اللہ تعالیٰ کی اقربیت
(یہ بیان 27 ستمبر 2017 کے مکتوبات شریف کے درس سے لیا گیا ہے)
حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
یہ بیان حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مکتوب کی تشریح ہے جس کا بنیادی موضوع اللہ تعالیٰ کی "اقربیت" یعنی اس کا اپنے بندوں سے انتہائی قریب ہونا ہے۔
بیان کے مرکزی نکات درج ذیل ہیں:
- اللہ کا قرب اور عقل کی محدودیت: اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری جان سے بھی زیادہ قریب ہے، لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے انسانی عقل سمجھنے سے قاصر ہے، کیونکہ عقل اپنے سے زیادہ قریب کسی چیز کا تصور نہیں کر سکتی۔
- عقل سے بالاتر "ذوق" کی اہمیت: اس قرب کو سمجھنے کے لیے عقل سے بلند تر چیز "ذوق" (روحانی تجربہ) ہے۔ جس طرح شہد اور گڑ کے ذائقے کا فرق صرف چکھ کر ہی معلوم ہو سکتا ہے، اسی طرح اللہ کا قرب عقل سے نہیں، ذوق سے محسوس ہوتا ہے۔
- محبت اور معرفت کا فرق: یہ "ذوق" دو مختلف احساس پیدا کرتا ہے:
- مقامِ حیرت: جب یہ دونوں کیفیتیں (قرب اور دوری کا احساس) بیک وقت ایک دل میں جمع ہو جاتی ہیں تو انسان "مقامِ حیرت" میں چلا جاتا ہے، جہاں وہ کچھ کہنے یا سمجھنے سے قاصر ہو کر خاموش ہو جاتا ہے۔
- ادراک کی ناممکنات: اللہ کی ذات کا مکمل ادراک ناممکن ہے کیونکہ قرآن نے دو واضح اصول بتا دیے ہیں: ﴿لَنْ تَرَانِيْ﴾ (تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے) اور ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ (اس جیسی کوئی چیز نہیں)۔
- اصل معرفت کیا ہے؟: لہٰذا، اصل معرفت یہ ہے کہ انسان اپنی "بے ادراکی کا ادراک" کر لے، یعنی یہ جان لے کہ وہ اللہ کو سمجھنے سے عاجز ہے۔ اصل مقصد اللہ کی ذات تک پہنچنا نہیں، بلکہ خلوص کے ساتھ اس کے راستے پر چلنے کی کوشش کرنا ہے اور اللہ اسی کوشش کو قبول فرماتا ہے۔