اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾1 وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾2 وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: ’’أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ‘‘3۔
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! لیکن اگر انسان تھوڑا سوچے تو بہت ساری باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ میں ایک مثال دیتا ہوں، درود شریف کے بارے میں اللہ پاک نے جو فرمایا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ ؕ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا﴾4
جس میں درودِ پاک کے بارے میں ایک انتہائی مختلف طریقے سے، جس کے لیے کوئی مطلب، کسی اور چیز کے لیے طریقہ نہیں اپنایا گیا۔ یعنی ارشاد فرمایا گیا کہ درود پاک پڑھو اہتمام کے ساتھ، کیونکہ اللہ پاک بھی اور اللہ کے فرشتے بھی درود مطلب بھیجتے رہتے ہیں۔ تو یہ حکم عام ہے۔ یہاں بھی پڑھنا ہے، گھروں میں بھی پڑھنا ہے، رستے میں بھی پڑھنا ہے، ہر جگہ پڑھنا ہے، لیکن مدینہ منورہ میں کیا کرنا ہے؟ وہاں تو پڑھنا ہی پڑھنا ہے۔ سمجھ میں آ گئی ناں بات؟ وہاں تو پڑھنا ہی پڑھنا ہے۔ وہاں بھی اگر کوئی نہ پڑھے تو پھر ذرا۔۔۔۔ اگرچہ مستحب ہے یہ واجب نہیں ہے، لیکن ذرا بات مختلف ہوجاتی ہے۔ کیونکہ مدینہ منورہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا شہر ہے۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بھی موجود ہیں۔ تو اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پر جو مسجد نبوی ہے، اس کے احاطے میں خود سنتے ہیں۔ تو لہٰذا وہاں پر اگر کوئی نہ پڑھے تو بات بڑی ہی عجیب ہے، بات بڑی ہی عجیب ہے۔
بعض دفعہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ مختلف ذرائع کے ساتھ بہت کچھ دیتے ہیں، بہت کچھ دیتے ہیں، لیکن اس کی طرف لوگوں کا دھیان نہیں ہوتا، تو اگر کسی وجہ سے بھی اس کا دھیان ہوجائے تو کام بن جاتا ہے اُس کا۔
یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ جو تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کا ہے کہ مدینہ منورہ آپ کا شہر ہے، تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یاد آنا فطری ہے، اور وہاں درود شریف پڑھنا یقیناً فطرت کے عین مطابق ہے، تو ربیع الاول کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق زمانی ہے۔ یعنی اس ربیع الاول کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اسی ربیع الاول کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے تشریف لے گئے۔ اسی ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت شروع فرمائی، اس ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مکمل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے بھی مشہور کام ہیں، ظاہر ہے اس میں ہوگئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زمانی تعلق کے لحاظ سے ربیع الاول کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
اس وجہ سے ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یاد آ جانا یہ فطری بات ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنا یہ فطرت کے عین مطابق ہے، اور چونکہ ماحول بن جاتا ہے، رمضان شریف میں روزے رکھنا بڑا آسان ہے، لیکن جن کے روزے قضا ہوجاتے ہیں، ان کو پھر باقی دنوں میں جب رکھنا ہوتا ہے تو ان کے لیے کافی مشکل ہوتا ہے۔ وجہ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ رمضان شریف میں ماحول ہے۔ روزوں کا ماحول ہے۔ لہٰذا کسی کے لیے روزے رکھنا عجیب نہیں ہے۔ روزے نہ رکھنا عجیب ہوتا ہے۔ تو اس طرح ربیع الاول کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودِ پاک کا پڑھنا یہ عجیب نہیں ہے، بلکہ نہ پڑھنا یہ عجیب ہے۔ اس وجہ سے ہم بھی انگلی کٹا کے شہیدوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور دعوت دیتے ہیں کہ درود شریف پڑھنا چاہیے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ ؕ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا﴾5
تو یہ بات ہے۔ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کا بہترین موقع ہے، زمانہ ہے۔ اس کو ہم عقیدے کے طور پر نہیں لیتے۔ اس کو ایک عملی صورت کے طور پر لیتے ہیں۔ عقیدے کے طور پر ہم نہیں لیتے کہ نہیں، ربیع الاول میں درود شریف پڑھنا چاہیے اور باقی دنوں میں نہیں، یہ عقیدہ نہیں ہے ہمارا۔ ہم ہر وقت درود شریف پڑھنے کے قائل ہیں، ہم ہر وقت درود شریف پڑھنے کے قائل ہیں۔
ایک دفعہ ہماری ایک نعت شریف، اللہ اکبر! وہ لکھی گئی، اس میں ایک شعر یہ تھا:
اب درود و سلام میں ہمیشہ پڑھوں ہر جگہ، صرف یہاں ہی نہیں۔
یہ ایک شعر تھا۔ خدا کی شان! بعض چیزوں کو اللہ تعالیٰ قبولیت نصیب فرماتے ہیں۔ تو یہ نعت شریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں تصحیح فرمائی اور یہ فرمایا: ’’یہاں‘‘ کی جگہ ’’وہاں‘‘ کردو، ’’صرف وہاں ہی نہیں‘‘۔ یعنی اگر کوئی مدینہ منورہ میں نہیں ہے تو یہ نہیں کہ صرف مدینہ منورہ میں پڑھنا چاہیے درود شریف، بلکہ ہر جگہ پڑھنا چاہیے، ہر جگہ پڑھنا چاہیے۔ تو یہ بہت عام ہوگیا، مطلب پہلے تو اس کی ایک خاص حالت تھی، لیکن اب یہ بہت عام ہوگیا کہ اس کو صرف مدینہ منورہ میں نہیں پڑھنا بلکہ ہر جگہ پڑھنا ہے۔ اس طرح صرف ربیع الاول کے مہینے میں درود شریف نہیں پڑھنا، بلکہ ہر وقت پڑھنا ہے۔ لیکن مجھے بتاؤ، شروع کہاں سے کرو گے؟ آسان کیا ہے؟ آسانی یہ کہ ربیع الاول میں شروع کر لو اور نیت ہر وقت پڑھنے کی کرو۔ ربیع الاول میں شروع کر لو، چونکہ آسان ہے ناں، ماحول ہے، جب عادت ہوجائے گی ان شاء اللہ، تو پھر ہر وقت پڑھ لیا کرو، پھر کوئی مشکل نہیں ہے۔
اب میں ایک بہت ہی ضروری بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ بہت ہی اہم بات۔ اس وقت ہم فتنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ طرح طرح کے فتنے، طرح طرح کی مشکلات ہیں۔ صحیح کاموں پہ تنقید کا سلسلہ بہت جاری ہے اور غلط کاموں کے فروغ کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ غلط کام پھیل رہے ہیں اور صحیح کام رک رہے ہیں، یہ مسئلہ ہے آج کل۔ فتنہ اسی کو کہتے ہیں۔ اِس وقت وہ چیزیں جو عجائبات کہلاتی ہیں، عجائبات، میں کم از کم سمجھ سکتا ہوں کہ عجائبات میں سے ہیں، وہ اتنے عام ہو چکے ہیں کہ لوگ اس کی طرف پروا ہی نہیں کرتے کہ یہ بھی کوئی چیز ہے۔ مثلاً میں آپ سے عرض کروں، کوئی ایسا شخص تصور کر سکتا ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پہ نہیں چلے؟ تصور ہے؟ ذہن میں آ سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت تو ہو اور آپ کی سنتوں پہ نہ چلے، یہ کیسی محبت ہے؟ اور یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی سنتوں کا داعی ہو لیکن آپ کی ذات کے ساتھ محبت نہ ہو؟ کیا یہ ہو سکتا ہے؟ آپ کی ذات کے ساتھ محبت یہ الگ بات ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنانا الگ بات ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنانے کی مثال آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تو صرف یہ تھا کہ کتاب لے آئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور سنتیں پھیلائیں، اور ان کی اپنی ذاتی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔ کیا ہم سوچ سکتے ہیں اس کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان جو ہے، یہ تمام ایمانوں کا محور ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں ہے تو مجھے بتاؤ، اللہ پاک کے بارے میں آپ کیا سوچ سکتے ہیں؟ کوئی اور بتانے والا ہے؟ فرشتوں کے بارے میں کون بتائے گا؟ پیغمبروں کے بارے میں کون بتائے گا؟ تقدیر اور مطلب اس کے بارے میں کون بتائے گا آخرت کے بارے میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ تو آپ کی ذات پر ایمان جو ہے ناں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ایمان ہے، یہ تمام ایمانوں کا محور ہے۔ اگر یہ ایمان کسی کا کمزور ہوگیا تو باقی ایمانوں کا کچھ پھر پتہ نہیں چلے گا۔
اب میں عرض کرتا ہوں کہ کیسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ارشاد فرماتے ہیں، دیکھیں ناں یہ بات بہت اہم ہے۔ ایک شخص کو اطلاع ہے کہ وہ یہ کہے کہ تم سب کو کہو کہ میری بات مانو، اگر وہ مخلص ہے تو اس بات سے اس وجہ سے نہیں رک سکتا کہ اس میں میں اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہوں کہ میری بات مانو، یہ تو بڑی غلط بات ہے، لوگ پتہ نہیں کیا کہیں گے کہ دیکھو یہ اپنی بات کر رہے ہیں۔ لیکن ہر پیغمبر نے کہا ہے یا نہیں کہا ہے؟ قرآن پاک دیکھو، ہر پیغمبر یہ کہتا ہے کہ تم میری مانو۔ ہر پیغمبر کی طرف سے یہ بات۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بات بھی فرمائی ہے، مجھے بتاؤ یہ درود شریف کے جو فضائل ہیں، کس نے بتائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے۔ قرآن میں تو حکم آیا ہے، لیکن بتائے کس نے ہیں؟ اس کے فضائل کس نے بتائے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو نہیں دیکھا کہ میں اپنے بارے میں کہہ رہا ہوں، مجھ پر درود۔ نہیں! اللہ کا حکم: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ﴾6 اور پیغمبر ہی زیادہ اللہ پاک کے حکم کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا۔ یہ ہمارے علماء کرام کا محتاط ترجمہ ہے، ورنہ عربی عبارت کیا ہے: ’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ۔‘‘7 ’’تم میں کوئی مومن نہیں ہو سکتا اس وقت تک، تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک مجھے اپنے والدین سے، اپنی اولاد سے، بلکہ سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے‘‘۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ جیسی ہستی، وہ کہہ رہے ہیں: یا رسول اللہ! مجھے آپ سے محبت ہے ہر چیز سے زیادہ بجز اپنی جان کے۔ فرمایا: عمر! یاد رکھو، جب تک تم مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ عزیز نہیں سمجھو گے، تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ فوراً عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے کہا: اَب تو میں اپنے آپ سے بھی زیادہ آپ کو محبوب سمجھتا ہوں۔ فرمایا: ’’اَلْاٰنَ يَا عُمَرُ‘‘ اب بات بن گئی، اب بات بن گئی۔ اب یہ ذرا دیکھ لیں، یہ کون سا ایمان ہے؟ یہ ما شاء اللہ محبت والا ایمان ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت جو ہے، ہمارے ایمان کی بنیاد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت جو ہے، ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ اس میں اگر قصور ہے اور کمی ہے تو ایمان پر اس کی زد پڑتی ہے، اور یہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی محبت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی محبت ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ جو محبت ہے، اس کو اتنی اہمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے بھی دی ہے۔ اشارے ہیں قرآن میں، اَللّٰهُ أَکْبَرُ!
﴿لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِىِّ﴾8 ’’اپنی آوازوں کو بلند نہ کرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر‘‘۔ ورنہ تمہارا سب کچھ ختم ہوجائے گا اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ تو یہ بات ہے کہ قرآن میں بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ جو محبت ہے، وہ ہمارے تمام ایمانوں کا محور ہے۔
اس وقت ہمیں اتنا پتہ نہیں ہے، لیکن ہمارے اغیار کو یہ بات زیادہ معلوم ہے، لہٰذا وہ اس چیز پر سب سے زیادہ Attack کرتے ہیں کہ یہ جو امت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کٹ جائیں، کسی طریقے سے کٹ جائیں۔ تو اس وجہ سے اس پہ ہمارے اوپر بڑی کوششیں ہو رہی ہیں، بڑی کوششیں ہو رہی ہیں۔ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۔
دیکھیں ختمِ نبوت! سبحان اللہ! ختمِ نبوت! یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان سے کہلوایا گیا، قرآن میں آگیا، اور جو ختمِ نبوت پہ ڈاکہ ڈالنے والے، ان کا انجام بالکل ابتدائی دور میں دیکھو۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے دور میں جب مسیلمہ کذاب نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا تھا، اس وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے جن صحابہ کو ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا، اس لڑائی میں 500 حافظ صحابہ شہید ہوئے تھے۔ 500 حافظِ قرآن صحابہ شہید ہوگئے تھے۔ بہت بڑا نقصان تھا۔ بدر میں کتنے شہید ہوئے تھے؟ احد میں کتنے شہید ہوئے تھے؟ باقی لڑائیوں میں کتنے شہید ہوئے تھے؟ پورے دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں طرف سے صرف 1400 لوگ کام آئے، 1400 لوگ۔ لیکن اس لڑائی میں 500 حافظ صحابہ شہید ہوئے۔ یہ بڑی قربانی ہے۔ یہ قربانی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے دی ہے۔
تو یہ دیکھ لیں کہ یہ جو ہے بات اس پر کوئی بات نہیں چلے گی۔ کوئی یہ کہے گا تو ان کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اب اس کے لیے اغیار نے کتنے منصوبے بنائے ہیں کہ یہ ہمارے آئین سے یہ بات نکل جائے کسی طریقے سے۔ اس کے لیے لمبے لمبے منصوبے بنائے گئے۔ لوگوں کو لایا گیا، مختلف طریقوں سے ان کو مطلب جو ہے ناں وہ، مطلب وہ دے دیا کہ یہ کرو، وہ کرو، لیکن ہمارے سادہ لوگ ان کو جانتے ہی نہیں۔ ہمارے سادے لوگ ان کے بارے میں سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ میں جب مولویوں کو ان کی حمایت میں دیکھتا ہوں تو میں بڑا حیران ہوتا ہوں کہ یہ کیسے مولوی ہیں جو اتنی عقل بھی نہیں رکھتے کہ اپنے دشمنوں کو نہیں جانتے ہیں۔ یہ کیسے مولوی ہیں؟ صحیح بات ہے جل جانے کا وقت ہے۔ کوئی معمولی بات میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ یہ کیا چیز ہے؟ ڈھکی چھپی ہے جو خَاتَمُ النَّبِيِّينَ کا نام نہیں لے سکتا اپنی تقریر میں، بتاؤ کون سا آدمی ہے وہ؟ سمجھ لو، اچھی طرح سمجھ لو۔
یہ باتیں میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ صحیح بات ہے میں جل جاتا ہوں کہ کیسے فتنے کا دور ہے؟ کیسے کھلم کھلّا چیزیں آ رہی ہیں، لیکن لوگوں کے دماغوں پہ پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ ہمیں ہدایت دے دے، ہدایت کی دعائیں کرنی چاہئیں۔ اہل حق کے ساتھ ہونے کی نیت کرنی چاہیے، ورنہ میں آپ کو بتاؤں، دجال کا دور شاید بہت قریب ہے، دجال کا دور شاید بہت قریب ہے، کیونکہ حالات اتنے تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں کہ اب معاملہ سر پر آنے لگا ہے۔ ایسی صورت میں دجال کے بارے میں جو کہتا ہے کہ اس کے ماتھے پہ کافر لکھا ہوگا لیکن لوگ پھر بھی اس طرف جائیں گے، کیا یہ حالت آج کل نہیں ہے؟ کتنے کھلی چیزوں کے باوجود لوگ ان کی طرف جا رہے ہیں، تو آخر کوئی وجہ تو ہے ناں، کوئی وجہ تو ہے ناں۔ معاملہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ دجل و فریب اس حد تک ہمارے اوپر مطلب جو ہے ناں حاوی ہو چکا ہے کہ ہم لوگ اپنی عقل کو بالکل سلام کر چکے ہیں اور ذرّہ بھر بھی ان باتوں سے اثر نہیں لیتے۔
حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، یہ ایسے بزرگ تھے، ایسے بزرگ تھے جن کو ہر فن کے اندر یدِ طولیٰ حاصل تھا، ہر فن کے اندر، جو چیز دیکھ لیتے فوراً ان کو یاد ہوجاتی۔ آخری وقت میں حضرت ختمِ نبوت کے لیے، ما شاء اللہ انہوں نے اپنی زندگی وقف کر لی، پھر اخیر میں فرمایا: پوری زندگی ضائع کردی، کاش سب زندگی اس کے لیے استعمال کرلیتے، کاش ساری زندگی اس کے لیے استعمال کرلیتے۔
تو یہ بات میں عرض کر رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو جذباتی تعلق ہے ہمارا، اس پہ کبھی بھی وہ نہیں آنا چاہیے، اثر نہیں آنا چاہیے، اس میں کمی بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں! یہ بات، دیکھو، جذباتی تعلق اور ہے، لیکن طریقۂ کار اور ہے۔ طریقہ حکمت کے ساتھ ہو اور تعلق جذبات کے ساتھ ہو۔ طریقۂ کار میں جذباتیت نہیں لانی چاہیے، طریقۂ کار میں جذباتیت نہیں لانی چاہیے، طریقۂ کار میں ہوش اور دل میں جوش، سمجھ میں آ رہی ہے بات؟ عقل کو ختم نہیں کرنا چاہیے، لیکن محبت کو بھی بھولنا نہیں چاہیے۔ بہت سارے عقلمند جب محبت کو سلام کرلیں تو اخیر میں ایمان کو بھی سلام کر لیتے ہیں، ایمان سے بھی فارغ ہوجاتے ہیں۔ عقل بڑی اہم چیز ہے، اس کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیے، لیکن استعمال کرنا چاہیے کس چیز کے لیے؟ دیکھو اللہ کے ساتھ محبت، اللہ کے رسول کے ساتھ محبت، یہ اس کے لیے ہمیں پھر ساری چیزیں استعمال کرنی چاہئیں، اپنی عقل بھی استعمال کرنی چاہیے، اپنا رسوخ بھی استعمال کرنا چاہیے، اپنا قلم بھی استعمال کرنا چاہیے، اپنی زبان بھی استعمال کرنی چاہیے، اپنے ہاتھ پاؤں بھی استعمال کرنے چاہئیں۔ ساری چیزیں پھر اس کے لیے استعمال کرنی چاہئیں، لیکن وہ یہ ضرور ہو کہ دل میں وہی ہو، دل میں وہی ہو، اللہ اور ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت۔ یہ باتیں لازم ہیں۔
بہرحال میں عرض کر رہا تھا، بات بڑی لمبی نکل گئی۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ محبت۔ دوسری بات میں عرض کر رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی، یہ لازمی بات ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ﴾9
اے میرے حبیب! اپنی اُمت سے کہہ دیں اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کر لو، اللہ تم سے محبت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کریں گے۔ پس پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنتوں کی جو پیروی ہے، اس میں اللہ پاک نے محبوبیت رکھی ہے، اللہ پاک نے محبوبیت رکھی ہے۔ اب ذرا یہاں پر ایک نکتے کی بات ہے۔ بڑے عجیب نکتے ہوتے ہیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ ہم محبوب ہیں اور باقی لوگ محب ہیں۔ کچھ حضرات کیا کہتے ہیں؟ ہم محبوب ہیں اور باقی لوگ محب ہیں۔ اگر وہ باقی لوگ جو محب ہیں وہ سنتوں پر عمل کرنا شروع کریں تو کیا ہوجائیں گے؟ محبوب ہوجائیں گے ناں، بھئی! بہ نصِ قرآن محبوب ہوجائیں گے، بہ نصِ قرآن محبوب ہوجائیں گے، تو یہ دروازہ کسی پہ بند نہیں کرنا چاہیے ناں، بھئی جو دروازہ اللہ نے کھولا ہے، کون اس کو بند کر سکتا ہے؟ تو مقصد یہ ہے دروازہ کھلا ہے، آپ اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے کا دروازہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر چلنا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ جوش میں فرمایا: الحمد للہ! میں پہلے قدم پر لوگوں کو واصل کرا دیتا ہوں۔ ساتھ ہم عصر حضرات بیٹھے تھے، علماء بھی تھے، حضرت! بات سمجھ میں نہیں آئی، کیسے؟ پہلے قدم پہ کیسے واصل ہو سکتا ہے؟ فرمایا: میں سنتوں پہ لگا دیتا ہوں، میں ابتداء ہی سے سنتوں پہ لگا دیتا ہوں، اب جب سنت پر لگ گیا تو محبوبیت شروع ہوگئی۔ محبوبیت کا مطلب کیا ہے؟ اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوگئی۔ جب اللہ کی طرف رحمت اس کی طرف متوجہ ہوئی تو اللہ پاک کی رحمت اس کو کھینچ لے گی، یہی جذب ہے ناں! کھینچ لے گا۔ تو یہی جذب ہے ناں! تو جذب جب شروع ہوجائے گا تو اللہ پاک اس کو اپنی جگہ تک پہنچا دے گا، اگر یہ ہمت کرے گا اور کام بھی کرے گا۔ بس یہی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی جو پیروی ہے، اس میں ہر کامیابی شامل ہے۔ اب یہاں پر یہ دونوں باتیں Logical ہیں۔ یہ دونوں باتیں کہ آپ کی ذات کے ساتھ محبت ہونی چاہیے، ایمان کی حفاظت ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی ہونی چاہیے، یہ اعمال کی حفاظت ہے۔ انسان کے اعمال تبھی قبول ہوں گے جب وہ سنتوں کے مطابق ہوں گے: ’’صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ‘‘10 نماز اس طرح پڑھو جس طرح میں نے پڑھی۔ تو وہ نماز ہی نہیں ہوگی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پہ نہیں پڑھی جائے گی۔
تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنی چاہیے، تو یہ دونوں باتیں Logical ہیں، لیکن یہ Illogical ہے، یہ بات Illogical ہے جو آج کل بہت زیادہ ہے کہ جو سنتوں کی پیروی کرنے والے ہیں، وہ ذات کے ساتھ محبت کرنے والے نہ ہوں، اور جو ذات کے ساتھ محبت کرنے والے ہیں، وہ سنتوں کی پیروی نہ کرنے والے ہوں۔ تو پتہ چلا کہ ایک کے اعمال ہیں، اس میں جان نہیں، ایک کے اعمال ہیں، کیونکہ آپ کی ذات کے ساتھ محبت نہ ہو تو جان تو نہیں ہوئی ناں، پتہ نہیں کس جذبے سے کر رہے ہیں۔ وہ جذبہ ہی بے بنیاد ہوجائے گا۔
اور دوسری طرف جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیں محبت ہے، وہ سنتوں کے بجائے بدعتوں کے اوپر چلنے لگیں تو ان کا دعویٰ ہی مشکوک ہوگیا۔ ان کا دعویٰ ویسے ہی دعویٰ ہے۔ بھئی! ہر دعوے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، یہ تو سب جانتے ہیں ناں! ہر دعوے کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ تو اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ہے، تو پھر کیسے وہ سنتوں کی پیروی نہیں کرتا؟ دنیا میں جس کو جس کے ساتھ محبت ہے، یاد رکھو! دنیا میں جس کو جس کے ساتھ محبت ہے، وہ ان کی طرح ہونا چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ ان ایکٹروں کے ساتھ جن کو محبت ہے، وہ ان کی طرح بال رکھنے لگتے ہیں، ان کی طرح چلنا شروع کر لیتے ہیں، ان کی طرح کرنا شروع کر لیتے ہیں۔ کیوں؟ کہتے ہیں ہمیں ان کے ساتھ محبت ہے، ہمارے ایک بہت بڑے افسر تھے، بہت بڑے سائنسدان بھی تھے۔
تو ایک بہت بڑے سائنسدان آئنسٹائن کا بڑا وہ تھا، فین تھا، تو آئنسٹائن کی طرح اس نے مونچھیں رکھی ہوئی تھی، آئنسٹائن کی طرح اس نے اپنا حلیہ بنایا ہوا تھا۔ تو اسی طرح دِکھنا چاہتا تھا اپنے آپ کو کہ میں اس طرح نظر آ جاؤں۔ تو یہ بات میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ بھئی جس کے ساتھ جس کو بھی محبت ہوتی ہے، وہ محبت مطلب اس میں نظر آتی ہے کہ وہ اس کی طرح ہونا چاہتے ہیں۔ تو سنت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ تو جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ہے اور سنت کا طریقہ موجود ہے، وہ بدعت کی طرف کیسے جاتا ہے؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں:
’’كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘11 ’’ساری بدعتیں گمراہی ہیں‘‘۔ اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا، تو کیسے جو ہے ناں مطلب وہ اپنے آپ کو آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں؟ تو وہ دعویٰ بے بنیاد نظر آ جاتا ہے۔ اب اس دعوے کو بنیاد فراہم کرنا اور اس سنت کی پیروی میں جان پیدا کرنا، یہ اس وقت کی بڑی اہم ضرورت ہے کہ جو لوگ سنتوں پہ چلنے والے، ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ محبت ہوجائے۔ اب میں آپ کو بتاؤں، لوگ میری باتوں کو سن کے حیران ہوں گے، پتہ نہیں کیا کہہ رہا ہے۔ مثال اب میں دوں گا تاکہ لوگوں کو سمجھ آئے کہ میں کہہ کیا رہا ہوں۔ مجھے بتاؤ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے، اس کی تعریف کی جائے، تو وہ تعریف لوگوں کو پسند ہوتی ہے یا پسند نہیں ہوتی؟ مثلاً جو جس کو چاہتا ہے، اگر اس کی تعریف اس کے سامنے کی جائے تو کیا اس کے جذبات ہوں گے؟ اچھا تعریف کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ تعریف نثر میں بھی ہوتی ہے، تقریر میں بھی ہوتی ہے، نظم میں بھی ہوتی ہے، اس کو نعت شریف کہتے ہیں عموماً طور پر۔ حالانکہ نعت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ نظم میں ہو، وہ نثر میں بھی نعت ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں نعت ہے ناں:
﴿يٰسٓ وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍؕ﴾12
یہ نعت شریف نہیں؟ اور یہ جو فرماتے ہیں کہ:
﴿لَوۡ اَنۡزَلۡنَا هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيۡتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡيَةِ اللّٰهِؕ﴾13
یہ نعت شریف نہیں ہے؟ اس طرح اور بہت ساری آیات مبارکہ جو کہ نعت کی تعریف میں آتی ہیں۔ یہ تو ہوگیا اللہ تعالیٰ کے کلام میں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا:
’’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِيْ‘‘14 ’’جس پر میں چلا ہوں، جس پر میرے صحابہ چلے ہیں۔‘‘ تو گویا کہ حقیقت کو اپنانے کا، صحیح راستے کو اپنانے کا معیار جو ہے وہ طریقِ صحابہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے طریقے پر کوئی چلے گا، وہ صحیح راستے پہ جا رہا ہوگا۔ یہی بات ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس مسئلے میں اپنے ساتھ ان کو شریک کر لیا ہے۔ ’’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِيْ‘‘۔ تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا تھا مسئلہ؟ ان کی خصوصیت کیا تھی؟ وہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ محبت، آپ کی ذات کے ساتھ محبت، ایسی محبت تھی، میں آپ کو کیا بتاؤں! ایسی محبت تھی۔
دیکھیں اَللّٰهُ أَکْبَرُ! کہتے ہیں: بس میری تو یہی ایک ہی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مال خرچ کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا رہوں، یہی میرا وہ ہے۔ یہ ہے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تو کرنا ہی کرنا تھا، لیکن جذبات کیا تھے؟ اور مطلب ہے مشرکینِ مکہ نے ان کو مار مار کے اَدھ موا کر لیا، لہو لہان کردیا، ان کی ماں آ رہی ہے، اُس وقت مسلمان نہیں ہوئی تھی تو ان کو صاف کر رہی تھی اور مرہم پٹی کر رہی تھی، تو جیسے ہوش میں آئے تو فوراً پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ تو ان کی ماں نے کہا کہ دیکھو ان کی وجہ سے آپ کا یہ حال ہے، پھر بھی آپ ان کا پوچھتے ہو؟ جن کی وجہ سے آپ کا یہ حال ہے تو پھر بھی آپ ان کا پوچھتے ہو؟ تو یہ بات ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کو دیکھ لیں۔ سبحان اللہ! عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کا یہ حال ہے کہ مطلب وہ رات کے وقت چکر لگاتے تھے حالات معلوم کرنے کے لیے۔ کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے کچھ اشعار پڑھ رہی تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا تشریف لے جا چکے تھے۔ وہ اشعار کانوں میں پڑ گئے، بس رونا شروع کر لیا، روتے رہے، روتے رہے، اپنی جگہ سے اٹھ نہ سکے، اتنے روتے رہے، پھر ان کو لے جایا گیا، کئی دن پڑے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ گئے۔ اسی طرح عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کا، علی كَرَّمَ اللّٰهُ وَجْهَهُ کا۔ جتنے صحابہ کرام ہیں، میں آپ کو کس کس کا بتاؤں!
پھر دیکھیں، ان صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اپنے اپنے انداز میں اشعار کہے ہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے ہیں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے ہیں، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے ہیں، علی كَرَّمَ اللّٰهُ وَجْهَهُ کے ہیں، فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہیں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہیں، حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے ہیں، حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے ہیں، پتہ نہیں اور کتنے حضرات کے اشعار ہیں۔ تو اشعار میں نعت بھی۔ پھر دیکھیں، اشعار میں نعت کہنا آپ کے صحابہ کی سنت۔ اشعار میں نعت کہنا کس کی سنت؟ آپ کے صحابہ کی سنت۔ اور ان اشعار کو سننا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، کہ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے لیے ممبر بنایا، اس کے اوپر بٹھا دیا، فرمایا کہ روح القدس کے ذریعے تیری مدد ہو، کہو۔ پھر انہوں نے اشعار سنانے شروع کیے۔ تو ان اشعار کا، اس نعتیہ کلام کا سننا جو ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اب آج میں اگر کوئی نعت سنتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل ہو رہا ہے، آپ کی سنت پر عمل ہو رہا ہے۔ اور اگر کہہ رہا ہوں تو صحابہ کی سنت پر عمل ہو رہا ہے۔
البتہ ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ نعت شریف بہت مقدس کام ہے، صحابہ کی سنت ہے۔ اس میں ہم لوگ اپنے نفس کو شامل نہ کریں، اپنے نفس کو شامل نہ کریں۔ نفس کو کیسے شامل کرتے ہیں؟ ہمارا نفس کیا چاہتا ہے؟ ہمارا نفس میوزک چاہتا ہے، موسیقی چاہتا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا: موسیقی روح کی غذا ہے۔ بھئی! موسیقی روح کی غذا نہیں، نفس کی غذا ہے۔ اس سے ایسا نفاق کو پانی ملتا ہے جیسے کہ پودے کو پانی سے مطلب جو ہوتا ہے۔ تو اس کے بارے فرمایا گیا۔ اب موسیقی چاہتے ہیں تو پھر کیا ہوا؟ اب نعت بھلے گانوں کے ساتھ ہو، گانوں کا شوق ہے، اب داڑھی رکھ لی، تسبیح رکھ لی، تو اب گانے تو نہیں سن سکتے، گانے تو نہیں کر سکتے۔ تو پھر کیا ہے؟ گانوں کے طرز پر نعت کہنا شروع کر لی ہے۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ! گانوں کے طرز پر نعت کہنے شروع کر لی ہے۔ بھئی! وہ نعت نہیں ہے، وہ نعت کے ساتھ مذاق ہے۔ جتنی اونچی چیز اس کے ساتھ مذاق اتنا ہی خطرناک ہے۔ تو یہ نعت کے ساتھ مذاق ہے، میوزیکل ٹون بنانا اس کی، نہیں بھئی! قرآن کی جیسے مطلب اس کو کسی لباس خاص پہنانے کی ضرورت نہیں۔ وہی جو اللہ نے پہنایا وہی کافی ہے، تجوید کے ساتھ پڑھو اس میں خود بخود لذت آ جائے گی، خود بخود اس میں لذت آ جائے گی۔
ہمارے ایک رشتہ دار تھے، تقویم الحق کاکاخیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ، دیوبند کے فاضل، وہ خود فرما رہے تھے کہ میں ایک دن قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا، آواز میری طرح یعنی اچھی آواز نہیں تھی۔ قرآن کی تلاوت کر رہا ہے، جتنی تلاوت کرنی تھی وہ کر لی اور رک گیا۔ جب رک گیا تو ایک آدمی باہر آئے گا فوراً جیسے چھپا ہوا بیٹھا ہو۔ وہ کوئی پنڈت تھا، انہوں نے کہا: کیوں بند کر لیا؟ کہا: کیوں؟ بس میں نے اتنا پڑھنا تھا۔ آپ کون سے بھیرویں گا رہے تھے؟ بھیرویں۔ بھیرویں ساز کے ساتھ کوئی چیز ہوتی ہے، مجھے تو نہیں پتہ لیکن کوئی ساز کی قسم ہے،آپ کون سے بھیرویں گا رہے تھے؟ انہوں نے کہا: بھئی! میں تو بھیرویں جانتا نہیں ہوں، بھیرویں کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: کمال ہے! بھیرویں جانتے نہیں، اتنا بہترین بھیرویں گائے جا رہے تھے۔ جناب! بھیرویں تو نہیں جان رہے تھے، لیکن آپ اتنا بہترین۔ کیوںکہ قرآن پڑھ رہے تھے؟ سمجھ میں آ گئی بات؟
قرآن کے اندر بظاہر بذاتِ خود حسن موجود ہے، اس کو تجوید کے قاعدے کے مطابق پڑھ لو، ترتیل کے ساتھ، سبحان اللہ!، اس کے اندر حسن ہی حسن ہے۔ اسی طریقے سے، اسی طریقے سے نعت شریف کو آپ سادہ طریقے سے پڑھو، اگر واقعی نعت ہے وہ دل کو کھینچے گی، وہ دل کو کھینچے گی، اور آپ اگر اس کو آج کل کے میوزک کے کپڑے پہنانا چاہیں تو آپ اس کو خراب کر رہے ہیں، اس کو نعت نہیں رہنے دے رہے۔ تو آج کل یہ وبا آئی ہوئی ہے کہ لوگ نعتوں کو گانے کے طرز پر پڑھتے ہیں۔ دو نعت خوان کو تو کم از کم میں جانتا ہوں، میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی ان نعت خوانوں کو آپ نے کھانا کھلانا ہے۔ ایک فنکشن تھا، حالانکہ میں ایسی محفل میں نہیں بیٹھا کرتا جو گانے کے طرز پر نعت پڑھی جا رہی ہو، میرے سر میں درد ہوجاتا ہے۔ خیر ایسا ہوا کہ میں مجبوراً بیٹھا تھا کہ ان کو کھانا کھلانا تھا۔ جب ختم ہوگیا، ان کو میں کھانا کھلانے کے لیے لے گیا، تو کھانا کھاتے کھاتے میں نے درخواست کی، میں نے کہا: خدا کے بندو! اتنا بہترین کام تم کر رہے ہو، تو یہ کیوں، یہ گانے کی طرز پہ کیوں کر رہے ہو؟ یہ کون سا کام ہے؟ یہ تو بہت غلط کام ہے۔ دونوں کی زبان سے بیک وقت یہ بات نکلی کہ: آج کل تو یہی لوگ چاہتے ہیں، آج کل تو یہی لوگ چاہتے ہیں، لہٰذا ہم یہی کرتے ہیں۔ میں نے کہا: إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔
اس وقت میں نے قصد کر لیا کہ اب میں بغیر گانے کے طرز پہ نعتیں جمع کروں گا اور میں نے الحمد للہ جمع کر لیں، ہزار سے زیادہ ہوں گی۔ جس کی میں نے پھر سی ڈی بنا لی۔ مقصد میرا یہ ہے کہ ایسا ہے، لیکن لوگ کہتے ہیں جی ایسا نہیں ہے۔ صرف اپنے نفس کو دیکھ رہے ہیں ناں۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں: خپل برخ آسمان وینی۔ یعنی کہ اپنے حصے کا آسمان دیکھتے ہیں، وہ صرف ان کو وہی چیز نظر آتی ہے۔
تو بہرحال یہ ما شاء اللہ صحیح نعتیں موجود ہیں۔ عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں، حضرت ما شاء اللہ یہ جو ہے ناں وہ ہمارے خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ، سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں، پشتو میں حاجی محمد امین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں، کون کون سے ما شاء اللہ عربی کی بڑے ما شاء اللہ صحیح نعتیں موجود ہیں، وہ کیوں نہیں پڑھتے؟ اور صحیح طریقے سے پڑھو، بڑی محبت ہے اس میں، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اگر آپ کو اس سے حاصل ہوگئی تو اور کیا چیز چاہیے؟
تو اصل بات یہ ہے کہ الحمد للہ ثم الحمد للہ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے ساتھ بھی محبت کے نہ صرف قائل ہیں، بلکہ اس کے داعی ہیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر چلنے کی جو ہے، پیروی کے بھی اس کے قائل ہیں، نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس کے داعی ہیں۔ ان دو چیزوں کو جمع کرنا اس وقت کا بہت بہترین کام ہے، ضروری کام ہے اور ان کو جمع کریں گے تو فتنہ ختم ہوگا ان شاء اللہ، فتنہ ختم ہوگا۔ اس فتنہ کو ختم کرنے کے لیے ہم سب کو اس کا آج سے ارادہ کرنا چاہیے۔
آخری بات کرنا چاہتا ہوں، ربیع الاول کی بات میں نے بات کی تھی۔ الحمد للہ! ہمارے ہاں یہ طریقہ ہے کہ ما شاء اللہ اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ سوا لاکھ مرتبہ کم از کم پڑھ لو درود شریف اس مہینے میں، سوا لاکھ کم از کم پورا کر لو، اس سے زیادہ جتنا پڑھ سکتے ہو تو پڑھ لو۔ پھر الحمد للہ سب ااع کردو ہمیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک بات پہنچتی ہے، ابھی یہ دیکھو ناں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک ویسے بھی جمعرات اور پیر کے دن والی بات پہنچتی ہے، درود شریف تو پہنچتا ہی رہتا ہے۔
لیکن جتنے زیادہ راستوں سے پہنچ جائے تو اچھا ہے۔ تو ما شاء اللہ وہاں پر ہمارے ایک ساتھی بزرگ ہیں، بہت بڑے بزرگ، اللہ والے ہیں۔ تو ان تک بھی ہم پہنچا دیتے ہیں، پھر وہاں براہ راست روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش فرماتے ہیں۔ تو الحمد للہ آپ اس طرح کر لیں کہ سوا سوا لاکھ پڑھ کے، پھر ہمارے ساتھیوں کو بتا دیجیے گا، وہ ہمیں بتا دے گا۔
اور الحمد للہ، پچھلے سال کتنا ہوا تھا؟ یاد ہے کسی کو؟ میرے خیال میں کچھ 68 کروڑ یا کچھ اس طرح، مطلب اس سے پچھلے سال ہوا تھا، پھر اس طرح کچھ کروڑوں میں پچھلے سال بھی ہوا تھا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے الحمد للہ، اس دفعہ نیت کر لو کہ ایک ارب کرنا ہے، ایک ارب، اور ناممکن نہیں ہے، ارادہ کر لو۔
ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
تو مطلب یہ ہے کہ آپ ارادہ کر لیں، ان شاء اللہ اللہ پاک کی مدد سے ہم اس ٹارگٹ کو پورا کر لیں گے اور ایک ارب اگر پڑھا گیا تو اس امت پر ان شاء اللہ 10 ارب رحمتیں نازل ہوں گی، 10 ارب رحمتیں نازل ہوں گی، جس کی وجہ سے ہمارے اعمال کی شامت کی وجہ سے جتنی لعنتیں برسی ہوئی ہیں، ان شاء اللہ ان کا مداوا ہوجائے گا، کیونکہ رحمت لعنت کی ضد ہے، جب رحمت آتی ہے تو لعنت ختم ہوتی ہے۔ تو اس وقت جو فتنے آ رہے ہیں اور جو مصیبتیں آ رہی ہیں، جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، وہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہے: ﴿ظَهَرَ الۡفَسَادُ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ بِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِى النَّاسِ﴾15
تو اب ہم اپنے اعمال کے ذریعے سے یعنی قرآن پاک کی تلاوت کے ذریعے سے، درود شریف کے ذریعے سے، استغفار کے ذریعے سے ان کا مداوا کر لیں اور ربیع الاول میں ما شاء اللہ کوشش کریں کہ درود شریف یہ پورا پڑھ لیں۔
اور یہ میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ بیٹھے ہوئے تھے، بنگال میں ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی خواب میں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ: اشرف علی کو میرا سلام کہنا۔ تو حضرت کو نہیں جانتا تھا۔ انہوں نے کہا: حضرت! میں تو ان کو نہیں جانتا، کون ہیں؟ فرمایا: ظفر احمد کے ذریعے سے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب بنگال میں تھے تو ان کو وہ جانتے تھے۔ تو اگلے دن پہنچ گئے کہ حضرت اس طرح ہوا ہے۔ حضرت نے ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعے سے حضرت تک یہ پیغام پہنچایا، غالباً عصر کا وقت تھا کہ پیغام پہنچا۔ حضرت کے زبان سے فوراً نکلا: ’’وَعَلَيْكَ السَّلَامُ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ‘‘ اور پھر اس کے بعد فرمایا: اب تو درود شریف ہی چلے گا۔ اب تو درود شریف ہی چلے گا۔ تو مطلب حالات کے لحاظ سے کچھ بن جاتی ہیں چیزیں۔ تو اس وقت حالات یہی ہیں کہ ہم لوگ ان شاء اللہ۔۔۔۔ ہمیں ضرورت بھی ہے کہ اس ربیع الاول کے مہینے میں کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھیں، کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھیں، تاکہ اس وقت امت کے جو مسائل ہیں حل ہوجائیں، اور ویسے سیلاب وغیرہ جو آیا ہوا ہے، بہت سارا، ان کی مدد بھی کرنی چاہیے، ضرور مدد کرنی چاہیے۔ ہمارے بھائی ہیں اور ان کی مدد اس طریقے سے بھی کرنی چاہیے، یہ بھی مدد کا طریقہ ہے کہ جو جو وجوہات ہیں مطلب سیلاب آنے کی اور عذابات کے آنے کی، ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے، مزید نہ آجائے۔ کیونکہ خدانخواستہ، خدانخواستہ سیلاب کے ساتھ زلزلے بھی آ جائیں پھر کیا کرے گا آدمی؟ پھر تو بہت خطرناک ہوجائے گا۔ تو اس وجہ سے ہم لوگ یعنی ان چیزوں کا مداوا کر لیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے، آپ کو بھی۔
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث: 100) ترجمہ: ’’میں بھیجی ہوئی رحمت ہوں‘‘
۔ (الأحزاب: 56) ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔
۔ الأحزاب: 56) ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔
۔ (الأحزاب: 56)
۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 14)
۔ (الحجرات: 2) ترجمہ: ’’اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند مت کیا کرو۔‘‘
۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
۔ (مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث: 683) ترجمہ: ’’نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘
۔ (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث: 332) ترجمہ: ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
۔ (یٰس: 1-4) ’’یٰس، حکمت بھرے قرآن کی قسم، تم یقیناً پیغمبروں میں سے ہو، بالکل سیدھے راستے پر‘‘۔
۔ (الحشر: 21) ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم اسے دیکھتے کہ وہ اللہ کے رعب سے جھکا جارہا ہے، اور پھٹا پڑتا ہے۔‘‘۔
۔ (سنن ترمذی: رقم الحدیث: 2641) ترجمہ: ’’جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں۔‘‘
۔ (الروم: 41) ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔‘‘