مکتوبات شریف

درس نمبر 200، دفتر اول ( یہ بیان 13 ستمبر 2017 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھمحضرت شیخ حسین احمد صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج بدھ کا دن ہے، بدھ کے دن ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات شریف کا درس ہوتا ہے۔ مکتوب نمبر 247 کا درس شروع ہوتا ہے۔


مکتوب نمبر 247


متن: عرفان پناہ میرزا حسّام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا۔۔۔ اس بیان میں کہ حق تعالیٰ و تقدس کے وجودِ مقدس پر اس کا اپنا وجودِ حق جل سلطانہ ہی دلیل ہو نہ کہ اس کے علاوہ، اور اس کے مناسب بیان میں۔

عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ لَا بِلْ عَرَفْتُ فَسْخَ الْعَزَائِمِ بِرَبِّیْ (میں نے اپنے پروردگار کو اپنے مستحکم ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا نہیں، بلکہ ارادوں کے ٹوٹنے کو اپنے پروردگار جل و علا کے ساتھ پہچان لیا ہے) کیونکہ وہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے ماسویٰ پر دلیل ہے نہ کہ غیر اللہ اس سبحانہ پر دلیل ہو اس لئے کہ دلیل اپنے مدلول سے اظہر ہوتی ہے اور اس سبحانہ و تعالیٰ سے زیادہ اور کونسی چیز اظہر ہے کیونکہ تمام اشیاء اس کے ساتھ اور اسی سے ظاہر ہوئی ہیں لہٰذا وہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات پر اور اپنے ماسویٰ پر دلیل ہے۔ پس لازماً عَرَفْتُ رَبِّیْ بِرَبِّیْ وَ عَرَفْتُ الْاَشْیَاءَ بِہٖ تَعَالٰی (میں نے اپنے رب کو اپنے رب ہی کے ذریعہ پہچانا اور اشیاء کو اس سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ پہچانا)۔۔۔ لہٰذا برہان اس جگہ ’’لمیّ‘‘ ہے (معلوم پر علت کے اثر کے ساتھ) اور اکثر کے گمان میں ’’اِنیِ‘‘ ہے اور تفاوت نظر کے تفاوت سے ہے اور اختلاف بلحاظ منظر کے اختلاف کے ہے، بلکہ وہاں استدلال و برہان کی مجال نہیں ہے کیونکہ اس سبحانہ و تعالیٰ کے وجود میں کوئی پوشیدگی نہیں ہے اور اس ظہور میں کوئی شک و تردد نہیں ہے اور تمام بدیہیات (جانی بوجھی پیش نظر چیزوں) سے زیادہ ظاہر اور روشن ہے۔ اور یہ بات سوائے اس شخص کے کسی پر پوشیدہ نہیں جس کے دل میں مرض اور آنکھوں پر پردہ ہو۔ حالانکہ تمام اشیاء ظاہری حواس سے محسوس ہیں اور وضاحت کے ساتھ معلوم ہیں کہ ان سب کا وجود حق تعالیٰ و تقدس کی طرف سے ہے لیکن بعض لوگوں کو اس کا علم حاصل نہ ہونا کسی بیماری کے عارض ہونے کی وجہ سے ہے جواصل مطلوب میں مضر نہیں ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفےٰ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ الصَّلَوَاتِ وَالتَّسْلِيْمَاتِ اَتَمُّھَا وَ اَکْمَلُھَا (اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی الہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و ا کملہا (اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی الہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم جانا) 

تشریح:

یہ مکتوب بھی بہت اہم ہے، اللہ جل شانہٗ کے دو نام ہیں ایک ظاہر ہے اور دوسرا باطن ہے۔ ظاہر نام کی وجہ سے اللہ جل شانہٗ ظاہر ہے ہر چیز کے اندر ظاہر ہے۔ یہ جو بعض شعراء، عارفین، صوفیاء کرام کہتے ہیں کہ میں نے اللہ جل شانہٗ کو ہر جگہ پایا، ہر چیز میں اللہ کو پایا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہٗ اپنی قدرتوں کے ذریعے ہر چیز کے اندر ظاہر ہے، ہر چیز میں موثر حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ سائنسدان حضرات سسٹم کو study کرتے ہیں اور شروع کرتے ہیں قریبی سسٹموں سے، مثلاََ وہ جب دیکھتے ہیں کہ چائے کی پیالی تھوڑی دیر میں گرم چائے ٹھنڈی ہوجاتی ہے، تو اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں کہ وہ کیوں ٹھنڈی ہوئی ہے۔ نیوٹن کے بارے میں مشہور ہے کہ نیچے سیب گرا تو وہ اس کے پیچھے پڑ گیا کہ سیب نیچے کیوں گرا، اس نے کششِ ثقل کو ایجاد کیا۔ اگرچہ اس میں بہت ساری تفصیلات ہیں، بہرحال فی الحال اتنی بات تو کہتے ہیں۔ جس کو ہم کہتے ہیں lim یعنی وجہ، تو وجہ جو ہوتی ہے وہ سائنسدان دریافت کرتے ہیں اور وجہ دریافت کرنے سے ان پر کچھ نظام منکشف ہوتے ہیں۔ تو جو نظام چائے کے ٹھنڈا ہونے کیساتھ منکشف ہوتا ہے ان کے اوپر، وہ یہ ہے Fluid Mechanics یا heat transfer ہیں جس میں convection کہلاتا ہے وہ ان پر منکشف ہوا، ان کو پتا چل گیا کہ ہوا بھی چلتی ہے، ہوا اگر چائے سے ٹھنڈی ہو تو وہ جب ٹکرائے گی تو وہ لے گی اس کی حرارت اور ساتھ لے جائے گی، آگے جا کر مزید تفصیلات انہوں نے معلوم کیں، انہوں نے کہا Molecules ہوتے ہیں، جو بہت Energetic Molecules ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ پر ٹکتے نہیں، شرارتی بچوں کی طرح اچھلتے ہیں، تو وہ جو اچھلنے والے Molecules ہیں، وہ جو air کرنٹ چل رہی ہے تازہ ہوا ان پر سوار ہو کر آگے چلی جاتی ہے، لہٰذا وہ پیچھے جو Molecules رہ جاتے ہیں وہ کم Energy والے ہوتے ہیں، لہٰذا چیز ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس طرح Surface of contact کو کم کرنے سے چیز کو زیادہ دیر گرم رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ساری چیزیں دریافت ہوتی رہیں اور اس سے ماشاء اللہ علم حاصل ہوتا ہے، جس کو پہلے وقتوں میں مطالعہ کہا جاتا تھا آج کل اس کو سائنس کہا جاتا ہے۔ تو یہ چیزیں develop ہوئیں۔ اگر شیطان خبیث نہ ہوتا تو یہ خود ہی اس تک پہنچ جاتے کیونکہ ہر نظام دوسرے نظام کا ایک ذریعہ ہے، دوسرا تیسرے کا ذریعہ ہے، تیسرا چوتھے کا، چوتھا پانچویں کا ذریعہ ہے، اخیر میں تو اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ لیکن یہ روک دیتے ہیں اور جو سسٹم خود کار نظر آتے ہیں تو وہ خود کار ہمیں نظر آتے ہیں، جس نے بنایا اس کے لئے تو خود کار نہیں ہیں، اس نے تو اس کو بنایا ہے وہ اس کو چلا رہا ہے۔ ہماری Blood circulation خود کار ہے، لیکن اس کے اندر جو heart چلتا ہے وہ اس کا ذریعہ ہے، کیا heart خود بخود چلتا ہے؟ یہ سائنسدان کیسے مان سکتا ہے؟ اس کو بھی چلانے والا کوئی ہے، کون سی چیز اس کو چلاتی ہے اگر ان چیزوں پر غور کر لے تو پہنچ جاتا ہے۔ لیکن نہیں! کیونکہ شیطان روک دیتا ہے اور کہتا ہے بس اس سے آگے تیری ذمہ داری نہیں ہے، یہ خود کار ہے خود ہی چلتا ہے، Self-sustained system بس ختم۔ تو یہ ساری باتیں میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ ہم ان چیزوں سے گزرتے ہیں اور ہم اپنے آپ کو دھوکا دیتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ایک نظام میں نہیں ہر نظام میں اپنے آپ کو دکھایا ہے۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:

برگِ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار

ہر ورقش دفترے است معرفت کِردگار

جو سبز پتے ہیں وہ ہوشیار کی نظر میں (ہوشیار سے مراد ہوش مند)، اس کی نظر میں اس کا ہر ورق جو ہے وہ معرفت کردگار کا پورا ایک دفتر ہے اس کو سمجھنے کیلئے۔ ہم دریاؤں کو چلتے ہوئے دیکھتے ہیں اس میں اللہ ہے، پہاڑوں کو دیکھتے ہیں اس میں اللہ ہے، ہم برف کو گرتے دیکھتے ہیں اس میں اللہ ہے، ہر ہر نظام کے پیچھے اگر غور کیا جائے تو خود بخود ہوتے ہوئے نظر نہیں آ سکتا کہ خود بخود ہو رہا ہے، اس کے پیچھے ایک چلانے والا ہے۔ وہ اصل میں اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لئے فرمایا: ﴿إِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ 1

ترجمہ2: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔

لیکن عقلمند کون لوگ ہیں؟ سائنسدان حضرات؟ ہاں! ہو سکتا ہے اگر ایک چیز ان میں add کر لی جائے، وہ ہے ایمان اور اللہ کا ذکر، اللہ کا جو ذکر ہے وہ انسان کو اللہ کی یاد دلاتا ہے، پھر اس کے سامنے خود بخود یہ ساری چیزیں کھلتی جاتی ہیں، پرت کھلتے جاتے ہیں کہ اس کے بعد تو یہ ہے، اس کے بعد تو یہ ہے، اس کے بعد تو یہ ہے، وہ ساری چیزیں کھلتی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ خان، ان کے پاس ایک musician آیا اور اس musician نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! میں نے قرآن ہارمونیم میں سارا بجا لیا، بس ایک سورت رہ گئی وہ نہیں بج رہی۔ انہوں نے کہا کون سی سورت ہے؟ اس نے کہا وہ ہے: ﴿اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُۙ ۝ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ ۝ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠﴾3 فرمایا: اس کی تلاوت کا ایک طریقہ یہ ہے: ﴿اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُۙ ۝ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ﴾ جیسے ہی یہ کہہ دیا، اس نے کہا کہ میں بچ گیا اور مسلمان ہوگیا۔ اس کو اس میں نظر آگیا، وہ rhythm جو ہے یہ سارے کا سارا قرآن rhythm میں کہاں بنایا جاسکتا ہے، یہ ممکن ہے؟ اور جو musician ہوتا ہے وہ اس چیز کو جانتا ہے، mathematician جو ہے وہ mathematic کے رخ سے جانتا ہے، جو physicist ہے وہ physics کے رخ سے جانتا ہے، ڈاکٹر ڈاکٹری کے رخ سے جانتا ہے، انجینئر engineering کے رخ سے جانتا ہے، ہر چیز کا یہ معاملہ ہے، جو اس کے اندر عجائبات ہیں وہ ہر رخ سے دیکھے جائیں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت ظاہر ہوتی ہے: ﴿إِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ اب نقطۂ نظر کی بات ہے۔ حضرت فرماتے ہیں نقطۂ نظر کی بات ہے، آپ کو پہلے یہ چیزیں نظر آئیں پھر اللہ تعالیٰ ان میں نظر آیا تو میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اللہ کو پہچانا، اس سے یہ statement بن جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ چیزیں پہلے واقع ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ پھر بعد میں نظر آتے ہیں، لیکن تمام چیزوں کے اندر ایک ہی چیز بار بار repeat ہو رہی ہے، ایک ہی چیز ہے، ہر جگہ پر اللہ ہی ہے۔ گویا کہ تمام کڑیاں جو باہم مربوط ہیں اس وجہ سے مربوط ہیں۔ لہٰذا اس کو دیکھ کر حق تعالیٰ نظر آتے ہیں۔ کتنی چیزیں سمجھ میں آگئیں، یعنی پہلے اللہ جل شانہٗ کی اس سے ہمہ جہتی قدرت سامنے نظر آئی کہ ہر جگہ پر ایک ہی چیز ہے، پھر اس کے ذریعے تمام چیزوں کو آپس میں آپ connect کرتے ہیں اور یہ چیزیں سمجھ میں آ رہی ہیں۔ پھر اس کو آپ اس انداز میں دیکھتے ہیں کہ یہ تو اصل میں اللہ ہے، چونکہ جو ہمہ جہتی ہونا ہے وہ تمام چیزوں سے زیادہ بنیادی ہے، تو جو بنیادی ہے وہ ذریعہ بنتا ہے معرفت کا، یہ اس angle سے دیکھیں تو یہ بھی ٹھیک ہے، مطلب اگر اس angle سے دیکھیں تو۔ میں اگر کہوں کہ مبتدی کے لئے تو پہلے والی بات ہے اور منتہی کے لئے بعد والی بات ہے حضرت نے منتہی والی بات فرمائی ہے منتہی جو ہوتا ہے وہ root پر نظر رکھتا ہے اور سامنے کو نہیں دیکھتا۔ جبکہ مبتدی سامنے کو دیکھتا ہے اس کے ذریعے سے دیکھتا ہے۔ تو اس لئے حضرت نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ نقطۂ نظر کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔

متن: لہٰذا برہان اس جگہ ’’لمیّ‘‘ ہے۔

تشریح: (لِمَ یعنی لِمَا جس کو کہتے ہیں، وجہ یا علت جس کو ہم کہتے ہے۔)

متن: (معلوم پر علت کے اثر کے ساتھ) اور اکثر کے گمان میں ’’اِنّیِ‘‘ ہے۔

تشریح: یعنی مطلب یہ کہ برہان جو دلیل ہے وہ اگر ہم دیکھیں کہ ہر چیز کی وجہ کیا ہے، تو اس کا علم بھی ہوگیا، اور وہ جو اصل root ہے وہ ہر جگہ موجود ہے، یہ root جس وقت discover ہوگیا، منتہی کو تو discover ہو جاتا ہے، پھر اس کو ہر جگہ وہ نظر آتا ہے۔ تو گویا کہ اشیاء کا تعارف جو ہوتا ہے وہ اس طرح ہوتا ہے۔ اب ذرا تھوڑی سی میں آگے کی بات کرتا ہوں الحمد للہ جو ابھی علم نصیب ہوا۔ کائنات کے مظاہر وہ تو ’’لمّی‘‘ ہیں، وہ اس کے ذریعے سے دریافت ہوتے ہیں اور اس سے اللہ کی طرف دھیان جاتا ہے، لیکن جس کو کائنات کی حقیقت کہتے ہیں، جس کو معرفت کہتے ہیں، وہ تو ’’لمّی‘‘ کے بعد ہے، وہ پھر منتہی کو معلوم ہوتا ہے، کیونکہ منتہی اللہ کیساتھ متعارف ہوچکا ہوتا ہے، اللہ کو پہچان چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا جب وہ اللہ کو پہچان لیتا ہے تو باقی چیزوں کو اللہ کی معرفت سے پہچانتا ہے۔ لہٰذا جتنا جتنا کوئی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے، اتنی اتنی اس پر حقیقتیں کھلتی جاتی ہیں، انکشافات ہوتے جاتے ہیں۔ یہ وہ انکشافات ہیں جو سائنسدانوں پر نہیں ہوتے، چونکہ وہ سطحی نظر والے ہیں، تو یہ انکشافات سائنسدانوں پر نہیں ہوتے، یہ انکشافات عارفین پر ہوتے ہیں، جس میں سائنسدان صرف دور سے مشاہدہ ہی کر سکتے ہیں ان کا کچھ کر نہیں سکتے۔ جبکہ عارفین کو بعض دفعہ چابی بھی ہاتھ میں دے دی جاتی ہے، تو وہ پھر اللہ پاک کی مرضی کو دیکھ کر جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال وہی بات ہے کہ عارفین جو ہوتے ہیں وہ چونکہ کرنے والے کے قریب ہوتے ہیں، خالقِ حقیقی کے قریب ہوتے ہیں، نتیجتاً یہ چیزیں جو ہوتی ہیں، وہ دور ہوتی ہیں اور وہ قریب ہوتے ہیں، لہٰذا وہ چیزوں کے اوپر موثر ہوتے ہیں اور جو سطحی نظر والے ہوتے ہیں ان پر چیزیں موثر ہوتی ہیں، وہ چیزوں سے اثر لیتے ہیں۔ تو عارفین سے چیزیں اثر لیتی ہیں، اور باقی جو سطحی نظر والے لوگ ہوتے ہیں وہ ان چیزوں سے اثر لیتے ہیں۔ یہی والی بات ہے کہ اختلافِ نظر ہوگیا، کچھ لوگوں کی نظر اِس طرف سے جاتی ہے، کچھ لوگوں کی نظر اندر سے جاتی ہے اور اسی کے ذریعے سے ان پر وہ چیزیں کھلتی جاتی ہیں جیسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ تھے کہ نفسِ کلیّہ اور یہ سب چیزیں، یہ کہاں سائنسدان کو پتا ہیں؟ سائنسدان تو اس کو جان ہی نہیں سکتے، یہ چیزیں تو سائنسدنوں کے لحاظ سے نہیں ہیں۔ لیکن ان کے اوپر اللہ یہ کھولتے جاتے ہیں۔ اب بھی ماشاء اللہ رستے موجود ہیں، یہاں خانہ کعبہ پر اللہ تعالیٰ کیا کیا کچھ دے رہا ہے، اس کی جو حقیقت ہے، وہ عارفین کو ہی پتا ہوگی، حقیقتِ کعبہ جس کو کہتے ہیں۔ اس طرح ہر ہر event کیساتھ جو چیزیں ہیں، عرفات کے ساتھ ہیں، منٰی کے ساتھ ہیں، تمام چیزیں، تو یہ جو حقائق ہیں یہ حقائق اللہ جل شانہٗ کی وساطت سے ہیں، مطلب چیزوں کو پہچانا اللہ کے ذریعے سے ہے، اللہ جل شانہٗ کا قرب، اللہ کا ذکر اور اس کے ساتھ فکر، اس کے ذریعے سے آہستہ آہستہ وسعت آتی گئی، وسعت آتی گئی، وسعت آتی گئی، حتیٰ کہ ما شا ء اللہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ تو یہ اگر علمی لحاظ سے چلے جائیں تو فقاہت میں چلی جاتی ہیں یہ چیزیں اور اگر حقائق کی طرف سے چلے جائیں تو معرف کی طرف چلی جائیں گی، اور ایک لا متناہی میدان ہے، اس میں اللہ تعالیٰ جس کو جتنا دے دے، جتنا آگے لے جائے، یہ اس کا کرم ہے۔ وہ جو فرمایا حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہ دو قسم کے فیوض ہیں، وہ آپ ﷺ سے سب کو ملتے ہیں، تکوینی فیض اور تشریعی فیض، تو ظاہر ہے کہ یہ چیزیں کھلتی ہیں۔


  1. ۔ (آل عمران: 190)

  2. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

  3. ۔ (النصر: 1-3)

مکتوبات شریف - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ - دوسرا دور