مولانا روم کا پیغام: ادب کی توفیق اور بے ادبی کی مذمت

( یہ بیان 23 اپریل 2024 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان مثنوی روم کی روشنی میں "ادب" کی اہمیت کو دین کی بنیاد قرار دیتا ہے، جبکہ بے ادبی، جس کا پہلا مظاہرہ شیطان نے کیا، ہر قسم کی روحانی محرومی کا سبب ہے۔ بیان میں بنی اسرائیل کی مثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے کہ من و سلویٰ جیسی آسمانی نعمتوں کی ناشکری اور بے ادبی نے انہیں ان نعمتوں سے محروم کر دیا۔ شکر کو ایک مشکل اور اعلیٰ روحانی مقام قرار دیا گیا ہے جس کا تعلق فنائے نفس (اپنے آپ کو مٹانے) سے ہے، اور یہی شیطان کا اصل ہدف ہے۔ بے ادبی اور گناہوں پر خاموشی اجتماعی عذاب کا باعث بنتی ہے، جبکہ ناشکری ذاتی زندگی میں بھی تباہی لاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دین سراسر ادب کا نام ہے اور تمام نعمتوں کا دار و مدار شکر اور عاجزی پر ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے، منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی ’’مثنوی شریف‘‘ کا درس ہوا کرتا ہے اور فارسی والا حصہ تو اَلْحَمْدُ للہ! مکمل ہوگیا ہے۔ اب اس کا جو اردو منظوم ترجمہ ہے، اس سے درس ہورہا ہوتا ہے۔ تو دفتر اول کی حکایت نمبر 4 سے ابتدا ہورہی ہے۔

دفتر اول حکایت نمبر 4


در خواستنِ توفیقِ رعایتِ ادب و خامتِ بے ادبی

رعایتِ ادب کی توفیق کی خواہش اور بے ادبی کی مذمت


یہ ادب جو ہے، یہ بہت اہم چیز ہے، لیکن کچھ وجوہات سے لوگ اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ سب سے پہلے جو بے ادب تھا، وہ شیطان تھا، جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا اپنے نفس کے مقابلہ میں خیال نہیں کیا اور بے ادبی کرکے راندۂ درگاہ ہوگیا۔ تو وہ اب بھی یہی کرتا ہے کہ لوگوں میں بے ادبی پیدا کرتا ہے۔ اس وجہ سے بے ادبی خطرناک چیز ہے۔ تو حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ چونکہ عالم بھی تھے بہت بڑے اور شیخ بھی تھے، عاشق بھی تھے، تو اس وجہ سے ان کے اوپر یہ ساری باتیں کھلی تھیں، تو انہوں نے اس کو سمجھانے کے لئے یہ حکایت بیان کی ہے۔

1

میں خدا سے مانگوں توفیقِ ادب

فضل سے محروم ہے جو بے ادب


جیسا کہ شعر سے ظاہر ہے، کہ یہ دعائیہ کلمہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتا ہوں ادب کی، کیونکہ اللہ جل شانہٗ کے فضل سے بے ادب محروم ہوجاتا ہے، جیسے مشہور ہے قول: بے ادب بے نصیب، با ادب با نصیب۔ تو اس وجہ سے ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں با ادب بنا دے۔

بے ادب خود کو نہ صرف برباد کرے

کل آفاق میں فتنہ و فساد کرے

جو بے ادب ہوتا ہے، وہ خود صرف اپنے آپ کو برباد نہیں کرتا، بلکہ اس کی وجہ سے پورے عالم کے اندر فتنہ و فساد برپا ہوجاتا ہے۔ یہ جو خوارج تھے، انتہائی بے ادب تھے، تو اس کی وجہ سے کتنا بڑا فتنہ برپا ہوگیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو باقاعدہ ان کے خلاف پوری جنگ لڑنی پڑی۔ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھی، بلکہ صحابہ کرام سے فرمایا تھا (دیکھیں! ذرا اچھی طرح غور سے سن لیں) کہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جن کی عبادات اور مجاہدات اتنے ہوں گے کہ تم اپنے (آپ کو) ان کے سامنے ہیچ سمجھو گے، لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ یعنی مقصود کو نہیں پائیں گے۔ یعنی وہ اتنے زیادہ سخت ہیں اس مسئلہ میں کہ جنگ سے بھاگتے نہیں تھے، وہ اپنے آپ کو زنجیروں سے جکڑ لیتے تھے، اور کپڑے کی یہ بات تھی کہ کپڑا ناپاک ہوتا تو کپڑے کو دھوتے نہیں تھے، کاٹ لیتے تھے یعنی اس حد تک وہ سختی اپنے اوپر بھی کرتے تھے، لیکن یہ سختی دوسروں پر بھی کرتے تھے، مطلب یہ ہے کہ وہ بے ادبی اور گستاخی کرتے تھے، وہ کسی کی نہیں سنتے تھے، اپنے آپ کو ہی عالمِ کُل سمجھتے تھے اور سمجھتے کہ قرآن تو ہمیں ہی صرف آتا ہے، کسی اور کو نہیں آتا، یہ ان کی غلطی تھی، جس کی وجہ سے وہ بڑے بڑے علماء اور فقہاء کے قاتل بنے اور انہوں نے بہت فتنہ و فساد کیا۔

یعنی ایک شخص کی بے ادبی سے دوسرے لوگوں کو بھی ضرر پہنچتا ہے۔ کیونکہ ایک تو جب لوگ کسی دنیوی مصلحت سے اس کی برائی دیکھ کر خاموش ہو رہیں گے تو باوجود قدرتِ منع کے ان کا سکوت کرنا گناہ ہو گا۔ حدیث میں وارد ہے "مَنْ رَأٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرَہٗ بِیَدِہٖ وَ اِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ وَ اِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَ ذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ"۔ (صحيح مسلم) یعنی "جو شخص کوئی بُری بات دیکھے تو چاہیے کہ اس کو ہاتھ سے بند کرے۔ اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے۔ اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو دل سے بُرا سمجھے۔ اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے"۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بری بات کو دل سے برا نہ سمجھنے میں عدمِ ایمان کا اندیشہ ہے۔ دوسرے یہ کہ جب بے ادب کی معصیت کا وبال پڑے گا تو دوسرے لوگ بلکہ وحوش و طیور تک اس میں مبتلا ہوں گے۔

مطلب یہ ہے کہ بہت ہی خطرناک قسم کی صورتحال ہے

پیغمبرِ خدا صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا ہے: "مَا مِنْ رَّجُلٍ يَّكُوْنُ فِیْ قَوْمٍ يَّعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِیْ يَقْدِرُوْنَ عَلٰی اَنْ يُغَيِّرُوْا عَلَيْهِ وَ لَا يُغَيِّرُوْنَ إلَّا أَصَابَهُمُ اللهُ مِنْهُ بِعِقَابٍ قَبْلَ أَنْ يَّمُوْتُوْا۔ (مشکوٰۃ) یعنی "جب کس قوم میں کوئی آدمی گناہ کرتا ہے اور وہ لوگ اس کو منع کر سکتے ہوں مگر منع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے ضرور ان لوگوں کو زندگی کے اندر اندر عذاب میں مبتلا کرتا ہے"

اب دیکھیں! دبئی کے اندر مندر بن گیا، تو کتنا بڑا وبال آیا، اتنا بڑا سیلاب ان کی زندگی میں کبھی نہیں آیا، گاڑیوں کی قطار کی قطار پھنسی ہوئی ہے، بدبو کا عالم ہے، تین تین دن جہاز رکتے ہیں۔ تو یہ کیا بات ہے؟ کیونکہ وہاں لوگ خاموش تھے، انہوں نے کوئی انکار نہیں کیا یعنی اتنی بڑی بات ہورہی تھی، لیکن کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی، تو پھر وبال تو آنا تھا، بے حیائی تو ادھر پہلے سے بہت زیادہ تھی۔ یعنی بے حیائی (اللہ بچائے کہ) اس حد تک کہ ایک آدمی حیران ہوجاتا ہے، لیکن یہ جو کام کہ انہوں نے شرک کا اڈہ بنایا اور اتنا کھلم کھلا، تو پھر تو بات ایسی ہونی تھی۔ تو دیکھیں! ان لوگوں کو زندگی کے اندر اندر عذاب میں مبتلا کرتا ہے، تو سامنے یہ بات آتی ہے اور لوگ پتا نہیں اس کو کس category میں لے جاتے ہیں، پہلے کیوں نہیں ہوا اس طرح؟ اللہ جل شانہ ہماری حفاظت فرمائے۔

بفحوائے "اَلدِّیْنُ کُلُّہٗ اَدَبٌ" بے ادب سے مراد ہر عاصی و گناہگار ہے جس میں نہ صرف تعظیمِ اکابر سے پہلو تہی کرنے والے بلکہ مرتکبِ فواحش اور تارکِ واجبات بھی داخل ہیں۔

یعنی اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پروا نہ کرنے والا بے ادب ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پروا نہیں کرتا، جو کھلم کھلا کرتا ہے اور اس بات سے نہیں ڈرتا، فاسق اسی کو کہتے ہیں، تو بے ادب ہے ناں۔ تو یہ بات ہے کہ دین سارے کا سارا ادب ہے، کیونکہ ’’الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ‘‘ (مسند احمد: 9710) (حیا ایمان کا حصہ ہے) اور دوسری بات یہ ہے کہ انسان اللہ پاک سے حیا کرتا ہے کہ میں کیسے اللہ پاک کے حکم کا انکار کروں، اللہ دیکھ رہے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ اللہ پاک کا ادب یہی ہے کہ اللہ پاک سے حیا کی جائے اور انسان گناہوں میں مبتلا نہ ہو۔ اس لحاظ سے فرمایا کہ دین سارے کا سارا ادب ہے۔

2

مائدہ آسمان سے مفت آتا رہا

بے شراء و بیع ہر اک پاتا رہا

یہ موسیٰ علیہ السلام والا واقعہ ہے۔

یہ بنی اسرائیل کا ذکر ہے کہ ان کے لیے خدا کے فضل سے آسمان سے دو چیزیں بلا محنت و مشقت اترتی تھیں۔ ایک "منّ" تھی جو ترنجبین سے مشابہ تھی۔ دوسرے "سلوٰی" جو بٹیر کے سے پرندے تھے، ان دونوں نعمتوں کو مجازًا خوان کہہ دیا ہے، حقیقتًا خوان نہیں تھا۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلا طلب و بلا مشقت عجیب و غریب طریقے سے یہ انعامِ خداوندی ملتا تھا۔

یعنی دیکھیں! صبح جاتے تھے تو زمین بالکل اس چیز سے بھری ہوتی تھی یعنی ایک میٹھی چیز شبنم کی طرح ماشاء اللہ! جمی ہوتی تھی، اس کو لوگ جمع کرلیتے تھے، پھر کھاتے تھے۔ اور بٹیروں جیسی چیزیں وہ خود بیٹھ بیٹھ کے دعوت دے رہی ہیں کہ ہمیں پکڑو، تو اس کو ذبح کرکے بھون کے کھا لیتے تھے، بڑے مزے تھے، protein بھی تھا اور carbohydrates بھی تھے اور یہ دونوں چیزیں انسان کی زندگی کے لئے چاہئے ہوتی ہیں۔ تو پانی تو تھا ہی، تو بس اس کا مطلب ہے کہ ان کا کام ہورہا تھا، بغیر کسی اور چیز کے، محنت کے ان کو یہ دونوں چیزیں مل رہی تھیں، لیکن کیا ہوا، بے ادب قوم۔

3

قومِ موسیٰ میں جو بولے چند کس

بے ادب اس میں کہاں لہسن عدس



مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں چند لوگ تھے، جو بے ادب تھے اور وہ لہسن اور عدس مانگ رہے تھے۔

﴿فُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَ بَصَلِهَاؕ﴾ (البقرۃ: 61)

ترجمہ: ’’اس کی گندم، اس کی دالیں اور اس کی پیاز‘‘۔

یہ قرآن پاک میں ہے ان کے بارے میں۔ یعنی اللہ پاک نے تم پر احسان کیا، تمھیں ایسی چیزیں عطا فرمائیں، لیکن تم کیا تھے؟ ناشکری کرکے ایسی چیزیں مانگتے ہو، جو اس سے بہت کمتر ہیں۔ اللہ پاک نے جواب بھی یہی دیا ان کو کہ تم اچھے کو چھوڑ رہے ہو اور اس سے کم کو مانگ رہے ہو، یہ کیا بات ہے؟ جیسے کسی کو ایک لاکھ روپے تنخواہ مل رہی ہو، وہ کہتا ہے نہیں نہیں مجھے دس ہزار روپے چاہئے، تو اس کو کیا کہیں گے لوگ؟ تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس کی بے ادبی تھی کہ اللہ پاک کی نعمت کی ناقدری کی۔

قرآن شریف کی سورۂ بقرہ میں یہ قصہ بالتفصیل مذکور ہے۔ یعنی وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی آسمانی نعمت پر شاکر ہونے کے بجائے بے ادبی کے ساتھ سیر و عدس کی خواہش کرنے لگے۔ جو ان کی پستیِ فطرت پر دال تھی۔

یعنی وہ لوگ اس نعمت کے اہل اپنے آپ کو ثابت نہیں کررہے تھے۔

4

خوان آسمان سے پھر آنا بند ہوا

سب قصہ محنت کا پھر پابند ہوا


اللہ پاک نے فرمایا ٹھیک ہے، اگر تم یہی چاہتے ہو تو پھر یہی ہے۔ تو یہ بات ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری نہیں کرنی چاہئے کبھی بھی۔ شکر اتنی بڑی نعمت ہے میں آپ کو کیا بتاؤں اور شکر بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، بہت کم لوگوں کو، بہت کم لوگوں کو، حالانکہ بظاہر شکر زیادہ لوگوں کو نصیب ہونا چاہئے، کیونکہ شکر نعمت پر ہوتا ہے اور نعمت کسی کو مل جائے تو شکر کا مطلب کیا ہے؟ اس شکر سے کسی کی نعمت میں کمی تو نہیں ہوتی، زیادتی ہوتی ہے، تو پھر شکر آدمی کیوں نہ کرے۔ تو عقل بالکل فیل ہوجاتی ہے جو ناشکری کرتا ہے، اس کی عقل بالکل کام نہیں کرتی۔ مجھے بتائیں، کوئی شخص مجھے سمجھائے کہ شکر نہ کرنے والے کی عقل کدھر ہوتی ہے؟ کیونکہ دیکھو! صبر جو ہے، وہ تو مصیبت پر ہے، تکلیف پر ہے، مشقت پر ہے، تو وہ تو ممکن ہے کہ کوئی نہ کرسکے، بظاہر یہ لگتا ہے۔ لیکن نعمت سے کسی چیز کی تکلیف تو نہیں ہے، مشکل تو نہیں ہے، وہ تو آپ کو ایک چیز مل رہی ہے، تو اس پہ آپ نے صرف اس کو ماننا ہے کہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ پاک کا شکر کرنا چاہئے اس پر، تو آپ شکر کررہے ہیں، بس اتنی سی بات ہے۔ اگر اس پر اللہ پاک نعمت اور بھی بڑھائیں تو اس میں آپ کو کیا تکلیف ہے، آپ کو کیا نقصان ہے کہ آپ شکر نہیں کرتے۔ بس اس میں ایک چھوٹی سی (جو اصل میں بہت بڑی) بات ہے، وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس سے زیادہ کا مستحق سمجھتا ہے، نتیجتاً ناشکری کرتا ہے۔ اچھا! زیادہ کا مستحق سمجھنے کا جو علاج ہے، وہ کیا ہے؟ وہ علاج بضد ہوتا ہے، تو اس کا جو علاج ہے، وہ یہی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہ سمجھے اور یہی تصوف ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہ سمجھے، میں تو کسی چیز کے قابل نہیں ہوں، مجھے تو جو مل رہا ہے، اللہ کے فضل سے مل رہا ہے، ورنہ میں کیا ہوں۔ یہی اس کا علاج ہے۔ آدم علیہ السلام نے کیا کہا:

﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الأعراف: 23)

ترجمہ: ’’دونوں بول اٹھے کہ: اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے‘‘۔

تو اس کا مطلب ہے کہ انسان شکر تب کرسکتا ہے، جب اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے۔ اور یوں سمجھیں کہ شکر اصل میں فنائیت کے بعد حاصل ہوتا ہے، جس درجہ کی فنائیت ہوگی، اس درجہ کا شکر حاصل ہوگا، کیونکہ فنائیت کے بعد ہی انسان کو اپنا آپ کچھ نہ ہونا معلوم ہوتا ہے، اس لئے شکر ان تمام مقامات کے بعد ملتا ہے۔ یہ جو دس مقامات ہیں، ان سب کے بعد شکر ملتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہیں سمجھتا، مکمل فنائیت اس میں آجائے، تو جو بھی ہے، دیکھو! موسیٰ علیہ السلام پیغمبر ہیں، پیغمبر پیغمبر ہوتا ہے، تو کیا کہتا ہے؟ مسافر ہے اور کہتا ہے:

﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ﴾ (القصص: 23)

ترجمہ: ’’میرے پروردگار! جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کردے، میں اس کا محتاج ہوں‘‘۔

یعنی جو کچھ بھی ہے، اے اللہ! تو میری طرف بھیج، میں اس کا محتاج ہوں۔ تو اللہ پاک نے وہیں پر ہی سارا کچھ دے دیا، اُدھر ہی سارا کچھ دے دیا۔ تو یہ چیز ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان عاجزی اختیار کرلے اور اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہ سمجھے اور ہر نعمت کا محتاج سمجھے۔ آپ ﷺ جب کھانا کھاتے، تو برتن کو رخصت کرتے وقت ایک دعا فرماتے (آپ ﷺ کی دعاؤں میں بڑی عجیب چیزیں ہیں، تو ایک دعا یہ ہوتی) اے اللہ ہم اس کے پھر بھی محتاج ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ کھانا ہم نے کھایا، تو یہ بس پورا نہیں ہوا، کیونکہ ہمیں پھر دوبارہ بھوک لگ جائے گی، تو ہم اس کے پھر بھی محتاج رہیں گے یعنی اس کو رخصت اس لئے نہیں کررہے ہیں کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے، یہ عارضی رخصت کرنا ہے، ہمیں اس کی پھر بھی احتیاج ہے۔ یہ بات ہے۔ اب دیکھیں! آئینہ دیکھ کے جو دعا ہے، اے اللہ! تو نے میری صورت اچھی بنائی، تو میری سیرت کو بھی اچھا کردے۔ ہر چیز کے اندر عاجزی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شکر جو ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے، بہت بڑی نعمت ہے۔ اس پر ایک کلام بھی ہے، میرے خیال میں وہ سنا دیتا ہوں آپ کو۔

’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘

شکر کے موضوع پہ حضرت والا کا کلام ہے۔ کلام کا عنوان ہے نعمتیں جو بھی ملیں ان پہ ہو نصیب شکر۔ حضرت والا فرماتے ہیں:


نعمتیں جو بھی ملیں ان پہ ہو نصیب شکر

نعمتیں جو ہوں تو ان پر کریں قریب شکر


نعمتیں دنیا میں اور ان سے فائدہ ہو وہاں

تھوڑا سا دیکھ تو لیں کتنا ہے عجیب شکر

دیکھیں! یہاں ہمیں نعمت مل رہی ہے، نعمت مل گئی، اس نعمت پر میں شکر کرتا ہوں، تو یہ تو خیر زیادہ ہوجائے گا یہاں دنیا میں، وہاں بھی اس پر اجر مل رہا ہے، اللہ پاک شکر کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں، شکر کرنے والا اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ تو دیکھو! وہاں پر بھی فائدہ اور یہاں پر بھی فائدہ، کتنی عجیب بات ہے۔ اب دیکھو! یہاں تو کچھ خرچ کرکے وہاں حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن شکر ایسی نعمت ہے کہ اس کے ذریعہ سے یہاں بھی فائدہ ہے، وہاں پر بھی فائدہ ہے۔


صبر سے شکر ہے مشکل پر اگر ہووے نصیب

خوش قسمتی ہے کہ یہ حق کا ہے نقیب شکر


یہ مشکل کیوں ہے؟ یہ عجیب بات ہے یعنی صبر سے مشکل بتایا ہے۔ کیوں مشکل ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے یہ نہیں کہا تھا کہ تو اس کو صبر کرنے والا نہیں پائے گا، اس نے کہا کہ تو ان کو شکر کرنے والا نہیں پائے گا، میں ان کے راستے میں بیٹھ جاؤں گا، سیدھے راستے میں بیٹھ جاؤں گا، دائیں طرف سے آؤں گا، بائیں طرف سے، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا اور ان کو تجھ تک نہیں پہچنے دوں گا اور تو ان میں بہت کم لوگوں کو شکرگزار پائے گا، ہاں! مگر جو تیرے چنے ہوئے ہوں گے، ان پر میرا بس نہیں چلے گا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ شکر اس کا خاص target ہے۔ خود بھی تو اسی وجہ سے مارا گیا تھا، اللہ نے جو اس کو مقام دیا تھا، اس کی ناشکری کی تھی، تو اس کا تجربہ کار تھا کہ میں جو رگڑا گیا ہوں، تو اسی وجہ سے رگڑا گیا ہوں، تو لہٰذا اسی کے ذریعہ سے سب کو رگڑ دوں، تو وہ شکر کو hit کرتا ہے، تو شکر نہیں کرنے دیتا۔ تو اس وجہ سے یہ مشکل ہے، ورنہ صحیح بات ہے کہ عقلاً یہ زیادہ قریب ہونا چاہئے، زیادہ آسان ہونا چاہئے، لیکن تمام عقل کی چیزوں کو یعنی bulldoze کرکے وہ انسان کو ناشکرا بناتے ہیں۔


شکر کرلو تو ہو حاضر نعمت مزید زیادہ

یہ سمجھنا ہے شیوہ قلب منیب شکر


دیکھیں! یہ اخیر میں بتا دیا کہ کس کا شیوہ ہے، قلب منیب کا یعنی جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا دل ہو، وہ یہ کرسکتا ہے، ورنہ انسان نہیں کرسکتا، اللہ کے فضل سے ہی یہ ہوتا ہے، جس پہ اللہ کا فضل ہو، جس کسی کے دل پہ اللہ پاک کی رحمت کی نظر ہو، وہی شکر کرسکتا ہے۔ تو اس کے لئے دعا کرنی چاہئے، مطلب ہم سب کو شکر نصیب فرما دے۔ آخری والے شعر میں حضرت والا فرماتے ہیں۔


زندگی اس سے بنے کیسے خوشگوار شبیرؔ

اس میں چل جائے کسی وقت گر ریح طیب شکر


یعنی ریح طیب، یعنی خوشبو کی ہوا، خوشبو دار ہوا یعنی زندگی کتنی خوشگوار ہوجائے گی، جب اس میں شکر کی خوشبو دار ہوا پھیلے گی یعنی ہر آدمی شکر کرنے لگے، تو یہ زندگی کتنی خوشگوار بن جائے گی، جتنی ہماری مصیبتیں ہیں، وہ ناشکری سے آرہی ہیں، اگر اللہ پاک دولت دے رہا ہے اور اس دولت کو آپ فضول جگہوں پہ استعمال کررہے ہیں، ضائع کررہے ہیں، تو یہ ناشکری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت عطا فرمائی ہے، طاقت عطا فرمائی ہے، اس کو غلط استعمال کررہے ہیں، تو ناشکری ہے۔ اگر اللہ پاک نے آپ کو ما شاء اللہ! اچھی چیزیں عطا فرمائی ہیں، جیسے اولاد عطا فرمائی ہے، اور اچھی چیزیں عطا فرمائی ہیں، اس کے اوپر آپ تکبر کرنے لگیں اور غرور کرنے لگیں، تو یہ ناشکری ہے۔ مولانا حاشر صاحب نے مجھے ایک واقعہ بتایا ہے اپنے علاقہ کا، وہ بتا رہے تھے کہ ایک قبضہ گروپ تھا، والد اور اس کے دو بیٹے تھے اور دو بیٹے وہ پہلوان type تھے، لڑنے بھڑنے والے تھے، تو لوگوں کی زمینوں پہ قبضے کرتے تھے، تو ایک نیک آدمی تھا اس گاؤں کا، لیکن اُدھر رہتا نہیں تھا، باہر رہتا تھا کہیں، تو اس کی زمین پر بھی انہوں نے قبضہ کیا، ان کو لوگوں نے اطلاع کردی کہ آپ کی زمین پر قبضہ ہوا ہے، تو اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں، یہ ہمارا بھائی بندہ ہے، میں ان شاء اللہ! آجاؤں گا تو بات کرلوں گا، تو مان لے گا، کوئی ایسی بات نہیں۔ مطلب جانتے تھے ان کو، تو آگئے، آگئے سب بڑوں کو بلایا اور اس کو بھی بلایا، انہوں نے کہا دیکھو! یہ سارے بڑے بوڑھے بیٹھے ہوئے ہیں، ان سب کو پتا ہے، ہماری زمین ہے، تو آپ اس کا قبضہ چھوڑ دیں، ان کا جو والد آیا تو ان سب کے سامنے ایک گال پہ تپھڑ ماری، دوسرے گال پہ بھی سب کے سامنے، لوگ ان کو بچانے کے لئے اٹھے، انہوں نے کہا بھائی! بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ۔ اور دو آنسو آگئے، مطلب ایک اِدھر جذب ہوگیا، ایک اُدھر جذب ہوگیا، بس صرف اتنی بات ہوگئی، کچھ نہیں کہا اس نے، صبر کیا، تو بعض دفعہ تو صبر سے اوپر چلا جاتا ہے معاملہ، خطرناک ہوجاتا ہے، تو کہتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد ایک بیٹا آیا، جس پہ بڑا ناز تھا، لڑنے بھڑنے والا تھا، وہ آیا اور اس نے اپنے باپ کے سامنے کچھ پہلوانی کے کرتب دکھائے، جیسے کوئی اکھاڑے میں کرتا ہے، وہ دکھا دیئے، دکھائے اور گر گیا اور مر گیا، مطلب وہ ان کی آخری بات ایسی تھی اور کچھ دنوں کے بعد اس کا دوسرا بیٹا بھی آیا اور اس نے بالکل یہی حرکت کی، پہلوانی کی کچھ حرکت دکھائی اور گر گیا، مر گیا، اس کے بعد ان دونوں کا جو والد تھا، وہ پاگل ہوگیا۔ یعنی یہ گویا کہ دنیا میں ان کو سزا مل گئی، جس طاقت پر ان کو ناز تھا، اس طاقت کو ہی ڈھیر کردیا۔ تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کی بات آجاتی ہے۔ تو یہ کیا بات تھی؟ ان کو اللہ نے طاقت دی تھی، صحت دی تھی، اس کا شکر کرتے، اس کو صحیح چیزوں کے لئے استعمال کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان کو یہاں بھی بہت کچھ دیتا اور وہاں پر بھی اللہ پاک ان کو اس کا بدلہ دیتے، لیکن انہوں نے صرف اور صرف اس کو ظلم کے لئے استعمال کیا، تو اس کا نتیجہ بہت غلط بھگتنا پڑا ان کو، تو یہی بات ہوتی ہے۔ تو اگر اس طرح ہم سب شکر کرنے والے بن جائیں، تو ایک تو بات یہ ہے کہ کسی کی نظر نہیں لگے گی دوسرے پر، یہ نظر جو لگتی ہے وہ شکر نہ کرنے والوں پہ لگتی ہے، جو دوسروں کے مال پہ نظر رکھتے ہیں، دوسروں کی چیزوں پہ نظر رکھتے ہیں، ان سے دوسروں کی کوئی ترقی برداشت نہیں ہوتی، تو جب ان کو دیکھتے ہیں، تو بس پھر ان کی نظر لگ جاتی ہے۔ یہ ما شاء اللہ! ہم کیوں کہتے ہیں؟ ما شاء اللہ! اس لئے کہتے ہیں کہ ہماری نظر اس چیز سے ہٹ کے اللہ پہ چلی جائے۔ ما شاء اللہ! یعنی اللہ نے کیا خوبصورت چیز بنائی ہے اور اچھی چیز بنائی ہے، تو نظر اللہ تعالیٰ کی طرف چلی گئی۔ تو اب اس کا مطلب ہے کہ پھر اس کے اوپر نظر نہیں لگے گی۔ جب تک نظر اللہ پہ نہیں ہے، چیز پر ہے، تو یہ بہت زہریلی نظر ہے، یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَلْعَیْنُ حَقٌّ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 5740)

ترجمہ: ’’نظر لگنا حق ہے‘‘۔ فرمایا: یہ اونٹ کو ہنڈیا میں پہنچا دیتی ہے اور انسان کو قبر میں۔ مطلب ایسی نظر لگتی ہے۔ کیوں لگتی ہے؟ یہی بات ہے۔ تو جو شکر کرنے والا ہوگا، وہ تو ایسا نہیں ہوگا، وہ تو خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا، جو اس کو دیا گیا ہے، تو دوسرے پر کیوں نظر ڈالے گا؟ وہ جو اس کے پاس ہے، وہ بھی اپنی حیثیت سے زیادہ سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے، تو مجھ پر اللہ کی مدد، اللہ کا فضل ہے، ورنہ صحیح بات ہے کہ میں تو اس قابل نہیں ہوں۔ سید نفیس شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نعت شریف ہے، اس میں یہ ہے کہ میں تو اس قابل نہ تھا۔ تو یہی بات ہے، مطلب ہم تو اس قابل نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نعمت عطا فرمائی۔

زندگی اس سے بنے کیسے خوشگوار شبیرؔ

اس میں چل جائے کسی وقت گر رے طیب شکر


شکر ایسا ہو کہ منعم کو بھی تو پاجائے

سب کچھ اس کا ہی ہے، دل میں خیال آجائے

یعنی نعمت تو آپ کو مل ہی گئی ہے، اس سے منعم بھی آپ کو مل جائے۔


تو نہ اترائے اس پہ کہ ہے کمال یہ تیرا

کسی طرح تو اپنے آپ کو یہ سمجھا جائے


پھر اس میں حق جو ہے منعم کا اس کو یاد رکھے

خلاف اس کے جو ہے تو اسے دبا جائے


کیونکہ پڑھنے میں تھوڑا سا مسئلہ ہوا ہے، تو وہ دوبارہ پڑھنا چاہے گا۔ اصل میں یہی بات ہے کہ ایسا شکر تو کرلے کہ شکر کے ساتھ نعمت دینے والا بھی تیرا ہوجائے۔ مطلب یہ ہے کہ تو اللہ کا ہوجائے، اللہ تیرا ہوجائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تو اپنے آپ کو سمجھا جائے کہ میں اس قابل نہیں ہوں یعنی اپنے آپ کو تو کسی طریقہ سے یہ سمجھا جائے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، یہ تو اللہ پاک نے مجھے دیا ہے، اپنے فضل سے دیا ہوا ہے۔ ہوش دیوانگی میں ہے۔ تو یہ مجھے بھیج سکتے ہیں، میں پڑھ لیتا ہوں۔

شکر ایسا ہو کہ منعم کو بھی تو پا جائے

سب کچھ اس کا ہی ہے دل میں خیال آجائے


تو نہ اترائے اس پہ یہ کہ ہے کمال تیرا

کسی طرح تو اپنے آپ کو یہ سمجھا جائے


پھر اس میں حق جو ہے منعم کا اس کو یاد رکھے

یعنی اللہ نے اس میں کیا حق رکھا ہے، مثلاً مال آپ کو ملا ہے، تو اس میں اللہ پاک نے کیا حق رکھا ہے، جیسے زکوٰۃ دینی ہوتی ہے، صدقات دینے ہوتے ہیں۔ اللہ نے صحت دی تو اس کا کیا حق ہے؟ کس طرح استعمال کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد دی ہے، تو اس میں کیا حق ہے اللہ تعالیٰ کا؟ مطلب یہ تمام نعمتیں ہیں۔

پھر اس میں حق جو ہے منعم کا اس کو یاد رکھے

خلاف اس کے جو ہے تو اسے دبا جائے


یعنی جو اللہ کا حق ہے، اس کے مقابلہ میں جو نفس کی خواہشات ہیں، اس کو تو دبا جائے۔


اور یہ کہ تو نہیں قابل کہ اس کا شکر کرے

ہاں! شکر کے بھی ہم قابل نہیں ہیں، کیا کرسکیں گے اگر اللہ توفیق نہ دے۔

اور یہ کہ تو نہیں قابل کہ اس کا شکر کرے

کرلو اپنی سی کوشش ہی اس کو بھا جائے


ہاں! اپنی سی کوشش کرلو، جتنا تو کرسکتا ہے۔ تو اگر اس کو پسند آجائے، تو بس شکر کی توفیق دے دے گا۔


اور اصلی شکر نعمتوں کا ہے شبیرؔ یہی

کہ اپنا دل جو ہے منعم پہ ہی وہ آجائے

اور اصل شکر یہ ہے کہ تو اللہ کی ذات کے ساتھ محبت کرنے والا بن جائے، اللہ کی ذات کے ساتھ محبت کرنے والا بن جائے۔

اب میں آتا ہوں دوبارہ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی طرف تو فرمایا کہ:

نان و خوان مجازًا اسی منّ و سلوٰی کو کہا ہے۔ غرض ان لوگوں کے گستاخانہ سوال پر حکم ہوا۔ ﴿اِھْبِطُوْ مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ﴾ (البقرۃ: 61) ”کسی بستی میں چلے جاؤ جو مانگتے ہو مل رہے گا“ اور پھر ان کو بجائے مفت کی نعمتیں کھانے کے کھیتی باڑی کی تکالیف میں مبتلا ہونا پڑا۔ بے شک حرصِ مزید باعثِ تکالیف ہے۔



مولانا روم کا پیغام: ادب کی توفیق اور بے ادبی کی مذمت - درس اردو مثنوی شریف - دوسرا دور