اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج پیر کا دن ہے۔ پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق جو سوالات ہوتے ہیں، اس کے جوابات دئیے جاتے ہیں۔ اس میں سوال کرنے والے کا نام نہیں بتایا جاتا، لیکن اس کی پریشانی یا اس کا حال بتایا جاتا ہے اور پھر اس کا جواب سنا دیا جاتا ہے، جس سے باقی لوگوں کو بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔
سوال نمبر 1:
السلام علیکم حضرت جی! میں پشاور سے فلاں بات کر رہی ہوں۔ آج کل میں بہت پریشان ہوں کیونکہ تقریباً ایک ماہ سے ذکر کچھ خاص محسوس نہیں ہو رہا اور اگر ہوتا بھی ہے تو بہت آہستہ اور تھوڑی دیر کے لیے، ورنہ اکثر خاموشی ہی رہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دل سخت ہوگیا ہے۔ دل میں وہ نرمی نہیں رہی، جیسے کہ میں اکثر اکیلے میں اللہ سے باتیں کرتی تھی، روتی رہتی تھی۔ اب کافی دنوں سے ایسا نہیں ہو رہا۔ مراقبے میں بھی دل نہیں لگ رہا اور مزہ نہیں آ رہا کسی بھی عبادت میں۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض تو نہیں ہوگیا؟ مجھ سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی؟ یا میرے شیخ نے مجھے چھوڑ تو نہیں دیا؟ کیونکہ پہلے میں بہت ہی شوق سے مراقبہ کرتی تھی، ایک دن بھی ناغہ نہیں ہوتا تھا، لیکن اب ایک دن کرتی ہوں اور ایک دن ناغہ ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے اس دفعہ آپ سے رابطہ کرنے میں بھی ایک ماہ سے زیادہ وقت لگ گیا۔ دوسرا، آپ نے مجھ سے میری برائیاں پوچھی تھیں جو کہ میں نے آپ کو بتا دی تھیں اور آپ نے فرمایا تھا کہ یہ ذکر ابھی جاری رکھیں۔ تو میں نے پوچھنا تھا کہ میں تو صرف شروع کے تین لطائف پر مراقبہ کر رہی ہوں، یعنی 35 منٹ کا اور 500 دفعہ ذکر، تو کیا میں صرف انہی لطائف پر ذکر کرتی رہوں اور کتنے عرصے تک کروں؟ مہربانی فرما کر میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اصل میں احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی بسط کے حالات ہوتے ہیں، کبھی قبض کے حالات ہوتے ہیں اور اس میں اللہ جل شانہٗ نے بڑا فائدہ رکھا ہوتا ہے۔ کبھی بسط کے حالات ہوتے ہیں، کبھی قبض کے حالات ہوتے ہیں، لیکن اس میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے دن اور رات بدلتے رہتے ہیں اور اس میں اپنے اپنے فائدے ہیں، تو آپ اس کو نہ دیکھیں کہ مجھے مطلب، جو ہے ناں، وہ مزہ نہیں آ رہا۔ یا یوں سمجھ لیجیے کہ۔۔۔۔ لیکن جو اختیاری چیز ہے، اس میں کمی نہ کریں، غیر اختیاری کے درپے نہ ہوں۔ تو آپ جو مزہ نہیں آ رہا ہے، اس کو تو چھوڑ دیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہ تیرے اختیار میں نہیں ہے۔ لیکن یہ جو ناغہ ہے، اس سے بچنے کی کوشش کر لیں کیونکہ یہ تیرے اختیار میں ہے۔ یعنی اس میں ناغہ نہ کریں۔ باقی اللہ تعالیٰ کی ہر چیز میں حکمت ہوتی ہے، اس تک انسان نہیں پہنچ سکتا۔ بعد میں اگر پتا چل بھی جائے، لیکن اُس وقت پتا نہیں چلتا۔ تو اب ایک مہینہ بغیر ناغہ کیے ذکر کر لیں اور گھبرائیں نہیں۔ اگر جی نہیں چاہے گا اور پھر ذکر کرو گی تو یہ مجاہدہ بھی ہوجائے گا، جس کا آپ کو ما شاء اللہ اجر بھی ملے گا اور اس میں آپ کے نفس کے جو مطلب رذائل ہیں، اس کی اصلاح بھی ہوگی۔ اور اگر آپ کو ما شاء اللہ اس میں یعنی مزہ آ رہا ہوگا، جی چاہے گا، تو آپ کے دل کی اصلاح ہوگی۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں اپنا فائدہ ہے، اپنے فائدے کو نہ چھوڑیں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم حضرت جی! اللہ سے دعا ہے آپ کی زندگی میں اللہ برکت ڈالے۔ میں فلاں PEAS یونیورسٹی سے لکھ رہا ہوں۔ مجھے جو ذکر دیا گیا تھا، وہ میں نے ایک دفعہ پہلے تیس دن پورا کیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا جاری رکھیں۔ میری شادی اسی دوران ہوئی جس کی وجہ سے کچھ دن کیا اور کچھ دن رہ گیا۔ تو اب دوبارہ اس کے، اللہ کے فضل سے تیس دن پورے ہوئے ہیں۔ الحمدللہ۔ ذکرِ علاجی 200 مرتبہ، 400 مرتبہ، 600 مرتبہ، ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘، ’’اِلَّا اللہ‘‘، ’’اَللہُ اَللہ‘‘ یہ ہے۔ قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ پر 5-5 منٹ، روح اور قلب پر فیض کے ذکر 5-5 منٹ، ذکرِ ثوابی، روزانہ کی تمام تسبیحات اور اس کے علاوہ حفاظتی ذکر اور قرآن پاک کی تلاوت، یہ ہو رہے ہیں، الحمد للہ۔ کیفیات یہ ہیں کہ اللہ کے فضل سے تقریباً ہر لطیفہ کافی حد تک کھل چکا ہے۔ جو کمزوری ہوتی ہے، پوری کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اللہ کے سوا سب سے اس لیے مایوس ہوں کہ ہر کسی نے مجھے کوئی نقصان ہی پہنچایا ہے۔ اس لیے ہر کام میں خاص طور پر حضور ﷺ کا طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کیے بغیر میرے کام نہیں ہوتے، جتنا مرضی اور لگاؤں خیال آتا ہے۔ اور اللہ کی رضا کے بجائے کام کے لیے تلاوت ہے، یہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ کوئی حل بتا دیجیے۔
جواب:
اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کچھ باتیں سمجھائی ہیں۔ ذکرِ علاجی آپ کا 200، 400، 600 مرتبہ تو جاری رہے گا اور قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ پر 5-5 منٹ جو ذکر ہے، وہ تو آپ جاری رکھیں گے۔ البتہ قلب اور روح پر فیض کے ذکر کا اجرا بیک وقت نہیں ہے، بلکہ اب صرف روح پر تھا، تو اب یہ قلب و روح پر بھی نہ کریں، بلکہ اب صرف سر پر کریں 5 منٹ کے لیے یہ تصور کہ اللہ جل شانہٗ جیسے کہ اس کی شان ہے، فیض آ رہا ہے آپ ﷺ کے دل مبارک میں اور آپ ﷺ کے دل مبارک سے میرے شیخ کے دل میں آ رہا ہے اور وہاں سے میرے لطیفۂ سر پر آ رہا ہے۔ یہ آپ کریں گے ان شاء اللہ۔ جو قرآن پاک کی تلاوت کے بارے میں آپ نے بات کی ہے تو آپ قرآن پاک کی تلاوت میں اللہ جل شانہٗ کے حکم کو یاد رکھیں اور اللہ پاک کی پسندیدگی کو یاد رکھیں کہ اللہ جل شانہٗ جو تلاوت کرتا ہے تو اس کو ایسی محبت کے ساتھ دیکھتے ہیں جیسے کوئی باندی، غلام پسندیدہ کلام کسی کا پڑھ رہا ہو تو اس کو جیسے محبت کے ساتھ دیکھتے ہیں، اس طرح اللہ پاک قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے کو دیکھتے ہیں۔ تو اس کو آپ ذہن میں رکھیں۔ باقی اس کے جو فوائد ہیں، وہ خود بخود حاصل ہوں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص نے کھڑکی، کوئی روشندان بنایا تھا، تو پوچھا تھا کہ کس لیے ہے؟ تو اس نے کہا کہ اس میں روشنی اور ہوا آئے گی۔ فرمایا: اس میں یہ نیت کر لو کہ اس میں اذان کی آواز آئے گی، تو روشنی اور ہوا تو خود ہی آ جائے گی۔ تو ان کی نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ تو خود بخود ہو ہی جاتے ہیں۔ دنیا کی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ آخرت کی جو نیت ہے، وہ ضروری ہے۔ ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘1۔ اس کی جو ہے ناں وہ ذرا نیت کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ دنیا کا کام بن جاتا ہے۔ تو اس وجہ سے آپ تلاوت جو ہے ناں، اس کو تو اللہ کے لیے کریں، ہاں! اس کے جو دنیا کے فائدے ہیں، خود بخود حاصل ہوجائیں گے، ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ شاہ صاحب! میں مراقبہ میں خود ہی سجدے میں چلی جاتی ہوں۔ یہ میں خود کو توڑ دیتی ہوں یا ہوتا ہے؟ پتا نہیں کیا بات ہے۔
جواب:
اصل میں مراقبہ جو ہے، وہ تو ایک دھیان ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان دھیان کرتا ہے کسی چیز کا اور اس میں مگن ہوجاتا ہے۔ تو اس مگن ہونے میں بعض دفعہ ایسی کیفیت ہو سکتی ہے، لیکن اس کے لیے آپ کو حوصلہ کرنا چاہیے، بلکہ بیٹھ کر اس تصور کو پکا کریں۔ مطلب جس قسم کا مراقبہ ہو تو اس کا جو تصور ہے، اس کو پکا کریں، جیسے کہ فیض آنے کا۔ باقی ان شاء اللہ جو سجدے والی بات ہے، اس میں ان شاء اللہ ہم آپ کو بتا دیں گے، وہ جو نماز میں انسان پھر کر سکتا ہے، تو وہ ان شاء اللہ بعد میں آپ کو بتا دیں گے۔ فی الحال آپ مراقبے میں بیٹھ کر وہی تصور کر لیا کریں۔ یہ مطلب مراقبے میں آپ کو جو ہے ناں، سجدے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن آپ بیٹھ کر اپنا مراقبہ جاری رکھیں، اس کا خیال رکھیں۔
سوال نمبر :4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ پیارے حضرت جی! بندہ کے والد صاحب بینک میں ملازم ہیں۔ بندہ کی تعلیم اتنی نہیں ہے کہ نوکری مل سکے، حلال آمدن ہو، آپ دعا فرمائیں حق تعالیٰ حلال و طیب رزق بلا سبب کے عمر بھر کے لیے بندوبست فرما دے۔
جواب:
میرے سامنے جتنے لوگ بیٹھے ہیں، کس کو پسند نہیں کہ مفت میں ان کو سب کچھ مل جائے؟ ہے؟ سب کو پسند ہے نا؟ بس سب دعا کر لیں کہ سارا کچھ مفت میں مل جائے۔ تو ہر چیز کا اپنا اپنا موقع ہوتا ہے اور اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ تو آپ اس طرح کر لیں کہ تہجد میں مانگنا شروع کر لیں۔ تہجد میں انسان کے جو مسائل ہیں، اس کے بعد جو دعائیں ہیں، اس میں حل کیے جاتے ہیں۔ تو یہ کام شروع کر لیں، بہترین وظیفہ ہے اور دعا کا موقع بھی ہے۔ ان شاء اللہ میں بھی دعا کرتا ہوں لیکن اپنی دعا جو تہجد کے وقت کی جاتی ہے، اس کی بات ہی اور ہے۔ اکثر مجھ سے کہتے ہیں، کوئی بات، کوئی شخص، کوئی مرد ہوتا ہے یا کوئی عورت ہوتی ہے، وہ کوئی مسئلہ پوچھتی ہے یا بتاتی ہے، اس کے شوہر کا مسئلہ ہوتا ہے، جیسے اس کو بڑا پرابلم ہے، تو مجھے آپ کچھ پڑھنے کو بتائیے۔ میں ان کو بتاتا ہوں لیکن اسے کرنا پڑے گا جس کا مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں، وہ تو نہیں کرتا۔ میں نے کہا، پھر اللہ پاک اس طرح نہیں کرتے کہ لوگ جو ہیں ناں، مستغنی ہوں اور اللہ پاک ان کے کام اس طرح کرتے رہیں۔ میں نے کہا، جو خود اگر کوئی مانگنے کی تکلیف نہیں کر سکتا، تو پھر دوسرے کے مانگنے سے کیا ہوگا؟ بات سمجھ میں آ رہی ہے ناں؟ یعنی خود اگر کوئی اتنا ڈھیٹ ہے کہ وہ مانگنا تک گوارا نہیں کر سکتا، اس کے لیے اتنی محنت نہیں کر سکتا، تو پھر کوئی اور کرے گا تو اللہ پاک تو سب کچھ دیکھتا ہے ناں؟ تو مطلب یہ ہے کہ جس کو مسئلہ ہے، اگر اس کو طلب ہے تو طلب کے ساتھ جو کوشش ہوتی ہے، وہ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ کبھی کسی میٹرک کے اسٹوڈنٹ کو آپ نے دیکھا ہے کہ لوگوں کو کہہ دے، بس آپ میرے لیے دعا کریں اور خود گھر پر جا کر سو جائے؟ کبھی کسی ایسے میٹرک اسٹوڈنٹ کو دیکھا ہے؟ دنیا کے کام کے لیے تو ایسے کوئی نہیں کرتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں ذرا گڑبڑ ہے، کچھ سمجھنے میں گڑبڑ ہے۔ تو اس وجہ سے آپ اس طرح کریں کہ سب سے پہلے یہ کام شروع کریں کہ تہجد کے وقت اٹھا کریں اور تہجد پڑھ لیا کریں، پھر اس کے بعد خوب گڑگڑا کے اللہ پاک سے مانگ لیا کریں اور اللہ پاک اس وقت سنتے ہیں، بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کی طرف سے آواز آتی ہے کہ "ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اس کو دوں؟ ہے کوئی پریشان حال کہ اس کی پریشانی دور کروں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کروں؟" جب کسی کی طرف سے ایسی آواز آتی ہے، اس وقت کوئی لبیک کہے اور حاضر ہوجائے تو اس کا کیا حال ہوگا! اصل بات یہ ہے کہ شیطان ہمارا دشمن ہے، شیطان ہمیں اس سے دور کرتا ہے۔ وہ، ورنہ صحیح بات میں عرض کرتا ہوں، اگر کسی کو وظیفہ بتا دیا جائے ناں کہ رات کے ایک بجے پانی میں کھڑے ہوکر یہ وظیفہ کرو تین بجے تک، اس کے لیے تیار ہوجائیں گے، لیکن آٹھ رکعت تہجد کے لیے کوئی تیار نہیں ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کوئی مجھے ٹرخانے والی بات کر رہے ہیں، یعنی ویسے ایسے ہی کوئی بات کر رہا ہے۔ یہ ٹرخانے والی بات نہیں ہے، میں مسنون وظیفہ بتا رہا ہوں۔ یہ مسنون وظیفہ ہے، آپ ﷺ نے اس کا طریقہ ہمیں سکھایا ہے۔ تو وہ طریقہ سب سے اچھا ہوگا جو آپ ﷺ نے سکھایا ہے یا جو میں سکھاؤں گا، وہ اچھا طریقہ ہوگا؟ ہماری حیثیت کیا ہے آپ ﷺ کے سامنے؟ تو اس وجہ سے جو چیز ادھر سے آئی ہے، وہی best ہے اور اس پر ہی عمل کرنا چاہیے، ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں۔ حضرت جی، بعض دفعہ سوالات شکل اختیار نہیں کر رہے ہوتے کہ آپ سے پوچھا جائے اور ساتھ پھر وساوس یا طرح طرح کے خیالات بھی شامل ہوجاتے ہیں، تو حضرت جی، اس میں فرق یا تمیز کیسے کرنی چاہیے؟ کیونکہ ان کے اکٹھے ہوجانے پر بات بھی، بات بہت لمبی ہوجاتی ہے، وساوس بھی بڑھ جاتے ہیں۔
جواب:
اصل بات یہ ہے کہ آپ تھوڑا سا غور کر لیں کہ اس میں کونسی چیز اختیاری ہے، کون سی چیز غیر اختیاری ہے۔ جو غیر اختیاری ہے، اس کے تو درپے ہونا چھوڑ دیں ناں، اس کی تو بالکل فکر ہی نہ کریں کیونکہ آپ کا کام ہی نہیں ہے۔ جو اختیاری ہے، اس میں اپنے اختیار کو استعمال کر لو۔ جتنی کوشش آپ کر سکتے ہیں، وہ کرو اور باقی اللہ تعالیٰ سے اس کے پورے ہونے کی جو ہے ناں وہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے مطابق جو ہے ناں فیصلہ فرما دے۔ جتنی کوشش آپ کی، وہ آپ کر سکتے ہیں، جو آپ کر سکتے ہیں وہ کر لو۔ مثال کے طور پر، جیسے انسان ہے، مطلب کوئی بھی، ظاہر ہے، interview دینے جا رہا ہے تو وہ اس طرح تو نہیں کرتا کہ interview کو چھوڑ دے، پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ یہ تو کوئی نہیں کرتا ناں؟ کوئی کرے گا؟ مطلب پہلے interview کو attend کرے گا، interview میں ہوگا، آئے گا اور اللہ سے دعا بھی کرے گا۔ تو اسی طریقے سے جو چیز آپ کے اختیار میں ہے، اس کو تو ضرور کرو لیکن یہ بات ہے کہ اس کے پورا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ تو اس میں بہت ساری چیزیں دور ہوجائیں گی، یعنی جس کو ہم وساوس کہتے ہیں، وہ چیزیں خود بخود دور ہوجائیں گی۔ آپ کو screening کا طریقہ میں نے بتا دیا، اس کے طریقے سے screening کر کے ان شاء اللہ پھر جو کچھ آپ کر سکتے ہیں، وہ آپ کریں۔
سوال نمبر 6:
200 مرتبہ، ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو‘‘، 400 مرتبہ ’’حَق‘‘، 100 مرتبہ ’’اللہ‘‘، 100 مرتبہ تیسرا کلمہ، 100 مرتبہ درود شریف، 100 مرتبہ استغفار۔ یہ ایک مہینہ ہوگیا۔
جواب:
ما شاء اللہ، بہت اچھی بات ہے۔ اب 200 مرتبہ ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو‘‘، 500 مرتبہ ’’حَق‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ کریں، ان شاء اللہ۔ اور تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار، تو یہ تو عمر بھر کے لیے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم حضرت جی! ایک ماہ پہلے message کیا تھا، اب پھر ایک ماہ اس طرح گزار دیا۔ ربیع الاول میں درود شریف پڑھنے کی لالچ میں مراقبہ اور دوسرے معمولات نہیں کیے۔ حالانکہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ مبارک کا پتا بھی ہے کہ درود شریف سے افضل اصلاحی ذکر ہے، لیکن نفس کی چال میں پھنسی رہی۔ ان شاء اللہ کل call کر لوں گی، کیونکہ زندگی اللہ پاک سے بہت دور کر دیتی ہے۔
حضرت جی، پچھلے تین ماہ سے مراقبے کی یہ تفصیل ہے: پہلے 15 منٹ لطیفۂ قلب پر اللہ اللہ سننے کا تصور، یہ تو الحمد للہ پکا ہے۔ پھر 25 منٹ مراقبۂ احدیت کا تیسرا سبق کہ اللہ پاک کا فیض آپ ﷺ کے قلبِ اطہر پر آ رہا ہے، آپ ﷺ کے قلبِ اطہر سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ خفی پر۔ دو ماہ یہ مراقبہ کیا کہ ہدایت کے مطابق بلا ناغہ، لیکن لطیفۂ خفی پر محسوس نہیں ہوا کچھ۔ اب ایک ماہ سے مراقبہ نہیں کیا، message بھی نہیں کرتی، یہ سوچ کر کہ میرے رشتہ داروں کو پتا چل جاتا ہے میرے message کے متن سے کہ میں نے بھیجے ہیں احوال۔ اس وجہ سے ایک ماہ اپنا نقصان کر لیا۔ اب رہنمائی چاہیے کہ دوبارہ کہاں سے شروع کروں؟
جواب:
اللہ اکبر! سب سے بڑی غلطی تو آپ نے واقعی یہ کی ہوئی ہے کہ آپ نے درود شریف پڑھنے کی لالچ میں مراقبہ اور دوسرے معمولات نہیں کیے۔ یہ بات آپ کی صحیح ہے کہ درود شریف بہت بڑی نعمت ہے، واقعتاً بہت بڑی نعمت ہے، لیکن یہ بات الگ ہے کہ ہے تو مستحب، ہے تو مستحب، جبکہ جو علاجی ذکر ہوتا ہے، یہ فرض کے لیے ہوتا ہے کیونکہ اپنی اصلاح فرض ہے۔ تو اپنی اصلاح کے لیے جو چیز ہے، وہ بھی اس کا مقدمہ بن جاتا ہے۔ کل ہی ہم نے سنا ہے مفتی صاحب سے کہ جو فرض کا مقدمہ ہوتا ہے، وہ فرض ہوتا ہے۔ کیونکہ جیسے مثال کے طور پر آپ حج پہ جا رہے ہیں، حج آپ پہ فرض ہے اور اس کے لیے passport لازم ہے، تو آپ passport نہیں بنائیں گی، کہیں گی، یہ تو فرض نہیں ہے، حج فرض ہے نا؟ تو کیا خیال ہے، کیسا ہوگا؟ اس کا مطلب ہے آپ جانا نہیں چاہتے، کیونکہ بغیر اس کے آپ جا نہیں سکتے۔ تو جیسے مطلب passport کی کیا حیثیت ہے؟ کچھ بھی نہیں ہے، نہ فرض ہے، نہ واجب ہے، نہ مستحب ہے، لیکن حج کے لیے تو ضروری ہے۔ بغیر اس کے مطلب آپ حج پہ جا نہیں سکتے، تو آپ کو passport بنانا پڑے گا۔ تو اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جو فرض کا مقدمہ ہوتا ہے، وہ فرض ہوتا ہے اور جو واجب کا مقدمہ ہوتا ہے، وہ واجب ہوتا ہے، مطلب جو ہے ناں علماء کرام یہ فرماتے ہیں۔ پس پتا چلا کہ جو اصلاحِ نفس ہے، جو فرضِ عین ہے موت سے پہلے پہلے، اس کا جو مقدمہ یعنی اصلاحی ذکر ہے، وہ بھی فرض ہے اس لحاظ سے۔ تو اس وجہ سے اس کو کرنا پڑے گا اور یہ آپ نے بہت غلط کیا ہے، اس کو نہیں کیا۔ مجھے خوب پتا ہے، حضرت مولانا مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، جو تبلیغی جماعت کے بہت بڑے بزرگ تھے، انہوں نے اپنے تبلیغ والے حضرات سے ما شاء اللہ کہا کہ بھائیو، دوستو! ہم بھی آپ کو ذکر دیتے ہیں اور مشائخ بھی دیتے ہیں۔ مشائخ کا ذکر بھی کرو اور ہمارا ذکر بھی کر لو، جو ہم آپ کو دیتے ہیں۔ لیکن اگر وقت کم ہوگیا اور وقت آپ کے پاس اتنا ہے کہ صرف ایک کر سکو، تو پھر مشائخ کا دیا ہوا ذکر کر لیا کرو، ہمارا والا ذکر اس وقت مؤخر کر لیا کرو۔ کیونکہ ہمارا دیا ہوا ذکر غذا کی طرح ہے اور اُن کا ذکر علاج کی طرح ہے، دوا کی طرح ہے۔ اور دوا و غذا میں اگر مقابلہ آ جائے تو دوا کو ترجیح ہوتی ہے۔ کیا خیال ہے؟ ٹی بی کا بیمار ہے اور اس کو دوائی کھانی ہے۔ اور ٹائم اتنا بس ہے، جیسے مثال کے طور پر روزہ رکھ رہا ہے، یا دوائی کھا سکتا ہے یا کھانا کھا سکتا ہے، وہ کیا چیز کھائے گا؟ دوائی کھائے گا! ہاں، تو اس وجہ سے جو مطلب یہ ہے کہ وہ دوائی کو ترجیح ہے۔ تو اس وجہ سے یہ والی بات ہے کہ ہمیں جو ہے ناں، جو علاجی ذکر ہے، اس کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ غلطی آپ نے کی، اس پر استغفار کریں۔ باقی یہ ہے کہ ما شاء اللہ آپ نے جو ذکر کی کیفیت بتائی، تو اس کو آپ جاری رکھیں۔ یہ جو ہے ناں، مطلب اس کے بارے میں، جو جہاں سے آپ نے stop کیا ہے، وہیں سے آپ شروع کر لیں اور ایک مہینہ مستقل، جیسے کہ میں نے بتایا ہے، اس طرح کر کے پھر مجھے بتا دیں، تو اس کے بارے میں بعد میں کچھ عرض کر سکوں گا۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم سیدی و مرشدی حضرت جی! رات کو میری وتر کی نماز پھر قضا ہوگئی۔ اس سے پہلے بھی ہوئی تھی، جبکہ میں ابھی پچھلی نمازوں کے روزے رکھ رہی ہوں۔ روزانہ روزہ مشکل لگتا ہے، اس لیے جمعرات اور پیر کو رکھتی ہوں۔ رات کو طبیعت بہت خراب رہتی ہے، اذان سے اور کبھی آدھے گھنٹے پہلے بہت مشکل سے اٹھتی ہوں۔ آج اذان سے 5 منٹ پہلے آنکھ کھلی، صبح کی نماز سے پہلے وتر کی نماز پڑھی۔ نہ ’’سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَبِّ رَّحِیْمٍ‘‘ کی تسبیح پڑھی، نہ مراقبہ کیا۔
جواب:
دیکھیں، تجربے سے اگر آپ کو ثابت ہوگیا ہے کہ آپ کے لیے اٹھنا مشکل ہے، تو وتر کو آپ عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھ لیا کریں۔ جب کسی کے لیے وتر کے لیے مطلب جو ہے ناں اٹھنا، مشکل ہوجاتا ہے تو چونکہ اٹھنا جو ہے ناں، اگر تہجد کے لیے ہو، تو تہجد کسی کی پکی ہو تو پھر اس کے بعد پڑھ لیا کرے وتر، مسنون یہی ہے۔ لیکن وتر چونکہ واجب ہے، اگر یہ خطرے میں ہوجائے، تو پھر مسنون کا نمبر تو بعد میں آتا ہے ناں؟ اس وجہ سے واجب کو تو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ لہٰذا اگر اٹھنا مشکل ہو اور risk ہو تو پھر اس وقت علماء کرام فرماتے ہیں کہ عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھ لیا کریں یا ایسا ہو کہ جس وقت کوئی سونا چاہتا ہے، اس وقت پڑھ لے، اگر وضو اس کا برقرار ہے۔ تو وہ آخری وقت میں پڑھ لے تو ان شاء اللہ ایسا ہوگا جیسا اس نے رات کے آخری حصے میں پڑھ لیا، اس کے ساتھ کیونکہ اس کی مجبوری ہے۔ پھر یہ ہے کہ وہ وتر کو risk پر نہ ڈالے۔ کیونکہ ظاہر ہے، وتر واجب ہے اور اس کا جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ خیال رکھنا واجب ہے۔ تو آئندہ کے لیے آپ ایسا نہ کریں۔ ابھی جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ ابھی جو گزشتہ نمازوں کا جرمانہ ہے، وہ پورا کر لیں، اس کے بعد میں ان شاء اللہ پھر بعد میں بتاؤں گا آپ کو۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم شاہ صاحب! میوزک کی آواز ہماری طرف نہیں آ رہی تھی اور میں نے بڑے لڑکوں کو منع کیا ایک دو دفعہ، پھر میں بعد میں وہ وہاں بالکل نہیں آئے۔ میرا سٹال بہت زیادہ کونے میں تھا۔ سب کہہ رہے تھے کہ باہر آؤ کیونکہ وہاں کوئی نہیں آئے گا، مگر میں پردے کی وجہ سے باہر نہیں جاسکی۔ میرا سٹال سب سے کم قیمت، بیس روپے کا تھا اور اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے اتنی برکت دی کہ اس پر اتنا رش تھا کہ چار دفعہ میں نے سٹال بند کیا کیونکہ میں بہت تھک گئی تھی۔ اور اخیر میں جب سب اپنا اپنا profit پرنسپل کو دے رہے تھے، تو میرا سب سے زیادہ تھا۔ پرنسپل اتنی حیران تھیں کہ بیس روپے کے سٹال پر ہزاروں کیسے کما لیے؟ شاہ صاحب! یہ سب آپ کی برکت ہی کی وجہ سے ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے نبھائی۔ لیکن آخر میں، میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ میوزک کا کہا تھا کہ نہیں ہوگا اور پھر بھی میوزک تھا۔ اس وجہ سے مجھے جو event تھا، بالکل پسند نہیں آیا۔
جواب:
ایک استانی ہے جس نے مجھے پہلے سے لکھا تھا کہ ان کو headmistress نے کہا کہ جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ آپ سٹال لگائیں۔ تو اس نے کہا کہ میں تو پردہ کرتی ہوں، تو بڑے لڑکے اس طرف نہ آئیں اور دوسرا یہ ہے کہ میوزک نہ ہو، تو انہوں نے دونوں باتیں مان لیں کہ آپ کو ایسا سٹال دیں گے جس کی طرف بڑے لڑکے نہیں آئیں گے اور میوزک بھی نہیں ہوگا۔ تو اس نے مجھے بھیجا ہے۔ تو الحمد للہ، اللہ کا شکر ہے کہ اللہ پاک نے اس کے کام میں اتنی برکت دی کہ وہ نظر آ رہا ہے۔ تو اس طرح اگر کوئی دین کے اوپر چلتا ہے اور عمل کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم حضرت جی! محترم حضرت! اگر کوئی خانقاہ نہیں آتا اور براہِ راست بیان سنے، کیا وہ خانقاہ میں بیٹھے، جو آپ سے، اس سے فائدہ ہوتا ہے، اس جیسا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟ یہ سوال آپ کے آج والے بیان میں جب آپ نے Centering System والی مثال دی، اس سے ذہن میں آیا ہے۔ جزاک اللہ۔
جواب:
ایک میجر صاحب ہیں کہ وہ جو ہے ناں، وہ ذرا اس کے بارے میں، مطلب میرا بیان ہوا تھا کہ جب انسان میں کوئی خرابی آ جاتی ہے تو پھر دوبارہ وہ پھر خانقاہ جائے اور پھر اپنا علاج کر لے۔ پھر اس کے بعد وہ ٹھیک ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد آ کر پھر کام کرتا ہے۔ پھر اگر ایسا ہوجائے، پھر خانقاہ چلا جاتا ہے۔ اس طرح Centering System کی میں نے مثال دی۔ تو اس سے انہوں نے یہ کیا۔ تو واقعی بات صحیح ہے کہ خانقاہ اگر کسی کے لیے accessible ہو، تو پھر تو اس کے لیے یہ بات ہوگی کہ وہ خانقاہ میں جائے گا تو اس کو وہ فائدہ ہوگا کیونکہ خانقاہ کے ساتھ جو ماحول ہے، اس کا فائدہ تو عام جگہ پہ نہیں مل سکتا۔ مطلب وہ تو بات ہی اس طرح ہے۔ تو اس وجہ سے اگر کوئی جان بوجھ کر نہیں آتا، پھر تو واقعی محروم ہے۔ اور اگر کوئی جان بوجھ کر نہیں، فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ وہاں پہنچ ہی نہیں سکتا، تو معذور ہے۔ ایسی صورت میں اگر وہ خانقاہی معمولات اپنے گھر پر بھی کرتا ہے تو اس کا فائدہ اس کو ہوگا۔ تو وہ جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے اللہ پاک آسانی پیدا فرماتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک صاحبِ کشف ہیں، اس نے مجھے یہ message کیا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اسلام آباد میں جب میں ہوتا ہوں تو میں اگر خانقاہ آ کر بیان نہیں سنتا تو مجھے پھر فائدہ اتنا نہیں ہوتا، لیکن میں اگر کسی اور جگہ ہوں، جیسے دبئی وغیرہ چلا جاؤں، وہاں سے اگر میں نہیں آتا تو پھر یہ فرق نہیں ہوتا۔ میں نے کہا، بس یہی بات ہے۔ کہتے ہیں subject to availability ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر available ہو اور پھر بھی کوئی نہیں آتا ہو، تو یہ اعراض ہے۔ اس وجہ سے پھر مطلب اس کو مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے کہ وہ کر ہی نہیں سکتا، تو ﴿لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾2 وہ تو ہے اللہ تعالیٰ کا قانون ہے، جو کام کوئی کر نہیں سکتا تو اس کا۔۔۔۔ البتہ کبھی کبھار تو آنا ہوتا ہے، وہ تو کر سکتا ہے۔ تو اگر اس سے بھی کوئی رہ جائے تو پھر وہ بھی اسی ضمن میں آ جائے گا، تو پھر اس سے اس کا نقصان تو ہوگا۔ تو اس کو اگر وہ اہمیت نہیں دیتا، تو جو اس کا special فائدہ ہوتا ہے، وہ اس کو حاصل نہیں ہوتا، general فائدہ حاصل ہو سکتا ہے لیکن وہ special فائدہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس کو اہمیت نہیں دے رہا۔ لیکن اہمیت دے رہا ہے، جیسے مثال کے طور پر جب بھی اس کو ٹائم ملتا ہے تو وہ خانقاہ چلا جائے۔ جیسے ہم جب تک پشاور یونیورسٹی میں تھے، تو حضرت کے پاس الحمد للہ جلدی جلدی جاتے تھے۔ لیکن جب یہاں راولپنڈی میں آئے تو مہینے میں کوئی ایک دفعہ جاتے تھے، تو الحمد للہ مہینے میں ایک دفعہ کا چانس ہوتا تھا تو ہم جایا کرتے یا کبھی چھٹی ہوئی، اچانک مل گئی، تو دوڑ کے چلے گئے۔ تو الحمد للہ فائدہ ہوتا تھا۔ تو ایسا ہوتا ہے کہ جو چیزیں انسان کو available ہوں، جس form میں بھی available ہوں، اس کے حساب سے پھر condition لگ جاتی ہے۔ تو اگر آپ کے ساتھ بھی ایسی بات ہے تو مطلب خیال رکھیں، کیونکہ پھر اپنا فائدہ تو ہر ایک ڈھونڈتا ہے۔
سوال نمبر 11:
حضرت! یہ جو سلوک کے 10 stages ہیں، آپ بتاتے ہیں، اور اس کے بعد نفسِ مطمئنہ کا حاصل ہوجانا، یہ قرآن اور حدیث میں ہے یا یہ بزرگوں کے تجربات ہیں؟
جواب:
یہ سوال کیا ہے۔ technical question ہے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ جو مقامات ہیں ناں مقامات، جو مقاماتِ سلوک جس کو کہتے ہیں ہم، یعنی مقامِ توبہ، مقامِ انابت، مقامِ قناعت، مقامِ ریاضت، مقامِ تقویٰ، مقامِ زہد، مقامِ صبر، مقامِ توکل، مقامِ تسلیم، مقامِ رضا۔ یہ 10 مقامات بتا رہے ہیں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کہ یہ 10 مقامات سلوک کے طے کرنے ہوتے ہیں۔ تو یہ جو مقامات ہیں، اصل میں رذائل کی دوری ہے، یعنی رذائل جو نفس کے اندر رذائل ہیں، ان کے دور کرنے کا نام ہے۔ جیسے آپ حرص کو دور کر لیں تو قناعت آ جائے گی، مقامِ قناعت حاصل ہوجائے گا۔ جب تک وہ حرص موجود ہے تو مقامِ قناعت کدھر ہے؟ وہ تو نہیں ہے۔ تو اصل میں یعنی مقامات جو ہیں، یہ رذائل کو دور کرنے کا نام ہے اور رذائل کو دور کرنا قرآن سے بھی ثابت ہے اور حدیث شریف سے بھی ثابت ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾3 مطلب یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو رذائل سے پاک کر دیا۔ تو ظاہر ہے، قرآن میں بھی ہے اور حدیث شریف میں بھی ہے کہ "عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کر لیا۔" تو اس کا مطلب ہے دونوں، یعنی قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث شریف سے بھی ثابت ہے اور اور بھی بہت ساری قرآن کی آیاتِ مبارکہ ہیں، احادیثِ شریفہ بھی ہیں۔ تو یہ تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ اس کا جو دور کرنے کے طریقے ہیں، یہ طریقے subject to condition ہیں، تجرباتی ہیں اور یہ بزرگوں نے مطلب Advise کیے ہوئے ہیں۔ بالکل اس قسم کی ہے کہ لاہور پہلے سے موجود ہے، چاہے آپ جانتے ہوں یا نہیں جانتے ہوں، لاہور پہلے سے موجود ہے۔ لیکن لاہور جانے کے لیے جتنے راستے ہیں، وہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اب موٹروے پہلے نہیں تھا، موٹروے ہے۔ تو ظاہر ہے، مطلب ممکن ہے کہ کسی وقت کوئی راستہ موجود تھا، وہ ختم ہوجائے، وہ نہ ہو پھر، تو راستے تبدیل ہو سکتے ہیں، وہ چیزیں تبدیل نہیں ہوتیں۔ تو جیسے مقامات ہوتے ہیں، مقامات چونکہ وہ یعنی اس کے رذائل کے ساتھ ہیں اور رذائل پہلے سے موجود چلے آ رہے ہیں، لہٰذا ان کا دور کرنا تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ وہ کیسے دور کر لیں، یہ طریقے ہر وقت کے مختلف ہیں اور لوگوں کے لیے بھی مختلف ہیں۔ مطلب بعض لوگ۔۔۔۔ جیسے مثال کے طور پر ایک آدمی ہے، وہ پیدائشی طور پر صابر ہے، وہ صابر ہے لیکن صابر ہونے کے ساتھ ساتھ کنجوس ہے۔ اب اس کے اندر ایک بیماری نہیں ہے، دوسری ہے۔ تو اب اس کا علاج کنجوسی کو دور کرنے کا ہوگا، صبر تو پہلے سے اس کو حاصل ہے۔ اور دوسرا آدمی کنجوس نہیں ہے لیکن صبر اس میں نہیں ہے، تو ظاہر ہے، مطلب اس کی کنجوسی دور کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اس کو لے آئے، وہ اس کو صبر کرنے کی مطلب training دی جائے گی۔ تو اسی طریقے سے مطلب جو رذائل مختلف ہیں تو ان کا جو ہے ناں، وہ ہے دور کرنا، تو ثابت ہے قرآن و حدیث سے۔ البتہ یہ ہے کہ کیسے دور کیے جائیں، یہ پھر اپنا اپنا وقت اور اپنا اپنا طریقہ ہے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں، زوجہ فلاں ہوں۔ حضرت جی، آپ نے جو اذکار دئیے، وہ باقاعدگی سے کر رہی ہوں، الحمد للہ۔ مراقبہ بھی کر رہی ہوں، لیکن مراقبے میں تسلسل نہیں ہے، دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
اصل میں یہ صرف آپ کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اکثر لوگوں کا مسئلہ ہے کہ علاجی ذکر کے لیے شیطان نہیں چھوڑتا، ثوابی ذکر کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ علاجی ذکر کے لیے نہیں چھوڑتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو پتا ہے کہ اس کا ثوابی ذکر بھی تب بنے گا جب اس کا علاجی ذکر صحیح ہوگا۔ مثلاً، علاجی ذکر صحیح نہیں ہوگا تو آپ نے جتنا ذکر کیا تو عین ممکن ہے آپ کو عُجب ہوجائے، "اوہو! میں تو بڑا ذاکر ہوں۔" تو یہ چیز کون سی چیز نکالے گا؟ یہ علاجی ذکر نکالے گا ناں۔ اب یہ علاجی ذکر جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے شیطان نہیں چھوڑتا کیونکہ شیطان کو پتا ہے کہ یہ تو میرے خلاف مطلب جو ہے ناں، planning ہے۔ تو اس پر پورا زور دیتا ہے کہ کوئی یہ نہ کرے۔ تو اس وجہ سے ان چیزوں سے دور بھگاتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ شیطان کی planning یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کو روکتا نہیں کسی چیز سے، پر اسی میں اس کو گمراہ کرتا ہے۔ مثلاً، کوئی نماز پڑھتا ہے تو نمازوں میں لگائے رکھے گا، لیکن اس کی نماز کو خراب کر دے گا، کوئی ایسا طریقہ کر لے گا اس کی نماز، نماز نہیں رہے گی۔ ہاں، اس طریقے سے مطلب یہ ہے کہ کوئی حج عمرے کر رہا ہے تو اس کو حج عمرے سے نہیں روکے گا، لیکن اس کا کوئی ایسا طریقہ کرے گا کہ وہ دنیا کے لیے ہوجائیں گے یا کوئی اور خرابی اس میں آ جائے گی۔ تو شیطان کی planning یہی ہوتی ہے کہ وہ جو ہے ناں، مطلب کسی چیز کو روکتا نہیں ہے لیکن وہ اس کا اور طرح۔۔۔۔ لیکن یہ چیزیں جو ٹھیک کرنے والی ہیں، ان کو روکتا ہے۔ جو ٹھیک کرنے والی چیزیں ہیں، جیسے علاج ہے، تو علاج سے تو روکے گا ناں؟ کیونکہ اس کو پتا ہے، یہ تو میرے ہاتھ سے نکل جائے گا، تو اس کو روکتا ہے۔ تو اس وجہ سے اگر آپ کے مراقبے میں تسلسل نہیں ہے تو اس کے تسلسل کے لیے آپ کو کوشش کرنی پڑے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ۔۔۔۔ اور اگر اس کے لیے آپ کو یہ جو دوسرے اذکار ہیں، ثوابی، وہ اگر آپ کو کم بھی کرنے پڑ جائیں تو وہ بھی گوارا ہوں گے، لیکن یہ مراقبہ وغیرہ چھوڑنا، یہ جو اصلاحی ذکر ہے، اس کو چھوڑنا گوارا نہیں ہے، گوارا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علاج ہے تو علاج تو ضروری ہے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم! میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ میرا یہ ذکر چل رہا ہے: 200 مرتبہ ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘، 600 مرتبہ ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 400 مرتبہ ’’حَقْ‘‘، اور اس کے ساتھ 10 منٹ کا مراقبہ لطیفۂ قلب پر، 15 منٹ کا لطیفۂ روح پر، 10 منٹ کا لطیفۂ سر پر اور 10 منٹ کا خفی پر تھا۔ آخری message میں آپ نے فرمایا تھا کہ آپ کو یعنی مجھے سلوک کے لیے اب تیاری کرنی چاہیے اور آپ نے اپنے احوال اور برائیاں بتانے کا بولا تھا۔ برائیاں چونکہ زیادہ ہیں، اس لیے message طویل ہوگیا۔ اس کے لیے معذرت۔ پہلے حصہ آپ محفل میں پڑھ سکتے ہیں، دوسرے حصے آپ سے گزارش ہے کہ صرف آپ ہی پڑھ لیں۔
جواب:
تو ظاہر ہے، میں پہلے حصے کے ہی بارے میں بات کر رہا ہوں کہ آپ یہ جو ذکر ہے، جاری رکھیں۔ اور جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ جو 10 منٹ کا خفی پر ہے، تو اس میں یہ ہے کہ آپ اب 10 منٹ اخفیٰ پر بھی کر لیا کریں اور باقی ان شاء اللہ میں اس کو جب اپنے طور پہ دیکھوں گا تو اپنے طور پہ اس کا جواب دے دوں گا، ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم حضرت! میں فلاں ہوں اور خیریت سے میں گھر پہنچ گیا تھا، الحمد للہ۔ حضرت! دل میں آیا کہ آپ سے دریافت کروں کہ میرے اندر کوئی پہلے سے بہتری ہے؟
جواب:
یہ تو آپ ہی بتا سکتے ہیں۔ میں تو آپ کو حدیث شریف بتاؤں گا: ’’اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوفِ وَالرَّجَاءِ‘‘۔ ایمان جو ہے ناں، خوف اور امید کے درمیان ہے۔ تو آپ کو میں اگر امید دلاؤں تو اس سے اگر آپ کو نقصان ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ اور اگر آپ کو میں ڈرا دوں تو پھر بھی آپ کو نقصان ہوگا۔ تو لہٰذا چونکہ یہ چیز آپ ﷺ نے خود ہی فرمائی ہے، لہٰذا اس پہ عمل کرو اور ڈرو بھی کہ کہیں آپ پیچھے نہ رہ جاؤ اور امید بھی رکھو کہ ان شاء اللہ اللہ پاک آپ کے ساتھ اچھا، مطلب جو ہے ناں، وہ کریں گے برتاؤ۔ لہٰذا دونوں چیزیں آپ ساتھ ساتھ رکھیں گے، ان شاء اللہ کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اللہ اللہ کا ذکر 2500 مرتبہ ہے اور اس کے 37 دن ہوگئے ہیں۔
جواب:
اس کو ان شاء اللہ 3000 مرتبہ کر لیں۔ اس کو اب 3000 مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اپنے گناہوں کی کثرت اور اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرنے کی وجہ سے بندہ نے آپ کی ناراضگی اور شفقت میں کمی محسوس کی، یہ میرے اوپر بہت گراں تھا۔ حضرت کی طرف سے یہی فکر ہمہ وقت رہتی ہے۔ ہر نماز کے بعد یہی دعا مانگتا ہوں، یا اللہ! میرے شیخ، میرے مرشدِ پاک کا دل ہمیشہ سلیم رکھنا میرے متعلق۔ کاش ایک دن اللہ رحمٰن کے ساتھ بھی یہی فکر دل میں پیدا ہو۔ یہ احساس بھی آپ کی برکت، دعا اور ذکر کے نتیجے میں اللہ رحمٰن نے کھولا۔ کچھ عرصہ میں نے نماز میں قلیل تسبیحات اور ذکرِ جہری کو دینی خدمات، تحریر و تصنیف کی شکل میں اور حضرت کے ارشادِ گرامی کی تعمیل میں اپنے علاقہ میں مسجد کی کوشش میں، کیونکہ مصروف تھا، بندہ نے افسوس کے ساتھ اس پر اکتفا کیا تھا اور طفل تسلی دی اپنے آپ کو کہ سب ٹھیک ہے۔ نادم اور شرم سے نصیحت اوروں کو کرنا چھوڑ دیا کہ مجھے نفاق کی۔۔۔۔ لیکن اپنی نفس کی اصلاح سے بہت غافل ہوگیا۔ اب آپ کی دعا اور توجہ کی برکت سے اپنے رذائل جو نظر آ رہے ہیں، وہ عرضِ خدمت ہیں۔
جواب:
یہ خیر، یہ تو میں بعد میں دیکھ لوں گا۔ لیکن میں ایک بات عرض کروں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے تھے کہ "جب میں اپنے اندر کوئی عیب دیکھتا ہوں تو میں اس کے بارے میں وعظ کہہ دیتا ہوں۔" تو دوسروں کو بتاتے ہوئے انسان کو خود ہی پتا چل جاتا ہے کہ مجھ میں بھی یہ عیب ہے، تو اس کی اصلاح بھی ہوجاتی ہے۔ تو دوسروں کو۔۔۔۔ ایک دفعہ ایک شخص تھے، وہ جو ہے ناں، وہ ہر ایک شخص سے کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حج کرائے۔ کسی نے کہا، آپ کوئی اور دعا کسی کے لیے نہیں کر سکتے، صرف یہی دعا آپ کو پسند ہے؟ انہوں نے کہا، اصل میں میں خود حج کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور میں نے سنا ہے کہ جو دعا کوئی کسی مسلمان کے لیے کرتا ہے تو فرشتے ان کے لیے وہی دعا کرتے ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کہ فرشتے میرے لیے یہی دعا کریں گے تو پھر قبول ہوجائے گی، پھر میں حج کر لوں گا۔ تو اصل بات یہ ہے کہ آپ دوسروں کے لیے اچھا سوچیں، ان سے اپنے آپ کو اچھا نہ کہیں اور جو غلطی ہو تو اس غلطی کو بتا دیا کریں، لیکن اس غلطی کو اپنے اندر بھی محسوس کر لیا کریں، جو اگر ہو تو۔ تو اگر کوئی اپنے آپ کو اچھا نہیں کہتا ہو تو دوسروں کو کہنے سے غلطی نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ ہمارے شیخ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت، وہ جو فرمایا ہے کہ جو ہے ناں، وہ کیوں وہ بات کہتے ہو جو آپ مطلب کرتے نہیں ہو، ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾4 تو انہوں نے عرض کیا کہ حضرت، اس سے تو دعوت بہت مشکل ہوگئی، مطلب دعوت دینا۔ تو فرمایا، دعوت مشکل نہیں دعویٰ، دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ دعویٰ سے ممانعت ہے کہ آپ اپنے آپ کو اچھا نہ کہیں۔ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ﴾، یعنی اپنے آپ کو اچھا کیوں کہتے ہو، ﴿مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾، جو آپ کے اندر ہے ہی نہیں؟ مطلب یہ ہے کہ دعویٰ نہ کرو، دعویٰ نہ کرو البتہ یہ ہے کہ دعوت تو دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک آدمی جوا کھیل رہا ہے، تو کیا کسی کو وہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ جوا نہ کھیلیں؟ ظاہر ہے، مطلب ہے اس کے اندر خود جوا موجود ہے لیکن دوسرے کو کہہ سکتا ہے۔ بلکہ آپ کو میں پتے کی بات بتاؤں، یہ جواری لوگ جو ہوتے ہیں ناں، یہ اپنی اولاد کو جوا نہیں کھیلنے دیتے کیونکہ ان کو اس کی بیماریوں کا پتا ہوتا ہے، کہ ان کو نقصانات کا پتا ہوتا ہے، لہٰذا اپنی اولاد کو اس سے بچاتے ہیں۔ تو پتا چل گیا کہ جو بیماری اگر کسی میں ہو بھی تو وہ مطلب دوسرے کو مطلب روکتے ہیں۔ تو اسی طریقے سے اگر آپ اپنے اندر کچھ غلطیوں کو سمجھ بھی لیں کہ ہیں، تو اس کا بھی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ دوسروں کو اس سے بچائیں، تو اس سے دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا، بلکہ آپ کے experience سے ان کو فائدہ ہوگا اور آپ کو بھی ان شاء اللہ نقصان نہیں ہوگا، اس وجہ سے یہ عمل جاری رکھیں۔
سوال نمبر 17:
یہ مراقبہ، آپ نے ایک استعمال کیا۔ یہ کیا ہے؟ میں نے پہلی بار سنا ہے۔
جواب:
مراقبے کا لفظ۔ بہت اچھا سوال ہے۔ اصل میں میں آپ کو ایک بات بتاؤں، کبھی آپ نے بلی کو چوہے پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ کیا کرتی ہے وہ؟ (نہیں، وہ صحیح ہے) لیکن اس سے پہلے کا process بتاؤ ناں۔ وہ تو گھات لگا کے بیٹھتی ہے اور اس کے پورے حواس چوہے کی طرف ہوتے ہیں۔ اس کے کان، اس کے بال، اس کی آنکھیں، اس کے پیروں کی position۔ مطلب اس کا منہ، مطلب ساری چیزیں alert ہوتی ہیں کہ بس وہ جو جو کام اس نے کرنا ہے، وہ مطلب کر سکے اس وقت۔ ٹھیک ہے ناں؟ بس مراقبے کی یہی کیفیت ہے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو روحانیت کی چیز ہے، جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے آپ alert بیٹھ جائیں کہ اگر وہ آپ کے لیے available ہو تو آپ اس کو catch کر لیں اور آپ اس کو catch کر لیں، یہ مراقبہ ہے۔ اب مثال کے طور پر، یہ جو ہے ناں، وہ یہ بات ہے کہ میرا دل ذکر کر رہا ہے۔ تو اب دل تو ویسے تو انسان کوئی دل کو ذکر کرا تو نہیں سکتا، لیکن دل ذکر کرتا ہوتا ہے، اب صرف یہ ہے کہ آپ اس کو catch نہیں کر پا رہے ہوتے، تو آپ اس کے تصور میں بیٹھ جاتے ہیں کہ میرا دل ذکر کر رہا ہے، ذکر کرا نہیں رہے ہوتے کہ میرا دل ذکر کر رہا ہے، اس کے تصور میں بیٹھ جاتے ہیں اور ہوتے ہوتے، ہوتے وہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
سوال نمبر 18:
حضرت! مراقبے میں بتائیں کہ اس کے لیے کیا چیز ضروری ہے اور کیسے کیا جاتا ہے؟
جواب:
اصل میں یہ بات ہے کہ یہ تمام چیزیں تدریج کے ساتھ ہوتی ہیں، تربیت ہمیشہ تدریج کے ساتھ ہوتی ہے۔ جیسے gymnastic ہے ناں، gymnastic، یہ اس میں جو محیر العقول کام لوگ کرتے ہیں، تو لوگ حیران ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسے کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ پہلے دن وہ کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے، لیکن وہ ان کی training ہوتی ہے اور ہوتے ہوتے، ہوتے ایک وقت میں وہ کام بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح تدریج کے ساتھ اگر انسان لگا رہے تو پھر ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے پہلے کیا کرنا پڑتا ہے؟ پہلے لسانی ذکر ہم دیتے ہیں، جیسے ہم ان کو 300 دفعہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ‘‘، 200 دفعہ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘، یہ دے دیا ان کو۔ یہ ایک قسم کی پابندی کی عادت ان کو ہوگئی کہ میں نے روز ایک وقت بیٹھنا ہے اور میں نے ایک عمل اس کو بتا دیا، ساتھ کرنا ہے، اس کا اپنے آپ کو عادی بنانا ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ تو پہلی assignment یہ مکمل ہوگئی، چالیس دن کی ہے۔ اس کے بعد پھر ہم ان کو یہ بتاتے ہیں، کچھ ذکرِ جہری بتاتے ہیں۔ ذکرِ جہری ایسی چیز ہے کہ وہ انسان، جیسے گرمیوں میں آپ نے دیکھا ہے، پنکھا چل رہا ہوتا ہے تو پنکھے کے شور میں باقی باہر کے شور سارے ختم ہوجاتے ہیں۔ ٹھیک ہے ناں؟ جب کبھی بجلی چلی جاتی ہے تو آپ کو فوراً پتا چلتا ہے کہ باہر تو بہت ساری چیزیں ہو رہی ہیں، آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے ناں کہ یہ پنکھے کی آواز نے ان چیزوں کو دبا دیا تھا۔ تو اسی طریقے سے آپ جب ذکرِ جہری کرتے ہیں، تو آپ باہر کی دنیا سے کٹ جاتے ہیں، تو آپ اپنے اندر مگن ہوجاتے ہیں۔ یعنی گویا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ یعنی مطلب وہ لگے رہتے ہیں اور باہر کی دنیا سے آپ کٹ جاتے ہیں۔ یہ یکسوئی پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اچھا، جس وقت یہ ہوجاتا ہے تو ایک خاص حد تک جب یہ پہنچ جائے، کیونکہ اس کو بھی ہم gradually بڑھاتے ہیں، تو جب ایک خاص حد تک پہنچ جاتے ہیں، تو پھر ہم ان کو یہ بتاتے ہیں، جو ابھی ان کو بتا دیا کہ پھر ان کو کہتے ہیں، اچھا ٹھیک ہے جی، آپ اس طرح کرو کہ آنکھیں بند کر کے بس قبلہ رخ بیٹھ کر، زبان بھی بند اور یہ تصور کر لو کہ ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے اور یہ میرا دل بھی ایک چیز ہے، یہ بھی کر رہا ہے، اب اس کی آواز میں سن لوں۔ تو آپ دل کے کانوں سے اس کو سنتے ہیں، اس کانوں سے نہیں، دل کے کانوں سے۔ مطلب وہ آپ کو۔۔۔۔ یعنی مثال کے طور پر، یہاں جتنے لوگ بیٹھے ہیں، جن کا مراقبہ یہ ہو رہا ہے، یعنی اللہ اللہ جن کو محسوس ہوتا ہے، اگر آپ کہہ دیں ناں ہزار، لاکھ دفعہ کہہ دیں کہ نہیں ہوتا، وہ کہہ دے، اچھا ٹھیک ہے، آپ کا نہیں ہوتا۔ وہ ہنس پڑیں گے کیونکہ ان کا تو ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن جن کا نہیں ہو رہا ہوتا، تو آپ ان کو ایک لاکھ دفعہ بھی کہہ دیں تو وہ کہتے ہیں، کیسے ہوتا ہے؟ سمجھ میں آ گئی ناں بات؟ مطلب یہ ہے کہ ایسی درمیان میں یہ بات ہے۔ تو جس وقت ہونے لگتا ہے تو پھر انسان کو خود ہی محسوس ہوجاتا ہے، کیسے ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت کسی اور کو نہیں بتائی جاسکتی، لیکن وہ ہوتا ہے اور اس کا آدمی کو خود پتا چلتا ہے کہ وہ ہوتا ہے۔ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جسم کا ذرہ ذرہ اللہ اللہ کر رہا ہوتا ہے، ذرہ ذرہ۔ یہ تو دل سے تو ہم ابتدا کرتے ہیں ناں، مطلب شروع یعنی کرواتے ہیں، پھر 5 Sensing points ہیں، قلب ہے، روح ہے، سر ہے، خفی ہے، اخفیٰ ہے، یہاں پر ہم کراتے ہیں۔ پھر اس کے بعد پورے جسم پہ مطلب کہ شروع ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے بعد مزید، الحمد للہ، اس کا ایک لمبا سلسلہ ہے، وہ چلتا ہے۔ تو اس سے پھر آہستہ آہستہ انسان کے اندر یہ capability آ جاتی ہے کہ وہ جو ملاء اعلیٰ کے ساتھ جو چیزیں ہیں، جو ہماری access میں نہیں ہیں، ان کے ساتھ انسان کا رابطہ ہوجاتا ہے۔ تو پھر وہاں سے جو چیزیں ہوتی ہیں، وہ بھی منکشف ہونے لگتی ہیں۔ تو اس طرح مطلب یہ ہے کہ جو چیز پہلے بالکل ہی محسوس بھی نہیں ہوتی تھی، صرف ایک کتابی چیز نظر آتی تھی، وہ انسان کے سامنے نظر آتی ہے۔ تو بہرحال، ناممکن بات بھی نہیں ہے اور ایسے آسان بھی نہیں ہے۔ جو کوشش کر لیتے ہیں، وہ پا بھی لیتے ہیں۔ بس یہ بات ہے۔
سوال نمبر 19:
کچھ لوگ ذرا زیادہ sensitive ہوتے ہیں، تو وہ عبادت کے وقت مطلب زیادہ انہیں وسوسے آتے ہیں، تو اس بارے میں بھی بتا دیں۔
جواب:
آپ نے سوال کیا ہے کہ کچھ لوگ زیادہ sensitive ہوتے ہیں، وہ جب عبادت کرتے ہیں تو ان کو وسوسے آتے ہیں۔ چلے آتے ہیں۔ So what? وسوسوں سے کیا ہوتا ہے؟ جو چیز آپ کے اختیار میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس پر آپ کو پکڑتا بھی نہیں۔ مثال کے طور پر ایک آدمی نعوذ باللہ من ذالک میری reach میں نہیں ہے، میں اس کو کنٹرول نہیں کر سکتا ہوں، لیکن وہ نعوذ باللہ من ذالک گالیاں بک رہا ہے، تو آپ کو اس کا کتنا گناہ ہو رہا ہے؟ آپ کو تو کوئی گناہ نہیں ہو رہا، بلکہ آپ کو جو اس سے تکلیف ہوتی ہے، اس پر آپ کو اجر ملے گا۔ ٹھیک ہے ناں؟ تو وسوسہ یہی چیز ہے کہ شیطان بک رہا ہے ناں؟ وہ تو شیطان کر رہا ہے، آپ تو نہیں کر رہے۔ لہٰذا آپ کو کیا نقصان ہے؟ آپ کو تو کوئی نقصان نہیں۔ اب شیطان یہ پلاننگ کرتا ہے کہ وہ آپ کو اس سے تنگ کرتا ہے کیونکہ آپ اس سے تنگ تو ہوتے ہیں۔ جب شیطان کو پتا لگ جاتا ہے کہ یہ تنگ ہوتا ہے تو مزید ڈالتا ہے۔ جب آپ اس چیز کو پکڑ لیں کہ بھئی، اس سے مجھے کچھ نقصان نہیں ہوتا، مجھے پروا ہی نہیں کرنی چاہیے، آپ پروا کرنا چھوڑ دیں، تو وہ پھر ڈالنا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، میں خواہ مخواہ اپنا وقت کیوں لگاؤں اس پر، یہ تو پروا ہی نہیں کرتا۔ صحابہ کرام کو اتنے خطرناک وساوس آئے تھے کہ آپ ﷺ کے پاس گئے یا رسول اللہ! جو وسوسے ہمیں آتے ہیں تو ہم مطلب یہ ہے کہ ڈر رہے ہیں کہ اس سے بہتر تھا کہ ہم کوئلہ ہوجائیں، یعنی اس کے ظاہر ہونے سے، یہ ہے کہ ہم کوئلہ ہوجائیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا، کیا آپ کی حالت ایسی ہوگئی؟ تو انہوں نے کہا، جی ہے۔ فرمایا: ’’ذَاكَ صَرِیْحُ الْاِیْمَان‘‘5۔ یہی تو اصل ایمان ہے۔ یعنی اس کے باوجود بھی آپ ٹھہرے ہوئے ہیں اور آپ ان کی بات نہیں مان رہے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ایمان ہے ناں؟ ایمان کی وجہ سے آپ بچے ہوئے ہیں ناں؟ ہاں۔ لہٰذا آپ اس کی پروا نہ کریں، چاہے کچھ بھی وسوسے آئیں۔ ہمارے حضرات فرماتے ہیں، وسوسوں کی مثال یہ بجلی کے تاروں کی طرح ہے کہ اس کو کوئی ہٹانے کے لیے بھی ہاتھ لگائے گا تو پکڑ لے گا۔ (تو وسوسے آئیں اس طرح) تو میں نے کہا، بتائیں شیطان ہی کر رہا ہے ناں؟ آپ تو نہیں کر رہے؟ اگر آپ کر رہے ہوتے تو آپ کو کیوں تکلیف ہوگی پھر؟ اگر آپ کر رہے ہوتے تو آپ کو تکلیف ہی نہ ہوتی۔ جو آپ کو تکلیف ہو رہی ہے، تو اس کا مطلب ہے آپ نہیں کر رہے ہیں ناں؟ جب آپ نہیں کر رہے، تو آپ پر اس کا جرم بھی نہیں، تو آپ بھول جائیں بس۔ forget about۔
سوال نمبر 20:
سوال آیا ہے کہ حضرت جی، میرے چار لطائف پر 10-10 منٹ کے مراقبے ہیں۔ اگر لطیفۂ سر پر مراقبہ کر رہی ہوں تو اس پر کچھ محسوس نہیں ہو اور لطیفۂ قلب پر جاری ہو، تو توجہ کس طرف مرکوز رکھنی چاہیے؟
جواب:
ٹھیک ہے جی۔ اصل میں یہ اِس وقت چار لطائف کے ہیں تو آپ نے چاروں کی بات نہیں بتائی، صرف دو کی بتائی ہے کہ لطیفۂ قلب پر تو آپ محسوس کر رہی ہیں، لیکن لطیفۂ روح پر بھی ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ کیونکہ لطیفۂ روح پہ تو سر سے پہلے ہے۔ اگر لطیفۂ روح پر بھی نہیں ہو رہا تو پہلے پھر آپ دو کو چھوڑ دیں، پھر صرف لطیفۂ قلب پر کر لیں، لطیفۂ روح پر کر لیں، پھر لطیفۂ سر بعد میں آئے گا۔ کیونکہ اگر لطیفۂ روح پر نہیں ہو رہا تو پھر آپ ایک step کو چھوڑ رہی ہیں۔ تو اس وجہ سے پہلے آپ لطیفۂ قلب پر، پھر اس کے بعد لطیفۂ روح پر، وہ کر لیں اور جب یہ دونوں چل پڑیں تو پھر لطیفۂ سر پر آئیں گے، ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 21:
اگر مراقبے کے دوران اذان ہوجائے تو مراقبہ روک کر جواب دینا چاہیے یا مراقبہ جاری رکھا جائے؟
جواب:
ہاں، یہ بات ہے کہ مراقبہ اگر جاری مطلب ہو اور اذان ہونا شروع ہوجائے، تو مراقبے کو روکنا چاہیے، حکم تو یہ ہے۔ لیکن مراقبہ ایسے وقت شروع ہی نہیں کرنا چاہیے جس میں اذان متوقع ہو، کیونکہ ٹائم کا تو پتا ہوتا ہے، کتنا ٹائم لگے گا۔ تو اس وقت تو اگر معلوم ہوجائے، جیسے مثال کے طور پر ابھی اذان ہونے والی ہے پونے سات بجے، تو میں اگر چالیس پر مراقبہ شروع کر لوں 15 منٹ کا تو اس میں اذان تو آئے گی۔ تو اگر مجھے پتا ہے کہ اس میں اذان آئے گی تو اس وقت میں شروع ہی نہیں کروں، اس کے بعد کر لوں۔ اور خواتین کو تو چونکہ نماز میں جانا بھی نہیں ہوتا، تو ان کے لیے تو یہ بھی مسئلہ نہیں ہے۔ مردوں کو تو چلو پھر جانا ہوتا ہے، تو ان کی مجبوری ہو سکتی ہے، خواتین کو تو اس کی مجبوری بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق جو ہے، وہ ٹائم جو ہے، اس میں مراقبہ کر لیں۔
سوال نمبر 22:
سوال پوچھنا ہے کہ لائف انشورنس ہے، اس میں ایک نیا وہ آیا ہے، تکافل۔ اس میں کہتے ہیں کہ وہ شریعہ بورڈ بیٹھا ہوا ہے۔
جواب:
اس کے متعلق کسی عالم سے پوچھیں۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت! اذکار میں اور مراقبات میں عُجب کا جو element ہے، اس عُجب کے element کو کیسے negate کیا جائے؟ کیسے پتا چلتا ہے کہ یہ عُجب ہے، نہیں ہے، بندے کو بعض اوقات feel ہوتا ہے، یا اس element کو کیسے negate کیا جائے؟
جواب:
سوال پوچھا ہے کہ عُجب کو کیسے مطلب ہم negate کر لیں، کہ عُجب اگر ہو رہا ہو۔ اصل میں عُجب کو سمجھنا چاہیے کہ عُجب ہوتا کیا ہے۔ عُجب اصل میں یہ ہوتا ہے کہ جب انسان کی نظر اپنے اوپر پڑ جائے، اللہ پر نہ ہو، یعنی وہ عمل انسان اپنی طرف وہ کر لے کہ میں نے کر لیا اور اللہ جل شانہٗ کی جو مدد شاملِ حال ہوتی ہے، وہ اس کو اگر بھول جائے، تو بات یہ ہے کہ عُجب جو ہے ناں، وہ تو تکبر کے بعد نمبر 2 حرام چیز ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ اگر عُجب کوئی feel کرے، عُجب کوئی feel کرے، تو پھر کیا عُجب رہ سکتا ہے؟ تو عُجب ختم ہے! لہٰذا اس کا اپنا علاج خود ہی ہے۔ اگر عُجب feel کوئی کر رہا ہے تو سمجھو کہ پھر ظاہر ہے مطلب یہ ہے کہ پھر تو وہ کیسے یعنی اپنے آپ کو اچھا تصور کرے گا، وہ کہے کہ میں تو برا ہوں۔ تو جس کی اپنی برائی کی طرف نظر پڑ جائے، تو عُجب ختم ہوگیا ناں؟ اس کو عُجب رہا نہیں۔ لہٰذا جو عُجب feel کرے تو سمجھو کہ وہ اپنے آپ کو feel کرے کہ یہ تو میرا کام ہے ہی نہیں، تو پھر اللہ پاک کی مدد ہی ہوگی، تو لہٰذا عُجب ختم ہوجائے گا خود بخود۔
سوال نمبر 24:
توکل کے بارے میں بتا دیں۔
جواب:
جی، یہ توکل۔ اس پہ علمی بات بتاؤں یا عملی بات بتاؤں؟ اچھا، عملی بات کے لیے تو آپ کو باقاعدہ تصوف میں آنا پڑے گا کیونکہ تصوف عملی چیز ہے۔ مطلب وہ اس میں جو ہے ناں، وہ یہ 10 مقامات میں سے ایک ہے۔ تو اس سے پہلے آپ کو سات مقامات حاصل ہوں گے تو آٹھواں مقام حاصل ہوگا ناں؟ تو ظاہر ہے عملی طور پر تو تب ہوگا جب آپ اس process میں in ہوجائیں گے۔ البتہ اس کی علمی بات میں بتا سکتا ہوں۔ علمی بات یہ ہے کہ توکل کا مطلب اللہ پر بھروسہ اور اللہ پر بھروسے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسباب پورے اختیار کر لیں کیونکہ اللہ کا حکم ہے۔ آپ کسی چیز کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم چھوڑ نہیں سکتے، تو اسباب کا اختیار کرنا چونکہ اللہ کا حکم ہے، تو اختیار کریں گے، لیکن اس کا نتیجہ خدا پر چھوڑیں گے۔ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو یہ ہوجائے گا، اگر منظور نہیں ہوا تو نہیں ہوگا۔ میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم اونٹ کے گھٹنے کو باندھ کر توکل کریں؟ عقال اس کو کہتے ہیں، عقال۔ یا پھر یہ ہے کہ اونٹ کے گھٹنے کو چھوڑ کر ہم وہ توکل کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ کے گھٹنے کو باندھ کر توکل کریں۔ اس کا مطلب ہے اسباب اختیار کرنے کا حکم ہے۔ تو اسباب اختیار کریں گے لیکن نتیجہ خدا پر رہے گا، کیونکہ بعض دفعہ انسان بہت کوشش کر لیتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ کام نہیں ہوتا تو اللہ کو منظور نہیں ہے۔ تو اس وجہ سے اللہ پاک کے جو ہے ناں، مطلب اس پر جو ہے نظر ہو، تو یہی اصل میں۔۔۔۔ تو اللہ پر نظر ہونے کے لیے ظاہر ہے وہ تمام چیزیں کرنی پڑتی ہیں اس عملی طور پر اس پہ آنے کے لیے، جب وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے، تو پھر انسان کی اللہ پر نظر ہوتی ہے، ورنہ ضرور انسان کی نظر آگے پیچھے کسی اور پہ پڑ جاتی ہے کہ فلاں کر لے گا، فلاں کر لے گا، فلاں کر لے گا، تو وہ اس میں وہ توکل والی بات رہ جاتی ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ