عاشورہ: فضائل، مسنون اعمال اور صحیح عقیدہ

(یہ بیان 9 ستمبر 2018 کے اصلاحی بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان میں ماہِ محرم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور عاشورہ کے دن مسنون اعمال، جیسے روزہ رکھنا اور  اہل و عیال پر فراخی سے خرچ کرنا، کی تلقین کی گئی ہے، جبکہ اسے ماتم یا جشن کا دن بنانے جیسی بدعات کو سختی سے رد کیا گیا ہے۔ اس میں واقعہ کربلا پر اہل سنت والجماعت کے معتدل مؤقف کو واضح کیا گیا ہے، جس کی بنیاد تمام صحابہ کرام، بشمول اہلِ بیت اور امہات المؤمنین، سے غیر مشروط محبت اور ان کا احترام ہے۔ اسی اصول کی روشنی میں، حضرت امام حسینؓ کو بحیثیت صحابی حق پر اور یزید کو اس کے اعمال کی وجہ سے فاسق قرار دیا گیا ہے۔ بیان کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ نجات کا راستہ کسی ایک گروہ کی حمایت یا مخالفت میں نہیں، بلکہ سب کی عظمت کو تسلیم کرنے اور قرآن و سنت کی حقیقی اتباع میں ہے۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ ۝ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ﴾ (الزلزال: 7-8)

وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ”أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ“۔ (مسلم: 1163) وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ”صِيَامُ يَوْمِ عَاشُوْرَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ“۔ (مسلم: 1162) وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ”صُوْمُوْا يَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَخَالِفُوْا فِيْهِ الْيَهُوْدَ صُوْمُوْا قَبْلَهٗ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهٗ يَوْمًا“۔ (مسند أحمد، حدیث نمبر: 2047) وَکَانَ عَاشُوْرَاءَ یُصَامُ قَبْلَ رَمَضَانَ فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ قَالَ: ”مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ“۔ (طحاوي، حدیث نمبر 2303) وَمِنَ الْأَوَّلِ: إِبَاحَۃٌ وَّبَرَکَۃٌ لِّتَوْسِعَۃِِ فِیْہِ عَلٰی عِیَالِہٖ فَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ”مَنْ وَّسَّعَ عَلٰى عِيَالِهٖ فِي النَّفَقَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللّٰهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهٖ“۔ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 1926) وَمِنَ الثَّانِيْ: اِتِّخَاذُہٗ عِیْدًا وَّمَوْسِمًا أَوِ اتِّخَاذُہٗ مَأْتِمًا مِّنَ الْمَرَاثِيْ وَالنِّیَاحَۃِ وَالْحُزْنِ بِذِکْرِ مَصَائِبِ أَھْلِ الْبَیْتِ وِاتِّخَاذُ الضَّرَائِحِ وَالْأَعْلَامِ وَمَا یُقَارِنُہٗ مِنَ الْمَلَاھِيْ وَالشِّرْکِ وَالْآثَامِ۔ صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات! بعض باتیں بہت اہم ہوتی ہیں، وقت پہ پتا چل جائے تو اچھی بات ہوتی ہے، اس سے انسان فائدہ اٹھا لیتا ہے اور بعض باتیں عقائد سے تعلق رکھتی ہیں، ان کا پتا نہ چلنے کی وجہ سے انسان گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے، افراط تفریط میں مبتلا ہوکر اپنے عقیدے کو خراب کرلیتا ہے یا کسی عمل کو خراب کرلیتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے بزرگوں کا طریقہ ہے کہ وہ جس قسم کے حالات ہوں، اس کے مطابق اپنے جمعہ کے بیانات یا اس قسم کے جو بیانات ہوتے ہیں، وہ arrange کرلیتے ہیں، تاکہ وقت پر لوگوں کو تمام چیزوں کا علم ہوسکے۔ عموماً لوگوں نے ایک formality سمجھا ہے جمعہ کے بیان کو، لہٰذا اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مساجد میں عین اس وقت لوگ آتے ہیں جب خطبہ پڑھا جانے والا ہو، بیان سننے کے لئے کوئی نہیں آیا کرتا، بہت کم لوگ آتے ہیں۔ اس میں نقصان دونوں طرف سے ہے، بعض حضرات اپنے بیانوں میں ادھر ادھر کی چیزیں بیان کرتے ہیں، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا عوام کو، محض علمی باتیں ہوتی ہیں۔

اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا، یہ مجھے ایک بڑے عالم تھے، انہوں نے بتایا تھا، وہ یہ ہمارے جو مولانا زاہد الراشدی صاحب ہیں انہوں نے یہ واقعہ بتایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں جب طالب علم تھا، تو ہم سے ایک بڑا طالب علم یعنی senior وہ کسی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے، تو انہوں نے مجھے بھی ساتھ لے لیا کہ چلو چلتے ہیں، تو کہتے ہیں وہاں اس نے بیان کیا اور بیان سارا اس نے جو گزشتہ دن سُلم کی (جو منطق کی) کتاب ہے، اس کا جو درس پڑھا تھا، وہ سارا درس انہوں نے عوام کو سنایا کہ فلاں قَضِیّہ اور فلاں قَضِیّہ اور فلاں قَضِیّہ۔ اب عوام کو قضیوں کا کیا پتا، لہٰذا وہ تو غیر متعلق بیٹھے ہوئے تھے، تو واپس جب کہتے آرہے تھے مجھ سے پوچھا کہ کیسا بیان کیا میں نے؟ کہتے ہیں میں نے کہا بیڑا غرق کردیا بیان کا، کہتے ہیں کیوں؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یہ مجھے بتاؤ کہ عوام کو قضیوں کی کیا ضرورت تھی؟ آپ نے ان کے مطلب کی بات کرنی تھی، یہ تو آپ نے ظاہر ہے اپنا سبق سنا دیا، تو یہ سبق اگر ہمیں سنا دیتے تو ہمیں فائدہ ہوجاتا، لیکن عوام کو اس سے کیا فائدہ؟ اس قسم کے مسائل ہوتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ بعض لوگ اپنے بیانوں میں ایسی باتیں کرتے ہیں، جو ان کے لئے تو خیر سے اہم ہوتی ہیں، لیکن عوام کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: کہ ایک من علم کے لئے دس من عقل کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اس کو صحیح جگہ پر استعمال کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو حالات کے مطابق بات کرنی چاہئے، ہمارے اکابر کا طریقہ یہی ہے۔ تو ابھی چونکہ محرم کا مہینہ ہے، تو محرم کے مہینے کی ابتدا سے ہی ہمیں کچھ اس کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے کہ محرم کا مہینہ ہے کیا چیز؟ سب سے پہلے تو اس میں ایک بات یاد رکھئے کہ محرم کا مہینہ یہ ہجری سن کا مہینہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری اکثر عوام ہجری مہینوں سے واقف نہیں ہوتے۔ یہ نہیں کہ ان کے ناموں سے واقف نہیں ہوتے، ناموں سے تو شاید واقف ہوتے ہیں، لیکن بہت کم لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ اب کون سی تاریخ ہے اس کی، اس کا علم نہیں ہوتا، حالانکہ ان چیزوں کو باقی رکھنا یہ فرض کفایہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سارے شرعی مسائل ان چیزوں سے وابستہ ہیں، مثلاً زکوٰۃ یہ قمری مہینوں کے حساب سے دی جاتی ہے، یہ انگریزی مہینوں کے حساب سے نہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی تین محرم کو صاحب نصاب بنا ہے، تو اگلے سال تین محرم کو اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی اور پھر یہ تین محرم کو یاد رکھے، یہی اس کی تاریخ ہوگی، اسی تاریخ پر وہ زکوٰۃ calculate کرے گا۔ آج کل تو بہت سارے لوگ رمضان میں زکوٰۃ دیتے ہیں، حالانکہ رمضان کا زکوٰۃ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور بہت سارے لوگ کہتے ہیں چونکہ اس میں اجر زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا ہم اجر کے لئے کرتے ہیں، حالانکہ اجر زیادہ ہوتا ہے، یہ مستحب امر ہے اور وقت پر زکوٰۃ ادا کرنا یہ فرض ہے۔ تو اب فرض کو مؤخر کرتے ہو مستحب کے لئے، کون سی عقل کی بات ہے؟ یعنی آپ حرام کا ارتکاب کررہے ہیں جو اس کو مؤخر کررہے ہیں۔ تو اس کو یعنی رمضان شریف تک مؤخر نہیں کرنا چاہئے، جس وقت بھی آپ کے اوپر زکوٰۃ فرض ہوگئی، وہ زکوٰۃ آپ دے دیا کریں۔ تو زکوٰۃ کا مسئلہ بھی اور حج بھی جو ہے، یہ قمری تاریخوں کے حساب سے ہے۔ ہاں جی! ظاہر ہے ہمیں اس کا (خیال رکھنا چاہئے اور) رمضان شریف بھی قمری تاریخوں کے حساب سے ہے اور اس طریقہ سے یہ جو ہماری بہت ساری چیزیں ہیں، جیسے عدت ہے، دوسری چیزیں ہیں، یہ سب قمری تاریخوں کے حساب سے ہیں۔ تو اب ان چیزوں کا اگر کسی کو پتا نہیں ہوگا، تو پھر حساب کیسے لگائیں گے؟ اور کیسے ان چیزوں میں صحیح حساب کریں گے؟ تو ان چیزوں سے آگاہی ہونی چاہئے۔ آج اگر کسی سے پوچھا جائے کہ فلاں مہینے کی کون سی تاریخ ہے، نہیں بتا سکتے، ان چیزوں کی واقفیت ہی نہیں ہے، حالانکہ عیسوی مہینوں کا یہ جو حساب ہے، محض حساب ہی ہے، اس کی ایک physical appearance نہیں ہے، جبکہ قمری مہینے کی physical appearance ہے یعنی آپ چاند کو دیکھ کر اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون سی تاریخ کا ہے، اس کے گھٹنے بڑھنے سے انسان اندازہ لگا سکتا ہے، جبکہ عیسوی مہینے کی اگر آپ کو تاریخ یاد نہ ہو صحیح معنوں میں، تو پھر کون سا حساب، بس ٹھیک ہے، بس ایک حساب ہی ہے، جس کے ذریعہ سے آپ کرسکتے ہیں۔ ہاں! یہ نہیں کہ مطلب عیسوی تاریخ یا عیسوی سے مراد شمسی تاریخ تو فضول چیز ہے، میں اس کو نہیں کہتا، یہ فضول نہیں ہے، اس کا بھی استعمال ہے، مثلاً نمازوں کے جو اوقات ہیں، یہ شمسی تاریخوں کے حساب سے ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورج کے ساتھ لگے بندھے ہیں، سورج کے سائے کے ساتھ یا سورج کی علامات کے ساتھ ہیں، صبح صادق ہے یا جو بھی ہے، وہ سب جو ہے ناں، سورج کے حساب سے ہے یعنی پانچ جنوری کو جو صبح صادق کا وقت ہوگا اگلی پانچ جنوری کو بھی تقریباً یہی وقت ہوگا، بہت کم فرق ہوگا۔ ہاں جی! کیونکہ وہ جو سال مطلب جو پھر رہا ہوتا ہے، تو اس کے حساب سے یہ اوقات بھی پھر رہے ہوتے ہیں، اس وجہ سے یہ دونوں نظام ضروری ہیں۔ قرآن پاک میں دونوں کا ثبوت موجود ہے، قرآن پاک کی ایک آیت ہے اور عجیب و غریب آیت ہے، اس کی تشریح جو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے، اس میں بات آرہی ہے۔

﴿وَلَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا﴾ (الکہف: 25)

ترجمہ: ’’اور وہ (اصحاب کہف) اپنے غار میں تین سو سال اور مزید نو سال (سوتے) رہے‘‘۔

تو علی کرم اللہ وجہ سے اس کی تفسیر پوچھی گئی تو فرمایا: تین سو شمسی سال اور تین سو نو سال قمری سال۔ ہم نے حساب کیا، بالکل یہی بنتا ہے، ہم نے جب حساب کیا، تو اس کا حساب یہی بنتا ہے۔ تو اب دیکھو! علی کرم اللہ وجہہ اس وقت کہاں ریاضی اور کہاں اس قسم کی چیزیں تھیں؟ لیکن حضرت نے بالکل صحیح وہ بتا دی، مطلب وہ جو ہے ناں بتایا

﴿وَلَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا﴾ اس میں جو تین سو سال ہیں، یہ شمسی سال ہیں اور اس پر نو آپ مزید بڑھائیں تو یہ قمری سال ہوجاتے ہیں، تین سو نو قمری سال ہوجاتے ہیں، یہ بالکل صحیح بات ہے۔ صحابہ کرام نے اپنے اپنے دور میں جو مسجدیں بنائی ہیں، ان کے قبلے بالکل صحیح رخ پر ہیں، حالانکہ ان کے پاس کون سا نظام تھا measure کرنے کا کہ جس کے ذریعہ سے measure کرتے کہ خانہ کعبہ۔ اور اس سے پھر یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ہمارا جو spherical system ہے، spherical trigonometry، جس کے ذریعہ سے آج ٹھیک ٹھیک حساب ہم کرسکتے ہیں، تو یہ صحیح ہے، کیونکہ صحابہ کرام کا جو کشف ہے، وہ اس کے بالکل عین مطابق ہے یعنی آپ اگر وہ کرلیں، تو پتا چلے، مطلب جو ہے ناں جس جگہ قبلہ انہوں نے بنایا، بے شک مصر میں بنایا ہو، کسی اور جگہ بنایا ہو، ہندوستان میں بھی بنایا، ہاں جی! ہندوستان میں بھی ایک مسجد صحابہ کی بنی ہوئی ہے، تو اس طرح اور جگہوں پہ بنی ہوئی ہے، وہ ٹھیک ٹھیک بنی ہوئی ہے۔ یہ بالکل مسجد نبوی جو بنی ہے، یہ تو ظاہر ہے آپ ﷺ کے سامنے بنی ہے، یہ بھی بالکل ٹھیک بنی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو بات ہے، یہ ماشاء اللہ! اللہ جل شانہٗ نے ان کے دل کی جو صفائی کی تھی، اس کے مطابق جو ہے، بالکل صحیح صحیح تھی۔ تو یہ جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا، بہت عجیب گہری بات ہے، حالانکہ یہ حساب calculator سے بھی کرے ناں، تو ذرا اس حساب میں کچھ مہارت چاہئے، مہارت چاہئے، مہارت چاہئے، لیکن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ویسے کہہ دیا بالکل اس طرح کہ یہ جو ہے ناں، یہ تین سو نو سال یہ قمری سال ہیں اور تین سو سال جو ہے ناں، شمسی سال ہیں۔

﴿اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ﴾ (الرحمٰن: 5)

ترجمہ: ’’سورج اور چاند حساب میں جکڑے ہوئے ہیں‘‘۔

یہ اصل میں قرآن نے گویا کہ اس کو endorse کرلیا کہ دونوں باقاعدہ حساب کے ساتھ چلتے ہیں، ان کا حساب کیا جاسکتا ہے، جب حساب کے ساتھ چلتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی حساب کرنے کے قابل ہو، تو حساب کر بھی سکتا ہے اور واقعتاً آج کل اگر ہم دیکھیں تو اس کی اتنی provision ہے کہ اس کا حساب ہوسکتا ہے یعنی مطلب کہ جو ہے ناں، معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت کون کون کتنا کتنا جو ہے ناں، اس کو parameter آئے گا۔ تو یہ تمام چیزیں بلکہ ایک اور بات بھی میں عرض کروں، چلو جی درمیان میں یہ باتیں آرہی ہیں، اللہ تعالیٰ کروا رہا ہے، یہ ہمارا جو شمسی نظام ہے، یہ موجودہ، یہ کیا ہے؟ یہ ہے عیسوی نظام، حالانکہ عیسوی بھی نہیں ہے، یہ Roman ہے اور Roman سے یہ عیسائیوں نے لیا ہے، عیسائیوں نے لیا ہوا ہے اور اس میں نام جتنے مہینوں کے وہ دیوتاؤں کے ہیں یا گنتی کے ہیں، جنوری، فروری، مارچ، اپریل، مئی، جون یہ جولائی جو ہے ناں، یہ بادشاہ کی جولیس اور Augustus یہ مطلب بادشاہ کی ہے۔ پھر ستمبر، نومبر، دسمبر یہ گنتی کے۔ ستمبر ساتویں کو کہتے ہیں، اکتوبر آٹھویں کو کہتے ہیں، ہاں! نومبر نو کو کہتے ہیں اور دسمبر دسویں کو کہتے ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ ان کا جو حساب شروع ہوتا تھا، مارچ سے، 23 مارچ سے یعنی وہ اس کا start تھا، لیکن بعد میں ان لوگوں نے اس کو جنوری سے کردیا، یہ 23 مارچ سے مطلب شروع ہوا۔ اس وجہ سے ستمبر ساتواں مہینہ بنتا ہے اور اکتوبر آٹھواں مہینہ بنتا ہے، نومبر نوواں مہینہ بنتا ہے، دسمبر دسواں مہینہ بنتا ہے۔ تو یہ جو موجودہ عیسوی کیلنڈر ہے، یہ عیسوی نہیں ہے حتیٰ کہ اس کا عیسیٰ علیہ السلام کی date کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، date of birth جو عیسیٰ علیہ السلام کی ہے، اس کے ساتھ نہیں ملتا۔ ہاں جی! تو یہ ان کا ہے ہی نہیں۔ تو لہٰذا ہم لوگ یہ جو سمجھتے ہیں، شاید یہ عیسوی ہے، یہ غلط کام ہے، یہ Roman ہے اور عیسائیوں نے اس کو adopt کیا ہوا ہے۔ اس وجہ سے پھر ہم نے یوں کیا کہ ہم نے اپنا اسلامی شمسی نظام اَلْحَمْدُ للہ! calculate کرکے بنایا ہے اور اپنی کتاب میں ’’فہم الفلکیات‘‘ میں دیا ہے باقاعدہ، جو solar ہجری کیلنڈر ہے، وہ ہم نے اَلْحَمْدُ للہ! ’’فہم الفلکیات‘‘ میں دیا ہوا ہے اور اس کی کچھ اپنی significance بھی ہے۔

اب ذرا غور سے دیکھیں! عیسوی کیلنڈر جو تھا، start تئیس مارچ کا تھا، کیوں؟ کیونکہ calculation جب ہم کرتے ہیں، تو error جو آتا ہے، وہ اصل میں کم ہوجاتا ہے جس وقت یہ سورج خط استویٰ پر جس وقت ہوتا ہے، جب اس سے start لیا جاتا ہے یعنی zero declination جب اس کو start کیا جاتا ہے، تو اس کا error کم ہوتا ہے۔ تو اب تو وہ رہا نہیں، لہٰذا error تو زیادہ ہوگیا، جنوری سے start ہورہا ہے۔ ہم نے جو اپنا کیلنڈر start کیا آپ ﷺ کی ہجرت سے شروع کیا ہے، آپ ﷺ کی ہجرت سے شروع کیا، جیسے کہ ہمارا قمری کیلنڈر ہے، ہجری ہے۔ تو ہمارا جو شمسی سال ہے، وہ بھی ہم نے ہجری سے شروع کیا ہوا ہے۔ تو ہجری کا یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ جس وقت قبا پہنچ گئے، تشریف لے گئے، وہ جو تاریخ تھی، وہ تاریخ ہم نے start یعنی ہم نے اس کا starting point لیا ہوا ہے، وہ تاریخ ہم نے لی ہوئی ہے۔ وہ اب حسن اتفاق اس کو کہہ سکتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے تو ہر کام میں حکمتیں ہوتی ہیں، ہاں جی! وہ وہی ہے، مطلب zero declination والا، وہ مطلب بنتا ہے automatically۔ ہاں جی! تو ہم نے اس سے لیا ہے۔ اس لئے ہجری کیلنڈر بھی ہے اور best کیلنڈر ہے اس کے لحاظ سے، کیونکہ مطلب جو ہے اس کا جو start ہے۔ اس وجہ سے اگر ہم solar ہجری کیلنڈر استعمال کریں، اس کے ذریعہ سے ہم نمازوں کی timings استعمال کرلیں، تو اس میں error minimum نہیں ہوگا، وہ جو calculation میں جو error آتا ہے، وہ error minimum نہیں ہوگا اور یہ باقاعدہ میں نے ثابت کیا ہوا ہے۔ ان مہینوں کے نام ہم نے ماشاء اللہ! اپنے کلچر اور اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ لکھے ہیں، مثال کے طور پر اس میں ایک مہینے کا نام ہد ہے، دوسرے کا بدر ہے، تیسرے کا غزوہ تبوک ہے، مطلب اس طرح مختلف جو اس کے نام ہیں، اسی طریقہ سے حنین ہے، وہ نام ہم نے اسی طریقہ سے رکھے ہیں، جس میں ہمارا ایک اپنا جو اسلامی تشخص ہے، اس کا اظہار ہوجائے۔ تو اَلْحَمْدُ للہ! وہ چیز موجود ہے اور اس کے لئے اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ! پہلے سے چونکہ لوگوں نے جو اعتراض کرنے ہوتے ہیں، وہ predict کرکے ہم نے اس کے مطابق اپنے جوابات بھی وضع کیے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں بھئی! ہم کیسے؟ (چونکہ ہماری تو تاریخ اس کے ساتھ adjusted ہیں ناں) تو وہ کیسے adopt کریں؟ اس کے لئے ہم نے پہلے سے computer program بنایا ہوا ہے کہ to convert these dates to these dates جیسے ہم نے قمری کیلنڈر کو convert کرنے کے لئے پروگرام بنایا، اسی طرح اس کے لئے بھی بنایا ہوا ہے، تو مطلب گویا کہ دو calculation programs ہیں کہ ایک قمری ہجری کیلنڈر اور solar ہجری کیلنڈر، اس کی آپس میں conversion، پھر solar ہجری کیلنڈر اور قمری ہجری کیلنڈر کی آپس میں conversion، پھر عیسوی اور solar ہجری اس کے اندر conversion ہے اور وہ ہمارے پاس موجود ہے۔ لہٰذا ہم بہت آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ ابتدا میں یہ بات اس سے چلی تھی کہ محرم کا جو مہینہ ہے، یہ ہمارے ہجری کیلنڈر کا start ہے، قمری ہجری کیلنڈر، تو اس لحاظ سے ماشاء اللہ! اہم ہے، تو اس قمری ہجری کیلنڈر میں مطلب جس کو کہتے ہیں کہ محرم کے مہینے میں کچھ ایسے special واقعات بھی ہوئے ہیں، جس کے لحاظ سے اس مہینے کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ سب سے پہلے میں آپ کو احادیث شریفہ سناتا ہوں، جو اس کے بارے میں ابھی میں نے اس کی عربی پڑھی ہے، تو میں اس کا جو اردو ترجمہ وہ بتا دیتا ہوں، ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے: کہ سب روزوں سے افضل رمضان کے بعد اللہ تعالیٰ کا مہینہ محرم ہے یعنی محرم کے مہینے کے جو روزے ہیں، یہ سب سے زیادہ اہم ہیں یعنی اس کی دسویں تاریخ کو رمضان کے سوا اور سب مہینوں کے روزوں سے زیادہ ثواب رکھتے ہیں۔ یہ مسلم شریف کی روایت ہے۔

ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے: کہ میں امید رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ عاشورہ کا روزہ کفارہ ہوجائے اس سال کے یعنی اس سال کے چھوٹے گناہوں کا جو اس سے بیشتر گزر چکے۔ یہ بھی مسلم شریف کی روایت ہے۔ ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے: کہ روزہ رکھو تم عاشورہ کا اور مخالفت کرو اس میں یہود کی اس طرح کہ روزہ سے ایک دن پہلے یا بعد رکھ لینا چاہئے۔ یہ بھی ماشاء اللہ حدیث شریف سے ثابت ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: کہ عاشورہ روزہ رمضان کے روزوں کے فرض ہونے سے بیشتر بطور فرضیت رکھا جاتا تھا، پس جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا، تو فرمایا: کہ جس نے چاہا وہ عاشورہ کا روزہ رکھا اور جس نے چاہا نہ رکھا اور ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے: کہ جس شخص نے فراخی کی اپنے اہل و عیال پر خرچ میں عاشورہ کے دن، فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رزق میں تمام سال یعنی یہ جو عاشورہ کا دن ہے۔ یہ رزین اور بیہقی کی روایت ہے۔ پس یہ دونوں باتیں تو کرنے کی ہیں، ایک روزہ رکھنا کہ وہ مستحب ہے، دوسرا مصارف عیال میں کچھ خرچ کرنا اپنی حیثیت کے موافق، یہ مباح ہے، اس کے علاوہ اور سب باتیں جو اس دن کی جاتی ہیں، خرافات ہیں، جیسے بعض لوگ اس میں میلے لگاتے ہیں یا حضرات اہل بیت اجمعین کے مصائب کا ذکر کرتے ہیں، ان کا ماتم کرتے ہیں اور مرثیہ پڑھتے ہیں اور روتے اور چلاتے بھی ہیں اور بعض لوگ تو تعزیہ، علَم وغیرہ بھی نکالتے ہیں، ان کے ساتھ شرک و کفر کا معاملہ کیا جاتا ہے، یہ سب باتیں واجب الترک ہیں، شریعت میں اس ماتم وغیرہ کی کوئی اصل نہیں، بلکہ ان سب امور کی سخت ممانعت آئی ہے۔ ایک بات میں عرض کروں ہم لوگ مسلمان ہیں اَلْحَمْدُ للہ! مسلمانوں کا ایک طرۂ امتیاز ہے کہ یہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرۃ:4)

ترجمہ: ’’اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں‘‘۔

لہٰذا ان کے تمام کاموں کے reference آخرت ہوتی ہے اور اللہ اور اللہ کا رسول یعنی قرآن کے تین بنیادی مضامین ہیں، ایک ہے توحید، دوسرا رسالت اور تیسرا معاد یعنی آخرت، تو آخرت کے لحاظ سے ان سب کی یہ ساری باتیں جو ہے ناں، وہ ہوتی ہیں اس میں۔ اب اگر میں دیکھوں کہ جو شخص بھی جہان سے چلا گیا اس جہان میں، تو یاد رکھئے کہ اس میں حدیث شریف بھی ہے کہ

’’اَلْمَوْتُ جَسْرٌ یُوْصِلُ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ‘‘ ()

’’موت تو پل ہے جو ایک حبیب کو دوسرے حبیب کے ساتھ ملاتا ہے‘‘۔

یعنی اپنے حبیب کے ساتھ ملاتا ہے۔ تو لہٰذا یہ کوئی ماتم کی بات چیت نہیں ہے کہ اس پہ ماتم کی جائے، غم اور دکھ الگ چیز ہے، غم اور دکھ سے نہیں منع کیا گیا ہے یعنی آپ کو غیر اختیاری طور پر رونا آجائے، کبھی بھی منع نہیں ہے، کبھی بھی منع نہیں ہے، نہ start میں، نہ اخیر میں، اگر غیر اختیاری طور پر کسی غم کی وجہ سے، کسی دکھ کی وجہ سے رونا آجائے، اگر آپ اس پر ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھ لیں تو آپ کو ماشاء اللہ! اس پر اجر مل جائے گا، ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ کا اجر مل جائے گا، اس پر صبر کرنے کا آپ کو اجر مل جائے گا، لیکن یہ ہے کہ اس پہ ماتم کرنا، نوحہ کرنا، مرثیہ پڑھنا، یہ ہمارا طریقہ نہیں ہے یا برسیاں کرنا، یہ ہمارا طریقہ نہیں، یہ طریقے غیر مسلموں کے ہیں، وہ لوگ اس کو کرسکتے ہیں، کیونکہ ظاہر ہے، ان کا مذہب man-made ہوتا ہے، مطلب وہ جو بھی انہوں نے خود بنایا ہے، اس کے مطابق سارا کچھ کرتے ہیں۔ ہمارا مذہب تو صرف اتنی بات ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہوجائے، اس کی بیوی جو ہے، ظاہر ہے سوگ منائے گی، جو باقاعدہ عدت کے دن ہیں اور اس کے حساب سے جو ہے مطلب وہ ایسے کپڑے جو ذرا خوشنما ہوں، وہ نہیں پہنے گی یا کوئی اس طرح اپنے سنگار وغیرہ نہیں کرے گی، وہ ٹھیک ہے، وہ ایک علیحدہ چیز ہے، اس کے اپنے اور فائدے ہیں۔ باقی لوگوں کے لئے صرف تین دن ہیں بس اور وہ تعزیت کے تین دن ہیں بس، اس کے علاوہ نہیں، کیونکہ اس کے علاوہ اگر کریں گے تو یہ تو مسلسل چلتا رہے گا اور مجھے بتاؤ کہ اگر ہم نے اس طرح کرنا ہو، تو logically speaking اسلام کا جو مذہب ہے، یہ پانچ تو نہیں ہے، اس میں تو اتنے مشاہیر گزرے ہیں، اتنے مشاہیر گزرے ہیں، مثلاً صحابہ کرام کو دیکھو! ایک لاکھ، سوا لاکھ کے لگ بھگ تو صحابہ کرام ہیں، خلفاء راشدین ہیں چار، اس طریقہ سے عشرہ مبشرہ دس ہیں، پھر اس کے بعد تین سو تیرہ بدری صحابہ ہیں، اب اگر ہر ایک کا آپ جو ہے ناں مطلب وہ منانا شروع کرلیں، تو مجھے بتاؤ! کوئی دن آپ کو خالی ملے گا؟ آپ کو کوئی دن خالی نہیں ملے گا۔ لہٰذا چونکہ اسلام عملی مذہب ہے، تو اس وجہ سے ان چیزوں کی طرف نہیں گیا، مطلب یہ چیزیں کرنا یہ ہمارا کام نہیں ہے، البتہ غم اور دکھ ہونا اس پہ کبھی پابندی نہیں ہے اور حقیقت کا ادراک کرنا، اس پر بھی کبھی پابندی نہیں ہے، بلکہ یہ تو must ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص ہے وہ تاریخی طور پر کچھ غلطی کرتا ہے، کیا اس تاریخی غلطی کو درست کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ ایک علمی بات ہے اور اس کے ساتھ چونکہ ہمارے عقائد بھی وابستہ ہیں، لہٰذا ہم اپنے عقیدے کو درست کرنے کے لئے، اس علمی بات کو درست کرنے کے لئے اس پہ تحقیق کرتے ہیں، لہٰذا اس پر اگر کوئی بات کرلے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن وہ ماتم کی طرح ایک انداز میں اس کا ذکر کرنا اور مطلب اس طرح وہ قصہ خوانی کرنا، وہ ٹھیک نہیں ہے، لیکن ایک علمی بات اور علمی تاریخ کے طور پر اگر کوئی اس کو بیان کرتا ہے، تاکہ adjustment اور صحیح بات سمجھ میں آجائے، تو وہ تو ٹھیک ہے۔ اب مثال کے طور پر یہ جو واقعہ ہوا ہے کربلا کا، اس سے انکار نہیں، بعض لوگوں نے انکار کیا ہے، نہیں ایسا ہوا ہی نہیں، کمال کی بات ہے، پوری تاریخ کو آپ کیسے ختم کرسکتے ہیں؟ ایک دفعہ ایسا ہوا میری بیٹی وہ ایک جامعہ میں پڑھتی تھی، تو قاری صاحب کو پتا نہیں کیا شوق ہوا عاشورہ کے دن، اس نے سب استانیوں کو جمع کیا اور بچیوں کو اور مطلب اس پر بیان کردیا کہ یزید جو ہے ناں، حق پر تھے، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق پر نہیں تھے اور وہ سارے دلائل دے دیئے، وہ سب کے لئے ایک نئی بات تھی، تو استانیوں نے بھی بڑی حیرت سے پوچھا کہ قاری صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ اور بچیوں نے بھی پوچھا، انہوں نے کہا نہیں، یہ تو حقیقت ہے، یہ تو کتابوں میں لکھا ہے، یہ تو تحقیق ہے، آپ لوگ بھی تحقیق کرلیں، میں آپ کو منع تو نہیں کرتا، آپ خود تحقیق کرلیں۔ اب میری بیٹی آئی میرے پاس پریشان، میں بیٹھا ہوں کمپیوٹر پر کام کررہا ہوں، مجھ سے بیٹی نے پوچھا کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟ اب خدا کی شان اسی وقت میری میز پر وہ کتاب پڑھی ہوئی تھی ’’شہید کربلا پر تبرہ‘‘ یہ حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب شیخ الحدیث تھے جامعہ نبوریہ ٹاؤن کے انہوں نے کتاب لکھی تھی، وہ کتاب میرے سامنے پڑی ہوئی تھی، میں نے کہا اچھا! میں نے اس کو کھول کے میں نے اس کے references لے لئے، یہ ہے ’’البدایۃ و النہایۃ‘‘ یہ جو ہے ناں ’’ابن کثیر اور یہ ساری چیزیں میں نے نوٹ کرنی شروع کی اور انہی دنوں مجھے الفیہ کی سی ڈی ملی تھی جس میں ہزار کتابیں ہیں، مطلب وہ قرآن کی، حدیث کی اور اس طرح اور عربی کی کتابیں ہیں، تو وہ سی ڈی میں نے load کرلی اور میں اس پہ search engine پہ لگا لیا تھا کہ یہ لفظ ’’البدایۃ و النہایۃ سے میں نے جیسے لے لیا اور وہ search کیا تو مسلسل آگیا، ادھر اس کتاب میں، اس کتاب میں، اس کتاب میں مشہور مشہور کتابیں ساری وہ اس نے دینی شروع کرلیں، میں نے کہا بیٹی نظر آرہی ہیں؟ کہتی ہے، بالکل اس نے، نوٹس لینے شروع کرلیے، اب اس نے نوٹس لینے شروع کردیئے، تو اس کے بعد یہ ہوا کہ اگلے وہ گئی تو انہوں نے کہا قاری صاحب! میں نے کچھ تحقیق کی ہے، تو میں اپنی تحقیق بیان کروں؟ اب اس کو کیا پتا اس بچی نے کیا تحقیق کی ہوگی، اس نے کہا جی بالکل بیان کرو، اب جب اس بچی نے تحقیق بیان شروع کرلی، باقاعدہ پورے references کے ساتھ اور یہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا اور سارے مستند روایتیں، بس قاری صاحب فوراً بھاگ پڑے، کہتے وہ یزید کون سا ہمارا ماما چاچا ہے، چھوڑو بات ختم، چلو ماشاء اللہ! اب اس قسم کی تصحیح ضروری ہے۔ مطلب ظاہر ہے آپ ان تمام چیزوں کو تو نہیں کرسکتے۔ ایک عالم تھے، عالم، وہ بعد میں مجھ سے بیعت ہوئے تھے، تو ان کی ابتدا کی بات ہے، میں غالباً سرگودھا جارہا تھا، تو ٹیلی فون اس کا آیا، تو مجھ سے پوچھا شاہ صاحب! آج عاشورہ ہے، تو میں آج کیا کروں؟ یعنی کون سا عمل کروں، میں نے کہا کہ تین سو تیرہ مرتبہ درود شریف پڑھو، اس کا ایصال ثواب جو ہے ناں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کرو، اچھا خیر، اس وقت اس نے بات مان لی، جب واپس آگیا، تو کہتے عجیب اثر ہوگیا آپ کے دیئے ہوئے وظیفہ کا، میں نے کہا کیا؟ کہتے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے میرا دل صاف ہوگیا، میں نے کہا کیا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف تمھارے دل میں گڑبڑ تھی؟ کہتے ہاں، ہم نے تو یزید زندہ باد کے نعرے بھی لگائے ہیں، میں نے کہا ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ یہ تو بڑی عجیب حرکت تم نے کی ہے۔ پھر اس کے بعد میں نے ان سے عرض کیا کہ مولانا ذرا تھوڑا سا مجھے بتائیں، سمجھائیں اس ایک مسئلہ میں، ایک صحابی ہو اور اس کے مقابلہ میں ایک تابعی ہو اور ان میں اختلاف ہو، تو آپ کس کی مانیں گے؟ کہتے صحابی کی مانیں گے، میں نے کہا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے یا تابعی تھے؟ کہتے صحابی تھے، میں نے کہا یزید صحابی تھے یا تابعی تھے؟ کہتے تابعی تھے، میں نے کہا اب؟ اوؤے مجھے تو خیال ہی نہیں تھا اس کا، مجھے تو اس کا خیال ہی نہیں تھا۔ اچھا! اب یہ جو باتیں ہیں، اتنی clear clear باتیں ہوتی ہیں، لیکن propaganda، دونوں طرف propaganda، ہاں جی! اب دیکھو! اگر یہودی داڑھی رکھنی شروع کرلیں، تو کیا خیال ہے ہم داڑھی کٹانا شروع کرلیں؟ نہیں، یعنی میں نے کہا اگر وہ سب رکھیں، تو کیا ہم داڑھی کاٹ دیں؟ نہیں، ظاہر ہے جو چیز صحیح ہے، ہمارے مذہب کا حکم ہے، جو حقیقت ہو، وہ بے شک ہندو رکھے یا ہندو اپنائے یا عیسائی اپنائے یا یہودی ہم ان کی وجہ سے تو اس کو ختم نہیں کرسکتے، یہ میں اس وجہ سے کہتا ہوں کہ اگر شیعہ لوگ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بات کرتے ہیں اور وہ صحیح ہو، تو اس وجہ سے ہم اس کو غلط کہیں گے کہ کیونکہ شیعہ نے کہا ہے؟ یہ تو بہت آسان بات ہوگئی۔ حضرت تھانوی صاحب نے ایک دفعہ فرمایا کہ یہ شیطان بھی اگر صحیح بات کہے تو اس سے انکار نہیں کرنا چاہئے، ورنہ شیطان کو تو موقع مل جائے گا وہ صحیح باتیں کرے گا، پھر ظاہر ہے تمھیں غلط کرنے کے لئے صحیح باتیں کرے گا، تو پھر تم اس کی مخالفت میں رہو گے۔ پھر انہوں نے باقاعدہ reference دیا حدیث شریف کا کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مطلب ایک دفعہ جو ہے ناں ان کی تہجد کی نماز رہ گئی، تو اس دن اتنا روئے، اتنے روئے، اتنے روئے کہ اگلے دن ایک شخص نے اس کو جگایا تہجد کے لئے، تو اس نے پوچھا کہ کون؟ کہتے تجھے کیا؟ بھئی چھوڑوں گا نہیں، اس کو پکڑ لیا، چھوڑوں گا نہیں، جب تک بتاؤ گے نہیں کہ تم کون ہو، انہوں نے کہا بھئی! تو نماز پڑھ، تجھے کیا مطلب کہ میں کون ہوں، انہوں نے کہا کہ نہیں بتاؤ گے، میں چھوڑوں گا نہیں۔ اب صحابی صحابی ہوتا ہے، تو خیر شیطان کو مجبوراً کہنا پڑا کہ میں شیطان ہوں، انہوں نے کہا تو نے کب سے تہجد کے لئے اٹھانا شروع کیا، یہ کام تیرا کب سے ہوا؟ کہتا ہے اصل میں تو کل جو رویا تھا ناں، اس پر اللہ تعالیٰ نے تجھے اتنا اجر دے دیا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ تجھے مل جائے، ہاں جی! تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور انہوں نے نماز پڑھی۔ تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر ہم جیسے لوگ ہوتے تو ہم کہتے کہ شیطان نے کہا ہے، لہٰذا نہیں پڑھنا چاہئے۔ نہیں ایسی بات نہیں۔ پھر وہ ایک اور صحابی کا واقعہ ہے کہ انہوں نے بھی شیطان کو پکڑا تھا، تو اخیر میں انہوں نے کہا کہ اچھا میں آپ کو ایک گر کی بات بتا دوں، کہتے تم آیت الکرسی پڑھو تو مجھ سے بچ جاؤ گے۔ ہاں جی! تو آپ ﷺ کو جب سنایا، تو فرمایا: جھوٹے نے سچ کہا ہے، جھوٹے نے سچ کہا ہے۔ تو اب اس کا مطلب ہے کہ جھوٹا بھی تو سچ کہہ سکتا ہے، جھوٹے کی ساری باتیں جھوٹی ہونا ضروری نہیں ہیں، کبھی کبھی سچ کہہ سکتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے، جن کے اور عقیدے خراب ہیں۔ مجھ سے ایک شیعہ بچی نے ٹیلی فون پہ پوچھا، شاہ صاحب! آپ سب کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں، تو میرے ایک سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ میں نے کہا بیٹا سناؤ، کیا سوال ہے؟ اس نے کہا شیعہ اور سنی میں بنیادی فرق کیا ہے؟ شیعہ اور سنی میں بنیادی فرق کیا ہے؟ میں نے کہا بیٹا چونکہ آپ ﷺ کے ذریعہ سے اسلام ہم تک پہنچا ہے، ہدایت آپ ﷺ کے ذریعہ سے ہم تک پہنچتی ہے، آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی صفت ہادی کے مظہر ہیں، اب یہ ہدایت جو ہے، ہمیں تین واسطوں سے مل رہی ہے، عام صحابہ کرام، اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امھات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم، یہ تین واسطے ہیں، جن کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے، جنہوں نے ان تینوں سے لیا، انہوں نے پورا دین لیا اور جنہوں نے ان میں سے کسی ایک سے لیا اور باقیوں سے نہیں لیا تو انہوں نے ناقص دین لیا یعنی کچھ رہ گیا ان سے اس میں، اور جنہوں نے کسی ایک کی مخالفت کی تو انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا، تو میں نے کہا اہل سنت و الجماعت تینوں کو مانتے ہیں اور تینوں سے لیتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا شاہ صاحب! میں سمجھ گئی، بس آپ مجھے وظیفہ بتا دیں۔ مقصد میرا یہ باتیں بڑی simple ہیں، مطلب کوئی confusion نہیں ہے، وہ یہ والی بات ہے کہ ہم سب سے لیتے ہیں، ہم صحابہ کرام سے بھی لیتے ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی لیتے ہیں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی لیتے ہیں، حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی لیتے ہیں، زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی لیتے ہیں، ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی لیتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہم تمام جتنے بھی اہل بیت ہیں، تمام صحابہ ہیں، تمام سے لیتے ہیں۔ آپ یقین کیجئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہ جس وقت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا فوت ہوئی، تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ مقام جو صحابہ کے دلوں میں تھا، وہ نہیں رہا یعنی جو اس reference سے تھا، اب مجھے بتاؤ! کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام اپنا تو تبدیل نہیں ہوسکتا تھا، وہ تو اپنی جگہ پر تھا اور وہ تو کم بھی نہیں ہوسکتا، ظاہر ہے ان کا مقام بہت اونچا تھا، لیکن فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کا ایک extra advantage کہ ان کے شوہر ہیں۔ یہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جو مروی ہے، اس کا مطلب ہے صحابہ کرام اس چیز کا خاص regard کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اپنا بیٹا غالباً عبداللہ بن عمر روتا ہوا آیا، اس وقت حضرت امیر تھے کہ حسن اور حسین میں سے کسی نے ان کو کہا کہ تم ہمارے غلام ہو، بچے تھے، بچے بچے ہوتے ہیں، بچے تو ہر قسم کی بات کرسکتے ہیں، ہاں جی! تو انہوں نے کہا جاؤ ان سے لکھوا کے لے آؤ، ان سے لکھوا کے لے آؤ، اب وہ بچے کیسے لکھواتے؟ تو وہ جاکر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی کہ دیکھو! انہوں نے ہمیں غلام کہا ہے اور اب لکھ کے نہیں دیتے، تو انہوں نے کہا یہ تو نہیں ہوسکتا۔ ہاں جی! بہرحال یہ ہے کہ انہوں نے کہا اگر یہ مجھے لکھ کردیں تو یہ میرے لئے سب سے بڑا توشہ ہوگا، اس کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا، یہ تھا صحابہ کرام کا عمل۔ صحابہ کرام مطلب ظاہر ہے، دیکھو! آپ ﷺ نے جو فرمایا ہے:

’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر: 2641)

ترجمہ: ’’جس پر میں چلا ہوں اور جس پر میرے صحابہ چلے ہیں‘‘۔ اس سے صحابہ کرام کا مستند ہونا، authentic ہونا ثابت ہوگیا، مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے کسی چیز کو سمجھنا ہے تو صحابہ کرام کے حوالہ سے سمجھیں کہ آپ ﷺ کے صحابہ نے اس پر عمل کیسے کیا؟ کیونکہ بعض باتیں آپ ﷺ کی خاص تھیں یعنی وہ آپ ﷺ کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں تھی، اگر صحابہ کرام نہ ہوتے، تو اس کا کیسے پتا چلتا کہ یہ بات خاص ہے آپ ﷺ کے لئے یا عام ہے۔ تو جس پر عمل کیا صحابہ کرام نے، وہ تو عام ہے اور جس پر صحابہ کرام نے عمل نہیں کیا، وہ آپ ﷺ کے لئے رہنے دیا، وہ آپ ﷺ کے لئے خاص۔ مثلاً آپ ﷺ کی شادیاں چار سے زیادہ تھیں، ہاں جی! لیکن باقی صحابہ نے کیں؟ کسی صحابی نے بھی نہیں کیں، تو اس کا مطلب ہے کہ (صحابہ کرام کو دیکھنا ہے) اس کے بعد آپ ﷺ کا وضو نیند میں نہیں ٹوٹتا تھا، لیکن کسی صحابی نے بھی ایسے نہیں کیا کہ بغیر وضو کے گویا کہ نیند کے بعد بغیر وضو کے انہوں نے نماز پڑھی ہو۔ اب یہ ساری باتیں ہیں، ہمیں پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام جو ہیں، وہ ہمارے لئے معیار ہیں حق کے اور ہمیں اسی سے اندازہ لگانا چاہئے کہ جو کام صحابہ نے کیا، اصل میں وہی عام ہے، اس کے علاوہ اگر صحابہ نے نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ special ہے، وہ آپ ﷺ کے لئے ہے۔ اب جیسے مسجد عائشہ کا جو لوگ کہتے تھے ناں کہ یہاں سے عمرہ نہیں ہوتا، کیونکہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو کیا تھا، وہ special case تھا، لوگوں نے آواز اٹھا لی، تو مجھ سے کسی نے پوچھا، میں نے کہا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور جب انہوں نے خانہ کعبہ کی نئی تعمیر کی تو شکریہ کے طور پر انہوں نے عمرہ کیا اور عمرہ میں تمام صحابہ جو اس وقت موجود تھے اور تابعین کے ساتھ جو مکہ مکرمہ میں تھے، ان کے ساتھ پیدل جاکر مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر آکر عمرہ کیا، تو یہ تو صحابہ کا عمل ہے، تو صحابہ کا عمل تو ہمارے اوپر حجت ہے۔ ہاں جی! لہٰذا تواتر کے ساتھ چلا آرہا ہے کہ لوگ اس سے تو عمرہ کرتے رہے ہیں اور یہ آپ کی بات نئی ہے کہ یہ جو آپ کہہ رہے ہیں اس سے نہیں ہوتا، آپ ثبوت دے دیں کہ اس کا کوئی ثبوت ہو تو بتا دیں۔ تو اصل بات یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام کی authenticity ہمیں یاد ہو، پھر بہت ساری باتیں آسانی کے ساتھ حل ہوجاتی ہیں اور اگر یہ ہمیں نہیں معلوم ہو، تو بس پھر اپنا ذہن ہے آوارہ، جہاں بھی مطلب جانا چاہے، تو جاسکتا ہے۔ تو بہرحال میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ آپ ﷺ کے صحابہ کا مستند ہونا معلوم ہے۔ لیکن دوسری جگہ آپ ﷺ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے دیتا ہوں، ایک قرآن اور دوسری میری اولاد، ہاں جی! یہ کبھی جدا نہیں ہوگی جب تک کہ وہ حوض کوثر پہ نہ ملے۔ تو اب یہ بھی بات ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میری جو اولاد ہے اہل بیت ہیں، یہ کشتیٔ نوح کی طرح ہیں، سفینے نوح کی طرح ہیں، جو ان کے ساتھ ہوگیا، تو بچ گیا اور اس کا ثبوت میں بتا دیتا ہوں کہ ہمارے جتنے بھی امام گزرے ہیں، سب جو ہے ناں اپنے وقت میں اہل بیت کے ساتھ تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے باقاعدہ خلفاء ہیں۔ ان کے ساتھ زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ نے جو خروج کیا تھا، اس میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ساتھ دیا تھا، ہاں جی! اس طریقہ سے جو ہے ناں مطلب حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ یہ جو ہے ناں یہ امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھے، اس طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ یہ سب جتنے بھی ہیں، وہ سب کے سب اپنے اپنے وقت میں اپنے وقت کے اہل بیت کے ساتھ تھے، تو اس سے پتا چلا کہ انہوں نے اس چیز پر عمل کرلیا، یعنی آپ ﷺ نے جو روایت بیان فرمائی کہ یہ سفینۂ نوح کی طرح ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اہل بیت کا جو مقام ہے، وہ کم نہیں سمجھنا چاہئے کسی کی وجہ سے۔ یہ بہت واقعی بہت اہم بات ہے۔ اور تیسری بات وہ یہ ہے کہ یہ جو امھات المؤمنین ہیں، تو ان کی کچھ باتیں ایسی ہیں، جو صرف ان کو ہی معلوم ہوسکتی تھیں، کسی اور کو معلوم ہی نہیں ہوسکتی تھیں، لہٰذا عام صحابہ سے بھی نہیں معلوم ہوسکتی، بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں جو فرماتے ہیں کہ ان کے پاس نصف علم تھا، تو کچھ باتیں ان کے ساتھ ایسی تھیں، جو باقی لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ تو ایک دفعہ ایک صحابی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھنا چاہتے تھے، لیکن بات ایسی تھی کہ مرد عورت سے پوچھنے کے لئے وہ جرأت نہیں کررہا تھا، تو شرما رہے تھے، تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: بیٹا شرماؤ نہیں، میں تیری ماں ہوں، جو پوچھنا ہے پوچھو، میں جواب دوں گی اور پھر انہوں نے پوچھا اور انہوں نے جواب دے دیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو بات ہے (اس کو ماننا ضروری ہے) اور جو واقعہ کربلا کا ہے اس میں مسئلہ کیا ہوا تھا کہ اصل میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں تھے کہ وہ یہ نہ کرتے، تو مسلسل ایک چیز چل پڑتی اور وہ یہ تھا کہ باپ کے بعد بیٹا یہ سلسلہ مطلب confirm ہوجاتا، ہاں جی! حالانکہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکمت کے طور پہ یہ کیا تھا، لیکن ان کو بعد کے حالات کا تو پتا نہیں تھا کہ بعد کے حالات کیا ہوئے، تو مطلب اگر اس کو اس طرح لوگ لے لیتے، تو پھر تو ظاہر ہے، مطلب باپ بیٹے والی بات مستند ہوجاتی، اب مستند تو نہیں ہے، چل تو اب بھی رہا ہے، لیکن مستند تو نہیں ہے ناں، مطلب اس کو کوئی مستند تو نہیں مان سکتا، خلفاء راشدین والا نظام تو نہیں ہے ناں۔ تو یہ جو بات ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اصول establish کرنے کے لئے جان دی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ چیز اس طرح نہیں ہے، یہ شوریٰ پر ہے اور مطلب اس پر اہل رائے ہیں، ان اہل رائے کی بات جائے گی، یہ باپ کے بعد بیٹے والی بات نہیں چلے گی۔ اچھا! پھر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو مسئلہ ہے، وہ بڑی مظلومیت کا ہے، کیونکہ وہ تشریف لے گئے ہیں، تو خود نہیں گئے، بلکہ ان کو خطوط بھیجے گئے تھے، بہت سارے خطوط تھوڑے بھی نہیں، پوری بوری بھر گئی تھی ان خطوط سے، وہ خطوط جو آئے تھے، تو پھر انہوں نے اپنا ایک رشتہ دار بھیجا، تو اس وقت لوگ ان کے ساتھ تھے، تو انہوں نے بڑی قدر کی، ان کے ہاتھ پر ان کی طرف سے بیعت کی، تو انہوں نے خط لکھا کہ واقعی باتیں صحیح ہیں، جو یہ کہہ رہے ہیں، تو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ چل پڑے، بعد میں ان کو پتا چلا کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا گیا، انہوں نے کہا اب میں چل پڑا ہوں، اب میں واپس نہیں ہوسکتا، ہاں جی! تو بہرحال یہ ہے کہ یہ جو بات ہے کہ اخیر میں جب ان کو پتا چلا، ان کے ساتھ بات چیت کی تو انہوں نے فرمایا کہ تین باتوں میں سے ایک کرو یا مجھے یزید سے خود ملنے دو، تاکہ میں ان کے ساتھ خود معاملہ settle کرلوں یا مجھے مدینہ منورہ واپس جانے دو یا پھر مجھے کسی محاذ کی طرف رخ کرنے دو، تاکہ کافروں کے ساتھ جہاد کروں۔ اب اس سے بہتر شرائط اور کیا ہوسکتی تھیں، لیکن نہیں، صرف بیعت پر ہی بات ہوگی، بیعت کرو گے تو پھر، فرمایا: بیعت میں نہیں کرسکتا، مجھے بتاؤ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا؟ اگر بیعت کرلیتے تو اصول ہی ختم ہوجاتا، ہاں جی! اور اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے جو اس کے بعد معاملہ ان لوگوں کے ساتھ کیا ہے، جنہوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا ہے، یقین جانئے کہ اتنا خطرناک انتقام اللہ پاک نے ان سے لیا ہے ناں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے، شمر بن ذی الجوشن تھا، اس پہ تو کتے چھوڑ دیئے گئے، کتوں نے اس کو ہلاک کردیا، عمرو بن سعد جو تھا، اس کو جو ہے ناں ایک پیر ایک گھوڑے سے باندھے، دوسرے پیر دوسرے گھوڑے کے ساتھ اور گھوڑے مخالف سمت میں دوڑا دیئے گئے، تو چر گیا اس میں۔ ہاں جی! اس طریقہ سے جو اس کے اندر جس طریقہ سے بھی involve تھا، اگر کسی نے مارا نہیں، تو وہ ناگہانی موت مر گیا حتیٰ کہ ایک بوڑھے نے کہا کہ (اسے جب) کسی نے کہا کہ وہ سب لوگ یعنی حادثاتی طور پہ مرے ہیں یا کسی نے مارا ہے، کوئی بچا نہیں، تو اس نے کہا کہ نہیں میں بھی ان میں تھا، مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا اور اس کے ساتھ یہ ہوا کہ اس کے بعد فوراً گھر چلا گیا، گھر چلا گیا تو گھر میں اس کا چراغ ٹمٹما رہا تھا، تو اس نے چراغ کو درست کرنے کے لئے پھونک ماری، اس سے چنگاریاں آئیں داڑھی میں اور داڑھی نے آگ پکڑی اور داڑھی سے کپڑوں نے پکڑ لی اور تھوڑی دیر میں جل کے کوئلہ ہوگیا، اس نے گویا کہ اللہ تعالیٰ کے اس نظام کو چیلنج کیا، فوراً اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آگیا۔ ان میں سے بہت سارے لوگ توابین یعنی انہوں نے خود جو ہے ناں اپنے آپ کو ہلاک کروایا تھا، ہاں جی! یعنی وہ اتنے (پریشان تھے)۔ یہ جو ماتم شروع ہوا ہے، اسی reference سے شروع ہوا ہے، لیکن یہ ہمارا اسلامی طریقہ نہیں ہے، ہمارا اسلامی طریقہ نہیں ہے، حق سچ کو سچ مانو، لیکن اسلامی طریقہ پر کام کرو ناں، غیر اسلامی طریقہ پر تو نہیں جاسکتے، تو اسلامی طریقہ تو یہ ہے کہ سچ کو سچ مانو، اصول کو اصول مانو، ان کے لئے ایصال ثواب کرلو اور ایسے کام نہ کرو جو ان کے اصولوں کے خلاف ہوں، یہی ترتیب ہوسکتی ہے، اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے۔ اب اگر آپ اس پہ ماتم کرنا شروع کردیں، تو ماتم تو ظاہر ہے یہ کوئی بات اسلامی اصول کی نہیں ہے، بلکہ نوحہ کے خلاف تو باقاعدہ حدیث شریف موجود ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ حدیث شریفہ یعنی جو ان کے خیال میں حدیث شریفہ ہے، وہ صرف اپنے اماموں سے جو ان کو پتا چلا ہوتا ہے، اس کو حدیث کہتے ہیں، اس کے علاوہ کسی اور چیز کو حدیث ہی نہیں کہتے، تو لہٰذا ان کے لئے تو یہ موضوع باتیں ہیں، مثلاً بخاری شریف کی روایت ہے یا مسلم شریف کی روایت ہے، ان کے لئے موضوع روایتیں ہیں، تو یہ مسائل مطلب ان کے ساتھ ہیں۔ لہٰذا اصولی مسائل ہیں، لیکن بہرحال ہم کم از کم ان کے لئے صحیح چیزوں کو نہیں چھوڑ سکتے، یہ بات میں کرسکتا ہوں۔ تو بہرحال یہ ہے کہ محرم کا جو مہینہ ہے، اس میں ہم کیا کریں گے کہ سب سے پہلے جو عاشورہ کا دن ہے اس میں، جیسے کہ حدیث شریف آپ نے ابھی سنی کہ اس میں دو روزے رکھنے ہیں، بہتر تو یہ ہے کہ نو دس رکھا جائے، اگر نو نہ رکھا جائے، تو دس گیارہ پھر رکھا جائے، ہاں جی! یہ دو روزے ہیں اس میں رکھیں اور اس دن اپنے عیال کے اوپر کچھ توسع کیا جائے تو ان شاء اللہ العزیز! اس کی بھی برکت ساتھ شامل ہوجائے گی۔ اور چونکہ یہ محرم مبارک مہینوں میں سے ہے، کوئی گناہ سرزد نہ ہو، مطلب جو ہے ناں کوئی غلط کام اس میں نہ ہو، کیونکہ یہ ایام مبارک میں ہیں، تو لہٰذا اس میں جو غلطی ہوتی ہے، وہ بھی زیادہ (بڑی ہوتی ہے) اس وجہ سے اپنے آپ کو ایسی چیزوں سے بچانا چاہئے، یہ مرثیہ خوانی اور اس قسم کے جو قصہ کہانیاں اور غلط reference وہ مطلب اس میں بالکل نہیں جانا چاہئے، مستند باتیں کرنا چاہئیں، مستند باتیں کون سی ہوتی ہیں؟ یا قرآن کی یا حدیث کی، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب کبھی بھی تم میں کوئی اختلاف ہو، تو اس کو قرآن و سنت پہ پیش کرو، دو گواہوں قرآن اور سنت پہ پیش کرلو، اگر وہ اس کو مان لیں، تو تم بھی مان لو، اگر وہ نہ مانیں، تو تم بھی نہ مانو، تو اس وجہ سے ہر بات کو ہم درست کریں۔ اور یہ چونکہ صحابہ کرام والی جو بات ہے، یہ ہمارے عقائد کی بات ہے کہ ’’اَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عُدُوْلٌ‘‘ آپ حدیث شریفہ کی کتابوں کو لے لو، اس میں ایک اصول بالکل ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’عَنْ فَلَاں عَنْ فَلَاں عَنْ فَلَاں عَنْ فَلَاں‘‘ یہ راویوں کی بات ہے اور جس وقت اخیر میں پہنچ جاتا ہے صحابہ تک تو وَھُوَ مِنَ الْصَحَابَۃِ وَاَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عُدُوْلٌ‘‘ یعنی وہ صحابہ میں سے ہے اور صحابہ تو سارے عادل ہیں، ہاں جی! مطلب اس میں تو صحابہ کرام کا عادل ہونا یہ باقاعدہ ہمارا عقیدہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا اس کے خلاف جو کہیں گے، ہم اس کے لئے کوئی بھی بات ان کی نہیں مانیں گے، ہم کوئی بات نہیں مانیں گے، اس کے بارے میں ہماری بالکل دو ٹوک بات ہونی چاہئے، دیکھیں! کہتے ہیں میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی، مطلب یہ ہے کہ جب اللہ پاک کسی سے راضی ہے تو تم کون ہوتے ہو درمیان میں؟

رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ (البینۃ: 8)

ترجمہ: ’’اللہ ان سے خوش ہوگا اور وہ اس سے خوش ہوں گے۔ یہ سب کچھ اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار کا خوف دل میں رکھتا ہوں‘‘۔

ہاں جی! تو تم بھی صحابہ کرام کے نقش قدم پر خشیت اختیار کرلو، تاکہ تم بھی ’’رَضِیَ اللّٰهُ تَعَالَیٰ عَنْهُ‘‘ میں ہوجاؤ، یہ نہیں کہ مطلب ان کے خلاف باتیں کرو۔ تو یہ صحابہ کرام کو اللہ جل شانہٗ نے شان دی ہے، پھر میں آپ کو بتاؤں ہمارے خطبات میں جو جمعہ کے خطبات ہیں، ان میں ایک حدیث شریف بار بار پڑھی جاتی ہے اور وہ جو ہے ناں، مطلب میرے خیال میں آپ حضرات کو یاد ہوگا ’’اَللَّهَ اَللَّهَ فيْ أَصْحَابِيْ، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِيْ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ‘‘ (ترمذي، حدیث نمبر: 3862)

ترجمہ: ’’کہ اے میرے امتیوں! تمھیں میرے صحابہ کے بارے میں خدا کا واسطہ، ان کو میرے بعد ملامت کا نشان نہ بناؤ، ہاں جی! جو ان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں، وہ میرے ساتھ محبت کی وجہ سے ان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں اور جو ان کے ساتھ بغض رکھتے ہیں، وہ میرے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے ان کے ساتھ بغض رکھتے ہیں‘‘۔

اب معاملہ کتنا خطرناک ہوگیا یعنی جو کسی بھی صحابی کے ساتھ بغض رکھتا ہے، وہ آپ ﷺ نے اپنے اوپر لیا، لہٰذا یہ بہت خطرناک بات ہے، کسی صحابی کے ساتھ بغض نہیں رکھنا چاہئے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تو بہت بکواس کی جاتی ہے، اللہ جل شانہٗ ان کی زبانوں کو گم کردے، بہت ہی خطرناک معاملہ ہے، آخر صحابی ہیں، مطلب وہ کاتب وحی ہے یعنی عام صحابی بھی نہیں، کاتب وحی صحابی ہیں، لہٰذا ایسے نہیں۔ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو بکواس کررہے ہیں، وہ بھی بکواس ہے، وہ بھی غلط ہے، لہٰذا جو ہے ناں مطلب ان کے بارے میں ایک طرف ناصبی ہے اور دوسری طرف شیعہ ہے، اہل سنت و الجماعت درمیان میں ہے اور اعتدال پر ہے، ہم سب کو مانتے ہیں، کسی کے خلاف نہیں، ہم سب کو مانتے ہیں، لہٰذا ہماری کسی کے خلاف کوئی بات ہی نہیں، ہم تو دفاع کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی صحابہ کے خلاف بات کرے گا، وہاں پر صحابہ کا دفاع کریں گے، کوئی اہل بیت کے خلاف کرے گا، تو وہاں اہل بیت کا دفاع کریں گے، کوئی امھات المؤمنین کے خلاف بات کرے گا، تو ہم ان کا دفاع کریں گے، تو ہم تو always دفاعی position میں ہیں، defence پر ہیں، offence میں تو ہم کہیں پر آہی نہیں سکتے، ہم تو کسی کے خلاف بھی بات نہیں کرسکتے۔ تو اس وجہ سے مطلب یہ ہے کہ ہمارا جو طریقۂ کار ہے، وہ یہ ہے کہ مستند ترین نمبر ایک اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم تمام گروہ جتنے بھی ہیں، ان کو حق مانتے ہیں اور دین کے بنیادی اساتین مانتے ہیں، ان میں سے جو بھی ستون مطلب جو ہے وہ بنیاد ہے، لہٰذا ہم لوگ جو ہے ناں، مطلب کسی بھی ستون کے خلاف وہ بات نہیں کرنا چاہتے۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی ظاہر ہے مطلب انتہائی درجہ کا مطلب معزز اور مکرم اور آپ ﷺ کا چہیتا اور پیارا ان کو مانتے ہیں اور ’’سَیَّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر: 3768) جو ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے، یہ معمولی بات تو نہیں ہے کہ حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارے میں ’’سَیَّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ‘‘ ہاں جی! کہ یہ دونوں سردار ہیں جنت کے اور فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ جو ہے ناں ’’سَیَّدَۃُ النِّسَاءِ‘‘ ہیں، ہاں جی! تو مطلب ظاہر ہے، ان کا مقام اپنی جگہ پر بہت زیادہ اونچا ہے، اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام اور اس طرح خلفاء راشدین کے مقام، اور عشرہ مبشرہ کا مقام، یہ مقام میں نے اور آپ نے ان کو نہیں دیئے، یہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دیئے ہیں، لہٰذا نہ ہم ان سے چھین سکتے ہیں، نہ ہم ان سے کچھ مطلب کم کرسکتے ہیں، ہمارا کام صرف یہ ہے کہ جو اللہ نے ان کو مقام دیا، وہ سنبھال لیں اور ان کے ساتھ دل سے محبت کرلیں اور ان کی پیروی کرلیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ جل شانہٗ ہمیں حق پر قائم رکھے، کبھی بھی کسی گمراہی کی طرف ہم مائل نہ ہوں، ہاں جی! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


عاشورہ: فضائل، مسنون اعمال اور صحیح عقیدہ - اصلاحی جوڑ