بلائیں اور عذابات صفر سے نہیں، گناہوں سے آتے ہیں

( یہ بیان 9 ستمبر 2022 کے جمعہ بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

 اسلام توہم پرستی کی سختی سے نفی کرتا ہے اور ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا زمانہ جاہلیت کی ایک باطل رسم ہے۔ اصل میں مصیبتیں اور آفات، جیسے سیلاب وغیرہ، کسی مہینے کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی گناہوں کے سبب نازل ہوتی ہیں۔ بیان میں خاص طور پر دورِ حاضر کے تین بڑے گناہوں—جھوٹ (بالخصوص سوشل میڈیا پر بغیر تحقیق کے بات پھیلانا)، سود اور رشوت—کی نشاندہی کی گئی ہے جو معاشرے میں عام ہوچکے ہیں۔ ان آفات سے بچنے کا واحد راستہ مخصوص وظائف نہیں بلکہ سچے دل سے اجتماعی توبہ اور گناہوں کو ترک کرنا ہے۔ توبہ پر قائم رہنے کے لیے نفس امارہ پر قابو پانا ضروری ہے، جس کا بہترین طریقہ مجاہدہ اور اللہ والوں کی صحبت اختیار کرنا ہے۔ یہی صحبت انسان کے لیے روحانی اصلاح اور گناہوں سے بچنے کے مشکل راستے کو آسان بنا دیتی ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ بِيَدِهِٖ أَزِمَّةُ الْأُمُوْرِ، وَ هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ الْمُتَصَرِّفُ فِيْهِ مِنَ الْخَيْرَاتِ وَ الشُّرُوْرِ. وَ نَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، وَ نَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ. اَلَّذِيْ أَخْرَجَنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوْرِ، وَ مَحَا كُلَّ جَهْلٍ وَّ دَيْجُوْرٍ.

صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ عَلٰى آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ الَّذِيْنَ ظَهَرَ بِهِمُ الدِّيْنُ أَتَمَّ ظُهُوْرٍ، وَ رَسَخَ بِهِمُ الْيَقِيْنُ فِي الصُّدُوْرِ، مَا تَعَاقَبَتِ الْأَيَّامُ وَ الشُّهُوْرُ.وَ سَلَّمَ تَسْلِیْمًا كَثِيْرًا.

أَمَّا بَعْدُ:

فَقَدْ حَانَ شَهْرُ صَفَرَ، يَتَشَائَمُ بِهٖ بَعْضُ النَّاسِ وَيَتَطَيَّرُ كَمَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ مَعَ هٰذَا الْإِعْتِقَادِ يَبْتَدِعُوْنَ فِيْهِ النَّسِيْءَ النُّکْرَ، فَأَبْطَلَهُ اللّٰہُ تَعَالیٰ بِقَوْلِهٖ: ﴿إِنَّمَا النَّسِیْءُ زِيَادَةٌ فِی الْكُفْرِ﴾1

وَكَذٰلِكَ نَفیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الشُّوْمَ وَالطِّيَرَةَ بِهٖ خُصُوْصًا وَّبِكُلِّ شَىْءٍ عُمُوْمًا، وَأَزَاحَ بِهٰذَا النَّفْيِ عَنَّا ھُمُوْمًا وَّغُمُوْمًا، فَقَالَ ’’لَا عَدْوىٰ وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَلَا صَفَرَ‘‘۔2

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ: ’’یَتَشَاءَمُوْنَ بِدُخُوْلِ صَفَرَ‘‘۔ فَقَالَ النَبِیُّ ﷺ: ’’لَا صَفَرَ‘‘۔3 وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ’’الطِّیَرَۃُ شِرْكٌ [قَالَهٗ ثَلٰثًا]، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا مِنَّا إِلَّا وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُذْھِبُهٗ بِالتَّوَکُّلِ‘‘۔4 وَعُلِمَ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّ وَسْوَسَةَ الطِّیَرَۃِ إِذَا لَمْ یَعْتَقِدْھَا بِالْقَلْبِ وَلَمْ یَعْمَلْ بِمُقْتَضَاھَا بِالْجَوَارِحِ وَلَمْ یَتَکَلَّمْ بِھَا بِاللِّسَانِ لَا یُؤَاخَذُ عَلَیْھَا، وَھٰذَا ھُوَ الْمُرَادُ بِالتَّوَکُّلِ۔ وَمَا رُوِیَ أَنَّهٗ ﷺ قَالَ: ’’الشُّؤْمُ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّارِ وَالْفَرَسِ‘‘5 فَھُوَ عَلٰی سَبِیْل الْفَرْضِ لِمَا قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ: وَإِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِيْ شَيْءٍ فَفِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ‘‘۔6 أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ۔ ﴿قَالُوْا طَآئِرُكُمْ مَّعَكُمْ ۚ أَئِنْ ذُكِّرْتُـمْ ۚ بَلْ أَنْتُـمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ﴾7

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات! ماہ صفر شروع ہوچکا ہے۔ اور ماہ صفر کے بارے میں بعض لوگ بہت غلط خیالات یہ پھیلاتے ہیں۔ ہمارا جو دین ہے یہ اوپر سے آیا ہے، نیچے سے نہیں اوپر جارہا۔ اس وجہ سے اس میں جو چیز پہلے سے طے ہے وہی ہوگی اس میں کوئی نئی چیز داخل ہونے کی جگہ نہیں ہے۔ عرفات کا موقع تھا آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ﴾8 آج کے دن ہم نے تمھارے لئے تمھارے دین کو مکمل کرلیا اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کرلیا اور تمھارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کرلیا۔ ایک یہودی نے جب یہ آیت سنی تو کہا: اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے۔ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ اللہ پاک نے نعمت تمام کرلی، دین مکمل ہوگیا اور اسلام ہی واحد دین بنا دیا گیا۔ یعنی اللہ پاک کی رضا کا۔ یہ بہت بڑی بات تھی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے کہا کہ یہودی نے ایسا کہا ہے، اس نے کہا کہ جس دن یہ آیت اتری تھی اس دن ہماری دو عیدیں تھیں: ایک یہ کہ جمعہ کا دن تھا اور دوسرا حج کا دن تھا، ہماری تو دو عیدیں تھیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم پر دین مکمل ہوگیا ہے۔ اب دیکھ لیں، ہماری پشتو میں ایک محاورہ ہے، ضرب المثل ہے، ہے تو بڑی عجیب سی لیکن بہرحال اس موقع کے لئے بڑی مناسب ہے، وہ ہے: ”ما مه شمیره ددګډ یم“ یعنی مجھے گنو مت لیکن میں تمھارے ساتھ شامل ہوں۔ ہاں جی، اچھا یہ بات ہے بھئی تم کسی شمار میں ہو نہیں، تو پھر خواہ مخواہ اپنے آپ کو کیوں پریشان کرتے ہو؟ ہاں جی، تو اللہ پاک نے ہمیں اس چیز میں شامل ہی نہیں فرمایا کہ ہم اس کے بارے میں فیصلہ کرلیں۔ جب ایسی بات ہے تو پھر ہم اپنے آپ کو کیوں خراب کریں، کیوں اس میں اپنے آپ کو شامل کرلیں؟ تو یہ جو صفر کا مہینہ ہے ناں اس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں اس میں بڑی بلائیں اترتی ہیں، اور اس سے بڑا نقصان ہوتا ہے، اور فلاں وظیفہ کرلو فلاں وظیفہ کرلو اس سے وہ دور ہوجائیں گی۔ اب وظیفے چونکہ کوئی بھی لوگ کر سکتے ہیں مثلًا کوئی کہتا ہے سورۃ فاتحہ پڑھ لو، سورۃ فاتحہ تو صحیح ہے، وہ تو غلط نہیں ہے لیکن اس موقع پہ سورۃ فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے، اس کے لئے ضرورت نہیں ہے۔ سورۃ فاتحہ ویسے پڑھ لو ثواب کی چیز ہے، ثواب کی نیت سے پڑھو ناں کس نے روکا ہے؟ لیکن اس کے لئے کہ بلائیں ہماری صفر کی دور ہوجائیں، اس کے لئے سورۃ فاتحہ نہیں ہوتی۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ کیونکہ بلائیں اتر ہی نہیں رہیں، کس نے کہا ہے بلائیں اتر رہی ہیں، ہاں بلائیں اترتی ہیں وہ ہمارے اعمال کی وجہ سے اترتی ہیں، ہمارے اعمال کی، اور وہ کسی بھی مہینے میں اتر سکتی ہیں۔ ہاں جی، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ناں: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ9

خشکی اور تری میں، خشکی اور تری میں فساد آگیا لوگوں کے اعمال کی وجہ سے۔ خشکی اور تری میں فساد آگیا لوگوں کے اعمال کی وجہ سے۔ اب اگر خشکی اور تری میں فساد آجائے لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تو اس کا حل کیا ہوگا؟ اس کا حل ہے توبہ کرنا، توبہ کرنا، استغفار کرنا، رجوع کرنا اللہ کی طرف، گناہوں کو چھوڑنا؛ یہ ہے اصل بات۔ نحوست اس بات کی ہے، نحوست صفر کے مہینے کی نہیں ہے، بلائیں صفر کے مہینے کی وجہ سے نہیں آرہی ہیں، بلائیں آرہی ہیں ہمارے اعمال کی وجہ سے۔ اپنے اعمال ٹھیک کرلو، اللہ تعالیٰ کا کھلا حکم ہے، آپ ﷺ مشکوٰۃ شریف بھری ہوئی ہے ایسی احادیث شریف سے۔ آپ اس کو پڑھ لیں، اگر یہ گناہ کوئی کرلے تو یہ عذاب آتا ہے، اگر یہ گناہ کرلو تو یہ مصیبت ہوتی ہے، اگر یہ گناہ کرلو تو یہ مسئلہ ہوتا ہے؛ احادیث شریفہ موجود ہیں۔ زکوٰۃ نہ ہو تو قحط آجائے، زنا ہوجائے تو قتل و غارت عام ہوجائے۔ اس طرح اور بہت ساری باتیں ہیں جو احادیث شریفہ میں آئی ہیں۔ تو گناہوں کی وجہ سے عذابات آتے ہیں، گناہوں کی وجہ سے عذابات آتے ہیں۔ ان عذابات کا علاج یہ ہے کہ اللہ پاک کی طرف رجوع کرلو، توبہ کرلو سچے دل سے۔ اجتماعی توبہ کرلو تو یہ سب سے زیادہ اچھا ہے۔ یونس علیہ السلام پیغمبر تھے، ان کو دعوت و تبلیغ کررہے تھے، لیکن قوم نہیں مان رہی تھی، تو ان کو کہا کہ عذاب آسکتا ہے اور ایسا عذاب ہوگا اور ایسا عذاب ہوگا، ان لوگوں نے ویسے ہی سمجھ لیا۔ جیسے ہم لوگ کرتے ہیں، ہمارے ہاں بھی اس طرح کرتے ہیں۔ تو اصل میں ہوا یہ کہ یونس علیہ السلام کو کچھ اندازہ ہوگیا کہ شاید عذاب آرہا ہے اور اب مجھے نکلنا چاہئے کیونکہ نبی کو حکم کو دے دیا جاتا ہے کہ نکلو یہاں سے۔ جیسے ہود علیہ السلام کے ساتھ ہوا، نوح علیہ السلام کے ساتھ ہوا۔ یہ ان کی اجتہادی بات تھی لہٰذا ان کے اوپر امتحان آگیا، مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے اور عوام کے اوپر عذاب واقعتًا آگیا۔ جب عذاب آگیا تو جب ان لوگوں نے کہا اوہ! ہو یہی تو پیغمبر نے کہا تھا۔ تو وہ سارے لوگ مرد اور عورتیں اور بچے سب جاکے میدان میں گر پڑے اللہ تعالیٰ کے سامنے۔ آہ و زاری کررہے تھے، توبہ کررہے تھے، ہاں جی، اللہ پاک نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور آیا ہوا عذاب ٹل گیا۔ حالانکہ ایسا طریقہ ہوتا نہیں ہے، آیا ہوا عذاب ٹلا نہیں کرتا لیکن وہ ٹل گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک راستہ کھلا ہے اور وہ راستہ کھلا کیا ہے؟ توبہ کریں۔ اس وقت میں آپ کو کیا بتاؤں، اللہ ہمیں معاف کرے، اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم صرف خبریں سنتے ہیں، ہم صرف خبریں سنتے ہیں یہ ہوگیا، یہ ہوگیا، یہ ہوگیا۔ بھئی ”یہ ہوگیا یہ ہوگیا“ سے کوئی بات نہیں بنتی، اس سے سبق حاصل کرلو، کیا سبق حاصل کرلو؟ یہ اللہ پاک کی ناراضگی کی باتیں ہیں، اتنا سیلاب وسیع آجانا یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی بات ہے۔ اور جس وقت عذاب آتا ہے تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ فرمایا: ہاں عذاب جس وقت آجائے اس میں اچھے لوگ بھی رُل سکتے ہیں۔ لیکن آخرت میں ان کو علیحدہ کرلیا جائے گا۔ مثلًا یہ جو سیلاب جہاں پر آیا وہاں پر اولیاء بھی ہو سکتے ہیں لیکن کم تعداد میں، زیادہ تعداد میں لوگ کون ہیں؟

کون سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اس دفعہ سیلاب آیا ہوا ہے، عرض کرلیتا ہوں۔ تین گناہ بہت عام ہوچکے ہیں، تین گناہ بہت زیادہ عام ہوچکے ہیں، بہت زیادہ عام ہوچکے ہیں اور اس پر بہت سخت عذابات کی وعید ہے۔ قرآن میں بھی احادیث شریفہ میں بھی۔ ایک جو ہے ناں وہ کیا ہے، جھوٹ، کثرت کے ساتھ جھوٹ بولا جارہا ہے آج کل، کثرت کے ساتھ۔ کوئی بھی جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھ رہا، کوئی بھی جھوٹ کی وجہ سے اپنے آپ کو گناہگار نہیں سمجھ رہا، اس کو ایک شغل میلہ سمجھا ہوا ہے۔ اس کا جو سب سے بڑا معروف نام ہے وہ سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس طرح کھل کے جھوٹ بولا جارہا ہے کہ جس کی کوئی حد حساب نہیں ہے، پہلے اخباروں میں جھوٹ آتا تھا ناں، ہم کہتے بھئی اخبار جھوٹ بولتے ہیں، یا ٹیلی ویژن پہ جھوٹ بولا جاتا تھا۔ اس وقت تو ہر آدمی کی جیب میں جو پڑا ہوا ہے اس پہ جھوٹ پڑا ہے۔ اور اس پہ یقین لوگ کررہے ہیں مسئلہ یہ ہے، اور خود اس جھوٹ میں شامل ہورہے ہیں، کس طرح شامل ہورہے ہیں، وہ کوئی بھی آڈیو آتی ہے، ویڈیو آتی ہے یا کوئی article آتا ہے جھوٹا، اس کو فورًا جھٹ سے دوسرے کو بھیج دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس نے بغیر تحقیق کے کوئی چیز لے کے دوسرے کے پاس بھیج دی، دوسرے کو بھی بتا دیا، وہ جھوٹ ہے۔ بغیر تحقیق کے، بغیر تحقیق کے۔ رائیونڈ میں ہم تھے، غلام مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہ ہدایات دیا کرتے تھے، اور جو ہے ناں کارگزاری سنتے تھے۔ حضرت نے ایک دفعہ کارگزاری سنتے وقت یہ فرمایا: بھئی سنو! اگر کوئی چیز آپ لوگوں نے نئی بیان میں سن لی، دیکھو کون سی چیز ہے۔ یہ کوئی سوشل میڈیا کی بات نہیں ہورہی ہے، تبلیغی جماعت کی بات ہورہی ہے، بیان کی بات ہورہی ہے، بیان کی بات ہورہی ہے۔ اور کہاں پر ہورہی ہے، رائیونڈ میں ہورہی ہے۔ فرمایا اگر آپ لوگوں نے اپنے بیان میں کوئی نئی بات سن لی تو خبردار اس کو بغیر تحقیق کے دوسروں کو نہ بتانا۔ اپنے بیان میں نہ بتانا۔ اس کی تحقیق ضروری ہے۔ کن سے ضروری ہے؟ جو اس کو جانتے ہوں یعنی علماء کرام سے۔ اپنے علاقے کے علماء کرام سے تحقیق کرو کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر صحیح ہو تو بتا سکتے ہو، نہیں تو نہ بتاؤ ورنہ جھوٹ ہوگا۔ یہ مولانا غلام مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، ورنہ جھوٹ ہوگا۔ پھر مثال بڑی عجیب دی، بڑی عجیب مثال دی، فرمایا: بھئی! گشت کے آداب بیان کرو، کسی کو اٹھا دیا بھئی گشت کے آداب بیان کرو۔ ٹھیک ہے، ایک صاحب اٹھ گیا، گشت کے آداب بیان شروع کیے پہلی بات کیا کی؟ گشت بہت بڑا عمل ہے، اس سے سارے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: رک جاؤ، رک جاؤ بھئی! کس سے سنا ہے؟ کس سے سنا ہے، بتاؤ کس سے سنا ہے؟ اب جواب کیا…. مجھے بتاؤ یہ بات اکثر لوگ بتاتے ہیں یا نہیں بتاتے؟ کم از کم میں گواہ ہوں کہ حضرت نے فرمایا کہ غلط ہے۔ میں اس بات کا گواہ ہوں۔ اور بوڑھے بوڑھے جو تبلیغی جماعت میں ہیں ان سے پوچھو، انکو بھی شاید یاد ہوگا۔ تو خیر ایسا ہے کہ فرمایا: یہ غلط ہے، کس نے کہا ہے کہ سارے گناہ معاف ہوتے ہیں؟ سارے گناہ تو توبہ سے معاف ہوتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ گشت سے بہت سارے گناہ معاف ہوتے ہیں، سارے گناہ معاف نہیں ہوتے۔ اگر کوئی قتل کرکے آجائے آپ کے ساتھ گشت کرلے پھر کہہ دے میں معاف ہوگیا، پھر کیا کرو گے؟ بات سمجھ میں آرہی ہے نہیں آرہی؟ آج کل ایسا ہورہا ہے یا نہیں ہورہا؟ سارے فراڈ کرکے بازار میں پھر اجتماع میں شرکت کرکے کہتے ہیں بس میں معاف ہوگیا۔ ایسا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ بھئی اس سے معاف نہیں ہوا کرتا، گشت سے معاف نہیں ہوتا اگر توبہ نہیں کی ہے، چلہ لگانے سے معاف نہیں ہوتا اگر توبہ نہیں کی ہے۔ ہاں، چار مہینے لگانے سے معاف نہیں ہوتا اگر توبہ نہیں کی ہے۔ اللہ کے ہاں توبہ کرو گے پھر اللہ پاک معاف کرے گا، اس کے لئے توبہ ہے۔

یہ میں اس لئے عرض کررہا ہوں کہ حضرت نے اس کے اوپر بڑا زور دیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھ میں منتقل ہوگیا ہے تو میں بھی حضرت کی بات پر زور دے رہا ہوں، اور بات قرآن و حدیث کے مطابق صحیح ہے۔ فرمایا: کیا جب تک تحقیق نہ کرو کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی بات غلط، دوسرے کو نہ بتانا۔ اب آج کل سوشل میڈیا کا یہ حال ہے کہ جو میری پارٹی کی بات ہے، چاہے صحیح ہے چاہے غلط، جھٹ سے میں نے دوسروں کو بھیج دی۔ اور اگر کسی نے کہا کہ یہ غلط ہے اس کے ساتھ لڑ پڑے۔ کمال یار! کیا بات کرتے ہو۔ غلط بات پر لڑنا پھر مزید مصیبت ہے۔ اول تو یہ بات منتقل کرنا غلط ہے، اور اگر منتقل کرلی، اگر کسی نے آپ کی تصحیح کردی کہ بھئی ایسا نہیں ہے، پھر آپ اس کے ساتھ لڑ پڑیں کہ نہیں ایسا ہے؟ کیونکہ آپ کی پارٹی کی بات ہے۔ بھئی پارٹی بازی نہیں چلے گی، اللہ کے ہاں پارٹی بازی نہیں ہے، اللہ کے ہاں حقیقت اور صحیح اور غلط اور گناہ کی بات، یہ ہوتی ہے۔ یا غلط ہے یا صحیح ہے، یا ثواب ہے یا گناہ ہے۔ اور اللہ پاک نے اسکے اصول بتا دیے ہیں، پارٹی بازی نہیں ہے۔ میرا باپ بھی اگر جھوٹ بولے گا میں اس کو نہیں بیان کروں گا کیونکہ میرا باپ بننے سے میرا باپ کی بات ہونے سے وہ بات صحیح نہیں ہوجاتی۔ ہاں، یہ تو ظاہر ہے حق اور باطل کے اللہ پاک کے اپنے فیصلے ہیں، شریعت ہے اس کے لئے، اس کے لئے شریعت کے احکامات پر عمل کرنا پڑے گا۔ تو ایک تو جھوٹ بہت زیادہ ہے۔ یہ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ بہت زیادہ جھوٹ پھیل گیا ہے۔

دوسری بات بہت زیادہ خطرناک جو پھیلی ہوئی ہے وہ سود ہے۔ سود بعض سودوں کو لوگ سمجھتے نہیں کہ سود ہے۔ آپ یہ اڈوں پہ جاتے ہیں ناں، change ہوتا ہے change ابھی یہ conductor وغیرہ change لیتے ہیں ناں تو کیا کرتے ہیں؟ وہ سو روپے کا نوٹ دیتے ہیں یہ ننانوے روپے دیتے ہیں change۔ کیا ہوگیا یہ؟ مفتی صاحب! جائز ہے؟ بھئی پیسوں کے اوپر پیسوں میں تبدیلی نہیں ہے، پیسوں پر پیسوں میں تبدیلی نہیں ہے۔ یہ آج کل کتنا عام ہے؟ حدیث شریف میں آتا ہے، حدیث شریف میں آتا ہے مفہوم اس کا مفہوم بتاتا ہوں کہ اگر بیس سیر مثال میں دیتا ہوں، مفہوم بیس سیر صحیح گندم اگر آپ کمزور گندم ایک من سے بدل لیں تو یہ سود ہے۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بیس سیر گندم کو پہلے بیچو، جتنے پیسے کا بھی بک گیا، اس سے جتنی بھی آپ کو اچھی گندم مل گئی بس ٹھیک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر خراب گندم ہے بیچو جتنی صحیح گندم مل گئی، صحیح گندم ہے بیچو، جتنی خراب گندم مل گئی۔ پیسوں کو درمیان میں لانا ہوگا، قیمت کو درمیان میں لانا ہوگا۔ یہ بات تو میں نے صرف ایک بات بتائی ناں، اب صرف ایک بات تو نہیں ہے ناں، ان معاملات کا پورا ایک باب ہے فقہ کا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار میں اس دکاندار کو نہیں چھوڑتے تھے جس کو معاملات کا علم نہیں ہوا کرتا تھا، ٹیسٹ لیتے تھے، امتحان لیتے تھے۔ اگر معاملات کے مسائل ان کو نہیں آتے ان کو بازار سے اٹھا دیتے تھے۔ آج کل یہ بازار سارے آپ کے پاس قریب ہے، پوچھو ناں کتنے لوگوں کو مسائل آتے ہیں معاملات کے۔ آتے ہیں ان کو؟ نہیں آتے۔ اس میں بہت ساری جگہوں پہ سود ہوجاتا ہے اور پتا بھی نہیں ہوتا۔ یہ تو وہ سود ہے جو انجانے میں ہوتا ہے۔ جان کر بھی سود ہوتا ہے، جان کر بھی سود ہوتا ہے۔ پرائیوٹ طور پر، اتنے پیسے لو اور پھر مجھے اتنے پیسے دو، سال میں یا دو سال میں، معاہدہ ہوجاتا ہے، اور پھر بدمعاشوں کا ایک ٹولہ ساتھ رکھا ہوتا ہے، اگر کوئی اس کے مطابق نہیں کرتا پھر ان کی پھینٹی لگاتے ہیں۔ ہاں جی، اس طریقہ سے کارروائی کرتے ہیں وہ۔ تو یہ ساری باتیں معاشرے کے اندر موجود ہیں۔

جہاں تک بینکوں کا سود ہے وہ تو سب کو معلوم ہے۔ fix deposit fix ،deposit۔ جس نے fix deposit پہ پیسے رکھے اس کا کھانا کھا رہے ہیں، کھانا حرام۔ fix deposit کیا ہے؟ وہ بتاتا ہوں۔ fix deposit یہ ہے کہ آپ نے مثال کے طور پر دو لاکھ روپے رکھ لیے بینک میں، fixed۔ اس پہ وہ بتاتے ہیں ہم آپ کو ٪14 دیں گے جی۔ اب ٪14 کا مطلب یہ کیا ہے؟ ظاہر ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا تقریباً 9 ہزار روپے per month بنتا ہے، اس کے لگ بھگ۔ اب 9 ہزار روپے per month جو آپ کو دے رہے ہیں وہ آپ کے لئے حرام ہے، آپ کے لئے حرام ہے۔ ہاں، کاروبار میں لگا دو، نفع ہو نفع تقسیم کرلو، نقصان ہوجائے نقصان تقسیم ہوجائے گا۔ نفع نقصان کے ساتھ تجارت جائز اور سود پہ جو تجارت ہے وہ ناجائز۔ باقاعدہ صاف باتیں ہیں، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔

میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں خود مجھ پر مطلب میرے سامنے ہوا ہے۔ ہمارے ایک استاد تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے اب فوت ہوگیا ہے۔ اس نے G-9 میں مکان بنایا یہ 81-1980 کے لگ بھگ کی بات ہے، 1981 کے لگ بھگ…. پانچ لاکھ روپے پر اس نے دو منزلہ مکان دس مرلے میں بنا لیا G-9 میں۔ ہمارے کھانے کی دعوت کرلی خوشی میں، ہم گئے کھانا کھا لیا۔ واپس آرہے تھے وہ ہمارے ساتھ ہی گاڑی میں تھے، ایک دوست نے پوچھا کیا محسوس کیا اپنا مکان بنا کر؟ جیسے لوگ پوچھتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مکان بنایا تو سہی لیکن اچھا نہیں کیا، نہ بتانا تو اچھا تھا۔ کمال ہے یار، اس پہ تو لوگ خوش ہوتے ہیں آپ نے بھی خوشی میں کھانا کھلایا ہے، یہ کیا باتیں کررہے ہو؟ کیوں اچھا نہیں کیا؟ اس نے کہا کہ اگر میں یہ fix deposit میں پانچ لاکھ روپے رکھتا ناں fix deposit میں تو مجھے چھ ہزار روپے per month ملتے اور پانچ لاکھ روپے اپنی جگہ پر ہوتے۔ چھ ہزار روپے مجھے…. اب میں اگر اس کو کرایہ پہ دیتا ہوں تو بارہ سو سے زیادہ کرایہ پہ نہیں جاتا، یہ ان دنوں کی بات ہے بارہ سو کرایہ سے زیادہ پہ نہیں جارہا، مجھے نقصان ہورہا ہے۔ یہ بات 81-1980 کی ہے۔ اب آج کل کے دور میں آپ سے پوچھتا ہوں وہ مکان اب بھی موجود ہوگا، کیا خیال ہے دو منزلہ مکان دس مرلے کا G-9 میں اس وقت کتنے کا ہوگا؟ ہاں جی، ہاں کچھ لوگ بتاتے ہیں پانچ کروڑ کچھ بتاتے ہیں تین کروڑ، چلو دو کروڑ سہی۔ مجھے کیا پتا، دو کروڑ بھی اگر ہے تو دو کروڑ سے پانچ لاکھ نکالو تو ایک کروڑ پچانوے لاکھ تو اس میں نقصان، ایک کروڑ پچانوے لاکھ اس میں نقصان، اور اس کا کرایہ آج کل کتنا ہوگا اس مکان کا؟ تو لوگ بتاتے ہیں تقریباً ایک لاکھ کے لگ بھگ ہوگا۔ اب ایک لاکھ سے چھ ہزار نکالو چورانوے ہزار یہ نقصان۔ چرانوے ہزار کرائے میں نقصان، اور ایک کروڑ پچانوے لاکھ یہ مکان کی قیمت میں نقصان۔ اب بتاؤ فائدہ ہوا یا نقصان ہوا؟ اگر سود لیتے تو نقصان ہوتا یا فائدہ ہوتا؟ دیکھو! اللہ پاک نے سب چیزیں بنائی ہوئی ہیں اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ10 اللہ جل شانہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، سود کو مٹاتا ہے کا تو میں نے دکھا دیا کہ سود کو کیسے مٹاتا ہے۔ بھئی برکت اٹھ جائے مجھے بتاؤ چیز کیا رہ جائے گی؟ تو سود کو تو مٹاتا ہے۔

اب یہ صدقات سے دیکھو بظاہر لگتا ہے کہ پیسے کم ہوتے ہیں، ٹھیک ہے بھئی، میرے پاس دو لاکھ روپے اس میں میرے پچاس ہزار روپے صدقہ میں دے دیئے تو ڈیڑھ لاکھ رہ گئے ناں کم ہوگئے زیادہ ہوگئے بظاہر کم ہوگئے لیکن اللہ پاک فرماتے ہیں، اللہ پاک اس کو بڑھاتا ہے۔ کیسے بڑھاتا ہے ابھی واقعہ سن لو، جنید جمشید کا نام تو سنا ہوگا ناں؟ رحمۃ اللہ علیہ، یہ جب اپنی لائن چھوڑ دی گانوں وانوں والی لائن چھوڑ دی، اس کے بعد اس نے کچھ کاروبار وغیرہ شروع کیا۔ کاروبار کا تجربہ تو تھا نہیں، اس کا partner بھی تھا۔ نقصان پر نقصان، نقصان پر نقصان، کیونکہ تبلیغی جماعت میں ہونے کی وجہ سے علماء کرام سے ملاقات تو ہوتی تھی۔ مولانا تقی عثمانی صاحب سے ملاقات ہوگئی تو ان سے کہا کہ حضرت ہمارا نقصان پہ نقصان ہورہا ہے کیا کریں؟ حضرت نے فرمایا بھئی اللہ میاں کو اپنے ساتھ نفع میں شریک کرو۔ اللہ میاں کو اپنے ساتھ نفع میں شریک کرلو ایک خاص مقدار نفع کی دو فیصد، چار فیصد، پانچ فیصد سات فیصد؛ جتنا بھی ہے۔ وہ کہتا ہے یہ میں نے اللہ کو دینا ہے، اس میں شریک کرلو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر ان کا کاروبار ایسا چمکا کہ ابھی فوت ہوگیا ہے لیکن ان کا کاروبار ابھی تک زبردست چل رہا ہے۔ صدقات سے مال بڑھتا ہے، صدقات سے مال بڑھتا ہے۔ کیوں، کیسے بڑھتا ہے؟ دیکھو میں آپ کو بات بتاؤں، بڑھنے کے دو طریقے ہیں: ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کے پاس مال براہ راست آجائے، یہ بھی بڑھنا ہے۔ اور ایک طریقہ ہے جو آپ سے خرچ ہورہا ہے ناں جو آپ سے نکل رہا ہے اس مال سے نکل رہا ہے وہ کم ہوجائے تو بڑھ گیا یا نہیں بڑھا؟ اب مثال کے طور پر یہ میرے پاس آئے تھے ایزی پیسہ نہیں ہے ایزی پیسہ؟ اس کے جو Director تھے میرے پاس آئے تھے خانقاہ میں، میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے کہتے ہیں کہ شاہ صاحب میں کیا کروں؟ میری تنخواہ تقریباً تین لاکھ روپے سے زیادہ ہے، تنخواہ تقریباً تین لاکھ روپے سے زیادہ ہے اور بارہ تیرہ تاریخ سے آگے میرے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ بارہ تیرہ تاریخ کے بعد میرے پاس کچھ نہیں ہوتا، credit پہ چلتا ہوں۔ تو صاف بتا رہا ہے، خود بتا رہا ہے۔ میں نے کہا اپنا روزگار change کرو، یہ چھوڑ دو، یہ غلط کام ہے اس میں سود آجاتا ہے ناں، ہاں جی۔ تو بس یہ بات جو ہے ناں ان کو سمجھ میں آگئی کراچی سے مجھے ٹیلی فون کیا کہ میں نے اپنا کام change کردیا۔ مقصد میرا یہ دیکھو یہ صاف بات ہے اللہ برکت نہ دے ناں پھر آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ جتنے لوگ یہ ڈاکے ڈال رہے ہیں ناں، ڈاکے سے مراد یہ نہیں کہ خواہ مخواہ وہ pistol والا ڈاکہ، pistol والا ڈاکہ تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ اصل ڈاکہ کیا ڈالتے ہیں، دکاندار بھی ڈاکہ ڈالتا ہے ٹھیک ہے ناں، پولیس والے بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں، ڈاکٹر بھی ڈاکہ ڈالتا ہے، ہاں کوئی اور مطلب ظاہر ہے ہر ایک…. اب سب پہ ڈاکے پڑ رہے ہیں، سب پہ ڈاکے پڑ رہے ہیں. دکاندار نے دھوکہ کرلیا ملاوٹ کر کے مال بیچ دیا، اس نے ڈاکہ ڈالا گاہک کے اوپر، اس کے اوپر پولیس والوں نے ڈاکہ ڈالا، پولیس والے پہ ڈاکٹر نے ڈاکہ ڈالا، ڈاکٹر پہ کسی اور نے ڈاکہ ڈالا؛ سب پہ ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ مجھے بتاؤ فائدہ کس کا ہورہا ہے؟ دوزخ کا سامان ہے، دوزخ کا سامان ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہورہا آپ سب کے حقوق ادا کررہے ہیں، ما شاء اللہ سب کے حقوق پورے ہورہے ہیں۔ سب خوش ہورہے ہیں، سب خوش ہورہے ہیں۔ بس یہی بات ہے، ہمیں اپنے آپ کو درست کرنا پڑے گا۔ سود کا میں نے آپ کو بتایا سود بہت زیادہ ہوگیا ہے۔

تیسری بات: جھوٹ ہوگیا، سود ہوگیا، تیسرا ہے رشوت، رشوت بہت زیادہ ہوگیا۔ ہمارے بچپن میں بھی لوگ رشوت لیتے تھے یہ نہیں کہ یہ کوئی ابھی شروع ہوگیا ہے، اس وقت رشوت لوگ لیتے تھے چھپ کر۔ اب رشوت کیسے لیتے ہیں؟ باقاعدہ ڈنکے کی چوٹ پر۔ چاہے آپ کچھ بھی کریں، دینا پڑے گا جی ورنہ کام نہیں ہوگا۔ تو یہ بے حیائی والا مزاج آگیا ہے۔ رشوت میں بھی بے حیائی والا نظام آگیا ہے۔ ایسا نظام یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والا ہوتا ہے۔ جب انسان اس حد تک خوف چھوڑ دے تو پھر اللہ تعالیٰ ان پہ مسلط کرلیتے ہیں لوگوں کو، ان کی چمڑی ادھیڑ دیتے ہیں اور ایسے عذابات مسلط کردیتے ہیں کہ لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں، ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ یہ سیلاب کی بات ہے، ہم بات کررہے تھے ایک صاحب نے مجھے کہا واللہ اعلم بالصواب، اللہ تعالیٰ نے کیسے ان تک بات پہنچائی، لیکن بہرحال ان تک بات آئی یہ تم سیلاب کی باتیں کررہے ہو، اس پہ زلزلہ آجائے پھر کیا کرو گے؟ اس سیلاب کے ساتھ ساتھ زلزلہ آجائے پھر کیا کرو گے؟ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں؟ تو بعض لوگ…. مثلًا جنوبی پنجاب میں سیلاب آگیا، سوات میں سیلاب آگیا، نوشہرہ میں سیلاب آگیا تو وہاں کے لوگ بعض دفعہ شیطان ان کو کہتا ہے اوہ صرف ہم ہی گناہگار تھے؟ اسلام آباد والے گناہگار نہیں ہیں؟ فلاں جگہ والے گناہگار نہیں ہیں؟ خدا کے بندو تمھیں کس نے کہا ہے کہ وہ بچ گئے ہیں؟ اگر اگلے دن ان کا حساب ہو تو پھر آپ کیا کریں گے؟ کیا پتا، کیا پتا، یہ تو دیر ہو سکتی ہے۔ کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر یہ لیٹ ہوگیا تو اس کا مطلب یہ بچ گیا۔ کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں، توبہ کرنے کی توفیق ہوجائے، بچ جائے سبحان اللہ! بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ ہماری قبول فرما دے۔ تو بہرحال ایک تو میں آپ سے عرض کرتا ہوں یہ باتیں میں ذرا مجبورًا کررہا تھا۔

دوسری بات میں آپ سے عرض کروں گا صفر میں کچھ نہیں ہے، صفر میں کیا ہے؟ کوئی نحوست نہیں ہے۔ میں اپنی بات نہیں کرتا، بھئی میں تو آپ کو حدیث شریف سناتا ہوں۔ حدیث شریف سن لو! ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے کہ نہ مرض کا تعدیہ ہے بلکہ جس طرح حق تعالیٰ کسی کو مریض بناتے ہیں اس طرح دوسرے کو اپنی مستقل طرف سے مریض کردیتے ہیں۔ میل جول وغیرہ سے مرض کسی کو نہیں لگتا ہے، سب وہم ہے اور نہ جانور کے اڑنے سے بدشگونی لینا کوئی چیز ہے۔ جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ داہنی جانب وغیرہ سے تیتر وغیرہ اڑنے سے منحوس ہوجاتا ہے، یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ اور نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے، جسے عام طور پر لوگ منحوس خیال کرتے ہیں۔ بالکل من گھڑت بات ہے۔ اور یہ کہ جو ہے ناں حدیث شریف میں فرمایا کہ بدفالی شرک ہے اس کو تین مرتبہ فرمایا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ صفر میں کچھ بھی نہیں ہے، صفر میں کچھ بھی نہیں ہے، صفر میں کوئی نحوست نہیں ہے۔ ”لَا صَفَرَ“ ابھی حدیث شریف میں نے آپ کو سنائی عربی میں نے آپ کو سنا دی ہے میں ذرا دوبارہ آپ کو سناتا ہوں تاکہ آپ کو تسلی ہوجائے کہ میں اپنے آپ سے نہیں کہہ رہا۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں، أَمَّا بَعْدُ: ”فَقَدْ حَانَ شَهْرُ صَفَرَ، يَتَشَائَمُ بِهٖ بَعْضُ النَّاسِ وَيَتَطَيَّرُ“ مطلب اس میں بعض لوگ بدگمانی کرتے ہیں اور ساتھ جو ہے ناں وہ کہتے ہیں کہ مطلب یہ منحوس ہے۔ ”كَمَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ مَعَ هٰذَا الْإِعْتِقَادِ يَبْتَدِعُوْنَ فِيْهِ النَّسِيْءَ….“ اچھا پھر فرماتے ہیں ”نَفٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الشُّوْمَ وَالطِّيَرَةَ بِهٖ خُصُوْصًا وَّبِكُلِّ شَىْءٍ عُمُوْمًا، وَأَزَاحَ بِهٰذَا النَّفْيِ عَنَّا ھُمُوْمًا وَّغُمُوْمًا، فَقَالَ ’’لَا عَدْوىٰ وَلا طِيَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَّلَا صَفَرَ‘‘۔11 صفر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ تو یہ صفر کے بارے میں اگر کوئی اخبار وغیرہ میں آجائے ناں، آتے ہیں آج کل، آج کل آرہے ہیں، اخباروں میں آتے ہیں، یہ وظیفہ کرلو تو محفوظ ہوجاؤ گے، یہ وظیفہ کرلو۔ بھئی مجھے بتاؤ اگر نحوست گناہوں کی وجہ سے آئی تو کوئی وظیفہ آپ کو نہیں بچا سکتا۔ اگر نحوست گناہوں کی وجہ سے آئی ہے ناں تو کوئی وظیفہ آپ کو نہیں بچا سکتا میں لکھ کے دیتا ہوں۔ گناہوں سے بچنے کے لئے ایک ہی وظیفہ کافی ہے اور وہ ہے توبہ کرنا، توبہ کرنا، توبہ کرنا۔ بغیر توبہ کے یہ وظیفوں سے دور ہونے والی چیزیں نہیں ہوتیں۔ جیسے حضرت نے فرمایا: مولانا مصطفیٰ صاحب نے، فرمایا ناں: گشت بہت بڑا عمل ہے، لیکن فرمایا بھئی گشت سے بہت سارے گناہ معاف ہوتے ہیں لیکن سارے گناہ اللہ سے توبہ سے معاف ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم لوگ وضو کرتے ہیں ناں اس سے بھی گناہ معاف ہوتے ہیں، وضو کرتے ہیں اس سے بھی گناہ معاف ہوتے ہیں۔ ہم لوگ راستہ سے بری چیزیں ہٹاتے ہیں اس سے بھی گناہ معاف ہوجاتے ہیں، لیکن وہ صغیرہ گناہ ہیں صغیرہ گناہ، صغیرہ گناہ بہت ساری چیزوں سے معاف ہوتے ہیں۔ جو کبیرہ گناہ ہیں مثلًا کسی نے زنا کیا توبہ کرنی پڑے گی، کسی نے قتل کیا توبہ کرنی پڑے گے اور قصاص بھی۔ ہاں جی، اور اگر کسی نے کوئی corruption کی ہے توبہ کرنی پڑے گی اور جن سے مال کھایا ہے ان کو پہنچانا بھی ہوگا۔ ہاں جی، یہ ساری باتیں خود کرنی پڑیں گی پھر معافی ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دے۔

یہ میں آپ سے عرض کرتا ہوں اس وقت میں کچھ الفاظ کہوں گا توبہ کے آپ میرے ساتھ کہیں لیکن یہ صرف الفاظ نہیں ہوں بلکہ اس کے پیچھے نیت ہو کہ اب میں وہ گناہ نہیں کروں گا جن گناہوں سے ہم توبہ کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے ناں، مطلب پھر جو ہے ناں وہ گناہ ہم نہیں کریں گے۔ اے اللہ! ہم توبہ کرتے ہیں تمام گناہوں سے، چھوٹے ہیں یا بڑے، ہمیں معلوم ہیں یا نہیں، قصداً ہوئے یا خطا سے، ظاہر کے یا باطن کے، اے اللہ! میری توبہ قبول فرما۔ آئندہ کے لئے ان شاء اللہ میں گناہ نہیں کروں گا۔ اگر غلطی سے پھر ہوگیا فورًا توبہ کروں گا۔ یا اللہ! توبہ کرتا ہوں جھوٹ سے، یا اللہ! توبہ کرتا ہوں سود سے، یا اللہ! توبہ کرتا ہوں رشوت سے۔ اے اللہ! ہمیں ان سے بچا دے۔ یا اللہ! اس ظلم سے ہمیں بچا دے، جو ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اے اللہ! اس سے ہمیں محفوظ فرما دے۔ ہمیں سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔ تو میں آپ حضرات سے عرض کروں گا کہ ایک تو یہ دیکھو توبہ ہم نے کرلی۔ اَلْحَمْدُ للہ اَلْحَمْدُ للہ، ثم اَلْحَمْدُ للہ، اللہ تعالیٰ ہمیں اس پہ قائم رکھے۔ لیکن ایک اور بات اہم عرض کرنا چاہتا ہوں: توبہ پر قائم رہنا، توبہ پر قائم رہنا، توبہ پر قائم رہنے کے لئے دعا بھی ہونی چاہئے لیکن اس کے اسباب بھی اختیار کرنے چاہیں۔ اب اس کے اسباب کیا ہیں وہ عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلے آپ سمجھیں کہ گناہوں کے اسباب کیا ہیں۔ گناہوں کے اسباب کیا ہیں۔ تو گناہوں کے جو اسباب ہیں وہ کیا ہیں؟ بھئی! پھر بعد میں موقع ملے گا، موقع ملے گا، ملے گا ناں؟ اس وقت آپ سنتیں نہ پڑھیں، سنتوں کا موقع ملے گا۔ اس وقت یہ جو باتیں ہورہی ہیں آپ کے لئے بہت اہم ہیں، میرے لئے بھی بہت اہم ہیں آپ کے لئے بھی بہت اہم ہیں۔ یہ ساری باتیں جو ہیں ناں ہر جگہ نہیں ملا کرتیں۔ ہاں جی، تو بہرحال میں عرض کررہا ہوں کہ اسباب…. تو کون سے اسباب گناہوں کے ہیں؟ سب سے بڑا سبب کون سا ہے؟ وہ ہمارا نفس ہے۔ میں نہیں کہتا اللہ پاک اپنے قرآن میں کہتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو یوسف علیہ السلام کہتے ہیں: میں اپنے آپ کو بَری نہیں سمجھتا نفس امارہ سے، بے شک یہ تو برائی کی طرف مائل کرنے والا ہے۔ برائی کی طرف مائل کرنے والا ہے۔ ہر شخص نفس امارہ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور شیطان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا برائی کی جڑ کیا ہے؟ وہ نفس امارہ ہے۔ اب جب تک یہ نفس امارہ، نفس امارہ ہے تو اس پر توبہ پر قائم رہنا بظاہر محال ہے، بظاہر محال ہے۔ تو اب اس نفس امارہ کو بنانا پڑے گا نفس مطمئنہ۔ اللہ پاک نے تین قسم کے نفسوں کا ذکر کیا ہے قرآن میں: نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس مطمئنہ۔ نفس امارہ برائی کا ہے، نفس لوامہ برائی کرکے توبہ کا ہے، یعنی انسان توبہ کرتا ہے پھر بار بار، یہ نفس لوامہ ہے۔ اور تیسرا نفس جو ہے وہ نفس مطمئنہ ہے کہ انسان شریعت پر مطمئن ہوجائے اور پھر اس کو شریعت کی باتیں ہیں اچھی لگتی ہیں۔ دنیا ادھر سے ادھر ہوجاتی ہے کہتا ہے شریعت ٹھیک ہے۔ ہاں جی، اس کی گویا کہ طبعی خواہش شریعت پر چلنے کی ہوجاتی ہے۔ تو یہ نفس مطمئنہ حاصل کرنا ہے۔ اب یہ نفس مطمئنہ باتوں سے حاصل نہیں ہوتا، اس کے لئے ایک طریقہ ہے، وہ طریقہ کیا ہے؟ وہ طریقہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو اپنے نفس کو دبانا ہے۔ یعنی اپنے نفس کی خواہش کو دبانا ہے۔ مثلًا میں روزہ رکھتا ہوں تو کیا خیال ہے اس وقت انسان بھوکا نہیں ہوتا؟ بھوک لگتی ہے یا نہیں لگتی؟ پیاس لگتی ہے یا نہیں لگتی؟ پھر انسان کیا کرتا ہے پی لیتا ہے پانی؟ یا کھا لیتا ہے کھانا؟ نہیں، اس کو دبا لیتا ہے۔ کہتا ہے نہیں، ابھی نہیں، ابھی نہیں، ابھی روزہ، ابھی روزہ، ابھی روزہ ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ یہ عام آدمی کا روزہ ہے۔ یہ عام آدمی کا روزہ ہے، عام آدمی کو بھی یہ کرنا پڑتا ہے۔ صحیح جو اللہ والوں کا روزہ ہے ناں وہ کون سا روزہ ہے؟ وہ اپنی آنکھ کا بھی روزہ رکھتے ہیں کہ میں کسی غیر محرم کو نہ دیکھوں، کسی گناہ کی چیز کو نہ دیکھوں۔ اپنے کان کا بھی روزہ رکھتے ہیں، میں کوئی گناہ کی چیز نہ سنوں۔ زبان کا بھی روزہ رکھتا ہے کہ میں کوئی غیبت نہ کروں، جھوٹ نہ بولوں، ایسی بات نہ کروں جس سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے۔ کوئی غلط بات سوچوں نہیں، یہ اللہ والوں کا روزہ ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ یہ اللہ والوں کا روزہ ہے۔ اور یہ اللہ والوں کا روزہ اتنا اہم ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے روزہ ڈھال ہے برائیوں سے، اگر کوئی اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ روزہ ڈھال ہے اگر کوئی اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ پھاڑ نہ ڈالنے کا مطلب کیا ہے؟ یہ جو اللہ والوں کی باتیں ہیں ناں اس سے احتراز کرلے۔ مثلًا زبان سے جھوٹ بولے، ڈھال پھٹ گئی ناں؟ ہاں ہم نے جو ہے ناں کوئی دھوکہ کرلیا، آنکھوں سے غلط چیز کو دیکھ لیا، یہ روزے کو خراب کرتا ہے یہ روزہ کو خراب کرتا ہے۔ تو بہرحال میں نے یہ صرف مثال دی، مثال سے آپ سمجھ لو کہ انسان اپنے نفس کو دباتا ہے تو پھر بچتا ہے۔ اور اس میں صلاحیت پھر بڑھتی ہے۔ مطلب دیکھیں اگر آپ نے ابھی آج نفس کو دبا لیا وہ پورے زور سے چیخے گا لیکن اگلے دن جب آپ اس کو دبائیں گے تو اتنے زور سے نہیں کچھ کم زور سے چیخے گا۔ پھر تیسرے روز جب دبائیں گے تو اور آسانی کے ساتھ ہوگا۔ چوتھے روز اور آسانی کے ساتھ ہوگا حتیٰ کہ ایک وقت آجائے گا کہ نفس مطمئن ہوجائے گا، سمجھ میں آگئی ناں بات؟ تو لہٰذا نفس کو دبانا یہ علاج ہے۔ اس کو مجاہدہ کہتے ہیں۔ اس کو کیا کہتے ہیں؟ اس کو مجاہدہ کہتے ہیں۔ اب مجاہدہ چونکہ مشکل عمل ہے، اپنے نفس کو روکنا مشکل عمل ہے لہٰذا اس کے لئے ایک آسانی ہے۔ میں ڈاکٹر کے پاس گیا تھا میرا freeze shoulder ہوگیا تھا۔ تو ڈاکٹر نے کہا کہ میں آپ کو exercise بتاتا ہوں، یہ exercise آپ نے کرنا ہے۔ پھر فرمایا اچھا یہ دوائیاں بھی آپ استعمال کریں۔ پھر فرمایا اصل علاج تو exercise ہے یہ دوائیاں میں اس لئے دے رہا ہوں تاکہ آپ exercise اچھی طرح کر سکیں، اس کو کرنے کے لئے آسانی ہے۔ جیسے نہیں ہوتے آپ کوئی مطلب جو ہے ناں وہ نٹ بولٹ تو اس میں کوئی گریس ڈال لیتے ہیں ذرا آسانی کے ساتھ وہ چلا جاتا ہے، یہی بات ہوتی ہے ناں تو یہ اس کے لئے آسانی ہے میں نے کہا اچھا اگر اس کے لئے آسانی ہے اور اصل نہیں ہے، اور اصل تو وہی ہے پھر میں وہی exercise ہی کرلیتا ہوں۔ میں نے ایک ہفتہ exercise کرلی میں ٹھیک ہوگیا۔ ٹھیک ہے ناں؟ تو اس کا مطلب ہے کہ اصل تو مجاہدہ ہے، علاج کیا ہے؟ اصل تو مجاہدہ ہے لیکن جس کو مجاہدہ آسانی کے ساتھ نہیں ہورہا ہو تو کیا ہے وہ پہلے ذکر دیتے ہیں، ذکر سے دل نرم ہوجاتا ہے۔ دل کے نرم ہونے کی وجہ سے انسان میں رقت آجاتی ہے، اللہ کی بات ماننے کا سلیقہ آجاتا ہے، نفس کو control کرنا آجاتا ہے؛ نتیجاً اس وقت جو اس سے آپ کوئی بھی عمل کروانا چاہیں تو کرلیں گے۔ بس یہی آپ بار بار ذکر بھی کریں، مجاہدہ بھی کریں، ذکر بھی کریں، مجاہدہ بھی کریں، تو کام بن جائے گا ناں؟ تو یہ مشائخ ہی کرتے ہیں۔

تو تین قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جس کو ہم کہتے ہیں مطلب جو ہے اخیار۔ اخیار، اخیار وہ لوگ ہیں جو ہر وقت نفس کے ساتھ لڑتے ہیں اور نفس کی مخالفت کرکے بات منوا لیتے ہیں۔ یہ کام اچھا ہے لیکن لمبا ہے اور مشکل ہے۔ جیسے بغیر اوزار کے کوئی کام کرے ناں تو مشکل ہوتا ہے۔ ہاں جی، دوسرا کام ابرار کا ہے۔ ابرار وہ ہیں جو کسی شیخ کے ہاتھ سے بیعت ہوجاتے ہیں اور پھر اس کی بات مانتے ہیں لہٰذا وہ اپنے experience کی وجہ سے وہ بات بتا دیتے ہیں جو اس کے لئے مفید ہو، ایک بات۔ دوسری بات اس کے سلسلہ کی برکت بھی ہوتی ہے، قبولیت بھی ہوتی ہے لہٰذا اس کے ساتھ بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔ یہ دو باتیں ان کو ویسے مفت میں مل جاتی ہیں۔ صرف اس کا will power اس میں استعمال ہوتا ہے کہ میں نے اپنے شیخ کی بات ماننی ہے۔ بس، اس کی صرف اتنی بات ہوتی ہے۔ تو یہ زیادہ فائدہ مند چیز ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ بہت rare ہے لیکن وہ موجود ہے اور وہ کیا ہے اپنے شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہوجائے کہ اس کا انکار ہی نہ کر سکے تو پھر اس کو کوئی قوت ارادی کی ضرورت نہیں ہے، وہ شیخ کی بات پر ہی چلے گا ناں۔ کیونکہ اس کو محبت ہے اس کے ساتھ۔ جب محبت ہے تو پھر کون سی بات سے انکار کرے گا؟ لہٰذا کام جلدی جلدی ہوگا۔ تو بس یہ تین راستے ہیں ان تین راستوں میں کوئی ایک راستہ اپنے لئے چن لیں۔ ہاں، نتیجہ میں بتاتا ہوں، پہلا راستہ لمبا ہے اور مشکل ہے، وقت کے ساتھ ساتھ جیسے ایسے ہے گاڑی خراب گاڑی ہے اور آپ اس کو چلا رہے ہیں کسی طریقہ سے۔ ہمارے ایک رشتہ دار تھے وہ بڑے اچھے ڈرائیور تھے لیکن اس کی جو گاڑی تھی ناں Chevrolet گاڑی تھی اس وقت کی بات ہے۔ تو اس میں وہ جو ہے اس کے ذرہ بٹنوں کے ذریعہ سے اس نے وہ ڈالے ہوئے تھے رسیاں ڈالی ہوئی تھیں جو اس کے ساتھ ہوتا اسکو کہتا یہ فلاں رسی کھینچو، دوسرے کو کہتا فلاں رسی کھینچو۔ اس رسیوں کے کھینچنے سے اپنی گاڑی چلا رہے تھے وہ، ٹھیک ہے جی کر سکتے تھے، بڑے اچھے ڈرائیور تھے لیکن عمر بھر اس نے بڑی مشکل سے مطلب گزارا کیا۔ بس، لیکن جو آدمی ورکشاپ گاڑی لے جائے اور ٹھیک کرلے اور ٹھیک ہوکر پھر فراٹے بھرتے ہوئے سڑک پہ جائے تو وہ اچھا ہے یا کیا ہے وہ خراب گاڑی چلانا؟ تو اخیار والا طریقہ کیا ہے؟ وہ خراب گاڑی چلانا ہے۔ اور جو ابرار والا طریقہ ہے، ورکشاپ لے جانا۔ اور جو ما شاء اللہ شطاریہ والا طریقہ ہے اس کی تو بات ہی اور ہے۔ اللہ جل شانہ ہمیں اس میں سے صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یقین جانئے بہت آسان راستہ ہے۔ ہم پشاور گئے تھے، پشاور میں اسلامیہ کالج میں ہم نے admission لیا تھا، کسی مدرسہ میں نہیں لیا تھا، کسی خانقاہ میں نہیں گئے تھے۔ وہاں کسی نے کہا کہ یہاں ایک بزرگ ہیں بیٹھتے ہیں وہ ذرا بیان کرتے ہیں آپ بھی بیان سن لیں، ہم بھی چلے گئے، مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ…. بیان میں بیٹھ گئے تو دل نے کہا یہ آدمی صحیح ہے، یہ بات صحیح کرتا ہے، ان کے ساتھ بیٹھنا اچھی بات ہے۔ آپ یقین کیجئے، مسجد میں بیٹھا ہوں، چار پانچ سال مجھے پتا نہیں چلا کہ وہ پیر ہے۔ چار پانچ سال معمولی عرصہ ہوتا ہے؟ حضرت کے پاس جاتے رہے ہیں لیکن ہمیں پتا نہیں تھا کہ حضرت پیر ہیں، لیکن حضرت پیر تھے۔ ایسے ہی مطلب شہرت وغیرہ سے بالکل علیحدہ تھے کہ پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ حضرت پیر ہیں۔ وہ تو بعد میں عالم نے مجھے کہا کہ آپ اس سے بیعت ہیں؟ میں نے کہا کیا حضرت بیعت کرتے ہیں؟ کہتے ہیں عجیب سادہ آدمی ہو، ان کے ذریعہ سے تو پوری یونیورسٹی کی اصلاح ہورہی ہے آپ کہتے ہیں یہ بیعت کرتے ہیں۔ تو میں عرض کرتا ہوں کہ ان کے پاس گئے، ان کے ساتھ بیٹھنے سے یونیورسٹی کے بہت سارے غلط کاموں سے اللہ نے بچا دیا۔ پتا بھی نہیں چلا ان چیزوں کا کہ وہ چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ ہاں جی، اللہ پاک نے بچا دیا۔ یہ ہوتی ہے برکت بزرگوں کے ساتھ بیٹھنے کی۔ ہاں جی، اور ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے کیا ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے اول تو ان کی نصیحت اور وہ طریقہ کار وہ الگ بات ہے، لیکن یقین کیجئے جہاں پر وہ بیٹھے ہوتے ہیں وہاں اللہ کی رحمت اترتی ہے۔ اور جہاں اللہ کی رحمت اترتی ہو وہ جو کوئی بیٹھتا ہے اس کو کچھ اثر ہوگا یا نہیں ہوگا؟ ظاہر ہے، اثر ہوگا ناں؟ بس یہی سارا نظام ہے، سارا نظام یہی ہے کہ اللہ والوں کے پاس بیٹھ جاؤ۔ ﴿وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ12 قرآن پاک کا حکم بھی یہی ہے: ﴿وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ، جو قول و فعل کے سچے ہیں۔ جو قول و فعل کے سچے ہیں ان کے ساتھ ہوجاؤ۔ دیکھو جھوٹ سب سے خطرناک بات میں نے عرض کی آج کل کے دور میں اور صدق سب سے بڑی اونچی بات اس کے مقابلہ میں۔ آپ ﷺ کا نام کیا تھا؟ صادق و امین۔ آج کل صادق و امین کس کو کہتے ہیں؟ میں سیاست پہ بات نہیں کرتا لیکن بہت دماغ پک گیا ہے کہ صادق اور امین آج کل لوگ کس کو کہتے ہیں۔ صادق اور امین آپ ﷺ تھے، صادق اور امین آپ ﷺ تھے۔ اب ان کی اتباع میں ہم صادق اور امین ہوجائیں یہ بڑی بات ہے۔ اللہ کرلے، اللہ کرلے، اس کے لئے پھر ہمیں کوشش اور محنت کرنی پڑے گی، اللہ تعالیٰ ہمیں اس محنت کرنے کے لئے قبول فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ




  1. (التوبہ: 37)

  2. (بخاری، حدیث نمبر: 5707)

  3. (ابوداؤد، حدیث نمبر: 3915، بِاخْتِلَافِ الْأَلْفَاظِ)

  4. (ابوداؤد، حدیث نمبر: 3910)

  5. (بخاری، حدیث نمبر: 5093)

  6. (ابوداؤد، حدیث نمبر: 3921)

  7. (یس: 19)

  8. ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کر لیا (لہذا اس دین کے احکام کی پوری پابندی کرو)“ (المائدہ: 3)

    نوٹ! حاشیے میں موجود آیات کا تمام ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

  9. ترجمہ: ”لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اسکی وجہ سے خشکی اور تری میں فساس پھیلا“۔ (الروم: 41)

  10. ترجمہ: ”اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔“ (البقرہ: 276)

  11. (بخاری، حدیث نمبر:5707)

  12. ترجمہ: ”اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔“ (التوبہ: 119)

بلائیں اور عذابات صفر سے نہیں، گناہوں سے آتے ہیں - جمعہ بیان