اسلام میں عبادت کا وسیع مفہوم

(یہ بیان 2 جولائی 2020 کے سیرت کے بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

 اسلام میں عبادت کا وسیع مفہوم ہے، جو دوسرے مذاہب کے محدود تصور سے مختلف ہے۔ عبادت کی اصل روح عاجزی اور بندگی کا اظہار ہے، جس کی ضد قرآن نے تکبر (استکبار) کو قرار دیا ہے۔ اس اصول کے تحت، کوئی بھی اچھا کام اس وقت تک عبادت نہیں بنتا جب تک اس کی بنیاد خالص نیت نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ کی مشہور حدیث "اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ" (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) اس کی بنیاد ہے۔ لہٰذا، انسان کا ہر وہ کام جو صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے، عبادت ہے۔ لاکھوں روپے شہرت کے لیے دینا عبادت نہیں، مگر اللہ کے لیے چند سکے دینا بھی عظیم عبادت شمار ہوتا ہے۔ یوں اسلام نے عبادت کو محض رسومات سے نکال کر دل کی پاکیزگی اور روح کی صفائی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

بزرگو اور دوستو! آج جمعرات ہے اور جمعرات کے دن ہمارے ہاں سیرت النبی ﷺ اس کے بارے میں بات ہوتی ہے اور آج کل ہمارے زیرِ مطالعہ ’’سیرت النبی‘‘ مرتبہ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ یہ ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں مستند روایت کو لیا جاتا ہے، تو عموماً جن کے ساتھ محبت ہوتی ہے، تو اس کے بارے میں اگر کوئی فرضی واقعہ بھی کوئی بیان کرلیتا ہے، ویسے سنی سنائی بات بھی کوئی بیان کرلیتا ہے، تو اس پہ کوئی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور یہی جڑ ہوجاتی ہے مطلب ظاہر ہے غیر مستند روایت کی، جس کی وجہ سے پھر جو مستند روایت ہے، ان پہ بھی لوگ یقین نہیں کرتے، نقصان ہوجاتا ہے۔ اب آپ ﷺ کے مقام میں کوئی کمی ہے کہ ہم غیر مستند روایت بیان کرلیں؟ مستند روایت کتنی ہیں، تو ہمیں غیر مستند روایت کی ضرورت ہی نہیں ہے، ویسے بھی آپ ﷺ پر جھوٹ بولنا یہ تو بذات خود بہت بڑا جرم ہے، اس وجہ سے کوشش کرنی چاہئے کہ کبھی بھی کوئی بھی غیر مستند روایت آگے نہ بڑھائی جائے، جب تک کہ اس کی تحقیق نہ ہو۔ تو یہ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سیرت نگار تھے، ان کا specialization جو تھا، وہ یہی تھا کہ سیرت کے موضوع پہ انہوں نے کافی کام کیا ہے۔ اب ان کا بیٹا بھی یہی کام کررہا ہے۔ تو ظاہر ہے جن کا specialization جو چیز ہوتی ہے، تو ان سے زیادہ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ تو اس میں آج جو چل رہا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام میں عبادت کا مفہوم کیا ہے۔ اگرچہ کچھ ہم آگے بڑھے تھے اس پہ، لیکن چونکہ آگے بھی سمجھنا ہے، اس وجہ سے ذرا تھوڑا سا دوبارہ وہ حصہ پڑھتے ہیں، تاکہ گزشتہ سے پیوستہ بات سمجھ میں آجائے۔

اسلام میں عبادت کا مفہوم:

اوپر کی تفصیلات یہ واضح ہوا ہوگا کہ اسلام میں عبادت کا وہ تنگ مفہوم نہیں جو دوسرے مذہبوں میں پایا جاتا ہے۔ عبادت کے لفظی معنی اپنی عاجزی اور درماندگی کا اظہار ہے اور اصطلاح شریعت میں خدائے عزوجل کے سامنے اپنی بندگی اور عبودیت کے نذرانہ کو پیش کرنا اور اس کے احکام کو بجا لانا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں عبادت کا مقابل اور بالضد لفظ استکبار اور غرور استعمال ہوا ہے۔

کہتے ہیں چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ تو ظاہر ہے اگر اس کی ضد استکبار ہے، تو یہ عبادت عاجزی ہے۔ عبادت کے اندر پسماندگی، درماندگی، سر جھکانا اور انکسار، یہ ہے پائی جاتیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ جن کے ساتھ کسی کو محبت ہوتی ہے، کسی کا تعلق ہوتا ہے، اُس کی عظمت کا ادراک ہوتا ہے، تو ان کے سامنے انسان سیدھا کھڑا نہیں ہو پاتا، تھوڑی سی گردن جھکی ہوتی ہے، یہ گردن کا جھکنا جو ہے، یہ کیا چیز ہے؟ وہ یہی عاجزی، اپنے آپ کو کسی کے سامنے کچھ نہ سمجھنا، یہ مطلب ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی حدود ہیں، کیونکہ انسان کے لئے اس حد تک انسان نہیں جاسکتا، لیکن بہرحال پھر بھی یہ علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ انسان اُس کے سامنے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا۔ تو تکبر جو ہے، یہ اس کو دور کرنے کے لئے عبادت اللہ پاک نے مقرر کی ہوتی ہے، ہاں جی یہ مطلب وہ ہے۔ اور چونکہ اللہ جل شانہٗ بہت بڑے ہیں، تو لہٰذا جب بہت بڑے پہ نظر ہوتی ہے تو اس کے مقابلہ میں باقی بڑی چیزیں چھوٹی ہوتی ہیں، لہٰذا اُن سے پھر انسان خوف بھی نہیں کرتا، اُن سے ڈرتا بھی نہیں ہے، ان کی پروا بھی نہیں کرتے، مطلب یہ اس کا ایک Side effect ہے، اس کا مطلب خواہ مخواہ یہی ہوگا کہ جن کو بڑا سمجھتے ہیں، تو ان کے مقابلہ میں جو دوسرے ہوں گے، ان کو پھر چھوٹا سمجھا جاتا ہے۔ تو اس میں یہی والی بات ہے کہ چونکہ اللہ جل شانہٗ کی بڑائی کی کوئی حد نہیں، لہٰذا اس کے مقابلہ میں کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو باقی لحاظ سے، لیکن وہ ہوتے تو چھوٹے ہی ہیں، مطلب ظاہر ہے اللہ جل شانہٗ کے سامنے تو کوئی بھی نہیں۔ تو اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ﴾ (المومن: 60)

’’جو میری عبادت سے غرور کرتے ہیں وہ جہنم میں جائیں گے‘‘۔

فرشتوں کے متعلق فرمایا:

﴿وَمَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ﴾ (الانبیاء: 19)

’’جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے غرور نہیں کرتے‘‘۔

سعادت مند اور با ایمان مسلمانوں کے متعلق فرمایا:

﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ﴾ (السجدہ: 15)

’’میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیتوں سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اپنے پروردگار کی پاکی بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے‘‘۔

اس قسم کی اور آیتیں بھی قرآن پاک میں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت اور غرور و استکبار باہم مقابل کے متضاد معنی ہیں۔ اس بنا پر اگر غرور و استکبار کے معنی خدا کے مقابلہ میں اپنے کو بڑا سمجھنا، اپنی ہستی کو بھی کوئی چیز جاننا اور خدا کے سامنے اپنی گردن جھکانے سے عار کرنا ہے، تو عبادت کے معنی خدا کے آگے اپنی عاجزی و بندگی کا اظہار اور اس کے احکام کے سامنے اپنی گردنِ اطاعت کو خم کرنا ہے۔ اس بنا پر صحیفۂ محمدی کی زبان میں عبادت بندہ کا ہر ایک وہ کام ہے، جس سے مقصود خدا کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار اور اس کے احکام کی اطاعت ہو۔ اگر کوئی انسان بظاہر کیسا ہی اچھے سے اچھا کام کرے، لیکن اس سے اس کا مقصود اپنی بندگی کا اظہار اور خدا کے حکم کی اطاعت نہ ہو تو وہ عبادت نہ ہوگا۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی اچھے کام کو عبادت میں داخل کرنے کے لئے پاک اور خالص نیت کا ہونا شرط ہے اور یہی چیز عبادت اور غیر عبادت کے درمیان امرِ فارق ہے۔ قرآن پاک میں یہ نکتہ جابجا ادا ہوا ہے۔

﴿وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى ۝ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰى ۝ وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤى ۝ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى ۝ وَلَسَوْفَ یَرْضٰى﴾ (لیل: 17-21)

’’دوزخ سے وہ پرہیزگار بچا لیا جائے گا جو اپنا مال دل کی پاکی حاصل کرنے کو دیتا ہے، اس پر کسی کا احسان باقی نہیں جس کا بدلہ اس کو دینا ہو۔ بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات اس کا مقصود ہے، وہ خوش ہوگا‘‘

﴿وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِؕ﴾ (البقرۃ: 272)

’’صرف خدا کی ذات کی طلب کے لئے جو تم خرچ کرو‘‘

﴿اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ﴾ (الدھر: 10)

’’ہم تو صرف خدا کے لئے تم کو کھلاتے ہیں‘‘

﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ۝ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ ۝ الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَ﴾ (ماعون: 4-6)

’’پھٹکار ہو ان نمازیوں پر جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں اور جو دکھاوے کے لئے کام کرتے ہیں‘‘۔

قرآن کی ان آیتوں کی جامع و مانع تفسیر آنحضرت ﷺ نے ان مختصر لیکن بلیغ فقروں میں فرما دی ہے کہ ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)

تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔

اعمال کا ثواب نیت پر موقوف ہے۔

اسی کی تشریح آپ ﷺ نے ان لوگوں سے کی جو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرکے مدینہ منورہ آرہے تھے۔ ’’وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوٰى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهٗ إِلٰى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ، فَهِجْرَتُهٗ إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهٗ لِدُنْيَا يُصِيْبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهٗ إِلٰى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ‘‘۔ (بخاری باب اول)

’’ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ اگر ہجرت سے مقصود خدا اور رسول تک پہنچنا ہے، تو اس کا ثواب خدا دے گا۔ اگر کسی دنیاوی غرض کے لئے ہے یا کسی عورت کے لئے ہے، تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے جس کی نیت سے اس نے ہجرت کی‘‘۔

اس تشریح سے یہ ثابت ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے عبادت کا جو مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس میں پہلی چیز دل کی نیت اور اخلاص ہے۔ اس میں کسی خاص کام اور طرز و طریقہ کی تخصیص نہیں ہے۔ بلکہ انسان کا ہر وہ کام جس سے مقصود خدا کی خوشنودی اور اس کے احکام کی اطاعت ہے عبادت ہے۔ اگر تم اپنی شہرت کے لئے کسی کو لاکھوں روپے دے ڈالو تو وہ عبادت نہیں، لیکن خدا کی رضاجوئی اور اس کے حکم کی بجا آوری کے لئے چند کوڑیاں بھی کسی کو دو تو یہ بڑی عبادت ہے۔

تعلیم محمدی کی اس نکتۂ رسی نے عبادت کو درحقیقت دل کی پاکیزگی، روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کی غرض و غایت بنا دیا ہے اور یہی عبادت سے اسلام کا اصلی مقصود ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


اسلام میں عبادت کا وسیع مفہوم - درسِ سیرۃ النبی ﷺ - دوسرا دور