دین اور دنیا: اسلام میں عبادت کا جامع تصور

(یہ بیان 25 جون 2020 کے سیرت کے بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ اسلام میں عبادت کا مقصد صرف تقویٰ کا حصول ہے، جو دل کی وہ کیفیت ہے جو نیکی کی طرف راغب اور برائی سے متنفر کرتی ہے۔ اسلام عبادت کے تصور کو نماز روزے جیسے مخصوص اعمال تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ اسے ایک وسیع مفہوم عطا کرتا ہے۔ اس تعلیم کے مطابق، ہر وہ نیک عمل جو خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے، چاہے وہ مخلوق کی خدمت ہو یا ذاتی معاملات، عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح اسلام دین اور دنیا کی تفریق مٹا دیتا ہے، جہاں نیت کا اخلاص کسی بھی جائز کام کو دین کا حصہ بنا دیتا ہے۔ پاک روزی کمانا، مسکرا کر ملنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا، اور خصوصاً لوگوں کے درمیان صلح کروانا بھی اعلیٰ ترین عبادات میں شمار ہوتا ہے۔



﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 21)

’’اے لوگو! اپنے اُس پروردگار کی عبادت کرو، جس نے تم کو اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا، تاکہ تم کو تقویٰ حاصل ہو‘‘۔

اس آیت سے ظاہر ہوا کہ عبادت کی غرض و غایت محض حصول تقویٰ ہے۔

تقویٰ انسان کے قلب کی وہ کیفیت ہے جس سے دل میں تمام نیک کاموں کی تحریک اور برے کاموں سے نفرت ہوتی ہے۔

دیکھیں! اللہ جل شانہٗ نے جہاں تقویٰ کا ذکر کیا ہے، اس کے مقابل کا لفظ فجور بیان کیا ہے، فجور۔

﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا﴾1

پس تقویٰ کی definition فجور سے ہی نکلے گی یعنی فجور کی ضد ہوگا۔ تو فجور میں کیا ہے؟ فجور میں یہ ہے کہ ہر شر کے کام کو کرنا اور ہر خیر سے رک جانا، یہ فجور ہے، نماز نہ پڑھنا فجور ہے، زنا کرنا فجور ہے، ظلم کرنا فجور ہے، عدل کرنا تقویٰ ہے، مطلب یہ ذرا گویا کہ یوں سمجھ لیجئے فجور جن کو کہا جائے، اس کی ضد تقویٰ ہوگا۔ تو تقویٰ میں اصل میں یہی والی بات ہے کہ ہر خیر کو حاصل کرنے کی تحریک Driving force of doing anything good and driving force of resisting anything bad یہ مطلب تقویٰ کی definition یعنی زیادہ بہتر محسوس ہورہی ہے۔

آپ (ﷺ) نے ایک دفعہ سینہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ "تقویٰ کی جگہ یہ ہے" اور قرآن نے بھی تقوی القلوب "دلوں کا تقویٰ" کہہ کر اسی نکتہ کو کھولا ہے۔ اسی کیفیت کا پیدا کرنا اسلام میں عبادت کی اصلی غرض ہے۔ نماز روزہ اور تمام عبادتیں سب اسی کے حصول کی خاطر ہیں۔ اس بنا پر انسان کے وہ تمام مشروع افعال و اعمال جن سے شریعت کی نظر میں یہ غرض حاصل ہو سب عبادت ہیں۔

دیکھیں! تقویٰ کا اور فجور کا ذکر نفس کے ساتھ بھی ہوا، تقویٰ کا اور حب الدنیا کا ذکر مطلب دل کے ساتھ بھی ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ دونوں جگہ اس کا وہ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ نفس میں یہ پیدا ہوتا ہے اور دل میں قرار پکڑتا ہے، دل میں جگہ پکڑتا ہے۔ لہٰذا نفس جس وقت خیر کا معاملہ کرتا ہے، تو اس کا اثر دل پہ پڑتا ہے اور نفس جس وقت شر کا کام کرتا ہے، تو اس کا اثر بھی دل پہ پڑتا ہے، پس دل یا تو اچھا ہوتا جاتا ہے نیک کاموں سے یا برا ہوتا جاتا ہے برے کاموں سے، تو اس وجہ سے تقویٰ جو ہے، اس کی جگہ بھی دل ہے اور جو اخلاق ذمیمہ ہے، وہ بھی دل ہے، بس فرق صرف یہ ہے کہ جس کو قلبِ سلیم کہتے ہیں، وہ تقویٰ والا دل ہے اور جس کو قلبِ سقیم کہتے ہیں، یہ گناہوں والا دل ہے، فجور والا دل ہے۔

اسی مفہوم کو ہم دوسری عبارت میں یوں ادا کرسکتے ہیں کہ پہلے عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ عبادت صرف چند ان مخصوص اعمال کا نام ہے، جن کو انسان خدا کے لئے کرتا ہے مثلاً نماز، دعا، قربانی، لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم نے اس تنگ دائرہ کو بے حد وسیع کردیا۔ اس تعلیم کی رو سے ہر ایک وہ نیک کام جو خاص خدا کے لئے اور اس کی مخلوقات کے فائدہ کے لئے ہو اور جس کو صرف خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے کیا جائے عبادت ہے۔ اسلام میں خدا کے لئے کسی کام کے کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کام خواہ خدا کی بڑائی اور پاکی کے لئے ہو یا کسی انسان یا حیوان کے فائدے کے لئے ہو لیکن اس کام کرنے سے اس کام کے کرنے والے کا مقصود نمائش، دکھاوا، حصولِ شہرت یا دوسروں کو احسان مند بنانا وغیرہ کوئی دنیاوی اور مادی غرض نہ ہو بلکہ محض خدا کی محبت، خوشنودی اور رضامندی ہو۔

یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں کے لئے بھی وہ کام کرتے ہو، کیونکہ آخر لوگوں کے لئے بھی تو اچھے کام کیے جاتے ہیں ناں یعنی لوگوں کے فائدے کے لئے۔ ﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾2 تو لوگوں کے فائدے کے لئے بھی کام کیے جاتے ہیں۔ تو جو لوگوں کے فائدے کے لئے کام کیے جاتے ہیں، یہ اصل میں اگر اللہ کی رضا کے لئے ہیں تو پھر تقویٰ ہے اور اللہ کی رضا کے لئے نہیں، تو پھر کیا ہے؟ پھر وہ تقویٰ نہیں ہے، پھر وہ عبادت نہیں ہے۔ عبادت کے مفہوم کے اندر اللہ کے لئے ہونا ضروری ہے، کیونکہ وہ عمل ہے اور ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘3 ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

اس تشریح کی رو سے وہ عظیم الشان تفرقہ جو دین اور دنیا کے نام سے مذاہب نے قائم کر رکھا تھا، محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم نے اس کو دفعتاً مٹا دیا۔ دین اور دنیا کی حیثیت اسلام میں دو حریف کی نہیں رہتی، بلکہ دو دوست کی ہوجاتی ہے۔ دنیا کے وہ تمام کام جن کو دوسرے مذاہب دنیا کے کام کہتے ہیں اسلام کی نظر میں اگر وہ کام اسی طرح کیے جائیں، لیکن ان کی غرض و غایت کوئی مادی خود غرضی و نمائش نہ ہو، بلکہ خدا کی رضا اور اس کے احکام کی اطاعت ہو تو وہ دنیا کے نہیں، دین کے کام ہیں، اس لئے دین اور دنیا کے کاموں میں کام کا تفرقہ نہیں، بلکہ غرض و غایت اور نیت کا تفرقہ ہے۔ تم نے اوپر پڑھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان صحابہ کو جو دن رات خدا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے فرمایا کہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے کہ اس کو آرام دو، تمھاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے کہ اس کو کچھ دیر سونے دو، تمھاری بیوی کا بھی حق ہے کہ اس کو تسلی کرو اور تمھارے مہمان کا بھی حق ہے کہ اس کی خدمت کے لئے کچھ وقت نکالو۔ غرض ان حقوق کو بھی ادا کرنا خدا کے احکام کی اطاعت اور اس کی عبادت ہے۔ چنانچہ پاک روزی کھانا اور اس کا شکر ادا کرنا بھی عبادت ہے۔

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 172)

’’اے ایمان والو! ہم نے جو تم کو پاک اور ستھری چیزیں روزی کی دی ہیں، ان کو کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ پاک روزی ڈھونڈنا اور کھانا اور اس پر خدا کا شکر ادا کرنا عبادت ہے۔ ایک اور آیت میں توکل یعنی کاموں کے لئے کوشش کرکے نتیجہ کو خدا کے سپرد کردینا بھی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا:

﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَیْهِؕ﴾ (ھود: 123)

’’اس کی عبادت کرو اور اس پر بھروسہ رکھو‘‘۔

اسی طرح مشکلات میں صبر و استقلال بھی عبادت ہے۔ فرمایا:

﴿فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ﴾ (مریم: 65)

’’اس کی عبادت کر اور صبر کر‘‘۔

کسی شکستہ دل سے اس کی تسکین و تشفی کی بات کرنا اور کسی گناہگار کو معاف کرنا بھی عبادت ہے۔ ارشاد ہے:

﴿قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ﴾ (البقرۃ: 263)

’’اچھی بات کہنا اور معاف کرنا اس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے ستانا ہو‘‘۔

اسی آیت پاک کی تشریح محمد رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے

’’کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ‘‘ (بخاری کتاب الادب)

’’ہر نیکی کا کام خیرات ہے‘‘۔

’’تَبَسُّمُکَ فِیْ وَجْہِ اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ‘‘

’’تمھارا کسی بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی خیرات ہے‘‘۔

’’وَاِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ‘‘

’’راستہ سے کسی تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی خیرات ہے‘‘۔

غریب اور بیوہ کی مدد بھی عبادت، بلکہ بہت سی عبادتوں سے بڑھ کر ہے، فرمایا:

’’السَّاعِيْ عَلَى الأرْمَلَةِ وَالْمِسْكِيْنِ كَالْمُجَاهِدِ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ، وَكَالَّذِيْ يَصُوْمُ النَّهَارَ، وَيَقُوْمُ اللَّيْلَ‘‘ (بخاری، کتاب ادب)

’’بیوہ اور غریب کے لئے کوشش کرنے والے کا مرتبہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے اور اس کے برابر ہے جو دن بھر روزہ اور رات بھر نماز پڑھتا ہو‘‘۔

باہم لوگوں کے درمیان سے بغض و فساد کے اسباب کو دور کرنا، اور محبت پھیلانا ایسی عبادت ہے جس کا درجہ نماز روزہ اور زکوٰۃ سے بھی بڑھ کر ہے۔ آپ نے ایک دن صحابہ سے فرمایا:

’’أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلِ مِنْ دَرَجَةِ الصِّیَامِ وَالصَّلٰوةِ وَالصَّدَقَةِ؟‘‘

’’کیا میں تم کو روزہ نماز اور زکوٰہ سے بھی بڑھ کر درجہ کی چیز نہ بتاؤں‘‘

صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ! ارشاد فرمایئے، فرمایا:

’’اِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ‘‘

’’وہ آپس کے تعلقات کا درست کرنا ہے‘‘۔

یعنی دو بھائیوں میں مسئلہ ہے، آپ درمیان میں ایسی بات کرلیں، جس میں جڑ جائیں۔ ایک بڑے مفتی ہیں، ہمارے ہاں تشریف لائے تھے، ان کے بارے میں کچھ بدگمانی کسی اور عالم کو ہوگئی تھی، انہوں نے ان کے بارے میں کچھ بات کرلی، وہ بات ان تک پہنچ گئی، مجھ سے وہ تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ یہ کیا ماجرہ ہے؟ تو میں نے ان کی وہ پہلی باتیں جو ان کے حق میں کیا کرتے تھے ناں، میں نے ان کا حوالہ دیا، میں نے کہا کہ وہ تو آپ کے بارے میں یہ یہ باتیں کرتے ہیں، تو بات تو صحیح تھی، ظاہر ہے وہ باتیں بھی انہوں نے کی تھیں، تو اتنے خوش ہوئے، کہتے ہیں جزاک اللہ، جزاک اللہ آپ نے میرا دل بہت خوش کردیا، میرا دل ان کے لئے صاف کردیا، اب اگر آپ اِن کی یہ باتیں۔۔۔۔ یہ اُن کے حق میں بات کرے گا آگے جاکر، جب اُن کو پتا چلے گا، تو وہ ان کے حق میں بات کرے، بات ختم ہوجائے گی۔ یہی اصل میں بنیادی نکتہ ہے لوگوں کے درمیان خیر کو لانے کا، ورنہ یہ ہوتا ہے کہ آپ نے ایک سے سن لی، دو اپنے ساتھ ملا دیں اور اس کو بتا دیا، تو بس آگ تو لگ گئی، اب جتنا آپ نے سنا تھا، تو اس کو دس سے ضرب دے کر وہ بتائے گا، پھر کوئی ادھر لے جائے گا، اس کے ساتھ اور ملا کر پھر وہ ادھر لے جائے گا، اس طرح معاملہ طوفانی ہوجاتا ہے اور پتا نہیں کہاں سے کہاں بات پہنچ جاتی ہے۔ تو یہ جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ یہ ہمارے حضرت مولانا یوسف کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ (اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے، دوسرے امیر تھے تبلیغی جماعت کے) انہوں نے جو آخری بیان کیا تھا، جس کے بعد حضرت فوت ہوئے ہیں۔ حضرت نے ابتدا اس سے کی تھی بیان کی، افسوس امت سے امت پنا چلا گیا، افسوس امت سے امت پنا چلا گیا اور پھر فرمایا کوئی شخص بہت نیکیاں کرلے، لیکن اس کی زبان سے کوئی ایسا گفت نکلے، جس سے امت میں تفرقہ آجائے، وہ جہنم میں جائے گا۔ اور کوئی آدمی عام آدمی ہے، اتنے اعمال اس کے نہیں ہیں، لیکن اس کی زبان سے ایسی بات نکلی، جس سے لوگوں میں جوڑ آجائے، تو سبحان اللہ! وہ اس کو جنت میں لے جائے گا۔ اب دیکھیں! یعنی اس پہ اللہ تعالیٰ کتنا خوش ہوتے ہیں، مؤمنین کے درمیان صلح کرنا اور خیر پھیلانا ’’اَلدِّیْنُ نَصِیْحَۃٌ‘‘ ’’دین خیرخواہی ہے‘‘ تو یہ ما شاء اللہ! بہت اہم کام ہے، لیکن ہم لوگ اس کی طرف جاتے نہیں ہیں۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (الشمس: 8) ترجمہ: ’’پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے‘‘۔

  2. ۔ (آل عمران: 110) ترجمہ: ’’(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے۔‘‘

  3. ۔ (مسلم: 4927)

دین اور دنیا: اسلام میں عبادت کا جامع تصور - درسِ سیرۃ النبی ﷺ - دوسرا دور