اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج بدھ کا دن ہے بدھ کے دن ہمارے ہاں، یعنی ہماری خانقاہ میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات شریفہ کی تشریح ہوتی ہے۔
مکتوب نمبر 254
ملا احمد برکی کی طرف صادر فرمایا۔۔۔ بعض سوالات کے جواب میں جو انہوں نے دریافت کئے تھے۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ وَ سَلَامٌ عَلَے عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔۔۔
آپ نے لکھا تھا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آدمی جو کچھ کرے وہ صاحبِ زماں کے حکم سے کرے تاکہ اس کا نتیجہ برآمد ہو، اگرچہ وہ مشروع کام ہو۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو بندہ تمام مشروعات میں حکم کا امیدوار ہے؟۔۔۔
میرے مخدوم! بزرگوں کا قول صحیح ہے، اور آپ کے بارے میں اذن (اجازت) حاصل کر کے ماذون (صاحبِ اجازت) کیا ہے لیکن جاننا چاہئے کہ نتیجہ سے مراد ایک محدود نتیجہ ہے نہ کہ مطلقاً۔
نیز آپ نے لکھا تھا کہ ایک رسالہ میں یہ تحریر دیکھی ہے کہ حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ’’قرآن بحقیقت از مرتبۂ عَین جمع است‘‘ (یعنی قرآن مجید حقیقت میں مرتبۂ عین سے جمع ہے) یعنی ذات تعالیٰ و تقدس کی احدیت سے ہے۔۔۔لہٰذا جو کچھ رسالہ مبدا ومعاد میں تحریر کیا گیا کہ ’’حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآنی سے بلند و بالا ہے‘‘ اس کے کیا معنی ہوں گے؟۔۔۔
میرے مخدوم! احدیتِ ذات سے مراد، احدیت مجردہ نہیں ہے کہ جس میں کوئی صفت و شان ملحوظ نہ ہو، کیونکہ حقیقتِ قرآن کا منشا صفتِ کلام سے ہے جو صفاتِ ثمانیہ (آٹھ صفات) میں سے ایک صفت ہے، اور حقیقتِ کعبہ کا مبدا و منشا وہ مرتبہ ہے جو شیونات و صفات کی تلوینات سے برتر ہے اس لیے اس کی فوقیت کی گنجائش ہوگئی۔
نیز آپ نے لکھا تھا کہ نیز آپ نے لکھا تھا کہ بعض تفاسیر میں درج ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں کعبہ کو سجدہ کرتا ہوں تو وہ کافر ہو جاتا ہے کیونکہ سجدہ کعبہ کی جانب ہے نہ کہ کعبہ کو، اور دوسری جگہ لکھا ہے کہ ابتدائے اسلام میں سجدہ میں ”لَکَ سَجَدْتُ“ (میں نے تیرے لئے سجدہ کیا) کہتے تھے۔ ضمیروں کا مدلول نفسِ ذات تعالیٰ و تقدس ہے، لہٰذا رسالہ "مبدأ و معاد" میں جو کچھ تحریر کیا گیا کہ کعبہ کی صورت جس طرح اشیاء کی صورتوں کی مسجود ہے اسی طرح کعبہ کی حقیقت بھی اشیاء کے حقائق کی مسجود ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
میرے مخدوم! یہ عبارتوں کے مسامحات (فروگذاشت اور آسانی کرنا) سے ہے، جیسے کہ کہتے ہیں کہ ’’آدم مسجودِ ملائکہ ہے‘‘ حالانکہ سجدہ صرف خالق جل سلطانہ کے لیے ہے نہ کہ اس کی مخلوق اور اس کی مصنوع کے لئے، خواہ وہ کوئی مخلوق ہو۔۔۔
آپ کو، آپ کے ساتھیوں اور دوستوں بالخصوص ملا پایندہ و شیخ حسن کو سلام ہو۔
تشریح:
حقائق کی باتیں حضرت فرماتے ہیں، تو اس میں پہلی بات یہ ہے کہ بعض بزرگوں نے جو فرمایا ہے کہ آدمی جو کچھ کرے وہ صاحبِ زمان کے حکم سے کرے تا کہ اس کا نتیجہ برآمد ہو اگرچہ وہ مشروع کام ہو۔ فرمایا اگر یہ بات صحیح ہے تو بندہ تمام مشروعات میں حکم کا امیدوار ہے۔ فرمایا کہ میرے مخدوم بزرگوں کا قول صحیح ہے اور آپ کے بارے میں اجازت حاصل کر کے صاحبِ اجازت کیا ہے۔ یعنی آپ کو جو اجازت دی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اجازت دے دی گئی ہے، تو آپ صاحبِ اجازت ہیں۔ لیکن جاننا چاہئے کہ نتیجہ سے مراد ایک محدود نتیجہ ہے نہ کہ مطلقاً۔ یعنی محدود نتیجہ سے مراد جیسے ایک Step آپ نے حاصل کر لیا اور پھر دوسرا Step حاصل کیا، تو محدود نتیجہ ہوا، کلی بات نہیں ہوئی کہ اس میں ساری چیزیں شامل ہوں۔ پھر فرمایا کہ آپ نے لکھا تھا:
ایک رسالے میں تحریر تھی کہ حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ’’قرآن بحقیقت از مرتبۂ عَین جمع است‘‘ (یعنی قرآن مجید حقیقت میں مرتبۂ عین سے جمع ہے) یعنی ذات تعالیٰ و تقدس کی احدیت سے ہے۔۔۔لہٰذا جو کچھ رسالہ مبدا ومعاد میں تحریر کیا گیا کہ ’’حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآنی سے بلند و بالا ہے‘‘ اس کے کیا معنی ہوں گے؟۔۔۔
(یعنی حقیقتِ قرآن اور حقیقتِ کعبہ، تو حضرت نے فرمایا کہ) میرے مخدوم! احدیتِ ذات سے مراد، احدیت مجردہ نہیں ہے کہ جس میں کوئی صفت و شان ملحوظ نہ ہو، کیونکہ حقیقتِ قرآن کا منشا صفتِ کلام سے ہے جو صفاتِ ثمانیہ (آٹھ صفات) میں سے ایک صفت ہے۔
اب اللہ کی جو آٹھ بنیادی صفات ہیں ان میں سے ایک صفتِ کلام ہے، اللہ متکلم ہے، جیسے قدیر ہے اسی طرح متکلم ہے۔ تو یہ آٹھ صفات میں سے ایک صفت ہے، لہٰذا اس کے لئے تو حقیقتِ قرآن آگیا، یعنی اس کی جو حقیقت ہے وہ حقیقتِ قرآن ہے اور حقیقتِ کعبہ، اس کی جو تجلی ہے وہ شیونات و صفات کی تلوینات سے برتر ہے۔ تو اس وجہ سے اس کے اندر باقی چیزیں شامل ہو گئیں۔ تو فرمایا کہ:
یہ جو بعض تفاسیر میں درج ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں کعبہ کو سجدہ کرتا ہوں، تو وہ کافر ہو جاتا ہے کیونکہ سجدہ کعبہ کی جانب ہے نہ کہ کعبہ کو۔ اور دوسری جگہ لکھا ہے کہ ابتدائے اسلام میں سجدہ میں ’’لَکَ سَجَدْتُّ‘‘ (میں نے تیرے لیے سجدہ کیا) کہتے تھے۔ ضمیروں کا مدلول نفسِ ذات تعالیٰ و تقدس ہے۔
یعنی اس میں "لَکَ سَجَدْتُّ" اللہ تعالیٰ کو کہہ رہے تھے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو سجدہ نہیں کیا جاتا، خانہ کعبہ میں جو تجلی مسجودیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف سے آ رہی ہے، وہ اصل میں اُس کی طرف سے ہے، تو وہ تو اللہ کو سجدہ ہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ کی ذات برتر ہے تمام دنیاوی چیزوں سے، جس میں سمتیں بھی ہیں، اس سے بھی برتر ہے۔ لیکن لوگوں کے عمل کے لئے کوئی سمت مقرر کرنا تھا تاکہ لوگ اُس طرف اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کریں، تو ان کے لئے خانہ کعبہ کو جگہ بنا دیا گیا اور اس پہ تجلی مسجودیت ڈالی گئی۔ اصل میں تجلی مسجودیت کی بنیاد ہے ورنہ صحیح بات میں عرض کرتا ہوں کہ یہی خانہ کعبہ کے جو پتھر ہیں، آپ خانہ کعبہ کے پتھر سارے کے سارے اسی طرح اٹھا لیں اگر کر سکیں، جس طریقے سے ہیں، ان کو کسی اور جگہ رکھ دیں تو آپ اس کو سجدہ کریں گے؟ نہیں۔ اور اُس جگہ جہاں کوئی پتھر بھی نہیں ہے وہاں اُس طرف سجدہ ہو سکے گا یا نہیں؟ ظاہر ہے۔۔۔۔ تو پھر آپ ان پتھروں کو تو سجدہ نہیں کر رہے۔ یہی بات ہے۔ اگر پتھروں کو سجدہ کر رہے ہیں تو پتھر تو آپ نے اٹھا دیئے۔ تو اس کو جس طرف لے جائیں گے آپ اس طرف کرتے رہیں گے؟ نہیں۔ وہ والی بات نہیں ہے۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے حقیقتِ کعبہ۔ تو حقیقتِ کعبہ اصل میں اس کا جو مبدا تعین ہے وہ تو اللہ جل شانہ مطلب ہے اس کے، اس کے ذریعے سے ذات کے ساتھ ہے تو اس میں ساری شانیں آجاتی ہیں۔ تو جیسے حقیقتِ کعبہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتی ہے تو اسی طریقے سے جو باقی تمام اشیاء ہیں، ان کے جو حقائق ہیں، ان سب کے لئے کعبہ حقیقتِ کعبہ مسجود ہوگئی۔ یعنی ہر چیز کی جو شان ہے، آپ ﷺ نے بھی خانہ کعبہ کو سجدہ کیا ہے خانہ کعبہ کو۔ تو جتنی بھی مخلوقات ہیں ان سب کی حقیقتوں کا بھی مسجود ہے۔ تو یہ حضرت فرمایا ہے۔ فرمایا کہ:
اسی طرح کعبہ کی حقیقت بھی اشیاء کے حقائق کی مسجود ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ (تو فرمایا کہ) یہ عبارتوں کے مسامحات (فروگذاشت اور آسانی کرنا) سے ہے،
یعنی جیسے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ جیسے فقہ کے اندر بعض آسانیاں اور رخصتیں رکھی جاتی ہیں کہ چونکہ عوام ان چیزوں کو نہیں جانتے تو رخصت کے طور پر اجازت دے دی جاتی ہے، تاکہ کر سکیں۔ اسی طریقے سے جو کلامی موضوعات ہیں ان میں بھی رخصتوں کی گنجائش ہے۔ ان میں رخصتوں کی گنجائش ہے کہ الفاظ ایسے مقرر کیے گئے ہیں ورنہ حقیقت تو ان الفاظ کی وہی ہے جیسے آدمؑ کو مسجودِ ملائکہ کہا گیا: ﴿وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِکَۃِ اُسْجُدُوْا لِآدَمَ فَسَجَدُوْا إِلَّا إِبْلِيْسَ﴾ اب یہ الفاظ کی بات ہے، ورنہ اصل میں آدمؑ کو سجدہ تو اللہ تعالی کے حکم کی وجہ سے تھا، تو اصل سجدہ تو اللہ تعالیٰ کو تھا۔ اگر یہ حکم کسی اور چیز کے لئے ثابت ہو جاتا تو اس کو بھی سجدہ کیا جاتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ذریعے سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان ابھی بھی اگر توبہ کرنا چاہے تو اس کے لئے راستہ یہی ہے کہ وہ آدمؑ کی قبر کو سجدہ کرے۔ کیونکہ راندۂ درگاہ اسی وجہ سے ہوا ہے۔ تو قبر کو کوئی سجدہ کرتا ہے؟ حکم ہے اس کا؟ نہیں۔ لیکن اس کے لئے یہی ہے کیونکہ اس نے حکم سے انکار کیا تھا تو اب اسی حکم پر اس کو لایا جائے گا اور اسی سے وہ چڑتا ہے، لہٰذا وہ راندۂ درگاہ ہے۔ میری باتیں اس وقت سن رہا ہو گا یا نہیں سن رہا ہو گا؟ لیکن بہرحال نہیں! وہ ضد میں آ کر ان تمام باتوں کو وہ پی سکتا ہے ہضم کر سکتا ہے لیکن وہ نہیں کر سکتا۔ ایک پیغمبر کے پاس وہ آ کے بڑا رویا کہ دیکھیں میں اتنا بد قسمت ہوں ایک چھوٹا سا کام، غلطی کی تو اس پر میرا سارا کچھ ضائع ہو گیا، کیا میرے لئے کوئی توبہ کی صورت نہیں ہے؟ میں کہتا ہوں شیطان سے زیادہ احمق اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کردے، کہیں بڑے بول میں نہ لائے ہم تو کمزور لوگ ہیں لیکن بہرحال سمجھانے کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ شیطان سے زیادہ احمق کوئی نہیں ہے۔ کیسے؟ دیکھو باقی لوگ جو ہیں وہ تو شیطان کے اغواء سے یہ باتیں کر رہے ہیں لیکن شیطان کو تو پتا ہے کہ اللہ اللہ ہے، یہ ساری چیزیں وہ جانتا ہے، وہ جس وقت مخاطب تھا اللہ تعالیٰ اس سے براہِ راست مخاطب تھا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ سے بات کر رہا تھا۔ تو اس کے سامنے کوئی ڈھکی چھپی بات تو تھی نہیں، اس کے باوجود یہ دیکھیں کیسے اس نے اندازہ لگایا کہ میں کس سے کہہ رہا ہوں، اللہ تعالیٰ تو دلوں کی حالت سے بھی خبردار ہے، تو یہ کیسے اللہ تعالیٰ سے بات چھپا سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے تو بات نہیں چھپا سکتا تھا۔ تو اللہ پاک نے وہی کیا کہ اس کو فوراً نکال دیا۔ اب بھی یہ بیوقوفی اور جو حرکت اس نے کی اس پیغمبر سے جو کہا تو کیا اللہ تعالیٰ کو اس کی خباثت کا پتا نہیں ہے کہ کس طریقے سے کر رہا ہے۔ تو پیغمبر نے اللہ تعالیٰ سے اس کی سفارش کی، تو اللہ پاک نے فرمایا بالکل میرے دروازے کھلے ہیں، یہ آدمؑ کی قبر کو سجدہ کر لے تو میں اس کو ابھی معاف کرتا ہوں۔ اس نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا بس ٹھیک ہے۔ اصل میں یہی بات ہے کہ انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ حکم کس کا ہے۔ شیطان نے آدمؑ کو سجدے سے انکار کیا اللہ کا حکم دیکھ کر کہ اللہ کا حکم ہے۔ تو اس نے تو اللہ کے حکم سے انکار کیا سجدہ کی بات نہیں تھی۔ تو یہ بات کہ خانہ کعبہ کو سجدہ کرنے سے انکار کرے گا تو یہ بھی بات اس طرح ہو جائے گی۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے قصداً کوئی بھی انکار کرے گا تو کافر تو ہو جائے گا۔ عمل نہیں کرے گا تو گناہگار ہو جائے گا، انکار کرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ مثلاً نماز پڑھنے سے کوئی انکار کرے، یا چلیں جی! چار رکعتوں کی جگہ تین رکعتیں پڑھے ایک سے انکار کر دے، تو مسلمان رہ جائے گا؟ ہاں تین رکعتیں پڑھے اور چوتھی رکعت نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہو گی اور کافر نہیں ہوگا۔ لیکن اگر انکار کر کے تین پڑھ لے تو کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ اس نے حکم سے انکار کر دیا۔ تو اصل میں بنیاد حکم ہے۔ تو حقیقتِ کعبہ اللہ کا حکم ہے۔ حقیقتِ کعبہ کیا ہے؟ اللہ کا حکم ہے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ اس بات کو اگر کوئی سمجھے تو پھر اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔ فرمایا کہ الفاظ کے مسامحات ہیں عبارات کی باتیں ہیں، اس وجہ سے اس میں نہیں پڑنا چاہئے، بس اللہ تعالی کے حکم کو دیکھنا چاہئے۔ آسان بات ہے۔
مکتوب نمبر 255
ملا طاہر لاہوری کی طرف صادر فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ روشن سنت کے زندہ کرنے اور ناپسندیدہ بدعت کے دُور کرنے کی ترغیب میں۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ وَ سَلَامٌ عَلَی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔۔۔ گرامی نامہ جو حافظ بہاء الدین کے ہمراہ روانہ کیا تھا پہنچ کر بہت زیادہ خوشی کا باعث ہوا۔۔۔یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ محبان اور مخلصان اپنی تمام توجہ اور ہمت کے ساتھ کسی سنتِ مصطفویہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ میں سے کسی سنت کے زندہ کرنے میں متوجہ ہوں، اور (ساتھ ہی ساتھ) اپنی پوری تن دہی کے ساتھ منکر و نا پسندیدہ بدعتوں میں سے کسی بدعت کے دفع کرنے میں مستعد ہوں۔ سنت اور بدعت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ایک کے وجود سے دوسرے کی نفی لازم آتی ہے، لہٰذا ایک کے زندہ کرنے سے دوسرے کی موت واقع ہو جاتی ہو یعنی سنت کا زندہ کرنا بدعت کو مردہ کرنا ہے اور (اسی طرح) اس کے برعکس بھی (قیاس کر لیجئے)۔۔۔ پس بدعت، خواہ اس کو حسنہ (نیک) کہیں یا سیّۂ (بری) (ہر حال میں اس سے) سنّت کا دُور کرنا لازم آتا ہے۔ شاید (حسنہ کہہ کر) حُسنِ نسبی کی وجہ سے اعتبار کر لیا ہو (یعنی اس سے اضافی حسن مراد لیتے ہوں) ورنہ حسن مطلق کو وہاں گنجائش نہیں ہے کیونکہ تمام سنتیں حق جل سلطانہ کی مرضیات (پسندیدہ) ہیں اور ان کی اضداد (بدعتیں) مرضیاتِ شیطان ہیں۔۔۔ آج یہ بات بدعت کی اشاعت کی وجہ سے اگرچہ بہت سے لوگوں پر گراں ہے لیکن کل (قیامت کے دن) ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم ہدایت پر ہیں یا وہ لوگ۔
منقول ہے کہ حضرت مہدی اپنی سلطنت کے زمانے میں جب دین کی ترویج کریں گے اور احیائے سنت کا حکم دیں گے تو مدینہ کا عالم جس نے بدعت پر عمل کرنا اپنی عادت بنا لی ہوگی اور اس (بدعت) کو اچھا سمجھ کر دین کے ساتھ ملا لیا ہوگا وہ تعجب سے کہے گا کہ اس شخص (امام مہدی) نے ہمارے دین کو ختم کر کے ہماری ملت کو مار ڈالا ہے حضرت مہدی اس عالم کے قتل کا حکم فرمائیں گے اور اس کے حسنہ (اچھائی) کو سیۂ (برائی) خیال کریں گے: ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ وَاللّٰهُ ذُوالۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (جمعہ62آیت4) ( یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے)۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلَی سَائِرِمَنْ لَدَیْکُمْ (آپ پر اور جو آپ کے ساتھ ہیں ان سب پر سلام ہو(۔۔۔ فقیر پرنسیان (بھول) کا غلبہ ہے، معلوم نہیں کہ آپ کے خط کو کسی کے سپرد کیا تھا تاکہ سوالات کے موافق جواب لکھتا لہٰذا معذور خیال فرمائیں۔۔۔میاں شیخ احمد فرملی دوستوں میں سے ہیں چونکہ وہ آپ کے قرب و جوار میں رہتے ہیں لہٰذا امید ہے کہ ان کے حق میں التفات و توجہ کو مدنظر رکھیں گے۔
تشریح:
یہ اصل میں جیسا کہ حضرت شرک سے بچنے پہ زور دے رہے ہیں، توحید پر بڑا زور دے رہے ہیں، اس طرح حضرت سنت کی اشاعت پر بھی بڑا زور دیتے تھے اور بدعت کی مخالفت کرتے تھے۔ ایک بات یاد رکھئے کہ Terminology جو ہوتی ہے وہ اصل میں وقت کے حالات سے بدلتی رہتی ہے۔ بدعتِ حسنہ کی جو اصطلاح ہے وہ ایک خاص وجہ سے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ جیسے تراویح کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا فرمایا تھا کہ کیسی اچھی بدعت ہے۔ تو اس کی بنیاد پر بعض لوگوں نے باقی بدعت کو بھی بدعتِ حسنہ کہنا شروع کر لیا کہ اس میں تو دین کا فائدہ ہے۔ حضرت نے اس کا رد کیا ہے۔ لیکن لوگوں نے اس کو بنیاد بنا کر وہ جو چیزیں۔۔۔۔ لیکن وہ جو بدعت حسنہ اصل ہے، اصل میں وہ بدعت ہوتی ہی نہیں ہے۔ اس کو بدعت لغوی معنوں میں کہا گیا ہے، وہ بدعت ہوتی ہی نہیں ہے کیونکہ وہ ذریعہ ہوتا ہے اور جو ذریعہ ہوتا ہے وہ تو بدعت نہیں ہوتا۔ مقصد بدعت بن سکتا ہے ذریعہ بدعت نہیں بن سکتا۔ مثلاً میں آپ کو بہت موٹی مثال دیتا ہوں، مساجد کے مینار کی، مساجد کا جو مینار ہے کیا آپ ﷺ کے وقت میں کسی مسجد کا مینار تھا؟ حرم شریف میں نہیں تھا، مسجدِ نبویؐ میں نہیں تھا اور آج کل کون سی بڑی مسجد ہے جو مینار سے فارغ ہے؟ حتیٰ کہ حرم شریف میں بھی ہیں، مسجدِ نبویؐ میں بھی ہیں، مسجدِ اقصیٰ کا تو پتا نہیں ہے اس میں بھی شاید ہوں۔ میرے خیال میں ہو گا۔ دمشق کے مینار کا تو ذکر ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو چیزیں ہیں یہ بعد میں وجود میں آئی ہیں، لیکن ذریعہ کے طور پر آئی ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اِس مسجد امیر حمزہ کا مینار نہ ہو اور یہ باہر گیٹ نمبر 4 کے باہر کھڑے ہو جائیں اور جن کو نماز کے لئے جگہ تلاش کرنی ہو یعنی مسجد، ان کو کہہ دیں کہ مسجد اس طرف ہے، تو کیا خیال ہے اس کو ثواب ملے گا ناں جو وہاں ہے؟ ثواب ملے گا کیونکہ وہ راستہ بتا رہا ہے مسجد کا۔ مجھے خود اس کی ضرورت پڑ گئی تھی میں ایک دفعہ رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جا رہا تھا، راستے میں مغرب کی نماز بھی پڑھنی تھی اور رمضان شریف بھی تھا، روزہ بھی تھا، تو روزہ افطار کیا اور میں نے فوراً اجلاس میں پہنچنا تھا تو یہ ہوا کہ مجھے مینار کی تلاش تھی مینار کہیں سے نظر آ جائے، یہ جو مسجد فیصل روڈ ہے، اس پہ میں جارہا تھا دائیں بائیں دیکھ رہا تھا بے چینی سی تھی کوئی مسجد اور کوئی مینار نظر آ جائے۔ تو بس وہ جو مینار نظر آیا غالباً G-7-2 کے اندر، تو اس وقت میں فوراً اس طرف مڑ گیا اور میں نے نماز پڑھ لی بڑا خوش ہوگیا الحمد للہ۔ تو مینار نے فائدہ کیا ناں۔ ورنہ مجھے کیسے گاڑی میں چلتے ہوئے مسجد نظر آتی، پتہ تو چل گیا۔ تو جس کو کہتے ہیں کہ بدعت حسنہ، وہ بدعت ہے ہی نہیں۔ وہ صرف لغوی معنوں میں اگر کوئی اس کو بدعت کہے تو وہ ہوگی، جیسے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تراویح کے بارے میں کہ کیسی اچھی بدعت ہے۔ لیکن وہ بدعت ہے ہی نہیں، اس کو بدعت کی تعریف میں لایا ہی نہیں جا سکتا بلکہ وہ صرف ذریعہ ہے۔ تو اس طریقے سے مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں ہوتی ہیں۔۔۔۔ لیکن حضرت نے کیوں رد کیا؟ حضرت نے اس لئے رد کیا اس وقت رد کرنا ضروری تھا، کیونکہ لوگوں نے ان الفاظ کو بدعت حسنہ کے الفاظ کو بدعتِ سیئہ کو بدعت حسنہ قرار دینا، اس سے تو نکالنا تھا نا۔ تو اس وجہ سے حضرت نے یہ بات فرمائی کہ چاہے بدعتِ حسنہ ہو چاہے بدعتِ سیئہ ہو وہ ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بات فرمائی۔ اس طریقے سے ماشاء اللہ ان چیزوں سے حفاظت ہو گئی۔
اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ