ولایت کی اقسام اور سالک کی ذمہ داری

(یہ درس منظوم مثنوی مورخہ 7 مئی 2024 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان مثنوی شریف کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے وقت کی تیز رفتاری اور صوفی کے "ابن الوقت" (لمحے میں جینے والا) ہونے کے تصور سے شروع ہوتا ہے۔ روحانی اسرار، جیسے وحدت الوجود، براہِ راست بیان نہیں کیے جا سکتے، اسی لیے مولانا روم جیسے بزرگ انہیں حکایات اور اشاروں میں بیان کرتے ہیں۔ یہ روحانی کیفیات (حال) صرف اہل افراد کو ہی منتقل ہوتی ہیں، جن کا دل ایک تیار "ریسیور" کی مانند ہو۔ بیان میں تکوینی (انتظامی امور والے) اور تشریعی (اصلاح کرنے والے) بزرگوں میں فرق واضح کیا گیا ہے اور سالک کو صرف تشریعی بزرگ (مرشد) کی پیروی کا پابند کیا گیا ہے۔ آخر میں، تمام روحانی مقامات اور کرامات سے بالاتر، سب سے عظیم مقصد "عبدیت" یعنی اللہ کا خالص بندہ بن جانے کو قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہی وہ مقام ہے جو تمام مراتب سے بلند ہے۔



اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


معزز خواتین و حضرات! آج منگل ہے اور منگل کے دن ہمارے ہاں مثنوی شریف کا درس ہوا کرتا ہے۔ اور یہ اصل میں اس کا دوسرا دور ہے، جس میں جو فارسی کی جو مثنوی شریف ہے، اس کا منظوم اردو ترجمہ یہ اس سے تعلیم ہورہی ہے۔ اس میں ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے، اس میں پہلے ہی ترجمہ ہے۔ لہٰذا بات کافی حد تک سمجھ میں آسکتی ہے۔

دفتر اول حکایت نمبر 6


37

قَالَ اَطْعِمْنِیْ فَاِنِّیْ جَاۤئِعٌ

فَاعْتَجِلْ فَالْوَقْتُ سَیْفٌ قَاطِعٌ


کہا کہ مجھے کھلاؤ، کیونکہ میں بھوکا ہوں، پس جلدی کرو، کیونکہ وقت تو تلوار کی طرح کاٹتا ہے۔ ہاں جی! یعنی وقت بہت جلدی گزرتا ہے۔ یہ اصل میں

(روح) بولی مجھے (سرِّ وحدت الوجود کی) غذا دے دو، کیونکہ میں (استماعِ اسرار کی) بھوکی ہوں، تو اب جلدی کر، کیونکہ وقت کاٹنے والی (تیز) تلوار (کی طرح گزرا جارہا) ہے۔

مولانا بوجہ بے خودی بیانِ اسرار سے عذر کرتے تھے، مگر روح پھر تقاضا اور اصرار کرتی ہے کہ ضرور کچھ نہ کچھ سنانا ہوگا۔

کیونکہ وقت جو ہے ناں وہ بہت جلدی ختم ہونے والا ہے

’’اَلْوَقْتُ سَیْفٌ قَاطِعٌ‘‘ اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ جو وقت آتا ہے، پہلے وقت کو منقطع اور معدوم کردیتا ہے، یا یہ کہ تمام موجودہ حالات کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔ گزر جانا وقت کا ذاتی کام ہے، مگر عالم کے تمام واقعات و حوادث بھی اس کے ساتھ کٹتے چلے جاتے ہیں۔

ہاں جی! مطلب یہ جو ہے ناں ساری چیزوں سے گزر رہا ہوتا ہے، جیسے مثال کے طور پر ایک تلوار ہے اور مطلب یہ لکڑی ہے یا کوئی اور چیز ہے، اس کے ساتھ مسلسل گزر رہی ہو وہ تلوار، تو کاٹتا جاتا ہے ناں، اس کے سامنے کوئی چیز بھی آجائے، تو ٹھہر نہیں سکتی، سب کو کاٹتا جاتا ہے۔ ہاں جی!

38

صوفی ابن الوقت ہوتا ہے رفیق

کاہے ٹالنا کام کا ہے شرطِ طریق


یعنی یہ صوفی جو ہوتا ہے، وہ تو وقت کا یعنی غلام ہے، مطلب وہ وقت کا خیال رکھتا ہے، تو اس وجہ سے کام کا ٹالنا یہ مناسب نہیں ہے، یہ کوئی وہ نہیں ہے، اس وجہ سے آپ ٹالیں نہیں، آپ وہ جو میں کہتا ہوں۔۔۔


39

صوفی ابن الحال بطورِ مثال

دونوں پیر مبرا ہیں از ماہ و سال


اوپر جو صوفی کو ”ابن الوقت“ کہا تھا، اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید وقت کے لغوی معنی مراد ہوں، اس شبہ کا ازالہ فرماتے ہیں کہ صوفی کو ابن الوقت یا ابن الحال کہنا بطورِ مجاز ہے، ورنہ جس طرح صوفی ہنگام و زمانہ کا پابند نہیں، اسی طرح وقت کے معنٰی یہاں زمانہ کے نہیں ہیں، بلکہ اصطلاحی معنٰی یعنی وارداتِ قلب مراد ہیں، جن کو زمانہ سے تعلق نہیں ہے۔

مطلب یہ جو، مطلب جو حال ہے، وہ زمانہ کے اوپر منحصر نہیں ہے واردات قلب، بلکہ وہ تو اوپر سے آرہے ہیں اور صوفی جو ہے ناں مطلب وقت کے بارے میں وہ نہیں ہے۔

40

ٹال رہا ہے شاید تو صوفی نہیں

نقد رکھنا ادھار پہ نیکی نہیں


یعنی اوپر کہا تھا کہ صوفی ابن الوقت ہوتا ہے اور ابن الوقت دو معنٰی میں آتا ہے، ایک خاص معنٰی جو بمقابلہ ”ابو الوقت“ کے ہوتا ہے یعنی مغلوب الحال۔ دوسرا عام معنٰی جو دونوں کو شامل ہے یعنی مقتضائے وقت پر عمل کرنے والا۔

مطلب ہے کہ وقت کی جو demand ہے، اس کے مطابق کام کرنے والا یعنی وقت کا جو تقاضا ہے، وہ ہم کہتے ہیں ناں وقت کا تقاضا یہ ہے۔ ہاں! تو وقت کا جو تقاضا ہے اس کے مطابق عمل کرنا۔ تو اس میں یہ بات ہے کہ مغلوب الحال والے معاملہ میں تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مطلب واردات ہوتے ہیں، اس کے سامنے تو مغلوب ہے، ہاں جی! لیکن حکم چونکہ اسباب کو اختیار کرنے کا ہے اور وقت کے تقاضوں کو پہچاننے، مثال کے طور پر جب ظہر کی نماز فرض ہوجائے گی، تو ظہر کی نماز تو پڑھنی ہے، وہ تو فرض ہوگئی وقت کے لحاظ سے۔ عصر جب فرض ہوگئی، تو عصر۔ رمضان شریف آئے گا تو روزہ رکھے گا، مطلب جو وقت کا تقاضا ہے، اس کے حساب سے پھر وہ عمل کرتا ہے۔ معاملات آجائیں گے، تو اس کو صاف طریقے سے استعمال کرنے پڑیں گے، معاشرت کے جو حقوق ہیں، وہ ان کو اپنی اپنی جگہ پہ کریں گے یعنی یہ اس وجہ سے اس کو فرمایا یعنی جو ہے ناں، وہ ابن الوقت۔

اس شعر سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ وہاں ابن الوقت بمعنیٔ عام مراد تھا، ورنہ یہاں صوفی ہونے کی نفی نہ کی جاتی، کیونکہ جو کوئی ابن الوقت بمعنی خاص یعنی مغلوب الحال نہ ہو، تو ممکن ہے کہ ابو الوقت ہو، پھر تو وہ بطریقِ اولیٰ صوفی یعنی صاحبِ مقام ہوگا، جو مغلوب الحال سے افضل ہوتا ہے۔ اس شعر میں بھی یہی تقاضا ہے کہ آج کا کام کل پر نہ رکھو۔

یعنی اس میں جو ہے ناں، جو تقاضا ہے اس کے تقاضے کے مطابق کام کرو ۔


41

بولا میں رازِ یار کا پوشیدہ خیر

سن حکایت یہ اگر تو چاہے سیر


یعنی کھلے کھلے الفاظ میں اظہارِ سِرّ مناسب نہیں ہے۔ ہاں!

میں نے کہا یعنی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ کھلے انداز میں تو یہ بات کرنا یعنی وحدت الوجود کا کہنا یہ مناسب نہیں ہے، ہاں! تو اگر نہیں سمجھ رہا اور سمجھنا چاہتا ہے، تو پھر حکایت جو آنے والی حکایت ہے، اس کو سمجھ لو۔ ہاں جی! تو گویا کہ دوسری حکایت کی طرف جارہا ہے۔



42

سرِ دلبر ہوں اشارے میں بیان

غیر پر بالکل نہیں ہو یہ عیاں


یعنی جو دلبر، جو مطلب جس نے دل چرایا ہے، ہاں جی! وہ جو ہے ناں مطلب وہ اشارے میں بیان ہو اور ایسے اشارے میں بیان ہو کہ جو غیر ہے، وہ اس کو پا نہ سکے۔ یہ ہوتا تھا، مطلب باقاعدہ یہ جو ہے ناں، مطلب ہمارے صوفیاء کرام جو تھے وہ کبھی بیان وغیرہ جو کرتے تھے، وہ اس طرح کرتے تھے کہ جو اس کے اہل ہوتے، وہ سمجھ جاتے اور جو اہل نہیں ہوتے، ان کے لئے بس ویسے ہی۔ ہاں جی! یہ حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کا خلیفہ ہے، وہ غالباً وہ جو ہے ناں صابر کلیر رحمۃ اللہ علیہ کا جو تھا خلیفہ تھا، وہ ان کی تشکیل ہوئی، یہ جو ہے ناں مطلب جہاں پر بوعلی شاہ قلندر پانی پت وہاں پر، تو وہاں پر تو گئے، تو شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک پورا جام پانی کا لبالب بھر کے مطلب اس کو بھیج دیا ان کے پاس، اب سب لوگوں کے سامنے حضرت بیٹھے ہیں، انہوں نے پھول توڑ کے اس کے اوپر اس طرح رکھا کہ پانی کو ذرا بھی حرکت نہیں ہوئی، کہتے یہ لے جاؤ، کچھ پتا نہیں چلا کہ کیا ہورہا ہے، بعد میں پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ اس نے مجھے پیغام بھیجا کہ میرا جو علاقہ ہے، یہ تو میری ولایت سے بھرا ہوا ہے، تو کہاں سے آگیا یعنی تو کسی اور جگہ چلا جا، کام کرنا ہے تو کسی اور جگہ کرو، یہ تو میرا علاقہ ہے، یہاں تو تو کیا کرے گا؟ اپنا وقت ہی ضائع کرے گا۔ تو کہتے کہ میں نے ان سے یہ جواب دیا کہ جیسے یہ پھول پانی کو disturb نہیں کررہا، اس طرح آپ کی ولایت کو disturb نہیں کیا جائے گا، میں اپنا کام کروں گا، تو اپنا کام کرے گا۔ ہاں جی! تو اس طرح مطلب جو ہے ناں، وہ communication ان کی ہوتی تھی اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ کسی اور کو اس کا پتا نہیں چلتا تھا۔ کتابوں تک میں اس قسم کے مطلب ہیں کہ جو حضرات بس اس کے اہل ہوتے تھے، ان کو ہی پتا ہوتا تھا، باقی لوگ جو ہیں ناں اس کے مطلب نہیں نکال سکے۔ code words جس کو ہم کہہ سکتے ہیں، ہاں جی! code words میں باتیں ہوتی تھیں۔ تو یہاں پر یہ ہے کہ

42

سرِ دلبر ہوں اشارے میں بیان

غیر پر بالکل نہیں ہو یہ عیاں


اسرارِ حقیقت کو تمثیلی حکایت کے ضمن میں بیان کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ اس شعر میں ’’مثنوی شریف‘‘ کے اس اندازِ خاص کی طرف اشارہ ہے، جو اس میں اول سے آخر تک چلا آیا ہے، یعنی اسرارِ سلوک کو مستقل اور واضح عنوانات کے نیچے رکھ کر اس پر خاص بحث و تمحیص نہیں کی، جیسا کہ دیگر کتبِ فن کا طریقہ ہے، بلکہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ طوطی و زاغ اور شیر و خرگوش وغیرہ اشیاء کی کہانیوں کے ضمن میں بلا تخصیصِ مواقع، وہ اسرار و رموز بیان کرتے چلے گئے، جنہوں نے اس کتاب کو ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ اور ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘ سے علمی حیثیت میں کسی طرح کم نہیں رہنے دیا، اور ذوقی و حالی چاشنی میں ان سے بڑھا دیا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ ’’فتوحات مکیہ‘‘ یہ حضرت کی ہے، حضرت شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کی، جو وحدت الوجود کے داعی تھے۔ اور ’’مکتوبات ربانی‘‘ وحدت الشہود اس میں ہے، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی۔ تو فرمایا کہ ان دونوں نے جیسے اپنا اپنا نظریہ پیش کیا ہے، تو ’’مثنوی‘‘ ماشاء اللہ! انہوں نے بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے میں ان سے کوئی پیچھے نہیں ہے، بلکہ ذوقی اور حالی چاشنی میں فرمایا کہ آگے ہیں یعنی ذوقی اور حالی چاشنی میں یہ ہے کہ چونکہ شعر میں ہے ناں، تو شعر میں یعنی گویا کہ اگر حال کسی طریقہ سے transfer ہوسکتا ہے، کسی بھی domain میں، تو وہ شعر ہی ہوسکتا ہے، نثر میں یہ چیز نہیں ہوسکتی۔ نثر میں علم منتقل ہوتا ہے، حال منتقل نہیں ہوسکتا، جبکہ شعر میں حال بھی منتقل ہوسکتا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ جس حال میں کہا گیا ہوگا، جو دوسرا صاحب حال ہوگا، اس کو وہی حال transfer ہوجائے گا۔ receiver ہونا چاہئے، receiver ہونا چاہئے، اگر کسی کے پاس receiver ہے، تو مطلب یہ ہے کہ وہ شعر مطلب جب سنے گا، تو اس کے اوپر بھی وہی حال طاری ہوجائے گا اور یہ چیز ہم نے دیکھی ہے۔ ہاں جی! میں آپ کو ابھی سناتا ہوں، وہ حال کس طرح transfer ہوتا ہے۔ ہم نے تو اَلْحَمْدُ للہ! دیکھا ہے۔



نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

بہ ہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم


پری پیکر نگارے سرو قدے لالہ رخسارے

سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم


رقیباں گوش بر آواز او در ناز و من ترساں

سخن گفتن چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم


خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسروؔ

محمدﷺ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم


یہ صاحب ابھی فوت ہوگئے، ڈیرہ اسماعیل خان کے تھے، کبھی کبھی تشریف لاتے تھے۔ تو یہ واقعی اچھا پڑھتے تھے، مطلب فارسی کا جو کلام تھا۔ اور یہ کلام تھا حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کا، ہاں جی! مطلب یہ کلام تھا۔ تو ظاہر ہے یہ کلام اتنا تیز ہو اور حضرت کا reception، مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، تو بہت مطلب جو ہے ناں یہ جو بھی شاعری ہوتی ہے، اس میں یہ بات ہے کہ اس میں حال منتقل ہوسکتا ہے۔ اہل حال کا حال وہ منتقل ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ والی بات ہے، اگر receiver اس کے پاس ہو۔ ہاں جی! جیسے قبور سے فیض منتقل ہوتا ہے، لیکن اہل نسبت کو، ہر ایک کو نہیں، کیونکہ ان کے پاس receiver ہوتا ہے اور جن کے پاس receiver نہیں ہوتا، تو وہ ٹھیک ہے، بس وہ ایصال ثواب کرکے آجائیں، اپنے لئے دعا کرے اللہ تعالیٰ سے اور پھر آجائیں، لیکن جو صاحب نسبت ہوتے ہیں، ان کو تو بہت کچھ ملتا ہے، ان کو تو اللہ تعالیٰ بہت نوازتے ہیں، مطلب جو اہل قبور ہوتے ہیں۔۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے زندگی میں جن کو جس مقصد کے لئے استعمال کیا ہوتا ہے، تو ان کے جو مطلب یعنی دنیا سے جانے کے بعد بھی بعض کو اللہ پاک اس کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ وہ جو ہے ناں مطلب یعنی وہ کرلیتے ہیں۔ جیسے حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ مطلب ظاہر ہے، وہ صاحب فیض تھے، تو اب اگر کوئی ادھر جائے اور receiver ہو اس کا، مطلب opertional ہو، تو ان کو وہاں سے فیض مل سکتا ہے۔ ہاں جی! اس طرح حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ہیں، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ادھر نہیں گئے تھے؟ پورا چلہ کاٹا تھا، تو بھئی! چلا کوئی کاٹنا کوئی بزرگوں کا ویسے ہی ہوتا ہے، مطلب آخر کوئی مل رہا تھا، تبھی تو چلہ کاٹا تھا ناں ادھر۔ ہاں جی! تو انہوں نے چلہ ادھر کاٹا تھا اور ان کا مشہور تاریخی شعر کہا ہے۔ کہ وہ کیا کہا تھا، یاد ہے آپ لوگوں کو؟ کہ اس میں انہوں نے کہا کہ (ذہن سے نکل گیا) ہاں!

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا


یعنی خزانہ بخشنے والا۔

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما



ناقصوں کے لئے پیر کامل اور کاملوں کے لئے وہ راہ نما ہے۔ تو یہ ظاہر ہے، مطلب آخر ویسے تو نہیں کہا تھا ناں، کچھ ملا تو پھر ظاہر ہے کہا ہے ناں۔ یہ ہمارے حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جو بیٹے تھے، مولانا عبدالحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ عالم تھے اور ہندوستان میں تھے، تو حضرت کے ساتھ ان کو وقت لگانے کا موقع بہت کم ملا تھا یعنی وہ تھے ہی باہر تھے، جب حضرت فوت ہوئے، پھر آئے تو پھر قبر سے استفادہ کیا سارا۔ باقی مطلب ادھر سارا کام، اس کے بعد قبر سے استفادہ کیا۔ تو اب ظاہر ہے، یہ تو ایک میدان ہے، یہ حضرت عبدالرحیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ مشہور سلسلہ ہے، مطلب جو ہے ناں وہ شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا، ان کے شیخ تھے شاہ عبدالرحیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ۔ یہ دو تھے ناں، ایک شیخ سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ، ایک رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ، دونوں ان کا نام عبدالرحیم تھا، تو شیخ شاہ عبدالرحیم سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ جو تھے ناں، وہ انہوں نے بھی قبر سے استفادہ کیا ہے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں، مطلب جس کو کہتے ہیں نسبت منتقل ہوتی ہے، اگر receiver پاس ہو۔ receiver پاس ہونے کا مطلب پہلے سے صاحب نسبت ہو، پہلے سے صاحب نسبت ہو، تو پھر جو ہے ناں مطلب وہ بات پہنچ سکتی ہے، ورنہ، ورنہ پھر ظاہر ہے، مطلب مجھے حضرت حلیمی صاحب نے یہ بات سمجھائی تھی، مجھے فرمایا: تجھے اس لئے سمجھا رہا ہوں کہ تو سمجھ جائے گا، ہاں جی! تو فرمایا کہ یہ یہاں پر دیکھو! وائس آف امریکہ کے waves ہیں؟ میں نے کہا جی ہیں، کیا پاکستان ریڈیو کے waves ہیں؟ میں نے کہا جی بالکل ہیں، آل انڈیا کے؟ میں نے کہا بالکل ہیں، ریڈیو ایران، زائدان کے؟ میں نے کہا ہیں، کیوں نہیں سنتے ہو؟ میں نے کہا اس لئے کہ میرے پاس ریڈیو نہیں ہے، اچھا! اگر ریڈیو ہو، لیکن اس میں بجلی نہ ہو، میں نے کہا پھر بھی نہیں سن سکتا، بجلی یا بیٹری، اگر بیٹری بھی ہو، لیکن اس کا circuit صحیح نہیں ہو، تو میں نے کہا کہ پھر بھی نہیں سکتا ہوں، انہوں نے کہا اچھا circuit بھی ٹھیک ہو، لیکن اس کی سوئی اپنی جگہ پہ نہ ہو، میں نے کہا پھر بھی نہیں سن سکتا، کہا بس یہ سارے steps ہیں کہ پہلے ریڈیو receiver ہونا چاہئے پاس یعنی دل بناؤ، نسبت حاصل ہو، دوسری بات کہ اس میں محبت کی بجلی ہو یعنی کسی کے ساتھ مناسبت ہو یا محبت ہو اور تیسری بات اس کے ساتھ مناسبت ہو کہ سوئی اپنی جگہ پہ ہو اور شریعت پر چلنے والا ہو، یہ circuit ہے۔ ہاں جی! تو اگر یہ ساری چیزیں پوری ہوں، تو ادھر سے transfer آنا شروع ہوجائے گا، چاہے نقشبندی سلسلہ ہے، چاہے چشتیہ ہے، چاہے سہروردیہ ہے، یہ سب فیوض ادھر ہی موجود ہیں، کہیں دور نہیں جانا پڑے گا، یہ ادھر ہی موجود ہیں، بس صرف یہ بات ہے کہ آپ کے ساتھ یہ چیز ہونی چاہئے، اگر آپ کے پاس ہے تو آپ کو یہ مل سکتا ہے۔ ٹھیک ہے، بات بالکل صحیح ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی نسبت کو مطلب وہ کرلے، نسبت حاصل کرلے، اس کے بعد پھر اس کے اوپر اللہ پاک ایسی چیزیں کھولے گا، جو وہ کبھی بھی explain نہیں کرسکتا، لیکن وہ دیکھ لے گا، دیکھے گا، ہاں جی! اور سمجھے گا جتنا اللہ پاک اس کو سمجھانا چاہیں گے۔ ظاہر ہے وہ کام تو وہی لیتا ہے ناں، جتنا اللہ تعالیٰ اس کو سمجھانا چاہے گا، اتنا سمجھا دے گا اور جتنا اس کو دکھانا چاہے گا، وہ دیکھ لے گا اور جتنا اس سے کام لینا چاہے گا، وہ لے لے گا۔ ہاں جی! مطلب یہ والی بات ہے اور یہ ساری باتیں جو ہیں ناں ممکن ہیں، لیکن چونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں، جو کہ علمی نہیں ہیں، یہ حسی ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے وہ احساس دیا ہو، تو وہ وہی محسوس کرسکتا ہے، باقی تو نہیں ہے۔ مطلب جس کے ساتھ کان نہ ہوں تو وہ کیا سنے گا؟ تو ایک کان تو یہ ہے باہر کا، ایک کان اندر کا کان ہے ناں، ہاں جی! جو دل کا کان ہوتا ہے، تو اگر وہ نہیں کسی کے پاس تو کیا سنے گا؟ وہ نہیں سن سکتا۔ تو اسی طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے اندر والی آنکھ نہیں ہے، تو باہر والی آنکھ سے تو باہر والی چیزیں دیکھے گا، وہ اندر کی چیزیں تو اندر کی آنکھ سے دیکھ سکے گا۔ حضرت مولانا تھانوی صاحب نے واقعہ بیان فرمایا، یہ ساری باتیں حضرت کی بیان شدہ ہیں، مطلب ہم تو کچھ بھی نہیں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ (دیوبند کے سرپرستوں میں تھے) وہ تشریف لے جارہے تھے، وہ بہت صاحب نسبت تھے اور صاحب کشف تھے، تو کہتے ہیں کہ ایک مزار پہ مراقب ہوئے، تو ان کے ساتھ دو طالب علم تھے، خادم ہوں گے، تو انہوں نے بھی آنکھیں بند کرلیں، کہتے میں نے پیچھے سے دو ماریں کہ وہ آگے کی آنکھ تو تمھاری بند ہے، یہ آنکھیں کیوں بند کرلیں؟ ویسے بزرگ بنتے جارہے ہو، مطلب ظاہر ہے تمھیں کیا نظر آئے گا؟ آنکھیں بند کرو، تو یہ چیزیں بھی نظر نہیں آئیں گی، وہاں وہ تو آپ کو نظر ہی نہیں آئے گا۔ تو بات تو صحیح ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ یعنی یہ ہمارے۔۔۔۔ ایک دفعہ میں حلیمی صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ، میری پھوپھی تھی ساتھ، چائے ہم پی رہے تھے، بڑی سادگی طریقہ سے کچن میں مطلب وہ پیڑیاں رکھی ہوئی تھیں، حضرت بھی بیٹھے ہوئے، میں بھی ادھر، پھوپھی بھی، تو پھوپھی نے کہا کہ میں نے وہ شب برات والی رات کا بتایا، کہتی ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ خانہ کعبہ ہے اور جو ہے ناں مطلب ہے کہ مسجد نبوی ہے اور یہ آسمانوں میں اس طرح پھر رہے ہیں، حلیمی صاحب چائے پی رہے تھے، کہتے ہاں! ٹھیک ہے، کچھ لوگ اس رات ادھر چلے جاتے ہیں، کچھ لوگ اس رات ادھر چلے جاتے ہیں یعنی ایسے انداز میں کہہ دیا، بعد میں پتا چلا کہ وہ اپنا ہی کہہ رہے تھے۔ اب ظاہر ہے، مطلب یعنی ان کا ہمیں بہت لیٹ پتا چلا، وفات ہونے کے بعد پتا چلا کہ وہ ابدال تھے۔ تو اب ظاہر ہے مطلب ابدالوں کو تو جمع کیا جاتا ہے، چالیس حضرات جو ہوتے ہیں، وہ تو وہاں جمع ہوتے ہیں، لیکن یہ بات انہوں نے ویسے ہی جیسے عام انداز میں کہہ دی، کوئی خاص انداز میں نہیں کی کہ ہمیں یقین آجاتا یا کوئی بات ہم ان سے پوچھتے مزید، نہیں بس وہ اس طرح عام کہہ دیا، ہاں! کچھ لوگ جو ہیں ناں اس رات میں ادھر پہنچ جاتے ہیں، بس ٹھیک ہے۔ تو یہ مطلب یہ ہے کہ یہ جو چیز ہے، یہ میرا ذیشان نہیں ہے، ذیشان کے والد صاحب، یہ میرے کزن ہیں ذیشان کے والد صاحب، تو رشتہ داروں میں ان بن تو ہوتی ہے ناں، تو ظاہر ہے ان کے ساتھ کچھ اختلاف ہوگا، تو باتیں کررہے، میں نے کہا نہیں ان کے خلاف باتیں نہ کرو، وہ بزرگ ہیں، تو وہ نہیں مان رہا تھا، تو خیر کچھ دنوں کے بعد مجھے کہا کہ میں نے خواب دیکھا، خواب میں دیکھتا ہوں کہ مجھے پولیس والوں نے پکڑ لیا، تو لے جارہے تھے، تو لے جارہے تھے تو (گل دادا ان کو ہم کہتے تھے) گل دادا کے گھر کے سامنے لے جارہے تھے، کہتے ہیں کہ گل دادا نے دروازہ اس طرح تھوڑا سا کھول کے سر باہر نکالا، ان سے کہا اس کو چھوڑ دو، کہتے انہوں نے چھوڑ دیا، میں نے کہا کمال ہے، آپ لوگوں نے کیوں مجھے چھوڑ دیا؟ کہتے وہ ایس پی ہے ناں، وہ ایس پی ہے ناں، تو تبھی اس نے کہہ دیا، تو ہم نے چھوڑ دیا۔ تو وہ پھر مانا، میں نے کہا دیکھو ناں پتا چل گیا ناں، پھر اس نے مان لیا۔ اب ایس پی کا مطلب کیا ہے؟ تکوینی امور کا مطلب وہ جو administration والے ہوتے ہیں ناں، پکڑ دھکڑ والے، جو کہ مطلب جو ہے ناں ان کی ڈیوٹیاں ہوتی ہیں، تو وہ کرتے ہیں۔ تو ظاہر ہے وہ ان کا اپنا ایک عہدہ تھا، خود مجھے بتایا کہ یہ بنوری ٹاؤن میں ان کے تھے ناں وہ یہاں جو Dean تھے مولانا عبداللہ کاکاخیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ، وہ وہاں پر تھے بنوری ٹاؤن میں شیخ الادب تھے اس وقت، تو حج پہ جارہے تھے، ان دنوں حج جو ہے ناں، وہ ships کے ذریعہ سے ہوتا تھا، تو یہ کراچی جانا تھا، تو وہاں چونکہ جارہے تھے، تو مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے ان کے ساتھ، تو کہتے کہ میں نے اس کو ایک دفعہ ویسے بنوری ٹاؤن کے باہر ہم walk کررہے تھے، تو وہ تو بازار ہی ہے مطلب سارا باہر، کہتے کہ ایک ملنگ آرہا تھا، تو میں نے اس سے کہا کہ یہ عہدہ دار ہے، اس کی ڈیوٹی ہے، تو اس نے کہا وہ عالم تھے، وہ نہیں مان رہا تھا، تو کہتے کہ میں تھوڑا سا آگے ہوا، تو اَٹھنّی میرے پاس تھی، میں نے اس طرح اچھالی اس کی طرف، تو اس نے پکڑ لی اور اَٹھنّی پکڑ کے کہتے یہ کیا کررہے ہو؟ جاؤ حج کے لئے جارہے ہو، خیریت سے جاؤ، خیریت سے آؤ، میں نے کہا بتاؤ! اس کو کس نے بتایا ہے؟ ہاں جی! مطلب اس نے بس فوراً کہہ دیا جاؤ، یہ کیا، مطلب جاؤ، حج کے لئے جارہے ہو ناں، خیریت سے جاؤ، خیریت سے آؤ۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ جو دنیا ہے، یہ اور ہے، اس میں ہم جاتے نہیں، اس کی وجہ ہمارا کوئی کیا کام ہے اس کے ساتھ۔ بزرگوں کی دو قسمیں ہیں، ایک تکوینی بزرگ ہوتے ہیں، ایک تشریعی بزرگ ہوتے ہیں۔ جو تشریعی بزرگ ہوتے ہیں، ان کو مرشدین کہتے ہیں، ہمارا کام مرشدین کے ساتھ ہے، ہم نے مرشد کی ماننی ہے، ہم نے تکوینی بزرگوں کے پیچھے۔۔۔۔ یہ اتنا مجھے علم ہوا بغیر کسی پوچھنے کے ہوا ہے یعنی مطلب یہ ہے کہ میں نے اس کی کوشش بھی نہیں کی، کبھی بھی میں نے اس کی کوشش نہیں کی، میں ان باتوں کی کھوج لگاؤں یعنی معلومات کرلوں کہ یہ کیا ہے؟ بلکہ کسی اور نے بات شروع کی تو میں درمیان میں اس طرح چھوڑ دیتا تھا، حلیمی صاحب کے ساتھ بھی بہت ساری بات میں اس طرح چھوڑ دیتا، وہ کہتے، ہماری ان کے ساتھ لڑائیاں اس قسم کی ہوتی تھیں، تو پروا ہی نہیں کرتا، میں جو ہے ناں وہ کرتا تھا، اس کی وجہ یہ ہے ہمارا کام ان کے ساتھ ہے ہی نہیں، وہ تو ڈیوٹی پر مامور ہیں ناں، تو جو ڈیوٹی کرے گا، تو آپ سے پوچھ کے کریں گا یا آپ کے لئے کرے گا یا آپ اس پہ اثر انداز ہوسکتے ہیں یا آپ اس سے کچھ لے سکتے ہیں؟ نہیں کچھ بھی نہیں لے سکتے، ہاں جی! جس کو تو جو حکم ہے، اس حکم پہ عمل کرے گا، وہ آپ کو نہیں دیکھے گا کہ آپ کی خواہش کیا ہے، وہ اس کو دیکھے گا کہ اللہ کا حکم کیا ہے، وہ اس حساب سے کرے گا، تو خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں! ان کی بے ادبی بھی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ بے ادبی۔۔۔۔ کیونکہ ولی جس قسم کا بھی ہو، تو اس کو ایذا اگر دو گے، تو نقصان تو ہوگا، لہٰذا ولی اللہ تو ہوتا ہے، لہٰذا اس وجہ سے ان کے پاس ہونے میں خطرہ ہی ہوتا ہے، کیونکہ آپ اس سے فائدہ تو حاصل نہیں کرسکتے، نقصان ہوسکتا ہے، تو جس چیز میں نقصان ہوسکتا ہو، فائدہ نہ ہوسکتا ہو، مجھے بتاؤ پھر کیا کرنا چاہئے ایسی حالت میں؟ ایسی حالت میں علیحدہ رہنا چاہئے، ان کے پاس جانا ہی نہیں چاہئے۔ ہاں! اگر ان کو حکم ہوگیا، وہ خود تمھارے سامنے لائے جائیں گے، وہ پھر۔۔۔ خود مجھے حلیمی صاحب نے بتایا، یہ ان کے ابتدائی دور کی بات ہے جب وہ۔۔۔۔ یہ ساری باتیں مجھے بتائی، لیکن مجھے اس کا conclusion بعد میں پتا چلا ہے، کیونکہ جب ساری چیزیں conclude ہونے لگی ناں، تو پھر مجھے پتا چلا اچھا! فلاں وقت میں یہ بتایا تھا، فلاں وقت میں یہ بتایا تھا، فلاں وقت میں یہ بتایا تھا، وہ پھر وہ کڑیاں ملتی گئیں۔ تو ایک دفعہ فرمایا کہ وہ ایک صاحب تھے، وہ میرے پاس آئے دفتر میں، افسر تھے، تو فرمایا کہ مجھے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کے اوپر ظاہر کروں اپنے آپ کو، میں نے کہا چلو ظاہر ہوگئے ہو، اس وقت تو اس لائن میں تھے نہیں، ہاں جی! تو کہتے میرے ساتھ میں نے اس کے لئے چائے منگوائی تو چائے اس نے پی لی، پھر کہتے ہیں کہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اس طرح کرلیا، میں نے کہا کیا کردیا، کہتے دو بسیں موڑ میں بالکل آمنے سامنے آرہی تھیں، تو میں نے ذرا ان کو علیحدہ کردیا، ورنہ بہت سخت accident تھا، میں نے ہنس کے میں نے کہا کہ تو، تیرا منہ دیکھو اپنا، علیحدہ کردیا، کیا بات ہے، ہاں جی! کہتے ہیں اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا، لیکن کچھ کہا نہیں، پھر چلے گئے، ابھی تھوڑی دیر گزری تھی، کہتے میرا ایک دوست آگیا، اس کا رنگ فق تھا، میں نے کہا کیا ہوا؟ کہتے بس موت سے بچ گئے، میں نے کہا کیا کہتے ہو؟ کہتے بسوں میں ایک بس میں میں بیٹھا ہوا تھا، دوسری بس سامنے آئی، بس accident ہونے والا تھا، بس ایک inch کے فاصلے سے بچے ہیں، میں نے کہا اف ہو، یہ تو وہ صحیح کہہ رہا تھا، یہ تو وہ صحیح کہہ رہا تھا، مطلب یہ ہے کہ وہ تو نہیں تھا۔ کہتے ہیں اس پر مجھے بڑی زبردست punishment ہوئی، اچھا! میں نے جس کو بھیجا ہے، اس کے ساتھ یہ کرتا ہے۔ ہاں جی! کہتے ہیں خوب اس پہ punishment ہوئی، لیکن مطلب یہ ہے کہ یہ اب دیکھیں ناں اللہ پاک نے اس کو اس کے لئے چن لیا تھا، حالانکہ وہ اس چیز کو مان بھی نہیں رہا تھا، خود کہہ رہا تھا کہ میں نہیں مان رہا تھا، مان بھی نہیں رہا تھا، لیکن اللہ پاک نے جب چن لیا، تو چن لیا، اس کے بعد پھر وہ سارے راستے ملتے گئے اور پھر اللہ پاک نے اس کو اپنے نظام میں بنا لیا اس کو۔ تو یہ ساری باتیں جو ہیں، آپ نے کیا سوچنا ہے اس پر، میں مثال کے طور پہ اگر کہوں کہ مرشد ہوجاؤں، تب بھی غلطی ہے، میں اگر کہوں کہ میں تکوینی بزرگ بن جاؤں، تب بھی غلطی ہے، مجھے صرف ایک ہی راستہ دیا گیا ہے اور وہ کیا ہے؟ میں اللہ کا بندہ بن جاؤں، ہاں جی! بس یہی ہے۔ اب بندگی سے اونچا مقام ہے ہی نہیں، بندگی سے اونچا مقام ہے ہی نہیں۔ ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُهٗ‘‘ رسولوں سے پہلے بندگی ہے، عبدیت والی بات ہے۔ عبدہ پہلے آتا ہے، رسولہ بعد میں آتا ہے، تو بندگی سے اونچا مقام نہیں ہے۔ آپ نے اگر آپ ﷺ کی اتباع کرنی ہے، تو عبدیت میں کرو، رسالت سے آپ کو عبدیت ملی ہے، تو وہ عبدیت ان سے لے لو، مطلب ان سے جیسے مطلب آپ ﷺ نے عمل کیا، اس طرح تم بھی کرو، اللہ کی بندگی اگر سیکھنی ہو تو آپ ﷺ سے سیکھو، ہاں جی! بس یہی ہمارا کام ہے، اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور کام ہی نہیں ہے، تو ہم نے صرف اللہ کا بندہ بننا ہے، جو بندہ ہوتا ہے ناں، وہ پھر حکم کے مطابق چلتا ہے، مطلب پھر وہ کیا ہے، اگر حکم ہوجائے کہ تخت پر بیٹھ جاؤ، تو تخت پر بیٹھنا پڑے گا، بے شک دل نہ چاہے اور اگر حکم ہوجائے کہ تختہ پہ چڑھ جاؤ، تو پھر تختہ پہ چڑھنا پڑے گا، پھر اس میں بھی وہ نہیں کرے گا۔ ہاں جی! ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کیا ہوا؟ تختہ پہ چڑھا ناں، حکم تھا، ہاں جی! اپنے تختہ دار کو خود چوما تھا، تو کیا بات تھی وہ، تو ظاہر ہے، مطلب ہے کہ وہ اس کا اس وقت یہی حکم تھا شریعت کا، تو تختہ پہ چڑھ گیا اور بعض بزرگوں کو اللہ تعالیٰ نے تخت پہ بٹھا دیا، جیسے اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ اور اس طرح اور حضرات وہ اللہ پاک نے ان کو تخت پہ بٹھا دیا، سلیمان علیہ السلام، ہاں جی! تو یہ بات ہے کہ مطلب بندگی میں پھر یہ بات نہیں ہوتی کہ انسان اپنی رائے رکھتا ہو، حکم اللہ کا چلتا ہے اور یہ لبیک کہتا ہے، بس جیسے اللہ کا حکم ہے، اس طرح کرتا ہے، یہی ساری کامیابی ہے۔ اب یہ دیکھیں ناں! میں آپ سے عرض کروں کہ یہ ساری باتوں سے میں انکار نہیں کررہا، جو میں آپ کو بتا رہا ہوں، کرتا تھا پہلے انکار یعنی یہ بھی بات صحیح ہے کہ میں پہلے کرتا تھا انکار، لیکن اب انکار نہیں کرتا، کیونکہ اللہ پاک نے میرے سامنے اس کو کھول دیا ہے، لیکن ان میں سے کسی چیز کا بھی میں طالب نہیں ہوں، مطلب طالب میں کس چیز کا ہوں؟ بندگی کا۔ اب کیسے؟ وہ سن لیجئے گا۔ یہ ساری باتیں مطلب جو ہیں ناں اصل ہیں، یہ ہمارے سلسلہ کا خصوصی فیض ہے، جو میں ابھی بتانے والا ہوں۔


نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں




اسی کا میں بندہ اسی سے میں مانگوں

اسی سے مدد ہر جگہ چاہتا ہوں



نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں



اسی نے عطا کی ہے ایماں کی دولت

اسی سے ہی اس کی بقاء چاہتا ہوں



ہدایت کا طالب میں اسکے حضور ہوں

جو سیدھی ہو بالکل وہ راہ چاہتا ہوں



نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں



اگرچہ میں عصیاں کی گرد سے اٹا ہوں

میں اس سے کرم کی نگاہ چاہتا ہوں



نہ کھینچیں مجھے دوسری بھول بھلیاں

طریقِ محمد ﷺ صفا چاہتا ہوں



نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کیلئے میں خدا چاہتا ہوں



نہ جبہ نہ قبا نہ دستار بندی

جو مقبول ہو وہ ادا چاہتا ہوں



ایک دفعہ حلیمی صاحب کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا، میں نے پگڑی باندھی ہوئی تھی، اپنے سر سے ٹوپی اتاری، کہتے یہ تم لے لو اور پگڑی مجھے دے دو۔ پگڑی میرے پہننے کا کام ہے، تمھارا ابھی نہیں ہے، تو اپنی پگڑی سے اپنے آپ کو بزرگ ظاہر کرے گا، ابھی تم بزرگ نہیں ہوئے ہو، پگڑی میں باندھوں گا، تم نہیں باندھ سکتے، اب میری ٹوپی پہن لو۔ وہ ٹوپی میرے ساتھ ابھی تک ہے، وہ حضرت کی ٹوپی ہے، ماشاء اللہ! تو مطلب میرا یہ ہے کہ یہ بات ہے، بلکہ انہوں نے مجھے پورا اس کا فلسفہ سمجھا دیا۔ کہتے دیکھو ناں! تم انجینئر ہو، انجینئر کو بدنام کرسکتے ہو، مولویوں کو کیوں بدنام کرتے ہو، تم غلطی کرو گے، مولوی بدنام ہوں گے۔ بھئی! انجینئروں کو بدنام کرو، تمھاری field ہے، مولویوں کو بدنام نہ کرو۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ واقعتاً آدمی جو ہے ناں، وہ لباس ایسے حضرات کا پہن لیتے ہیں، جس سے لوگ گمان ان کا کرتے ہیں کہ وہ شاید وہ ہیں، حالانکہ وہ تو نہیں ہوتے۔ تو پھر کیا ہوتا ہے؟ مسائل تو پھر ہوتے ہیں ناں یعنی یہ چیز آہستہ آہستہ اس حد تک گئی ہے کہ دین پر عمل صرف لباس تک رہ گیا ہے۔ ہاں جی! باقی اندر کی چیزیں کوئی بھی نہیں ہیں، باقی سارا کچھ مطلب جو ہے ناں الگ ہے، وہ نفس کی پیروی ہے، لیکن لباس ایسا پہنا ہوا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ واقعی اس طرح ہیں۔ یہ صرف مستحبات کی بات کررہا ہوں، فرائض، واجبات اور سنن مؤکدہ کی بات میں نہیں کررہا ہوں، کیونکہ اس میں ہمارا اختیار نہیں ہے۔ مستحبات میں اختیار ہوتا ہے، مستحبات میں اختیار ہوتا ہے، لہٰذا کیونکہ اس میں ہر چیز کا خیال رکھا جاتا ہے، جبکہ فرائض، واجبات، سنن مؤکدہ میں ہمارا اختیار نہیں ہے، وہ تو جیسے ہے، وہ تو کرنے پڑیں گے۔




وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ









ولایت کی اقسام اور سالک کی ذمہ داری - درس اردو مثنوی شریف - دوسرا دور