روحانی حقائق اور تمثیل کا پردہ

(یہ درس منظوم مثنوی مورخہ 14 مئی 2024 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

ایک بادشاہ اور اس کی بیمار کنیز کی حکایت کے ذریعے یہ سبق دیا گیا ہے کہ اصل بیماری جسمانی نہیں بلکہ روحانی اور قلبی ہوتی ہے۔ مولانا رومی کا تمثیلی انداز "وحدت الوجود" جیسے نازک اسرار کو نااہل افراد کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس طریقے کی بنیاد یہ ہے کہ روحانی تعلیمات کا تعلق عقل سے زیادہ قلب سے ہوتا ہے، جو کہانی اور جذبات سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ درس میں روح کی اس بے تابی کا بھی ذکر ہے جو حقائق کو بغیر کسی حجاب کے جاننا چاہتی ہے، تاہم، اسے خبردار کیا جاتا ہے کہ روحانی تجلیات کو براہِ راست برداشت کرنے کی سکت انسان میں نہیں ہے۔ اس نکتے کو سورج کی مثال سے واضح کیا جاتا ہے کہ ایک خاص فاصلے سے وہ زندگی بخشتا ہے، مگر قریب آنے پر تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا، روحانی سفر میں ادب اور حدود کا لحاظ رکھنا لازمی ہے، کیونکہ ہر راز کو آشکار کرنا سالک کے لیے وبالِ جان بن سکتا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے اور منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا رومی جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور تصنیف مثنوی شریف کا درس ہوا کرتا ہے اور چونکہ پہلے یہ گزشتہ پندرہ سال میں اَلْحَمْدُ للہ اس کا جو فارسی حصہ ہوچکا ہے تو آج کل اس کا جو منظوم ترجمہ ہے اس سے ماشاء اللہ تعلیم ہورہی ہے، تو اس میں ایک step گویا کہ کم ہوگیا کہ بجائے فارسی کے ترجمہ کے پھر اس کے بعد تشریح کی بات ہو تو اب اَلْحَمْدُ للہ براہ راست وہ اردو سے ہم اس کی تشریح کرسکتے ہیں۔ گزشتہ واقعہ چل رہا ہے۔

حضرت کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ حکایت کے ذریعہ سے بہت مفید مضامین بیان فرماتے ہیں، بہت مفید مضامین تو ایک حکایت چل رہی ہے کہ ایک بادشاہ اس کی ایک کنیز تھی اس کو بہت پسند تھی لیکن وہ بیمار ہوگئی بہت زیادہ اور کوئی بھی شخص اس کا علاج نہیں کر پا رہا تھا نہیں ہوسکتا تھا ان سے تو پھر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگیا تو پھر اللہ پاک سے دعا کرتے رہے، تو اللہ پاک نے ان کے دل پہ ایک بات طاری کردی کہ ایک آئے گا مطلب جو ہے ناں وہ حکیم وہ ماشاء اللہ مردانہ اس کا علاج کرے گا تو ان کے بارے میں پتا کیا تو پھر ان کو بلایا تو ظاہر ہے مطلب ہے کہ ان کا استقبال کیا بہت زیادہ ان کا اکرام کیا اور پھر بعد میں اس نے تشخیص کے لئے نبض دیکھی تو پتا چلا کہ گزشتہ جتنے لوگوں نے بھی اس کا علاج کیا ہے ٹھیک نہیں کیا، تو انہوں نے کہا کہ علاج تو ہوا ہی نہیں اس کا تو تشخیص ہی صحیح نہیں ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پھر؟َ انہوں نے کہا کہ پھر مجھے تشخیص کرنا چاہئے لیکن تشخیص کے لئے مجھے ذرا اس مریض کو دیکھنا پڑے گا نبض دیکھنا پڑے گا تو انہوں نے تخلیہ کا بھی انہوں نے کہا۔ تو پھر اس کے بعد انہوں نے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ وہ نبض شناس تھے تو نبض پہ ہاتھ رکھا تھا اور ان سے پوچھتے جاتے تھے کہ کہاں کہاں تو رہی ہے اور کیا کیا ہوا ہے اور اس سے جو ہے ناں مطلب نبض پہ مسلسل ہاتھ رکھ رہے تھے تو یہ سلسلہ چل رہا تھا،

40

سرِ دلبر ہوں اشارے میں بیان

غیر پر بالکل نہیں ہو یہ عیاں

اسرارِ حقیقت کو تمثیلی حکایت کے ضمن میں بیان کرنا ہی زیادہ بہتر ہے،

براہ راست الفاظ سیدھے سیدھے میں ٹھیک نہیں کیونکہ بعض لوگوں کو پیغام پہنچانا ہے، بعض لوگوں کو نہیں پہنچانا یہ تصوف کا بھی بنیادی وہ ہے کہ بعض لوگ اس کے اہل نہیں ہوتے، تو ان کو اگر ان مضامین کا پتا چل جائے تو اس کو misuse کرتے ہیں، غلط استعمال کرتے ہیں، نتیجاً ایک فساد آجاتا ہے تو اس وجہ سے جو اس کے اہل ہوں ان تک تو بات پہنچانی ہے اور جو اہل نہیں ہیں ان سے بات چھپانی ہے یہ بات ہے

تشریح:

اس شعر میں مثنوی شریف کے اس اندازِ خاص کی طرف اشارہ ہے جو اس میں اول سے آخر تک چلا گیا ہے، یعنی اسرارِ سلوک کو مستقل اور واضح عنوانات کے نیچے رکھ کر اس پر خاص بحث و تمحیص نہیں کی۔ جیسا کہ دیگر کتبِ فن کا طریقہ ہے۔ بلکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ طوطی و زاغ اور شیر و خرگوش وغیرہ اشیاء کی کہانیوں کے ضمن میں بلا تخصیصِ مواقع وہ، وہ اسرار و رموز بیان کرتے چلے گئے ہیں۔ جنہوں نے اس کتاب کو فتوحاتِ مکیہ اور مکتوباتِ امام ربانی سے علمی حیثیت میں کسی طرح کم نہیں رہنے دیا، اور ذوقی و حالی چاشنی میں ان سے بڑھا دیا ہے۔

دیکھیں! اس پر ایک بات بتاؤں بہت اہم بات ہے medical point of view سے ہر دوائی کا ایک critical organ ہوتا ہے جیسے iodine کے لئے thyroid ہے iodine انسان جس چیز میں بھی ہوگا کھائے گا تو سیدھا پہلے thyroid میں جائے گا تو thyroid کا علاج پھر iodine کے ذریعہ سے ہوتا ہے تاکہ وہ چیز تو جو critical organ ہوتا ہے اس تک وہ دوائی آسانی سے پہنچتی ہے، تو دل کی جو دوائی ہے وہ دل کو مطلوب چیزوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے تو دل کو مطلوب چیزیں وہ کیا ہیں وہ خوش آوازی ہے اور تناسب ہے اور اس طرح مطلب گویا کہ شعری انداز میں، کیونکہ نثر جو ہوتا ہے وہ جو ہے ناں دماغ پہ زیادہ اثر کرتا ہے اور شعر جو ہے دل پہ زیادہ اثر کرتا ہے، ہاں جی تو ظاہر ہے مطلب اشعار میں اگر یہ چیز بیان کی جائے جو حقیقتیں ہیں حکایت کے تو ظاہر ہے دل کو زیادہ appeal کرتی ہیں اس پر عجیب ایک اور واقعہ بیان کروں ڈاکٹر حمید اللہ فرانس کے مشہور سکالر ہیں، وہ ایک عجیب بات کہہ رہے ہیں میں ابھی ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے ان کی quotation آئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں خود عقلیت پسند لوگوں میں سے عقلیت پسند لوگوں میں سے ہوں، یعنی میں چونکہ scholar تھے scholar تو عقلیت پسند لوگ ہوتے ہیں تو لیکن میں نے مطالعہ کیا کہ یورپ میں اسلام جو پھیلا ہے کیا یہ عقل کے ذریعہ سے پھیلا ہے یا دل کے ذریعہ سے پھیلا ہے، ہاں جی کہتے ہیں میرا نتیجہ بالکل الٹ نکلا کہ جو بھی مسلمان ہوا وہ دل کے ذریعہ سے مسلمان ہوا کوئی دل کی بات ان کے سامنے آئی ہوئی ہے جس سے انہوں نے وہ inspire ہوگئے تو پھر انہوں نے سوچنا شروع کیا اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ یہ بات مجھے خود الفریڈ صاحب جو جرمنی کے ہمارے دوست تھے نومسلم بھائی انہوں نے یہ بات بالکل exactly یہ بات کی، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسے مسلمان ہوئے؟ کہتے ہیں یہ سوال تو مجھ سے اکثر لوگ کرتے ہیں لیکن میں کسی scholar کے article پڑھ کر مسلمان نہیں ہوا ہوں کسی اور کے فلسفہ یا کوئی اس قسم کی بات سن کے مسلمان نہیں ہوا بلکہ چند واقعات تھے جس کی وجہ سے اسلام کو میں نے دیکھ لیا، پہلا واقعہ اس نے یہ بتایا کہ انڈیا میں میں کام کررہا تھا یہ architect تھے مکانوں کے جو نقشے بنانے والے ہوتے ہیں انجینئر تھے تو کہتے ہیں وہاں میں کام کرتا تو میں گاڑی کے ذریعہ سے آرہا تھا جرمنی، تو عراق سے اس وقت گزر رہا تھا روڈ تھا روڈ پہ تھا تو ایک آدمی اس طرح والہانہ ہاتھ اس طرح اس طرح کررہا ہے کہ جیسے رک جاؤ رک جاؤ تو میں نے کہا کہ پتا نہیں کوئی پریشانی میں ہوگا تو اس کے لئے میں نے گاڑی کھڑی کی تو اس نے کہا کہ ڈگی کھولو میں نے کہا کہ کیوں؟َ تو اس کے ساتھ بہت سا اناج تھا تو کہتے ہیں یہ میں آپ کو دینا چاہتا ہوں، ڈگی کھولتے ہی وہ ڈالتا گیا اور میرا شکریہ بھی ادا کرتا کہ اچھا ہوا کہ آپ آگئے ورنہ میں یہ کس کو دیتا یہ زکوۃ نکالنا چاہتا تھا، تو راستہ پہ چلنے والے سے بہترین مصرف کیا ہوسکتا ہےَ؟ اور کہتے کہ رو بھی رہا تھا میں نے کہا کہ عجیب آدمی ہے دے بھی رہا ہے اور رو بھی رہا ہے یہ کون سا طریقہ ہےَ؟ کہتے ہیں یہ پہلی بات تھی جس نے مجھے click کیا۔ ہاں جی دوسری بات ایسی ہوئی تھی کہ ایک ترک عالم تھے تو اس کو کسی نے خوشبو offer کی تو اس نے کہا کہ ہاں ہاں میں تو ضرور لوں گا کیونکہ آپ ﷺ اس کو خوشبو کے ہدیہ کو واپس نہیں فرماتے تھے اور آنکھوں سے آنسو آنا شروع ہوگئے، میں نے کہا کہ یہ کون سا شخص ہے جس کا نام سن کر آدمی رو پڑتا ہے یہ کیا بات ہے ہاں جی تو کہتے ہیں کہ یہ دوسری بات تھی۔ اور تیسری بات یہ پھر اس کے بعد مجھے کسی نے قرآن دے دیا ہاں جی German زبان میں translated اس کو میں نے پڑھا تو بس میرے اوپر بات کھل گئی اور میں پھر مسلمان ہوگیا، بیوی کو مسلمان کیا اب دیکھو اس نے کہا کہ میں کسی کے lecture وغیرہ سے نہیں ہوا تو یہی بات ڈاکٹر حمید اللہ فرانس کے جو scholar تھے وہ بھی کہہ رہے تھے کہ زیادہ تر لوگ جو مسلمان ہوئے ہیں وہ لیکچروں سے مسلمان نہیں ہوئے ہیں، وہ کسی کے ماشاء اللہ بات کو دیکھ کر جذباتی طور پر inspire ہوئے ہیں اور اس کے ذریعہ سے مسلمان ہوئے ہیں کہتے ہیں دل کا element اس میں بہت زیادہ ہے تو اگر یہ بات ہے تو پھر مثنوی شریف میں دل کا element زیادہ ہے، اس میں دماغ کی باتیں کم ہیں اس میں دل کو appeal کرنے والی باتیں زیادہ ہیں اس وجہ سے باتیں وہی آپ حضرات دیکھتے ہیں کہ کیسے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں اس میں سے نکل آتی ہیں اور مطلب جو ہے ناں وہ یہ اس طرح شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں نکل آتی ہیں اور بھی مختلف، لیکن اپنے انداز میں جو چیزیں حضرت مجدد صاحب مکتوب میں بیان کررہے ہیں وہ یہاں پر حضرت کسی حکایت کے ذریعہ سے بیان کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جس نے کہا کہ ناں کہ جنہوں نے اس کتاب کو فتوحات مکیہ اور مکتوبات ربانی سے علمی حیثیت میں کسی طرح کم نہیں رہنے دیا کیونکہ چیزیں اس میں آگئی اور ذوقی اور حالی چاشنی بھی ان سے بڑھا دیا ہے ہاں جی تو یہ بات ہے

41

بولی بول اب اور مجھ کو نہ ستا

کر بیان بے کم کاست بلا اخفا

42

خوب بیان کردینا رمز مرسلین

صاف صاف کردو بیاں اب رازِ دین

اب یہاں پر ایک عجیب بات ہے یہ دیکھیں ناں! بات حکایت سے نہیں آرہی اب حضرت نے حکایت سے جو conclude کیا وہ بیان کیے جارہے ہیں، مطلب یہ ہے کہ اب بتاؤ ناں مجھے کیوں ستا رہے ہو چپ کیوں ہو ہاں جی جو آپ کو سمجھ آرہا ہے وہ سب مجھے سمجھا دو یہ روح کی بات چل رہی ہے ناں ظاہر ہے وہ کہ رہی ہے اور مجھے رمز مرسلین بتا دو، ہاں اب جو اس میں راز دین کے راز ہیں وہ مجھے سمجھا دو تو۔۔۔

اسرارِ مرسلین سے مراد وحدۃ الوجود کا راز ہے کیونکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ" کی تعلیم دی ہے اور اس کے معنی ہیں "لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہ" اور دلائلِ عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہے کہ جو ذات جمیعِ کمالات میں متفرّد ہو اس کا معبود ہونا لازم ہو سکتا ہے اور لازم کی نفی کے لیے ملزوم کی نفی لازم ہے، تو غیر اللہ کے استحقاقِ عبادت کی نفی سے، جو "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" کا مدلول ہے، یعنی اس سے ثابت ہوتا ہے یہ لازم آتا ہے کہ اس کا انفراد فی الکمالات منفی ہو اور یہ مدلول ہے وحدۃ الوجود کا، اس لحاظ سے وحدۃ الوجود "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" کا مدلولِ التزامی ٹھہرا اور ملزوم کی تعلیم میں اشارۃً لازم کی تعلیم بھی ہو گئی، کیونکہ "اَلشَّیْءُ اِذَا ثَبَتَ ثَبَتَ بِلَوَازِمِہٖ" مسلّمہ اصول ہے۔ یہ منطقی باتیں ہیں ہاں جی اس اعتبار سے اس کو اسرارِ مرسلین فرمایا ہے اور چونکہ یہ "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" کا مدلول مطابقی نہیں، اس لیے رمز و اسرار کہا (کلیدِ مثنوی)

تشریح:

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اب دیکھو ناں! لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ میں لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللّٰہ اصل میں تو کیونکہ الہ معبود کو کہتے ہیں ہاں جی لیکن معبود یہ فرمایا کہ معبود وہ ہوسکتا ہے جس کا کمالات میں کوئی اور شریک نہ ہو مطلب یہ ہے کہ اس جیسا کوئی نہ ہو تبھی وہ معبود ہوسکتا ہے، کیونکہ اب تمام لوگوں سے تمام چیزوں سے اپنا رخ ہٹا کر صرف ایک کے جب بن جائیں تو وہ معبود ہوسکتا ہے کہ آپ اس کو سجدہ کررہے ہیں یعنی اپنی نفی کررہے ہیں، کیونکہ اپنی نفی تو سب سے اخیر میں ہوتی ہے ناں، باقی چیزوں کی نفی تو پہلے ہوتی ہے تو آپ نے اپنی نفی کرلی کہ اس کے سامنے گر گئے، تو یہ کوئی بات تو نہیں آسان تو مطلب یہ ہے کہ یعنی یہاں پر کہتے ہیں اَلشَّیْءُ اِذَا ثَبَتَ ثَبَتَ بِلَوَازِمِہٖ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ یہ ہمیں بتا رہا ہے کہ اللہ جل شانہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے حقیقت میں حقیقت میں، کیونکہ باقی چیزیں بالکل کالعدم ہیں ان کی کوئی حیثیت تو یہ وحدت الوجود ہے ناں تو مطلب یہ ہے کہ یہ بات ہے کہ فی الحقیقت جیسے دیکھو ناں ہمیں جو بتاتے ہیں بزرگ وہ کیا فرماتے ہیں؟ مبتدی کے لئے لَا معبود اِلَّا اللّٰہ، متوسط کے لئے لَا مقصود اِلَّا اللّٰہ، منتہی کے لئے لَا موجود اِلَّا اللّٰہ، تو پھر وہی بات ہوگئی ناں جو منتہی ہے وہ جانتا ہے کہ اور کوئی نہیں ہے ہاں البتہ یہ بات ہے کہ جو ہے وہ اسی کی وجہ سے ہے دوسروں کا وجود اس کے موجود ہونے سے ہے، دوسروں کا وجود اس کے موجود ہونے سے ہے کسی کا وجود بذاتہٖ نہیں ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات کیوں اب کوئی فرق رہ گیا کسی کا وجود بذاتہٖ نہیں ہے ہاں جی جیسے ہم کہتے ہیں بھائی سایہ اگر ہے تو سورج کی وجہ سے ہے، سورج نہ ہو تو سایہ کیسے ہوگا؟ تو سایہ کی کیا حیثیت ہے ٹھیک ہے ناں تو مطلب یہ ہے کہ یہاں پر جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے وہ اس لئے اس کو فرمایا کہ اس کو یعنی اسرار مرسلین کہا، کہ سارے انبیاء کرام یہی بات بتا رہے ہیں یہی بات، کیونکہ جو چیزیں تمام انبیاء میں common ہیں ان میں توحید ہے رسالت ہے اور آخرت ہے مطلب وہ سب جو ہے ناں اسی کی دعوت دیتے آرہے ہیں ٹھیک ہے ناں تو یہاں پر یہ والی بات ہوگئی۔

43

پردہ اس اسرار سے اٹھا ذرا

اس کو تمثیلات سے نکلوا ذرا

سبحان اللہ

: پردہ (خفا) اٹھا دے اور صاف صاف (پوست کندہ) بیان کرجو صحیح بات ہے، کیونکہ (میں اسرارِ دلبر کو تمثیلات و حکایت کے پردے میں سننا پسند نہیں کرتی روح کہہ رہی ہے گویا شوقِ تواصل کے سبب) میں معشوق کے ساتھ پیرہن سمیت اپنی گنجائش نہیں پاتی (اس میں اور مجھ میں قمیص تک کی بھی آڑ نہ ہونی چاہیے) مطلب: وہی اسرارِ وحدت کے بیان کا تقاضا ہو رہا ہے۔

تشریح:

یعنی اب درمیان میں مجھے مثالیں کیوں دیں؟ مثالوں کی کیا حیثیت ہے اب مجھے مثالوں سے پاک چیز چاہئے براہ راست چیز چاہئے مطلب جو مجھے اس کے ساتھ واصل کردے

اور اس کو اس قدر صاف و صریح پیرائے میں سننے کا شوق ہے کہ تمثیلات و حکایت بھی گویا بمنزلۂ پیراہن ہیں، جس کی آڑ لطفِ وصل میں مخلّ ہے۔

44

بولا میں اس کو کیا عریاں تو

تو تیرا کچھ بھی پھر سالم نہ ہو

اگر میں نے اس کو عریاں یعنی تمام چیزوں سے وہ کرلیا تو پھر تو بھی سالم نہیں رہے گا مطلب میں نے اس کو کہا یہ ممکن نہیں ہے میں جو اس طرح بیان کرلوں

اس رازِ مکنون کے اظہار سے تیری حالت زیر و زبر ہو جائے گی،

نہ تو رہے گا نہ تیری بات رہے گی ہاں جی اس وجہ سے میں مجبور ہوں کہ میں اس کو یعنی ایسے ہی رہنے دوں جیسے کہ ہے

45

مانگ خوب لیکن ہویہ اندازے سے

گھاس کا پتہ پہاڑ اٹھا سکے؟

46

جیسے سورج کچھ اگر آگے بڑھے

تو زمین پر سارا کچھ اس سے جلے

تشریح:

بھائی تو سورج کی تپش کو نہیں سہہ سکتا، روشنی کو برداشت نہیں کرسکتا، تو مجھے بتاؤ اس تجلی کو جو کہ تجلی عام ہے اس کو کیا برداشت کرو گے؟ لہٰذا چپ رہو مطلب آگے نہ بڑھو ایسی چیز نہ مانگو جو برداشت نہیں کرسکتا۔ ہاں جی یہ باتیں ہے اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ایک دوست تھے پیر بھائی تھے اللہ تعالیٰ وہ جو ہے ناں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے چند دن پہلے پتا چلا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں مجھے پہلے پتا نہیں تھا، ہمارے حضرت انجینئر عبدالقدوس صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے شیخ کے بڑے مطلب جس کو کہتے ہیں خلیفہ بھی تھے اور لیکن ایک قسم کے بہت لاڈلے تھے اپنی سادگی کی وجہ سے سادگی بہت تھی انجینئر تھے، وزیرستان کے علاقہ کے تو حضرت ان کو پیار سے لشکی خان کہتے تھے لشکی پشتو میں وہ جو وزیرستان والی زبان لشکی تو کہتے تھے تو حضرت اس کو لشکی خان کہتے تھے تو ایک دفعہ حضرت سے کہا عجیب شخصیت تھے تو حضرت بیمار تھے اور بیماریاں بہت زیادہ تھیں تو ویسے تو حضرت محفل میں برداشت کیے جاتے تھے لیکن جس وقت محفل ختم ہوجاتی پھر فریادیں بھی ہوتیں اور تکلیف بھی ہوتی تو حضرت سے کہہ رہے ہیں کہ کمال ہے سب لوگوں کو آپ دم کرتے ہیں وہ ٹھیک ہوجاتے ہیں اپنے آپ کو کیوں نہیں دم کرتے؟ آپ خود کیوں ٹھیک نہیں ہوتے ہاں جی تو ڈاکٹر شیر حسن صاحب موجود تھے ان کو کہا حضرت نے آپ کو پتا ہے ناں یہ کون ہے؟ یہ لشکی خان ہے یعنی اس کو اس قسم کی بات کہنے کی اجازت ہے یہ کرسکتا ہے پھر فرمایا بیٹا یہ میں نہیں کرتا یہ تو اللہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ جب کوئی کام کرنا چاہیں تو اس کے لئے ذریعہ بنا دیتا ہے اور جب نہیں کرنا چاہے تو کوئی ذریعہ بھی کامیاب نہیں ہوتا، ہاں جی تو ان کو یہ بتایا تو اس کے ایک حضرت کے ساتھ محبت بہت زیادہ تھی تو وہ بات اس نے سوچی جو ہم نہیں سوچ سکتے تھے۔ ہاں جی تو ایک ہمارے حضرت کے خلیفہ تھے مولوی محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہ بھی فوت ہوگئے ہیں وہ یہ ان میں بہت آگے تھے عملیات کی لائن میں حضرت نے ان کو ذرا اس معاملہ میں رکھا تھا توعملیات کی لائن میں بہت آگے تھے ان سے کہا کوئی ایسا تعویز مولانا صاحب پر میں کرسکتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ محبت کرے یعنی محبت کی تعویز اس پہ کرسکتا ہوں تو مولوی یوسف صاحب نے ان سے کہا ہاں کرسکتے ہو ہوسکتا ہے لیکن برداشت نہیں کرسکو گے، پھر برداشت نہیں کرسکو گے تو مطلب یہ ہے کہ واقعتاً یہ والی بات ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہوسکتی ہیں لیکن برداشت نہیں ہوسکتیں، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کیا کہا تھا پھر دیکھو اس پہاڑ کو ہاں جی کہ اس کو کیا ہوتا ہے پھر بتانا، تو پھر جب پہاڑ کے اوپر تجلی ڈال دی تو پھر کیا ہوا پہاڑ کے ساتھ؟ وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور ساتھ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بیہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے تو فوراً کہا کہ میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں ہاں جی توبہ کرتا ہوں تو مطلب یہ ہے کہ۔۔۔۔

46

جیسے سورج کچھ اگر آگے بڑھے

تو زمین پر سارا کچھ اس سے جلے

اگر حدِ ادب سے بڑھ جائیں تو وصال وبال بن جاتا ہے۔ مثلًا سورج کہ دور سے اس کا نُور فرحت بخش ہے، اگر وہ قریب آ جائے وہ عذابِ نار بن جائے

تشریح:

اس کی ایک اور مثال دیتا ہوں چاند سائنسدان اس کو بتاتے ہیں کہ اس کے اوپر گڑھے ہیں بڑے بڑے گڑھے ہیں، ہاں جی اگر یہ گڑھے نہ ہوتے تو چاند ایک مصیبت ہوتی کیسے ہاں جی اگر یہ گڑھے چاند پر نہ ہوتے تو اس کے اوپر جو روشنی منعکس ہوتی سورج کی وہ آئینہ کی طرح منعکس ہوتی لہٰذا کچھ جگہوں پہ اتنی روشنی ہوتی جیسے آئینہ کی روشنی کاغذ پر پڑتی ہے تو کیسے ہوتی ہے اس کو دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ناں؟ اس میں تو بالکل سورج نظر آتا ہے تو جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو دیکھنا ممکن نہیں ہوتا، نہ اس میں سو سکتا ہے آدمی اور باقی جگہ بالکل اندھیرا ہوتا ہے، ہاں جی آپ بیٹری جب لاتے ہیں تو بیٹری میں صرف وہی جگہ روشن ہوتا ہے ناں مطلب اور جگہ تو روشن نہیں ہوتا تو اس طرح مطلب ہے کہ چاند ایک مصیبت بن جاتا، کچھ لوگ اس سے بے آرام ہوجاتے اور کچھ لوگوں کا فائدہ نہ ہوتا وہاں اندھیرا ہوتا تو اب یہ جو جس کو ہم کہتے ہیں ایک ہوتا ہے regular reflection ایک ہوتا ہے irregular reflection یعنی مطلب یہ ہے کہ باقاعدہ reflection نہیں ہے کوئی rays اس طرف جارہا ہے کوئی اس طرف کوئی اس طرف کوئی اس طرف مطلب مختلف directions میں rays جارہی ہیں نتیجاً وہ جو روشنی diffuse ہوگیا. diffuse ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ مختلف جگہوں پہ تقسیم ہوگیا ایک جگہ نہیں آیا، بلکہ مختلف جگہوں تو بہت ساری جگہوں کو روشنی مل گئی اور تکلیف کسی کو بھی نہیں ہوئی تکلیف کسی کو بھی نہیں ہوئی، تو یہ مطلب گویا کہ اس irregular روشنی کا ایک فائدہ ہمیں ہوا چاند کی صورت میں تو اس طریقہ سے مطلب اللہ پاک نے جو نظام رکھا ہے تو اس پہ انسان اکتفا کرلے، اس کو اگر اپنے خیال میں ٹھیک کرنا چاہے تو وہ ٹھیک کرنا ہمارے لئے وبال بن جاتا ہے یہی ہماری سائنس کے ساتھ ہورہا ہے آج کل بالکل صرف وہ موبائل جس نے بھی ایجاد کیا تو پتا نہیں کس نیت سے ایجاد کیا لیکن اب وبال جان ہے یا نہیں ہے کتنا وقت لوگوں کا ضائع کررہا ہے، ہاں جی اس طرح یہ جو ہے ناں مطلب یعنی جتنے بھی ہمارے scientific چیزیں ہیں جیسے AC ہے یا دوسری چیزیں مطلب وہ اس کے ساتھ اس کی مصیبتیں لگی ہوئی ہیں، مطلب اس کے ساتھ بے شک راحت بھی ہو لیکن اس راحت کے ساتھ مصیبت بھی لگی ہوتی ہے اس کے ساتھ مسائل بھی ہوتے ہیں، تو یہ ہوتا ہے اب یہ گاڑیاں ہیں ناں گاڑیوں میں لوگ چلتے ہیں تو بعد میں ان کو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اب دوڑو اب بھاگو اب جو ہے ناں مطلب exercise کرو کیونکہ ظاہر ہے وہ قدرتی exercise تو ہے نہیں چلنے پھرنے والی، نتیجاً اب جو ہے ناں وہ مطلب وہی ہے جو زبردستی والی exercise ہے وہ لوگوں کو کرنا پڑتی ہے ہاں جی پہلے تو بازار سے سودا سلف لاتے تو اور اسی میں ہی exercise ہوجاتا، ہاں جی سارا کام خود کرتے اب عورتوں کو بیماریاں کس لئے ہوتی ہیںَ؟ واشنگ مشین موجود ہے، ہاں جی اس طرح مطلب جو ہے ناں وہ گیس موجود ہے فلاں چیز موجود ہے فلاں چیز موجود ہے اب وہ سارے کام ان کے بغیر تکلیف کے ہورہے ہیں تو بس ٹھیک ہے بیماریاں ان میں store ہورہی ہیں بیماریوں کے store بن رہے ہیں ہاں جی تو پھر وہ کیا کریں دیکھو! مطلب یہ ہے کہ جو ہماری آسانیاں ہیں وہی ہمارے لئے مصیبت بن رہی ہیں، جو قدرتی زندگی ہے اس قدرتی زندگی میں بہت ساری چیزوں کا خود علاج ہوجاتا ہے۔ ایک اور بات بتاتا ہوں یہ ہمارے ڈاکٹر حضرات جو ہیں ناں یہ دوائیاں بناتے ہیں ناں تو جس کو کہتے ہیں یہ اس کا اصل چیز ہے جس کی وجہ سے اس کا فائدہ ہورہا ہے اس کو اس چیز سے نکال کے آپ کو گولیوں میں پہنچا دیتا ہے، ٹھیک ہے وہ چیز آپ کو فائدہ تو دیتی ہے لیکن اس کا جو نقصان ہے اس کو دور کرنے کے لئے دوسری چیزیں تھیں وہ آپ نے نہیں لیں تو پھر کیا ہوگیا؟ آپ نے فائدہ لے لیا لیکن اس کے ساتھ اس کا نقصان بھی لے لیا ٹھیک ہے مطلب جیسے ہماری گندم ہے گندم سے آپ وہ نکال لو چھلکا نکال لو تو پھر وہ آٹا کیسا ہوتا ہے معدہ، نقصان ہوتا ہے ناں مطلب ظاہر ہے اس سے قبض ہوتا ہے اور مختلف قسم کی تو یہ کیا چیز ہے قدرتی چیز جو ہوتی ہے اس کو اگر آپ نے غیر قدرتی بنا دیا تو اس کے ساتھ پھر مسائل ہوتے ہیں۔

47

سی لے لب اور آنکھیں بھی بندکرے

خون عالم کا نہ اس سے ہو چلے

اگر یہ راز ظاہر ہو جائے تو عالم نابود ہو جائے۔ دریا اپنی ہستی میں نمودار ہو تو موج و حباب کہاں رہیں؟

ترجمہ: اس سے زیادہ (اس قسم کے) آشوب و خونریزی کے درپے نہ ہو۔ اس سے آگے شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر نہ چھیڑ۔

48

اس قسم کی خونریزی چھوڑ دے

شمس کے اب ذکر سے رخ موڑ دے

جب شمسِ ظاہری کے انوار کی تاب نہیں، جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے، تو شمس معنوی یعنی شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے انوار یا رازِ وحدت الوجود کی تاب کب ہوگی۔ پس اس کے بیان کے لیے اصرار نہ کر، کہ اس میں فتنۂ آشوب ہے۔

یہ سب باتیں حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہورہی تھیں

49

اس کا آخر کب ہو اس کو چھوڑ دے

اب قلم باقی کے جانب موڑ دے

تشریح:

یعنی اپنی یہ بات ختم کرلو اور آگے چلو تو یہاں پر یہ حکایت ختم ہوگئی


روحانی حقائق اور تمثیل کا پردہ - درس اردو مثنوی شریف - دوسرا دور