اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾1 وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾2 وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: ’’أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ‘‘3۔ وَقَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى فِيْ كَلَامِهٖ: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾4
’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ۔‘‘
معزز خواتین و حضرات! بعض چیزوں کی بعض چیزوں کے ساتھ ایک ایسی نسبت ہوتی ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً مدینۃ المنورة کی آپ ﷺ کے ساتھ جو نسبت ہے، کیونکہ آپ ﷺ مدفون ہیں۔ وہاں اگر کوئی شخص چلا جائے، ویسے تو چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ﴾5 تو ہر جگہ پر درود شریف پڑھنا چاہیے۔ اگرچہ یہ پہلی دفعہ اگر آپ ﷺ کا نام لیا جائے، حدیث شریف کے مطابق واجب ہے آپ ﷺ پر درود پاک پڑھنا اور بعد میں جتنی مرتبہ اسی مجلس میں لیا جائے نام تو پھر مستحب ہے۔ اور ویسے بھی مستحب ہے درود پاک پڑھنا، لیکن مدینہ منورہ میں کوئی جا کر درود شریف نہ پڑھے تو یہ بات بڑی عجیب ہے کہ کیسی عجیب بات ہے کہ مدینہ منورہ جا کر بھی درود شریف نہ پڑھے! تو اسی طریقے سے ہر وقت درود شریف پڑھنا چاہیے اور آپ ﷺ کا یاد ہونا چاہیے کہ آپ ﷺ ہمارے بڑے محسن ہیں اور آپ ﷺ ہی کی برکت سے ہم مسلمان ہیں۔ آپ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم کا پتہ چلتا ہے۔ تو یہ ساری باتیں جو ہیں، وہ گویا کہ ہمارے لیے وہ ہیں، یعنی قابلِ فہم ہیں۔ لیکن ربیع الاول کے مہینے میں بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے مدینہ منورہ کا، کیونکہ ربیع الاول کی آپ ﷺ کے ساتھ ولادت کا، آپ ﷺ کی رحلت کا، آپ ﷺ کی ہجرت کا، تینوں اہم واقعات کی نسبت ہے۔ پیر کے دن اور ربیع الاول کے مہینے۔ کمال کی بات ہے، یہ تینوں پیر کے دن ہوئے اور ربیع الاول کے مہینے میں ہوئے ہیں۔ تو پیر کے دن کو تو لوگوں نے ’’پیر‘‘ کہہ دیا، یعنی گویا کہ اس کا regard کر لیا کہ یہ دن خاص ہے کیونکہ آپ ﷺ اس میں تشریف لائے ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی باقاعدہ انتظار فرماتے کہ میری رحلت پیر کو ہو جائے تو پھر زبردست بات ہوگی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یعنی ان نسبتوں کی قدر اپنے طور پر ضروری ہے، کیونکہ ظاہر ہے جس کو بھی محبت کے ساتھ واسطہ ہے تو محبوب کی ہر چیز کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔
اب دیکھ لیں، یہ مشہور کھلاڑی جو ہوتے ہیں، ان کا bat نیلام ہوتا ہے کتنے high level پہ! بعض، مطلب یہ ہے کہ مشہور لوگ ہوتے ہیں، ان کا قلم، بعض اور مشہور لوگ ہوتے ہیں، ان کی مطلب یہ جو چیزیں ہوتی ہیں، تو یہ سب نسبتوں کی باتیں ہیں۔ ورنہ قلم تو وہی قلم ہی ہوتا ہے۔ اس کو دیکھو تو اس کی value بازار کی کچھ بھی نہیں ہوگی، اگر کوئی یہ نہ بتایا جائے کہ فلاں کا قلم ہے، تو کوئی اس کو پانچ روپے کا بھی نہ لے۔ لیکن چونکہ ایک نسبت اس کے ساتھ ہوتی ہے تو لوگ اس کا بہت regard کرتے ہیں۔ تو اسی طریقے سے جو ربیع الاول کا مہینہ ہے، اس کا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ ہے، تو آپ ﷺ کے تعلق کی وجہ سے اس میں ہمیں درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہیے۔
یہ بات یہاں تک سمجھ میں آتی ہے۔ اس سے آگے کی بات پھر سمجھ میں نہیں آتی اور وہ سمجھ میں کیا نہیں آتی بات؟ کہ آپ ﷺ جو دین لے کر آئے، آپ ﷺ جو دین لے کر آئے یہاں پر، اس کا تو خیال نہ ہو اور آپ ﷺ کے نام پر بڑے ہنگامے شروع کر دیے جائیں۔ کسی کی نماز کی بھی پروا نہ ہو، کسی کے، مطلب یہ ہے کہ اعمال کی بھی پروا نہ ہو، خود بھی نماز نہ پڑھے، دوسروں کو بھی نہ پڑھنے دے، مطلب اپنے شور کی وجہ سے، ایسے بے ہنگم طریقے سے شور! اس کی وجہ یہ ہے کہ بھئی ایک محدود ایریا میں، ایک بازار میں بیس لاؤڈ سپیکر آن ہوں اور اس سے مسلسل جو ہے ناں وہ نعتیں، اور وہ بھی میوزک کے ساتھ، زیادہ تر آج کل میوزک کے ساتھ چل رہی ہیں، نعتیں چل رہی ہوں تو کس کو کیا پتہ چلے گا کہ کیا پڑھا جا رہا ہے؟ کیونکہ دیکھو sound اس کا بھی اپنا ایک scientific اصول ہے، دو آوازیں مل کر اس سے تیسری آواز بن جاتی ہے، اگر اکٹھے ہوں۔ تو اس طرح کئی آوازیں مل کر ایک ہی، مطلب جو ہے ناں وقت میں وہ مل کر وہ شور بن جاتا ہے جس کا کچھ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کیا پڑھا جا رہا ہے، کیا کہا جا رہا ہے۔
شور ایسی چیز ہے جو ناپسندیدہ ہوتی ہے اور نعت شریف ایسی چیز ہے جو پسندیدہ ہونی چاہیے۔ اب پسندیدہ اور ناپسندیدہ کو آپس میں ملا دیا تو یہ کیا چیز ہے؟ اس کو ہم کیا کہیں گے؟ یعنی عقل کی بات ہے۔ یہ بیوقوفی کی علامت ہے کہ انسان ایک پسندیدہ اور ناپسندیدہ چیزوں کو ملا لے۔ مطلب بہت میٹھی چیز کے ساتھ بہت کڑوی چیز ملا دی جائے۔ اس طرح اور بہت سارے واقعات ہیں، آپ اندازہ کر لیں ہمارے۔۔۔۔ میوزک ناپسندیدہ چیز ہے آپ ﷺ کو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دل میں نفاق کو ایسے یعنی وہ فروغ دیتا ہے جیسے پانی جو ہے ناں، پودے کو فروغ دیتا ہے۔ اب آپ میوزک کے ساتھ نعت شریف ملائیں تو یہ بالکل ایسا ہے جیسے toilet کے اندر کوئی قرآن پڑھے۔ اب قرآن بذاتِ خود حق ہے اور بہت برکت والا ہے اور اس پر اجر ہے تلاوت کا، لیکن کوئی toilet میں پڑھے تو اس کو گناہ ہوگا، کیونکہ اس نے قرآن کی بے ادبی کی، گستاخی کی۔ تو اسی طریقے سے نعت شریف گانے کے ساتھ، گانے کی سُر میں اور میوزک کے ساتھ پڑھنا انتہائی درجے کی گستاخی ہے، لیکن یہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمیں اس چیز کو ذرا کھلے دل کے ساتھ، بغیر کسی تعصب کے کہ کون کیا ہے اور کیا مطلب، اس کو نہیں دیکھنا، یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کہہ رہا ہے، logically کیا چیز ہے، دین کے لحاظ سے کیا چیز ہے۔ میں نے دین logically بھی آپ سے عرض کر لیا کہ کیا ہے یعنی اس طرح بے ہنگم انداز میں سارے مل کے نعتیں پڑھیں گے تو یہ شور بن جائے گا، تو logically یہ ٹھیک نہیں لگتا۔ اور دینی طور پر میوزک کو اس کے ساتھ اگر ملا دیا جائے یا گانے کے طرز پر اس کو پڑھا جائے، گانے کے طرز پر پڑھے جانے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے وہ گانا سنا ہوتا ہے تو سن رہے ہوتے ہیں نعت شریف اور ذہن میں ان کا گانا بج رہا ہوتا ہے۔ تو ظاہر ہے مطلب ہے کہ یہ تو ایک غلط حرکت ہے، تو اس سے ہمیں بچنا پڑے گا۔
یعنی آپ ﷺ کا ہمارے اوپر جو احسان ہے اور آپ ﷺ اللہ کے محبوب ہیں اور آپ ﷺ کی قدر کرنا اللہ پاک کو مطلوب ہے، تو ہمیں صحابہ کرام سے سیکھنا ہوگا کیونکہ صحابہ کرام جو تھے وہ اوّلین مخاطب تھے۔ اگر انہوں نے کوئی صحیح کام کیا تو اس کی تعریف کی گئی، یعنی آپ ﷺ نے اس کو مان لیا، آپ ﷺ نے اس کو رہنے دیا۔ اور اگر کوئی غلطی ہوگئی تو آپ ﷺ نے فوراً correction کردی۔ اس وقت ہماری کوئی correction کرے گا تو کوئی عالم کرے گا، اُس وقت آپ ﷺ خود کر رہے تھے۔ اس وجہ سے وہ ان کی life ہے، وہ معیار ہے۔ تو ذرا تھوڑا سا گزشتہ اوراق میں انسان چلا جائے، back to past اور دیکھے کہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، علی کرم اللہ وجہہ نے، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے، یہ دن کیسے منایا؟ منایا بھی یا نہیں منایا؟ یہ بھی دیکھنا چاہیے۔ کہیں بھی اس کا ثبوت نہیں ہے، کہیں بھی نہیں ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اصل آپ ﷺ کی ولادت کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ بڑے بڑے مؤرخین کا اختلاف ہے۔ یہ اختلاف اس بات کی علامت ہے کہ یہ معمول کا دن منائے جانے کا نہیں تھا، ورنہ اگر کوئی دن منایا جاتا ہے تو اس میں اختلاف ہوتا ہے؟ اس میں تو اختلاف نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ کوئی صاحب تھے، تو علم اس کے پاس نہیں تھا، لیکن کچھ خاندانی لحاظ سے مشہور بہت تھے، لوگ ان کے پاس آتے تھے۔ تو اس نے کچھ لوگوں کے ساتھ مشورہ کیا کہ میرے پاس علم تو نہیں ہے تو میں کیا کروں؟ مطلب ظاہر ہے، مجھے تو نہیں آتا مجھے کچھ۔ انہوں نے کہا کہ آپ یہ کہہ دیا کریں کہ ’’اس میں اختلاف ہے‘‘۔ تو اختلاف تو باتوں میں ہوا کرتا ہے، تو اس سے آپ کی بے علمی جو ہے ناں وہ چھپی رہے گی۔ تو وہ جو بھی آتا، کوئی بات پوچھتا، وہ کہتا: ’’اس میں اختلاف ہے‘‘۔ تو اکثر جگہ وہ set ہو رہا تھا۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ بہت بڑا عالم ہے کہ اس کو دیکھو، اتنے اختلافات کا بھی پتہ ہے۔ ایک صاحب اس کو تاڑ گئے، یہ آدمی تو جانتا کچھ نہیں ہے، صرف اختلاف کو سیکھا ہے۔ اس نے کہا کہ ’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ‘‘ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ کہتا ہے: ’’اس میں اختلاف ہے‘‘۔ لوگوں نے اس کو مارنا شروع کیا کہ کلمے میں کیسے اختلاف ہو سکتا ہے! تو یہ بات ہے کہ بھئی آپ ﷺ کی ولادتِ پاک کا دن اگر منایا جاتا تو اس میں کیسے اختلاف ہوتا؟ اب دیکھیں، سب سے زیادہ مشہور کیا ہے؟ کہ 12 ربیع الاول یہ یومِ ولادت ہے اور 12 ربیع الاول یومِ وفات بھی ہے، یہ مشہور ہے، سب سے زیادہ مشہور یہی ہے۔
لیکن astronomers جو ہیں، back calculation، آج کل back calculation کوئی مشکل نہیں ہے، کمپیوٹر پر آج کل میں بھی آپ کو بتا سکتا ہوں کہ آپ ﷺ کی ولادتِ پاک کے سال کا جو ربیع الاول کا مہینہ تھا، وہ چاند کتنا اونچا تھا افق سے، یہ بھی معلوم ہوا ہے۔ ظاہر ہے، مطلب یہ ہے کہ back calculation سے یہ ساری چیزیں ممکن ہیں۔ تو back calculations کر کے اس سے پتہ چلا ہے کہ آپ ﷺ کا یومِ ولادت جو تھا، چونکہ پیر کا دن تھا، پیر کا دن تو fix ہے، وہ جو احادیث شریفہ میں موجود ہے اور ربیع الاول کا مہینہ بھی fix تھا۔ تو پیر کا دن کب کب آتا تھا؟ ظاہر ہے آج کل calculation ہو سکتی ہے کہ پیر کا دن کب کب آتا تھا۔ تاریخ کتابوں میں طے شدہ نہیں ہے، اختلافی ہے۔ پیر کا دن اختلافی نہیں ہے اور ربیع الاول کا مہینہ بھی اختلافی نہیں ہے۔ تو ان دونوں چیزوں کو لے کر ہم اگر analysis کرنا چاہتے ہیں تو آپ ﷺ کے سالِ ولادت میں جو ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن پڑتے تھے، وہ یا یکم کو پڑتا تھا، یکم ربیع الاول، یا آٹھ ربیع الاول، یا 15 ربیع الاول، یا 22 ربیع الاول، یا 29 ربیع الاول۔ اور وفات کا بھی ایسا ہی تھا۔ تو پھر حدیث شریف کے اور واقعات ساتھ ملا کر جو ہوتا ہے ناں کہ مطلب فلاں واقعہ اس وقت ہوا، فلاں واقعہ اس وقت ہوا، یہ ہماری عورتوں میں یہ چیز بہت مشہور ہے، ہمیں تو تاریخ یاد ہوتی ہے ناں، عورتوں کو کیا پتہ ہوتا ہے؟ وہ فلاں کا بچہ اس وقت اتنے کا تھا، وہ ان کا کیلنڈر یہ ہوتا ہے۔ تو وہ مطلب اس سے واقعی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہاں یہ بات صحیح ہے، ان کو پتہ ہوتا ہے۔ تو وہ ظاہر ہے آدمی جان لیتا ہے۔ تو یہ واقعات اس طرح مطلب جو ہوئے ہیں، جیسے اصحاب الفیل کا واقعہ جو ہوا ہے، تو اسی سال آپ ﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے، تو بہت سارے واقعات اس طرح جو ہوئے تھے، recorded ہوتے ہیں۔ تو اس سے پتہ چلا کہ یکم ربیع الاول کی تاریخ، یکم، آٹھ، پندرہ، بائیس، انتیس یا دوسری طرف اگر ایک دن کا فرق ڈال لیں، ایک دن کا فرق ہو سکتا ہے، تو دو، نو، سولہ اور تئیس، یہ تھیں۔ تو پتہ چلا دوسری روایات کے ساتھ غور کر کے، تو یہ یا آٹھ تاریخ کو آتی ہے ولادتِ پاک، آٹھ ربیع الاول یا نو ربیع الاول کو، کیونکہ پیر کا دن fix ہے۔ آٹھ اور نو میں فرق ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف وفات کا جو ہے، وہ یا یکم ہے یا دو ہے، یکم ربیع الاول ہے یا دو ہے۔ تو گویا کہ بارہ دونوں میں نہیں ہے، لیکن مشہور کیا ہے؟ مشہور 12 ربیع الاول ہے۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیز اتنی زیادہ وہ تھی، یعنی جس پہ کوئی عمل نہیں تھا، اس پہ عمل ہوا ہے، یہ مصر کا کوئی بادشاہ تھا، انہوں نے پہلی دفعہ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اس دن کو منایا تھا، کیوںکہ اس کی حکومت خطرے میں تھی، جانے والی تھی، تو اس نے مطلب گویا کہ لوگوں کی اس محبتِ رسول ﷺ کو exploit کیا اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اس نے دن منایا۔ غالباً دو سو سال پہلے کی بات ہوگی۔ تو اس وقت سے یہ منانا شروع ہوا ہے۔ تو ایک بادشاہ نے منانا شروع کیا ہے، یہ کوئی فقیہ نے نہیں منانا شروع کیا، کسی بڑے بزرگ نے منانا شروع نہیں کیا ہے۔ ہمارا تو مسلک یہ ہے اس مسئلے میں کہ آپ ﷺ پہ درود پاک ہمیں ہمیشہ پڑھتے رہنا چاہیے اور آپ ﷺ کی سنت پر ہمیشہ عمل کرتے رہنا چاہیے اور یہی دو چیزیں ہیں جو کہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کی سب سے بڑی علامت ہیں: درود شریف کثرت کے ساتھ پڑھنا اور آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا۔ یہی دو چیزیں ہیں جس کا مطالبہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اور آپ ﷺ کی طرف سے بھی۔ پس اگر کوئی یہ کر رہا ہے تو وہ ہر روز ما شاء اللہ منا رہا ہے اس کو، ہر روز اس کا تعلق بن رہا ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ خاص دن پر۔ یہ تو وہ نہیں ہوتے، محرم کا جیسے مناتے ہیں؟ ان کا یہ ہوتا ہے کہ بس ایک خاص دن مناؤ پھر باقی ساری چھٹی کرو، پھر آپ کے اوپر کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ تو جان چھڑانے والی بات ہے۔ ہمارا کام جان چھڑانا نہیں ہے، ہمارا کام ہے مسلسل آپ ﷺ کے طریقے پہ چلنا اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت کی وجہ سے مسلسل درود شریف پڑھنا اور آپ ﷺ کی تعریف جتنی ہم سے ہو سکتی ہے، اس کو کرنا۔ یہ جو ہے ناں، مطلب یہ ہمارا کام ہے۔
باقی یہ ہے کہ اپنی من مانی کرنا، یہ کون سی دین کی بات ہے؟ مطلب کبھی کس طریقے سے منایا جاتا ہے، کبھی کس طریقے سے منایا جاتا ہے۔ ایک آدمی ایک طرف detract ہو جائے ناں، راستے سے ہٹ جائے، آج ہی صبح میری بات ہو رہی تھی ایک صاحب سے، تو میں نے کہا کہ صراطِ مستقیم ایک ہے، جب کہ باقی ایک دفعہ detract ہو جائے تو پھر اس کے بعد کچھ پتہ نہیں کہ کون سا کدھر گیا۔ ظاہر ہے، پھر آپ کے پاس اگر بنیاد ہی ختم ہوگئی پھر اس کے بعد کدھر ٹھہریں گے؟ پھر تو آپ کا راستہ روکنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، آپ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ جتنا مرضی ہے لوگ چیخیں، آپ کہیں گے میرے نزدیک یہ ہے۔ تو اسی طریقے سے ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ وہ چیزیں بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ جس طرح اُن کے ہاں بڑھ رہی ہیں ناں، اس طرح اِن کے ہاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ دونوں میں مماثلت ہے۔ حالانکہ ہمارا دین مستقل ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾6 ایک دین ہے اور وہ آپ ﷺ کا لایا ہوا دین ہے اور صحابہ کرام کا طریقہ۔ ہاں! اجتہادی اختلافات ہوتے ہیں، اجتہادی اختلافات میں کوئی بات نہیں ہے، وہ ایک سمجھ کا اختلاف ہے، لیکن دین ایک ہوتا ہے، دین میں کوئی فرق نہیں ہوتا، دین سارا ایک ہے۔
تو بہرحال میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ ہم لوگوں کو آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا ثبوت دینا چاہیے، آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کے ذریعے سے۔ آپ ﷺ پر کثرت سے درود شریف پڑھنے سے اور آپ ﷺ کا ذکرِ خیر کرتے رہنا چاہیے۔ کوئی خاص دن مقرر نہیں ہے، وہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ ہمیں کرتے رہنا چاہیے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان کے ہاں کوئی خاص نظام نہیں تھا نعت شریف سننے کا یا پڑھنے کا۔ کبھی کبھی اچانک فرما دیتے: "بھئی ہے کوئی سنانے والا؟" تو جو اچھا سنانے والا ہوتا تھا تو وہ آجاتا، مطلب سناتا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ کوئی نہیں تھا ایسا، مطلب ہم تو تھے لیکن مطلب ہم میں کوئی سنانے والا ایسا نہیں تھا، کیونکہ میری آواز ٹھیک نہیں ہے، باقی لوگوں کی بھی شاید ایسی ہی ہوگی۔ تو اچانک فرمایا: "ہے کوئی سنانے والا؟" تو جب کوئی نہیں بولا تو میں نے کہا: "حضرت میں سناؤں؟" حضرت نے پوچھا: "کیا سناؤ گے؟" مطلب ظاہر ہے، کبھی میں نے سنایا تو تھا نہیں! "کیا سناؤ گے؟" تو رحمان بابا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار کی کتاب ذرا دور پڑی ہوئی تھی، میں نے اس طرف اشارہ کیا کہ میں اس میں سے سنا دوں گا۔ حضرت نے فرمایا: "اچھا پھر سناؤ"۔ تو میں نے اس کو اٹھا لیا، اس میں سے سنا دیا۔ آواز میری اگرچہ ایسی ہی ہے جیسے آپ جانتے ہیں، لیکن الحمدللہ چونکہ حضرت کی اپنی طلب تھی تو محفل بن گئی۔ تو ہمارے ہاں کوئی مستقل طور پر یہ چیز نہیں ہے لیکن بند بھی نہیں ہے۔ بعض لوگ تو بند کر دیتے ہیں، نہیں! بند بھی نہیں ہے۔ اچھے الفاظ سے نعت پڑھنا، سبحان اللہ! ایک اچھی چیز ہے۔ آپ ﷺ نے خود سنی ہے۔ مطلب حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ممبر پر خود اپنے سامنے بٹھایا، فرمایا: "پڑھو، روح القدس کے ذریعے سے اللہ تیری مدد فرمائے"۔ اور پھر پڑھنا شروع کیا حسان بن ثابت نے اور آپ ﷺ سن رہے تھے۔ تو نعت شریف کا پڑھنا صحابہ سے ثابت ہے اور سننا آپ ﷺ سے ثابت ہے۔ اور اسرائیلیات کی روایات میں بعض پیغمبروں سے ثابت ہے، جیسے سلیمان علیہ السلام کی عبرانی میں نعت ہے عبرانی میں۔ تو یہ ٹھیک ہے، مطلب ظاہر ہے، ہو سکتا ہے۔
تو نعت شریف، سبحان اللہ! بہت اونچی چیز ہے، بہت اونچی چیز ہے۔ ہم لوگوں کو نعت شریف کے ساتھ محبت ہونی چاہیے، لیکن نعت شریف میں ایک احتیاط بھی ہے جو بہت ضروری ہے، کیونکہ آپ ﷺ مخلوقات میں سب سے زیادہ افضل ہیں، جن و انس جتنے بھی ہیں مخلوقات، سب سے زیادہ افضل اس میں کون ہیں؟ آپ ﷺ۔ لہٰذا آپ ﷺ کی تعریف اگر کرتے ہوئے آپ ذرا بے احتیاط ہو کر تھوڑا سا اور آگے بڑھائیں تو اللہ کی صفات میں شریک کر لو گے۔ ظاہر ہے وہ خطرناک ہے۔ اور اگر نیچے کر لو گے تو بھی خطرناک۔ تو بالکل عین track پہ چلنا یہ تو تلوار پہ چلنے والی بات ہے، بڑا مشکل کام ہے۔ تو ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں جا رہا تھا دفتر، میرے ساتھ ہی ایک ساتھی تھے، وہ ذرا باذوق آدمی تھے، شعر و شاعری کے لحاظ سے جاننے والے تھے۔ تو مجھے کہا، "شبیر صاحب! آپ کی حمدیں تو موجود ہیں، آپ کی نعت شریف کبھی نہیں سنی، آپ نے نعت شریف کبھی نہیں کہی"۔ میں نے یہی بات کی، میں نے کہا میں نعت شریف نہیں کہہ سکتا، کیونکہ اس میں مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں میں افراط و تفریط میں مبتلا نہ ہو جاؤں، جو خطرناک ہے۔ خیر یہ بات میں نے عرض کر لی، بس اللہ پاک کی طرف سے نظام ہے، وہ تو اللہ ہی چلاتا ہے۔ پہلا شعر وارد ہوگیا اسی وقت۔
”اپنے آقا کی تعریف کیسے کروں، اس کے کرنے کو میری زباں ہی نہیں“
تو وہ میں سنا دیتا ہوں، میرے خیال میں اچھا ہے، آپ لوگ سن لیں۔ وہ ایک حافظ صاحب نے پڑھی ہے:
اپنے آقا کی تعریف کیسے کروں، اس کے کرنے کو میری زباں ہی نہیں
جس کسی دل میں ان کی محبت نہ ہو، ایک پتھر ہی ہے اس میں جاں ہی نہیں
وہ ہیں محبوب ربِ کریم، مصطفیٰوہ کہ مظہر ہدایت کے ہیں، مجتبیٰتو مری اب زباں پر ہو صَلِّ عَلٰیاب درود و سلام میں ہمیشہ پڑھوں، دل سے میں ہر جگہ، صرف وہاں ہی نہیں
ہیں سراپا وہ رحمت ہمارے لیےان کا رستہ ہدایت ہمارے لیےمنبعِ فیض و حکمت ہمارے لیےجو کبھی بھی جدا ہوگیا ان سے تو، اس کے بچنے کا کوئی مکاں ہی نہیں
اب بھی ملتا ہے ان کی نظر کے طفیلان کی تعلیم، دیں پر اثر کے طفیلہے بشر زندہ خیر البشر کے طفیلنام لیوا اگر نہ رہے ان کا تو، پھر خدا کی قسم یہ جہاں ہی نہیں
پڑھ کے سیرت میں ان کی ہی، انساں بنوںان کے پیچھے رہوں، مردِ میداں بنوںان کو میں چھوڑ کر کیسے تیرا بنوں؟گر محبت نہ حاصل ہو ان کی شبیرؔ، تو کہوں یوں کہ پھر تو ایماں ہی نہیں
اپنے آقا کی تعریف کیسے کروں، اس کے کرنے کو میری زباں ہی نہیں
جس کسی دل میں ان کی محبت نہ ہو، ایک پتھر ہی ہے اس میں جاں ہی نہیں
تو یہ پھر میں نے ان صاحب کو سنا دیا۔ بہرحال یہ ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کی جو محبت ہے، جیسا کہ اس میں فرمایا گیا کہ وہ ایمان کی علامت ہے، آپ ﷺ کے ساتھ جو محبت ہے۔ اور کسی کو اگر آپ ﷺ کے ساتھ محبت نہیں ہے تو اس کے ایمان کا بچنا بڑا ہی مشکل ہے، بڑا ہی مشکل ہے اس کے ایمان کا بچنا۔ اور یہ بات میں نہیں کر رہا، میری زبان ایسی نہیں ہے کہ یہ بات کر سکوں، آپ ﷺ نے خود فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: "لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ"7 اس کا عمومی ترجمہ یہ ہے عربی کا کہ تم میں سے اس وقت تک کوئی ایماندار نہیں ہے جب تک کہ مجھے اپنے آباء سے اور اپنی اولاد سے، بلکہ سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے۔ یہ بنیاد ہے۔ آپ ﷺ نے خود فرمایا۔ پھر ایک موقع پہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! مجھے آپ سے محبت ہے ہر چیز سے زیادہ، بجز اپنی جان کے"۔ انہوں نے طبعی بات کی کہ انسان کو اپنی جان کے ساتھ زیادہ محبت ہوتی ہے۔ شاید یہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "عمر! یاد رکھو، جب تک میں تمہیں اپنے آپ سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں، اس وقت تک ایمان کامل نہیں ہوگا"۔ اس کے بعد انہوں نے فوراً کہا: "یا رسول اللہ! اب تو میں اپنے آپ سے بھی زیادہ آپ کو محبوب سمجھتا ہوں"۔ فرمایا: "اَلْاٰنَ يَا عُمَرُ!" (اب بات بن گئی)۔ تو پتہ چلا کہ اگر آپ ﷺ کی محبت نہ ہو تو پھر تو ایمان کا بچنا مشکل ہے۔
لیکن ساتھ ایک دوسری بات بھی ہے کہ آپ ﷺ آئے کس لیے؟ آپ ﷺ کے آنے کا منشائے الٰہی کیا تھا؟ یعنی مطلب آپ ﷺ کو کیوں بھیجا گیا؟ تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کو دین کی تکمیل کے لیے بھیج دیا گیا۔ یہ بالکل آپ ﷺ نے فرمایا کہ جیسے ایک عمارت ہو، اس میں ایک اینٹ کی جگہ باقی ہو اور ایک اینٹ رکھ دی جائے اور وہ عمارت مکمل ہو جائے، تو نبوت کی عمارت جو ہے، وہ میرے آنے سے مکمل ہوگئی۔ تو اب ختمِ نبوت کا تاج بھی آپ ﷺ کے سر پر ہے۔ تو آپ ﷺ کی جو محبت ہے، وہ بھی لازم ہے اور آپ ﷺ کی پیروی، کیونکہ ہمیں آپ ﷺ کے علاوہ کوئی اور source نہیں مل سکتا جس سے ہم جان سکیں کہ اللہ پاک ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ کوئی اور source نہیں ہے۔ جتنے بھی دوسرے sources ہیں، ان کی انتہا آپ ﷺ پر ہوتی ہے۔ اگر ہمیں کسی صحابی سے معلوم ہوتا ہے، یہ بھی اس کا ذریعہ آپ ﷺ ہیں۔ اگر قرآن سے پتہ چلتا ہے، قرآن بھی آپ ﷺ کے ذریعے آیا ہے۔ یعنی جو بھی چیز ہے، اس میں end آپ ﷺ ہیں اور پھر آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے لیتے ہیں۔ تو اس وجہ سے آپ ﷺ کی پیروی کرنا، یہ بنیاد ہے۔ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا: "میں تم میں دو چیزیں چھوڑے دیتا ہوں، اگر ان کا اتباع کرو گے، پیچھے رہوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ ایک قرآن ہے اور دوسری میری سنت ہے"۔ ایک قرآن ہے، دوسری میری سنت ہے۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ کا کلام جو آپ ﷺ کے ذریعے سے آیا ہے اور آپ ﷺ کی سنت۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن جو ہے، یہ وحیِ الٰہی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی وحی ہے آپ ﷺ پہ آئی ہے اور وحیِ جلی ہے، یعنی ظاہری وحی ہے مطلب جو سب کو پتہ ہے۔ اور ایک وحیِ خفی ہے جس کو وحیِ غیر متلوّ بھی کہتے ہیں۔ وہ وحی آپ ﷺ کے قلب پر ایسے اتاری جاتی کہ اس کی تلاوت نہیں کی جاتی لیکن اس پر عمل کیا جاتا ہے، وہ ہے آپ ﷺ کی سنت۔ تو آپ ﷺ نے جو فرمایا، قرآن نے اس کو document کیا کہ قرآن نے بتایا کہ نہیں کرتے آپ ﷺ کوئی بات اپنی طرف سے مگر اللہ تعالیٰ جو وحی کرتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ کی ہر بات میں جو بنیاد کا source ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی بات ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی بات ہے۔ اپنی طرف سے آپ ﷺ کوئی بات کرتے نہیں ہیں، بلکہ ہوا یہ، ایسا ہوتا تھا، یعنی آپ ﷺ کی زندگی کے حالات اگر آپ پڑھیں اور یہ حدیث شریفہ کا اور قرآن کی اگر تاریخ آپ دیکھیں، یعنی آپ ﷺ کے زمانے کی، تو اس میں آپ دیکھیں گے کہ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ آپ ﷺ سے کوئی سوال پوچھا گیا، آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا جب تک کوئی وحی نہیں اتری، جب تک کوئی وحی نہیں اتری، اس وقت تک آپ ﷺ خاموش ہو جاتے۔ بلکہ بعض دفعہ صحابہ کرام کو تکلیف ہو جاتی کہ کیوں ہم نے ایسا سوال کیا جس نے آپ ﷺ کو فکر میں ڈال دیا۔
آپ ﷺ کے سامنے جو ہے ناں، ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو بچیاں تھیں۔ اس عورت نے کہا: "یا رسول اللہ! یہ میری دو بچیاں ہیں، ان کے والد فلاں تھے جو آپ کے ساتھ احد کی لڑائی میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے مال پر اُن کے بھائی نے قبضہ کر لیا، ان کے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے۔ واللہ! ان کے ساتھ کوئی شادی نہیں کرے گا جب تک ان کے پاس مال نہیں ہوگا، تو ہمارے لیے کیا حکم ہے؟" اب آپ ﷺ کا جتنا، یعنی نرم دل تھا اور محبت کرنے والا، اس وقت کتنا تڑپ گیا ہوگا! لیکن اس وقت کچھ نہیں فرمایا کیونکہ حکم نہیں آیا تھا۔ اس وقت خاموش رہے۔ پھر جب اس کے بارے میں حکم آیا، یہ سورۃ النساء کی جو آیاتِ مبارکہ ہیں، یہ جب آگئیں تو آپ ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ جاؤ اس جو چچا تھا، مطلب جو ہے ناں بچیوں کا چچا، ان کے پاس چلے جاؤ، ان سے کہو کہ دو تہائی یہ بچیوں کو دو ان کے مال کا اور آٹھواں حصہ وہ بیوہ ہے، اس کو دے دو اور باقی خود رکھ لو۔ یہ پہلا مسئلہ تھا جس پہ عمل ہوا تھا آپ ﷺ کی زندگی میں میراث کا، چونکہ میراث کے احکامات آگئے تو اس کے مطابق فیصلے بھی شروع ہوگئے۔ تو آپ ﷺ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے تھے، کچھ نہیں کرتے تھے، جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں آتا تھا۔ آخر دیکھیں ناں، وہ جو تین حضرات جو پیچھے رہ گئے تھے، جب پیچھے رہ گئے تھے تبوک کی لڑائی سے، تو انہوں نے اپنے آپ کو پیش کردیا اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا کہ ہم نہیں گئے، یہ ہماری غلطی تھی اور اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کیا۔ آپ ﷺ نے ان کو اس وقت تک کچھ نہیں کہا جب تک اللہ کا حکم نہیں آیا تھا۔ بس boycott والی بات ہوگئی۔ تو جس وقت وہ اللہ کا حکم آگیا ان کے بارے میں توبہ کی قبولیت کا، تو آپ ﷺ بہت خوش ہوئے، کیونکہ اپنی امت پہ بڑے مہربان تھے، لیکن مسئلہ یہ تھا اللہ کا حکم۔ تو اس وجہ سے یہ جو ہے ناں، آپ ﷺ کی پیروی جو ہے، یہ بھی بہت ضروری ہے۔ اور آپ ﷺ کی پیروی سے کیا ہوتا ہے؟ یہ بھی اللہ پاک نے فرما دیا: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾8 "اے میرے حبیب! اپنی امت سے کہہ دیں، اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کر لو، اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا دیں گے"۔ ﴿یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾، اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا دیں گے۔ یعنی آپ ﷺ کی پیروی میں اللہ کی محبوبیت ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ چونکہ اللہ کے محبوب ہیں، آپ ﷺ کی ہر ادا، ہر کام اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، تو جو بھی اس کو کرنے والا ہوگا، وہ بھی محبوب ہو جائے گا۔ تو اس وجہ سے اگر کوئی شخص دین و دنیا میں کامیاب ہونا چاہتا ہے، دین و دنیا میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو آپ ﷺ کی پیروی شروع کر لے، آپ ﷺ کے طریقے پہ چلنا شروع کر لے، تو ظاہر ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے ما شاء اللہ دین و دنیا کی کامیابی کے دروازے کھول دیے جائیں گے کیونکہ اللہ پاک کا وعدہ ہے۔
تو اس وجہ سے یہ دو شانیں ہیں آپ ﷺ کے ساتھ، آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت، آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت اور آپ ﷺ کی سنتوں کی پیروی۔ اب شیطان، ظاہر ہے، وہ کب اس کو اپنی اصلی حالت پہ رکھ سکتا تھا! اس نے یہ کوشش اور محنت کر لی کہ ان دونوں میں دراڑ ڈال دی۔ کچھ لوگوں نے سنتوں پہ چلنا شروع کیا، آپ ﷺ کی محبت کو یعنی کم سمجھا، بلکہ ان کی باتوں کو چھیڑنا ہی نہیں چاہتے، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے ویسے، یہ ویسے جذباتی باتیں ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور کچھ لوگوں نے آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ کافی سمجھا اور عمل کو بالکل کچھ بھی نہیں سمجھا، بلکہ اتنے موٹے موٹے دعوے، آدمی حیران ہو جاتا ہے، بھئی کس دلیل پہ کرتے ہو؟ دیکھیں، آپ ﷺ نے اپنی بیٹی، محبوب بیٹی، فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا، "اے میری بیٹی! اس وجہ سے تم نہیں بچو گی تم میری، میں تیرا باپ ہوں، بلکہ اس لیے بچو گی کہ تیرا اپنا عمل ایسا ہو، اپنے عمل کی وجہ سے بچو گی"۔ اب بیٹی کا معاملہ اور وہ بھی اتنی محبوب بیٹی کہ آپ ﷺ جب سفر پہ جاتے، سب سے آخر میں ان سے ملتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے ان سے ملتے! لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان کی اس محبت کو کافی نہیں قرار دیا، بلکہ اس کے لیے عمل کو لازمی بتا دیا۔ اس وجہ سے آج چاہے کوئی کتنا بڑے سے بڑا دعویٰ کیوں نہ کرے، لیکن اگر وہ عمل پہ نہیں جاتا تو اس کے سارے دعوے کاغذی دعوے ہو جائیں گے، اس کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ کیونکہ ہر دعوے کی حقیقت ہوتی ہے اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا دعویٰ جو ہے، یہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ پھر عمل۔
ایک صحابیِ رسول ﷺ نے آپ ﷺ سے عرض کیا، "یا رسول اللہ! مجھے آپ کے ساتھ محبت ہے"۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا، "کیا کہتے ہو؟" پھر اس نے کہا، "یا رسول اللہ! مجھے آپ کے ساتھ محبت ہے"۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا، "کیا کہتے ہو؟" یعنی اچھی طرح ان کو پکا کردیا۔ جب انہوں نے اچھی طرح کہہ دیا کہ میں آپ کے ساتھ محبت کرتا ہوں، فرمایا، "پھر زیادہ سجدوں کے ذریعے سے میری مدد کرو"، یعنی زیادہ نماز پڑھو، زیادہ نماز پڑھو اس کے ذریعے سے میری مدد کرو۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو پھر اس کا ثبوت عمل کے ذریعے سے ہونا لازمی ہے۔ ایک بات۔ دوسرے صحابی نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! مجھے آپ کے ساتھ محبت ہے"۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا کہتے ہو؟" اس طرح ان کو بھی جب پکا کیا تو پھر پوچھا۔ پھر فرمایا: "پھر مصیبتوں، پریشانیوں کے لیے تیار ہو جاؤ۔ کیونکہ سب سے زیادہ تکلیف مجھے دی گئی، پھر اس کے بعد، پھر اس کے بعد"۔ مطلب اس دنیا میں تو پھر ایسا ہوگا۔ تو دیکھو، ایک ہے اختیاری مجاہدہ، نماز پڑھنا۔ ایک کے لیے اختیاری مجاہدہ فرمایا، دوسرے کے لیے غیر اختیاری مجاہدہ کا فرما دیا۔ تو گویا کہ آپ ﷺ کی محبت کے دو مظاہر ہیں: ایک اختیاری مجاہدہ ہے اور دوسرا غیر اختیاری مجاہدہ ہے اور دونوں میں کامیابی آپ ﷺ کی محبت کی ضمانت ہے۔
تو اس وجہ سے ہم خالی خولی دعوے نہ کیا کریں، خالی خولی دعوے نہ کیا کریں، اس کے پیچھے ہم لوگ بنیاد بنائیں۔ اور بنیاد کیسے بنتی ہے؟ وہ بھی عرض کرتا ہوں۔ دیکھیں، محبت کہاں ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے محبت؟ دل میں ہوتی ہے، محبت دل میں ہوتی ہے۔ اب اگر دل میں آپ ﷺ کی محبت ہے تو اس سے یہ ہوگا کہ آپ عمل کرنا چاہیں گے، آپ عمل کرنا، اگر صحیح محبت ہے۔ یہ بات عرض کرتا ہوں، صحیح نہیں ہے پھر تو out of course ہے، پھر تو معاملہ دوسرا ہے۔ صحیح محبت کی بات کر رہا ہوں۔ اگر صحیح محبت ہے دل میں ہے، تو آپ عمل کرنا چاہیں گے لیکن عمل کا domain دل کا نہیں ہے، وہ کس چیز کا ہے؟ وہ نفس کا ہے۔ نفس کے ذریعے سے انسان عمل کرتا ہے، کیوں؟ خواہشات نفس سے ابھرتی ہیں۔ تقویٰ اور فجور یہ نفس کے ذریعے سے وجود میں آتے ہیں۔ پس اگر کسی کے نفس کی اصلاح ہو چکی ہوگی تو وہ دل کی آواز پہ لبیک کہے گا نفس، اور وہ پھر ظاہر ہے وہ عمل کرے گا جو عمل چاہیے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو دل رو رہا ہوگا لیکن نفس تیار نہیں ہوگا عمل کے لیے، نفس عمل کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ لہٰذا صرف اور صرف، مطلب یہ ہے کہ گویا کہ محبت کے جو الفاظ ہیں یا محبت کے جو ذرائع ہیں، ان کو حاصل کر کے ہم یہ کام نہیں کرسکتے، بلکہ اس کے لیے ٹھوس کام کرنا چاہیے اور وہ کیا ہے؟ اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ اپنے نفس کی۔ اب نفس کی اصلاح دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ نفس کی اصلاح کیا ہے؟ (اس بات کو نوٹ کر لیں۔) نفس کی اصلاح کیا ہے؟ وہ مجاہدہ کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ تو آپ ﷺ نے کون سی چیزوں کا بتایا تھا محبت کے ساتھ کیا بتایا تھا؟ دو مجاہدے بتائے ناں، ایک اختیاری مجاہدہ، دوسرا غیر اختیاری مجاہدہ ہے۔ تو یا تو اختیاری مجاہدہ کے ذریعے سے آپ کو اٹھا دیا جائے گا اور نفس کی اصلاح ہو جائے گی، پھر آپ عمل کرنا شروع کر لیں گے صحیح۔ اور یا پھر غیر اختیاری مجاہدہ کے ساتھ ہو جائے گا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ دل کا درست ہونا، یعنی دل میں محبت کا ہونا، یہ چاہیے، لیکن کافی نہیں ہے، کافی نہیں ہے۔ کافی کرنے کے لیے۔۔۔۔ دیکھو! وہ صحابی کی بات صحیح ہے، آپ ﷺ کے سامنے کر رہے تھے، اگر کافی ہوتی تو آپ ﷺ فرماتے، بس ٹھیک ہے، کام ہوگیا ناں؟ اتنا بڑا ثبوت ہمیں مل گیا الحمد للہ ان دو احادیثِ شریفہ سے۔ اگر یہ بات کافی ہوتی تو بس بات ختم ہو جاتی۔ تو یہ جذب والی جو باتیں کرتے ہیں تو یہاں سے بھی ثبوت مل جاتا ہے کہ صرف جذب کافی نہیں ہے۔ جذب کس چیز کے لیے ضروری ہے؟ عمل کے لیے ضروری ہے۔ اور عمل آتا ہے، ظاہر ہے سلوک کے ذریعے سے اور سلوک آتا ہے نفس کی اصلاح کے ذریعے سے اور نفس کی اصلاح آتی ہے مجاہدے کے ذریعے سے۔ تو مجاہدہ کرنا پڑے گا، چاہے اختیاری ہے، چاہے غیر اختیاری ہے، کرنا پڑے گا۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس پر محتاط ہونا چاہیے۔
تو ان دو میں دراڑ ڈالی گئی شیطان کی طرف سے اور شیطان نے لوگوں کو چسکی پہ لگا دیا۔ کسی کو صرف محبت کے دعوؤں پہ لگا دیا اور کسی کو عمل کے ساتھ، اور اس میں محبت کا نہ ہونا، خشکی جس کو ہم کہتے ہیں، خشکی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ جو عمل انسان کسی اور جذبے سے کرے، وہ مطلوب نہیں ہے۔ آج ہم کیا بات کر رہے تھے؟ مطلب ویسے اگر ہم لوگ کسی اور مقصد کے لیے کر لیں، کوئی عقلی بات یا کوئی اس طرح، تو وہ نہیں، وہ اصل میں ایمان کے ذریعے سے اس کا اگر تعلق ہو تو پھر اس کی value بنتی ہے، ’’اِلَّا بِقَدْرَ عَقْلِہٖ‘‘ والی بات میں، اس میں معرفت والی بات آجاتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہم لوگ کیا کر رہے ہیں اس مسئلے میں۔ تو دونوں چیزوں کو صحیح اپنی جگہ پہ رکھنا پڑے گا، یعنی محبت بھی ہونی چاہیے اور ساتھ ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے۔ خشک عمل جس میں محبت نہ ہو، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعمال کچھ کم تھے؟ خود آپ ﷺ نے فرمایا کہ ستاروں کے برابر، اس سے زیادہ نیکیاں! لیکن اس سے فرمایا، "جب تک تم اپنے آپ سے بھی مجھے زیادہ محبوب نہیں سمجھو گے تو کامیابی نہیں ہوگی"۔ تو اس کا مطلب ہے کہ عمل والوں کے لیے کیا ضروری ہے؟ محبت ضروری ہے۔ محبت والوں کے لیے کیا ضروری ہے؟ عمل ضروری ہے۔ اور دونوں چیزیں لازمی ہیں ایک دوسرے کے ساتھ، یہ لازم و ملزوم ہیں، بغیر اس کے نہیں ہو سکتا، بغیر اس کے نہیں ہو سکتا۔ تو اب دیکھ لیں، اسی کے لیے پھر ایک کلام کہا ہے، یہ کسی طالب علم نے پڑھا ہے، بڑا اچھا پڑھا ہے ما شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب سے راضی ہو جائے۔ بات یہ ہے کہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں لگتی ہیں لیکن اس پہ بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں، بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ تو ہمیں ذرا ان باتوں کو سمجھنا چاہیے کہ ہم لوگ جو ہیں ناں، وہ ان دونوں کو جدا نہ کریں، یعنی محبت بھی ہمارے اندر ہو اور ساتھ ساتھ، یعنی یہ بھی ہو، یعنی عمل بھی ہو۔
کتنی بڑی نعمت ہے محبت رسول کیکتنی ہے ضروری متابعت رسول کی
اب سارے طریقے جو ہیں منسوخ ہوگئےاللہ کو پسند ہے سنت رسول کی
اللہ نے جو جمال و کمال ان کو دیا تھادل پر تو اس لیے ہے حکومت رسول کی
کتنی بڑی نعمت ہے محبت رسول کیکتنی ہے ضروری متابعت رسول کی
معیار اب اچھے برے کا کیسے ہو مشکلجب تجھ کو ہے معلوم شریعت رسول کی
یعنی اصل میں ہم لوگ اگر یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون سا کام اچھا ہے اور کون سا کام برا ہے تو ہمارے پاس معیار موجود ہے اور وہ ہے کیا؟ شریعت۔ یعنی آپ ﷺ نے جو فیصلے کیے ہیں اور اللہ پاک کی طرف سے جو فیصلے آئے ہیں، یعنی قرآن پاک میں، اس سے بہتر فیصلے کون سے ہو سکتے ہیں؟ اگر ہم لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کون سا کام صحیح اور کون سا غلط، کون سا کام اچھا ہے، کون سا کام برا، اس کے لیے ہمارے پاس شریعت کی کسوٹی موجود ہے، تو ہم فیصلہ شریعت پر کر لیا کریں، اپنے جذبات پہ نہ کریں۔
جو ان کے بن گئے ہیں وہ اللہ کے بن گئےاللہ کے ساتھ ہے کیسی حیثیت رسول کی
کتنی بڑی نعمت ہے محبت رسول کیکتنی ہے ضروری متابعت رسول کی
چونکہ اللہ جل شانہٗ نے جو کچھ آپ ﷺ کو دیا، وہ آپ ﷺ نے اپنی امت تک پہنچا دیا۔ جو پہنچانے کے لیے دیا تھا اور اس بات کا جو ہے ناں وہ مظاہرہ حجۃ الوداع کے موقع پہ ہوا تھا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ جو مجھے دین پہنچایا اللہ نے، کیا میں نے تم لوگوں تک وہ پہنچا دیا؟ تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ نہ صرف پہنچا دیا بلکہ اس کا حق ادا کیا ہے۔ تو آپ ﷺ نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا، "اے اللہ! تو گواہ رہنا، اے اللہ! تو گواہ رہنا، اے اللہ! تو گواہ رہنا"۔ تو آپ ﷺ نے درمیان میں اپنی بات نہیں رکھی، جو اللہ کی بات تھی، وہ ساری کی ساری آگے communicate کردی۔ تو جب یہ حالت ہو جاتی ہے کہ اس میں کسی کی اپنی بات کوئی نہیں رہتی تو پھر ان کی ہر بات اُن کی طرف سے ہوتی ہے جو اُن کو بات بھیج رہے ہیں۔ تو آپ ﷺ کو جو مقبول تھے، وہ اللہ کو مقبول تھے اور آپ ﷺ جن کو پسند نہیں کرتے، ان کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا جو آپ ﷺ کے ہوگئے، وہ اللہ پاک کے ہوگئے۔ تو یہ بات مطلب ہمیں سمجھنی چاہیے کہ آپ ﷺ کی حیثیت جو تھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی تھی کہ جس کے لیے آپ ﷺ نے کیا جو ہے ناں مطلب تو بس اللہ پاک نے اس کو لے لیا۔
شبیؔر بن جا اب تو ان کا سچا متبعمل جائے وہاں تجھ کو شفاعت رسول کی
کتنی بڑی نعمت ہے محبت رسول کیکتنی ہے ضروری متابعت رسول کی
تو آپ نے ما شاء اللہ سن لیا، یہ مطلب نعت شریف تھیں دونوں اور نعت شریف کے ساتھ ساتھ یہ اس میں پیغام بھی تھا جو پیغام یعنی پہنچنا چاہیے سب کو۔ تو ایسی نعتوں کو ضرور سننا چاہیے، کیونکہ اس میں پیغام ہوتا ہے، اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت ہوتی ہے اور جو ان میں مقبول ہیں، ان کو سن کر جن کے جذبات ان کے مطابق ہو جائیں تو وہ بھی اللہ پاک کے مقبول ہو جاتے ہیں۔ مطلب یہ بھی ایک بات ہے۔ لہٰذا ایسی نعتیں تو سننی چاہئیں لیکن ایسی نعتیں جیسی میں نے تھوڑی دیر پہلے عرض کیا تھا کہ اس میں میوزک کا گند ملا ہو یا گانے کے طرز پر پڑھا گیا ہو تو ایسی نعتوں سے بالکل بچنا چاہیے، کیونکہ یہ گویا کہ دین کے راستے سے بے دین کرنا ہے، دین کے راستے سے کسی کو بے دین کرنا ہے۔ مثلاً آپ کسی کو دوائی کی صورت میں زہر دے دیں تو کتنا خطرناک ہے! آپ تو علاج کے لیے مطلب دوائی لے رہے ہیں لیکن وہ زہر، تو کتنا خطرناک ہوگا! تو اسی طریقے سے مطلب یہ ہے کہ یہ جو چیز ہے کہ جو اللہ جل شانہ نے، یعنی مطلب یہ ہے کہ جو صحیح چیز ہم تک پہنچائی ہے، وہ اگر ہم آگے کر لیں تو یہ صحیح ہے اور اگر خود اپنے نفس کی چیز ساتھ ملا دیں تو نفس تو نفسِ امارہ تو وہ تو نقصان ہی پہنچاتا ہے، وہ تو اللہ پاک نے فرمایا۔ تو اس چیز سے ہمیں بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے بچائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ
۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث: 100) ترجمہ: ’’میں بھیجی ہوئی رحمت ہوں‘‘
۔ (الأحزاب: 56) ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘
۔ (الأحزاب: 56)
۔ (المائدة: 3) ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔‘‘
۔ ’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰى أَكُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِهٖ، وَوَلَدِهٖ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ‘‘۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 14)
۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘