نبوت اور ولایت کا ناقابلِ عبور فرق

درس نمبر 201، دفتر اول ( یہ بیان 13 ستمبر 2017 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھمجناب مدثر شہزاد صاحب
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ مکتوب اس گہرے نکتے کی وضاحت کرتا ہے کہ انبیاء کے کامل پیروکار (اولیاء)، اپنی مکمل اتباع اور محبت کی وجہ سے اپنے نبی کے تمام کمالات کو جذب کر لیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی ولی کبھی کسی نبی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نبی "اصل" ہیں اور ولی ان کا "ظل" (سایہ)، اور سایہ کبھی اصل کے برابر نہیں ہو سکتا۔ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ "تجلیِ ذاتی" اگرچہ حضور اکرم ﷺ کا خاصہ ہے، مگر تمام انبیاء کو بھی یہ فیض آپ ﷺ کے طفیل ہی ملتا ہے، جبکہ امتِ محمدیہ کے اولیاء کو یہ دولت آپ ﷺ کی کامل پیروی کی بدولت عطا ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ امت "خیر الامم" ہے اور اس کے علماء کا درجہ بنی اسرائیل کے انبیاء جیسا قرار دیا گیا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج بدھ کا دن ہے، بدھ کے دن ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات شریف کا درس ہوتا ہے۔

مکتوب نمبر 248

متن: یہ مکتوب بھی عالی جناب مرزا حسام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا۔۔۔ اس بیان میں کہ انبیاء علیہم والتسلیمات کی مکمل تابعداری کرنے والوں کی ان کے تمام کمالات سے بطریقِ تابعداری کچھ نہ کچھ حصہ ملتا ہے۔ اور اس بیان میں کہ کوئی ولی کسی نبی کے مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس بات کی تحقیق میں کہ آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام کے لئے جو تجلی ذاتی مخصوص ہے اس کے کیا معنی ہیں اور اس کے مناسب بیان میں۔


اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰٮنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌ (اعراف 7 آیت 43) (اللہ تعالیٰ کا شکرہے جس نے ہم کو اس طرف ہدایت کی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ کرتا تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے بیشک ہمارے رب کے رسول حق بات لے کر آئے ہیں) صَلَوَاتُ اللّٰہِ تَعَالیٰ و تَسْلِیْمَاتُہٗ سُبْحَانَہٗ عَلَیْھِمْ وَ عَلیٰ اِتِّبَاعِھِمْ و اَنْصَارِھِمْ و اَعْوَانِھِمْ و خَزَنَتِہٖ اَسْرَارِھِمْ (ان پر اور ان کے تابعداروں پر اور ان کے انصار اور ان کے مددگاروں اور ان کے اسرار کے محافظوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و سلام ہو)۔۔۔

انبیا علیہم الصلوات و التسلیمات کے کامل متبعین کمال متابعت و فرطِ محبت کے باعث بلکہ محض (اللہ تعالیٰ کی) عنایت و بخشش کی وجہ سے اپنے متبوعہ (اتباع کردہ) انبیاء کے تمام کمالات کوجذب کر لیتے ہیں بلکہ ان کے رنگ میں پورے طور پر رنگے جاتے ہیں، یہانتک کہ متبوعان (جن انبیاء کی پیروی کی گئی) اور متابعان (اتباع کرنے والے اولیا) کے درمیان اصالت و تبعیت اور اولیت و آخریت کے علاوہ کچھ فرق نہیں رہتا۔ باوجود اس امر کے کوئی تابع (اتباع کرنے والا) خواہ وہ افضل الرسل (صلی اللہ علیہ و سلم) کے تابعداروں ہی میں سے ہو کسی نبی کے مرتبہ کو نہیں پہنچتا اگرچہ وہ نبیوں میں سب سے کم درجہ کا نبی ہو۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صدیقؓ جو کہ انبیاء کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل ہیں اُن کا سر ہمیشہ اس پیغمبر کے زیر قدم ہوگا جو تمام پیغمبروں سے کم درجہ ہے۔۔۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تمام انبیاء اور ان کے ارباب کے تعینات کے مبادی مقامِ اصل سے ہیں اور تمام اعلیٰ و اسفل امتوں اور ان کے ارباب کے مبادی تعینات اس اصل کے ظلال کے مقامات سے اپنے اپنے درجے کے موافق ہیں۔ پس اصل اور ظل کے درمیان مساوات کس طرح ہوسکتی ہے۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے وَلَقَدۡ سَبَقَتۡ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِيۡن، اِنَّهُمۡ لَهُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ، وَاِنَّ جُنۡدَنَا لَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ (صافات 37 آیت 171 تا 173) (اور بیشک ہمارے مرسلین بندوں کے لئے ہمارا قول پہلے ہی سے طے شدہ ہے کہ یقیناً وہی غالب رہیں گے اور یقیناً ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا)


تشریح: تھوڑا سا آج کل کے حالات کے لحاظ سے یہ بات سمجھنا آسان ہو جائے گا، وہ یہ ہے کہ یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے Ground floor ہے مطاف اور جو بیسمنٹ کے ارد گرد جگہ ہے جو اب مل گئے ہیں، یہ سب Ground floor میں آگئے ہیں، پھر اس کے بعد mezzanine ہے، پھر اس کے بعد First floor ہے، پھر اس کے بعد Top floor ہے۔ اب اصولی بات یہ ہے کہ جو mezzanine والے ہیں سب سے پہلی صف جو اس کی ہے، وہ گراونڈ فلور کی سب سے آخری صف کے پیچھے ہے اجر کے لحاظ سے، جو mezzanine والے ہیں ان کی جو پہلی صف ہے وہ اصل میں نیچے Ground floor کی آخری صف کے بعد شمار ہوگا اور اس کی جو آخری صف ہوگی اس کے بعد First floor کی جو پہلی صف ہوگی وہ شمار ہوگی، اور اس کی جو آخری ہے اس کے بعد Top floor کی پہلی صف شمار ہوگی۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبروں کا سارا نظام چونکہ ground پر ہے، جو امتی ہیں وہ mezzanine سے start ہوں گے، پھر اس کے بعد First floor ہے۔ اس وجہ سے ان تک پہنچنا نا ممکن ہے، mezzanine میں تو صحابہ کرامؓ ہوں گے، پھر اس کے بعد تابعین ہوں گے، پھر اس کے بعد سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔ تو یہ چیز اگر آپ دیکھیں تو اس طریقے سے ہے۔ الحمد اللہ بہت اچھی explanation سمجھ میں آگئی۔

متن: پس اصل اور ظل کے درمیان مساوات کس طرح ہوسکتی ہے۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے وَلَقَدۡ سَبَقَتۡ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِيۡنَ، اِنَّهُمۡ لَهُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ، وَاِنَّ جُنۡدَنَا لَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ1 (اور بیشک ہمارے مرسلین بندوں کے لئے ہمارا قول پہلے ہی سے طے شدہ ہے کہ یقیناً وہی غالب رہیں گے اور یقیناً ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا) اور یہ جو کہتے ہیں کہ تجلیٔ ذات تعالیٰ و تقدس انبیاء کے درمیان حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات والتحیات کے لئے مخصوص ہے اور آں سرور صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل تابعداروں کو بھی اس تجلی سے حصہ حاصل ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دوسرے انبیاء کو تجلی ذات کا حصہ حاصل نہیں ہے اور تابعداری کی وجہ سے ان کے کاملوں کو نصیب ہے۔

تشریح: محمدی مشرب کا حضرت نے introduction دیا تھا، تو امتیوں میں جو محمدی مشرب کے لوگ ہیں، فرماتے ہیں کہ ان کے لئے بھی اس کی جزا ہے، تو یہ بات ہے۔ تو یہ ما شاء اللہ بہت اہم تشریح ہو رہی ہے کہ اس میں جو Questions raise ہو سکتے تھے ان کے ذریعے سے چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ متن: حاشا و کلا (ہرگز ایسا نہیں ہے) کہ کوئی اس سے یہ مطلب تصور کرے کیونکہ اس میں اولیا کی انبیاء پر فوقیت ہوتی ہے۔۔۔ بلکہ آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوات و التسلیمات پر اس تجلی کے مخصوص ہونے کے یہ معنی ہیں کہ دوسروں کو اس تجلی کا حاصل ہونا آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اور تبعیت (اتباع) کی وجہ سے ہے، اور انبیا علیہم الصلوٰۃ و السلام کو بھی اس تجلی کا حصول آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل سے ہے، اور اس امت کے کامل اولیا کو بھی آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیروی کی وجہ سے حاصل ہے۔ انبیاء اس نعمتِ عظمیٰ کے دستر خوان پر آپ علیہ الصلوات و التحیات کے طفیلی و ہمنشین ہیں اور اولیا (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے) خادم، پس خوردہ کھانے والے اور ہمنشین و طفیلی اور خادم پس خوردہ کھانے والے کے درمیان بہت فرق ہے۔ اس مقام میں قدم کو لغزش ہو جاتی ہے۔ 

تشریح: مطلب یہ ہے کہ آسمانِ ہدایت کے تارے ہیں انبیاء اور ہر تارے کی اپنی روشنی ہے یعنی ہر ایک ساتھ اپنی امت ہے۔ تو جو جو ان سے روشن ہے، جو ان کا چاند ہے یعنی ستاروں کا، وہ تو ظاہر ہے کہ ان تاروں کی طرح تو نہیں ہے، روشن تو ہے لیکن تاروں کی طرح نہیں ہے، یعنی ظلال والی جو بات ہے۔ تو یہ اصل میں بنیادی بات ہے کہ فرمایا کہ چونکہ آپ ﷺ کے ذریعے سے سب کو ملتا ہے، انبیاء کو بھی ملتا ہے اور امتیوں کو بھی ملتا ہے۔ انبیاء آپ ﷺ کے ہم نشین ہیں، ساتھ بیٹھے والے ہیں، اور باقی خدام ہیں، ان کو بھی ملتا ہے۔ اب جن کی دعوت کی جاتی ہے، اُن کے لئے جو تیار کیا جاتا ہے تو ان کے ساتھ آنے والے بھی وہ کھا لیتے ہیں۔ لیکن جو کھانے والے ہیں ان کو بھی پتا ہوتا ہے اور کھلانے والے کو بھی پتا ہوتا ہے کہ کھانا تھا کس کے لئے۔


متن: اس تحقیق میں اور اس شبہ کے دُور کرنے کے سلسلہ میں اس فقیر نے اپنے مکتوبات و رسائل میں متعدد توجیہات کا ذکر کیا ہے اور حق وہی ہے جو میں نے اللہ سبحانہ، و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان مسودوں (مکتوبات) میں تحقیق کی ہے۔

آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ اگرچہ تمام انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کو آں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل اس تجلی سے حصۂ وافر نصیب ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ولایتِ خاصہ نے ان کی امتوں کے اولیا میں سرایت نہیں کی اور نہ اس تجلی سے ان کو کوئی حصہ ملا کیونکہ جب ان کے اصول میں یہ دولت طفیلی اور عکسی طور پر ہو تو فروع میں عکس کے عکس کو کیا حاصل ہو سکتی ہے چنانچہ اس معنی کا مصداق کشفِ صریح ہے، استدلالِ عقلی پر مبنی نہیں۔۔۔

اور جو کچھ اس سے پیشتر ذکر کیا گیا کہ کامل پیروی کرنے والے کمال متابعت کے سبب اپنے متبوعوں کے پورے پورے کمالات جذب کر لیتے ہیں۔ ان کمالات سے مراد متبوعوں کے اصلی کمالات ہیں نہ کہ مطلقاً، تاکہ تعارض پیدا نہ ہو۔ بلکہ یہ لوگ اپنے انبیا میں سے ہر ایک نبی کی ولایتِ مخصوصہ سے بہرہ ور ہوئے ہیں، اور چونکہ سب امتوں کے درمیان یہی امت پیروی کے باعث اس تجلی (ذاتی) سے مخصوص ہے اور اس دولتِ عظمیٰ سے مشرف ہے لہٰذا (یہ امت) خیر الامم ہوگئی، اور اس امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے رنگ میں ہوگئے۔ ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ وَاللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ‏  (جمعہ 62 آیت4) (یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے)۔

تشریح: مطلب ان کی بات یہ ہے کہ یہ انبیاء تو نہیں ہیں، لیکن انبیاء کی طرح ہیں۔

متن: (یہ فقیر) چاہتا تھا کہ اس ولایتِ خاصہ کی خصوصیات اورفضائل میں سے کچھ تحریر کرے لیکن وقت کی تنگی نے موافقت نہ کی اور کاغذ بھی کوتاہ ہوگیا۔۔۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عنایت سے علوم و معارف ’’بارانِ نیساں‘‘ کی طرح برس رہے ہیں اور عجیب و غریب اسرار پر اطلاع بخش رہے ہیں اس راز کے محرم اپنی اپنی استعداد کے موافق میرے فرزندانِ گرامی ہیں، کیونکہ دوسرے دوست چند روز حضور میں ہیں اور چند روز غیبت میں۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ہر چند ولی، ولیِ کامل ہو لیکن صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔۔۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا شوق حد سے بڑھ گیا ہے۔ جو صحیفہ گرامی اس فقیر کے نام تحریر فرمایا تھا اس کے پہنچنے سے مشرف ہوا۔۔۔ دیدِ قصور (اعمال کی کوتاہی کو نظر میں رکھنا) بہت بڑی نعمت ہے، لیکن تمام احوال میں میانہ روی بہت بہتر ہے۔ افراط، تفریط کی طرح حدِ اعتدال سے باہر ہے۔۔۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی سَائّرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفےٰ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ الصَّلَوَاتِ وَالتَّسْلِيْمَاتِ (اور سلام ہو آپ پر اور ان سب پر جو ہدایت کی پیروی کریں اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت اپنے اوپر لازم کرلے)۔...... تشریح: اس میں حضرت نے جو بات فرمائی ہے کہ جو انبیاء ہیں وہ تو آپ ﷺ کے ساتھی ہونے، ہم نشین ہونے کے ذریعے سے لے رہے ہیں اور جو خدام ہیں چونکہ بعد میں ان کو ملتا ہے تو ان کے اہلِ خدمت ہونے کی وجہ سے لے رہے ہیں۔ لہٰذا درجہ کے لحاظ سے تو آپ ﷺ سب سے اونچے ہیں، پھر اس کے بعد انبیاء کرام ہیں، پھر اس کے بعد آپ ﷺ کے خدام ہیں۔ اور خدام میں پھر دو قسم کے ہیں، ایک خدام جو ہر وقت حاضر رہے ہیں یعنی موجود رہے، ان کا مقام سب سے اونچا ہے اور وہ خدام جو بعد میں آئے تھے، جنہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا نہیں ہے، ظاہر ہے ان کو بھی ملا ہے، لیکن ان کو بھی اپنے Floor پر ملا ہے۔ تو جن کا جو Floor ہے اگر یہ سمجھ میں آگیا ہے تو پھر کافی آسانی ہو جاتی ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ




  1. (صافات: 171 تا 173)

نبوت اور ولایت کا ناقابلِ عبور فرق - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ - دوسرا دور