو حاصل ہوجاتی ہیں، پھر میں آپ کو کیا بتاؤں! حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب بات فرمائی ہے:

بینی اندر خود علومِ انبیاء بے کتاب و بے معید و اوستا

اپنے اندر علوم انبیاء کو دیکھو گے، بغیر کسی کتاب کے، بغیر کسی مدرسہ کے، بغیر کسی استاد کے۔ یہ بھی وہی بات ہے، چونکہ آپ کی عالمِ بالا کے ساتھ اگر مناسبت ہوگی، جو ملائکہ کی جگہ ہے، آپ کے ساتھ، تو وہاں سے جو علم اترتا ہے آپ کے قلب کے اوپر، اس کے ذرائع تو اور نہیں ہیں ناں۔ آپ نے تو کتاب کو بھی نہیں پڑھا، استاد کے بھی سامنے نہیں بیٹھے۔ اب یہ اللہ پاک کا ایک نظام ہے، علمِ لدنی جس کو کہتے ہیں، اللہ پاک کا ایک نظام ہے کہ عموماً اکثر علماء کو یہ علمِ لدنی بھی ساتھ علمی کسبی کے ذریعہ سے درمیان میں ڈال دیا جاتا ہے، لہٰذا اکثر لوگ اس کو نہیں پہچانتے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جس کو علمِ لدنی بھی حاصل ہوتا ہے، اس نے عالم نے بھی اتنی ہی کتابیں پڑھی ہوتی ہیں، جتنی دوسرے عالم نے پڑھی ہوتی ہیں، لیکن اس کا علم صرف کتابوں تک limited ہوتا ہے، اس عالم کا علم کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے اور وہ علماء بھی پھر اس کو جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے، یہ کہاں سے بول رہا ہے۔ مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس یہ اتنے علوم کہاں سے آئے، انہوں نے کہاں سے پڑھا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ بھئی، پڑھا تو اُدھر سے ہے، جہاں سے ہم نے بھی پڑھا ہے، لیکن کیا کریں، اللہ پاک بعض کے لئے سوئی کے ناکے کے برابر کھول لیتے ہیں، بعض کے لئے سمندر کے برابر کھول لیتے ہیں۔ اس کا کام ہے، جتنا کسی کے لئے اللہ پاک کھول دے۔ تو اب یہ جو چیز ہے، یہ بھی اللہ پاک کا ایک خصوصی نظام ہے، جس کے لئے عمومی ذرائع وہ نہیں اپنائے جاتے جو باقی لوگوں کے لئے apply ہوتے ہیں، کیوں؟ اس کا اللہ پاک کے ساتھ ایک خاص مقام ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص مقام کو پیدا کرنے کے لئے حضرت نے یہ بات شروع کی ہے، مطلب یہ ساری باتیں اسی کے لئے کررہے ہیں، اچھا۔

اسی طرح نسبتِ طہارت والا جب ملائکہ سے پوری مناسبت پیدا کرلیتا ہے اور اپنے نفس کو بھی پاکیزہ بنا لیتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے دل پر اس کیفیت کے ساتھ ساتھ عشق و محبت کا بھی رنگ چڑھ جاتا ہے۔

یعنی گویا کہ ایک طرف۔۔۔۔ جیسے آپ لاہور پہنچ گئے۔ اب لاہور پہنچ گئے تو لاہور موٹروے سے پہنچ گئے، یا جی ٹی روڈ سے پہنچ گئے، یا کسی اور راستے سے پہنچ گئے، by air پہنچ گئے، پہنچ تو لاہور گئے ناں۔ تو لاہور میں جو چیزیں ہیں، وہ ان کو بھی حاصل ہیں، ان کو بھی حاصل ہیں، سب کو حاصل ہیں۔ ذرائع مختلف ہیں، لیکن وہ مقصود تو ہر ایک کو پورا پورا حاصل ہے۔ اس طریقے سے جو اس راستے سے، عشق کے راستے سے گیا ہے، وہ بھی ٹھیک، طہارت کے راستے سے گیا، وہ بھی ٹھیک۔ کچھ اور مسائل، چیزیں بھی ہیں۔

چنانچہ اس سے نسبتِ عشق کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں، اس حالت میں وہ نسبتِ طہارت کے علاوہ اپنے اندر نسبت عشق کو اس طرح موجود پا کر سمجھتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی مزید عنایت ہے کہ مجھے خود بخود نسبتِ عشق حاصل ہوگئی۔ اسی طرح دوسری نسبتوں کو بھی قیاس کرلو۔ الغرض جن نسبتوں کو سالک اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کرتا ہے انہیں تو وہ ’’کسبی‘‘ نسبتیں سمجھتا ہے اور جن نسبتوں کے آثار ضمنی طور پر دوسری نسبتوں کے ساتھ ظاہر ہوجاتے ہیں انہیں وہ عطیۂ الہٰی قرار دیتا ہے۔ (ابھی میں نے علم لدنی کی بات کی ناں۔ عطیہ الہٰی قرار دیتا ہے) ﴿كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ (الروم: 32) ہر جماعت اپنی پونچی اور متاع پر نازاں ہوتی ہے۔

نسبت طہارت کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ سالک خلوت میں جائے، پھر غسل کرے، نئے کپڑے پہنے اور دو رکعت نماز پڑھے اور جیسا کہ ہم دل سے خیالات اور وسوسوں کو دور کرنے کے ضمن میں لکھ آئے ہیں، وہ "یا نور" کا ذکر کثرت سے کرے۔

اس کا بھی بتاتا ہوں، ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ فرمایا، آج کل گمراہی کے سایے بہت گہرے ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے آپ لوگ جب کبھی سینماؤں پہ، میوزک اسٹیشنز پر، اور گمراہی کے جو اڈے ہوتے ہیں، یا مندروں کے قریب قریب گزریں، تو ’’یَا ھَادِی، یَا نُوْرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ کی کثرت کریں۔ ورنہ وہاں کے شیاطین تمہیں بھی چپک لے جائیں گے، ورنہ وہاں کے شیاطین تمہیں بھی چپک جائیں گے۔ اچھا، اس کا تجربہ ہمیں ایسے ہوا کہ نوشہرہ، وہاں دو سینما ہیں۔ سکول کے لئے جانا جب ہوتا تھا، تو راستے میں وہ ہمارے آتا تھا۔ جب کبھی ہم نے ’’یَا ھَادِی، یَا نُوْرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پڑھا ہوتا، تو آرام سے گزر جاتے۔ لیکن جب کبھی بھول چکے ہوتے، جیسے مثال کے طور پر یاد نہیں ہے، خیال کسی اور طرف ہے، یا کسی سے باتوں میں مشغول ہیں اور نہیں پڑھا، تو کیا ہوتا، وسوسہ آتا، ذرا ان پوسٹروں کو تو دیکھ لو۔ پوسٹر لگے ہوتے ہیں ناں، مطلب وہ جو سینماؤں کے پوسٹر، ذرا ان پوسٹروں کو دیکھیں۔ اب پوسٹر کس لئے ہوتے ہیں؟ وہ دعوت ہوتی ہے ناں اس کی کہ ہماری فلم دیکھو، اس کی دعوت ہوتی ہے۔ اب اس میں بات یہ ہے کہ وہ جو پوسٹر ہے، دعوت کے لئے چونکہ بنا ہوتا ہے، تو شیطان سب سے پہلے کیا کرتا ہے؟ وہ آپ کو اس کی دعوت دیتا ہے کہ پوسٹر کو دیکھو، باقی دعوت پوسٹر دے گا۔ یعنی آپ کے لئے راستہ بنا لیتا ہے۔ اب وہ ہمیں مولانا صاحب کی بات یاد آتی، اوہو ہم نے تو یہ نہیں کیا۔ ہاں، مطلب ٹھیک ہے جی، یہی اصل میں بات ہے۔ ان بزرگوں کا کہتے ہیں کہ۔۔۔۔ کیا بات میں آپ کو بتاؤں، یہ فرماتے ہیں کہ:

یک زمانہ صحبت با اولیا

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

یہ بھی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہ ایک وقت، لمحہ، کسی مطلب جو ہے ناں وہ، مطلب جو ہے ناں وہ بزرگ کے ساتھ اگر مل جائے، اولیاء کے ساتھ مل جائے، تو آپ کی صد سالہ بے ریا طاعت سے آپ کے لئے بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ آپ نے صد سالہ طاعت بے ریا جو کی، اس پہ آپ کو عجب ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ میں نے اتنی عبادت کی، تو یہ آپ کو، آپ کی ساری چیز کو خراب کر سکتا ہے۔ لیکن جب کسی ولی کے سامنے جاؤ گے، تو وہ اپنے آپ کو ڈیپریس دیکھو گے، کہ یہ تو آپ ان کو بڑا سمجھو گے، خود اپنے آپ کو کم سمجھو گے، عجب کا خیال نہیں آئے گا، اس سے بچ جاؤ گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان حضرات کے ساتھ جب ہوتا ہے، تو انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا۔ اور جو فائدہ ان کو ہوتا ہے، تو انسان کہتا ہے ان کی برکت ہے یا ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔ تو انسان کی نظر اپنے اوپر نہیں ہوتی، ورنہ نظر ضرور اپنے اوپر پڑ جاتی ہے اور جس سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ تو میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ اسی طریقے سے ہمیں اللہ پاک اللہ والوں کے پاس جانا چاہیے، تاکہ یہ نسبتیں ہمیں ملتی رہیں۔ یہ فرمایا کہ۔

وہ "یا نور" کا ذکر کثرت سے کرے اور اسی طرح وہ بار بار غسل اور بار بار وضو کرے اور بار بار نماز پڑھے اور ذکر کرے اور پوری توجہ اور ہمت سے سوچے کہ اس کی حالت پہلے جیسی ہے یا اس میں کچھ فرق آگیا ہے۔ (یعنی یوں سمجھ لیں کہ دل سے کچھ پردے ہٹ گئے ہیں یا نہیں ہٹے) ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ دو تین گھڑی تک یہی عمل کرے گا تو اسے نسبت طہارت حاصل ہوجائے گی۔ جب نسبت طہارت اسے حاصل ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس نسبت کی حفاظت کرے اور جن چیزوں سے اس نسبت میں خلل واقع ہوتا ہے ان سے احتراز کرے۔

یہ میں آپ کو اس کی بات بتاتا ہوں، آج کل کے scientific دور کے لحاظ سے۔ ہم لوگ refrigerator میں thermostat لگاتے ہیں۔ thermostat کس لئے ہوتا ہے، کہ آپ نے ایک خاص temperature پہ اس کو set کیا، مثلاً 4-°C پر آپ نے set کرلیا۔ اب فریج میں جس وقت آپ نے کچھ گرم چیز رکھی، تو اس کا temperature تو زیادہ ہے، وہ مطلب ممکن ہے 30 ہو، 25 ہو، 30 ہو، جو بھی ہے، وہ اس کی وجہ سے پورے refrigerator کا temperature بڑھا دے گا، 4- سے ممکن 2- ہوجائے، 1- ہوجائے۔ اب یہ جو temperature بڑھ گیا، تو فریج کو signal مل گیا کہ جتنا set تھا وہ نہیں ہے، اس سے زیادہ ہے، نتیجاً وہ چلنا شروع کرلے گا، اس وقت تک چلے گا جب تک 4- نہیں آجاتا۔ جب تک 4- نہیں آجاتا۔ اب آپ نے فریج کے اندر thermostat جو رکھا، تو وہاں گویا کہ 4-°C کی temperature کی ضمانت ہے کہ یا 4-°C ہوگا، اس سے زیادہ نہیں ہوگا، یعنی آپ اس میں وہ چیزیں رکھ سکتے ہیں، 4-°C کی جو چیزیں ہوتی ہیں، وہ رکھ سکتے ہیں آپ۔ اسی طریقہ سے آپ کو نسبت طہارت اگر حاصل ہوگئی ایک خاص magnitude کی، پھر اگر آپ کہیں دوسری چیزوں میں مصروف ہوگئے، جیسے آنکھ کی طہارت نہ رہے، یعنی کوئی غلط چیز آدمی دیکھے، کان کی طہارت نہ رہے، یعنی کوئی غلط چیز آدمی سنے، زبان کی طہارت نہ رہے، کوئی غلط چیز زبان سے کہے، یا کوئی اور ایسی حرکت کرلے جس سے اس کی قلبی طہارت پہ فرق پڑ رہا ہو، تو کیا ہوگا، وہ system operate ہوجائے گا، جو اس کی طہارت کے لئے جو system ہے، وہ operate ہوجائے گا۔ اس وقت تک آپ ’’اَسْتَغْفِرُ الله، اَسْتَغْفِرُ الله، اَسْتَغْفِرُ الله، اَسْتَغْفِرُ الله‘‘، یا جو بھی اللہ پاک نے اس کے لئے نظام بنایا، وہ چلتا ہے، جب تک آپ حالت پہ پہنچ نہ جائیں۔ حدیث شریف میں اس کی مثال ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو مومن ہوتا ہے، اس سے اگر کوئی غلطی ہوجاتی ہے، تو ایسا ہوجاتا ہے جیسے اس کے اوپر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور جب تک رو دھو کر اللہ تعالیٰ سے پھر دوبارہ اپنا گزشتہ حال بحال نہیں کرواتا، اس وقت تک اس کو چین نہیں آتا۔ اور فاسق کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ اپنی اس چیز کو ایسا سمجھتا ہے جیسے کوئی مچھر آیا، اڑا دیا بس، مطلب اس کی پروا نہیں کرتا۔ مطلب گندی چیز پر گند آجائے، تو اس کو کیا پتا چلتا ہے کہ اس پہ گند آگیا۔ پاک جگہ پر، مطلب پاک کپڑے پر یا سفید جگہ پر اگر کوئی میل آتا ہے، تو اس کا پتا چل جاتا ہے ناں، لیکن اگر گندی جگہ ہو، تو گندی جگہ پر، اگر ہوا، ہمارے پشتو میں کہتے ہیں "د لوندو به څه لوانده شی"، یعنی جو گھیلے ہوں تو مزید کیا گھیلے ہوں گے۔ اس وجہ سے مطلب پتا نہیں چلتا۔ لیکن جس وقت انسان کی طہارت، جو قلبی طہارت ہے، وہ صفائی قلب جس کو ہم کہتے ہیں، آئینہ مطلب جو ہے ناں، وہ صاف ہوجاتا ہے، تو اس پہ ذرہ بھر میل بھی پھر انسان برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ اس وقت تک اس کو چین نہیں آتا جب تک کہ وہ اس چیز کو دور نہ کرے، یہی وہ پاکی کی نسبت ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی پھر حفاظت ہوتی ہے، میں آپ کو کیا بتاؤں، میں آپ کو بہت عجیب مثال بتا دوں۔ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کا نام تو سنا ہوگا، بہت بڑے بزرگ تھے، اللہ کے ولی تھے، عالم تھے، تبلیغی جماعت کے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ شروع کرنے والے حضرات میں تھے۔ ان کا خود ملفوظ ہے کہ جب میوات جاتا ہوں گشت کے لئے، میوات کس چیز کے لئے؟ سینما دیکھنے کے لئے نہیں، دوستوں سے ملنے کے لئے نہیں، کس لئے؟ دینی مقصد گشت کے لئے جاتا ہوں، پھر بھی لوگوں کے ساتھ ملنے کی وجہ سے میرے دل کی حالت بدل جاتی ہے۔ پھر اس کو حالت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے میں رائے پور شریف جاتا ہوں، وہ خانقاہ تھی مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی، یا پھر سہارنپور شریف جاتا ہوں، جن کی اپنی خانقاہ تھی مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ، یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ بات سمجھ میں آگئی؟ یعنی کیوں؟ اس کی مثال کیسی ہے۔ مثال ایسی ہے، جیسے دو چیزوں کو، ایک گرم اور ایک ٹھنڈی، ان کو آپس میں رکھ دو برابر ساتھ، تو گرم چیز ٹھنڈی چیز سے ٹھنڈک حاصل کرے گی اور ٹھنڈی چیز گرم چیز سے گرمی حاصل کرے گی۔ نتیجتاً، تھوڑی دیر میں ٹھنڈی چیز گرم ہوجائے گی، گرم چیز ٹھنڈی ہوجائے گی اور ان کے درمیان difference of temperature کم ہوتا جائے گا، وہ کم ہوتا جائے گا۔ اب یہ natural phenomenon ہے، مطلب اس کے بارے میں دلائل دینے کی ضرورت نہیں، ایسے ہی ہوتا ہے، سب لوگ دیکھتے ہیں۔ اب جو آدمی جس کا دل صاف ہے اور دوسرے آدمی کا دل دنیا کی محبت کی وجہ سے گندا ہے، جب یہ آپس میں مل بیٹھیں گے، تو اس صاف والے دل کا اثر اس پہ پڑے گا، اس کا دل بھی صاف ہونا شروع ہوجائے گا، لیکن اس کا اثر اس پر پڑے گا، اس کا دل بھی میلا ہونا شروع ہوجائے گا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ difference کم ہونا شروع ہوجائے گا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ difference کم ہونا شروع ہوجائے۔ اب جس صاحب کو اس کا پتا ہوتا ہے، وہ اپنی حفاظت کرتا ہے، جس وجہ سے وہ دل کی صفائی ہوتی ہے، اس چیز کو برقرار رکھتا ہے۔ ﴿یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ ۝ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ ۝ نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًاۙ ۝ اَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ9 باقاعدہ پیغمبر کو حکم ہے، صحابہ کرام کے لئے حکم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ چیز، رات والی جو عبادت ہے، جو خلوت کی عبادت ہے، جو اللہ پاک کے سامنے گڑگڑانے کی اور رونے والی عبادت ہے، یہ جو دل کی صفائی ہے، یہ system جاری رہنا چاہیے۔ یہ system جاری رہنا چاہیے، اگر یہ نہ رہے، تو پھر انسان خلط ملط ہوجاتا ہے، خلط ملط ہوجاتا ہے، پھر mix ہوجاتا ہے، پھر جیسے وہ ہوتے ہیں، اس طرح یہ بھی ہوجاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ آپ ان کو کچھ دیں، آپ ان سے لینا شروع کرلیں گے اور اپنا آپ نقصان کرلیں گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ظاہر ہے، بہت ہی اگر گرا ہوا ہے، مطلب کوئی نالی میں، تو اس کو اٹھانا تو ضروری ہے، اٹھانا تو ضروری ہے، صاف کرنا، لیکن طریقہ کیا ہوگا، آپ اس کے پاس جائیں گے، تو آپ کے کپڑے بھی گندے ہوں گے، آپ کے پیر بھی گندے ہوں گے، آپ کے ہاتھ بھی گندے ہوں گے، یہ تو فطری بات ہے۔ اب ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی طریقہ سے اس کو ایسے اٹھائیں کہ آپ کے اوپر اثر نہ آئے۔ اس کے لئے آپ کے پاس کچھ پانی کا انتظام ہونا چاہیے، تولیے کا انتظام ہونا چاہیے، صابن کا انتظام ہونا چاہیے، یعنی ساری چیزیں ہونی چاہئیں، تاکہ آپ بچ جائیں اور وہ چیز بھی آپ حاصل کرلیں۔ بعینہٖ اسی طریقہ سے وہ کرلیتے ہیں، تو جتنے بھی اللہ والے ہیں، وہ اپنی حفاظت کا بندوبست کرتے ہیں، اپنی حفاظت کا بندوبست بلکہ وہ اپنی خلوت کا انتظام کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے للّہیت کا جو، مطلب جو یعنی اوراد ہوتے ہیں، وہ بار بار اس سے استغفار کے ذریعہ سے، درود شریف کے ذریعہ سے، قرآن پاک کی تلاوت کے ذریعہ سے، نماز کے ذریعہ سے، غسل کے ذریعہ سے، وضو کے ذریعہ سے، وہ اپنے آپ کو پاک کرتے رہتے ہیں، پاک کرتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ پھر دوبارہ اپنی اصلی حالت پہ آجاتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کرسکتا ہے، تو پھر تو وہ بچے گا، اور اگر کوئی یہ نہیں کرسکتا، تو پھر کیا ہے، پھر تو بہت ہی خطرناک معاملہ ہوسکتا ہے، جو محنت کی ہو، وہ ضائع ہوسکتی ہے، اس وجہ سے۔ جن چیزوں سے اس نسبت میں خلل واقع ہوتا ہے ان سے احتراز کرے۔

اس سلسلہ میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقت طہارت صرف وضو و غسل ہی پر منحصر نہیں۔ بلکہ وضو و غسل کے علاوہ بہت سی اور چیزیں بھی ہیں جو ان کے حکم میں داخل ہیں جیسے صدقہ دینا، فرشتوں اور بزرگوں کو نیکی سے یاد کرنا، وہ کام جن میں عام لوگوں کا فائدہ ہو اور اس کی وجہ سے وہ لوگ دعائے خیر کریں اور ان کے دل خوش ہوں، وہ کام سر انجام دینا۔ داڑھی مونچھ اور دوسرے بالوں کی ایسی وضع بنانا جو ملت میں مستحسن سمجھی جاتی ہے اور انہیں بے ترتیب اور پراگندہ نہ رہنے دینا۔ مقدس مقامات مساجد اور سلف کے آثار و مزارات میں اعتکاف کرنا، پاک اور سفید لباس پہننا، خوشبو استعمال کرنا، طہارت کی حالت میں سونا اور سوتے وقت ذکر کرنا، ادھر ادھر کے پریشان کن خیالات سے اپنے آپ کو بچانا، بدن سے موذی مادوں اور تاریک خلطوں کو خارج کرنا۔ نفس کو خوشگوار ہوا اور خوشبو سے راحت پہنچانا، نیز ایسی چیزوں کا کھانا جو صالح غذائیت پیدا کریں تاکہ پریشانی اور اضطراب دور رہ سکے۔ غرض یہ کہ یہ سب کی سب چیزیں طہارت کی کیفیت پیدا کرتی ہیں یا ان سے اس کو تقویت ملتی ہے۔

مطلب گویا کہ ٰیوں سمجھ لیجئے کہ جو اسباب ہیں، وہ مختلف ہیں۔ ان اسباب کو اختیار کرنا، کچھ طبعی اسباب ہیں، جیسے خوشبو کا استعمال کرنا۔ خوشبو کے استعمال کرنے سے آپ کو کیا ہوتا ہے، آج کل کا medical research بھی اس پہ آجاتی ہے، وہ testimolono، وہ جو دوسری باتیں جو آج کل آرہی ہیں، وہ یہی ہیں کہ مطلب مفرحات اس کو ہم کہتے ہیں، جس کے ذریعہ سے آپ صبح morning walk کرلیتے ہیں، تو آپ کو ایک مطلب ذہنی صحت حاصل ہوتی ہے، جس کے لئے آپ کے خیالات پاک ہوجاتے ہیں اور مطلب اس کے بہت سارے فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔ تو یہ طبعی چیزیں ہیں، لیکن طبعی چیزوں کا اثر بھی روحانیت پر پڑتا ہے، تاکہ پراگندہ خیالات آپ کو نہ آئیں۔ کیونکہ انسان جب ایسا کام کرتا ہے جس سے سوداوی خیالات آئیں، یعنی جس کو ہم کہتے ہیں پراگندہ خیالات آئیں، تو اس سے پھر ان میں یکسوئی ختم ہوجاتی ہے۔ یکسوئی ختم ہونے کا مطلب کیا، ذکر پھر اس کا یکسوئی کے ساتھ نہیں کرسکے گا، نماز یکسوئی کے ساتھ نہیں پڑھ سکے گا، نتیجتاً اس کے برکات کم ہوجائیں گے۔ تو اس وجہ اسے ان چیزوں کو بھی maintain کرنا ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ اچھی حالت پر رکھنا ہے، اور ساتھ ساتھ یہ ہے کہ جو حکمی چیزیں ہیں، یعنی وضو کے ذریعہ سے، غسل کے ذریعہ سے، ذکر کے ذریعہ سے، تلاوت کے ذریعہ سے، ان چیزوں کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔

ناپسندیدہ شیطانی وضعوں کا اختیار کرنا، فحش باتیں کہنا، سلف صالحین میں طعن کرنا، بے حیائی کا ارتکاب، حیوانوں کو جفتی کرتے دیکھنا، خوبصورت عورتوں یا بے ریش لڑکوں سے صحبت اختیار کرنا اور اپنے فکر کو ان سے محاسن میں لگائے رکھنا۔ زیادہ عرصہ تک جماع کے خیالات کو دل میں مضمر رکھنا اور جتنی کہ طبعی ضرورت ہے اس سے زیادہ جماع میں مشغول ہونا۔ کتوں اور بندروں کو اپنے اردگرد رکھنا۔ یہ سب کے سب مفاسد۔

اب آج جو انٹرنیٹ ہے، موبائل ہے، اب اس کی وجہ سے کتنے لوگوں کو نقصان ہوگا۔ ظاہر ہے مطلب ہے کہ یہ ساری چیزیں اس میں ہیں، تو ان کی وجہ سے پراگندہ خیالات تو ہوجاتے ہیں، نقصانات تو آتے جاتے ہیں اور انسان روحانیت کے اسباب بھی اختیار کرے، ساتھ ساتھ یہ حیوانیت کے اسباب بھی ہوتے ہیں، نتیجتاً فائدہ نہیں ہوتا، انسان ترقی نہیں کرتا۔

اور نیز ان کے علاوہ جلدی اور دموی امراض میں مبتلا ہونا۔ الغرض یہ چیزیں ان اوصاف کو پیدا کرتی ہیں جو طہارت کی ضد ہیں۔ اس ضمن میں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ جماع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک جماع جو برائے دفع اذیت ہوتا ہے اور جماع کی دوسری قسم وہ ہے جس سے مقصود حصولِ لذت ہوتا ہے۔ اول الذکر کا شمار بابِ طہارت میں ہے اور آخر الذکر بابِ نجاست میں شامل ہے۔

یعنی مقصد یہ ہے کہ حصول لذت جو ہے، یہ تو جائز ہے، لیکن اگر اس میں مشغول رہتا ہے تو وہ آدمی، مطلب ظاہر ہے، دوسری چیزوں کی طرف توجہ نہیں کرسکے گا، اسی میں مشغول رہے گا، کیونکہ یہ چیز کھینچنے والی چیز ہے، یعنی باقی تمام چیزوں سے کھینچنے والی چیز ہے انسان کو۔ لیکن جو دفعِ اذیت کرتا ہے، دفعِ اذیت سے مراد یہ ہے کہ اگر میں یہ نہ کروں اپنی منکوحہ کے ساتھ، تو پھر کیا ہوگا، پھر میرا خیال دوسری عورتوں کی طرف جائے گا۔ اس سے بچنے کے لئے جو کرتا ہے، تو وہ تو پھر طہارت ہے۔ یہ طہارت ہے۔ تو گویا کہ ایک ہی چیز ہے، لیکن ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘10 تمام اعمال کا دار و مدار چونکہ نیتوں پر ہے، لہٰذا اس کے حساب سے اس پر مطلب جو ہے ناں، اثر ہوتے ہیں۔

یہ سب چیزیں جن کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں اور ان میں سے بعض کو تو شریعت نے صراحتاً طہارت اور نجاست کے ذیل میں بیان کردیا ہے اور بعض کی طرف صرف اشارہ کردیا ہے۔ بہرحال مجھے ان سب باتوں کا علم بذریعہ وجدان ہوا ہے۔ باقی اللہ اعلم بالصواب۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم ان حضرات کے تجربہ سے فائدہ اٹھائیں، میں آپ کو ایک بات بتاؤں، کشف ظنی چیز ہے، الہام بھی ظنی چیز ہے۔ لیکن اگر کسی کو کسی مسئلے میں، کوئی علمی مسئلے میں اشکال ہو، مشکل ہو، اس کو صحیح بات سمجھ میں نہیں آرہی ہو اور کشف کے ذریعہ سے وہ صحیح بات سمجھ میں آجائے، تو کیا خیال ہے؟ اس کا فائدہ علمی ہوگیا ناں، علمی فائدہ ہوگیا ناں۔ اسی طرح عملی فائدہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی بذات خود یہ مقصود نہیں ہے، لیکن مقصودی چیزوں کے لئے معاون بن جائے، تو پھر یہ مفید ہے۔ تو حضرت کی مطلب یہ جو چیزیں ہیں، اگرچہ ظنی ہیں، لیکن چونکہ یہ اس کی طرف لے جارہے ہیں ہمیں، جو مقصودی چیزیں ہیں، یعنی شریعت پر چلنا اور شریعت کے مطابق اپنی زندگی بنانا، اس کے لئے چونکہ یہ مفید ہے، لہٰذا ہم اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں جیسے مثال کے طور پر، چار پانچ راستے ہیں ایک جگہ جانے کے اور مجھے کشف سے پتا چل جائے کہ یہ صحیح راستہ ہے اور وہ واقعی وہی راستہ ہو، مجھے بتاؤ فائدہ ہوا یا نہیں ہوا؟ میرا کتنا وقت بچ گیا، کتنی غلطیوں سے بچ گیا۔ تو اس قسم کی چیزوں میں ان چیزوں کی اگر مطلب وہ ہو، تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے اور یہ اللہ پاک کی ایک خاص نعمت ہے۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، مقاصد متعین ہیں، ذرائع لامحدود ہیں۔ مقاصد متعین ہیں، شریعت نے مقرر کیے ہیں۔ مقصد میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، جو شریعت آپ ﷺ کے دور میں تھی، وہی شریعت اب بھی ہے اور وہی شریعت قیامت کے قریب ہوگی، مطلب اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، کیونکہ ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ﴾11 یہ بات مکمل ہوگئی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، لیکن اس دین پر آنے کے لئے، یعنی اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے جو ذرائع ہیں، وہ لامحدود ہیں، کیوں؟ جیسے صحت ایک چیز ہے، صحت اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کے وقت میں جو بنائی تھی، اب بھی وہی صحت ہے، کیوں ڈاکٹر صاحب، کوئی فرق پڑتا ہے صحت میں؟ صحت میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا، بیماری میں فرق ہے، یعنی وقت وقت کے ساتھ بیماریاں تبدیل ہورہی ہیں۔ کسی وقت کہتے تھے کہ مطلب جو ہے ناں exploring malaria، کسی وقت یہ تھا exploring hepatitis، کسی وقت explore فلاں چیز، یعنی مطلب یوں کہہ سکتے ہیں کہ محنتیں ہر وقت کی اپنی اپنی ہیں، کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ جن بیماریوں کا علاج دریافت ہوگیا، تو وہ chapter تو close ہوگیا، اس سے تو فائدہ ہوگیا، لیکن جو نئی چیز آگئی، پرانی چیزوں کی وجہ سے وہ نئی چیز کا کچھ کرسکتے ہیں۔ ایک وقت میں تھا ڈاکٹر صاحب کہ ڈاکٹروں نے اعلان کردیا ناں، ایک meeting میں کہ ہم نے بکٹیریا پر فتح حاصل کرلی، یاد ہے آپ کو کچھ؟ یعنی وہ بڑا جملہ بول گئے ناں کہ ہم نے بکٹیریا پر فتح حاصل کی ہے، تو اسی وقت وائرس شروع ہوگیا اور وائرس ایسی چیز ہے کہ ابھی تک ان کو چین نہیں لینے دیتے، وہ سارا معاملہ خراب ہوگیا۔ مقصد یہ ہے کہ یہ تو اسی طریقہ سے مطلب نئی نئی چیزیں آرہی ہیں۔ اب جیسے موبائل کے بارے میں، موبائل کی جو خباثتیں ہیں، یہ آج سے پچاس سال پہلے کہاں تھیں، مجھے بتاؤ۔ موبائل سے بچنے کے ذرائع آپ پرانی کتابوں میں ڈھونڈیں گے تو کیسے ملے گی، جو ان کی وجہ سے چیزیں آئی ہیں، وہ تو ابھی ہیں ناں، وہ تو ہم اب face کررہے ہیں، پہلے تو یہ چیزیں تھیں نہیں۔ اب ان کی وجہ سے دل کے مسائل پیدا ہورہے ہیں، روحانی مسائل پیدا ہورہے ہیں، یہ اس دور کے مشائخ کی ذمہ داری ہے کہ ان کو حل کریں، اس کے لئے راستے ڈھونڈیں۔ یہ آپ کو پرانی کتابوں میں نہیں ملیں گے، تو اسی طریقہ سے یہ جو ذرائع ہیں، لامحدود ہیں۔ اب جو ذرائع ہوتے ہیں، لامحدود ہیں، اس وجہ سے اس کے اوپر کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔ مثال کے طور پر جہاد ہے، یہ قیامت تک فرض ہوتا ہے، جہاد فرض ہوتا رہے گا، لیکن جہاد کے جو ذرائع ہیں، کیا اسی وقت کے ذرائع ہم استعمال کرلیں جو آپ ﷺ کے دور کے تھے؟ کرسکتے ہیں؟ اس دور کے ذرائع اگر کوئی تلوار استعمال کرے، نیزہ استعمال کرلے، تیر استعمال کرلے، تو جہاد کے امیر ہی میرے خیال میں ان کو واپس بھیج دے گا، بھئی چلو آپ ہمارے لئے مصیبت بنا رہے ہیں۔ تو اس وجہ ہے کہ وہ تو اب نہیں رہا۔ اب لڑنے کی۔۔۔۔ ابھی میں گیا ہوں racecourse میں جاتا ہوں walk کے لئے، تو وہاں تیر اندازی کا بھی ایک وہ ہے، مطلب۔ وہ میں نے کہا کہ شغل میلے کے لئے تو ٹھیک ہے، لیکن اس کی کوئی افادیت آج کل ہے نہیں، تیر اندازی سے آپ کو کیا فائدہ ہے، اگر وہ آپ نے کرنا ہے تو کوئی firing کی آپ نے practice کرنی ہے ناں، اگر جہاد کے لئے آپ نے کرنا ہے تو اس کے لئے firing کی practice کرنی ہے اور تیروں سے تو کون کرے گا، وہ تیر تو اب ہیں نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو چیز ہے کہ ذرائع تبدیل ہوتے جاتے ہیں اور اس کے لئے کوشش بھی، محنت بھی ہوتی ہے۔ اسی طریقہ سے جیسے جسمانی بیماریاں تبدیل ہورہی ہیں مسلسل، اس کے لئے جسمانی علاج بھی تبدیل ہورہے ہیں، اس طرح روحانی بیماریاں مسلسل تبدیل ہورہی ہیں، اس کے روحانی علاج بھی تبدیل ہورہے ہیں۔ تو جسمانی بیماریوں کے علاج کو ہم اگر طب کہتے ہیں، اس کو اگر طب کہتے ہیں، تو اسی طریقہ سے روحانی بیماریوں کے علاج کو تصوف کہتے ہیں ناں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ تصوف بھی مسلسل ایک تبدیل ہونے والی چیز ہے، مطلب اس کو آپ اس static نہیں رکھ سکتے، اس کی وجہ ہے کہ کل کا تصوف آج کے تصوف کی طرح نہیں تھا اور کل کا تصوف آج کی طرح نہیں ہوگا، مطلب وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی لازمی ہے اور جو اس میں تبدیلی نہیں مانتا، ان کے اندر رسومات آجاتی ہیں، جیسے سجادہ نشینی نہیں ہوتی، مطلب کوئی شخص فوت ہوگیا، کوئی بزرگ فوت ہوگیا، اب اس کا بیٹا وہ نہیں ہے، مطلب یعنی جس کو کہتے ہیں تربیت اس کی نہیں ہوئی ہے، شیخ نہیں ہے، لیکن وہ لوگ اس کو شیخ بنا لیتے ہیں۔ اب لوگوں کا کام تو نہیں ہے ناں کسی کو شیخ بنانا، شیخ تو شیخ ہی بنائے گا۔ اچھا، لوگوں نے اس کو شیخ بنایا، اب اس کو کچھ آتا تو ہے نہیں، تو کیا کرے گا، پرانے نسخے، چاہے کتابوں سے پڑھیں، چاہے وہ مطلب یہ ہے کہ رٹے رٹائے جو چیز ہو، وہی استعمال کرے گا، اس کو اس کو مزید کچھ آتا نہیں ہے، نتیجتاً وہ ان چیزوں پہ سختی کے ساتھ قائم رہے گا اور لوگوں کو خراب کرتا رہے گا۔ کیونکہ ظاہر ہے، اس کے پاس اصل چیز ہے ہی نہیں۔ لیکن جس شخص کا اللہ پاک نے وہ دروازہ دل والا کھولا ہوا ہے، تو اس پر اس دور کی چیزیں منکشف ہوں گی کہ اس وقت کیا علاج ہے، بلکہ ہر مرید جو اس کے پاس آتا ہے، اس کے لئے الگ الگ message آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دو اشخاص ہیں، وہ آگئے، ایک ہی کیفیت بتا دی، ایک کو مبارکبار دے گا، دوسرے کو ڈانٹے گا، کیوں؟ دونوں کی حالت مختلف ہے، دونوں کی حالت مختلف ہے۔ مثال کے طور پر، ایک آدمی ہے، وہ بہت زیادہ بیمار ہے، اس کی بیماری کی میں تھوڑی سی کمی آگئی، تو اس کو مبارکباد دے گا یا نہیں دے گا؟ لیکن دوسرا آدمی، مطلب یہ ہے کہ مطلب صحتمند تھا اور اس کی صحت میں کوئی گڑبڑ آگئی، تو اس کا کیا کرے گا؟ چیز ایک ہے، مطلب مثال کے طور پر، یعنی مقام ایک ہی ہے، لیکن ایک گر کے اس پہ آگیا اور دوسرا چڑھ کے اس پہ آگیا ہے، تو نتیجے میں فرق ہوگا یا نہیں ہوگا۔ تو اسی طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ جو مشائخ ہوتے ہیں، صحیح معنوں میں جو مشائخ ہوتے ہیں، وہ کبھی بھی ایک طریقہ نہیں اختیار کرتے، ایک طریقہ اختیار نہیں کریں گے۔ جس کو دیکھو کہ ایک ہی طریقہ استعمال کررہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر وہ اصل چیز رخصت ہوگئی ہے، یہاں پر رسومات نے ڈیرہ ڈال لیا ہے، یہاں پر صرف وہی چیزیں ہورہی ہیں جو صرف رسمی طور پر مطلب چیزیں ہورہی ہیں، وہ اصل چیز درمیان سے غائب ہوگئی۔ میں اکثر حیران ہوتا ہوں ایسے لوگوں پہ، جب وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ بھئی ہم تو اپنے بزرگوں کے مقلد ہیں، بھئی یہاں تقلید نہیں چلتی، یہاں تقلید نہیں چلتی، یہاں پر تحقیق چلتی ہے، تحقیق و تقلید میں فرق ہے۔ یہاں پر ہر شخص کی کیفیت الگ ہے، ہر شخص کے مسائل الگ ہیں، ہر شخص کے اصلاح کا طریقہ الگ ہے، آپ کیسے سب کو ایک لاٹھی سے ہانک سکتے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ کتاب ہماری ’’فہم التصوف‘‘ جو ہمارے درس میں ہوتی ہے، اس وقت چھپنے کے قریب آگئی، تو اس کے اوپر title کا ہم نے لکھا تھا "خانقاہوں کے لئے ایک درسی کتاب"۔ "خانقاہوں کے لئے ایک درسی کتاب"، نیت بھی ہماری یہی تھی۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوگئی، حضرت نے فرمایا، یہ نہ لکھیں، کیونکہ درسی کتاب indicate کررہی ہے کہ یہ چیز fix ہے، حالانکہ تصوف کبھی fix نہیں ہوتا، تصوف مسلسل تبدیل ہونے والا ہے، لہٰذا اس پہ یہ نہ لکھیں۔ ہمیں وہ تبدیل کرنا پڑا۔ اس کے اوپر لکھا "خانقاہوں کے لئے ایک مفید کتاب"، مفید تو ہے، مفید تو ہے، لیکن ’’درسی کتاب‘‘ ہم نے ہٹا دیا، کیوں، درسی کتاب ہو نہیں سکتی، there can be no text book for tasawuf۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلسل تبدیل ہورہا ہے، مسلسل تبدیل ہورہا ہے، اس وجہ سے آپ کو جو ہے ناں۔۔۔۔ ہاں آپ guideline لے سکتے ہیں۔ آپ guideline لے لیں، لیکن کریں وہی، یہاں تک کہ جو ڈاکٹرز ہوتے ہیں، ان کو house job کیوں کراتے ہیں؟ پڑھا تو انہوں نے ہوتا ہے، لیکن پھر house job بھی ان کو کراتے ہیں۔ house job اس لئے کراتے ہیں تاکہ وہ عملی طور پر دیکھ سکیں کہ کیسے knowledge کو implement کیا جاتا ہے۔ اگر knowledge کو implement نہیں کرسکتا، تو وہ ڈاکٹر نہیں ہے، bookish knowledge اس کے پاس ہے، لیکن bookish knowledge کو استعمال نہیں کرسکتا، تو کیا آپ اس کے سامنے مریض لائیں گے؟ وہ ایک جنرل صاحب تھے, viva پہ آئے تھے, ہمارے ایک دوست بتا رہے تھے، تو viva اس کا لے رہے تھے، اس نے کچھ dose بتا دیا، اس کا یہ ہے، آج انہوں نے بھی بتایا ناں۔ dose بتا دیا، تو اس کے بعد پھر وہ کہے sorry sir یہ ہے، انہوں نے کہا نہیں نہیں مریض مر چکا ہے، چھوڑو بس، اب مریض مر چکا ہے۔ مقصد میرا یہ ہے کہ یعنی آپ نے لکھ کردے دیا، پانچ منٹ میں وہ مریض باہر چلا گیا، اب آپ اس کو کہاں ڈھونڈیں گے، دوائی تو اس نے وہی لینی ہے جو آپ نے بتا دی ہے، جو prescribe کی ہے۔ اب آپ کے پاس کون سا راستہ ہوگا، کیا طریقہ ہوگا، تو بس وہ گیا، اس نے وہی دوائی لینی ہے، اس کے ذریعہ سے اس کو نقصان ہوگا۔ تو یہ چیز جو ہوتی ہے کہ مطلب it should, it must be ensured کہ آپ اس وقت کس حالت میں ہیں اور کیسے مطلب مریض کو tackle کرتے ہیں، کیا آپ ان کی تمام چیزوں کو دیکھ رہے ہیں، ان کے حالات کے مطابق کررہے ہیں۔ یہ ایک بالکل۔۔۔۔ ہمارے ہاں حضرت، صاف عرض کردوں with due respect to all doctors، یعنی یورپ میں میں نے دیکھا ہے کہ وہ ان کے اندر یہ ما شاء اللہ یہ بات ہے کہ مریض کے سامنے کتاب کھولیں گے اور دیکھیں گے، dose calculate کرکے بتائیں گے۔ ان کو یہ مسئلہ نہیں ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ ان کو نہیں آتا، جبکہ یہاں کوئی کرتا ہے؟ I have never seen a doctor who can do this، نہیں کرتے، حالانکہ کیا ساری چیزیں انسان کو حفظ ہوسکتی ہیں؟ نہیں ہوسکتیں، آخر medicine doses ہیں، اس میں کمی بیشی، ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ جو بات ہے کہ۔۔۔۔ اچھا، ایک بات یہ، اور آج بھی ذرا وہ discuss ہوگیا یہاں پر کہ ڈاکٹرز بھی اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس میں یہ بات میں نے وہاں دیکھی ہے کہ وہاں ڈاکٹروں نے تین تین کمرے رکھے ہوتے ہیں، ایک کمرے میں prescribe کرتے ہیں، دو کمروں میں مریض دیکھتے ہیں۔ ایک میں مریض تیار ہورہا ہوتا ہے، next مریض، ایک میں دیکھ رہا ہوتا ہے، اس میں دیکھ کر آکر نسخہ لکھ لیتا ہے، اس کو دے دیتا ہے، دوسرے مریض کے پاس چلا جاتا ہے۔ خود چلتا پھرتا ہے، اس کے چلنے پھرنے سے اس کا جو بیٹھنے بیٹھنے کا جو نقصان ہوتا ہے، وہ نہیں ہوتا۔ یہاں پر ڈاکٹر صاحب بیٹھ جاتا ہے، کوئی چار بجے بیٹھتا ہے، کوئی پانچ بجے، دس بجے تک بیٹھا ہوتا ہے۔

جیسے میں نے عرض کیا، جو نماز اذان ہورہی ہوتی ہے ناں، اذان کی وجہ سے بھی بہت ماحول کے اندر تبدیلیاں آتی ہیں، یہ ایک بہت بڑی دعوت ہے۔ تو جو لوگ اس کا جواب دیتے ہیں، وہ اس روحانیت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جو لوگ اس کا جواب نہیں دیتے، تو روحانیت کیا، فائدہ نہیں اٹھاتے، بلکہ بعض دفعہ کچھ مشکلات کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوکر باقاعدہ فرمایا گیا ہے کہ جو الفاظ مؤذن کہے، آپ بھی ان کے ساتھ مل کے وہی الفاظ کہیں اور پھر جس وقت آذان پوری ہوجائے، تو درود شریف پڑھا جائے، پھر اس کے بعد پھر وہ دعا "اَللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ"، یہ دعا ہے، یہ مسلم شریف کی روایت ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سارے حضرات، ان میں تو بعض دفعہ علماء بھی شامل ہوتے ہیں، وہ اذان کا احترام نہیں کرتے، مطلب یہ ہے کہ اپنی بات جاری رکھتے، آپس میں لگے رہتے ہیں، اس روحانیت سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اس میں بعض حضرات نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جو اذان کا احترام کرتا ہے، ان کو حسن خاتمہ نصیب ہوجاتا ہے، یعنی آخری جو وقت ہے، اللہ تعالیٰ ان کو کلمہ نصیب فرما دیتے ہیں۔ تو اس وجہ سے اس کی بہت قدر کرنی چاہیے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. ۔ (الذّٰریٰت: 21) ترجمہ: ’’اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی۔ کیا پھر بھی تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟‘‘

  2. ۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1867)

  3. ۔ (النساء: 13) ترجمہ: ’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں۔‘‘

  4. ۔ (الشمس: 9-10) ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘

  5. ۔ (الشمس: 8) ترجمہ: ’’پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔‘‘

  6. ۔ (الشمس: 9)

  7. ۔ (الشمس: 10)

  8. ۔ (المزمل: 1-4) ترجمہ: ’’اے چادر میں لپٹنے والے۔ رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ، یا آدھے سے کچھ کم کرلو۔ یا اس سے کچھ زیادہ کرلو، اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔‘‘

  9. ۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1)

  10. ۔ (المائدہ: 3) ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔‘‘

  11. ۔ (مفتاح الأفكار للتأهب لدار القرار۔ ج 2، ص: 206)

توحید، سلوک اور نسبت طہارت - ہمعات - دوسرا دور