اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
متن:
راہِ سلوک کی رکاوٹیں
جب سالک ان اشغال کو کررہا ہو، تو اس سلسلہ میں اسے چند رکاوٹیں پیش آتی ہیں:
(ا) ان میں سے ایک رکاؤٹ ادھر ادھر سے خیالات و وساوس کا دل میں پیدا ہونا ہے۔
خیالات و وساوس کی دو قسمیں ہیں:
(۱) ان کی ایک قسم تو یہ ہے کہ انسانی ذہن بالارادہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو روز دو روٹیاں اور ایک پیالہ شہد کا ملتا ہے۔ وہ دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ اگر روٹیاں کھا لیا کروں اور شہد بچاتا رہوں، تو کچھ دنوں کے بعد میرے پاس شہد کا ایک مٹکا جمع ہوجائے گا۔ میں اسے بیچ کر مرغیاں خرید لوں گا اور جب مرغیوں کی نسل بڑھے گی، تو ان سے یہ چیزیں خرید لوں گا۔ غرضیکہ اس طرح اس کے خیالات کا سلسلہ چلتا ہے۔ (وہ شیخ چلی والے واقعات جو ہم کہتے ہیں) اسی قسم کے خیالات میں فکرِ شعر کے لئے تخیل آرائیاں اور نجوم کے زائچات بنانے کے سلسلہ میں ذہن کی قیاس آرائیاں داخل ہیں۔ اور نیز معقولات کی یہ بحثیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ اور یہ ہم کیوں تسلیم کریں؟ اسی قبیل میں سے ہیں۔
(۲) خیالات و وساوس کی دوسری قسم یہ ہے کہ یا تو بلا قصد اور بغیر سوچے ہوئے خود بخود خیالات دماغ میں چلے آتے ہیں، یا ان کی صورت یہ ہوتی ہے کہ یہ چیزیں آنکھوں نے کبھی دیکھی تھیں، ان چیزوں کی صورتیں حسِ مشترک میں بھر جاتی ہیں۔
پہلی قسم کے خیالات و وساوس کا علاج یہ ہے کہ سالک اپنی ہمت کے جذبے کو برانگیختہ کرے۔ اور اس کی شکل یہ ہے کہ وہ کوئی ایسی تدبیر کرے، جس سے اس کے دل میں جوش پیدا ہو۔ ان تدابیر کا ذکر ہم اس سے پہلے کر آئے ہیں۔ جب سالک میں اس طرح کی کسی تدبیر سے جوش پیدا ہوگا، تو اس کے اندر نئے سرے سے اپنے نفس کی تہذیب و اصلاح کا جذبہ ابھرے گا۔ اس حالت میں اسے چاہئے کہ وہ خلوت اختیار کرے اور اس امر کی کوشش کرے کہ کم سے کم کچھ وقت کے لئے اپنے دل میں باہر کے خیالات نہ گھسنے دے۔ لیکن اگر اس کوشش کے باوجود ادھر ادھر کے خیالات پھر بھی یورش کر آئیں، تو اسے چاہئے کہ قبل اس کے کہ اس کا دل اور دماغ ان خیالات کی لذت محسوس کرے، وہ ان خیالات کو اپنے آپ سے دور ہٹا دے۔ فرض کیا اگر اس کا دل ان خیالات سے نہیں ہٹنا چاہتا، تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے دل کو سمجھائے اور اس سے کہے کہ ابھی تو تم ان خیالات سے درگزرو، تھوڑی دیر بعد پھر ان خیالات سے محظوظ ہولینا۔ الغرض اس طرح ٹال مٹول کرکے وہ اپنے دل سے کچھ مدت کے لئے ان خیالات کو دور کردے، اور پھر جس تدبیر سے اس نے پہلے اپنے اندر جوش اور تہذیب نفس کا جذبہ پیدا کیا تھا، پھر اسی تدبیر کو عمل میں لائے اور اپنے دل سے خیالات و وساوس کو دُور کرنے کی سعی کرے۔
تشریح:
یہ واقعی بہت interesting باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ نماز میں جب ہم کھڑے ہوتے ہیں، تو ہمیں مختلف قسم کے خیالات سامنے آتے ہیں، ان میں کچھ خیالات بالارادہ ہوتے ہیں اور کچھ بلا ارادہ ہوتے ہیں۔ جو بلا ارادہ ہیں، وہ خیالات کی قسم اول ہے کہ اس میں انسان اپنے ذہن کو مصروف رکھتا ہے ایسی چیزوں میں جن سے اس کو خیالی اطمینان حاصل ہو۔ خیالی اطمینان سے مراد یہ ہے کہ جو جس چیز کا شوقین ہے، وہ اس شوق کے مطابق چیزوں کو سامنے لاتا رہتا ہے، شوقین کسی بھی چیز کا کوئی ہوسکتا ہے۔ مثلاً: کوئی مال جمع کرنے کا شوقین ہے، تو وہ مال کو بڑھانے کے شوق میں مختلف قسم کے خیالات پیدا کرتا ہے اور ان کو سامنے لاتا ہے اور اس سے اپنے دل کو خوش کرتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗ﴾1گویا یوں سمجھ لیجئے کہ انسان اپنے مال کو بڑھانے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں سوچتا ہے، جن میں بعض تدبیریں بالکل فضول ہوتی ہیں، یعنی ان کا کوئی سر و پیر نہیں ہوتا، لیکن چونکہ اس کو شوق ہوتا ہے اور وہ شوق دیوانگی کی حد تک ہوتا ہے، لہٰذا وہ ان قسم کے حالات سے محظوظ ہوتا ہے اور ان خیالات کے در پہ ہوتا ہے۔ اس کی عقل اس کو سمجھاتی ہے کہ یہ کیا کررہے ہو، اس سے کیا ہوگا۔ لیکن وہ اپنے اس خاص شوق سے مجبور ہوکر اپنی عقل کی آواز کو بھی نہیں سنتا اور وہ اس میں مشغول ہوتا ہے۔ یہاں پر حضرت نے ایک بات فرمائی ہے کہ ٹال مٹول کرے۔ چونکہ اس کے اندر اتنی قوت تو نہیں ہے کہ ان کو بالکل بند کرلے، تو ایسی صورت میں وہ یہ کرلے کہ اس کو پہلے سے کہہ دے کہ اچھا، ٹھیک ہے، تیری بات سن لوں گا، لیکن ابھی فی الحال میں یہ کام کررہا ہوں، اس کو کرنے دے، پھر اس کے بعد تیری بات سن لوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کو ایک قسم کا detract کرلے اور اپنی اس بات کی طرف آمادہ کرلے۔ اس سے کم از کم وقتی طور پر تو اس کے خیالات میں کمی ہوسکتی ہے۔ اور اس طریقہ سے واقعی بڑے بڑے فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں اپنی اس ٹال مٹول کے ذریعہ سے۔ یعنی بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ویسے گپ شپ کی باتیں لگتی ہیں، گپ شپ سے مراد یہ ہے کہ آپ کو پتا ہے کہ میں اپنے آپ کو کہہ رہا ہوں، لیکن اس سے بھی فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ اصل میں بات تو عقل کی ہے، آپ نے عقل کو دبایا ہوا ہے، تو کم از کم تھوڑی دیر کے لئے آپ عقل کو تو موقع دیتے ہیں کہ اس کی بات سن لوں، اس ٹال مٹول سے چونکہ آپ کی جو بات عقل کے خلاف آتی ہے، تو اس کی بھی کوئی base نہیں ہے، تو Diamond cuts diamond، تو آپ ان خیالات سے ٹال مٹول کے ذریعہ سے ہٹ بھی سکتے ہیں۔ یعنی آپ اپنے آپ کو یہ بتا دیں کہ چلو ٹھیک ہے، بعد میں میں آپ کی بات سن لوں گا، ابھی فی الحال مجھے یہ کام کرنے دیں۔ یہ تو یہ والی بات ہوگئی۔
متن:
دوسری قسم کے خیالات و وساوس کا علاج یہ ہے کہ مذکورہ ذیل طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے سالک دل میں جذب و شوق پیدا کرے۔
اول وہ کسی قوی توجہ والے بزرگ کی صحبت میں بیٹھے اور اپنے دل کو ادھر ادھر کے خیالات سے خالی کر کے ایک دو گھڑی کے لئے اسے پوری طرح اس بزرگ کی طرف متوجہ کردے۔
دوم یہ کہ وہ مشائخ کی پاک روحوں کی طرف توجہ کرے، ان پر فاتحہ پڑھے، ان کی قبروں کی زیارت کرے اور ان بزرگوں کی ارواح سے جذب و شوق کی توفیق چاہے۔
تشریح:
کون کہہ رہا ہے؟ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں۔ آج کل تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ بھئی! یہ کیا ہے؟ اصل میں بات یہ ہے کہ یہ دنیا ہی الگ ہے، ظاہر ہے کہ اگر کسی کو اس دنیا کا تعارف نہیں ہے، تو واقعتاً وہ کسی چیز کا بھی انکار کرسکتا ہے، لیکن جن کو اس کا پتا ہو، تو یہ ایک الگ دنیا ہے اور اس الگ دنیا میں بہت کچھ چیزیں ہیں، جو کہ انسان نہیں جانتا۔ لیکن جو جانتا ہے، وہ اس کو مانتا ہے اور اس سے فائدہ بھی حاصل کرتا ہے۔
متن:
اور تیسرے یہ کہ وہ خلوت میں جائے، غسل کرے، نئے کپڑے پہنے اور دو رکعت نماز پڑھے اور پھر ’’اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنَ الْخَطَایَا‘‘ الخ اور ’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا‘‘ کا جہاں تک اس سے ہوسکے، ذکر کرے۔ اور نماز کے بعد ’’یانور‘‘ کا چار ضربی یا سہ ضربی ذکر کرے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اگر خیالات اور وساوس دل میں تشویش پیدا کریں، تو سالک کو چاہئے کہ فوراً اٹھے، دوبارہ وضو کرے، پہلے کی طرح دو رکعت نماز پڑھے اور اسی طرح پھر ذکر کرے اور اگر پھر بھی وساوس پیچھا نہ چھوڑیں، تو پھر پہلے کی طرح وضو کرے، نماز پڑھے اور ذکر کرے۔ ہمیں اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اگر سالک دو تین بار اس طرح کرے گا، تو اسے ایک حد تک دل میں ٹھنڈک، سکون اور اطمینان محسوس ہوگا۔ اس کے بعد سالک کو چاہئے کہ وہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرے اور تحصیلِ شوق میں لگ جائے۔ اس فقیر کو بتایا گیا ہے کہ خیالات اور وساوس سے نجات پانے کا یہ حتمی اور مجرب علاج ہے۔ اور اس کا ہمیشہ ایک سا اثر ہوتا ہے۔
تشریح:
یہاں پر دیکھو! پہلی کیا بات فرمائی ہے؟ (یہ) کہ کسی بزرگ کی صحبت میں بیٹھے۔ اصل علاج تو یہی ہے۔ بزرگ کی صحبت میں بیٹھنے سے اور دل کو اس کی طرف متوجہ کرنے سے جو یکسوئی حاصل ہوتی ہے، وہ اس کے لئے گویا بند راستوں میں ایک راستہ کھول دیتی ہے، یعنی بند راستوں میں ایک راستہ کھلتا ہے۔ جیسے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بند راستہ تھا، ان کی بہن اور بہنوئی کے قرآن نے بند راستہ کھول دیا۔ تو جب کھول دیا، تو وہ تو بڑی شاہراہ تھی، بس ایک دفعہ شاہراہ پہ چلا گئے تو پھر اللہ پاک نے اس کو کیا کیا نصیب فرما دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی صاحبِ ایمان اور صاحبِ تقویٰ بزرگ کے پاس اگر بیٹھ جائے اور اپنے قلب کو ان کی طرف متوجہ کرلے، تو اگر وہ راستہ اس کے لئے کھل گیا، تو سب سے آسان طریقہ تو یہی ہے۔
اس کے بعد دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر ایسا بزرگ اس کے قریب نہیں ہے، یا ایسا کسی پہ اطمینان نہیں ہے، تو جن ارواح پر اطمینان ہیں، جیسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے لئے ہیں، اس طرح اور بھی، جیسے مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ، جن کے ساتھ بھی مناسبت ہو، تو ان کی طرف اپنے دل کو متوجہ کرلے اور ان کے لئے ایصالِ ثواب کرلے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اللہ پاک! ان کا فیض مجھے نصیب کردے۔ اور پھر یہ سوچے کہ ان کا فیض میری طرف آرہا ہے۔ تو اس سے بھی ایک راستہ کھل جائے گا، عالمِ ارواح سے ایک راستہ کھل جائے گا۔ یہ بھی بہت بڑا نظام ہے۔ حتیٰ کہ ایک اور طریقہ بھی ہے، اس کو آج کل ممنوع قرار دیا گیا ہے ایک وجہ سے، لیکن وہ تھا۔ اور وہ تصورِ شیخ کا طریقہ تھا۔ تصورِ شیخ کی وجہ سے انسان کے جو وساوس ہیں، وہ دور ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ دیکھیں! اپنے شیخ کی مجلس میں کسی کو وساوس نہیں آتے زیادہ تر، کیونکہ اس کے شیخ کا اثر اس کے اوپر اتنا ہوتا ہے کہ باقی چیزیں کی طرف اس کے دماغ کو نہیں چھوڑتا۔ تو چونکہ اس کے شیخ کی مجلس میں جب یہ حال ہے، تو اگر وہ تصور میں شیخ کی مجلس میں بیٹھ جائے تو پھر بھی یہ ہوسکتا ہے، یعنی یہ چیز حاصل ہوسکتی ہے۔ نفسیاتی طور پہ ہوگی، یعنی یہ نہیں کہ کوئی بزرگی کی بات ہے۔ نفسیاتی طور پر بھی چیزوں کا اثر ہوتا ہے، تو نفسیاتی طور پر یہ اثر ہوگا کہ وہ شیخ کی مجلس میں بیٹھا ہوگا تصور میں، تو اس وجہ سے وہ جو وساوس ہیں، وہ کم ہوجائیں گے، کیونکہ وساوس بھی غیر اختیاری ہیں، تو غیر اختیاری وساوس آنا کم ہوجائیں گے۔ آج کل چونکہ لوگوں میں ایسا مسئلہ ہے کہ عقائد کی کمزوری ہے، لہٰذا بعض دفعہ اس میں کچھ ایسی چیزیں ہوجاتی ہیں جن کی تشریح اس کے ذہن میں نہیں ہوتی، تو بعض دفعہ انسان کے شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جیسے اس کے شیخ نے ہاتھ اس کی طرف بڑھا اور یہ کہ اس کو کچھ دے دیا یا کوئی چیز ہٹا دی۔ ایسی چیزیں ہوسکتی ہیں، ناممکن نہیں ہیں، تو یہ سمجھے گا کہ میرے شیخ حاضر و ناظر ہیں۔ تو اب عقیدے میں مسئلہ پڑ گیا۔ اس صورت میں اس کو عقیدہ کا چونکہ نقصان ہوسکتا ہے، تو ایسا آج کل ممنوع قرار دیا۔ سب کے لئے ممنوع نہیں ہے، لیکن جن کے عقیدے کمزور ہیں، ان کے لئے تو ممنوع ہے ہی۔ چونکہ فرق لگانا بڑا مشکل کام ہے، لہٰذا As a whole ممنوع قرار دیا گیا، تاکہ یہ نہ ہو کہ بھئی! فلاں کے لئے کیوں اور میرے لئے کیوں نہیں؟ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان کو کسی ہمارے ساتھی نے بتا دیا کہ نماز میں پتا نہیں آپ کی طرف توجہ کرتا ہوں یا کیا بات ہے، کوئی اس قسم کی بات کی، تو حضرت نے ان کو بھرپور تھپڑ مارا، یہ کیا کرتے ہو؟ نماز میں میری طرف متوجہ ہوتے ہو۔ کچھ عرصہ کے بعد میرے ساتھ ایسا خود بخود ہونے لگا کہ نماز میں بالکل مولانا صاحب ساتھ ہوتے تھے اور اس طرح یہ اور وہ، تو میں بڑا ڈر گیا۔ میں نے کہا اب میں اگر حضرت کو نہیں بتاؤں گا، تو بد دیانتی ہوتی ہے اور بتاتا ہوں تو تھپڑ تو ہے ہی۔ پھر میں نے کہا کہ چلو تھپڑ کھانے کے لئے تیار ہوجاؤ، کیا کروں، بتانا تو ضروری ہے۔ میں نے بتایا تو حضرت نے مبارک باد دے دی کہ ما شاء اللہ! یہ محبت کی وجہ سے ہے، شیخ کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہے۔ تو مجھے کچھ نہیں کہا، کیونکہ مجھے خود بخود ہوا تھا، میرا ارادہ تو نہیں تھا۔ اس وجہ سے ہمارے سلسلہ میں یہ بات ہے کہ اگر خود بخود ہونے لگے تو اس کو نہیں روکتے، کیونکہ جس نے دیا ہے وہ سنبھال بھی لے گا۔ اور اپنی طرف سے نہ کرے، ارادتاً نہ کرے، لیکن اگر خود بخود کسی کو ہونے لگے تو اس کو روکا بھی نہ جائے۔ تو تصورِ شیخ؛ یہ ایک چیز ہے جو بڑی powerful چیز ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کراتے تھے، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کراتے تھے۔ یہ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں ممنوع ہوا ہے، یہ ان کی تجدید ہے، کیونکہ ان کو ان کے شیخ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے جب تصورِ شیخ کا بتایا، تو انہوں نے کہا: حضرت! اگر یہ تصوف کی ایک لازمی چیز ہے تو پھر تو میں تصوف پہ نہیں چل سکوں گا اور اگر یہ اضافی چیز ہے تو پھر مجھے اس سے معاف رکھا جائے، کیونکہ مجھے تو یہ شرک نظر آتا ہے۔ اب چونکہ عقیدہ کسی کے لئے بھی کوئی خراب نہیں کرسکتا، تو انہوں نے صاف یہ بات بتائی۔ شاہ صاحب نے ان کو گلے سے لگا لیا اور فرمایا کہ الحمد للہ! اب میں آپ کو سلوکِ نبوت کے ذریعہ سے لے جاؤں گا، آپ کی مناسبت اسی کے ساتھ ہے۔ تو اس کے بعد سے پھر سید صاحب نے منع کر دیا۔ چونکہ ہمارا سلسلہ سید صاحب سے آیا ہوا ہے، تو اس وجہ سے ہمارے سلسلہ میں یہ چیز نہیں ہے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، پھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، پھر ہمارے مشائخ تک یہ بات آجاتی ہے۔ تو ہم لوگ یہ نہیں کرتے، لیکن یہ ہوتا رہا ہے اور ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے ہاں اب بھی چل رہا ہو۔ تو ان کے اوپر بھی ہم اعتراض نہیں کرتے، لیکن چونکہ ہمارے بزرگوں کی یہ تحقیق ہے، تو ہم اپنے بزرگوں کی تحقیق پر عمل کرتے ہیں۔ تو یہ بات طے ہے۔ دوسرا طریقہ تو یہ ہے۔ اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ کی طرف توجہ کرے اور ذکر کے ذریعہ سے توجہ کرے، لیکن مضبوط ذکر کے ذریعہ سے، یعنی مضبوط ذکر سے اثر پیدا کرے۔ مطلب یہ ہے کہ ’’یَانُوْرُ‘‘ کی طرف یعنی اللہ پاک کی خاص صفت کی طرف انسان متوجہ جب ہوتا ہے، تو پھر اس کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’یَانُوْرُ، یَانُوْرُ یَانُوْرُ یَانُوْرُ یَانُوْرُ یَانُوْرُ‘‘ یہ چار ضربی بھی ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ یہ یہ یہ یہ یعنی دو گھنٹے، قلب اور روح۔ تو یہ طریقہ بھی ہے، اس کے ذریعہ سے خیالات کی پاکی آئے گی۔ اور نہ ہو تو پھر وضو کر کے نماز پڑھ کے پھر اس کے بعد اس طرح کرے، تو ان چیزوں سے اَلْحَمْدُ للہ ہوجاتا ہے۔
متن:
(ب) جذب و سلوک کی راہ کی رکاوٹوں میں سے دوسری رکاوٹ قلق و اضطراب اور عزم و ارادہ کا ضعف بھی ہے۔ اس کی وجہ سے سالک کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ وظائف قلب میں مشغول ہونا چاہتا ہے، لیکن اس کی طبیعت نہیں مانتی اور اس کے دل میں رہ رہ کر غم افزا جذبات بڑے زور سے فوارہ کی طرح پھوٹ پڑتے ہیں۔
اس فقیر کو بتایا گیا ہے کہ قلق و اضطراب اور عزم و ارادہ کے ضعف کے حسبِ ذیل اسباب ہیں۔
اول مزاج کا اختلال یعنی طبیعت پر سوداویت کا غلبہ ہو۔
تشریح:
سودا؛ یہ ایک خاص hormones ہیں، ان کے نکلنے سے دماغ کی قوت پہ اثر پڑتا ہے، اختلال آجاتا ہے، یعنی خیالات کی دنیا میں رہنے والے جو لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ خیالات کی دنیا میں رہتے ہیں، practicality کی طرف نہیں جاتے، بلکہ theoreticality کی طرف ان کا رجحان ہوتا ہے۔ خیالات کی دنیا میں مست ہوتے ہیں۔ میں نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا تقریباً اَسّی سال کا، وہ جاسوسی ناولوں کا شوقین تھا۔ تو یہ چیزیں انسان کے تمام دماغی نظام کو گڑبڑ کردیتی ہیں۔ میں گھر سے نکل رہا تھا، ہمارے گھر کے سامنے اس کا گھر تھا، کبھی کبھی وہ باہر بیٹھا ہوتا تھا، تو میں جارہا تھا باہر، تو دیکھا کہ وہ کسی خیال میں مگن ہے، کوئی جاسوسی ناول کا پلاٹ اس کے ذہن میں چل رہا تھا، تو کبھی سر اس طرح ہلاتا۔ بس وہ لگا ہے، بالکل اس کو تو دنیا وما فیھا کا پتا ہی نہیں تھا کہ باہر لوگ کیا کہیں گے۔ وہ اپنے خیالوں میں مست تھا۔ تو ایسے لوگ خیالی لوگ ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہماری طب کے الفاظ میں کہتے ہیں کہ اس کو مالیخولیہ ہوگیا ہے۔ تو خیالات کی دنیا میں جو رہنے والے ہیں، ان پہ خیالات غالب ہوتے ہیں، انہوں نے تو سوچنا ہے۔
متن:
اس کا علاج یہ ہے کہ فصد یا مسہل کے ذریعہ طبیعت میں اعتدال پیدا کیا جائے۔
تشریح:
اُس وقت یہ طریقہ تھا، ضروری نہیں کہ اب بھی یہ کیا جائے۔ نفسیاتی ڈاکٹر موجود ہیں، ان سے مشورہ کیا جائے، وہ اس کو balance کی طرف لاسکتے ہیں۔
متن:
قلق و اضطراب اور عزم و ارادہ کے ضعف کا اس کے سوا اور کوئی علاج نہیں۔
دوم یہ کہ جسم ناپاک ہے اور ایک عرصہ سے غسل نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے بدن پر میل کچیل جمی ہوئی ہے۔ اس کا تدارک غسل سے کرنا چاہئے اور پھر جسم اور کپڑوں کی صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔
سوم گناہوں کے ارتکاب سے بھی طبیعت میں قلق و اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ یہ گناہ غریبوں پر ظلم کرنے کی شکل میں ہوں یا دوسرے کے حقوق چھیننے کی صورت میں۔ ان کا علاج یہ ہے کہ سالک ان معاصی سے بچے۔
چہارم شیاطین اور جادو کا اثر بھی طبیعت کو پراگندہ کردیتا ہے۔ اس کا علاج ’’یا اللہ‘‘ کا ذکر ہے۔ سالک زیادہ سے زیادہ جتنا کرسکتا ہے، کرے۔
طبیعت میں قلق و اضطراب اور عزم و ارادے میں ضعف کے پیدا ہونے کا پانچواں سبب مشائخ طریقت کی شان میں بے ادبی کا ارتکاب ہے۔ اس کا تدارک اس طرح ہوسکتا ہے کہ آدمی اس کے ارتکاب سے باز رہے۔
ششم بات یہ ہے کہ دل میں دنیا کی محبت کی رگیں پوشیدہ ہیں اور گو وہ برملا طور پر نظر نہیں آتیں، لیکن جب کبھی بھی ان کو موقع ملتا ہے، تو وہ ابھر کر اپنے تاریک اثرات دل پر ڈالتی ہیں۔ چنانچہ اس سے طبیعت میں قلق و اضطراب اور عزم و ارادہ میں ضعف پیدا ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ سالک مستقل طور پر جس طرح کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں، ذکر کرے۔ اور اس کی کوشش یہ ہو کہ جن اطراف و جہات سے دنیا کی محبت اس کے دل پر اپنا اثر ڈالتی ہے، وہ ان اطراف و جہات کی نفی کرے۔
ہفتم راہِ سلوک میں سالک کو طرح طرح کی جو مشقتیں کرنی پڑتی ہیں، کبھی ان کے خیال سے اس کا دل ڈر جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ سالک مشائخ کی حکایات سنے اور اپنے دل کو آس اور امید سے منقطع نہ ہونے دے۔
تشریح:
اس میں ایک بہت بڑا سبب جو ہوتا ہے، وہ تعجیل ہوتی ہے۔ اس نے بزرگوں کے واقعات پڑھے ہوتے ہیں، ان کو اللہ پاک نے جن چیزوں سے نوازا ہوتا ہے، وہ اس کو معلوم ہوتی ہیں اور وہ ان چیزوں کو چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے تو بہت دیر ہوگئی نہیں مل رہیں۔ تو اس سے ایک ناامیدی، یاس اور اضطراب کی حالت اس کی طبیعت پر آجاتی ہے۔ تو یہ بہت بڑا سبب ہے، کم از کم آج کل تو یہ بہت بڑا سبب ہے۔ آج کل بہت سارے سالکین کی راہ اس سے کٹ جاتی ہے کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ: ﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾2 اس کا زیادہ سے زیادہ ورد کرلے، یعنی اللہ پر معاملہ چھوڑ دے، اللہ پاک ہی بہتر کرسکتا ہے، ہمیں اللہ کو راضی کرنا ہے، ہمیں شیخ نہیں بننا۔ ہمیں اللہ کو راضی کرنا ہے، ہمیں وہ کیفیات نہیں طلب کرنیں۔ جو چیز بھی غیر اختیاری ہو اس کو چھوڑ دے۔ جو اختیاری ہو اس میں سستی نہ کرے۔ آج کل سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے۔ لہٰذا اختیاری کو چھوڑے نہیں سستی کی وجہ سے اور غیر اختیاری کے در پہ نہ ہو۔ جو فیصلہ اللہ نے کرنا ہے، وہ فیصلہ تم نہ کرو، یہ چیز اپنے آپ کو سمجھا دے اور اپنے سے یہ امید قطع کردے کہ بھئی! یہ میرا کام ہی نہیں ہے، لہٰذا میں اس پر سوچوں گا بھی نہیں، یہ میرا domain ہی نہیں ہے، یہ میری فیلڈ ہی نہیں ہے۔ میں پوری عمر بھی اگر اس حالت پہ رہوں، تو میں اس کے لئے راضی ہوں، کیونکہ میرا اللہ اس پر راضی ہے۔ لہٰذا مجھے اور کچھ نہیں کرنا۔ کیوں وجہ کیا ہے؟ صحیح بات عرض کرتا ہوں کہ موت کے بعد پتا چلے گا کہ کیا کیا چیزیں فائدہ دیتی تھیں اور کیا کیا چیزیں نقصان دیتی تھیں، حقیقت میں پتا چل جائے گا۔ لیکن اُس وقت پھر انسان کام نہیں کرسکے گا۔ مثلاً: اللہ پاک کی یہ بھی تو بات ہے کہ ’’اَوْلِیَائِیْ تَحْتَ قُبَائِیْ لَایَعْرِفُھُمْ غَیْرَیْ‘‘ یعنی بعض اولیاء کو اللہ پاک مخفی رکھنا چاہتے ہیں، تو جن کو مخفی رکھنا چاہیں، کبھی بھی اپنی حالت کی بات ان پہ نہیں کھلے گی۔ تو جب اللہ نے فیصلہ کیا ہو کہ اس کے اوپر یہ بات نہ کھلے، تو کون کھول سکتا ہے۔ اس وجہ سے اس معاملہ میں بالکل ہی تفویض کرے اور کسی طریقہ سے بھی ان چیزوں کی طرف نہ جائے کہ مجھے فلاں چیز نہیں ملی، مجھے فلاں چیز نہیں ملی۔ اس سے شکایت پیدا ہوتی ہے، شکایت سے ناامیدی پیدا ہوتی ہے، ناامیدی سے محرومی پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ تو ان چیزوں کی طرف توجہ ہی نہ کرے جن سے نقصان ہوجاتا ہے۔ دیکھیں ناں! حضرت نے جو فرمایا:
’’جن اطراف وجہات سے دنیا کی محبت اس کے دل پر اپنا اثر ڈالتی ہے وہ ان اطراف و جہات کی نفی کرے‘‘۔
یعنی یہ بھی تو دنیا کی چیز ہے یعنی دنیا میں ان چیزوں کو حاصل کرنا، کیونکہ اللہ کی رضا کے مقابلہ میں یہ دنیا ہے، تو اس کی نفی کرے۔ اور اس طرح جو مشقتیں ہیں ان سے بھی اگر کوئی گھبرا جائے، تو بزرگوں کی کتابیں پڑھے کہ انہوں نے کتنی مشقتیں کی ہیں۔ ہمارے حضرت ڈاکٹر صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ جنہوں نے بزرگوں کی ابتدا دیکھی ہوتی ہے، وہ بن جاتے ہیں اور جنہوں نے انتہا دیکھی ہوتی ہے، وہ بگڑ جاتے ہیں۔ کیوں؟ ابتدا میں مجاہدہ، محنت، مشقت اور جس کو کہتے ہیں کسمپرسی کی حالت میں رہنا اور مختلف قسم کے عوارض سے گزرنا ہوتا ہے۔ اب بعد میں آنے والوں کو اس کا پتا بھی نہیں ہوتا کہ ایسا بھی وقت ان پہ گزرا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید بس یہی چیز ہے، یعنی جو بزرگ کی موجودہ حالت ہے، یہی چیز ہے۔ تو وہ اپنے لئے بھی اس چیز کو چاہتے ہیں، تو نتیجتاً محروم ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ وہ چیز تو ان چیزوں کے بعد ملا کرتی ہے، ان سے پہلے تو نہیں ہوتی۔ تو اس وجہ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ لیکن جو پہلے والے ہوتے ہیں، ان کو چونکہ اخلاص ہوتا ہے، وہ مشہوری کی حالت میں ان بزرگوں کے پاس نہیں آئے ہوتے، بلکہ اخلاص کی بنیاد پر آئے ہوتے ہیں، تو جو اخلاص کی بنیاد پر آئے ہوتے ہیں، ان کو بہت جلدی جلدی تھوڑی محنت سے بہت فائدہ ہوجاتا ہے، تھوڑی محنت سے ان کو بہت فائدہ ہوجاتا ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ والا واقعہ جس میں ہے کہ ایک نوجوان گھر بنا رہا تھا اور انہوں نے کہا کہ آپ کیا کررہے ہیں؟ آپ کے ماتھے پہ تو نیک بختی کے آثار ہیں، لیکن کام بدبختی کا کررہے ہیں۔ اس نے کہا کہ پھر کیا کروں؟ انہوں نے کہا کہ اگر آپ یہ دولت جو اپنے گھر پہ لگا رہے ہیں، اللہ کے راستے میں لگائیں، تو آپ کو ایسا گھر مل سکتا ہے، جس میں یہ ہوگا، یہ ہوگا، یعنی پوری تفصیل بتا دی۔ انہوں نے کہا: حضرت! آپ مجھے لکھ کے دے سکتے ہیں؟ حضرت نے لکھ کے دے دیا۔ تو اپنے ساتھ لے گئے اور ساری چیزیں چھوڑ دیں۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد اس نوجوان کا انتقال ہوگیا۔ حضرت کے پاس ایک خط اڑتا ہوا آیا اوپر سے، جس میں لکھا تھا کہ اللہ پاک نے اس سے بھی زیادہ اس کو دے دیا، جتنا تو نے اس سے وعدہ کیا تھا۔ پیچھے دیکھا، تو وہ خط تھا جو انہوں نے اس کو دیا تھا۔ جب یہ پتا چلا تو ان کو خیال ہوگیا کہ کچھ تو ہوا ہے، کوئی بات تو ہے۔ وہاں گئے، تو فوت ہونے کی اطلاع مل گئی کہ وہ فوت ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ غسل کس نے دیا ہے؟ وہ آگئے۔ کہا: کوئی وصیت کی؟ ہاں! کی ہے۔ کیا وصیت کی؟ کہتے ہیں کہ ایک کاغذ چھوڑا تھا کہ میرے سینے اور کفن کے درمیان رکھ دینا۔ تو آپ لوگوں نے رکھا تھا؟ جی، رکھا تھا۔ پہچان لو گے؟ جی۔ تو انہوں نے اس خط کی دوسری طرف ان کو دکھا دی جس پہ اس کا لکھا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ کیسے آپ کو ملا؟ یہ تو قبر میں ہے ان کے ساتھ، تو انہوں نے پھر اس طرف کرلیا، تو ایک ایسی سیاہی جو کہ دنیا میں اس وقت ملتی نہیں تھی، اس سے اس پہ یہ چیز لکھی ہوئی تھی۔ ایک نوجوان دوڑا دوڑا آیا کہ حضرت! میرے ساتھ یہ deal کرسکتے ہیں؟ مجھے لکھ کے دیں، میں سارا کچھ دینے کے لئے تیار ہوں۔ فرمایا: بھئی! آپ دیکھ کے کررہے ہیں، اس نے بغیر دیکھے کیا تھا۔ اس نے بغیر دیکھے کیا تھا، آپ دیکھ کے کررہے ہیں، لہٰذا آپ کے لئے ایسا نہیں ہے۔ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں؟ اب جو ابتدا میں آئے تھے، جن کو خلافتوں کا پتا بھی نہیں تھا کہ خلافتیں بھی ہوتی ہیں، وہ ابتدا ہی سے اخلاص کے ساتھ آئے تھے، تو ان کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوا، ان کو تو جو اللہ نے دینا تھا، آسانی کے ساتھ دے دیا، کیونکہ رکاوٹ کوئی نہیں تھی۔ اب جب یہ چیزیں شروع ہوگئی ہیں، تو اس کے بعد پھر بعد میں آنے والوں کے اخلاص میں شگاف پڑ گیا، تو وہ شگاف پھر بہت پیچھے کرلیتا ہے، بہت نقصان کرلیتا ہے۔ تو اب جو چیز نقصان کرے، اس کو اپنے سے دور کرنا چاہئے، اس سے اپنی توجہ کو منقطع کرنا چاہئے۔ تو یہ ایک بہت بڑا figure ہے، جو ہوتا ہے۔ اعتکاف میں ہمارے ساتھ ساتھی ہوتے تھے، اصلاحی اعتکاف ہمارا کافی عرصہ سے چل رہا ہے الحمد للہ۔ تو ظاہر ہے کہ اکثر اعتکاف میں اجازت وغیرہ دی جاتی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد باقاعدہ لوگ جاسوسی کرنے لگے اور پوچھنے لگے کہ اس دفعہ کس کو خلافت ملنے والی ہے؟ ادھر ادھر سے پوچھا کرتے تھے، سن گن لیتے تھے۔ مجھے اس کا پتا چل گیا کہ لوگ اس چیز میں مشغول ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ پتا چل گیا کہ یہ تو ساتھیوں کو نقصان دینے والی بات ہے، بھئی! وہ تو نیت ہی میں فساد آگیا، یہ تو کافی خراب بات ہے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسے لوگوں کے لئے ایک شعر فرمایا کرتے تھے، بڑا زبردست شعر ہے۔
احمد! تو عاشقی است بمشیخت ترا چہ کار
دیوانہ باش، سلسلہ شد شد نشد نشد
اے احمد! (احمد جام رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے)اے احمد! تو تو اللہ کا عاشق ہے، تجھے مشیخت سے کیا لینا ہے۔ اللہ کا دیوانہ بن جاؤ، شیخی ہو یا نہ ہو، اس کی کیا پروا کرتے ہو۔
احمد! تو عاشقی بہ مشیخت ترا چہ کار
دیوانہ باش، سلسلہ شد شد نشد نشد
حضرت یہ شعر فرمایا کرتے تھے اور واقعتاً یہ شعر بہت قیمتی شعر ہے، کیونکہ یہ وہ احمد جام رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جن کا وہ شعر بھی ہے۔
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگرست
یعنی ہر وقت اس کو ایک نئی جان ملا کرتی ہے، اس کو سنتے سنتے فوت ہوئے، یہ وہ احمد جام رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ اس سلسلہ میں چشتی سلسلہ بہت خوش قسمت ہے، بہت خوش قسمت ہے، وہ لوگ اس کو پہلے سے نکال لیتے ہیں، ان چیزوں کو تصور ہی سے نکال لیتے ہیں کہ بھئی! یہ تو چیز ہی نہیں ہے، دور کرو، دور کرو، دور کرو، یہ کیا چیز ہے۔ ان چیزوں کو قریب بھی نہیں لانے دیتے، مقامات کی سوچ، وہاں مقامات کی بات ہی نہیں ہوتی۔ اہلِ چشت کے ہاں مقامات کی بات نہیں ہوتی، فدائیت ہے، لٹانا ہے، سب کچھ لٹانا ہے، اپنے آپ کو مٹانا ہے۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو (میں ہر ایک کو کہہ سکتا ہوں کیونکہ اپنے آپ کو یہ نصیحت کرتا رہتا ہوں) کہ ہم یہاں پر مٹنے کے لئے آئے ہیں، جتنا اپنے آپ کو مٹا سکیں، مٹائیں۔ جتنا اپنے آپ کو مٹا سکیں، مٹائیں۔ اب جن کا بنیادی وتیرہ یہ مٹنا ہو، ظاہر ہے کہ ان کے لئے پھر ایسی چیزیں کوئی مزہ نہیں رکھتیں۔ بس وہ:
افروختن و سوختن و جامہ دریدن
پروانہ ز من، شمع ز من، گُل ز من آموخت
جلنا پگھلنا اور کپڑے پھاڑنا پتنگ نے ہم سے سیکھا ہے اور شمع نے ہم سے سیکھا ہے اور پھول نے ہم سے سیکھا ہے۔ افروختن و سوختن و جامہ دریدن۔ تو یہ جو چیز ہے یعنی یہ ایک کیفیت انسان کو اگر حاصل ہو، تو یہ تمام چیزیں اس کے دل سے دور ہوجاتی ہیں، پھر وہ ان کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ اس وجہ سے ان چیزوں سے ہم کوشش کرتے ہیں، چونکہ آج کل ہمارے بعض نقشبندی ساتھیوں کو ان کی فکر بہت زیادہ لگی رہتی ہے مقامات کی طرف اور ان چیزوں کی طرف، تو ہماری مسلسل کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم از کم چشتیت کا یہ فیض ان حضرات کو مل جائے، اتنا کم از کم ان سے لے لیں کہ یہ تصورات ان کے ختم ہوجائیں، ان چیزوں کے اندر نہ پڑے رہیں، ورنہ پھر خیالات کی دنیا میں لگے رہیں گے اور ملے گا کچھ بھی نہیں۔ تو اس وجہ سے نقصان ہوجاتا ہے۔ یہاں پر بھی حضرت نے یہی فرمایا ہے۔
متن:
ہفتم راہِ سلوک میں سالک کو طرح طرح کی جو مشقتیں کرنی پڑتی ہیں، کبھی ان کے خیال سے اُس کا دل ڈر جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ سالک مشائخ کی حکایات سنے اور اپنے دل کو آس اور امید سے منقطع نہ ہونے دے۔
الغرض ان تمام امراض میں سالک کو چاہئے کہ پہلے تو وہ اپنے دل کے اصل عارضے کا پتہ لگائے اور پھر اس عارضہ کا علاج کرے۔ لیکن اگر سالک اپنے اس عارضے کی صحیح تشخیص نہ کرسکے، تو مرشد کو چاہئے کہ وہ سالک پر نگاہ رکھے۔ اور مختلف مجالس میں اس کی حرکات و سکنات کو بڑے غور و تعمق سے دیکھتا رہے اور اس کی باتوں اور اس کے آثار و قرائن یا خدا تعالیٰ نے مرشد کو جو فراست عطا فرمائی ہے، اس کی مدد سے وہ سالک کے عوارض کا کھوج لگائے اور پھر ان کا تدارک کرے۔
تشریح:
مشہور واقعہ ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مواعظ میں بیان فرمایا ہے کہ ایک شیخ کے پاس ایک مرید آیا اور شیخ نے بہت کوشش کی ان کو کچھ نوازنے کی، کچھ دینے کی، لیکن ہر چیز ناکام ہورہی تھی۔ بڑی فکر ہوگئی حضرت کو کہ ان کے لئے کیا رکاوٹ ہے، کیا مسئلہ ہے۔ انہوں نے اس کو بلایا، انہوں نے کہا: اچھا، بھئی! بات سنو، آپ ہماری خانقاہ میں کس نیت سے آئے ہیں؟ نیت کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت! آپ کا فیض بہت عام ہے اور ما شاء اللہ! کتنے لوگوں کو اس سے فائدہ ہورہا ہے، اگر یہ نورِ نسبت مجھے بھی مل جائے، تو میں بھی اس کو روز و شب لوگوں میں تقسیم کروں گا۔ حضرت نے کہا کہ اچھا، اچھا، اچھا! یہاں پر بت پڑا ہوا ہے، توڑ دو اس کو، مٹا دو ان تمام چیزوں کو، یہ ابھی سے تو نے پیر بننے کی ٹھان لی ہے، صرف اپنی اصلاح کی نیت کرو اور کچھ بھی نیت نہیں کرو، ختم کرو یہ سارا کچھ۔ یہ مرشد تھے، صحیح کھوج لگائی۔ جب کھوج لگا لی تو پھر وہ بت توڑوا دیا۔ جب وہ بت ٹوٹ گیا، تو پھر ما شاء اللہ! بہت تھوڑی محنت کے ساتھ جلدی جلدی اس کو فائدہ ہونے لگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ جو ہم ’’حَقْ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، تو اس ’’حَقْ‘‘ کے ذکر میں ہم بعض ساتھیوں کو جو ذرا عادی ہوتے ہیں، اس آیت کا تصور کراتے ہیں:
﴿وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾3 تو اس آیت کو اپنے دل میں پڑھ کر پھر اپنے دل میں جو بت ہیں، وہ سارے توڑتے رہیں ’’حَقْ‘‘ کے ساتھ، یعنی حق کا جو ہتھوڑا ہے اس کے ساتھ سارے بتوں کو مارتے رہیں، توڑتے رہیں، توڑتے رہیں، تو ان میں سے سب سے بڑا بت جو ہے، وہ یہ خلافت والا اور جاہ والا بت ہے۔ لہٰذا یہ جو بت ہے، اس کو بھی توڑتا رہے۔ ’’حَقْ، حَقْ، حَقْ‘‘ اس کے اوپر وہ کرتا رہے، تاکہ یہ چیز ٹوٹتی رہے۔ تو یہ والی بات ہے کہ اس کے ذریعہ سے مرشد کھوج لگاتا ہے اور پھر اس کو صحیح راستہ بتاتا ہے۔
متن:
اس سلسلہ میں اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ سالک کو خواب میں یا بیداری میں طرح طرح کے واقعات اور احوال پیش آتے ہیں۔ نیز ذکر و اذکار میں دُور دُور کے خیالات اس کے دماغ میں آن موجود ہوتے ہیں۔ مزید برآں وہ اپنے سامنے انوار کو روشن اور درخشاں دیکھنے لگتا ہے۔
الغرض جب سالک کو اس قسم کے معاملات پیش آتے ہیں، تو وہ انہیں بڑی عظمت و شان کی چیزیں سمجھتا ہے، اور اُسے یہ خیال ہوتا ہے کہ اُس کے ہاتھ میں بڑی متاع آگئی۔ چنانچہ اس کی وجہ سے سلوک کا جو اصل مقصود ہے، اس کے لئے وہ جد و جہد کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ سالک کو چاہئے کہ جب وہ ان حالات میں سے گزر رہا ہو، تو اپنے اوپر ضبط رکھے۔
اس سلسلہ میں فقیر کو بتایا گیا ہے کہ ان حالات میں سالک پر افکار و تصورات کی جو بھی شکلیں رونما ہوتی ہیں، اُن کی یہ صورتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو سالک کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے، وہ حق تعالیٰ کی تجلی ہے یا وہ اس تجلی کی طرح منسوب ہے۔ اگر سالک کو اس بات پر یقین ہو، تو واقعی وہ تجلی تجلیٔ حق ہوگی۔ اور اگر سالک اس حالت میں اس تجلی کو ملائکہ یا مشائخ کی پاک روحوں کا نتیجہ سمجھتا ہے، تو یہ تجلی اسی نوع میں شمار ہوگی۔ ان تجلیات کی دوسری پہچان یہ ہے کہ اگر ان سے سالک کو اُنس، سرور اور انشراحِ قلب حاصل ہو، تو یہ تجلی ملائکہ کی سمجھی جائے گی اور اگر اس سے سالک کو وحشت اور انقباض ہو، تو یہ شیاطین کے وسوسے ہوں گے اور اگر اس سے نہ سرور حاصل ہو اور نہ سالک کو کوئی خاص وحشت و انقباض ہو، تو اس قسم کی تجلیات کو طبیعت کا ایک خیالی اُبھار سمجھنا چاہئے۔ سالک اپنے دوسرے احوال اور کوائف کو بھی ان صورتوں پر قیاس کرسکتا ہے۔
بعض مشائخ نے جہات کے لحاظ سے بھی مَلَکی تجلیات اور شیطانی وسوسوں میں فرق کرنے کی کوشش کی ہے یعنی اگر فلاں جہت سے افکار و تصورات رونما ہوں، تو انہیں مَلَکی تجلیات سمجھا جائے اور اگر دوسری جہت سے کوئی چیز نازل ہو، تو اسے شیطان کے وسوسوں اور اثرات کا نتیجہ قرار دیا جائے۔ فقیر کے نزدیک جہات کے لحاظ سے تجلیات کی یہ تقسیم ٹھیک نہیں۔
تشریح:
یہ اصل میں خواطر کا باب ہے۔ ہمارے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں بھی خواطر کا باب ہے اور اس میں بھی مختلف قسم کے خیالات کی پہچان بتائی گئی ہے۔ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی جو کتاب ہے ’’الطاف القدس عن معرفت النفس‘‘ اس میں جو آخری chapter ہے، وہ بھی خواطر کا ہے۔ اس کے بارے میں حضرت نے اس میں تفصیل بتائی ہے۔ تو واقعتاً یہ ایک بات ہے کہ انسان کو اس قسم کی تجلیات بھی آتی ہیں، لیکن اس کے خیالات بھی ہوتے ہیں۔ تو گڑبڑ اس طرح ہوجاتی ہے کہ خیالات کو تجلیات سمجھ لیا، تو اس سے پھر نقصان ہونے لگتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے مقصود کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے، چاہے کچھ بھی ہو۔ مقصود اپنا یاد رکھنا چاہئے۔ اور مقصود کیا ہے، وہ ہے اللہ کو راضی کرنے کی نیت۔ یہ مقصود ہے اصل۔ تو چاہے اچھے خیالات ہوں، چاہے برے خیالات ہوں، دونوں صورتوں میں یہ مقصود تو نہیں بدلے گا۔ مقصود تو اپنی جگہ پر رہے گا۔ تو اگر اس مقصود میں فرق آتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ سالک کا طریقہ ان چیزوں کو handle کرنے کا ٹھیک نہیں ہے، اس کو درست کرنا ضروری ہے۔ ایک دفعہ میں نے کچھ ایسی باتیں حضرت کو بتائیں، تو حضرت نے فرمایا: دور کرو، دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ تو بس بالکل ہی میری نظر اُدھر سے ہٹا دی کہ اس پہ میں غور ہی نہ کروں۔ بھئی! جو کچھ ہے، وہ تو ویسے بھی ہے، اگر میں نہ بھی سمجھوں، تو پھر وہ ہوگا، اس سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا۔ لیکن اگر نہیں ہے اور میں سمجھوں، تو پھر نقصان تو ہوگا۔ اس وجہ سے حضرت نے مجھے اس سے ہٹا دیا کہ بھئی! دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ اور اس سے الحمد للہ! اللہ پاک نے نجات نصیب فرمائی۔ اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے، یہ زندگی بار بار نہیں ملا کرتی۔ اور اللہ پاک نے جہاں جو چیز رکھی ہے کسی کے لئے، اگر کوئی وہاں پہنچا ہے، تو اب ادھر ادھر کی فضول چیزوں میں اس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ فضول چیزوں سے مراد یہ ہے کہ مثال کے طور پر کوئی بھی دنیا کی نیت، تو وہ ایک فضول چیز ہوگی، کیونکہ آپ کو آخرت درست کرنے کے لئے یہ ماحول دیا گیا، اب اس کو آپ دنیا کے لئے استعمال کررہے ہیں، تو کیا ہوگا؟ آپ نے بہت بڑا چانس ضائع کردیا۔ کیوں وجہ کیا ہے؟ (وجہ یہ ہے) کہ اللہ تعالیٰ غیرتی ہے، غیور ہے، اگر اللہ نے دیکھ لیا کہ تو دنیا چاہتا ہے، تو دنیا دے دے گا اور اُدھر سے محروم کردے گا پھر کیا کرو گے۔ دنیا کی اللہ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی دنیا چاہتا ہے، تو ظاہر ہے کہ پھر وہ اس کو دنیا بھی دے سکتا ہے، لیکن وہ اصل چیز سے محروم ہوجائے گا۔ تو اس وجہ سے اپنی اصل چیز کو نہیں بھولنا چاہئے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، ان سے بعض مریدوں نے کہا، ظاہر ہے کہ (وہ مرید) بڑے لوگ تھے، معمولی لوگ تو نہیں، کوئی علماء ہوں گے یا کوئی اس طرح ہوں گے، انہوں نے کہا کہ حضرت! اگر کوئی اللہ اللہ کا نام سیکھنے کے لئے آئے، تو ان کو بتا دیا کریں؟ اصل میں وہ حضرات اکثر اجازت اس طرح دیتے تھے کہ کوئی اللہ اللہ کرنا سیکھنے آئے، تو ان کو سکھا دیا کرو۔ یہ اصل میں اجازت ہوتی، الفاظِ اجازت اس طرح ہوتے تھے۔ انہوں نے بھی اس طرح کہا، تو حضرت نے کہا کہ بتا دیا کرو۔ وہ سمجھے کہ ہمیں خلافت دی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو خلیفہ مشہور کرلیا، بعد میں حضرت نے خلفاء کی لسٹ نکالی تو اس میں ان کا نام نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت! آپ نے تو ہمیں اجازت دی تھی، تو اس میں تو ہمارا نام نہیں ہے۔ فرمایا: بھئی! اجازت اس طرح مانگنے سے تھوڑی دیا کرتے ہیں مانگنے سے، اجازت مانگنے سے تھوڑی ملا کرتی ہے۔ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان سے کسی نے کہا تھا، پہلے کہا کہ حضرت! مجھے تخلیہ چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی کام کی بات کرنا چاہتے ہوں گے۔ تو حضرت نے ان کے لئے تخلیہ کیا، تو تخلیہ میں اس نے کہا کہ حضرت! مجھے اگر آپ اجازت دیں، تو بہت فائدہ ہوگا، کیونکہ کچھ کام میں کررہا ہوں، اس میں سہولت ہوجائے گی، کچھ ناٹک بنا دیا تھا۔ حضرت نے کہا کہ بھئی! میں کسی اور کی چیز آپ کو دے سکتا ہوں؟ بتاؤ، یہ جائز ہوگا؟ کہتے ہیں: نہیں۔ تو حضرت نے کہا: یہ تو اللہ کی چیز ہے، میری نہیں ہے، تو میں کیسے آپ کو دے دوں؟ یہ تو اللہ کی چیز ہے، یہ تو میری نہیں ہے، یہ تو غصب ہوجائے گا اگر میں آپ کو اپنی طرف سے دوں۔ مثال کے طور پر کوئی میری بہت خوشامد کرلے، گھٹنے دبائے، یہ اور وہ، بہت خدمت کر لے، آگے پیچھے پھرے اور میں اس کو دوں، تو یہ غصب ہوگا یا نہیں ہوگا؟ جب کہ وہ اس کا اہل نہ ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ میں نے بھی دنیا لی ہے، دنیا کے بدلے میں دوں گا تو غصب ہوجائے گا۔ تو ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں کرسکتا۔ تو حضرت نے فرمایا: بھئی! یہ غصب ہوجائے گا، میں آپ کو کیسے دے سکتا ہوں، یہ میری چیز ہی نہیں ہے۔ یہ واقعتاً بات صحیح ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ شاید مشائخ دیا کرتے ہیں۔ بھئی! مشائخ نہیں دیا کرتے، صاف بات بتاتا ہوں، مشائخ یہ نہیں دیا کرتے، یہ اللہ دیا کرتا ہے اور اللہ پاک کی طرف سے حکم ہوجاتا ہے اور اس کے اپنے اپنے نظام ہیں، اس نظام کے ذریعہ سے اطلاع کردی جاتی ہے۔ جن کے لئے اطلاع کی جائے، تو اس کو پھر انسان روک بھی نہیں سکتا۔ اور جن کے لئے اطلاع نہ ہو اور آدمی کرلے، تو تنبیہ بھی ہوسکتی ہے۔ مجھے بھی ایک دفعہ ہوئی ہے۔ بڑے شیخ ہیں، چھوٹے شیخ نہیں ہیں، بڑے شیخ ہیں، ایک دفعہ ان کی سفارش پر کہ انہوں نے کہا کہ اس کو حاصل ہوا ہے، یہ صاحبِ نسبت ہے، تو ان کو آپ اجازت دے دیں۔ انہوں نے بھی اخلاص میں کہا تھا، لیکن غلط فہمی ہوگئی تھی، کیونکہ شیخ پر جو بات کھلتی ہے، وہ دوسروں پہ تو نہیں کھلتی، اللہ تعالیٰ نے یہ نظام شیخ کے لئے بنایا ہوتا ہے۔ تو مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے ان کی بات مان لی، میں نے اس کو اجازت دے دی۔ بس اسی پر ہی تنبیہ ہوگئی اور مجھے اس سے اجازت واپس لینی پڑی۔ اب اس پر کیوں تنبیہ ہوئی، کیونکہ موقع نہیں تھا، اجازت نہیں تھی، میں نے کسی اور کے کہنے پہ بات کی، تو اس کا وہ اہل نہیں تھا۔ تو آئندہ پھر میں نے کبھی بھی کسی کی سفارش نہیں مانی، نہ کسی کے بارے میں کسی کی سنی، کیونکہ میرا domain ہی نہیں ہے، میری بات ہی نہیں ہے، میں کر ہی نہیں سکتا، authorized ہی نہیں ہوں، یہ کوئی میں تو نہیں کرتا۔ تو یہ چیز اگر کسی کو سمجھ آجائے تو وہ relax ہوجائے گا۔ مثلاً اگر کوئی میری اس وجہ سے خدمت کررہا ہے، تو وہ relax ہوجائے گا، پھر وہ نہیں کرے گا، سبحان اللہ! میرے لئے بھی مفید ہے، اس کے لئے بھی مفید ہے، فائدہ ہوجائے گا اس کو۔ پس اس کو ذرا اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ یہ نعمت اخلاص سے ملا کرتی ہے اور جو بھی دنیا کی چیزیں ہوتی ہیں، وہ اخلاص کے منافی ہیں، لہٰذا دنیا کی جتنی چیزوں کو درمیان میں involve کیا جائے گا، اس میں اخلاص میں کمی ہوگی اور اس سے انسان پیچھے ہوگا۔ تو یہ والی بات ہے۔ ایک ہی بات ہوگی، مثلاً ہدیہ ہے، ایک شخص اخلاص سے دے گا، دوسرا شخص اخلاص سے نہیں دے گا، چیز بالکل ایک ہی ہے، لیکن ایک کے لئے رکاوٹ ہے، دوسرے کے لئے نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے کہ ایسی بات ہوجائے گی۔ اس لئے اس معاملے میں اخلاص کو سامنے لانا چاہئے۔ دینے والی ذات اللہ ہے، خدا کی قسم! کوئی اور نہیں ہے، دینے والی ذات اللہ ہے۔ تو اللہ کے ساتھ معاملہ درست کرنا چاہئے۔ شیخ کی خدمت میں آنا ہوتا ہے اللہ کے ساتھ معاملہ درست کرنے کے لئے۔ شیخ کی خدمت میں اس لئے آنا ہوتا ہے کہ میرا معاملہ اللہ کے ساتھ درست ہو، نہ کہ انسان اللہ کو چھوڑ کے شیخ کی طرف متوجہ ہوجائے، یعنی شیخ کی طرف متوجہ ہونا اللہ کے لئے ہے۔ اب مثال کے طور پر ایک آدمی شیخ کو راضی کرنے کے لئے بیٹھ جائے اور ذکر کرنے کی صورت بنائے، اب بظاہر تو وہ اللہ کی طرف متوجہ ہے، لیکن حقیقت میں کس کی طرف متوجہ ہے؟ شیخ تو مقصود نہیں ہے، تو اب یہاں پر اس کا یہ معاملہ گڑبڑ ہوگا، اس کو نہیں کرنا چاہئے اس طرح۔ یعنی جو بھی انسان کام کررہا ہے، وہ اپنے لئے کررہا ہے، اس وجہ سے اس معاملہ میں کسی طریقہ سے بھی اپنے آپ کو دھوکہ نہ دے، بلکہ شیخ کی بھی خدمت کرے، تو اللہ کے لئے کرے۔ سنت پہ عمل کرے، تو اللہ کے لئے کرے۔ کوئی دینی کام کررہا ہے، تو اللہ کے لئے کرے۔ یہ معاملہ صاف ستھرا رکھے تو اللہ تعالیٰ سے بڑا قدردان کوئی نہیں ہے۔ جب ہمارا سارا کچھ اللہ کے لئے ہوجائے گا تو پھر اللہ پاک کی ساری چیزیں ہمارے لئے ہوجائیں گی، پھر سارا نظام ہمارے حق میں چلا جائے گا، پھر ہماری غلطیاں بھی ہمارے لئے خیر کا سبب بن سکتی ہیں۔ غلطیاں بھی خیر کا سبب بن سکتی ہیں۔ بعض دفعہ ٹھوکر کھانے سے عقل آتی ہے۔ اب غلطی سے ٹھوکر کھا لی اور اس سے عقل آگئی، تو کام بن گیا سبحان اللہ۔ غلطی سے فائدہ ہوا یا نہیں ہوا؟ فائدہ ہوگیا۔ تو اس طرح یہ جو نظام ہے، اس میں جو رکاوٹیں ہیں، ان رکاوٹوں کو سمجھنا چاہئے اور اپنے آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہئے۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ