قطب و غوث کے روحانی مراتب اور اللہ پر توکل کی حقیقت

(یہ بیان 4 اکتوبر 2017 کے مکتوبات شریف کے درس سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

درس میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوب نمبر 256 پر گفتگو ہوئی جس میں "قطب، قطب الاقطاب، غوث اور خلیفہ" جیسے اصطلاحی الفاظ کی وضاحت کی گئی۔ صوفیاء کے نزدیک یہ سب روحانی مراتب ہیں جو نبی اکرم ﷺ کی کامل پیروی سے حاصل ہوتے ہیں۔ بعض کو منصبِ امامت اور بعض کو خلافت عطا کی جاتی ہے، اور انہی کے زیرِ سایہ قطبِ ارشاد اور قطبِ مدار کے مناصب آتے ہیں۔ قطبِ ارشاد شرعی امور میں رہنمائی کرتا ہے جبکہ قطبِ مدار تکوینی امور کے نفاذ کا ذریعہ بنتا ہے۔ غوث کا منصب بعض کے نزدیک قطب مدار کے برابر ہے، جبکہ دوسرے اسے قطبِ مدار کا مددگار سمجھتے ہیں، جیسا کہ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے واقعات سے واضح ہوتا ہے۔ ابدال چالیس ہوتے ہیں، اور جب ایک وفات پاتا ہے تو دوسرا مقرر کیا جاتا ہے۔ یہ نظام اللہ کے حکمت بھرے انتظام کا حصہ ہے، جیسے فرشتوں کی ڈیوٹیاں۔ اصل پیغام یہ ہے کہ ان بزرگوں سے حاجت روائی کی امید نہ رکھی جائے بلکہ صرف اللہ سے مانگا جائے، کیونکہ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ ہی بندے کا اصل سہارا ہے۔



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


آج بدھ کا دن ہے، بدھ کے دن ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریف کا درس ہوتا ہے، اللہ جل شانہٗ حضرت کے فیوض و برکات ہم سب کو نصیب فرمائیں۔ مکتوب نمبر 256 رہ گیا تھا، آج ان شاء اللہ اس سے تعلیم شروع ہوگی۔

مکتوب نمبر 256

میاں شیخ بدیع الدین کی طرف صادر فرمایا۔ ان سوالوں کے جواب میں جو (انہوں نے) دریافت کئے تھے کہ قطب و قطب الاقطاب اور غوث و خلیفہ کے کیا معنی ہیں؟ اور دریافت کیا تھا کہ اس حدیث "لَوِ اتُّزِنَ إِیْمَانُ أَبِيْ بَکْرٍ…الخ" کی کیا تحقیق ہے؟ اور اس کے مناسب بیان میں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) گرامی نامہ جو نے آپ ایک درویش کے ہمراہ ارسال کیا تھا موصول ہو کر بہت زیادہ مسرت کا باعث ہوا۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ قطب و قطب الاقطاب، غوث اور خلیفہ کے کیا معنی ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کس خدمت پر مامور ہے، اور وہ اپنی خدمت سے مطلع ہیں یا نہیں؟ اور قطب الاقطاب کو جو بشارت (احکام) عالمِ غیب سے پہنچتی ہے اس کی کوئی اصل ہے یا وہم و خیال کی اختراع ہے؟

جاننا چاہیے کہ نبی علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے کامل تابع دار، مکمل طور پر تابع داری کرنے کی وجہ سے جب مقامِ نبوت کے کمالات کو تمام کر لیتے ہیں تو ان میں سے بعض کو منصبِ امامت پر سرفراز کرتے ہیں اور بعض کو محض اس کمال کے حصول پر ہی اکتفا فرماتے ہیں۔ یہ دونوں بزرگ اس کمال کے نفسِ حصول میں برابر ہیں، فرق صرف مرتبہ و عدم مرتبہ کا ہے اور ان امور کا بھی جو اس منصب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو حضرات ولایتِ نبوت کے کمالات کی پوری طرح تکمیل کر لیتے ہیں (تو ان میں سے) بعض کو منصبِ خلافت پر مشرف فرماتے ہیں اور بعض کو محض ان ہی کمالات کے حصول پر اکتفا کرتے ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ یہ دونوں منصب (خلافت و امامت) کمالاتِ اصلیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور کمالاتِ ظلیہ میں منصبِ امامت کے مناسب قطبِ ارشاد کا منصب ہے، اور منصبِ خلافت کے مناسب منصبِ قطبِ مدار ہے۔ گویا یہ دونوں مقام اُن دونوں مقاموں کے ظلال کے تحت ہیں۔ (یعنی منصبِ امامت و منصب خلافت کا مقام ان کے اوپر ہے)

شیخ محیی الدین العربی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غوث ہی قطبِ مدار ہے۔ ان کے نزدیک غوثیت کا مرتبہ، منصبِ قطبیت سے علیحدہ کوئی منصب نہیں ہے۔ جو کچھ اس فقیر کا عقیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ غوث، قطبِ مدار کے علاوہ ہے بلکہ اس (قطبِ مدار) کا ممد و معاون ہے۔ قطبِ مدار بعض امور میں اس سے مدد لیتا ہے اور ابدال کے منصب مقرر کرنے میں بھی اس کو دخل ہے۔ قطب کو باعتبار اس کے اعوان و انصار کے، قطب الاقطاب بھی کہتے ہیں، کیونکہ قطب الاقطاب کے اعوان و انصار اقطابِ حکمی ہیں، یہی وجہ ہے صاحبِ فتوحاتِ مکیہ لکھتے ہیں: "مَا مِنْ قَریَۃٍ مُّؤْمِنَۃً کَانَت اَوْ کَافِرَۃً إِلَّا وَفِیْھَا قُطْبٌ" ترجمہ: ”مؤمنوں یا کافروں کا کوئی قریہ ایسا نہیں ہے جس میں قطب نہ ہو“۔

جاننا چاہیے کہ صاحبِ منصب کو یقینًا اپنے منصب کا علم ہوتا ہے اور وہ جو اس منصب کا کمال رکھتا ہے لیکن منصب نہیں رکھتا اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اربابِ علم ہو اور اپنی خدمت سے مطلع بھی ہو۔ وہ بشارت جو اس کو عالم غیب سے پہنچتی ہے اس مقام کے کمالات حاصل ہونے کی بشارت ہے نہ کہ اس مقام کے منصب کی بشارت جس کا تعلق علم سے ہے۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ اس ایمان سے کیا مراد ہے جو اس حدیث میں ہے: "لَوِ اتُّزِنَ إِیْمَانُ أَبِيْ بَکْرٍ مَعَ إِیْمَانِ أُمَّتِیْ لَرَجَحَ" ترجمہ: ”اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان میری ساری امت کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو یقینًا وہ غالب رہے گا“۔ اس سے کیا مراد ہے اور اس کی ترجیح کا کیا سبب ہے؟

میرے خیال میں پہلے ایک بات مکمل کر لیں پھر اس کے بعد آگے شروع کرتے ہیں۔ اصل میں یہ کچھ اصطلاحات ہیں اور ان اصطلاحات کے پیچھے کچھ مفاہیم ہوتے ہیں۔ یہ اصطلاحات مختلف بھی ہو سکتی ہیں بعض حضرات کے نزدیک۔ ہم لوگ جانتے ہیں کہ دنیاوی چیزوں میں بھی جو اصطلاحات ہوتی ہیں وہ مختلف لوگوں کے ہاں بعض چیزوں کے لیے مختلف ہوتی ہیں، اسی طریقے سے صوفیا میں بھی ہوتا ہے۔ بہرحال کسی نہ کسی درجے میں آپس میں اتحاد بھی ہوجاتا ہے۔ قطب اصل میں بنیادی طور پر اس کا جو لغوی مطلب ہے وہ تو یہ ہے کہ جیسے ایک چیز کے گرد دوسری چیز گھومتی ہے اس کو قطب کہتے ہیں، تو یہ گویا کہ اصل میں بنیادی رول ادا کرتا ہے اس کے گرد ایک نظام گھومتا ہے۔ تو سوال یہ کیا گیا تھا کہ قطب اور قطب الاقطاب، غوث اور خلیفہ کے کیا معنی ہیں؟ ایک تو اس کے بالکل عام معنی ہیں۔ خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کا نائب ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین جو تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ آپ کے نائب تھے۔ لیکن یہاں کیا معنی ہیں؟ اس کے بارے میں پوچھا گیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کس خدمت پر مامور ہے؟ اور وہ اپنی خدمت سے مطلع بھی ہیں یا نہیں؟ اور قطب الاقطاب کو جو احکامات غیب سے ملتے ہیں تو اس کی کوئی اصل ہے کہ کسی طریقے ہوتا ہے؟ کیونکہ وحی کا سلسلہ تو بند ہے یا وہم ہوتا ہے یا خیال ہے یا کوئی اختراع ہے تو حضرت فرماتے ہیں کہ

جاننا چاہیے کہ نبی علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے کامل تابع دار، مکمل طور پر تابع داری کرنے کی وجہ سے جب مقامِ نبوت کے کمالات کو تمام کر لیتے ہیں۔

اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل تابعداری ظاہراً اور باطناً جو انسان کے بس میں ہوتا ہے وہ اگر کرلے، اس کو پورا کر لے تو ان میں سے بعض کو منصب امامت پر سرفراز فرماتے ہیں یعنی ان سے دوسرے لوگوں کو Lead کرنے کا کام لیتے ہیں۔ امام کیا کرتا ہے؟ لیڈر ہوتا ہے یعنی دوسرے لوگوں کو Lead کرتا ہے تو اس سے دوسرے لوگوں کی Leading کا کام لیا جاتا ہے، وہ ان کا امام ہوتا ہے باقی لوگ ان کے پیچھے ہوتے ہیں۔ اور بعض کو محض اس کمال کے حصول پر ہی چھوڑا جاتا ہے۔ تو فرماتے ہیں کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل تابعدار ہوتے ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہراً اور باطناً سنتوں کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے لئے جو جو صفات ان کو چاہیے ہوتی ہیں تربیتاً، وہ تربیت کے ذریعے سے وہ حاصل کر لیتے ہیں تو ان میں سے بعض کو امامت سے سرفراز کردیتے ہیں یعنی ان کو امام بنا دیا جاتا ہے۔ امام کہتے ہیں لیڈر کو، تو ظاہر ہے بعض دوسرے حضرات جن کی تربیت کروانی ہوتی ہے جن کو پیچھے چلانا ہوتا ہے تو ان کا امام مقرر کر لیتے ہیں اور یہ ایسی چیز ہے جس کا پتا ہوتا ہے ان کو، کیونکہ یہ ایک کام ہے اور اس کام کا اس کو علم ہونا چاہئے یعنی عہدہ ہے ایک قسم کا۔ تو بعض کو اس منصب پر سرفراز فرماتے ہیں، اور بعض کو محض اس کمال کے اوپر ہی چھوڑ دیتے ہیں مطلب ان کو مزید کوئی ڈیوٹی نہیں دیتے، لیکن ان کو کمالات تو حاصل ہو ہی گئے ہیں۔ تو کمالات کے لحاظ سے تو دونوں ایک جیسے ہیں کیونکہ دونوں ایک مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ لیکن ایک کو عہدہ دیا گیا دوسرے کو عہدہ نہیں دیا گیا۔ اس وجہ سے جن کو عہدہ دیا گیا ان کو تو پتا ہوتا ہے کہ میرے پاس یہ عہدہ ہے، جیسے ابدال کو پتا ہوتا ہے، قطب کو پتا ہوتا ہے کہ یہ کام اب مجھے کرنے ہیں، کیوںکہ اس کے ذریعے سے پھر باقی کام کرنے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کو اس کا بتا دیا جاتا ہے اور اصل میں یہ نظام چونکہ نظام شریعت نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک ڈیوٹی ہے جیسے فرشتوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے تو فرشتوں کو تو علم ہوتا ہے اور ان سے وہ کام لیا جاتا ہے۔ تو یہ اولیاء اللہ کی وہ قسم ہے جو تکوینی امور سے تعلق رکھتے ہیں، تکوینی امور سے تعلق رکھتے ہیں اور پھر ان سے وہ کام لئے جاتے ہیں، تو ان کو اس چیز کا پتا ہوتا ہے اور یہ پتا لگنے کا طریقہ ان کا اپنا ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ان کے اوپر اس وقت کھول دیتے ہیں اس وقت، روزِ روشن کی طرح ان کو پتا چلتا ہے کہ یہ چیز اس طرح ہے، لہٰذا ان سے وہ چیز مخفی نہیں ہوتی اور جو لوگ اس سے متعلق ہوتے ہیں ان کو بھی پتا ہوتا ہے لیکن دوسرے لوگوں کو اس کا پتا نہیں لگنے دیا جاتا، کیونکہ یہ نظام بالکل ایک علیحدہ نظام ہے، جیسے فرشتوں کو ہم نہیں دیکھتے تو فرشتوں کو تو دیکھ ہی نہیں سکتے، مگر ان لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں لیکن ان کی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے، ان کے بارے میں پتا نہیں ہوتا۔ یہ عام لوگوں میں سے ہوں گے، عام لوگوں میں سے ہوں گے لیکن یہ ہے کہ کام وہ دوسرا کر رہے ہوتے ہیں مطلب اپنی اپنی ڈیوٹی پہ لگے ہوتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کو لوگ جانتے نہیں، لیکن وہ خود اپنے آپ کو جانتے ہیں اور جن کو جاننا چاہیے یعنی جن کو وہ لیڈ کر رہے ہوتے ہیں، جن سے وہ کام لیا جاتا ہے، جو ان کے متعلقین ہوتے ہیں، اعوان و انصار، جن کا پہلے ذکر ہوا، ان کو بھی پتا ہوتا ہے اس کا کہ فلاں صاحب ہمارے بڑے ہیں۔ تو ان کے ساتھ ان کو تعلق بھی ہوتا ہے اور اپنا کمیونیکیشن کا نظام بھی ہے، مطلب وہ آپس میں Communicate بھی کرتے ہیں۔

تو ان میں سے بعض کو منصبِ امامت پر سر فراز کرتے ہیں اور بعض کو محض اس کمال کے حصول پر ہی اکتفا فرماتے ہیں۔ یہ دونوں بزرگ اس کمال کے نفسِ حصول میں برابر ہیں، فرق صرف مرتبہ و عدم مرتبہ کا ہے اور ان امور کا بھی جو اس منصب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو حضرات ولایتِ نبوت کے کمالات کی پوری طرح تکمیل کر لیتے ہیں (تو ان میں سے) بعض کو منصبِ خلافت پر مشرف فرماتے ہیں اور بعض کو محض ان ہی کمالات کے حصول پر اکتفا کرتے ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ یہ دونوں منصب (خلافت و امامت) کمالاتِ اصلیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور کمالاتِ ظلیہ میں منصبِ امامت کے مناسب قطبِ ارشاد کا منصب ہے، اور منصبِ خلافت کے مناسب منصبِ قطبِ مدار ہے۔ گویا یہ دونوں مقام اُن دونوں مقاموں کے ظلال کے تحت ہیں۔ (یعنی منصبِ امامت و منصب خلافت کا مقام ان کے اوپر ہے)

گویا کہ ان کے نیچے یہ نظام چلتا ہے یعنی ایک خلیفہ کے نیچے قطب مدار ہے اور امام کے نیچے قطب ارشاد ہے۔ اب یہاں پر یہ والی بات ہے کہ جو قطب ارشاد ہے یہ شرعی امور کی تشریح کرتا ہے اور جو قطب مدار ہے وہ اصل میں گویا کہ تکوینی امور کا نفاذ کرتا ہے، مطلب ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تکوینی امور کا نفاذ کرواتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ خود سب کچھ کر سکتے ہیں تو پھر ان کی کیا ضرورت ہے؟ تو یہ سوال تو پھر اس وقت بھی پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کی کیا ضرورت ہے؟ حضرت میکائیل علیہ السلام کی کیا ضرورت ہے؟ اسرافیل علیہ السلام کی کیا ضرورت ہے؟ ضرورت کو ہم نہیں دیکھیں گے یہ تو اللہ تعالیٰ کے اپنے تکوینی نظام ہیں اور وہی ان کی حکمتوں کو جانتا ہے کہ کیوں ہے۔ دیکھو! اللہ پاک براہ راست بھی سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، سارا کچھ اس کے سامنے ہو رہا ہے لیکن کراماً کاتبین کا نظام بھی ہے، اب کراماً کاتبین کا نظام کیوں ہے؟ اس پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ خود دیکھ رہے ہیں تو ایسا کیوں ہے؟ تو اللہ جل شانہٗ کی حکمت کے مطابق یہ سارے نظام ہیں اور اللہ جل شانہٗ ہی ان کی اصل کو جانتے ہیں کہ کیوں ہے۔ اس وجہ سے ہمیں درمیان میں چوں چراں کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہیں یا نہیں ہیں یہ الگ بات ہے، اس کے بارے میں بھی بات ہو سکتی ہے۔ تو جو حضرات اس منصب پر مامور ہوتے ہیں وہ تو نہیں بتاتے کسی کو، لیکن جو مامور نہیں ہوتے اور ان کو تھوڑا بہت علم ہوتا ہے، ان سے بات کہیں نہ کہیں بعض دفعہ Release ہوجاتی ہے۔ ہمارے حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو تھے، وہ کبھی کبھی اس پر بات کر لیتے تھے اس نظام پر، تو ان کا کچھ تعلق بھی تھا۔ تو ایسا ہوا کہ ایک دفعہ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان کی خدمت میں چند لوگوں نے سوال کیا، حضرت کے ہاں سوال کئے جاتے تھے وہ جواب دیتے تھے، (تو سوال کیا گیا) کہ حضرت یہ نظام کیا ایسا ہے؟ تو حضرت نے فرمایا تمہیں کیا ضرورت ہے کیوں پوچھتے ہو؟ انہوں نے کہا حلیمی صاحب نے ایسے بات بتائی ہے۔ تو حضرت نے پہلے تو فرمایا ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ پہلی بات کیا فرمائی؟ ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، یعنی مخفی باتیں عوام کے سامنے کرنی ہی نہیں چاہئیں، تھوڑی دیر کے بعد فرمایا لیکن ہے تو ایسا ہی، یعنی انکار بھی نہیں کیا، ہے تو ایسا ہی لیکن کرنی نہیں چاہئیں، تو یہ نظام ہے، ہمارے چچا زاد بھائی، چونکہ خاندان میں کچھ باتیں اس طرح ہوتی ہیں تو ہمارے رشتہ دار تھے حلیمی صاحب، تو سب کے جو رشتے ہوتے تو آپس میں اونچ نیچ تو آتی رہتی ہے، تو رشتہ داری کی وجہ سے بعض لوگ بعض کمالات کو نہیں مانتے۔ ایسا ہوتا ہے دنیا میں۔ میرے سامنے ایک دفعہ میرے چچا زاد بھائی نے حلیمی صاحب کے بارے میں کچھ اس قسم کی باتیں کہیں، میں نے ان کو روک دیا، میں نے کہا ایسا نہیں کہو، حلیمی صاحب کو آپ لوگ نہیں جانتے۔ ویسے ہمارے خاندان میں بہت سے لوگ چونکہ نہیں جانتے تھے لہٰذا نظام ہی ان کا اپنا تھا، خیر! اس وقت تو وہ چپ ہوگئے، میرا دل رکھنے کے لئے چپ ہوگئے، بعد میں میرے چچا زاد بھائی نے مجھے کہا کہ میں نے خواب دیکھا۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ پولیس والوں نے مجھے پکڑ لیا۔ اور مجھے لے جا رہے ہیں، تو حلیمی صاحب کے گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ حلیمی صاحب نے دروازہ تھوڑا سا کھول کر اپنا چہرہ باہر نکالا اور اشارے سے کہا کہ چھوڑ دو اس کو، تو انہوں نے چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں میں نے کہا آپ لوگوں نے مجھے کیوں چھوڑا؟ انہوں نے کہا حلیمی صاحب نے جو کہہ دیا۔ میں نے کہا حلیمی صاحب کی بات آپ نے کیوں مانی؟ کہتے بھئی SP ہیں ناں، SP ہیں ان کی بات ہم کیوں نہ مانیں۔ تو مجھے ان کا پتا چل گیا، ظاہر ہے ایک نظام ہے، چل رہا ہے، الحمد للہ اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے۔ تو یہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی ڈیوٹیاں ہوتی ہیں اور اس حساب سے وہ بات کرتے ہیں لیکن usually ایسے لوگ اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے۔ ہمارے حاجی عبدالمنان صاحب وہاں مکہ مکرمہ میں تیس پینتیس سال سے ظاہر ہے انجینئر ہیں مکہ مکرمہ میں، خانہ کعبہ میں حرم شریف میں، دنیا جہان کے بزرگ ان کے پاس آتے تھے، وہ بھی دنیا جہان کے بزرگوں کو جانتے تھے، ان میں ہر طرح کے بزرگ ہوتے تھے، تو فرمایا ایک دفعہ ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے، حرم شریف میں تو بہت سے حضرات آتے ہیں دنیا جہان کے، کہتے میں نے ان کو پہچان لیا کہ یہ تو (فلاں ہیں) لیکن وہ اپنے آپ کو مجھ سے چھپانا چاہتے تھے، کہتے ہیں میں تھوڑی دیر کے لئے جب بیٹھا رہا تو ان کو اندازہ ہوگیا کہ یہ کچھ خطرناک بات ہے، تو اس نے اپنی جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی تھوڑا سا اس کو غور سے دیکھا، پھر جیب میں رکھ لیا۔ مطلب یہ ہے کہ میں تو سگریٹ پیتا ہوں، اس طرح اشارہ کرنا چاہا۔ تو کہتے ہیں حاجی صاحب نے کہا میں تو بیٹھا رہا میں تو نہیں اٹھا، مجھے پتا تھا یہ مجھے یہاں سے بھگا رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر چلا گیا۔ پھر کہتے ہیں اس کے بعد مجھے نظر نہیں آئے، وہ غائب ہوگئے۔ تو ایسا ہوتا ہے بعض لوگوں کے ہاں اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں، اگر وہ ظاہر ہوجائیں تو پھر وہ اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے مولانا خیال محمد صاحب یہ وزیرستان کے تھے، اچھے پڑھے لکھے بزرگوں میں سے تھے، انگریزی بھی بہت رواں بولتے تھے، تو ڈاکٹر فدا صاحب فرما رہے ہیں کہ ایک دفعہ اچانک فرما دیا کہ فیصلہ ہوا تھا پشاور کو زلزلے کے ذریعے سے تباہ کرنے کا۔ لیکن کچھ بزرگوں کے نام لئے کہتے ہیں وہ سجدے میں پڑ گئے روتے رہے، تو اللہ جل شانہٗ نے معاف کردیا۔ اور مثال دی کہ کوئٹہ کے زلزلے کی طرح، کوئٹہ میں جو زبردست زلزلہ آیا تھا بہت عرصہ پہلے، بہت سخت زلزلہ تھا جس میں سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔ تو کہتے ہیں بالکل تقریباً رات کے ایک بجے زلزلے کا جھٹکا لگا خوب زور کا اور پھر اس کے بعد رک گیا نقصان نہیں ہوا، لیکن جھٹکا لگ گیا یعنی اسی رات، تو کہتے ہیں کہ مجھے جب جھٹکا لگا تو میں نے جو صاحب بیٹھے ہوئے تھے ساتھ ادھر، ان کو کہا کہ مولانا نے کچھ کہا تھا؟ کہتے ہاں۔ تو ایسی چیزیں بہت ساری ہوتی ہیں۔ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں سے تھے۔ منیٰ میں آگ لگی تھی بہت زیادہ کچھ عرصہ پہلے سخت۔ تو کہتے ہیں کہ مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ خیمے میں تھے اور آگ بہت تیزی سے بھڑک رہی تھی اور پھیل رہی تھی منیٰ میں۔ تو کہتے ہیں ایک مجذوب تھے وہ کھڑے تھے اور اس طرح ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے آگ کو۔ جس طرف اشارہ کرتے اُس طرف آگ جاتی، تو مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے خیمے میں زار و قطار رو رہے تھے کہ یا اللہ معاف کردے یا اللہ معاف کردے یا اللہ معاف کردے۔ وہ تو ویسے بھی بہت روتے تھے۔ تو کہتے ہیں وہ مجذوب جو تھے ناں وہ چیخے "چپ ہوجاؤ فقیر محمد! مجھے سب کو کو تباہ کرنے کا حکم ہے" لیکن مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی پروا نہیں کی، مسلسل روتے رہے، روتے رہے حتیٰ کہ اس مجذوب کا ہاتھ نیچے گر گیا۔ جب نیچے گر گیا تو بس جو آگ تھی وہ پہاڑ کی طرف چلی گئی اور تھوڑی دیر میں بجھ گئی، ختم ہوگئی۔ بس اللہ کی طرف سے فیصلہ آگیا تھا تو مجذوب کیا کر سکتا تھا۔ مجذوب تو Guided میزائل ہوتا ہے، وہ جس طرف بھی اللہ تعالیٰ اس کو بھیج دے تو بھیج دے وہ خود تو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ تو یہ اس قسم کے لوگوں کے ذمے ہوتے ہیں کام، لیکن ان کے پیچھے پھرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے بس۔ وجہ یہ ہے کہ یہ خود اپنی رائے سے کچھ نہیں کرتے۔ یہ تو کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے۔ تو جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں تو ان سے کیا مانگنا ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی ڈیپارٹمنٹل سٹور کا مالک اپنے سیلز مین کو کہہ دے کہ بھئی یہ ایک ایک ڈبہ ہر گاہک کو دیتے جاؤ، اور ان سے کہے کہ ایک ایک لیتے جاؤ اپنی طرف سے۔ تو ایک آدمی ان سے کہے کہ میں حق دار ہوں آپ مجھے دو ڈبے دے دیں، تو سیلز مین ان سے کہتا ہے بھائی دیکھو وہ مالک بیٹھے ہوئے ہیں ان سے کہہ دینا وہ آپ کو چار ڈبے دینے کے لئے تیار ہوں تو میں آپ کو چار دے دوں گا، میرا تو کچھ نہیں ہے، میں تو حکم کا پابند ہوں۔ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ میں بالکل یہی بات ہے۔ جس کو ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾کا پتا ہے وہ کسی اور طرف دیکھے گا ہی نہیں، وہ تو اللہ تعالیٰ سے مانگے گا، اللہ تعالیٰ سے تعلق بنائے گا، اللہ تعالیٰ پہ بھروسہ کرے گا، اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ جو کمزور لوگ ہوتے ہیں یہ عقیدے کے لحاظ سے، یہ مطلب پیچھے ہوتے ہیں ایسے بزرگوں کے پیچھے پیچھے، مرشدین کے پاس اگر کوئی جائے تو اس میں مسئلہ نہیں ہوتا کیوں کہ مرشد طریقہ بتاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں، یہ دونوں طریقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾کے خلاف نہیں ہے، لیکن مجذوبوں اور تکوینی بزرگوں کے پیچھے پھرنا یہ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾کے خلاف ہے، ایسے لوگوں کے پیچھے نہیں پھرنا چاہئے۔ کیوں کہ یہ خود کچھ کرتے نہیں ہیں اور آپ ان سے اپنی مرضی کے کام نہیں کروا سکتے، وہ تو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم ہوگا تو ہوگا۔ اس وجہ سے اس صدی کے جو مجدد ہیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، وہ فرماتے ہیں ان لوگوں سے دور بھاگو، وجہ یہ ہے کہ یہ اولیاء اللہ تو ہوتے ہیں اگر آپ لوگوں سے کوئی بے ادبی ہوگئی تو اس کا نقصان تو بھرنا پڑے گا۔ اور وہ فائدہ تمہیں پہنچا نہیں سکتے، فائدہ تو اللہ تعالیٰ پہنچائے گا، وہ تو ان کی مرضی نہیں ہے، لیکن چونکہ اولیاء اللہ ہیں تو اس وجہ سے اگر آپ نے ان کی بے ادبی کی تو مسئلہ تو پڑ جائے گا، لہٰذا ان سے دور رہو، ان کے قریب نہ آؤ، یہی آسان طریقہ ہے، یہی مناسب طریقہ ہے، ایسے لوگوں کے پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، آپ گھر بیٹھے اللہ تعالیٰ سے مانگیں اللہ تعالیٰ سب کو دینے والے ہیں۔ یہی اصل میں بنیادی چیز ہے اگر یہ کسی کو سمجھ آجائے۔ اور یہ چیز صرف اس میں نہیں ہے، یہ تعویذات اور عملیات یہ ساری اسی قبیل کی چیزیں ہیں، اسی قبیل کی چیزیں ہیں۔ مثال کے طور پر آپ یہ دیکھیں ناں تعویذ یا کوئی عمل یا جو بھی ہے، یہ ایک سبب کے طور پر تو آپ استعمال کر سکتے ہیں لیکن سبب مسبب الاسباب کی مرضی کے مطابق موثر ہوتا ہے، مسبب الاسباب کی مرضی کے خلاف موثر نہیں ہوتا، لہٰذا کسی کا عقیدہ اگر یہ ہو کہ مجھے تعویذ مل جائے گا تو بس میرا سارا کام ہوجائے گا، یہ عقیدہ ہی غلط ہے یہ عقیدہ ہی غلط ہے۔ یا کسی کو کوئی وظیفہ دے دیا جائے تو کہتے ہیں کہ بس میں وظیفہ کروں گا تو یہ کام ہوجائے گا، یہ عقیدہ ہی غلط ہے۔ وجہ کیا ہے کہ اصل فیصلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے تو اگر آپ اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہیں اور اسباب کے طور پر اس کو استعمال کر رہے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر آپ نے اس کو سبب سے ذرا اونچا درجہ دے دیا تو نَعُوْذُ بِاللّٰہ مِن ذَالِکَ، میں وہ الفاظ استعمال نہیں کر سکتا ہوں، خطرناک الفاظ ہیں مطلب جیسے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ مِن ذَالِکَ ، اللہ پاک جیسے مجبور ہوجائیں گے، وہی کریں گے جو تعویذ میں ہوگا، یہ بات نہیں ہو سکتی۔ اللہ جل شانہٗ کسی سے مجبور نہیں ہیں، تعویذ اور جو ہے ناں وظیفہ یہ آخری درجے کی چیزیں ہیں۔ سب سے پہلا درجہ دعا کا ہے "اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ" "اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ" سب سے پہلا درجہ دعا کا ہے اور دعا میں بھی پھر درجے ہیں، مثال کے طور پر عرفات میں دعا، اس کی اپنی شان ہے اور مزدلفہ میں دعا، لیلۃ القدر میں دعا، حطیم میں دعا، تہجد کے وقت کی دعا، یہ سارے مطلب اس کے اپنے اپنے مقامات ہیں۔ لہٰذا ہم لوگ اسبابِ دعا، قبولیتِ دعا کے لئے تو جمع کر لیں یہ ہماری ایک مینیجمنٹ ہے، اچھی چیز ہے اور قابلِ قبول چیز ہے جیسے ہم لوگ کرتے ہیں الحمد للہ جمعہ کے دن مغرب سے پہلے ہم دعائیں کرتے ہیں کیونکہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنھا کا مسلک یہی تھا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ مغرب سے پہلے اگر میں اپنے کسی اور کام میں بھی مصروف بھی ہوں تو مجھے بتا دیا جائے تاکہ میں کٹ کٹا کر اللہ کی طرف اس وقت متوجہ ہوجاؤں یعنی اخیر وقت میں۔ تو اس سے ہمارے مشائخ نے اندازہ لگایا کہ ان کے نزدیک جمعہ کا جو مقبول وقت ہے وہ یہ آخری وقت ہے، لہٰذا ہمارے شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ یہ بھی بہت زیادہ اس وقت متوجہ رہتے تھے اور کسی اور سے ملتے بھی نہیں تھے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ یہ تھا کہ جمعہ کے دن عصر کے بعد ختمِ قرآن ہوتا تھا، باقاعدہ معمول تھا حضرت کا۔ ہر جمعے کو ختم قرآن ہوتا تھا، پارے پڑے ہوتے تھے، لوگ آتے تھے اور ایک ایک پارہ اٹھاتے تھے، کبھی زیادہ لوگ ہوتے، کبھی تھوڑے لوگ ہوتے، تو کم لوگ ہوتے تو ایک ختم قرآن ہوجاتا۔ زیادہ لوگ ہوتے تو دو ختم قرآن، کبھی کبھی تین ختم قرآن بھی ہوجاتے تھے، کوئی اس کے لئے لگا بندھا rule نہیں تھا، کبھی بالکل محض دعا کر لیتے، کبھی فرماتے بھئی جانے سے پہلے کہ راستے میں مٹھائی پڑی ہے ایک ایک دانہ لیتے جائیں، کبھی یہ بھی اعلان ہوتا بھئی کھانے کا انتظام ہو چکا ہے ساتھی ٹھہر جائیں۔ مطلب کوئی لگا بندھا نظام نہیں تھا بس آزادی کے ساتھ جو آتے تھے تو اس میں ہم شامل ہوتے رہتے تھے، تو الحمد للہ اخیر میں دعا ہوتی تھی، حضرت دعا فرماتے تھے اور دعا حضرت کی تو پھر عجیب ہوتی تھی۔ تو میں یہ اس لئے عرض کرتا ہوں کہ ہم نے بھی الحمد للہ یہی طریقہ ما شاء اللہ رکھا ہوا ہے۔ جمعہ کے دن الحمد للہ ہمارے ہاں دو ختم القرآن ہوتے ہیں، وہ خواتین اپنی اپنی جگہ گھروں میں کرتی ہیں، یہاں پر درود شریف پڑھا جاتا ہے اور اخیر میں الحمد للہ دعا ہوتی ہے، ایک تو آخری وقت کی دعا اور پھر قرآن پاک کے ختم کے بعد پھر درود شریف پڑھنے کے بعد مطلب مختلف، اور پھر ہم کوشش کرتے ہیں کہ مناجاتِ مقبول کے ذریعے سے دعا کریں کہ اس میں مزید فائدہ ہے۔ تو یہ ساری باتیں جب جمع ہوجائیں تو امید زیادہ ہوجاتی ہے کہ ان شاء اللہ دعائیں قبول ہوں گی۔ لیکن پھر بھی اللہ پاک پابند نہیں ہے کسی چیز کا، لیکن یہ بات ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم جتنے اسباب زیادہ جمع کریں گے تو ان شاء اللہ دعا کی قبولیت کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہ بہت اچھا طریقہ ہے۔ اس میں عقیدے کی بھی حفاظت ہے اور سبحان اللہ کام بھی ما شاء اللہ لوگوں کے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ کام تو اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔

شیخ محیی الدین العربی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غوث ہی قطبِ مدار ہے۔

یہ تو ہر ایک کا اپنا اپنا اجتہاد ہے۔

ان کے نزدیک غوثیت کا مرتبہ، منصبِ قطبیت سے علیحدہ کوئی منصب نہیں ہے۔

یعنی جو قطب مدار منصبِ خلافت کے نیچے جو ہے منصبِ خلافت کے نیچے، تو فرمایا کہ غوث بھی وہی ہے، غوث کا لفظی معنی جو ہے ناں یہ ہے کہ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کسی کی مدد فرما دیں۔ تو یہ ہے۔ ان کے نزدیک غوثیت کا مرتبہ منصبِ قطبیت سے علیحدہ کوئی نہیں ہے جیسے کہ غوث الاعظم کہتے ہیں ناں تو غوث الاعظم کا ایک ہوتا ہے۔

جو کچھ اس فقیر کا عقیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ غوث، قطبِ مدار کے علاوہ ہے۔

یعنی یہ ایک علیحدہ منصب ہے۔

بلکہ اس (قطبِ مدار) کا ممد و معاون ہے۔ قطبِ مدار بعض امور میں اس سے مدد لیتا ہے اور ابدال کے منصب مقرر کرنے میں بھی اس کو دخل ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رات کو نکلے اپنی جگہ سے تو ایک صاحب پیچھے پیچھے چلے تاکہ دیکھوں کہ حضرت کدھر جا رہے ہیں، تو حضرت کے قدموں پر وہ قدم رکھتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ روشنی آرہی تھی، مطلب بغداد کے ساتھ کوئی قریب اتنا شہر نہیں تھا تو روشنی کہاں سے آگئی۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ تو موصل شہر ہے۔ موصل اور بغداد میں تو بہت فاصلہ ہے لیکن دیکھا کہ موصل پہنچ گئے تو وہاں پر ایک جگہ تھی، مکان تھا اس میں کافی حضرات بیٹھے ہوئے تھے اور اندر سے کسی کے کراہنے کی آواز آرہی تھی، حضرت وہاں تشریف فرما ہوئے ان کے ساتھ، تھوڑی دیر کے بعد پتا چلا وہ اندر والے صاحب فوت ہوگئے ہیں پھر اس کے بعد تجہیز و تکفین ہوگئی، جنازہ پڑھا گیا، پھر دفن کردیا گیا۔ اس کے بعد میٹنگ شروع ہوگئی، تو اس کی جگہ اور ابدال تھے جو فوت ہوگئے تھے۔ یہ چالیس ابدال ہوتے ہیں ان میں سے جب ایک فوت ہوجاتا ہے تو دوسرے کے لئے پھر باقاعدہ مشورہ ہوتا ہے اور یہاں پہ جو ذکر ہے ابدال کے مقرر کرنے میں، تو وہ جو ہے پھر یہ مشورہ ہوگیا، تو ہر ایک نے اپنی اپنی رائے دی تو حضرت نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جو پتا چلا ہے کہ وہ صاحب وہاں پر ہیں، ایک جگہ پر گرجا تھا اس کے اندر جو ہے ناں ایک راہب تھے، وہ اپنے طور پر عبادت میں لگے ہوئے تھے، لیکن ان کو تصرف کے ذریعے سے لایا گیا اور ان کو کلمہ پڑھایا گیا، مسلمان کردیا گیا اور ابدالوں میں شامل کردیا گیا، وجہ یہ ہے کہ اس کا قلبی اخلاص اتنا زیادہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کو پتا ہوتا ہے کہ کون کس چیز کے لئے کتنا زیادہ اہل ہے۔ تو مسلمان ہوگئے اور مسلمان ہونے کے بعد پھر ان کو اس منصب پر بھی مطلب بٹھا دیا گیا۔ اور جو کچھ اس فقیر کا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ غوث، قطبِ مدار کے علاوہ ہے بلکہ اس قطبِ مدار کا ممد و معاون ہے، قطبِ مدار بعض امور میں اس سے مدد لیتا ہے اور ابدال کے منصب مقرر کرنے میں بھی اس کو دخل ہے۔

قطب کو باعتبار اس کے اعوان و انصار کے، قطب الاقطاب بھی کہتے ہیں، کیونکہ قطب الاقطاب کے اعوان و انصار اقطابِ حکمی ہیں۔

یعنی جن کے ذریعے سے وہ کام کرتے ہیں یعنی تکوینی کام، تو ان میں سے ایک ہوتا ہے جیسے ہر شہر کے اندر ہر گاؤں کے اندر مطلب کوئی ہوتا ہے، جو مطلب وہاں کے کام ان کے ذمے ہوتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں حتیٰ کہ جو کافر جگہیں ہیں وہاں پر بھی مطب، چونکہ تکوینی نظام ہے تو تکوینی نظام میں تو ظاہر ہے مطلب آخر اللہ پاک ان کو بھی سب کچھ دے رہے ہیں ناں، کافروں کو کھانا نہیں دے رہے؟ کافروں پر بارشیں نہیں ہو رہیں؟ کافروں پر کیا مطلب عذابات نہیں آتے؟ ہر قسم کی چیز جو مسلمانوں کے ساتھ ہے وہ کافروں کے ساتھ بھی دنیاوی اعتبار سے تو ہوتی ہے، بلکہ دنیاوی اعتبار سے تو ان کی بعض حالتیں ہم سے اچھی ہوتی ہیں۔ تو وہاں کے نظام کو چلانے کے لئے بھی لوگ ہوتے ہیں۔ اور یہ میں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں بھی پڑھا ہے۔ حضرت نے اس کی دلیل بھی دی ہے۔ تو یہ جو ہے ناں یہ نظام موجود ہے۔

یہی وجہ ہے صاحبِ فتوحاتِ مکیہ لکھتے ہیں: "مَا مِنْ قَریَۃٍ مُّؤْمِنَۃً کَانَت اَوْ کَافِرَۃً إِلَّا وَفِیْھَا قُطْبٌ" ترجمہ: ”مؤمنوں یا کافروں کا کوئی قریہ ایسا نہیں ہے جس میں قطب نہ ہو“۔

جاننا چاہیے کہ صاحبِ منصب کو یقینًا اپنے منصب کا علم ہوتا ہے اور وہ جو اس منصب کا کمال رکھتا ہے لیکن منصب نہیں رکھتا اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اربابِ علم ہو اور اپنی خدمت سے مطلع بھی ہو۔

یعنی قطبِ ارشاد جو ہوتا ہے اس کو ضروری نہیں ہے کہ پتا ہو لیکن جو قطبِ مدار یا غوث ہو ان کو پتا ہوتا ہے، کیونکہ ان کی ڈیوٹی ہے۔ اور یہ قطب ارشاد جو ہیں یہ اصل میں فیض رساں ہیں، ان کے ذریعے سے فیض پہنچتا ہے۔ جو قطبِ ارشاد ہوتا ہے جن کو ان کے ساتھ، جن کو ان کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے ان پہ اللہ جل شانہٗ شریعت کی باتیں اور مشکلات کا حل زیادہ کھولتے ہیں۔ آج کل کے دور میں، میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ اکثر جن کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مناسبت ہے، ویسے، مناسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے فطری ہوتی ہے۔ تو جن کو حضرت کے ساتھ مناسبت ہے وہ ہشاش بشاش رہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا ان بزرگوں کو جن کا تعلق حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نا کسی درجے میں ہے وہ ہشاش بشاش رہتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اوپر وہ چیزیں اللہ تعالیٰ ایسے کھولتے ہیں ان کی طبیعت ایسی کھلتی ہے کہ وہ کنفیوز نہیں ہوتے وہ Confusion بات نہیں چلتی۔ اور جو جو چیزیں ہوتی ہیں وہ ان کے سامنے بالکل واضح ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ایک موٹی سی مثال دوں۔ وسوسوں سے لوگ کتنا پریشان ہوتے ہیں، ہوتے ہیں ناں؟ کہ وسوسے آرہے ہیں، وسوسے آرہے ہیں۔ حضرت نے اتنا آسان طریقہ بتا دیا، فرماتے ہیں کہ یہ وسوسے تم لاتے ہو؟ تکلیف ہوتی ہے اس سے؟ تکلیف ہوتی ہے۔ جب تکلیف ہوتی ہے پھر تو تمہارے نہیں ہوئے ناں، پھر تمہارے نہیں ہوئے، یہ تو غیر اختیاری ہیں، غیر اختیاری ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر گرفت نہیں فرماتا۔ ہاں! اگر تم اپنے اختیار سے لاتے ہو تو اختیار سے ختم بھی کر سکتے ہو، تو ختم کرو، اگر اختیار سے لا سکتے ہو تو اختیار سے ختم بھی کر سکتے ہو، اور اگر ختم نہیں کر سکتے تو پھر غیر اختیاری ہوئے اور غیر اختیاری کا تو تم سے حساب نہیں ہوگا، لہٰذا کوئی پروا نہ کرو۔ کتنا آسان solution ہے۔ اسی طرح لاتعداد باتوں میں حضرت کے اس قسم کے فیصلے ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگ Confuse کیوں ہوں گے۔ کیوں پریشان ہوں گے۔ تو یہ قطب ارشاد والی بات ہے۔ مطلب وہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے، جس کے اوپر بھی اللہ تعالیٰ یہ باتیں کھول دیں، ان کے ساتھ جن کو مناسبت ہوگی تو وہ خوش نصیب لوگ ہوں گے۔ اب میں الحمد للہ میں آپ کو کیا بتاؤں میرے ساتھ کیا ہوا۔ میرا مطالعہ بہت زیادہ تھا لیکن irregular تھا یعنی کوئی باقاعدہ مطالعہ نہیں تھا جس کو میں ترتیب کہوں، بس وہ مختلف (کتابیں) جو کتاب مل جاتی تھی پڑھ لیتا تھا۔ تو ایک دن میں نے اپنے ساتھی سے جو مجھ سے Junior تھا لیکن بہرحال اس کا مطالعہ زیادہ باقاعدہ تھا، علمی گھرانہ تھا۔ ان سے میں نے پوچھا کہ میرا مطالعہ ہے لیکن ہے irregular، تو میں باقاعدہ مطالعہ کہاں سے شروع کروں جس کو مفید کہہ سکوں، جس سے مجھے فائدہ ہو۔ اس نے کہا کہ دیکھو اگر آپ علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے پاس علماء کرام کی کتابوں کے بڑے بڑے سیٹ موجود ہیں، آپ کو کسی بھی عالم کا سیٹ دے دوں گا جس کے ساتھ آپ کو مناسبت ہوگی تو آپ کو کچھ نہ کچھ علم حاصل ہوجائے گا اس کے ذریعے سے۔ اور اگر آپ اپنی صلاح کرنا چاہتے ہیں تو پھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات اور مواعظ پڑھنا شروع کر لیں۔ یہ اس وقت کی جب وہ میٹرک میں تھا، وہ میٹرک کا سٹوڈنٹ مجھے بتا رہا ہے۔ تو خیر میں نے کہا کہ یہ بات بالکل صحیح ہے اصل تو اصلاح ہے، علم تو کسی وقت حاصل ہو ہی جائے گا اصل اصلاح ہے، لہٰذا آپ مجھے وہ دے دو۔ مجھے انہوں نے حضرت کے مواعظ کی ایک جلد پکڑا دی، فرمایا یہ دیکھو۔ وہ میں لے گیا اپنے ساتھ ہاسٹل، میں نے اس کا پہلا وعظ پڑھا اس کا نام تھا ’’الاستغفار‘‘۔ یقین کیجئے ایسا عجیب دل لگا اس میں کہ میں تو بالکل ایسا ہوا کہ مجھے بالکل پتا ہی نہیں چلا کتنا ٹائم لگا اور وعظ ختم کئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اور کئی گناہوں سے اللہ نے توبہ کی توفیق دی۔ میں حیران ہوگیا کہ ایک وعظ سے انسان اتنے گناہوں سے بچتا ہے تو یہ بڑی عجیب چیز ہے۔ تو میں نے بس پھر میں نے کہا کہ یہ واقعی اصل چیز ہے، پھر میں نے پڑھنا شروع کیا، خیر وہ جو جلد تھی وہ تو میں نے پڑھ لی جلد۔ پھر میں ان سے لیتا جلد اور پڑھتا، حضرت کا الحمد للہ یہ ارشاد مبارک تھا، غالباً میں نے انہی سے سنا تھا کہ جو چالیس مواعظ میرے پڑھ لے، میری تربیت میں آجاتا ہے۔ حضرت نے زندگی میں کہا ہوگا، اپنی زندگی میں شاید چالیس کی انہوں نے پابندی لگائی ہوئی تھی کہ چالیس مواعظ پڑھو گے تو پھر بیعت کروں گا، کچھ اس طرح تھا۔ تو میرے لئے اللہ تعالیٰ نے وہ بات بعد وفات بھی صحیح ثابت کروا دی، غالباً چالیس مواعظ میں نے پڑھے ہوں گے کہ حضرت کی خواب میں زیارت ہوئی اور حضرت تشریف لائے اور وہ جو ہے ناں بیٹھے ہوئے تھے حضرت ہمارے ہاسٹل میں ہی جہاں نماز ہم پڑھتے تھے۔ ایک طرف حضرت تھے دوسری طرف درمیان میں میں ہوں تیسری Side پر حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حلیمی صاحب کے بڑے بھائی تھے اور فاضل دیوبند تھے، وہ تشریف فرما ہیں اور مجھے کوئی کتاب کھول کر سمجھا رہے ہیں، کوئی چیز سمجھا رہے ہیں تو پھر خواب کا دوسرا حصہ شروع ہوگیا۔ دوسرا حصہ یہ تھا کہ ہاسٹل کا گیٹ ہے اور گیٹ کے سامنے جو راستہ ہے اس پر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اکیلے جا رہے ہیں پھر اس کے بعد تسنیم الحق صاحب اور اس کے بعد میں جا رہا ہوں اور راستہ سیدھا مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، جو ہمارے شیخ بعد میں ہوگئے، ان کے گھر تک جا رہا ہے، مطلب یہ راستہ جو تھا۔ تو گویا کہ بس یہ دو حصے میں نے دیکھے خواب میں اور پھر میں جاگ گیا۔ لڑکپن کا دور تھا لہٰذا سنجیدگی تو تھی نہیں، بس خوش ہوگیا کہ میں نے اچھا خواب دیکھا ہے لیکن کوئی اتنا اس کو زیادہ وزن نہیں دیا۔ اس کے بعد غالباً تسنیم الحق صاحب تشریف لائے تھے اپنے بھائی حلیمی صاحب کے ہاں، مجھے پتا چلا تو میں ان سے ملنے کے لئے گیا، یہ دونوں بزرگ بیٹھے ہوئے تھے آپس میں باتیں کر رہے تھے، باتیں بھی یہی تھیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرات کے بارے میں باتیں تھیں، تو میں نے کہا میں نے بھی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا ہے، درمیان میں بات کرلی، تو حلیمی صاحب نے کہا کہ کیسے دیکھا ہے؟ تو میں نے سارا خواب سنا دیا، کہتے یہ تو بڑا مبارک خواب ہے، میں نے کہا کیسے مبارک ہے؟ انہوں نے تو مجھ سے بات بھی نہیں کی۔ تو حضرت حلیمی صاحب جلالی بزرگ تھے، کہتے ہیں: "گستاخ" کون سی بات انہوں نے زندگی میں کسی سے غیر ضروری بات کی تھی؟ تمہارے ساتھ کیوں غیر ضروری بات کرتے، جو بتانا تھا وہ بتا دیا۔ میں نے کہا کیا بتایا؟ کہتے یہ بتایا کہ ہاتھ پکڑو، تسنیم الحق صاحب کی طرف اشارہ کیا کہ یہ بتایا کہ ان کا ہاتھ پکڑو۔ بات تو صحیح تھی ظاہر ہے مطلب یہ کہ سمجھ میں بھی آرہا تھا کہ بات تو بالکل صحیح ہے، اس دوران تسنیم الحق صاحب بالکل خاموش ہشاش بشاش چہرہ، کچھ پتا نہیں کہ مطلب ان سے کیا اثر لیا، کچھ بھی نہیں کہا۔ ان کے اوپر اخفاء کا غلبہ تھا بہت زیادہ اپنے آپ کو چھپایا تھا، اتنا چھپایا تھا کہ ان کی اپنی اولاد نے بھی نہیں پہچانا یعنی ایسے مطلب اپنے آپ کے اوپر پردہ رکھا تھا۔ خیر اس کے بعد مجھے تو پتا چل گیا کہ واقعی یہ بات صحیح ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد تسنیم الحق صاحب نے کہا کہ میں اپنے بھائی، جو تیسرے بھائی تھے تقویم الحق صاحب، ان کے ہاں جا رہا ہوں، وہ بھی یونیورسٹی ٹاؤن میں تھے اور میں بھی یونیورسٹی جا رہا تھا، میں نے کہا ٹھیک ہے حضرت پھر اکٹھے چلتے ہیں، تو ان کو لے کے میں ویگن میں بیٹھ گیا، جیسے بیٹھ گئے سیٹ پر تو میں نے دیکھا کہ حضرت کی آنکھوں میں بڑے موٹے موٹے آنسو تھے، فرمایا کہ میں نے ابھی مزہ نہیں لیا آپ کے خواب کا، اب دوبارہ سناؤ، اثر تو بہت ہوا تھا لیکن چھپایا ہوا تھا، تو میں نے سارا خواب دوبارہ سنایا۔ پھر فرمایا: "میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، ہاں اگر انہوں نے مجھے نوکر رکھ لیا ہے تو آپ آیا کریں جتنا مجھ سے ہو سکے گا میں کروں گا"۔ یہ بات فرما دی، اس کے بعد میرا دستور یہ ہوگیا کہ میں سخا کوٹ، جو ان کی جگہ تھی، ان کے ہاں بہت frequently جانے لگا اور حضرت کے پاس میں جب پہنچ جاتا تو حضرت بس تمام چیزیں چھوڑ کر میرے ساتھ ہوتے تھے۔ اور ان کے گھر والے بھی اعلان کرتے کہ تایا جان اب کسی اور کام کے لئے نہیں، اب شبیر آگیا اب ان کے ساتھ ہوں گے۔ اپنے سفر وغیرہ بھی میرے لئے postpone رکھتے تھے کیونکہ مفلوج تھے، تو سفر میں بھی میں خدمت کے لئے جاتا تھا ساتھ۔ تو یہ گویا کہ پہلے حصے کی تکمیل ہوگئی۔ دوسرے حصے کی تکمیل ایسے ہوئی کہ ایک دن مجھ سے پوچھا تسنیم الحق صاحب نے کہ کیا تم نے مولانا اشرف صاحب سے بیعت کی ہے؟ اس وقت تک حالانکہ کافی وقت گزر گیا تھا، ہم تو فرسٹ ائر سے حضرت کو جانتے تھے اور یہ انجینئرنگ کا غالباً دوسرا سال تھا یعنی چار سال ہونے کو تھے، اور ہم حضرت کو مولانا صاحب کہتے تھے، کبھی تصور میں بھی نہیں تھا کہ حضرت پیر صاحب ہیں، کبھی بھی نہیں، تو ایسا ہوا کہ مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ کیا حضرت بیعت بھی کرتے ہیں؟ تو فرمایا: کمال ہے تو بڑا سادہ آدمی ہے، یہ یونیورسٹی میں جو ایسا دینی ماحول بنا ہے۔ یہ کس کی برکت ہے؟ یہ تو حضرت کی برکت ہے، یہ سارا نظام جو چل رہا ہے، بہت بڑے بزرگ ہیں۔ تو میں نے کہا ٹھیک ہے پھر تو میں کر لوں گا بیعت، پھر لڑکپن کی بات تھی بھول گیا، پھر اللہ تعالیٰ نے مزید رہنمائی فرمائی، مزید کچھ خواب وغیرہ آئے، تو میں نے حضرت سے پھر بیعت کرلی، اس طرح وہ دوسرا حصہ بھی مکمل ہوگیا جو حضرت کا تھا۔ تو مقصد میرا یہ ہے کہ حضرت کی برکت سے گویا کہ حضرت کے مواعظ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے یہ راستہ کھول دیا۔ اور اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ میں تو حضرت کی گود میں پلا بڑھا ہوں حضرت مولانا اشرف تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی، کہ ہم نے تصوف کی ’’ا، ب، ت‘‘ جو ہے حضرت سے سیکھی، اس وجہ سے الحمد للہ اس کی برکت ہے کہ الحمد للہ کبھی Confusion والی بات ہمارے پاس نہیں آئی، مطلب جو بھی چیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ الحمد للہ سامنے کھول دیتے ہیں، تو یہ فرمایا کہ یہ قطب ارشاد جو ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مقصد کے لئے رکھا ہوتا ہے، ان کے ذریعے سے لوگوں کو دین کا علم حاصل ہوتا ہے، مفاہیم ثابت ہوتے ہیں۔

وہ بشارت جو اس کو عالم غیب سے پہنچتی ہے اس مقام کے کمالات حاصل ہونے کی بشارت ہے نہ کہ اس مقام کے منصب کی بشارت جس کا تعلق علم سے ہے۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ اس ایمان سے کیا مراد ہے جو اس حدیث میں ہے: "لَوِ اتُّزِنَ إِیْمَانُ أَبِيْ بَکْرٍ مَعَ إِیْمَانِ أُمَّتِیْ لَرَجَحَ" ترجمہ: ”اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان میری ساری امت کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو یقینًا وہ غالب رہے گا“۔ اس سے کیا مراد ہے اور اس کی ترجیح کا کیا سبب ہے؟

جاننا چاہیے کہ ایمان کی ترجیح مُؤْمَنْ بِہٖ (جس پر ایمان لایا جاتا ہے) کے رحجان کے باعث ہے۔ چونکہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا متعلَّقِ ایمان (جن کا ایمان سے تعلق ہے) تمام امت کے متعلقاتِ ایمان سے فوق و بر تر ہے اس لئے یقینًا راجح و غالب ہو گا۔

میرے مخددم! عروجات و ترقیات میں (عارف و طالب کا ) معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر ایک نقطہ زیادہ اوپر ہو جائے تو اس نقطۂ عروج کے سبب جو کمال حاصل ہوا ہے وہ تمام سابقہ کمالات سے زیادہ ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ نقطہ جو کچھ اس کے ما تحت ہے، ان سب سے بالا تر ہے۔ یہی حال اس نقطے کا ہے جو پہلے نقطے پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ نقطۂ ما تقدم مع اپنے ما تحت کے نقطۂ فوق کے مقابلے میں حقیر و نقیر (کھجور کی گٹھلی کا گڑھا) ہے۔ اسی پر قیاس کر لیجئے۔ پس جس کے ایمان کا تعلق کمال بلندی پر ہو وہ بے شک ہر اس سے جو اس کے ما تحت (کم تر) وہ راجح و غالب ہو گا۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ عارف (باللہ) کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ طرفۃ العین (پَلک جھپکتے ہی) سابقہ تمام کمالات پر فوقیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس فقیر کی تحقیق کے اندازے کے مطابق ایک لمحے میں تمام کمالاتِ ما تقدم سے بھی زیادہ پیش قدمی کر لیتا ہے: ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔

یا اللہ! اصل میں اس کو سمجھانا تو بڑا مشکل ہے، اصل میں جو معرفت ہے، معرفت کا تعلق ہے اللہ کے ساتھ، یعنی اللہ جل شانہٗ کی معرفت ۔اور علوم کا تعلق ہے مخلوق کے ساتھ۔ اب یہ ہے کہ جس کا تعلق اللہ کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کے لئے مخلوق کی چیز تو کچھ بھی نہیں ہے، تو اس وجہ سے جتنا تعلق بڑھتا ہے اتنا اتنا گویا کہ ہماری انجینئرنگ کی زبان میں یا mathematics کی زبان میں exponential rise جس کو ہم کہتے ہیں۔ تو یہ بہت جلدی جلدی مطلب بڑھتا ہے یعنی ایک Step بڑھنے سے کافی چینج آتا ہے تو اس طریقے سے یہ جو عارف ہوتا ہے وہ جتنا جتنا معرفت میں ترقی کرتا ہے اتنا اتنا اس کے اعمال کے اندر بہت زیادہ ترقی آتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے۔ اب اس کو کون سمجھائے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہے تو یہ چھ فٹ کا انسان، سارے ایک ہی جیسے چھ فٹ کے لگ بھگ لوگ ہیں، دو آنکھیں ہیں، دو کان ہیں، دماغ ہے، دل ہے، سارا کچھ ایک جیسا نظر آتا ہے، لیکن ایک اس میں پتا نہیں کہاں کس مقام پر ہے اور دوسرا پتا نہیں کس مقام پر ہے، اچھا کمال کی بات ہے کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہونگے لیکن ایک کی نماز کہاں ہوگی دوسرے کی نماز کہاں ہوگی، ایک کا جو ہے ناں روزہ کہاں ہوگا اور دوسرے کا روزہ کہاں ہوگا، تو یہ جو معرفت ہے اس کے حساب سے ہے۔ تو چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یعنی امت میں سب سے زیادہ معرفت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی، لہٰذا اس وجہ سے سب سے اونچا مقام بھی انہی کا تھا اور عقائد میں بھی، عبادات میں بھی، معاملات میں بھی، یعنی ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غلاموں کو ڈانٹ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا، تو فرمایا کمال ہے صدیق اور ایسا! بس اتنی بات فرمائی اور آگے بڑھ گئے۔ صدیق اور ایسا! تو وہ جو ہے ناں پتا چل گیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو انہوں نے فوراً غلام آزاد کرلیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ میں نے رجوع کرلیا۔ تو یہ جو بات ہے اب دیکھو یعنی صرف ایک غلام (تھا) چونکہ بہت زیادہ فاقہ تھا تو ان سے کہا کچھ کھانے کو ہے؟ تو اس نے کچھ پیسوں سے کوئی چیز لے لی اور انہوں نے کھا لی، جیسے ہی کھا لی تو فوراً احساس ہوگیا کہ میں نے کیوں کھا لیا، پوچھا کہ تو نے کہاں سے پیسے لئے تھے؟ انہوں نے کہا وہ جاہلیت کے زمانے میں کچھ جنتر منتر کیا تھا اس کے پیسے تھے، حضرت کا چہرہ فوراً بدل گیا اور جو ہے ناں منہ میں جس کو کہتے ہیں انگلی ڈال کر زور زور سے قے کرتے تھے، قے کیسے ہوتی، اتنے فاقے کے بعد کوئی پیٹ میں گئی تھی تو وہ کیسے باہر نکل آتی، لیکن جب تک وہ باہر نہیں نکلی اس وقت تک قے کرتے رہے، لوگوں نے سمجھایا بھی کہ آپ کو پتا نہیں تھا۔ اب یہ جو ہے یہ والی بات ظاہر ہے جس مقام پر حضرت تھے ان کی بات اور تھی، جس طریقے سے حضرت نے بعض چیزیں settle کی ہیں وہ چیزیں کوئی اور سوچ بھی نہیں سکتا تھا، جس درجے کا ایمان تھا حضرت کا وہ ایک الگ بات تھی، اسی وجہ سے میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو اللہ پاک نے صحابہ کی زندگی میں بالکل ظاہر کردیا، وہ جو واقعہ ہوا تھا جس میں صحابہ کے لشکر کا جو واقعہ ہوا تھا زکوة کا، تو ایسی صورت میں پہلے صحابہ سارے سمجھا رہے تھے کہ اس وقت نازک وقت ہے اور آپ تھوڑا سا نرم ہاتھ رکھیں اور یہ اور وہ سارا۔ لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسی باتیں فرمائیں کہ جس پر سب کو چپ کرنا پڑا، یہاں تک فرمایا کہ اگر مدینہ منورہ کی گلیوں میں امہات المومنین کو کتے گھسیٹیں گے تب بھی یہ لشکر جائے گا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا فیصلہ فرمایا تھا میں اس کو تبدیل نہیں کر سکتا، اور جو اونٹ کی مطلب مہار تھی وہ اگر کوئی پہلے زکوة میں دیتا تھا اب اگر نہیں دے گا تو میں ان کے ساتھ قتال کروں گا۔ یہ ایمان ہے۔ تو بعد میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت اجر دے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو، ان کے ذریعے سے ہمارا ایمان بچ گیا۔ تو اب دیکھیے تمام لوگ جو قیامت تک آئیں گے ان کا ایمان صحابہ کے ایمان کے برابر ہو سکتا ہے؟ سارے صحابہ کا معاملہ اس وقت ظاہر ہوگیا ناں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے سب کی حفاظت ہوگئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ثابت ہوگئی ناں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات تو صحابہ کے دور میں ہی بالکل ثابت ہوگئی۔ تو یہ بات تھی۔

اور نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ شیخ ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے متبعین نے لکھا ہے کہ جس قدر بچے حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی وجہ سے قتل کئے گئے ان تمام مقتولوں کی قابلیت اور استعدادیں حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام میں منتقل ہو گئیں۔ اس بات کی حقیقت مفصل طور پر تحریر فرمائیں۔

جاننا چاہیے کہ یہ بات صحیح ہے کیونکہ تحقیق سے ثابت ہے کہ جس طرح ایک شخص کو پوری جماعت کے کمالات حاصل ہونے کا سبب بناتے ہیں اسی طرح پوری جماعت کو بھی ایک شخص کے کمالات حاصل ہونے کا سب بنا دیتے ہیں۔

یعنی ایک شخص بہت بڑا عالم ہے تو وہ پوری جماعت کو عالم بنا دیتا ہے یا کوئی اور کمال ہے اس کے اندر اور وہ کمال ساری جماعت میں منتقل کردیتا ہے، یہ تو سب مانتے ہیں، یہ تو سب مانتے ہیں۔ گویا کہ علم خرچ نہیں ہوتا بڑھتا ہے اس سے، وہ کمال کم نہیں ہوتا زیادہ ہوتا ہے۔ بالکل فرمایا کہ اسی طریقے سے پوری جماعت کی تمام چیزیں ایک شخص میں آ سکتی ہیں۔ تو فرمایا کہ:

اسی طرح پوری جماعت کو بھی ایک شخص کے کمالات حاصل ہونے کا سبب بنا دیتے ہیں۔ پیر اگرچہ مریدوں کے کمالات کے حصول کا ذریعہ ہے لیکن مریدین بھی پیر کے کمالات کے اسباب ہیں۔

یہ تو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ بیان فرمایا، حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس مجلس میں موجود تھے، تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جتنا مجھ سے آپ لوگوں نے سیکھا ہے اس سے زیادہ میں نے آپ لوگوں سے سیکھا ہے، تو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ حضرت ہم نے آپ سے سیکھا ہے ہم تو آپ کے شاگرد ہیں، لیکن آپ نے ہم سے کیا سیکھا؟ آپ نے شاگردوں سے کیا سیکھا؟ تو حضرت نے فرمایا کہ دیکھو تمہارے دل میں جو اشکالات آتے تھے اور جو سوالات آتے تھے تو آپ لوگوں کے لئے میرے دل میں اس کے جوابات آتے تھے اور سمجھانے کے ڈھنگ آتے تھے تو یہ آپ لوگوں کی برکت سے ہے، لہٰذا آپ لوگوں کے ذریعے سے میں نے یہ حاصل کر لیا، اور یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے، ایسا ہی ہوتا ہے، کسی کو لائق شاگرد مل جائے تو اس کا علم بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور جس کو کم درجے کا ملے تو اس کے حساب سے اس کا علم بڑھتا ہے، کیونکہ لائق شاگردوں کے اشکالات اور لائق شاگردوں کے سوالات اور لائق شاگردوں کے خیالات تو بہت اونچے ہوتے ہیں لہٰذا اس کے حساب سے ان کو اللہ تعالیٰ دیتے ہیں۔ تو یہاں پر بھی ایسی بات ہے، فرمایا یعنی پیر جیسے مریدوں کے ذریعے ہوتے ہیں اس طرح مرید بھی پیروں کے ذریعے ہوتے ہیں۔

اس حقیقت کو فقیر نے ماکولات و مشروبات (کھانے پینے کی چیزوں) میں جو اجزائے بدن ہوتی ہیں محسوس کیا ہے کہ ہر وہ لقمہ اور گھونٹ کہ (انسان) کھاتا پیتا ہے اس کی استعداد و قابلیت کی جامعیت کا سبب بنتا ہے اور اس کے علاوہ بھی قابلیت پیدا کرتا ہے، اور جب کبھی لذیذ کھانوں کے ترک کرنے کا قصد کرتا تھا تو روک دیا جاتا تھا، اور اس جامعیت اور قابلیت کے حاصل ہونے کی وجہ سے ان لذیذ کھانوں کو ترک کرنے کی اجازت نہ ملتی تھی، اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ ایک کی استعداد دوسرے میں پوری کی پوری یا تھوڑی منتقل کر دی گئی اور محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک خالی رہ گئی اور دوسری جمعیت سے پُر ہے۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ شیخ نجم الدین کبریٰ نے اپنے ایک مرید کو ایک بزرگ (شیخ مصلح الدین خجندی) کی خدمت میں بھیجا تاکہ ان کے توسل سے معلوم کریں وہ کس پیغمبر کے زیر قدم ہیں۔ ان بزرگ نے فرمایا کہ تیرا جہود کس کام میں ہے؟ شیخ نے اس عبارت سے سمجھ لیا کہ وہ حضرت موسیٰ صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ علی نبینا و علیہ کے زیرِ قدم ہیں۔ اس عبارت سے یہ مطلب کس طرح لیا گیا؟

جواب:جاننا چاہیے کہ جہود، یہود کو کہتے ہیں جو حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی امت ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے فرمایا کہ پتا چل گیا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہوں کیوںکہ جو بزرگ ہوتے ہیں یہ اپنے کچھ ظاہر ہے پیغمبر کے قدم پر ہوتے ہیں یعنی کوئی نوح علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے، کوئی آدم علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے، کوئی ابراہیم علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے، کوئی موسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے، کوئی عیسیٰ علیہ السلام کے قدم پر اور کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر ہوتا ہے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر ہوتے ہیں ان کو محمدی مشرب کہتے ہیں، جن کا کافی ذکر حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے، تو یہ جو چیز ہے یہ گویا کہ نسبتیں ہیں، مشارب ہیں، جن کے ذریعے سے ان کو ملتا ہے، تو وہ اپنے بارے میں جاننا چاہتے تھے، ان کو معلوم تھا کہ ان کو اس کا کشف ہوتا ہے تو انہوں نے آدمی ان کے پیچھے بھیجا کہ کسی طریقے سے مجھے معلوم ہوجائے کہ میں کس نبی کے قدم پر ہوں تو انہوں نے پوچھا، بلکہ غالباً ایک اور جگہ پر اس طرح ہے کہ تیرا یہودی پیر کیسا ہے؟ تیرا یہودی پیر کیسا ہے؟ تو وہ حیران ہوگئے کہ میرے پیر کو یہودی کہہ دیا، وہ بہت غصے ہوگئے لیکن کہا تو کچھ نہیں کیونکہ بزرگ نے ان کے پاس بھیجا تھا، تو وہ جب ادھر (واپس) آگیا تو کہا کہ حضرت تو کہہ رہے ہیں کہ تیرا یہودی پیر کیسا ہے؟ تو حضرت بہت ہشاش بشاش اور خوش ہوگئے ما شاء اللہ ما شاء اللہ!، وہ کہنے لگے حضرت آپ کو یہودی کہا ہے، کہنے لگے یہودی نہیں کہا موسیٰ علیہ السلام کے قدم پر کہا ہے۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ ”نفحات“ میں لکھا ہے کہ تمام اولیاء کی ولایت مرنے کے بعد سلب ہو جاتی ہے سوائے چار آدمیوں کے؟ (بڑا مشکل سوال کیا ہے۔) جاننا چاہیے کہ یہاں ولایت سے مراد ظہورِ کرامات و تصرفات ہے نہ کہ اصل ولایت جس سے قربِ الٰہی جل سلطانہٗ مراد ہے، نیز سلب سے مراد کرامات کے ظہور کی کثرت کا سلب ہونا ہے نہ کہ اس ظہور کے اصل کا سلب۔ چونکہ یہ بات کشفی ہے اور کشف میں خطا کی بہت گنجائش ہے۔ (معلوم نہیں کہ) صاحبِ کشف نے کیا دیکھا اور کیا سمجھا۔

نیز آپ نے اولیاء کی بعض کرامات کے ظہور کے متعلق دریافت کیا تھا۔

جواب:آپ منتظر رہیں: ﴿سَيَجۡعَلُ اللّٰهُ بَعۡدَ عُسۡرٍ يُّسۡرًا‏﴾ ترجمہ: ”کوئی مشکل ہو تو اللہ اس کے بعد کوئی آسانی بھی پیدا کر دے گا“۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ نیشاپوری میں لکھا ہے کہ:﴿اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠﴾ ترجمہ: ”یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے“۔ (یعنی شَانِئَكَ) ’’یا‘‘ کے ساتھ تحقیق کیا ہے، وہ ہمزہ کے ساتھ ہے یا ’’یا‘‘ کے ساتھ؟

جواب:وہ ہمزہ کے ساتھ ہے، اور جس نے یا کے ساتھ لکھا ہے اس کی قرأت غیر مشہور ہو گی۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ بعض عورتیں مشغولی (یعنی اخذِ طریقہ و توجہ) کی طلب گار ہیں۔

جواب:اگر وہ محرم ہیں تو کوئی منع نہیں، ورنہ پردے میں بیٹھ کر طریقہ اخذ کریں۔

دیکھیں ناں حضرت نے پردے کا فرمایا کہ پردے میں بیٹھ کے۔ اصل میں آج کل چونکہ ان چیزوں کی پابندی نہیں کی جاتی تو اس وجہ سے پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ اہلِ حدیث نے ہر ماہ میں منحوس ایام قرار دیئے ہیں اور اس بارے میں وہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں۔ (اس سلسلے میں) کیا کرنا چاہیے؟

فقیر کے والد قدس سرہٗ فرماتے تھے شیخ عبد اللہ (بصری) و شیخ رحمت اللہ (سندھی) جو اکابر محدثین میں سے تھے اور حرمین میں وہ شیخین کے لقب سے مشہور تھے، کسی تقریب کے سلسلے میں ہندوستان تشریف لائے تھے، فرماتے تھے کہ اس حدیث کو کرمانی شارحِ بخاری نے نقل کیا ہے لیکن ضعیف ہے۔ اس باب میں صحیح حدیث یہ ہے: "اَلْأَیَّامُ أَیَّامُ اللّٰہِ وَالْعِبَادُ عِبَادُ اللّٰہِ" (لم أجد) ترجمہ: ”سب دن اللہ تعالیٰ کے دن ہیں اور سب بندے اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں“ اور وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ دنوں کی نحوست، رحمتِ عالمیان علیہ و علیٰ الصلوات و التسلیمات کی ولادت سے ختم ہو گئی۔ "أَیَّامٍ نَحِسَاتٍ" یعنی منحوس دن گزشتہ امتوں کی نسبت سے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو بہت سی چیزیں تبدیل ہوگئیں تھیں ناں، تو فرمایا یہ چیز بھی تبدیل ہوگئی تھی۔

فقیر کا عمل بھی اسی پر ہے اور کسی دن کو بھی دوسرے دن پر ترجیح نہیں دیتا، جب تک کہ شارع علیہ السلام سے اس کی ترجیح معلوم نہ کر لے جیسا کہ جمعہ، رمضان و غیرہما۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ وہ معارف جو بارِ نبوت کے اُٹھانے سے تعلق رکھتے ہیں مجھ کو خواجہ محمد اشرف کے مکتوب میں نہیں ملے؟

جواب:آپ کو ابھی کہاں ملیں گے، کیونکہ وہ مکتوب نمبر (251) انہی ایام میں تحریر ہوا ہے اور اس کی نقل ابھی آپ کو نہیں پہنچی، مکتوب بہت طویل ہے، شاید ایک جز سے بھی زائد ہو۔ فقیر نے اس کی نقل آپ کی طرف بھیجنے کے لئے کہہ دیا ہے۔

والسلام

اس وقت میں کتابت بھی بڑی مشکل ہوتی تھی، کتابیں چھپنا اور پھر یہ ساری چیزیں بہت دور کی باتیں تھیں، لہٰذا قلمی نسخے ہوتے تھے اور ہاتھ سے نقل بھیجی جاتی تھی تو لہٰذا یہ ساری چیزیں آسان نہیں تھیں۔ آج کل ہمیں جو آسانی ملی ہے اس کا تو اُس وقت تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، آج تو ہم کیمرہ سے Scan لے لیتے ہیں اور واٹس ایپ کے ذریعے سے بھیج دیتے ہیں، ہم ادھر بیٹھے ہیں ہماری آواز لندن والے بھی سن رہے ہیں، امریکہ والے بھی سن رہے ہیں، سعودی عرب والے بھی سن رہے ہیں، مختلف جگہوں پر اور ابھی ممکن ہے ان کی طرف سے کوئی سوال بھی آجائے اُدھر سے اور اِدھر جواب بھی چلا جائے۔ یہ ساری آسانیاں آج کل کی ہیں لیکن اُن دنوں اوقات میں بھی برکت تھی، اخلاص تھا، لہٰذا تھوڑے وسائل کے ساتھ بہت کچھ ہوتا تھا، اب تھوڑا سا غور کرلیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی اس دور میں ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں۔ اب آج کل کے دور میں تمام سہولتوں کے ساتھ کوئی کر لے ناں، تین چار سو سے تو زیادہ مواعظ حضرت کے Printed ہیں اور مواعظ کیا دو دو، ڈھائی ڈھائی گھنٹے، تین تین گھنٹے کے مواعظ ہیں یعنی ایک وقت میں اتنا اتنا لمبا وہ جو ہے ناں وعظ ہوتا تھا۔ اچھا اس وقت ان کے لکھنے کا یہ ریکارڈنگ سسٹم تو نہیں تھا جیسے ہمارے پاس ہے، وہ سارے نظام جو ہے ناں مطلب بن گئے تھے اس کے حساب سے اور پھر اس کی صفائی کرنا پھر حضرت اپنی آنکھوں کے سامنے سے گزارتے تھے، دیکھتے تھے کہ کوئی زائد بات تو نہیں لکھی گئی تو حضرت اس کو دیکھتے تھے، پھر اس کے بعد اس پر شرح صدر ہوتا تو اس کو شائع کردیا جاتا تھا۔ یہ تو ان دنوں کی مشکلات کو دیکھیں اور پھر ان دنوں کے اوقات کی برکت کو دیکھیں تو آدمی حیران ہوجاتا ہے، آج کل تو ہم لوگ بہت سہولتوں کے ساتھ ہیں لیکن ہم نے اپنے اوقات Skype کو دے رکھے ہیں، واٹس ایپ کو دئیے ہیں اور پتا نہیں کن کن چیزوں کو دئیے ہیں، سارے اوقات اس کے نذر ہو رہے ہیں، کام کے لئے اوقات ہمارے پاس بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں فائدے کے لئے استعمال ہوجائیں تو اچھی بات ہے ورنہ اس کے ساتھ جو مشغولی ہے، اس کے ساتھ جو دل کا لگنا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ دل کے ساتھ تو نہیں لگانا چاہیے۔ صرف بس جیسے ضرورت کے درجے میں آپ کسی چیز کو لیتے ہیں بس اتنا ہی اس کو استعمال کرنا چاہیے ورنہ پھر یہ بات ہے کہ اپنے آپ کو اس سے فارغ رکھنا چاہیے، دل کو تو اللہ کے لئے فارغ رکھنا چاہیے، دل کو تو اللہ کے لئے فارغ رکھنا چاہیے، دماغ کو کام کے لئے فارغ رکھنا چاہیے، جو کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اس کے لئے فارغ رکھنا چاہیے۔ مشقت اللہ کی رضا کے لئے ہو اور طلب بھی اجر کی ہو اللہ تعالی سے: ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ﴾ بیشک میرا اجر تو اللہ تعالیٰ پر ہے، یہ اصل میں بنیاد ہے، اس قسم کے حالات میں پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں بھی آتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت بھی آتی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد بھی آتی ہے، ورنہ پھر یہ ہوتا ہے کہ اوقات گزرتے جاتے ہیں، فائدہ نہیں ہوتا، ضائع ہوجاتے ہیں اوقات۔ بہت عرصے کے بعد پتا چلتا ہے کہ میں نے کتنا وقت ضائع کیا۔ اور آدمی مطلب یہ ہے کہ پشیمان ہی ہوتا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا اور وہ پشیمانی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے، اگر پشیمانی نہ ہو، اس پر فخر ہو تو پھر تو اور مصیبت ہے اور مسئلہ ہوجائے گا۔ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو اپنے طریقہ کار کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے اوقات کن چیزوں میں لگتے ہیں۔ اگر ہمارے اوقات مفید چیزوں میں لگ رہے ہیں تو سبحان اللہ! اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر مفید چیزوں میں نہیں لگ رہے تو ہمت ایسی نعمت ہے کہ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمت کے ساتھ رکنا چاہیے، ہمت کے ساتھ کرنا بھی چاہیے، ہمت کے ساتھ رکنا بھی چاہیے۔ اور جن چیزوں کو کرنے میں فائدہ ہے ہمارے لئے آخرت میں اللہ کی رضا کے لئے ان کے لیے ہم ہمت کریں، اور جن چیزوں میں فائدہ نہیں ہے نقصان ہے تو اس سے رکنے کی ہمت کرنی چاہیے۔ یہی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دیں۔




وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ




قطب و غوث کے روحانی مراتب اور اللہ پر توکل کی حقیقت - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ - دوسرا دور