با مقصد زندگی گزارنے میں ذکر اللہ کی اہمیت

خواتین بیان (یہ بیان 10 ستمبر 2023 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان کا مرکزی موضوع زندگی کے اصل مقصد یعنی اللہ کی بندگی کو پہچاننا اور اسے حاصل کرنے کا عملی طریقہ ہے۔  بے مقصد زندگی فضول ہے اور انسان کا مقصدِ حیات صرف اللہ کی عبادت ہے۔ اس مقصد کو پانے کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ کا ذکر ہے، جس کے لیے ایک سہل روزانہ معمول تجویز کیا گیا ہے: صبح سے دوپہر تک کلمہ طیبہ (ایمان کی تجدید)، دوپہر سے مغرب تک درود شریف (نبی ﷺ سے تعلق اور اتباعِ سنت کا ذریعہ) اور مغرب کے بعد استغفار (گناہوں سے معافی)۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس روحانی سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا اپنا نفس (نفسِ امارہ) ہے، جس کی اصلاح مجاہدہ (نفس کے خلاف جدوجہد) کے بغیر ممکن نہیں۔ اس اصلاح کا بہترین طریقہ کسی تجربہ کار  شیخ کی رہنمائی میں اپنے عیوب کو ایک ایک کرکے دور کرنا ہے۔ اس روحانی ترقی کی ایک اہم نشانی یہ بتائی کہ انسان خود کو بزرگ سمجھنے کے بجائے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں سے مزید آگاہ ہوجاتا ہے۔ آخر میں تصوف کا حقیقی مقصد واضح کیا گیا جو کرامتیں یا دنیاوی شہرت نہیں، بلکہ نفس و شیطان کے شر سے محفوظ رہ کر اللہ کی رضا حاصل کرنا اور اچھی حالت میں اس سے ملاقات کرنا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾1 وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾2 وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ: ﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ ۝ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾3

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات، اس وقت اگرچہ صفر کے ایام گزر رہے ہیں، اور عموماً میرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جو وقت ہوتا ہے، اس کے مطابق بات ہوتی ہے، لیکن اَلْحَمْدُ للہ اس پہ کافی بات ہوچکی ہے، تو اصل میں ہمیں اس بات کو خیال میں رکھنا ہے کہ جس مقصد کے لئے ہم یہاں پر آئے ہیں، ہمارا وہ مقصد پورا ہو۔ یہ باقی جزئیات ہیں، مثلاً صفر کے مہینے میں کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا، ربیع الاول میں کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا، ذی الحج میں کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا۔ یہ سب جزئیات ہیں، لیکن اصل جو مقصد ہے، اس کو اگر ہم دیکھیں تو وہ بنیادی چیز ہے، اور اس کو سمجھنا چاہیے۔ تو بات یہ ہے کہ ہم یہاں پر اللہ جل شانہٗ کی بندگی کے لئے آئے ہیں، کہ اللہ جل شانہٗ جیسے چاہیں، اسی طرح ہم زندگی گزاریں، اور اس میں جو رکاوٹیں ہیں، ان رکاوٹوں کو ہم عبور کرلیں، اور ان مقاصد کو جو ہمارے لئے بتائے گئے ہیں، ان مقاصد کو ہم پورا کرلیں، اور ان ذرائع کو ہم اختیار کرلیں، جن ذریعوں سے وہ مقاصد پورے ہوا کرتے ہیں۔ تو اب ایک تو مقصد کی جو اہمیت ہے، بذات خود بہت اہم ہے۔ جب تک کسی کو مقصد معلوم نہیں ہو، اس وقت تک اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کیا کرسکتا ہے۔ مثلاً، کسی کو پتا ہی نہیں ہو کہ میں نے جانا کدھر ہے، تو کیا کرے گا۔ ایسے لوگ ہیں جو بے مقصد زندگی گزارتے ہیں، لیکن وہ بعد میں اسی پر حسرت۔ ہمارے ایک رشتہ دار تھے، وہ بتاتے تھے کہ صبح پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اٹھے اور گاڑی میں بیٹھ گئے، گاڑی اس کی اپنی تھی اور بے مقصد روانہ ہوگئے، بس ایک طرف، اور وہیں سے مطلب پشاور روڈ پر آگئے، اور ہوتے ہوتے، ہوتے ہوتے، نوشہرہ سے گزر کر، جہانگیرہ سے بھی گزر کر، وہ جو اٹک پل ہے، اس کے پاس جا کے ناشتہ کیا، پھر واپس چلے گئے۔ اب بتاؤ اس نے کیا کرلیا۔ یہ بھی زندگی ہے، یہ بھی زندگی ہے کتوں کو لڑاتے ہیں اور اس پہ خوش ہوتے ہیں۔ بٹیروں کو لڑاتے ہیں، اس پر خوش ہوتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر، لوگوں کو لڑاتے ہیں، اس پہ خوش ہوتے ہیں۔ ایسے بھی لوگ ہیں۔ تو یہ بے مقصد زندگی ہے، یا غلط طریقہ ہے زندگی گزارنے کا۔ تو سب سے پہلے ہمیں اپنے مقصد کا تعین کرنا ہے کہ ہمارا مقصد آنے کا کیا ہے۔ تو مقصد تو اللہ پاک نے بتا دیا ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾4

ہمارا مقصد تو یہاں پر اللہ کی بندگی کرنی ہے، عبادت کرنی ہے، لہٰذا ہم جو کچھ بھی کریں، اس مقصد کو پورا ہونا چاہیے۔ ہمارا ہر کام اس مقصد کی تکمیل کی طرف جارہا ہو۔ اب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جن ذرائع کی ضرورت ہے، ان ذرائع کی پہچان، یہ اپنے طور پہ ضروری ہے۔ یعنی آپ کو پتا ہے میں نے لاہور جانا ہے، کیسے جانا ہے، یہ معلوم نہ ہو، مطلب گاڑی کہاں سے پکڑنی ہے، کس روڈ پہ جانا ہے، کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا، یہ معلوم نہیں ہے، تو ظاہر ہے وہ بھی ایک بات نہیں، مطلب بات بنے گی نہیں۔ اس کے لئے ذرائع ڈھونڈنے پڑتے ہیں، ذرائع جاننے پڑتے ہیں، ذرائع کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ دوسری بات ہوگئی۔ پھر اس کے لئے کچھ رکاوٹیں ہوتی ہیں درمیان میں، ان رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوتا ہے، پھر ان ذرائع کو اختیار کرنے کے لئے facilitation جو ہوتی ہے، وہ بھی اختیار کرنی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، گاڑی میری ہے، اس میں پٹرول نہیں، پھر کیا کروں۔ تو مطلب ظاہر ہے اس کا انتظام کرنا پڑتا ہے، اپنے لئے کچھ توشہ وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ یہ سارے ذرائع ہیں۔ تو یہ تمام باتیں ہمارے سامنے آگئیں کہ اول تو مقصد ہمیں معلوم ہونا چاہیے، پھر مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ذرائع معلوم ہونے چاہئیں، پھر ذرائع کو اختیار کرنا چاہیے، اور اس میں اگر کچھ رکاوٹیں ہیں، ان رکاوٹوں کو عبور کرنا چاہیے۔ اب دیکھ لیں، ہمارے ذرائع کیا ہیں۔ ہمارے ذرائع یہ ہیں کہ دیکھو، سب سے پہلے ہمیں اپنا مقصد تو معلوم ہو، لیکن جو راستہ ہے، جو تمام چیزیں ہیں، وہ ہمیں مستحضر ہوں، اور ہمیں معلوم ہو کہ ہمیں کس طرف جانا ہے، ایک ایک step۔ تو اس کے لئے پھر ظاہر ہے ہمیں ایسے ذرائع اختیار کرنے پڑیں گے کہ وہ چیز ہمیں یاد ہو۔ تو اللہ جل شانہٗ کو یاد کرنا، یہ اس مقصد کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ کو یاد کرنا۔ اگر میں اللہ کو بھول گیا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے اپنا مقصد یاد نہیں رہا، کیونکہ مقصد میرا کیا ہے؟ اللہ کی عبادت۔ اور اگر اللہ کو بھول گیا، تو کیا کروں گا۔ تو ہمہ وقت اللہ پاک کا یاد رہنا، اس کو کہتے ہیں یاد داشت۔ جب تک یہ یاد داشت والا مرحلہ نہیں آتا، تو یاد کرد والی بات ہوتی ہے، یعنی اپنے آپ کو تکلف سے یاد دلاتے رہنا، تاکہ مجھے اللہ یاد رہے۔ دوسری طرف، جب میں اللہ کو یاد کروں گا، تو اللہ بھی مجھے یاد رکھے گا۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا کہ ﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾5 پس مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد رکھوں گا۔ تو جب اللہ پاک ہمیں یاد رکھیں، تو اللہ پاک ہمیں وہ ذرائع مہیا کرتے رہیں گے، وہ علم مہیا کرتے رہیں گے جو اس کے لئے ضروری ہے، اور ہم لوگ صحیح سالم اس راستے پہ چل سکیں گے۔ لہٰذا ذکر اللہ، اس کی بہت بڑی ضرورت ہے، ذکر اللہ کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ ہم ذکر اللہ، ذکر سے رطب اللسان رہیں۔ وہ پچھلے دن میں نے بات کی تھی، ما شاء اللہ ساتھیوں کو فائدہ ہوا، جس میں میں نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ جو ہمارا طریقہ ہے کہ فجر سے لے کر دوپہر تک ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کا بلاتعداد ہم ورد کرلیں، ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘، یہ کلمہ کی تجدید ہے، یعنی ایمان کی تجدید ہے۔ میرا ایمان ہے، اور اس کو مجھے مستحضر رکھنے کے لئے یہ تجدید بار بار کرنی چاہیے، تاکہ میرا دل ادھر ادھر نہ جائے۔ پابندی نہیں ہے، دو سو دفعہ ہوگیا، دو سو پچاس دفعہ ہوگیا، ہزار دفعہ ہوگیا، پابندی نہیں ہے، لیکن کم از کم آپ اس کے ساتھ مشغول رہیں، کیونکہ بہت سارا وقت ہمارا ویسے ضائع ہوتا ہے۔ بہت سارا وقت، اگر کسی کو ذکر اللہ کی عادت ہوجائے ناں، تو وہ فضول باتوں سے خود بخود بچ جائے گا، کیونکہ اس ذکر کے اندر ایک خاصیت ہے، وہ یہ ہے کہ جو ذکر کے ساتھ عادی ہوگیا، تو اصل میں ذکر کے ساتھ کیا عادی ہوا، وہ ذکر کے نور کے ساتھ عادی ہوگیا۔ تو جو ذکر کے نور کے ساتھ عادی ہوگیا، تو جب وہ ذکر نہیں کرتا، تو اس کو ظلمت کا احساس ہوگا، اس کا دل پریشان ہوگا، اس کا دل پریشان ہوگا۔ تو وہ جس چیز سے اس کا دل اطمینان پائے گا، خود بخود اس طرف جائے گا، تو پھر دوبارہ ذکر شروع کرلے گا، دوبارہ ذکر شروع کرے گا۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ایک دفعہ ایک عرب ساتھی تھے، اس نے نماز پڑھائی، نماز کے بعد تھوڑی دیر کے بعد، (حضرت کا ایک نعرہ کبھی کبھی زبان سے نکلتا تھا) اِلَّا اللہْ۔ وہ نعرہ نکل گیا۔ تو عرب نے حیرت سے پوچھا کہ ’’مَا ھٰذَا یَا شَیْخُ‘‘ یہ کیا چیز ہے؟ حضرت نے اس کو مختصر جواب دے دیا: ’’لَیْسَ فِی الْاِخْتِیَارِ‘‘، اختیار میں نہیں ہے۔ مطلب مجھے میرے اختیار میں نہیں ہے، بس نکل گیا، نکل گیا۔ خیر، وہ تو اس جواب سے مطمئن ہوگیا، بات ختم ہوگئی، پھر وہ چلا گیا۔ اس کے بعد حضرت نے فرمایا: جو ذکر نہیں کرتے ناں، بعض لوگوں کو اللہ پاک زبردستی ذکر کراتے ہیں، زبردستی ذکر کراتے ہیں۔ یہ حضرت نے تواضع سے کام لے لیا، اپنے آپ کی طرف یہ نسبت کرلی، لیکن حقیقت کی بات کہ وہ درمیان میں بتا دیا، اور وہ یہ ہے کہ حضرت نے پھر باقاعدہ حدیث شریف میں ایک دعا کا وہ جو ہے ناں بتا دیا کہ وہ جو ہے ناں، وہ: ’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَذِکْرَكَ‘‘۔ اے اللہ، میرے وساوسِ قلبی، یعنی میرے دل کے جو وساوس ہیں، اس کو اپنی خشیت بنا دے اور اپنا ذکر بنا دے۔ یہ، یہ جو ہے ناں حضرت نے گویا کہ hint دے دیا کہ یہ ہے کیا چیز۔ میں نے جب اس پر غور کیا، تو پتا چلا کہ اصل میں ہوتا کیا ہے، جو دل نورانی ہوتا ہے، جو دل نورانی ہوتا ہے، وہ نور کے ساتھ مطلب ظاہر ہے عادی ہے۔ اب مختلف وجوہات کی وجہ سے، کسی لوگوں کے ساتھ ملنے کی وجہ سے، یا بات کرنے کی وجہ سے، وہ تھوڑا سا سایہ آگیا۔ اب وہ جو سایہ آگیا، تو اس کی وجہ سے وہ دل چونکہ اس کا عادی نہیں ہے، تو اس نے react کرلیا۔ تو reaction مختلف وجوہات سے ہوسکتا ہے، مختلف طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ یہ جو نعرہ ہے، اس صورت میں بھی ہوسکتا ہے، جھٹکے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے، اور ساتھ یہ ہے کہ کبھی کبھی، مطلب یہ ہے کہ کسی خاص ورد کی طرف متوجہ ہونے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ تو یہ ساری باتیں جو ہیں، وہ کیا ہے، یہ عملی ہیں، یہ نظری نہیں ہیں۔ لہٰذا جن کے اوپر گزرتی ہے ان کو سمجھ آتا ہے، جن کے اوپر گزرتا نہیں، تو ان کو سمجھ نہیں آتا۔ لیکن بہرحال یہ ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ تو جب انسان کا دل مانوس ہوجاتا ہے ذکر اللہ کے ساتھ، تو پھر وہ ذکر کے بغیر رہ نہیں سکتا، ذکر کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ بعض اکابر ایسے گزرے ہیں کہ وہ اپنے کھانے کو کم کردیتے تھے، یعنی amount کے لحاظ سے کھانے کو کم کرلیتے تھے، کہ تاکہ میرا زیادہ وقت کھانے پہ نہ لگے اور میرا ذکر کم نہ ہوجائے۔ ایسے بزرگ گزرے ہیں۔ یعنی ستو پھانکنے لگے کہ اس میں ٹائم اتنا نہیں لگتا، جلدی حلق سے گزر جاتا ہے، اور انرجی بھی حاصل ہوجاتی ہے، اور کام بھی بن جاتا ہے، اور ساتھ ذکر بھی، اس کا بھی موقع مل جاتا ہے۔ تو بعض۔۔۔۔ میں نہیں کہتا ہوں کہ سارے لوگ اس طرح کرلیں، لیکن جو کرتے ہیں، جو کرسکتے ہیں، ان کا ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ان کو جو دیا ہے، تو دیا ہے۔ اب میں آپ کو کیا بتاؤں، یعنی یہ تو تعلق مع اللہ کا ذریعہ ہے، نمبر ایک، ثوابوں کا خزانہ ہے۔ جس طرح کوئی شخص مسلسل کما رہا ہو، تو کیا خیال ہے، وہ اس سے تھکے گا؟ ایک شخص کی دکان ہے اور اس پہ بڑے گاہک آرہے ہیں، اور اس کو بیٹھنے ہی نہیں دیتے۔ وہ کیا کہے گا، ظالموں تم مجھے بیٹھنے بھی نہیں دیتے ہو، کچھ تو مجھے بیٹھنے دو، کیا کہے گا گاہکوں سے؟ نہیں، وہ خوش ہوگا، اور خوش خوش دے گا کہ میری بِکری ہورہی ہے۔ تو اسی طریقہ سے جن لوگوں کا اس کو اندازہ ہوتا ہے ذکر کا، تو وہ ذکر سے مطلب جس کو کہتے ہیں، تنگ نہیں پڑتے، ذکر سے تھکتے نہیں ہیں، بلکہ وہ مزید انشراح ان کو حاصل ہوتا ہے، اور وہ کرتے ہیں۔ بعض حضرات قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ بڑے مانوس ہوتے ہیں، مسلسل تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے استاد جی تھے، حافظ تھے، حافظ جی اس کو ہم کہتے تھے، یعنی آنکھوں سے نابینا تھے، ایک قرآن روزانہ وہ گویا پڑھا کرتے تھے، اور طالبعلموں کو پڑھاتے بھی تھے۔ کافی طالبعلم ہوتے تھے ان کے ہاں، ان کے ہاں آتے تھے، ان کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک قرآن پاک روزانہ پڑھا کرتے تھے۔ اب ہیں ایسے، ایسے خوش قسمت لوگ ہیں، تو ان کو قرآن کے ساتھ بڑی دلچسپی۔ اور کچھ ایسے لوگوں کے، میں نہیں کہتا ہوں، بھئی کراماتِ اولیاء حَقٌّ، دونوں طرف، اور کرامات کے پیچھے جاتے بھی نہیں ہم، لیکن کرامات سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔ ابھی بھی انگلینڈ میں ایسا آدمی ہے کہ جو روزانہ کئی قرآن پڑھتا ہے۔ کیسے پڑھتا ہے، یہ کرامت ہے، لیکن بہرحال ہے، موجود ہے۔ تو اس کا مطلب کیا ہے، اللہ جل شانہٗ پھر قدر کرتے ہیں۔ اللہ پاک سے زیادہ قدردان کوئی نہیں ہے۔ جو شخص بھی اللہ کی طرف بڑھنا چاہے، وہ تو ویسے بھی حدیث قدسی ہے کہ جو میری طرف ایک بالشت بھر آتا ہے، تو میری رحمت اس کی طرف دو بالشت جاتی ہے، میری طرف جو ایک ہاتھ آتا ہے، میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے، میری طرف جو چل کے آتا ہے، میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ حدیث شریف ہے، حدیث قدسی ہے۔ تو جو انسان قربِ الہٰی کے لئے جو ذریعہ اختیار کرتے ہیں، تو ابتداء میں تو وہ ذریعہ نارمل ہوتا ہے، جو عام لوگ استعمال کرتے ہیں، اُسی طریقہ سے ہوتا ہے۔ لیکن جب قبولیت ہوجاتی ہے اور اللہ کی مدد ساتھ شامل ہوجاتی ہے، تو پھر معاملہ اور بن جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت ساتھ شامل ہوجاتی ہے، اور اس میں پھر کچھ ایسے عجائبات ہونے لگتے ہیں، جو کہ انسان کے بس سے خارج ہیں۔ تو بہرحال، یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘، یہ صبح سے لے کے دوپہر تک، یہ ہمارا وظیفہ ہے، ایمان کی تجدید کا۔ درمیان درمیان میں کام بھی ہم کرتے ہیں، ساتھ ساتھ مطلب اس کا ورد بھی ہم کرتے ہیں۔ سبحان اللہ بالکل ٹھیک ہے۔ دوسری بات، کامیابی کا راستہ جو ہے، وہ حضور ﷺ کا راستہ ہے۔ یعنی کوئی اور راستہ اللہ نے باقی نہیں رکھا، جس کے ذریعہ سے کامیابی ہوسکتی ہو، اَلَّا یہی ایک راستہ بس، اور وہ حضور ﷺ کا راستہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا راستہ بھی اس لئے ہے کہ صحابہ کرام نے حضور ﷺ کی پیروی کی ہے، اور انہوں نے عملاً دکھا دیا کہ حضور ﷺ کا طریقہ کیسے عمل میں لایا جاسکتا ہے، لہٰذا صحابہ کرام کو اس میں شامل کرلیا گیا، ورنہ طریقہ تو حضور ﷺ کا ہی ہے۔ تو جس وقت ہم لوگ یہ یقین کرلیں، ہم اپنے ایمان مضبوط کرلیں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کے ساتھ، تو پھر کیا ہے؟ پھر حضور ﷺ کے ساتھ تعلق بڑھانا چاہیے ناں۔ جب حضور ﷺ کے ساتھ تعلق بڑھے گا، سنتوں کی پیروی ہوگی، اور جب سنتوں کی پیروی ہوگی، تو ما شاء اللہ اللہ کا قرب بڑھے گا۔ تو اس وجہ سے دوپہر سے لے کے مغرب تک درود شریف، جتنا بھی ہوجائے، مطلب یہ نہیں کہتا ہوں کہ آپ خواہ مخواہ تعداد کے ساتھ گننا شروع کرلیں۔ وہ تعداد کے ساتھ جو اذکار ہیں، وہ ہم الگ دیتے ہیں، وہ علاجی ذکر اذکار ہیں۔ باقی جو یہ اذکار ہیں، یہ تو جتنا ہوجائے تو ٹھیک ہے۔ ہاں، البتہ کوئی واجب اس کی وجہ سے چھوٹنا نہیں چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کہتے جی میں نے اتنے عدد پورے کرنے ہیں، اور ادھر جماعت کھڑی ہوگئی، اور آپ جو ہے ناں، یہاں پر بیٹھے جو ہے ناں، مطلب وہ ذکر پورا کررہے ہیں کہ چلو اتنا ہوجائے تو پھر میں جماعت میں۔۔۔۔ اور ادھر آخری رکعت بھی گزر گئی۔ نہیں بھئی، یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، ہر چیز کا اپنا موقع ہے، ہر چیز کا اپنا موقع ہے۔ بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اپنے محلے کی جو مسجد ہے، اس کا آباد کرنا واجب ہے، اور اگر کوئی شخص جامع مسجد میں جاتا ہے، تو اس پہ پچاس نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ اپنی محلے میں پچیس یا ستائیس کا ملتا ہے، جامع مسجد میں پچاس، یعنی ڈبل ملتا ہے۔ لیکن اگر جامع مسجد اپنے محلے کی نہیں ہے، تو پھر اگر اپنے محلے کی مسجد کو چھوڑ کے جامع مسجد میں جائے گا، تو اس کو پچاس نمازوں کا ثواب ملے گا ضرور، چونکہ وعدہ ہے، لیکن وہ پچاس نمازیں وہ ہوں گی جس میں واجب کو چھوڑا گیا ہوگا۔ نتیجہ ایسے ہے جیسے پچیس روپے کوئی پچاس پیسے کے لئے چھوڑ دے، یعنی وہ نماز ان کی ایک پیسے کے لگ بھگ ہوجائے گی۔ تو پچیس روپے کو چھوڑ کر کوئی پچاس پیسے کے پیچھے جاتا ہے؟ تعداد تو نہیں ہے ناں، صرف تعداد تو نہیں ہے، بلکہ اس کی کیفیت بھی ہے ناں، کمیت اور کیفیت بھی ہوتی ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ اس وجہ سے میں نہیں کہتا ہوں کہ مطلب جو واجب ہیں، اس کو نہیں چھوڑنا۔ فرائض، واجبات کی باری اول ہے، جو فرماتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ قرب جو ہے، وہ فرائض کے ذریعہ سے ہوتا ہے، قرب بالفرائض۔ سب سے زیادہ فرائض کے ذریعہ ہوتا ہے، اور فرمایا کہ نوافل کے ذریعہ سے جو انسان ترقی کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ اتنا کرلیتا ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں: میں اس کا ہاتھ بن جاؤں، جس سے وہ پکڑتا ہے، پیر بن جاؤں، جس سے وہ چلتا ہے۔ یہ اشارہ ہے، یعنی میری مدد اس کے ساتھ شامل ہوجاتی ہے، اس کے بولنے میں میری مدد، اس کے چلنے میں میری مدد، اس کے پکڑنے میں میری مدد، ساری چیزوں میں اس کی مدد، اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوجاتی ہے۔ اب عوام کو بھی نظر آتا ہے، اور ظاہر ہے بادی النظر میں بھی نظر آتا ہے کہ کامیابی تو نوافل میں ہے، یعنی بزرگی نوافل میں ہے۔ تو بات غلط بھی نہیں ہے اور صحیح بھی نہیں ہے۔ آپ کہیں گے یار عجیب بات تو نے کرلی، غلط بھی نہیں، صحیح بھی نہیں، کیا مطلب ہے؟ بھئی غلط اس لحاظ سے نہیں ہے کہ نوافل کے لئے یہ بتایا گیا ناں کہ ایسی حالت نصیب ہوجائے گی، یہ تو بتایا گیا ہے، لہٰذا غلط تو نہیں ہے۔ لیکن صحیح اس لئے نہیں ہے کہ فرائض کو چھوڑ کے اگر کیا جائے گا، تو جو ملے گا، وہ بھی نہیں ملے گا، بلکہ پھینٹی لگے گی۔ اگر فرائض کو چھوڑ کے نوافل اختیار کرے گا، پھینٹی لگے گی۔ کیوںکہ فرائض پہ تو چھوڑنے پر سزا ہے، ہر قسم کا فرض چھوڑنے پر سزا ہے۔ یہ بات بہت اہم بات ہے، اس وجہ سے فرائض اور واجبات کو بہرحال پورا کرنا ہے، پھر اس کے بعد نوافل کا درجہ ہے۔ تو جنہوں نے نوافل کو ہلکا سمجھا اور چھوڑا، تو ان درجات سے محروم ہوگئے، اور جنہوں نے فرائض کو ہلکا سمجھ کے چھوڑا، وہ تو ہر چیز سے محروم ہوگئے، اور جنہوں نے فرائض پورا کرکے نوافل کا حصہ لے لیا، ان کو بہت اعلیٰ مدارج مل گئے۔ جیسے تہجد کی نماز ہے، تہجد کی نماز نفلی نمازوں کا سردار ہے، اور سب سے بڑی بات ہے کہ اس وقت ایک وقت اس میں آجاتا ہے ایسا، اللہ پاک کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا، اس کو دوں؟ ہے کوئی پریشانِ حال کہ اس کی پریشانی دور کروں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کروں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا؟ مسلسل یہ ایک آواز آرہی ہے۔ تو جو لوگ اس پر یقین کرکے، میں نے کیا کہا؟ اس پر یقین کرکے وہ اٹھیں اور وضو کرکے تہجد کی نماز پڑھیں، اور اللہ کے سامنے دستِ سوال دراز کریں، اپنی عاجزی پیش کریں، اپنی مصیبت کو بتائیں، لوگوں کے سامنے نہ بتائیں، اللہ کے سامنے پیش کرلیں۔ تو اللہ پاک سننے والا ہے، اللہ پاک کرم فرمانے والے ہیں۔ بہت سارے مسائل کا حل اسی تہجد کے ذریعہ سے ہوجاتا ہے، کام بن جاتا ہے۔ اصل میں آج کل اس چیز کو ہلکا سمجھا گیا ہے، سن لیتے ہیں، لیکن دل میں یقین نہیں ہوتا۔ سن لیتے ہیں، لیکن دل میں یقین نہیں ہوتا۔ کوئی کہتا ہے، تو بس۔ مثال کے طور پر کسی کے پاس گیا ہے کوئی تعویذ لینے کے لئے یا کوئی دم کروانے کے لئے یا کوئی اور طریقہ جو ہے مطلب کرنے کے لئے، وہ گیا ہے کہ یہ بڑا بزرگ ہے اور یہ مجھے یہ دے گا، تو اگر وہ آگے جاکر کہہ دے کہ تہجد میں اللہ پاک سے مانگو، تو اس کا دل بجھ سا جاتا ہے کہ یہ دیکھو، میرے ساتھ کیا کررہے ہیں، میں کس لئے آیا ہوں اور یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ تو مجھے بھی معلوم تھا۔ بھی معلوم تھا تو عمل کر لو ناں۔ یہ تو مجھے بھی معلوم تھا۔ معلوم تھا تو عمل کرلو، کس نے روکا ہے آپ کو۔ تو یہ بہت بڑا مسئلہ ہے آج کل۔ یہ اصل میں بات یہ ہے کہ تہجد کی باتیں کرنے والے تو تھوڑے رہ گئے ہیں، اور عملیات کی باتیں کرنے والے بہت زیادہ ہیں، اور روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ بلکہ مولویوں نے تو اس کا ٹھیکہ لے لیا ہے میرے خیال میں عملیات کی دنیا کا۔ مطلب جو ہے ناں، وہ اس لائن میں اتنا آگے ہوگئے کہ انہوں نے۔۔۔۔ بعض نے مولویت چھوڑ دی، صحیح بات میں کررہا ہوں، گپ شپ میں نہیں لگا رہا۔ بعض لوگوں نے اپنا منصب چھوڑا، شیخ الحدیثی چھوڑی، اور عملیات کی طرف لگ گئے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ کیا کہیں اس کو۔ ظلم ہے یا نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عملیات جائز ہیں یا ناجائز، یہ میری فیلڈ نہیں ہے، یہ میں نہیں کہہ سکتا، لیکن جو اس کا اصل مقام ہے، اسی پہ رکھو، اس سے آگے نہ بڑھاؤ۔ تہجد ایک مقبول عمل ہے، مقبول کس کا ہے، اللہ کا ہے اور اللہ کے رسول کا ہے۔ ہاں جی، اور آج کل یہ بھی بڑی عجیب بات ہے، کہتے ہیں مجرب عمل ہے۔ مطلب وہ کہتے ہیں ناں مجرب عمل ہے۔ خدا کے بندے! یہ تو سارے صحابہ کا مجرب عمل ہے، سارے صحابہ پڑھتے تھے تہجد یا نہیں پڑھتے تھے؟ جتنا اکابر اولیاء ہیں، سارے کے سارے تہجد پڑھتے تھے، تو سب کا مجرب عمل ہے ناں۔ اب آپ چند عاملوں کے مجرب عمل کے پیچھے تو چلے جائیں، اور اتنے سارے مطلب انبیاء اور اولیاء اور صحابہ، ان کے اس پر نہ جائیں، تو کون سا مطلب کام کررہے ہیں آپ۔ تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ ہم لوگوں کا عقیدہ گڑبڑ ہوگیا ہے، کمزوری ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں، جو یقین کرکے اٹھے، جو یقین کرکے اٹھے، یعنی جانتا ہو کہ اس میں کیا ملتا ہے، اور پھر جو ہے ناں، مطلب وضو کرلے۔ اس میں تو یہاں تک آیا ناں حدیث شریف میں کہ خود اٹھے، اور پھر اپنی بیوی کو جگائے، اور بیوی اٹھے اور شوہر کو جگائے، اور پھر نماز پڑھے۔ ہاں یہ بات ہے، مزہ ہے اس میں، سبحان اللہ! کیا عجیب نعمت ہے۔ تو یہ مطلب یہ ہے کہ ما شاء اللہ اس پہ بہت کچھ ملتا ہے، بہت کچھ ملتا ہے۔ تو بہرحال، میں اس لئے عرض کروں گا کہ درود شریف۔ درود شریف کیا ہے؟ ذریعہ ہے آپ ﷺ کی پیروی حاصل کرنے کا، کیونکہ درود شریف کیا ہے، جب ہم درود و سلام پڑھتے ہیں، یہ باقاعدہ جاتا ہے، آپ ﷺ کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ اس کے لئے اللہ پاک نے بڑا hotline لگایا ہوا، فرشتوں کا نظام ہے، وہ باقاعدہ لے جاتے ہیں، سجا کرلے جاتے ہیں۔ پھر اس وقت جب اللہ کے رسول ﷺ اس کو سنتے ہیں یا دیکھتے ہیں، تو ما شاء اللہ جواب بھی دیتے ہیں۔ اب مجھے بتاؤ، آپ کی بار بار حاضری ہوگی، اُدھر سے جواب آئے گا، تو اس چینل سے کچھ نہ کچھ تو بنے گا ناں۔ اس سے کچھ نہ کچھ تو بنے گا ناں۔ اور ہے تاریخی واقعات میں موجود ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کچھ واقعات بیان کیے ہیں فضائلِ درود شریف میں، جن میں ایک ایسی روایت بھی ہے کہ ایک وزیر تھے۔ وہ ایک معین تعداد انہوں نے اپنے لئے رات کے وقت مقرر کی تھی کہ میں اتنا درود شریف پڑھوں گا، اور وہ پڑھ کر پھر سوتے تھے۔ ان کی عادت تھی۔ یہ عادت بڑی کمال کی چیز ہے۔ اچھی چیز کی عادت ہو ناں، یہ بہت کمال کی چیز ہے، انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ تو اس کی عادت تھی، وہ اتنی تعداد میں روزانہ پڑھ کر جایا کرتے تھے، سو جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کچھ تعداد اس نے پڑھی تھی کہ بادشاہ نے اس کو بلایا، کوئی کام پڑ گیا ہوگا، بادشاہ کے پاس چلے گئے، اور وہ کام شام جو بھی تھا، وہ ہوگیا، پھر واپس آکر انہوں نے وہ پورا کرلیا، یعنی اپنے اس کو چھوڑا نہیں۔ یہ نہیں کہا کہ بس ہوگیا، مطلب کیا کروں، بادشاہ نے بلا لیا۔ نہیں، یہ پکی عادت ہوتی ہے۔ خیر، ایسا ہوا کہ ایک صاحب آئے، ان کی بیوی کو کچھ مسئلہ تھا، آپ ﷺ کی زیارت ہوئی ان کو، جاؤ، فلاں وزیر کے پاس جاؤ، میرا سلام کہو ان کو، اور اس سے کہو کہ تم روزانہ اتنی مرتبہ درود شریف بھیجا کرتے تھے، اور ایک دفعہ ایسا ہوا کہ بادشاہ نے تجھے بلایا، تو تو جب ادھر چلا گیا، تو جو باقی رہ گیا تھا، وہ واپس آکے تو نے پورا کرلیا۔ یعنی گویا کہ پوری دلیل دے دی کہ یہ آپ ﷺ کی طرف سے بات ہورہی ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ تو سو اشرفیاں ان کو دے دو۔ اب وہ تو ہواؤں میں اڑ رہا تھا، آپ ﷺ کی طرف سے سلام، یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔ سلام کا مطلب کیا ہے؟ یہ بھی غور سے دیکھو ناں کہ سلام کس کو کہتے ہیں۔ ہم لوگ صرف سلام کے لفظ کو جانتے ہیں، بھئی سلام کے پیچھے پورا سسٹم ہے سلامتی کا۔ تو آپ ﷺ جب فرمائیں کہ آپ کے اوپر سلامتی ہو، تو اس کا مطلب کیا ہے۔ تو یہ تو بہت بڑی بات ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی سلام آیا تھا، اس وقت غالباً عصر کا وقت تھا، ایک سلہٹ میں، وہاں پر ایک بنگلہ دیش میں ایک جگہ ہے، تو وہ ایک بنگالی (مولوی شاید ہوگا،) تو ان کو آپ ﷺ نے فرمایا، اشرف علی کو میرا سلام کہو۔ تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں تو اس کو نہیں جانتا، جانتا نہیں تھا۔ فرمایا: ظفر احمد کے ذریعہ سے۔ مولانا ظفر عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہاں بنگال میں تھے، تو ان کو جانتے تھے۔ تو جب اٹھے تو جلدی ان کو سلام پہنچا دیا کہ اس طرح بات ہوئی ہے۔ انہوں نے بھی بس تیز رفتار مطلب انتظام جو ڈاک کا تھا، اس کے ذریعہ سے پہنچا دیا سلام، جس وقت پہنچا، اس وقت عصر کا وقت تھا، حضرت اپنے اوراد میں مشغول تھے، جیسے پہنچا تو زبان سے نکلا، ’’وَعَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللہِ‘‘، اور پھر فرمایا اب تو درود شریف ہی ہوگا، اب تو درود شریف ہی ہوگا۔ تو پھر درود شریف پڑھنا شروع ہوگئے۔ ہمارے شیخ کو بھی اَلْحَمْدُ للہ سلام آگیا تھا، تو ان کی نعت شریف ہے، مطلب اس سلسلے میں، اس میں انہوں نے پھر نعت لکھی ہے، مطلب اس کی خوشی میں، ’’سلام اللہ اللہ، کلام اللہ اللہ‘‘۔ تو خیر بہرحال، تو بہت وہ تو ہواؤں میں اڑ گئے، تو جاکر ایک ہزار اشرفیوں کا توڑا لے کے آئے، سو نکال کے دے دیں۔ یہ تو حضرت کا حکم جیسے ہے، پھر کیا فرمایا، آپ نے جو بشارت دی ہے، یہ اس کا، آپ جو چل کے آئے، اس کے لئے جو تکلیف اٹھائی ہے، یہ اس کا، مسلسل مختلف بہانوں سے پوری ہزار اشرفیاں ان کو دے دیں۔ لیکن وہ بھی خدا کا بندہ ویسے نہیں تھا، جن کے لئے حضور ﷺ کا حکم آیا تھا، کوئی معمولی آدمی تو نہیں تھا۔ تو اس نے کہا کہ مجھے آپ ﷺ کی طرف سے جتنے کا حکم ہے، میں وہی لے سکتا ہوں، اس سے زیادہ نہیں لیتا، باقی سب آپ کو مبارک ہو۔ باقی سب اشرفیاں واپس کردیں، اور سو اشرفیاں لے لیں، اور چلا گیا۔ یہ ہے بات۔ تو بہرحال میں عرض کرتا ہوں، آپ ﷺ کے اوپر درود شریف جو ہے، یہ جو انسان باقاعدہ ایک معمول بناتا ہے اور اس کو پڑھتا ہے، تو یہ کہیں رائیگاں نہیں جاتا، بلکہ اپنی جگہ پہنچتا ہے، اپنی جگہ پہنچتا ہے، اور وہ جگہ کون سی ہے؟ وہ آپ ﷺ تک، آپ ﷺ کے پاس پہنچتا ہے، آپ ﷺ کی طرف سے باقاعدہ جواب آتا ہے۔ تو خیر بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ درود شریف، اس کی عادت بنانی چاہیے۔ تو اس کے لئے بہتر طریقہ یہی ہے، جیسے میں نے عرض کیا، دوپہر سے لے کر مغرب تک، اور مغرب کے بعد پھر استغفار، ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ‘‘ پڑھتے رہیں۔ دیکھیں ناں، درود شریف تو آپ ﷺ کے ساتھ تعلق کا ذریعہ اور سنتوں پر آنے کا ذریعہ ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ ایمان کی تجدید ہے۔ استغفار بہت بڑی عقلمندی ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ سے اللہ پاک گناہ معاف فرماتے ہیں، اور گناہوں کا ِادھر معاف ہونا، یہ بہت بڑی نعمت ہے، بہت بڑی نعمت ہے۔ یعنی وہاں پر اگر کسی کو سزا مل جائے، تو کتنی خطرناک بات ہے، اور یہاں پر بس استغفار کرنے سے اگر وہ معاف ہوجائے، تو کتنی بڑی بات ہے۔ ہاں! بعض لوگوں کو یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں الفاظ ہی ادا کرتے ہیں، وہ توبہ تو نہیں ہوتی، تو اصل استغفار تو یہ ہوتا ہے جو توبہ کی نیت سے کیا جائے، لیکن اگر کسی وقت کسی کی توبہ کی نیت نہیں بھی ہے، لیکن استغفار کرتا ہے، یہ بذات خود چونکہ مقبول عمل ہے اور مسنون عمل ہے، لہٰذا اس کے ذریعہ سے توبہ کی توفیق بھی ہوجاتی ہے، بالآخر توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے۔ اور ایک استغفار تو ایسا ہے سبحان اللہ! اس میں تو جیسے سارا کچھ آجاتا ہے: ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّيْ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتُهٗ عَمْدًا أَوْ خَطَأً، سِرًّا أَوْ عَلَانِيَةً، وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ أَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَا أَعْلَمُ، إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ، وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ، وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ۔‘‘ کیا کچھ رہ گیا؟ سارا کچھ، اگلا پچھلا، جان کر، نہ جان کر، عام معلوم ہے، معلوم نہیں ہے، قصداً ہوئے، خطا سے ہوئے ہیں، سارے کے سارے خطاؤں سے استغفار۔ اس لئے اس کو بعض حضرات سید الاستغفار کہتے ہیں۔ تو بہرحال یہ ہے کہ استغفار بہت بڑی عقلمندی ہے۔ گناہ توبہ کی نیت سے کرنا بہت بڑی بیوقوفی ہے، لیکن گناہ ہوجائے، توبہ میں دیر کرنا یہ بھی بڑی بیوقوفی ہے، اور گناہ اگر خدانخواستہ ہوجائے، اس پہ توبہ نصیب ہوجائے، یہ بہت بڑی عقلمندی ہے۔ تو استغفار بہت بڑی دولت ہے، تو آخری وقت میں چونکہ استغفار ہی سب سے قیمتی چیز ہوتی ہے، تو یہ رات جو ہے ہمارے لئے گویا کہ زندگی کی آخر کی طرح ہے، جیسے زندگی کی آخر ہوتی ہے، اس طرح مطلب ہے کہ یہ جو ہے ناں، یہ رات بھی ہمارے لئے اسی قسم کی ہوتی ہے، لہٰذا ہمیں جو ہے ناں، مطلب ہے کہ وہ کرنا چاہیے۔ بہرحال، میں عرض کروں گا کہ یہ میں نے عرض کیا کہ ذکر اللہ کی کثرت، اس کے ذریعہ سے کیا ہوتا ہے؟ اس کے ذریعہ سے اللہ پاک کا استحضار نصیب ہوتا ہے، کیفیت حضوری انسان کو اللہ تعالیٰ نصیب فرماتے ہیں۔ ’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘6 تو ایسے عبادت کر، جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے، اور اگر یہ کیفیت تجھے نصیب نہیں، تو بے شک خدا تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ ذکر اللہ سے انسان کو حاصل ہوسکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ نفس شرارت نہ کرے۔ نفس کی سب سے بڑی شرارت یہ ہے کہ انسان کو ذکر سے ہی برگشتہ کرلے، غافل کردے۔ نفس کی بڑی شرارت یہ ہے، شیطان بھی یہی چاہتا ہے، شیطان کا کام بھی یہی ہے کہ ذکر سے مطلب برگشتہ کردے، اور نفس کی بھی یہ بات ہے۔ لہٰذا نفس و شیطان کے چکر سے اپنے آپ کو بچانا پڑے گا۔ پس کیفیتِ احسان ذکر سے حاصل ہوسکتی ہے، لیکن نفس کا علاج کرکے، نفس کا علاج کرکے۔ یعنی نفس جو ہمارا ہے، وہ کیا ہے؟ یہ اگر اس کی تربیت نہ ہو تو برائی کی مشین ہے نفسِ امارہ، یہ برائی کی طرف ہی مائل کرنے والا ہے۔ تو ایسی صورت میں اس کو روکنا پڑے گا، اس روکنے پڑنے سے مطلب یہ ہے کہ اس کے خلاف کرنا پڑے گا۔ تو ابتداء میں تو مشکل سے یہ مانتا ہے، یعنی مشکلات ہوتی ہیں، آپ کو نظر آتا ہے یہ تو پورا پہاڑ ہے، یہ کیسے میں مطلب جو ہے ناں کروں گا۔ مثلاً نظر کی حفاظت ہے، یہ بھئی خدا کا حکم ہے، مطلب اس میں کوئی فلسفہ نہیں ہے، غضِ بصر جو ہے ناں یہ خدا کا حکم ہے، قرآن پاک میں ہے، مردوں کے لئے بھی ہے، عورتوں کے لئے بھی ہے، لیکن لوگوں کے لئے پہاڑ نظر آتا ہے، میں کیسے نظر کی حفاظت کروں گا۔ لیکن آپ نظر کی حفاظت کرنا شروع کردیں ناں، ابتداء میں مشکل ہوگا، اور بہت مشکل ہوگا، پھر بعد میں بہت زیادہ مشکل نہیں رہے گا، پھر اس کے بعد اور مشکل نہیں رہے گا، پھر اس کے بعد کم مشکل ہوگا، پھر اس کے بعد مشکل نہیں رہے گا، اور پھر اس کی آخری سٹیج اس کی ایسی بھی آجاتی ہے کہ پھر نظر اٹھانا مشکل ہوجائے گا۔ جیسے کہتے ہیں کہ جیسے کوئی گاؤں کی شریف بچی، جس نے کبھی باہر قدم نہیں رکھا ہو گھر سے، پہلی دفعہ اگر علاج کے لئے آپ اس کو لے جاتے ہیں، مثلاً علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، تو اس کے لئے باہر قدم رکھنا اتنا مشکل ہوتا ہے کہ جیسے من من قدم پڑ رہے ہوں، مطلب وہ جو ہے ناں، آسانی کے ساتھ قدم باہر نہیں رکھ سکتی۔ کیونکہ وہ حیادار بچی ہے، وہ حیا اس کو روک رہی ہے مسلسل، لیکن اگر اس نے اپنی اس کیفیت کا وہ نہیں کیا یا لوگوں نے اس کی پروا نہیں کی، اور باہر لے گئے، ہوتے ہوتے ہوتے وہ چیز ختم ہوجاتی ہے، پھر اس کے بعد اس کا گھر میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ تو یہ بات ہے کہ گویا کہ آنکھ کے اندر جو حیا ہے، وہ آجائے گی، اس کے بعد آنکھ کو اوپر اٹھانا بہت مشکل ہوگا، بہت مشکل ہوگا۔ بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ تو یہی اصل میں اللہ پاک کی حفاظت کا نظام ہے کہ اللہ تعالیٰ۔۔۔۔ پہلے نظر یعنی جس کو کہتے ہیں، نیچے کرنا مشکل تھا، اب نظر اوپر کرنا مشکل ہے۔ وہی انسان ہے جو پہلے ایسا تھا، اب وہ ایسا ہوگیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس کے خلاف مجاہدہ۔ مجاہدہ سے مطلب یہ ہے کہ نفس کو روکنا، نفس جو کام چاہتا ہے اس کو نہ کرنا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشائخ کے پاس آکر ایک طریقہ سے کام ہوتا ہے۔ ایک طریقہ کی بات بتاتا ہوں، کیا ہے۔ جو اناڑی آدمی ہوتا ہے ناں، وہ کیا کرتا ہے، وہ بہت زیادہ بوجھ اپنے اوپر ڈال دیتا ہے ابتداء میں، یہ بھی کرسکتا ہوں، یہ بھی کرسکتا ہوں، یہ بھی کرسکتا ہوں، یہ بھی کرسکتا ہوں، اخیر میں نتیجہ نکلتا ہے کہ کچھ بھی نہیں کرسکتا، ایسے بیٹھ جاتا ہے۔ جو ہوشیار آدمی ہوتا ہے، جو تجربہ کار ہوتا ہے، اس کو پتا ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب تھے، یہ Intermittent fasting وغیرہ لوگوں کو کرواتے تھے، تو وہ کہتے ہیں، دیکھو! اگر آپ نے sprint کرنی ہے ناں وہاں، مطلب وہ جو ہے ناں وہ، تو آپ نے آٹھ sprint کرنے ہوتے ہیں اخیر میں، لیکن آپ نے آٹھ نہیں کرنے، آپ نے ایک سے شروع کرنی ہے۔ ایک سے شروع کرنی ہے، ایک ہفتہ ایک کرلو، پھر دوسرے ہفتے دو کرلو، تیسرے ہفتے تین کرلو، اس طرح بڑھاتے جاؤ، پھر اس پر آپ maintain رہو، ورنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے، وہ جاکر جوش میں آٹھ sprint کرکے آٹھ مہینوں کے لئے بک ہوجاتے ہیں چارپائی پر، پھر قدم بھی نہیں رکھ سکتے باہر۔ ظاہر ہے انسان کا جسم ہے اس کو عادی ہونے کے لئے ٹائم چاہیے، کوئی گپ شپ کی بات تو نہیں ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ چیز جو ہے ناں، جو تجربہ کار آدمی ہوتا ہے، وہ آپ کو تجربہ سے۔۔۔۔ تو ہمارے مشائخ جو ہیں، وہ اس طرح ساری چیزیں یکدم ٹھیک نہیں کرتے۔ بلکہ آپ کو کہتے ہیں، اپنے سارے عیوب لکھو۔ اب سارے عیوب تو لوگوں کو معلوم بھی نہیں ہوتے، لیکن جتنے بھی معلوم ہیں، وہ اگر دیانتداری کے ساتھ لکھیں، مثلاً وہ دس عیوب ہیں، تو کہیں اچھا ٹھیک ہے، یہ نو سے تو آنکھیں بند کرلو، یہ پہلے والا، یہ شروع کرلو، اس کے خلاف یہ کام کرو۔ اب ایک پہ محنت شروع ہوگئی، کرتے رہے، کرتے رہے، کرتے رہے، اس کا رسوخ حاصل ہوگیا، وہ ٹھیک ہوگیا۔ اس کے بعد کہا، اچھا اس کے بعد یہ دو کرلو، تو دوسرا بھی شروع کرلیا، پھر تیسرا بھی شروع کرلے گا، ہوتے ہوتے دس جب پورے ہوجائیں گے ناں، تو آدمی کہے گا، شاید ختم ہوگئے، لیکن نہیں، ختم نہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے، پھر اس کی آنکھ کھل گئی، دل کی آنکھ کھل گئی اس کی۔ اب جو پہلے اس کو عیوب نظر نہیں آرہے تھے، اب وہ نظر آنے شروع ہوگئے۔ پہلے اس کو دس عیوب نظر آتے، اب اس کے دس ختم ہوگئے، لیکن بیس اور نظر آرہے ہیں۔ پہلے ان کو عیوب سمجھتا ہی نہیں تھا، یعنی اس کے دل کی آنکھ بند تھی، اب ان دس کے دب جانے کی وجہ سے اس کے دل کی آنکھ کھل گئی، اب لہٰذا اس کو بیس نظر آرہے ہیں۔ پھر بیس پہ محنت شروع ہوگئی، حتیٰ کہ procedure مزید develop ہوگیا، مزید آگئے، تیس، چالیس نظر آنے لگے۔ یعنی ہونا تو چاہیے ختم، لیکن ختم نہیں ہورہے، کیا ہورہے ہیں، بظاہر بڑھ رہے ہیں۔ یہ ہے صحیح سلسلہ، جو گپ شپ والا سلسلہ نہیں ہے۔ گپ شپ والے سلسلہ میں کیا ہوتا ہے، اوہ! نظر آتا ہے کہ میں بزرگ بن رہا ہوں، بزرگ بن رہا ہوں، بزرگ بن رہا ہوں، ہواؤں میں اڑ رہا ہوں، یہ گپ شپ والا سلسلہ ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ جو صحیح سلسلہ ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے، میں گر رہا ہوں، میں گر رہا ہوں، میں گر رہا ہوں، میں گر رہا ہوں۔ حالانکہ گر نہیں رہا ہوتا، وہ ما شاء اللہ ترقی پا رہا ہوتا ہے۔ اس ترقی ہی کی وجہ سے وہ محسوس کررہا ہے کہ میں گر رہا ہوں، کیونکہ اس کی آنکھ کھل رہی ہے۔ اور جو مطلب یعنی اپنی کثافتِ نظر کی وجہ سے نظر نہیں آرہی تھیں چیزیں، اب لطافتِ نظر کی وجہ سے وہ چیزیں آنی شروع ہوگئیں، لہٰذا حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آپ بیتی دیکھو، یا ان کی کتابیں دیکھو، تو وہ جو اپنے آپ کو کہتے ہیں: خطاکار، سیاہ کار، نابکار۔ وہ جو اپنے آپ کو کہتا ہے، تو لوگ کہتے ہیں، کمال ہے، اگر یہ ایسا ہے تو پھر ہم کیسے ہوں گے۔ تو یہ بات صحیح ہے، ہم تو اس سے زیادہ خراب ہیں، لیکن، لیکن نَعُوْذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ کہیں نظر دوسری طرف نہ چلی جائے کہ یہ نہیں، ویسے کہہ رہے ہیں، اپنے آپ کو ایسے نہیں سمجھ رہے، ویسے کہہ رہے ہیں۔ یہ پھر غلط ہوگا، یہ الزام ہوگا شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ پر، تو ایسا نہیں ہے، بلکہ وہ واقعی ٹھیک کہہ رہے ہیں، ان کو ایسا ہی نظر آتا ہے۔ لیکن وہ کس سے نظر آتا ہے؟ آنکھ کی precision اتنی زبردست ہوگئی ہے، آنکھ کی نظر اتنی تیز ہوگئی کہ وہ برائیاں جو دوسروں کو نظر نہیں آرہی ہوتیں۔ ہمارے حضرت مولانا تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسے تھے، کوئی ان کو قائل نہیں کرسکتا تھا کہ یہ ہے، وہ اپنے آپ کو کہتے ہیں، میرے پاس کچھ نہیں، کبھی کیا کہتے ہیں، کبھی کیا کہتے ہیں۔ تو ایک دن میں نے کہا، میں نے کہا، حضرت! آپ حضرات سے سنا ہے کہ جو اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے، تو وہ کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں، ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ جو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا، ان میں کچھ ہونے کا امکان ہوتا ہے ناں؟ چپ ہوگئے، سمجھ گئے کہ میں کوئی شرارت کررہا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ تو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھ رہے۔ تو ہنس پڑے، فرمایا، تو نے تو میرے ساتھ وہ حرکت کرلی جو قومِ زط والوں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کیا تھا۔ وہ آئے، انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا، تو خدا ہے۔ تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخت ناراض ہوئے، ان کے لئے خندق کھودی، اس میں آگ جلائی، کہتے ہیں، اس میں ان کو گرا دو، انہوں نے مجھے خدا کہا ہے۔ تو چیخ کر کہنے لگے، اب تو ہمیں یقین ہوگیا کہ تو خدا ہے، کیونکہ آگ کی سزا صرف خدا دے سکتا ہے۔ کہتے ہیں، تو نے تو میرے ساتھ یہ حرکت کرلی ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ حضرت کو کسی طریقہ سے قائل نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اس کے پاس کچھ ہے، وہ کسی کو ویسے کہہ دیا کہ میں نے جو، مطلب یہ ہے کہ دینا تھا، دے دیا، کچھ اس طرح کہا، پھر فوراً اپنی خالی جیب نکال کر کہا جی بھئی! جس کی جیب خالی ہوتی ہے، تو وہ اپنی جیب ساری کی ساری دے سکتا ہے آدمی کو، وہ دے سکتا ہے۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو واقعی کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ جتنے بھی اللہ والے۔۔۔۔ مطلب، چلو یہ تو صوفیوں کی باتیں ہیں ناں، صوفیوں کی بات پہ تو لوگ ویسے ہی آگے پیچھے باتیں کرتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو، اپنے آپ کو کچھ سمجھتے تھے؟ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کیا اپنے آپ کو کچھ سمجھتے تھے؟ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی کرم اللہ وجہہ، اب اگر وہ کچھ نہیں تھے، تو اور کون ہے۔ لیکن وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتے تھے۔ یہی بات ہے۔ مشائخ کا کام کیا ہے؟ مشائخ کا کام یہ ہے کہ بحفاظت آپ کو پوری زندگی گزروا دیں اور آخری انجام آپ کا اچھا ہوجائے۔ سبحان اللہ، یہی بات ہے بس، اور کچھ نہیں۔ سارا کام یہی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ کی بڑے بڑے بلڈنگیں بن جائیں اور لوگ جو ہیں ناں، آپ کو آکر نذرانے پیش کریں اور آپ کے ہاتھ چومیں، یہ بالکل نہیں ہوتا، یہ چیزیں نہیں ہیں تصوف میں۔ لوگوں نے تصوف شاید انہی چیزوں کو سمجھا ہے، یہ تصوف نہیں ہے۔ تصوف کیا ہے، یعنی انسان کی محفوظ زندگی گزر جائے، شیطان کے شر سے بچ جائے، نفس کے شر سے بچ جائے، اور اخیر میں اللہ پاک کے ساتھ ایسی حالت میں ملاقات ہوجائے کہ وہ اچھی حالت ہو۔ بس یہی بات ہے۔ اس سے زیادہ، اس سے زیادہ کی نہ کوئی تمنا کرے، اور نہ کوئی اس سے زیادہ کوئی چیز ہوسکتی ہے۔ تو بس یہی بات ہے۔ مطلب جو اللہ کو ناپسند ہے، اس کو دور کرتے رہو، دور کرتے رہو، اور جو اللہ کو پسند ہے، وہ کرتے رہو۔ اوامر و نواہی شریعت کے بھی ہیں، اوامر و نواہی طریقت کے بھی ہیں، مطلب یہ بات ہے کہ اپنے دل کے اوپر وہ چیز۔۔۔۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ فرما رہے تھے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ مسجد کے سامنے والی دیوار منقش نہیں ہونی چاہیے، مسجد کے سامنے والی دیوار منقش نہیں ہونی چاہیے، بلکہ بعض حضرات کہتے ہیں، جائے نماز بھی منقش نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ دل پر اس کا اثر ہوتا ہے، خواہ مخواہ نماز میں دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ فرمایا میں تو اس سے آگے کی بات کرتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ دل بھی منقش نہیں ہونا چاہیے، یعنی دل میں بھی مختلف شوق نہیں ہونے چاہئیں کہ ایسا ہو، اور ایسا ہو، اور ایسا ہو۔ سادہ دل، اور وہ کیا ہے، بس اللہ راضی ہوجائے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بس اللہ راضی ہوجائے۔ میں کہتا ہوں، اگر یہ فقرہ انسان اپنے دل پہ لکھ دے ناں، سبحان اللہ، پوری زندگی کا نچوڑ ہے۔ بس اللہ راضی ہوجائے، اور کچھ نہیں۔

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کے لئے میں خدا چاہتا ہوں

یہی بات ہے، تو میرے خیال میں آپ کو یہ سنا ہی دوں، نہ آہ چاہتا ہوں، نہ واہ چاہتا ہوں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ ہمارا اصل مقصد کیا ہے تصوف سے۔

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

اس پہ غور کرلیا کہ خدا کے لئے میں خدا چاہتا ہوں کا مطلب کیا ہے؟ یعنی اگر کوئی دنیاوی مقصد کے لئے خدا چاہتا ہے، تو وہ یہ چیز نہیں۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ خدا کے لئے، یعنی خدا جس چیز سے راضی ہوجائے، اس لئے میں خدا کو چاہتا ہوں، یعنی اس میں بھی اخلاص ہو۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ ورنہ پھر تو دوسری چیزیں آجاتی ہیں ناں۔

اسی کا میں بندہ اسی سے میں مانگوں

اسی سے مدد ہر جگہ چاہتا ہوں

اسی نے عطا کی ہے ایماں کی دولت

اسی سے ہی اس کی بقاء چاہتا ہوں

ھدایت کا طالب میں اس کے حضور ہوں

جو سیدھی ہو بالکل وہ راہ چاہتا ہوں

﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾7

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

اگرچہ میں عصیاں کی گرد سے اٹا ہوں

میں اس سے کرم کی نگاہ چاہتا ہوں

نہ کھینچیں مجھے دوسری بھول بھلیاں

طریقِ محمد (ﷺ) صفا چاہتا ہوں

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

نہ جبہ نہ قبا نہ دستار بندی

جو مقبول ہو وہ ادا چاہتا ہوں

میں اس کی محبت کی دولت کا طالب

اسی کو ہے معلوم کیا چاہتا ہوں

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

خدایا مجھے اب تو اپنا بنا دے

خدایا میں تیری رضا چاہتا ہوں

کرم کر کرم کر کریموں کے خالق

کرم کی نظر میں سدا چاہتا ہوں

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

میں صدقِ صدیق ؓ اور عمر ؓ کی فراست

اور عثماں ؓ کی جود و سخا چاہتا ہوں

علی ؓ کی شجاعت سے حصہ میں پاؤں

حسن ؓ کا طریقِ وفا چاہتا ہوں

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

میں شبیرؔ سجدۂ شبیر ؓ نہ بھولوں

ترے واسطے ہونا فدا چاہتا ہوں

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں

اللہ اکبر، ایک اعلان سن لیں۔ ان شاء اللہ اگلے اتوار کو نو بجے سے لے کے بارہ بجے تک ہمارے ہاں خواتین کا جوڑ ہو۔ یہ جوڑ خصوصی طور پر مہینے میں ایک دفعہ خواتین کے لئے منعقد کی جاتی ہے۔ آج کل کے اس فتنے کے دور میں، جس میں خواتین کے لئے اس قسم کے کام، جو باپردہ اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہوں، بہت کم پائے جاتے ہیں۔ لوگوں نے اپنے اپنے فلسفے بنائے ہیں، جس کی وجہ سے اصل چیز رہ جاتی ہے اور صرف ادھر ادھر کی چیزیں درمیان میں آجاتی ہیں۔ نہیں، مطلب خالص دینی نقطۂ نظر سے، پردہ کے ساتھ، مطلب جو ہے ناں، یہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ تین گھنٹے کا جوڑ ہوتا ہے، تو اس میں آپ سب جو ہے ناں، مطلب اپنے گھر والوں کو لائیں اور خواتین اپنی سہیلیوں سے بھی کہہ دیں، ان کو بھی اطلاع ہوجائے، تاکہ کم از کم حق کی بات ان کے کان میں ایک دفعہ آجائے۔ آگے ماننا نہ ماننا، وہ تو ہر ایک کا اپنا کام ہے۔ یہ تو انسان زبردستی نہیں کرسکتا، لیکن یہ کم از کم پہنچانا تو ضروری ہے ناں۔ یعنی ’’وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ‘‘ کا مطلب تو یہی ہے ناں، ہمارے کام تو صرف پہنچانا ہے۔ تو پہنچانے کا نظام میں آپ خود بھی، مطلب اس میں شامل ہوں اور دوسروں کو بھی شمولیت کی دعوت دیں۔ ہاں، ایک request ہے، وہ یہ ہے کہ بچوں کا معاملہ ہم ذرا الگ کرنا چاہتے ہیں، اس کے لئے ہم سوچ رہے ہیں، لیکن اس کے لئے جگہ فی الحال ایسی ہمارے پاس نہیں ہے کہ جس میں بچوں کو اکٹھا کرکے ان کے لئے بھی ایک تربیتی پروگرام شروع کیا جائے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ جلدی مل جائے گا، لیکن فی الحال جو ہے ناں، مطلب ایسا انتظام نہیں ہے، تو ہم اس کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ تو بچوں کو اپنے، یعنی جو ہے ناں، مردوں کے حوالے کرکے آپ یکسوئی کے ساتھ نو سے لے کے بارہ بجے تک اپنا جو ٹائم ہے، اس کے لئے دیں، تاکہ دین کی بات کم از کم سمجھ آجائے۔ تو وقت پر آنا ضروری ہے، کیونکہ پوری ترتیب یعنی ہوتی ہے ناں، مطلب اس طرح ممکن ہے آخر میں کوئی آجائے، تو وہی حصہ تو حاصل کرلے گا، لیکن اس سے پہلے جو کچھ ہوا ہے، تو اس کے اندر جو جوڑ ہوگا، وہ تو اس کو سمجھ نہیں آئے گا۔ تو اس وجہ سے مطلب وہ اپنے وقت پر آئیں، نو بجے سے بارہ بجے تک اطمینان کے ساتھ بیٹھی رہیں اور جو بھی پروگرام ہو، کیونکہ خواتین ہی کا پروگرام ہوتا ہے، خواتین ہی چلاتی ہیں، ہم لوگ تو صرف یہاں سے ایک بیان کرتے ہیں۔ وہ بھی سپیکر پر کرتے ہیں، باقی خواتین کا انتظام خواتین ہی چلاتی ہیں، اور باپردہ ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو اس سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرما دے۔

وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ


با مقصد زندگی گزارنے میں ذکر اللہ کی اہمیت - خواتین کیلئے اصلاحی بیان