توجہ متعارف

جوڑ بیان (یہ بیان 3 جولائی 2019 کے مکتوبات شریف کے درس سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھمحضرت شیخ محمد نواز صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مکتوب سے شروع ہوتا ہے جس میں "توجہ" کے اس عام تصور کو سختی سے رد کیا گیا ہے، جہاں مرید بغیر کسی ذاتی کوشش کے پیر سے اپنی روحانی اصلاح کی توقع رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، توجہ کی اصل حقیقت کو "قلبی دعا" قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، جو ایک بے غبار اور محفوظ تعریف ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اسے "ہمت" یعنی ایک روحانی قوت کہتے ہیں جس کے ذریعے شیخ اپنی قلبی کیفیت مرید میں منتقل کرتا ہے، لیکن بیان میں اس قوت کے غلط استعمال پر شدید تنبیہ کی گئی ہے، جہاں دکاندار صوفیوں نے اسے مسمریزم اور شعبدہ بازی بنا کر لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ اس کا درست استعمال صرف ہنگامی حالات میں جائز ہے، جیسے کسی سالک کو روحانی خطرے سے بچانے کے لیے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے، بحیثیت مجدد، اس فتنے کی اصلاح کے لیے توجہ کو قلبی دعا تک محدود کرکے اس کی اصل روح کو بحال کیا۔ جو سلاسل، بالخصوص نقشبندی حضرات، اس اصلاح سے مستغنی رہے، وہ غلو اور بگاڑ کا شکار ہوئے۔ لہٰذا، توجہ ایک ذریعہ ہے، مقصود نہیں، اور اس کی بہترین اور محفوظ ترین صورت قلبی دعا ہی ہے تاکہ فتنے کا سدِ باب ہو۔

توجہ متعارف:

ایک صاحب نے مجھے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ’’جلاء القلوب‘‘ جلد 22 کا درج ذیل مکتوب بھیجا۔

توجہ کی حقیقت:

لفظ "توجہ" اہلِ طریق میں بہت مستعمل ہے، اور اس کو آج کل بڑا کمال سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں، فلاں ایسے بزرگ ہیں کہ ایک نظر جس پر ڈال دی، وہ مسخر ہو گیا، بلکہ ولی کامل ہو گیا، اور اکثر طالبین اسی توجہ کی درخواست کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے، مجھ سے نماز نہیں پڑھی جاتی، ایسی توجہ ڈالیے کہ میں پکا نمازی ہو جاؤں۔ (ہمارا تو روز مرہ کا کام ہے، ہمیں تو معلوم ہے بالکل ایسے ہی ہورہا ہے۔) کوئی کہتا ہے مجھ سے بدنظری کا مرض نہیں چھوٹتا، ایسی توجہ کیجئے کہ میری نظر بے موقع اٹھ ہی نہ سکے، اور معلوم نہیں کیا کیا اسی قسم کی درخواستیں ہوتی ہیں۔ حاصل ان سب کا یہ ہے کہ خود کچھ کرنا نہ پڑے، سب کرنا کرانا پیر صاحب ہی کے ذمہ ہے۔

صاحبو! کوئی یہ درخواست نہیں کرتا کہ ایسی توجہ کیجیے کہ بلا کھائے پیٹ بھر جایا کرے، یا بلا نکاح اولاد ہو جایا کرے۔ جب پیر صاحب کی توجہ سے سب کچھ ہو سکتا ہے، تو بلا کھائے پیٹ بھی بھر سکتا ہے اور بلا نکاح اولاد بھی ہوسکتی ہے، پھر یہ درخواست کیوں نہیں کی جاتی۔

بات یہ ہے کہ پیٹ بھرنے کی اور اولاد کے ہونے کی ضرورت اور وقعت تو قلب میں ہے، لہٰذا ان کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا جاتا، اور اصلاحِ قلب، اور نماز روزہ وغیرہ، اور اجتناب عن المعاصی کی ضرورت اور وقعت ہی قلب میں نہیں ہے، لہٰذا یہ حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ اور اگر کسی نے ذرا سا سہارا دے دیا کہ ہاں دعا کریں گے یا توجہ کریں گے، تو بس ”خوئے بد را بہانہ بسیار“، اس امید دلانے پر اطمینان ہو گیا اور فراغت ہوگئی کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو رہے گا۔

صاحبو! اگر توجہ متعارف سے اصلاح ہو جایا کرتی، تو انبیا علیہم السلام سے زیادہ کون اس کام کو کر سکتا تھا، اور ان سے زیادہ کون شفیق ہو سکتا تھا، مگر ان حضرات نے کبھی اس سے کام نہیں لیا۔ مصیبتیں اٹھائیں، جہاد کیے، برے برے الفاظ سنے، مگر یہ نہیں کیا کہ توجہ ڈال کر سب کے قلوب مسخر کر لیتے اور سب کا تزکیہ ہو جاتا۔ حالانکہ اس سے یہ فائدہ ہوتا کہ ان حضرات کو بھی سہولت ہوتی، مصیبتیں نہ اٹھانا پڑتیں، اور طالبین کو تو بہت ہی آسانی ہوتی کہ کچھ کرنا ہی نہ پڑتا۔

آپ غور کر سکتے ہیں کہ کوئی بات تو ہے جو ایسا نہیں کیا، اور وہ حضرات کیا کرتے، حق تعالٰی ہی نے ان کے واسطے اس کو تجویز نہیں کیا، کیونکہ وہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کرتے تھے، بس وہی کرتے تھے جو وحی کے ذریعے سے ان کو امر کیا جاتا تھا۔ اب سمجھ میں آگیا ہوگا کہ توجہ بالمعنى المتعارف غیر سنت ہے۔(جلاء القلوب: ج 22) (جواہرات حکیم الامت: ج2، ص:262)

اس مکتوب میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے صاف طور پر ’’توجہ متعارف‘‘ کو غیر سنت ثابت کیا ہے۔ البتہ اس کی تشریح کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ذرائع میں سے ہیں، اور ذرائع وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اور اس کی ضرورت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، اور ذرائع میں بعض دفعہ جب غلو ہوتا ہے، تو سدِ باب کے طور پر روکنا بھی پڑتا ہے، اس لیے اس پر ایک تفصیلی نظر کی ضرورت ہے کہ اس سے کیا فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں اور اس کے غلو سے کیا مسئلے پیدا ہوسکتے ہیں۔

1۔ توجہ کیا ہے؟

سب سے پہلے اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ توجہ ہے کیا؟

شیخ یا کسی محسن کا کسی سالک کی طرف خیر پہنچانے کی نیت سے متوجہ ہوجانا توجہ کہلاتا ہے۔ مثلاً، کوئی طالب علم ہے، اس کو سبق میں کوئی مشکل پیش آئی ہے، تو اس کی مشکل کو حل کرنے کے لیے استاد متوجہ ہوتا ہے۔ اس طرح کسی مرید کے سلوک میں کوئی مشکل پیش آئی، تو شیخ اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ یہ تو اس کی اصل ہے، باقی اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے، اس میں قدرے تفصیل ہے۔ ہم نے اپنے شیخ مولانا محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ سے سنا تھا کہ توجہ قلبی دعا ہوتی ہے، توجہ قلبی دعا ہوتی ہے۔ یہ اس کی ایک بے غبار تعریف ہے، جس میں کسی فتنے کا احتمال ہی نہیں۔ بعد میں تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اپنے شیخ سے سنا تھا، اور انہوں نے اس کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا تھا، اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا تھا۔ اب صورت حال کھل گئی، اور وہ یوں کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پہلے نقشبندی نسبت حاصل کر چکے تھے، اور بعد میں چشتی سلسلے میں آپ ﷺ کی منامی ایما پر حضرت میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے۔ توجہ سے زیادہ کام نقشبندی حضرات لیا کرتے ہیں، اس لیے حضرت کو اس کا نہ صرف پتا تھا، بلکہ حضرت کے سامنے وہ باتیں بھی تھیں جو بعد میں فتنہ کی شکل اختیار کر گئیں، اس لیے حضرت نے الہامی طور پر توجہ کی ایسی تعریف فرمائی جو بے غبار ہے۔ البتہ توجہ کی عرفی صورت کی حقیقت کیا ہے، اس کو معلوم کرنا ضروری ہے۔

توجہ کی عرفی صورت کو ہمت اور تصرف بھی کہتے ہیں۔ اس میں شیخ مرید کے قلب پر اپنے قلب سے تصرف کرتے ہیں، یعنی اپنی قلبی حالت سے مرید کی بری قلبی حالت کو بدلنے کے لیے تصرف کرتے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الطاف القدس‘‘ میں اس کو ہمت کے عنوان سے بیان فرمایا ہے۔

’’ہمت: متأخرین صوفیہ خصوصاً نقشبندیہ نے قلب کے احوال میں ایک ایسی قوت دریافت کی ہے اور اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے، جس سے متقدمین صوفیہ کرام آشنا نہ تھے۔ (جو حضرت کے بیان میں ہے، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ) البتہ شاذ و نادر بلا تعینِ قاعدہ اس طرح کی کچھ چیزیں ان سے ظاہر ضرور ہوئی ہیں اور وہ قوت ہے شاگرد یا مرید کے اندر کسی خاص حالت دینی کو اپنی توجہ سے پیدا کرنا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ انسان میں غلبہ پانے کی قوت اور عزم ودیعت رکھا گیا ہے، صاحبِ قوت و عزم جس چیز کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے تو اپنی قوتِ ارادی سے اس پر غالب آتا ہے اور وہ دوسرا شخص مغلوب، پریشان، خوفزدہ اور ہراساں ہوجاتا ہے۔ اور اگر یہ شخص (صاحبِ عزم) کسی کے ساتھ نشست و برخاست کرتا ہے اور اس کا جو بھی حال ہو، خوشی یا غم وغیرہ کا، وہ اس دوسرے شخص میں سرایت کر جاتا ہے۔ لوگ اس قوت کے غلبہ کے اعتبار سے مختلف الحال واقع ہوئے ہیں۔ بعض میں یہ پوری طرح پائی جاتی ہے اور بعض میں بالکل ہی یہ قوت نہیں ہوتی اور بعض میں اوسط درجہ کی ہوتی ہے، لیکن یہ قوت معاملات کے ضمن میں اور گفتگو کے دوران یا حکومت اور لڑائی و مقابلہ کے وقت ظاہر ہوتی ہے اور غم اور خوشی کی حالت میں گفت و شنید کے ساتھ ملی ہوتی ہے جو اس صفت سے اثر لے چکی ہوتی ہے۔ اگر بعض اعلیٰ صفات جیسے خطابت، مشیخت، تدریس یا حکومت، تو اس سے بعض اوقات کرشمے وجود میں آتے ہیں۔ (ایسے شخص کو کرشماتی شخصیت کہتے ہیں (Charisma کہتے ہیں اس کو انگلش میں، Charismatic) جو بہترین لیڈر بن سکتے ہیں۔ چونکہ جداگانہ ظہور اس کا محض شعبدہ بازی ہے جس سے خواص مجتنب ہوتے ہیں، اسی وجہ سے عوام اس قوت کو تمام قوتوں سے ممتاز نہیں جانتے اور اس کی صورت اور صفت کا ادراک نہیں کرسکتے۔ جب ان صفات کا حامل شخص دوامِ بندگی میں مشغول ہوتا ہے اور اس کی صفاتِ قلبیہ محبت، وجد، شوق، بغیر کسی قسم کی بات کرنے کے یا بغیر کسی کام کرنے کے مستقل ہوں اور ان صفات کو ان چیزوں کے ساتھ ملانے کی ضرورت نہ ہو اور یہ صفت اس شخص کی تمام صفاتِ قلبیہ میں پھیل جائے اور قوّتِ غلبہ بھی اپنا حصہ پا لے۔ تو یہ شخص جب اپنے شاگرد یا مرید کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنی پوری ہمت اور قوتِ غلبہ کے ساتھ شاگرد کی روح گھیر لیتا ہے اور اپنی چشمِ ہمت کو اس کے دل و دماغ پر مرتکز کردیتا ہے اور جو صفت بھی چاہتا ہے محبت اور یقین وغیرہ سے اس کو شاگرد کے دل میں ڈال دیتا ہے، اس کو تاثیر توجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور قبولیت کی نظر سے دیکھنا اس کو کہتے ہیں اور حق بات یہ ہے کہ قوت غلبہ سے توجہ کرنا اور شاگرد کو صفاتِ محمودہ میں سے کسی صفت کے ساتھ نوازنا انتہائی بڑے درجہ کی نعمتیں ہیں اور بہت بڑی اعانت ہے۔ جن میں یہ صلاحیت کم ہو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو چقماق لاتا ہے اور لوہے کے ٹکڑے کو اس پر مارتا ہے تاکہ آگ کی چنگاری اس سے سلگ اٹھے اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ کبھی تو اس سے آگ کا ذرہ نکلتا ہے اور کبھی نہیں نکلتا اور کبھی نکلنے کے بعد نیچے گر جاتا ہے، کبھی روئی میں پڑ کر اسے جلا دیتا ہے اور جس میں یہ وافر ہو، اس کی مثال ایسی ہے جس نے بہت سی آگ مہیا کر لی ہے اور ہر جسم کو خواہ وہ جسم گیلا ہو یا خشک اور ہر وقت جس طرح چاہے بغیر شرط کے ملاحظہ کئے ہوئے وہ تصرف کرتا ہے اور اس (تر و خشک) کو بالکل جلا ڈالتا ہے ان دونوں اشخاص میں اور ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔‘‘

ایک ادب اور احتیاط:

یعنی اس میں گویا کہ بنیادی بات کیا ہے کہ بعض لوگوں میں صلاحیت پائی جاتی ہے اور بعض لوگوں میں قبولیت کی صلاحیت پائی جاتی ہے ان چیزوں کی۔ تو جس شخص میں کم ہے اس کو اگر قبولیت والا شخص مل گیا تو ان کا کام بھی کچھ نہ کچھ ہوجائے گا، جیسے روئی میں قبولیت ہے اور پتھر میں نہیں ہے، لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جس کے اندر یہ قوت بہت زیادہ پائی جاتی ہے تو ان کے سامنے پتھر بھی جل جاتا ہے، دوسرے بھی، مطلب ان کو کوئی مطلب مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن اب ایک ادب اور ایک احتیاط اس میں ہے:

یہ قوت اگرچہ بے بدل ہے، لیکن ہر چیز کا استعمال اگر صحیح ہو، تب یہ فائدہ دیتا ہے، ورنہ بجائے فائدہ کے اس سے نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً اسی قوت کو لیجئے کہ اس کو اگر اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے کہ کسی شخص میں ہمت ہو، لیکن کسی وجہ سے مایوس ہو اور اس کی وجہ سے وہ اس کو استعمال نہیں کر پا رہا ہو، تو اس کی ہمت کو انگیخت کرنے کے لیے ایسی قوت کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یا کسی حال وغیرہ میں کوئی ایسا پھنس گیا ہو، اس سے نکلنا اس کے لیے ناممکن کی طرح مشکل ہو، تو اس کو ہمت سے اس مشکل سے نکالنے کے لیے قوت کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کی عمومی زندگی میں مثال یوں ہے کہ گاڑی اگر کھڈے میں پھنس جائے، تو اس کو کھڈے سے نکالنے کے لیے لوگ اس کی مدد کرکے اس کو نکال لیتے ہیں، لیکن جب وہ نکل جائے، تو پھر گاڑی کو خود چلانا ہوتا ہے۔ آج کل اس قوت کے استعمال کے منتظر وہ بے ہمت لوگ ہیں جو خود کچھ نہیں کرنا چاہتے، لیکن اپنے مشائخ سے توقع رکھتے ہیں کہ بس وہ اپنی توجہ کی قوت سے ان کا بیڑا پار کرا دیں گے، ورنہ وہ ویسے ہی شکایتی رویہ رکھتے ہیں کہ ان پر توجہ کیوں نہیں کی جاتی۔

(بالکل صحیح بات ہے، یہ بات میرے ساتھ بھی ہورہی ہے، میں اس میں بالکل مبالغہ نہیں کررہا ہوں، یہ مجھ سے بھی یہ گلہ ہے، اور بہت سارے لوگوں کو ہے، یہ مطلب تھوڑے لوگوں کو نہیں ہے، بہت سارے لوگوں کو ہے، اور یہاں آکر بیٹھ جاتے ہیں میرے پاس، اور یہ باتیں شروع کر لیتے ہیں، تو بس میں بھی ان کو سننا شروع کر لیتا ہوں، میرے پاس پھر یہی طریقہ ہے میں اس کو سن لوں، اور کیا کر سکتا ہوں۔)

ورنہ وہ ویسے ہی شکایتی رویہ رکھتے ہیں کہ ان پر توجہ کیوں نہیں کی جاتی۔ جس کی وجہ سے ایک قوم کی قوم محروم ہورہی ہوتی ہے۔ اس صدی کے مجدد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے توجہ کے بارے میں کیا انقلابی نعرہ لگایا کہ یہ توجہ قلبی دعا ہوتی ہے۔ پس اگر کسی میں یہ قوت ہے اور دعائیہ صورت میں استعمال ہوجائے، تو تو نہ کرنے والے کو نقصان، نہ جن کے لئے ہے ان کو نقصان، فللہ الحمد۔

جو توجہ ہے، بس وہ قلبی دعا ہوتی ہے۔ جو کسى کے لیے کسى کى اک آہ ہوتی ہے۔

جو پھنسا ہو کسى حال میں، سے نکالنے کے لئے، کسى محسن کے دل کی لب سے ادا ہوتی ہے۔

اک تو یہ ہے کہ لوٹ پوٹ کسى کو کر دے، یہ توجہ اُس توجہ سے جدا ہوتی ہے۔

یہ توجہ کہاں مانگے سے ملا کرتى ہے، یہ توجہ اک تعلق سے پیدا ہوتی ہے۔

اس کو بازار کی دنیا میں نہیں لانا شبیرؔ یہ تو بس عشق کے میدان کى ندا ہوتی ہے۔

جیسے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو بات اوپر تحریر فرمائی ہے، انہوں نے اس دور کے جو مسائل تھے ان کو ٹھیک کرنے کے لیے جو بات فرمائی، وہ اس دور کے لحاظ سے ٹھیک تھی، لیکن جو توجہ ہے، وہ انبیاء کرام سے ثابت ہے۔ جیسے حاجی امداد اللہ صاحب نے فرمایا کہ یہ قلبی دعا ہوتی ہے، تو آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں قلبی دعا فرمائی تھی اور اس کا یہ اثر ہوا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلب نے اس دعا کا اثر لے لیا، جبکہ ابوجہل نے نہیں لیا۔ تو اس سے یہ دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں کہ ایک تو توجہ ثابت ہے، دوسرا یہ کہ جو قلب لینے والا ہوگا وہ لے لے گا اور جو نہیں لینا چاہے گا تو نہیں لے گا، بلکہ الٹا اس کا رد بھی ہو سکتا ہے۔ جب تحقیق کرنی ہو، تو پھر ہر زاویے سے دیکھنا ہوتا ہے۔ تو اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ توجہ اگرچہ ثابت ہے، لیکن اس میں جو سمجھنے والی بات ہے کہ یہ توجہ ذریعہ ہے، مقصود نہیں۔ تو جو اس کو مقصود بنالے گا، وہ بدعت فی الطریقت کا مرتکب ہوگا۔

توجہ کہاں استعمال ہوسکتی ہے؟

اس کو چند شرائط کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے:

کہ کوئی مخلص سالک ہے، اس پر کسی اور نے توجہ کرلی ہو، تو اس کی توجہ کو زائل کرنے کے لیے اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ کہ کسی کو ایمانی خطرہ لاحق ہو گیا ہو، تو اس وقت بھی یہ ہنگامی صورت حال ہوتی ہے، اس وقت بھی اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ کہ کوئی کسی حال میں بہت بری طرح پھنس جائے، اور اس سے اس میں شرک ہونے کا احتمال ہو، یا اس کی عقل کے جانے کا خطرہ ہو، کیونکہ عقل سے گیا تو شریعت ساقط ہوجائے گی، اور یا اس کی جان جانے کا خطرہ ہو، تو اس وقت بھی توجہ کے ذریعے اس کو بچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

یہ صورتیں ہیں ان میں شیخ کی توجہ چاہیے ہوتی ہے، لیکن بعض حالتوں میں اس سے کچھ فتنے بھی وجود میں آسکتے ہیں، جن کا سدِ باب بھی ضروری ہے۔

فتنے جو اس سے وجود میں آسکتے ہیں:

مرید کا پیر سے توجہ مانگنا بدعت فی الطریقت ہے، مرید کا پیر سے توجہ مانگنا بدعت فی الطریقت ہے۔ اور یہ اس کو گمراہ کرسکتا ہے۔ اگر مریدوں کو اس کی عادت ہوگئی ہے، تو ساری بدعتیں چونکہ گمراہی کی طرف لے جانے والی ہیں، اس لیے وہ گمراہ ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ طریقت میں ہوتے ہوئے بھی یہ گمراہ ہوسکتا ہے، اگر وہ یہ اس کی آس لگا کے بیٹھ جائے کہ میرے اوپر توجہ ہوگی تو کام ہوگا، اور شیخ سے یہ کہنا کہ مجھ پر توجہ کریں، یہ تو شیخ کو تجویز دینے والی بات ہے، اور بہت بڑی گستاخی ہے کہ شیخ کو کہہ دے کہ میرے ساتھ یہ معاملہ کریں۔ تو شیخ کی گستاخی کا مرتکب ہوگا۔

جو حضرات ابھی جڑے نہیں ہیں یا دین سے دور ہیں، وہ حالات ایسے آسکتے ہیں کہ وہ پہلے ہی دیندار لوگوں سے کھنچے ہوئے ہوں یا ڈرے ہوئے ہوں۔ جب ان تک یہ بات پہنچے گی کہ یہ حضرات تو توجہ کرکے بندے کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، تو وہ پھر قریب آکر بات بھی نہیں سنیں گے، وہ دور دور سے ہی سلام کریں گے اور قریب نہیں آئیں گے۔ تو اس طرح وہ طبقہ جو آسکتا ہے، جن سے بات کرکے ان پہ اثر ہوسکتا ہے، وہ بالکل ہی دور ہوجائے گا، تو یہ بھی فتنے کی ایک حالت ہے جس کا رد ضروری ہے۔

لوگوں میں توجہ کی طلب کو دیکھ کر بعض دکان دار صوفیوں نے اس نام پر اپنی دکانیں سجا لیں اور مسمریزم کے ذریعے سے اپنے معمولوں کے اندر بہت تحریکی کیفیات ڈال کر لوٹ پوٹ کرنا شروع کر دیا۔

(یعنی میں نے خود دیکھا ہے، وہ اس طرح کرتے ہیں۔ بالکل وہ اس طرح کرتے ہیں پھر ان میں وہ چیزیں پیدا ہوجاتی ہیں، تو یہ کیا چیز ہے، یہ کون سی توجہ ہے، اور یہ کس لیے ہے۔ یہ ساری ڈرامہ بازی ہے، مطلب اس کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے)

جب وہ حالت پیدا ہوجاتی ہے، تو ان کو کہتے ہیں کہ تمہارا سلطان الاذکار جاری ہوگیا، اور یہ تب ہوتا ہے جب کوئی ولی پچاس ہزار سال عبادت کرے تو اس کو یہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اور آپ کا اتنا آسانی سے جاری ہوگیا۔ بعض نے اس قسم کی توجہ کے ساتھ آپ ﷺ سے بیعت کروانے کا ڈھونگ رچوایا تھا۔ بعض نے اس قسم کی توجہ میں اتنی قوت حاصل کی کہ اپنی توجہ سے پوری مسجد تک کو متاثر کرکے ان پہ بزرگی کا سکہ جما کر ان سے اپنی منہ مانگی خواہشات پوری کرتے ہیں، جن میں خواتین تک کو متاثر کرنے کی کوشش کرکے اپنے سفلی عزائم کو پورا کرنے کی جسارت کی جاتی ہے، اور ان سب پر شان تقدس کا پردہ پڑا ہوتا ہے، اور کوئی کہے تو کیا کہے؟ کہے تو پورا تصوف بدنام ہوتا ہے، اور نہیں کہتا تو سلسلہ میں بگاڑ روز افزوں ہوتا ہے۔

اس تمام تحقیق کا لبِ لباب:

اگر توجہ کو ہمت و تصرف کہا جائے، تو یہ ایک ذریعہ ہے، اور بطور ذریعہ اس کا اوپر بیان کردہ مقاصد کے لیے اتنا استعمال کہ وہ مقاصد پورے ہوجائیں، جو فتنے ان سے وجود میں آسکتے ہیں ان سے بچنے کا پورا اہتمام کیا ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جہاں تک اس کی قلبی دعا کی حیثیت ہے، تو وہ تو دعا ہے، اور دعا عبادت ہے، اس لیے اس میں نہ کوئی حرج ہے، نہ اس سے کوئی فتنہ وجود میں آسکتا ہے، اس لیے آج کل کے دور میں اس کی یہی بہترین حیثیت ہے۔ اور حضرت کا توجہ متعارف کو غیر سنت کہنا اس معنی میں لیا جائے کہ یہ بطور ذریعہ ہے، مقصود نہیں، اور ذرائع کا مسنون ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ البتہ قلبی دعا والی بات پر تو سنت کی تعریف بھی صادق آتی ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ایسا کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی کے ذریعے مسلمان ہوئے تھے۔

ایک انتہائی اہم بات:

جیسا کہ بتایا گیا کہ مجددین پورے دین پر نظر رکھتے ہیں (یہ اصل بات وہ بات آگئی) اور دین کے جس شعبے میں کمی، عدم دلچسپی یا افراط و تفریط دیکھتے ہیں، اس کی خصوصی طور پر اصلاح فرماتے ہیں، لیکن ان کے کام میں ایک جامعیت پائی جاتی ہے، اس لیے ان سے دین کا ہر مکتبۂ فکر فائدہ اٹھاتا ہے۔ ان میں بعض اوقات جو فروعی اختلافات ہوتے ہیں یا علاج کے مختلف ذریعے ہوتے ہیں، ان میں کسی ایک میدان کے مردِ میدان ہونے کے باوجود ان کی نظر ہمہ گیر ہوتی ہے، اس لیے کسی اور میدان کی غلطی بھی ان پر نمایاں ہوتی ہے، جس سے وہ سب کو خبردار کرتے ہیں۔ اس وقت عین ممکن ہے کہ دوسرے حضرات جو اس سے مختلف فروعی مسلک کے یا مختلف طریقے کے ہوں، ان سے استغنا برتیں، جس سے ان کو شدید نقصان ہوسکتا ہے۔ مثلاً، مجدد اگر حنفی ہے، تو شوافع، مالکیہ یا حنابلہ اگر اس سے استغنا برتیں تو نقصان ہوسکتا ہے، کیونکہ مجدد جو بات کررہا ہے، اس کا تعلق کسی فروعی مسلک سے نہیں ہوتا، بلکہ ان کی نظر اس مسئلے میں عمومی ہوتی ہے، یا وہ چشتی سلسلے سے تعلق رکھتا ہے، تو نقشبندی حضرات یا دوسرے حضرات ان سے اس لیے استغنا اگر برتیں کہ ہمارا طریقہ تو ان سے مختلف ہے، اس لیے ہم پر ان کی تحقیق حجت نہیں، حالانکہ اس وقت ان کے دلائل عمومی ہوتے ہیں۔

نقشبندی سلسلے میں توجہ متعارف کا بہت استعمال ہوتا تھا، کیونکہ اس میں ابتدا انعکاسی فیض سے ہوتی ہے، جو بتدریج القائی اور پھر اصلاحی فیض میں بدلتی ہے۔ گردشِ ایام سے اس راہ کے سالکین میں اس پر اتنا انحصار بڑھ گیا کہ خود کچھ کرنا چھوڑ دیا اور شیخ پر ہی سب کچھ چھوڑ دیا۔ اب چونکہ اصلاح تو ہوتی نہیں تھی، اس لیے اگر فائدہ ہوتا تو اس کو اپنے کھاتے میں ڈالتے کہ ہم نے یہ کیا، اور اگر کام نہ ہوسکا تو شیخ پر نظر جاتی کہ شیخ توجہ نہیں دیتے، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنے سے نہیں گھبراتے، اگر کچھ اچھا کرلیں تو خود کیا اور نقصان ہوا تو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیردیتے ہیں، (یہ ڈاکٹروں کے ساتھ نہیں کرتے؟ یعنی اگر صحت ہوگئی تو ڈاکٹر نے دی اور اگر فوت ہوگیا تو بس اللہ کی مرضی۔ ایسا کرتے ہیں ناں مطلب، یہ تو ہمارے ساتھ۔۔۔۔) حالانکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریقہ سامنے ہونا چاہیے کہ فرمایا کہ میری بھی ایک رائے ہے، اگر صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے، اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ توجہ متعارف کی آڑ میں وہ کچھ ہوا کہ اللہ کی پناہ۔ ایک طرف تو دکاندار صوفیوں نے اس نام پر اپنی دکانیں سجا دیں۔

دوسری طرف لوگوں کو بھی اس میں مزہ آیا اور اس کے اپنی طرف سے گھڑے گئے فضائل، کہ اس سے سلطان الاذکار جاری ہوتا ہے جو کہ کسی ولی کے پچاس ہزار سال کی ریاضت سے جاری ہوا کرتا ہے، سے بے تحاشا لوگ اس دلدل میں پھنستے گئے۔ آپ ﷺ سے براہ راست بیعت کروانے کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کو پھانسا گیا، جس کے خلاف ہمارے شیخ مولانا اشرف سلیمانیؒ نے، جو جسمانی طور پر معذور تھے، لیکن اس کے خلاف جہاد کیا، اور نقشبندی سلسلے کے ایک بہت بڑے حلقے کے شیخ کے ہاں شریعت کے خلاف خلوت میں کالج کی بچیوں کے ساتھ ملاقات اور ان کو فنا فی الشیخ کے اثر میں گلے لگنے پر ابھارنا، ان کو توجہ کے نام پر نقاب اتارنے کو کہنا، جس کے لیے علمائے کرام کو باقاعدہ فتوی دینا پڑا کہ ایسا کرنا شریعت کے خلاف ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں ایسی تھیں جن کے سدِ باب کے لیے توجہ کی اصل حقیقت کو عوام و خواص کے سامنے لانے کی ضرورت بہت بڑھ گئی تھی۔

ان خرابیوں کی شروعات کے ساتھ بھی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، جن کی پہلی نسبت نقشبندی تھی بعد میں چشتیہ میں بیعت ہوئے، ان پر یہ باتیں کھلی تھیں، تو انہوں نے اس کے بارے میں ایک محتاط فقرہ فرمایا کہ توجہ قلبی دعا کو کہتے ہیں۔ یہ ایسا الہامی اور رو بہ اعتدال فقرہ ہے کہ مفاسد کی جڑ ہی اس سے کٹ جاتی ہے۔ دعا کہہ کر حق تعالی کی طرف بات موڑ دی، اور مسمریزم جیسی کیفیات سے ان کا کچھ بھی تعلق باقی نہ رہا۔ اصلاح والا پہلو برقرار ہے، لیکن شر کا پہلو کٹ گیا۔ اس کے بعد اس فکر کو حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لے کر اتنا عام کیا کہ ایک انقلاب برپا ہوگیا، جو کہ مجدد کی شان ہوتی ہے۔ اس لیے حضرت توجہ متعارف کے بارے میں فرماتے ہیں۔

اب جنہوں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجددیت کو تسلیم کرکے ان کے علوم سے استفادہ کیا، وہ اس مسئلے میں افراط و تفریط سے بچ گئے، اور جو ایسا نہ کرسکے، وہ اس میں غلو میں آگے بڑھ گئے کہ بعض اس میں فتنے کے شکار ہوگئے، جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔ باقی حضرات کے ساتھ تو اتنا بڑا حادثہ پیش نہیں آیا، لیکن نقشبندی حضرات جو اپنے آپ کو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ منسوب سمجھ کر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھتے تھے، (یہ زیادہ بات اسی پر چلی ہے ناں) اور اس بات پر جمے رہے کہ دوسروں کی جو انتہاء ہے وہاں سے ہماری ابتدا ہے، وہ زیادہ متاثر ہوئے، حالانکہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے مجددین جیسے وقت کے ساتھ ان مفاہیم کو جو اپنے وقت میں صحیح تھے، لیکن بعد میں لوگوں کی سمجھ میں قصور آنے کی وجہ سے وہ مفاہیم قابل اصلاح ہوئے، تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی اصلاح فرمائی۔ اب یہی روش اگر ان مفاہیم کے ساتھ روا رکھی جائے، تو اس میں کیا خرابی ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اگر وحدت الوجود بالسکر اور بدون سکر کے معانی میں فرق کو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے اگر وحدت الوجود بدون سکر کو ایک نیا نام وحدت الشہود دیا، تو اس سے کتنا فائدہ ہوا۔ اسی طرح توجہ متعارف کو جو مسمریزم کی شکل اختیار کرگئی تھی، ایک نئے نام کے ساتھ کہ یہ قلبی دعا ہے، کے ساتھ متعارف کیا جائے، تو اس میں کیا حرج ہے۔ یہ صرف ایک مسئلے کی مثال ہے، ورنہ حقیقتاً مجددین حضرات نے اپنے اپنے وقت میں جن جن مفاہیم کی اصلاح کی ہے، ان سے استفادہ اشد ضروری ہے، ورنہ فتنے کا منہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید کھلتا جاتا ہے، جو اہل خیر کی بعض متعارف کوششوں کو نگلتا جاتا ہے۔ یہ اصل میں بنیادی بات تھی جو میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ اگر خدانخواستہ وقت کے مجدد سے انسان استغنا برتے، تو اس سے معاملہ بہت کھٹائی میں پڑ سکتا ہے، بہت زیادہ نقصانات آسکتے ہیں اور یہ نقصانات ہمارے سامنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرما دے۔

یعنی آپ اندازہ کر لیں یہ جو مولانا اللہ یار خان صاحب تھے، ان کے ایک مرید نے مجھے خود کہا ہے، مطلب یہ درمیان میں تیسرے آدمی کی بات نہیں ہے، ڈائریکٹ مجھ سے بات کی ہے، ان کے مرید نے، ڈائریکٹ مرید ہے۔ انہوں نے کہا، حضرت ایک دفعہ بیٹھ کر کہنے لگے کہ میری توجہ فلاں جگہ تک پہنچتی ہے۔ بھئی کیا ضرورت ہے اس کے بتانے کی۔ اس کی کوئی ضرورت ہے؟ بھئی توجہ آپ کی پہنچتی ہے تو کیا ہوگیا۔ اس کے بتانے کی بھی ضرورت نہیں، اس پر کوشش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ تو وہ یہ ہے کہ بس پورا ایک مطلب وہ بن گیا بس۔

اب میں آپ کو یہ بات بتاؤں کہ جو ان کے سلسلے سے متعلق لوگ ہیں، وہ اس میں آگے اتنا زیادہ بڑھ گئے کہ باقاعدہ جیسے ہپناٹزم کو یہ سیکھتے ہیں ناں، اس طریقے سے وہ باقاعدہ اس چیز کو سیکھتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست ہیں، وہ جس نے مجھے کہا کہ اس کے بھائی اس سلسلے میں تھے۔ تو اس کے بیٹے اپنے بھتیجوں پر توجہ ڈالتے تھے۔ اور پھر دیکھتے کہ ان پر اثر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ یعنی شروع اس طرح سے کرتے ہیں کہ مطلب یہ کہ چونکہ بچے آپ کو پتا ہے ناں کنٹرول تو نہیں کر سکتے، ان میں اچھے معمول بن سکتے ہیں۔ تو بچوں کے اوپر توجہ کرنے سے سٹارٹ لیتے ہیں تاکہ مطلب یہ ہے کہ وہ آہستہ آہستہ مطلب جو ہے ناں وہ چیزیں develop ہو جائیں۔ جیسے انسان ایکسرسائز کرتا ہے تو پہلے ویٹ لفٹنگ جو کرتے ہیں تو تھوڑا وزن اٹھاتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں، تو ظاہر ہے مطلب پھر کافی وزن بھی اٹھا لیتے ہیں۔ تو اسی طریقے سے توجہ والے بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس میں اور مسمریزم میں پھر کیا فرق رہ گیا۔ یہ تو ہپناٹزم ہوگیا، اگر آپ اس کو اس طرح سیکھتے ہیں۔ ہاں! اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو وہ صفات دی ہیں جو حضرت نے فرمائی ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے، تو پھر ٹھیک ہے اس کو صحیح استعمال کر لو۔ لیکن یہ نہیں کہ آپ کو صفات دی ہی نہیں اور آپ خواہ مخواہ اس کو۔۔۔۔ پشتو میں ہماری کہتے ہیں: ’’ما مہ شمیرہ در گڈ یم‘‘ یعنی مجھے گنو مت میں تمہارے درمیان ہوں، میں تو اس طرح کروں گا۔ تو یہ چیز نہیں ہے۔ مطلب اس کو جو ہے ناں، جس کو اللہ نے اگر کوئی چیز دی ہے۔۔۔۔ مثلاً میری کوئی توجہ وغیرہ نہیں ہوتی، مجھے پتہ ہے۔ تو میں کیوں اس میں پڑ کے مطلب جو ہے ناں خواہ مخواہ اپنے آپ کو خراب کروں۔ نہ تو مجھے کشف ہوتا ہے، نہ مجھے توجہ کی قوت حاصل ہے، بس بادشاہ ہوں، بالکل پروا ہی نہیں کرتا۔ کوئی میرے پاس آتا ہے تو سچ بتا دیتا ہوں کہ بھئی مجھے تو عملیات بھی نہیں آتیں اور نہ کشف رکھتا ہوں اور نہ جو ہے ناں مطلب توجہ رکھتا ہوں۔

حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی ہیں۔ آپ شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ پڑھیں گے وہ جو ہے ناں سوانح، اس میں حضرت نے فرمایا ہے کہ میں گیا حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیعت کے لیے۔ حضرت نے فرمایا، بھئی بات یہ ہے کہ مجھ سے بیعت نہ ہو، کسی ایسے شخص سے بیعت ہو جاؤ جو کہ آپ کے شایانِ شان کام کر سکے۔ میرے ہاں تو پتھر کے اوپر نمک ڈال کر چاٹنا ہے۔ یعنی کچھ بھی محسوس نہیں ہوگا۔

تو میں عرض کر رہا تھا کہ یہ جو ہے ناں وہ شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی چونکہ اسی طریقے سے وہ سلوک حاصل کیا تھا تو انہوں نے پھر جو لکھا ہے بالکل کھل کھل کے لکھا ہے۔ اور وہ باتیں جو آج ہم کر رہے ہیں، حضرت کر چکے ہیں۔ اور یہ باتیں ہمیں مولانا عبدالغفور صاحب نے بتائی تھیں جو ٹیکسلا والے حضرت تھے، ٹیکسلا والے۔ تو ان کے پاس ہم گئے، تو ما شاء اللہ حضرت نے ساتھ بٹھایا۔ تقریباً گھنٹہ سوا گھنٹہ ہمارے ساتھ رہے حضرت کے۔ اور حضرت شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں بھی سناتے رہے۔ پھر ان کی اجازت سے ہم نے اس کو ٹیپ بھی کیا ہے۔ تاکہ ہمارے پاس سند رہے۔ تو یہ ہے۔

تو اصل میں بات یہ ہے کہ یہ چیزیں مطلب deviation چلی تھی لیکن کچھ حضرات نے اس کو روکنے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن یہ پھر بہت ہی بڑی گھمبیر بلا بن گئی تھی۔ یعنی اس میں چیزیں بالکل کنٹرول سے باہر ہو گئیں۔ اب یہ ہے کہ حضرت کا جو مکتوب شریف ہے 287، منظر عام پر آنے کی وجہ سے الحمد للہ کافی ساری چیزیں ما شاء اللہ کھل گئیں اور یہ سب چیزیں بھی سب اسی کی برکت ہیں، ما شاء اللہ جو یہ سب چیزیں آ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ان شاء اللہ کوئی صورت بن جائے، کیونکہ بہت بڑا سلسلہ ہے اور حضرت نے بھی اس کو طریقِ نامسلوک فرمایا ہے۔ یعنی حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے۔ کہ یہ عام طریقہ نہیں ہے بلکہ سپیشل طریقہ ہے اور detract ہے اپنے راستے سے۔ تو ایسی چیزوں میں احتیاط بہت بڑھ جاتی ہے۔ دیکھیں ناں مثال کے طور آپ عام شاہراہ پر جاتے ہیں ناں تو پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ بس چلتے جائیں، لوگوں کے پیچھے چلتے جائیں، آپ یہ مین روڈ پر چلیں ناں تو لاہور پہنچ ہی جائیں گے ناں، کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے درمیان درمیان میں راستے شارٹ کرنے ہیں، تو پھر کیا خیال ہے؟ تو عین ممکن ہے کہ آپ شارٹ کرتے ہوئے بہت ہی لانگ کر لیں۔ اگر detract ہو گئے تو پھر کیا کریں گے۔ تو یہ مطلب نقشبندی طریق میں یہی بات ہے کہ یہ ڈائریکٹ والی بات ہے اس میں راستے کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتے تھے، لیکن وہ حضرات پوچھنے والے ہوتے تھے اور سمجھنے والے ہوتے تھے۔ لہٰذا ان کے لیے واقعی راستہ چھوٹا ہو جاتا تھا۔ اب خود راہی بہت زیادہ ہے تو اس وجہ سے کون پوچھے گا اور کس سے پوچھے گا، بس ٹھیک ہے، مسئلے بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ اللہ پاک ہماری حفاظت فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


توجہ متعارف - اصلاحی جوڑ