تصوف کا حقیقی مقصد اور راستہ

جوڑ بیان

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ تصوف یا روحانی راستے کا اصل مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کا راستہ شریعت کے ظاہری اور باطنی احکامات پر مکمل عمل پیرا ہونے میں پوشیدہ ہے۔ اس سفر میں دو چیزیں کلیدی مددگار ہیں: اللہ کا ذکر، جو دل کو نرم کرتا ہے، اور اہل اللہ کی صحبت، جو روحانی تربیت کا ذریعہ بنتی ہے، جبکہ بزرگوں کے حالات کا مطالعہ اس کا بہترین متبادل ہے۔ اس راستے کی دو بڑی رکاوٹیں گناہوں کا ارتکاب اور فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا ہیں۔ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ حضرت تھانویؒ اور حضرت مجدد الف ثانیؒ جیسے بزرگوں کی تعلیمات کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ تصوف کا کام ایمان میں یقین کو پختہ کرنا اور شریعت پر عمل کو آسان بنانا ہے۔ لہٰذا، اصل کام اپنے ظاہر کو شریعت سے آراستہ کرنا اور باطن کو غیر اللہ سے پاک کرنا ہے۔

روح الطریق


مقصود تو رضائے حق ہے اب دوچیزیں رہ گئیں طریق کا علم اور اس پر عمل، سو طریق صرف ایک ہے یعنی احکام ظاہرہ و باطنہ کی پابندی اور اس طریق کی معین دوچیزیں ہیں ایک ذکر جس پر دوام ہوسکے، دوسرے صحبت اہل اللہ کی جس کثرت سے مقدور ہو اور اگر کثرت کے لئے فراغ نہ ہو تو بزرگوں کے حالات و مقالات کا مطالعہ اس کا بدل ہے اور دو چیزیں طریق یا مقصود کی مانع ہیں۔ معاصی اور فضول میں مشغولی اور ایک امران سب کے نافع ہونے کی شرط ہے ۔ یعنی اطلاع حالات کا التزام اس کے بعد اپنی استعداد ہے حسب اختلاف، استعداد مقصود میں اویر سویر ہوتی ہے میں سب کچھ لکھ چکا۔



یعنی حضرت نے فرمایا میں اب سارے طریق کا نچوڑ بتاتا ہوں۔ یعنی روح الطریق۔ سارے طریق کا یعنی تصوف کا نچوڑ بتاتا ہوں۔ فرمایا کہ دیکھیں مقصود تو اس میں ہے اللہ تعالیٰ کی رضا۔۔۔۔ اور تو کچھ نہیں ہے۔اگر بزرگ کسی نے بننا ہے تو چلا جائے کسی اور جگہ۔ یہ جگہ ہے ہی نہیں اس کی بزرگی کی۔ مطلب یہاں تو ایک ہی چیز مقصود ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ راضی ہو جائے ۔ کیا خیال ہے کوئی اور چیز مقصود ہے۔۔۔؟ بس اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ اب اس کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک تو طریق کا علم ہو ، مطلب مجھے عمل کیسے کرنا ہے ۔۔۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس پر عمل ہو۔ ۔۔ دو باتیں ہیں مطلب علم ہو اور عمل ہو۔

اب طریق کا جو علم ہے وہ تو یہ ہے کہ جو احکامِ ظاہرہ اور باطنہ ہے، اس کی پابندی کرنا۔۔۔۔ احکامِ ظاہرہ مثلاً نماز روزہ زکوۃ حج معاملات معاشرت، یہ تو احکامِ ظاہرہ ہو گئے۔ احکامِ باطنہ سے مراد ہے کہ حسد کبر ریا وغیرہ سے بچنا، اور اخلاص اور تواضع ، صبر و شکر اِن چیزوں کو پیدا کرنا، یہ ہے مطلب باطنہ ۔۔۔

اب یہ ہے کہ اس حاصل کرنے میں دو چیزیں مدد کرتی ہیں۔

ایک ذکر جس سے انسان کا دل بنتا ہے، مطلب دل کی زمین بنتی ہے۔

اور دوسرا صحبتِ اہل اللہ، جس سے بیج پڑتا ہے۔

جب تک زمین سخت ہو اس وقت تک اس میں بیج نہیں پڑتا۔ لہٰذا اگر کوئی ذکر نہیں کرتا تو اہل اللہ کی مجلس میں جا کر کوئی گستاخی کر بیٹھے گا۔ ۔۔۔ اور نقصان ہو جائے گا۔ ٹھیک ہے نا؟ تو ذکر اللہ سے دل کو نرم کر لو ، اور اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھ جاؤ، اُن کی چیزیں خودبخود آئیں گی۔ اِس کے لیے کسی کو کچھ کرنا نہیں پڑے گا مزید۔ بس اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھے اور ذکر اللہ سے اپنے دل کو نرم رکھے تو ان شاءاللہ العزیز وہ چیز خود بخود آئے گی۔ اب ایک آدمی صرف ذکر پر دوام کر لے اہل اللہ کی صحبت میں نہ بیٹھے پھر بھی معاملہ کافی نہیں ہے۔ مجھے قرآن پاک کی ایک آیت ہے بہت زیادہ الحمدللہ

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًا

ٹھیک ہے نا؟ اب اس آیت کا مفہوم کیا ہے؟ البتہ بالتحقیق تمہارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں کیا ہے؟ نمونہ ہے۔ کس کے لیے؟ جو اللہ پاک کی رضا چاہتے ہیں۔ اور ذکر اللہ کی کثرت۔ آپ کی صحبت کا قائم مقام وہ جو کہ شیخ ہوتا ہے یا جس کے ساتھ صحبت میں بیٹھے ہیں وہ ہوجاتا ہے ٹھیک ہے ناں اور ذکر اللہ کی کثرت بھی چاہیے مقصد یہ ہو کہ اللہ راضی ہوجائے کیا خیال ہے یعنی تین چیزیں ثابت ہوگئی ناں ہاں جی تو صحبت صالحین اور ذکر اللہ کی کثرت یہ نچوڑ ہے طریق کا طریق کا نچوڑ ہے اور صحبت شیخ جو ہے یہ تمام صحبت صالحین کا نچوڑ ہے تمام صحبت صالحین کا نچوڑ یہ ہے مطلب یہ ہے کہ بڑے بڑے صلحاء آجائیں ناں بڑے بڑے صلحاء بھی آجائیں تو ان سے یقیناً فائدہ ہوگا لیکن شیخ جتنا نہیں شیخ جتنا نہیں ہوگا وہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے ناں کہ فرمایا کہ اگر ایک مجلس میں حضرت حاجی صاحب بھی موجود ہوں اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود ہوں تو ہم تو جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھیں گے ہم تو صرف حاجی صاحب کی طرف دیکھیں گے۔ ہاں حضرت ان کی طرف دیکھیں ان کے شیخ ہیں لیکن ہمارا کام دوسرا ہے ہمارا کام تو ان سے ہے اب یہ بڑی بات ہے یہ بہت بڑی بات ہے اپنے شیخ سے جو ہے ناں مطلب انسان کو دیکھ لیں اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ کے سامنے جو ٹوٹی ہے اس کو کھولنے سے آپ کو فائدہ ہوگا ناں دوسری ٹوٹیاں بے شک جتنی بھی کھلی ہوں لیکن وہ آپ کے لئے تو نہیں ہیں ناں تو یہ بات ہے کہ وہ جو ہے ناں وہ اپنی ٹوٹی کے اوپر توکل کرو تو اس میں یہ فرمایا کہ دوسرے صحبت اہل اللہ کی جس کثرت سے مقدور ہو اور اگر کثرت کے لئے فراغ نہ ہو تو بزرگوں کے حالات و مقالات کا مطالعہ اس کا بدل ہےمثلاً حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ اور ملفوظات اور دو چیزیں اس میں رکاوٹ ہیں ڈالتی ہیں ایک معاصی یعنی گناہ کے کام ہاں جی اور دوسری فضولیات میں مشغولی ہاں جی فضولیات میں مشغولی یہ جو ہے ناں اور ایک عمل ان سب کے لئے نافع ہونے کی شرط ہے یعنی اپنی حالت کی اطلاع اور پھر اس کے بعد جو طریقہ بتایا جائے اس کے اوپر عمل کرنا ٹھیک ہے ناں

اس کے بعد اپنی استعداد ہے حسب اختلاف، استعداد مقصود میں اویر سویر ہوتی ہے ۔

لیکن بہرحال فائدہ ہوتا ہے فرمایا یہی سب کچھ ہے اس میں سب کچھ آگیا آگیا

حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ

حضرت نے بہت وضاحت کے ساتھ صوفیائے کرام کے طریقے پر ارشاد فرمایا ہے یہ مکتوب نمبر 207 ہے دفتر اول حصہ دوم۔


”صوفیائے کرامؒ کے طریقے پر چلنے سے مقصود یہ ہے کہ معتقدات شرعیہ کا جو کہ ایمان کی حقیقت ہیں زیادہ یقین حاصل ہو جائے اور احکام فقہیہ کے ادا کرنے میں آسانی میسر ہو جائے اس کے علاوہ اور کوئی امر مقصود نہیں ہے“


یہ حضرت نے بلکل final بات کی ہے، اور یہ بہت سارے مکتوبات شریفہ میں ہے، سب جمع کیے جا سکتے ہیں۔

اب دیکھیں اس کے دو جز ہیں، معتقدات شرعیہ جو ایمان کی حقیقت ہے، اس کا یقین کامل حاصل ہو جائے، یہ معرفت ہے۔ دوسرا، احکام فقہیہ کے ادا کرنے میں آسانی میسر ہو جائے، یہ عمل ہے۔ کیوں کہ اصل یہ کہ کام تو کرنا ہے اللہ کے لیے لا الہ الا اللہ۔ لیکن کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر ہی ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ جو ہے یہ اصل میں شریعت ہے تو شریعت کو سمجھنا بھی ضروری ہے لیکن شریعت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔

شریعت پر عمل کرنے میں دو رکاوٹیں ہیں۔ سب کے ساتھ ہیں یہ رکاوٹیں صرف میرے اور آپ کے ساتھ نہیں ہیں، سب کے ساتھ ہیں۔ ہر شخص نفس امارہ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ہر شخص کا شیطان اس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ بھی شیطان پیدا ہوا ہے؟ فرمایا: ہاں! لیکن میرا شیطان مسلمان ہوگیا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا ہے تو سب کے ساتھ ہوا ہے۔

تو شیطان بھی سب کے ساتھ پیدا ہوتا ہے نفس امارہ بھی سب کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس نفس کو نفس امارہ سے نفس مطمئنہ بنانا ہوتا ہے، تاکہ انسان عمل کر سکے۔ اور شیطان سے بچنا ہوتا ہے اس کی بات نہیں ماننی ہوتی۔ اگر نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے تو شیطان سے بچنا ممکن ہو جاتا ہے۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تصوف کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک تو ہمیں یقین حاصل ہو جائے اعلی درجے کا کہ ہمارا عقیدہ بلکل صحیح ہو اور اللہ تعالی کی ذات پر کامل یقین ہو، آخرت پر کامل یقین ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، تمام پیغمبروں پر۔ جو ہمارے ایمان کے تقاضے ہیں ان کے اوپر کامل یقین ہو ہمارا۔ ان کو معتقدات شرعیہ کہتے ہیں، جس کو ایمان مفصل میں بیان کیا گیا ہے۔ تو ان کے اوپر ہمیں کامل یقین حاصل ہوجائے۔

اور دوسری بات شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ آسان تب ہوگا جب ہمارا نفس نفسِ مطمئنہ ہو جائے گا۔

یہ دو کام ہیں تصوف کے، یہ بنیادی کام ہیں۔

یہ جو شریعت پر عمل آسان ہوجائے یہ سیر الی اللہ کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ باقی سیر فی اللہ، اس کی کوئی حد نہیں ہے، وہ ہر شخص کا اپنا ہے، اخلاص کے ساتھ۔ جیسے حضرت نے مکتوب نمبر 36 میں فرمایا تھا کہ طریقت اور حقیقت یہ شریعت کے خادم ہیں۔ یعنی شریعت پر لانے کے لیے ہیں کیونکہ اس کے ذریعہ سے اخلاص حاصل ہوتا ہے اور اخلاص کے ذریعہ شریعت پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ ان دو بنیادی چیزوں پر زور دیں، ان دو بنیادی چیزوں پر زور دیں، حضرت کے تمام مکتوبات شریف کا لبِ لباب (نچوڑ) یہی ہے۔

الحمد للہ اللہ کا شکر ہے، میں تحدیث نعمت کے طور پہ عرض کرتا ہوں کہ اب میں عرض کرسکتا ہوں کہ حضرت کے تمام مکتوبات شریفہ ہماری نظر سے گزر گئے الحمد للہ، نہ صرف گزر گئے بلکہ الحمد للہ لوگوں کے سامنے پیش کئے اور ساری چیزوں کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس لئے اب ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ حضرت کی ہر قسم کی بات ہمارے سامنے آگئی ہے، تو اب ہم ما شاء اللہ ان سے ہم نچوڑ لے سکتے ہیں۔ اور لینا چاہئے ہمیں۔ تاکہ ہم لوگ اس سے استفادہ کرلیں۔تو اب اس کے لیے کوشش ہورہی ہے

تو اب یہ سب کا لب لباب جو ہے، جو میں نے عرض کرنا تھا وہ یہی ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ اصل میں تو یہ دو چیزیں ہیں بس، ان دو چیزوں کے علاوہ تیسری چیز نہیں ہے۔

یہ بہت بڑی ماشاء اللہ پیش رفت ہے ہمارے اس طریق میں کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور باقی مشائخ کی approach الگ نہیں ہے، ایک ہی ہے۔ عموما بعض لوگوں کو بلکل مختلف نظر آتا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے پوچھا تھا مجھ سے ہم walk کررہے تھے کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی approach بلکل مختلف لگ رہی ہے، یہ کیا بات ہے؟ میں نے اس وقت کہا کہ جو مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی approach اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی approach میں جو تنزیہ ہے اس کو جان نہیں سکتے، وہ اللہ تعالی کی تنزیہ کو بھی نہیں جان سکتے۔ کم ازکم یہ جاننا چاہئے کہ اصل کیا ہے، دونوں کیا چاہتے ہیں۔ دیکھو حضرت نے کیا فرمایا ہے؟ بلکل اخیر میں وہی بات فرمائی ہے جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فرما رہے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کیا اس سے مختلف فرماتے ہیں؟ بلکل یہی چیز حضرت نے بھی فرمائی ہے۔ الحمد للہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی انفاس عیسی کا درس بھی الحمد للہ الحمد للہ ثم الحمد للہ تقریبا 14 سال ہم regularly کرتے رہے ہیں۔ حضرت کے افکار بھی ہمارے سامنے آئے ہوئے ہیں، ان کا نتیجہ بھی یہی ہے۔ دونوں پڑھ کے سناتا ہوں، اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ دونوں ایک ہیں یا نہیں ہیں۔

۔۔”مقصود تو رضائے حق ہے۔“

دیکھو پہلی بات کون سی کی۔

”مقصود تو رضائے حق ہے۔ اب دو چیزیں رہ گئیں۔ طریق کا علم اور اس پر عمل سو طریق صرف ایک ہے یعنی احکامِ ظاہرہ اور باطنہ کی پابندی اور اس طریق کے معین دو چیزیں ہیں ایک ذکر جس پر تمام ہو سکے دوسری صحبت اہل اللہ کی جس میں کثرت سے مقدور ہو اور کثرت کے لئے فراغ نہ ہو تو بزرگوں کے حالات و مقالات کا مطالعہ اس کا بدل ہے اور دو چیزیں طریق یا مقصود کے مانع ہیں یعنی معاصی اور فضول میں مشغولی اور ایک امر ان سب کے نافع ہونے کی شرط ہے یعنی اطلاعِ حالات کا التزام اس کے بعد اپنی استعداد ہے حسب اختلاف استعداد مقصود میں اویر سویر ہو جاتی ہے، میں سب کچھ لکھ چکا“۔

تو گویا کہ حضرت نے فرمایا کہ مقصود رضائے حق ہے۔ اب ایک اس کا علم ہے اور دوسرا اس پر عمل ہے۔ علم کو حاصل کرنے کے لئے علم کا ذریعہ اختیار کرو اور عمل کے لئے عمل کے ذرائع اختیار کرلو۔ عمل میں احکامِ ظاہرہ اور باطنہ کی پابندیاں ہیں، یہ شریعت ہے۔ احکامِ ظاہرہ اور باطنہ کی پابندی کیا چیز ہوتی ہے؟ یہ شریعت ہے۔ اس شریعت پر عمل کرنے کے لئے آسانی پیدا کرنی چاہئے۔ جیسے حضرت نے فرمایا کہ آسانی پیدا ہو جائے۔ آسانی پیدا کرنے کے لئے ایک ذکر ہے جو دل کی اصلاح کرتا ہے، اور دوسری اہل اللہ کی صحبت ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی صحبت پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

”اور کثرت سے بزرگوں کے حالات و مقالات کا مطالعہ اس کا بدل ہے اور پھر دو چیزیں طریق مقصود کے مانع ہیں یعنی معاصی اور فضول میں مشغولی۔“ اس سے بچنا ہے۔ ان میں ایک ان سب کے نافع ہونے کی شرط ہے، ان حالات کا التزام جو سلوک طے کرنے کے لئے ضروری ہیں۔

اس میں سب کچھ آگیا۔ اس کے بعد اپنی استعداد ہے۔ حسب اختلاف استعداد اویر سویر ہو جاتی ہے۔

یہ تو ما شاء اللہ حضرت کا روح الطریق آگیا۔ اب حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سنیں۔

یہ ہے مکتوب نمبر 31 دفتر دوم کا۔

حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه نے خواجہ شرف الدین حسین کی طرف وعظ و نصیحت کے طور پر صادر فرمایا۔

مختصر ترین مکتوب ہے

”الحمد للہ و سلام علیٰ عبادہ الذین اصطفےٰ۔ اے فرزند عزیز! فرصت کے لمحات غنیمت ہیں چاہئے کہ بیکار کاموں میں صرف نہ ہوں، “

دیکھو! فضولیات سے بچنے کا فرمایا۔

”بلکہ فرصت کے تمام اوقات حق جل و علا کی خوشنودی کے مطابق صرف ہوں“

رضا والی بات آگئی۔ اور طریقہ کار کے بارے میں فرماتے ہیں:

”پانچوں وقت کی نماز جمعیت (قلب) کے ساتھ با جماعت اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کریں۔ اور نماز تہجد کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ صبح کے وقت استغفار نہ چھوڑیں۔ “

ذکر والی بات بھی ہوگئی۔

”اور خواب خرگوش سے لذت حاصل نہ کریں۔ اور عارضی و فانی آسائشوں پر فریفتہ نہ ہوں۔ “

یہ دل کو صاف رکھنا ہے

”موت کے ذکر اور آخرت کے خوف کو اپنا نصب العین بنائیں۔ “

یہ یقین والی بات ہے۔

”مختصر یہ کہ دنیا سے روگردانی اختیار کریں اور آخرت کی طرف متوجہ رہیں۔ اور بقدر ضرورت دنیا کے کاموں میں مشغول ہوں اور باقی تمام اوقات کو آخرت کے کاموں کی مشغولی سے معمور رکھیں۔ حاصل کلام یہ کہ دل غیر اللہ کی گرفتاری سے آزاد ہو جائے اور ظاہر احکام شرعیہ سے آراستہ و مزین ہو جائے۔

کار این ست و غیر ایں ہمہ ہیچ“

یہ کام ہے اور اس کے علاوہ سارا آگے پیچھے کچھ بھی نہیں۔


آخری فقرہ کتنا اہم ہے، کار ایں است۔ اصل میں تو یہی کام ہے وغیر ایں ہمہ ہیچ۔ اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

یہ ما شاء اللہ، الحمد للہ۔ کیوں کہ منبع ایک ہے، دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشمۂ فیض سے سیراب ہیں، لہٰذا باتوں میں اختلاف کیسے ہو سکتا ہے!۔ ہاں! یہ کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بات چیت میں فرق آجاتا ہے۔ اب چونکہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں ایک بہت بڑا فتنہ تھا کہ دین کے رنگ میں بے دینی، تصوف کے رنگ میں تصوف سے فرار والی بات تھی اس وقت۔ حضرت مردانہ وار مقابلہ کرکے دین کو اصل صورت پر لے آئے۔ یہ حضرت کا بہت بڑا کام تھا۔ ظاہر ہے یہ کام تھا حضرت مجدد الف ثانی کا۔ حضرت نے شرعی تشریحات بھی کیں اور ساتھ ساتھ سلوک میں اور تصوف میں لوگوں نے جو گڑبڑ پھیلائی تھی وہ بھی دور کی۔ اس وجہ سے حضرت نے بلکل بنیادی بنیادی چیزیں سب کو بتا دیں اور جہاں جہاں، جس جس ذریعہ سے گڑبڑ ہوئی تھی، اس اس ذریعہ سے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً کسی نے فلسفے کی گڑبڑ کی تھی، تو فلسفے (جو کلام کا موضوع ہے) کے رد کے طور اس کے ذریعہ سے اس کی تصحیح فرما دی۔ یہ (فلسفہ والی) اصل میں عوام کے لئے نہیں تھی, عوام کے لئے تو یہی بات تھی جو ابھی میں نے سنا دی۔ عوام کے لئے حضرت کی فکر اتنی تھی۔ باقی تشریحات ہیں سب خواص کے لئے تھیں، تاکہ وہ جہاں جہاں پھنسے ہوئے ہیں، وہاں سے نکل آئیں، جہاں جہاں ان کے اشکالات ہیں ان کو جواب مل جائیں، کیونکہ یہ بات اگر آپ بہت بڑے خواص کو بتا دیں، وہ کہیں گے یہ تو مجھے پہلے سے پتہ ہیں، لیکن جہاں وہ پھنسے ہیں، وہاں سے نہیں نکلیں گے، تو ان کو نکالنے کے لئے انہی کی زبان میں بات کرنی پڑے گی۔

تو یہ حضرت نے ما شاء اللہ تمام تفصیلات بتا دیں۔

اب inventing the wheel again والی بات کہ ہم لوگ بھی وہی چیز حضرت کی دریافت شدہ ہے، دوبارہ دریافت کرلیں۔ ہمارے پاس تو میدانِ عمل ہے، ہم میدان میں آئے ہیں عمل کریں اور وہی جو حضرت کا نچوڑ ہے وہ بتا دیں اور اس پر عمل کر لیں۔ یہ ہماری اس وقت ہمارے تمام کام کی بنیاد ہے۔


تصوف کا حقیقی مقصد اور راستہ - اصلاحی جوڑ