اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج جمعرات ہے اور جمعرات کے دن ہمارے ہاں سیرت النبی ﷺ اس کا درس ہوتا ہے، جو سیرت النبی کتاب ہے حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی، وہاں سے۔ اور اس کا حصہ پنجم شروع ہے۔ اس میں آج کا جو عنوان ہے
وہ ہے:
”اسلام میں نماز کا مرتبہ“
متن:
اسلام سے پہلے بھی دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں آیا جس میں نماز کو اہمیت نہ دی گئی ہو لیکن چونکہ وہ مذہب خاص خاص قوموں اور وقتوں تک محدود تھے، اس لئے ان کے اندر عملًا اس کی اہمیت جاتی رہی۔ چنانچہ اسلام سے پہلے کی دنیا کے کسی مذہب میں آج نماز یعنی خدا کے سامنے اقرارِ عبودیت اور اس کی حمد و ثنا کو واضح، معین اور تاکیدی حیثیت حاصل نہیں۔ یعنی کسی مذہب کے پیرؤوں بلکہ معلموں کے عمل سے بھی اس کی یہ صورت نمایاں نہیں ہوتی۔ ورنہ جیسا کہ گذر چکا قرآن کے رو سے تو دنیا میں کوئی ایسا پیغمبر نہیں آیا جس کو نماز کا حکم نہ دیا گیا ہو اور اس نے اپنی امت کو اس کی تاکید نہ کی ہو مگر موجودہ حیثیت یہ ہے کہ اسلام کے سوا وہ کہیں نمایاں، واضح اور مؤکد صورت میں باقی نہیں رہی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ چونکہ محمد رسول ﷺ خاتم الانبیاء اور قرآن پاک خاتم الکتب ہوکر آیا ہے اس لئے اس فریضہ الہٰی کو دین کامل میں ایسی منظم، واضح، مؤکد اور نمایاں صورت دی گئی ہے کہ وہ قیامت تک دنیا میں قائم اور باقی رہے۔
یہ اسلام کا وہ فریضہ ہے جس سے کوئی مسلمان متنفس جب تک اس میں کچھ بھی ہوش و حواس باقی ہے کسی حالت میں بھی سبکدوش نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں سو مرتبہ سے زیادہ اس کی تعریف، اس کی بجا آوری کا حکم، اور اس کی تاکید آئی ہے۔ اس کے ادا کرنے میں سستی اور کاہلی نفاق کی علامت بتائی گئی ہے اور اس کا ترک کفر کی نشانی۔ یہ وہ فرض ہے جو اسلام کے ساتھ پیدا ہوا اور اس کی تکمیل اس شبستانِ قدس میں ہوئی، جس کو معراج کہتے ہیں۔
اسلام میں پہلا فرض ایمان اور اس کے لوازمات ہیں اور اس کے بعد دوسرا فرض نماز ہے۔ چنانچہ سورۃ روم میں پہلا حکم یہ دیا گیا:
﴿فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاؕ- فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ﴾1
”اپنا منہ ہر طرف سے پھیر کر دینِ توحید پر سیدھا رکھ، وہی اللہ کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو بنایا ہے۔“ اس کے بعد دوسرا حکم اسی سے ملحق یہ ہے:
﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ﴾2
"اور نماز کو کھڑا رکھو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجانا"۔
اس آیت پاک سے ایک تو توحید و ایمان کے بعد سب سے اہم چیز نماز ثابت ہوتی ہے اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ترکِ نماز سے کفر و شرک میں گرفتار ہوجانے کا اندیشہ ہے کیونکہ جب تک دل کی کیفیت کو ہم بیرونی اعمال کے ذریعہ سے بڑھاتے نہ رہیں خود اس کیفیت کے زائل ہوجانے کا خوف لگا رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز کی اہمیت پر ہمیشہ خاص طور سے زور دیتے اور اس کے تارک کے متعلق شرک اور کفر کا ڈر ظاہر فرماتے رہے۔
تشریح:
یعنی انسان جو دنیا میں رہتا ہے تو دنیا کے جو جھمیلے ہیں، دنیا کے جو لوازمات ہیں، دنیا کی جو چیزیں ہیں وہ اس کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ چاہے وہ آنکھوں کے ذریعے سے کھینچیں، چاہے وہ کانوں کے ذریعے سے کھینچیں، چاہے دماغ کے ذریعے سے کھینچیں، چاہے اور حصوں کے ذریعہ سے کھینچیں، لیکن ہر چیز انسان کو کھینچ رہی ہوتی ہے اپنی طرف دنیا کی۔ اور یہ مستقل ہے، ہمیشہ ہے، مطلب یعنی وہ کوئی لمحہ بھی اس کا وہ خالی نہیں ہوتا۔
اب اس کے متبادل بلکہ متقابل ایک ایسا نظام ہونا چاہئے جو اس کی اس دنیاوی کشش کا ہر وقت کا توڑ کرسکے ہر وقت کا، ہر وقت کا توڑ کرسکے۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ اس میں جب ایک دن گزر جائے تو اس دن گزرنے کے ساتھ جو ہمارے اوپر دنیا کی جو چاہتیں ہیں وہ جتنی غالب آئی ہوں تو ہماری روحانیت نے اس کو پیچھے دھکیل دیا ہو، یہ لازم ہے۔ ورنہ ہر دوسرا دن ہمارا دنیا میں مزید لتھڑنے کا سامان بناتا جائے گا۔
اب نماز جو ہے یہ پانچ ہیں فرض۔ تو اندازہ کرلیں کہ ہر وقت کی ظلمت کے مقابلہ میں یہ پانچ دیے روشن کیے گئے ہیں تاکہ کوئی لمحہ نور سے محروم نہ رہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فجر سے لے کر ظہر تک جو بھی چیز آرہی ہے اس کا مقابلہ ظہر کی نماز کرے گی۔ ظہر سے عصر تک جو چیز آئی ہے اس کا مقابلہ عصر کی نماز کرے گی۔ عصر سے مغرب تک جو چیز آئی ہے اس کا مقابلہ مغرب کی نماز کرے گی۔ مغرب سے عشاء تک جو خلفشار آیا ہوا ہے اس کا مقابلہ عشاء کی نماز کرے گی۔ اور پوری رات میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اس کا مقابلہ فجر کی نماز کرے گی۔ اور اگر کوئی مزید ترقی کرنا چاہے اور زیادہ بہتر کرنا چاہے تو تہجد سے مزید روحانیت حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی یہ گویا کہ پورا ایک روحانیت کا نظام ہے جو نفسانیت کے مقابلہ میں ہے۔ روحانیت کا ایک پورا نظام ہے جو نفسانیت کے مقابلہ میں ہے۔
اب ایک آدمی سمجھتا ہے پانچ نمازیں تو بہت زیادہ ہیں تو دیکھو نا یہ کیا چیز ہے؟ اکثر جو ہے نا مثال کے طور پر ایک آدمی جو ہے نا ایک گھنٹہ سے زیادہ وعظ کہے نا تو آدمی کہتا ہے یار یہ تو بہت زیادہ ہے۔ لیکن وہ جو باقی 23 گھنٹے وہ دنیا سے اثر لے رہا ہے اس کی طرف وہ نہیں دیکھتا کہ وہ کتنا اثر لے رہا ہے۔ وہ اس کو کتنا divert کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں تو یہ بہت تھوڑا ہے، لیکن بہرحال نہ ہونے سے یقینًا بہتر ہے، نہ ہونے سے یقینًا بہتر ہے۔ تو اللہ جل شانہ نے نماز کا جو بندوبست کیا وہ اس طریقہ سے کیا۔
پھر اللہ جل شانہ نے نفس کی جو چھاپ پھر بھی پڑ چکی ہوتی ہے اور انسان اچھا خاصا اپنی جگہ سے ہل چکا ہوتا ہے، تو گیارہ مہینے کے بعد رمضان شریف کے روزوں سے اس کا مقابلہ ہوتا ہے۔ یعنی اس کی صفائی ہوتی ہے پیعنی پورا مطلب گویا کہ Overhauling کا نظام ہے وہ۔ اور اس میں بھی نماز شامل کی گئی ہے تراویح کی صورت میں مزید extra، یعنی صرف روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ کے ساتھ تراویح بھی ہے اور تراویح میں قرآن ہے۔ تو گویا کہ یہ تینوں چیزیں وہ گیارہ مہینے کا جو گند ہوتا ہے نا اس کو صاف کرنے کے لئے بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔اور پھر پوری عمر میں اگر انسان مطلب جو ہے نا وہ یعنی نہ کرسکے تو پھر جو ہے نا وہ پوری عمر میں ایک دفعہ حج کے ذریعہ سے پوری اچھی طرح جو ہے نا وہ کی جائے صفائی تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کا تعلق مطلب اللہ کا تعلق بڑھ جائے اور اس کا رخ اللہ کی طرف ہوجائے۔ یہ مطلب گویا کہ پورا اللہ پاک نے جو عبادات کا نظام رکھا ہے اس کے پیچھے بہت ساری باتیں ہیں جن میں یہ بھی ہے۔
متن:
چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز دین کا ستون ہے۔ جس طرح ستون گر جانے سے عمارت گر جاتی ہے، اسی طرح نماز کے ترک کرنے سے دل کی دینداری بھی رخصت ہوجاتی ہے۔ طائف کے وفد نے جب مدینہ منورہ آکر صلح کی بات چیت شروع کی تو نماز جہاد اور صدقات اور مستثنیٰ ہونا چاہا۔ آپ نے دو پچھلی باتوں سے مستثنیٰ کردیا۔ لیکن نماز کے متعلق فرمایا: ”جس دین میں خدا کے سامنے جھکنا نہ ہو اس میں کوئی بھلائی نہیں۔“ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ”نماز دل کی روشنی ہے۔“ اپنی نسبت فرمایا ہے: ”نماز میری آنکھ کی ٹھنڈک ہے۔“ ایک تمثیل میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”انسان آگ میں جلتا رہتا ہے اور نماز سے وہ آگ بجھ جاتی ہے“۔ وہی خواہشات، یہ محبوبِ ازل کے ہجر و فراق کی آگ ہے، اور نماز آب زلال ہے جو اس آگ کو سرد کر دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”کفر اور ایمان کے درمیان امتیاز نماز ہی سے ہے۔“ کیونکہ ایمان اور کفر دونوں انسان کی اندرونی حالت سے تعلق رکھتے ہیں جس کا اظہار اس کے اعمال ہی سے ہوسکتا ہے۔ مسلمان کا وہ عمل جس کے دیکھنے کا دن میں متعدد دفعہ لوگوں کو موقع ملے، وہ نماز ہی ہے۔ عین اس وقت جب جناب رسالت پناہ کی زندگی کے اخیر لمحے تھے اور فرض نبوت کے آخری حروف زبان مبارک سے ادا ہورہے تھے، آپ ﷺ فرما رہے تھے: ”نماز اور غلام۔“
تشریح:
یعنی ایک معاملات کی بات تھی اور ایک عبادات کی بات تھی۔
متن:
نماز کی حقیقت
نماز کے لئے اصل عربی لفظ ”صلوٰۃ“ ہے۔ صلوٰۃ کے معنی عربی اور عبرانی زبانوں میں ”دعا“ کے ہیں اس لئے نماز کی لفظی حقیقت خدا سے درخواست اور التجا ہے۔
تشریح:
﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِؕ﴾3 صبر کے ذریعہ اور نماز کے ذریعہ سے اللہ پاک سے مدد مانگو۔ تو مانگنا کیا ہوتا ہے؟ دعا ہے نا۔
متن:
اور اس کے معنوی حقیقت بھی یہی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بھی نماز کی یہی تشریح فرمائی ہے۔ معاویہ بن حکم سلمی ایک نو مسلم صحابی تھے، ان کو اسلام کے جو آداب بتائے گئے ان میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ جب کبھی کسی مسلمان کو چھینک آئے اور وہ ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ کہے تو اس کے جواب میں تم ”یَرْحَمُکَ اللہُ“ کہو۔ اتفاق سے ایک دفعہ نماز باجماعت ہورہی تھی، معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس میں شریک تھے۔ ان کے پاس کسی مسلمان کو چھینک آئی انہوں نے نماز کی حالت میں ”یَرْحَمُکَ اللہُ“ کہہ دیا۔ صحابہ نے ان کو گھورنا شروع کیا۔ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز ہی میں کہا: ”تم سب مجھے کیوں گھور رہے ہو؟“ صحابہ نے زانو پر ہاتھ مارے اور ”سُبْحَانَ اللہ“ کہا۔ اب وہ سمجھے کہ بولنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ نماز ہوچکی تو آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ نماز میں کون باتیں کر رہا تھا؟ لوگوں نے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔ آپ ﷺ نے ان کو پاس بلا کر نہایت نرمی سے سمجھایا کہ ”نماز قرآن پڑھنے اور اللہ کو یاد کرنے اور اس کی پاکی اور بڑائی بیان کرنے کا نام ہے۔ اس میں انسان کو باتیں کرنا مناسب نہیں“ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا: ”اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ“4 دعا عبادت کا مغز ہے اور حضرت نعمان بن بشیر انصاری روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ“5 دعا ہی عبادت ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ کہہ کر کہ تمھارا پروردگار فرماتا ہے، اس تفسیر کی تائید میں یہ آیت پڑھی۔ جس میں دعا ہی کا نام عبادت بتایا گیا ہے۔
﴿ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ- اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ﴾6
”مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہں وہ عنقریب جہنم میں جائیں گے۔“
مستدرک حاکم (کتاب الدعاء) میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”بہترین عبادت دعا ہے“۔ اس کے بعد آیت مذکور تلاوت فرمائی۔ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ کے ضمن میں نماز کی حقیقت صرف ایک لفظ میں ظاہر کی گئی ہے یعنی خدا کی یاد، فرمایا:
﴿اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾7
”اور میری یاد کے لئے نماز کھڑی کر“
کامیابی اسی کے لئے ہے جو خدا کو یاد کرکے نماز ادا کرتا ہے۔
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى﴾8
”کامیاب وہ ہوا جس نے پاکی حاصل کی اور خدا کا نام یاد کیا، پس نماز پڑھی“
انسان کو اپنی روحانی تڑپ، دلی بے چینی، قلبی اضطراب اور ذہنی شورش کے عالم میں جب دنیا اور دنیا کی ہر چیز فانی، عقل کی ہر تدبیر درماندہ، جسم کی ہر قوت عاجز اور سلامتی کا ہر راستہ بند نظر آتا ہے تو سکون و اطمینان کی راحت اس کو صرف اسی ایک قادرِ مطلق کی پکار دعا اور التجا میں ملتی ہے۔ وحی الہٰی نے اس نکتہ کو ان الفاظ میں ادا کیا:
﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾9
”ہاں! خدا ہی کی یاد سے دل تسکین پاتے ہیں۔“
یہی وجہ ہے کہ مصیبتوں کے ہجوم اور تکلیفوں کی شدت کے وقت ثبات قدم اور دعا ہی چارہ کار بنتے ہیں۔
﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِؕ﴾10
”ثابت قدمی اور نماز (یا دعا) کے ذریعہ سے اپنی مصیبتوں میں مدد چاہو۔“
زمین سے لے کر آسمان تک کائنات کا ذرہ ذرہ خدائے قادر و توانا کے سامنے سرنگوں ہے۔ آسمان زمین، چاند ستارے، دریا پہاڑ، جنگل جھاڑ، چرند پرند؛ سب اس کے آگے سربسجود ہیں اور اس کے مقرر کردہ احکام و قوانین کی بے چون و چرا اطاعت کررہے ہیں، یہی ان کی تسبیح و نماز ہے۔
﴿وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰـكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْؕ﴾11
”اور (دنیا میں) کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ اس (خدا) کی حمد کی تسبیح پڑھتی ہے البتہ تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔“
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَكَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِؕ- وَكَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُؕ﴾12
”کیا تو نہیں دیکھتا کہ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور سورج، چاند، تارے، پہاڑ، درخت، جانور اور بہت سے آدمی اس کو سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے آدمیوں پر اس کا عذاب ثابت ہوچکا (یوں کہ وہ اس کو سجدہ نہیں کرتے تھے)
غور کرو! کائنات کا ذرہ ذرہ بلا استثناء خدا کے سامنے سرنگوں ہے۔ لیکن استثناء ہے تو صرف انسان میں کہ بہتیرے اس کو سجدہ کرتے ہیں اور بہتیرے اس سے روگرداں ہیں اسی لئے وہ عذاب کے مستحق ہوچکے۔ انسان کے علاوہ تمام تر مخلوقات بلا استثناء اطاعت گزار ہے کیونکہ وہ ذاتی ارادہ اور اختیار سے سرفراز نہیں، خدا کے حکم کے مطابق وہ ازل سے اپنے کام میں مصروف ہے اور قیامت تک مصروف رہے گی لیکن انسان ذاتی ارادہ و اختیار کا ایک ذرہ پا کر سرکشی اور بغاوت پر آمادہ ہے۔ اسلام کی نماز انہی سرکش اور باغی انسانوں کو دوسری مطیع و فرمانبردار مخلوقات کی طرح اطاعت و انقیاد اور بندگی و سرافگندگی کی دعوت دیتی ہے۔ جب دنیا کی تمام مخلوقات اپنی اپنی طرز اور اپنی اپنی بولیوں میں خدا کی حمد و ثنا اور تسبیح و تہلیل میں مصروف ہے تو انسان کیوں نہ اپنے خدا کی تقدیس کا ترانہ گا کر اپنی اطاعت کا ثبوت پیش کرے اور یہی نماز ہے۔
نماز کی روحانی غرض و غایت
نماز کی روحانی غرض و غایت یہ ہے کہ اس خالق کل، رازق عالم، مالک الملک، منعم اعظم کی بے غایت بخششوں اور بے پایاں احسانوں کا شکر ہم اپنے دل اور زبان سے ادا کریں، تاکہ نفس و روح اور دل و دماغ پر اس کی عظمت و کبریائی اور اپنی عاجزی و بے چارگی کا نقش بیٹھ جائے، اس کی محبت کا نشہ رگ رگ میں سرایت کر جائے، اس کے حاضر و ناظر ہونے کا تصور ناقابل زوال یقین کی صورت میں اس طرح قائم ہو جائے کہ ہم اپنے ہر دلی ارادہ و نیت اور ہر جسمانی فعل و عمل کے وقت اس کی ہوشیار اور بیدار آنکھوں کو اپنی طرف اٹھا ہوا دیکھیں جس سے اپنے برے ارادوں پر شرمائیں اور ناپاک کاموں کو کرتے ہوئے جھجھکیں اور بلآخر ان سے بالکل باز آئیں۔
صحیحین کی ”کتاب الایمان“ میں ہے کہ ایک روز آنحضرت ﷺ صحابہ کے مجمع میں تشریف فرما تھے، ایک شخص نے سائل کی صورت میں آکر ایمان، اسلام کی حقیقت دریافت کی۔ آپ ﷺ نے اس کی تشریح فرمائی، پھر پوچھا کہ یا رسول اللہ! احسان کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پروردگار کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو کیونکہ اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تم کو دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور شخص کو نماز کے آداب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ نماز کی حالت میں کوئی شخص سامنے نہ تھوکے کیونکہ اس وقت وہ اپنے رب کے ساتھ راز و نیاز کی باتوں میں مصروف ہوتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات جب آپ اعتکاف میں بیٹھے تھے اور شاید لوگ الگ الگ تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے سر مبارک باہر نکال کر فرمایا: ”لوگو! نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ اس کو جاننا چاہئے کہ وہ کیا عرض معروض کر رہا ہے۔ نماز میں ایک دوسرے کی آواز کو مت دباؤ“۔ ان تعلیمات سے اندازہ ہوگا کہ نماز کی عادت سے ایک مخلص نمازی کے دل و دماغ پر کیسے نفسیاتی اثرات طاری ہو سکتے ہیں اور اس کے اخلاق و عادات پر کتنا گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں اس نکتہ کی شرح اس طرح کی گئی۔
﴿اَقِمِ الصَّلٰوةَؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ- وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ﴾13
تشریح:
اس پر ایک واقعہ سنو! سچا واقعہ ہے، آج کل کے دور کا۔ ایک صاحب تھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا لیکن عیاشی میں پڑ گئے تھے اور عیاشی کے تقریبًا ہر قسم کے گناہوں میں ملوث تھے۔ اور بقول اس کے کہ کوئی گناہ ایسا نہیں تھا جو اس نے نہ کیا ہو۔ اب گناہ کیا ہے؟ یہ نفس کا غلام بننا ہے، شیطان کا گویا کہ وہ بننا ہے یعنی ساتھی بننا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دور ہونا ہے۔ تو اس کا انسان کی روحانیت پر جو اثر پڑتا ہے، ابتدا میں وہ محسوس نہیں کرتا بلکہ آدمی سمجھتا ہے کہ میں اس سے زیادہ یہ کروں گا تو سکون مل جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ مزید زیادہ عیش کروں گا تو سکون مل جائے گا۔ جیسے AC میں بیٹھوں گا تو سکون مل جائے گا، بڑی اچھی گاڑی میں بیٹھوں گا تو سکون مل جائے گا، بہت اچھے گھر میں بیٹھوں گا تو سکون مل جائے گا، اس میں بہت بڑا garden ہوگا تو سکون مل جائے، میرے نوکر چاکر ہوں تو سکون مل جائے گا۔ یعنی یہ گویا کہ اس کے تصورات میں یہ چیز ہوتی ہے۔ لیکن وہ بے سکونی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ۔ اب بے سکونی بذات خود ایک عذاب ہے لیکن اس بے سکونی کے ساتھ وقت کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز اس کا اضافہ ہوتا ہے اور وہ اضافہ مایوسی کا ہے۔ کہ جب اس کو نظر آتا ہے کہ میں دیکھو ہر قسم کا غلط کام کر رہا ہوں مطلب گویا کہ میں عیاشی کر رہا ہوں سب کچھ کر رہا ہوں اس کے باوجود مجھے سکون نہیں مل رہا تو مجھے کب ملے گا، مجھے کب ملے گا؟ یہ وہ ایسی چیز ہے جو کہ اس کو تباہی کے دہانےکی طرف لے جاتی ہے، جس کا end خودکشی ہے۔ اس کی ابتدا کھوکھلے قہقہے ہیں، بہت تیز drum music ہے، مار کٹائی ہے، لڑائی جھگڑے ہیں؛ یہ اس کی ابتدا ہے کیونکہ اس کا اندر کا جو باغی نفس ہے وہ جو ہے نا مطلب اب اس کی خواہشات پورا کرکے گویا کہ وہ سکون کی طرف جانا چاہتا ہے لیکن وہ جتنا اس طرف جا رہا ہے مزید بے سکونی کی طرف کیونکہ راستہ اس نے غلط منتخب کیا ہے، سکون والا راستہ ہے ہی نہیں۔
تو اس کے ساتھ بھی یہ ہوا کہ end میں خودکشی کے لئے تیار ہوگیا۔ کہ ظاہر ہے مطلب مجھے تو کسی حالت میں بھی سکون نہیں ملا تو بس مار دو اپنے آپ کو اور مارنے کا پروگرام بنایا خود اس کے اپنے بیان کردہ یہ بات ہے اور میری اس سے ملاقات بھی ہوچکی ہے۔ تو خودکشی کا طریقہ بھی بہت خطرناک ذہن میں رکھا۔ اور وہ یہ تھا کہ شراب میں میں جو خواب آور گولیاں ہیں ڈال دوں گا اور اس کو پی لوں گا۔ اللہ غفور رحیم ہے۔ یعنی یہ اس کو شیطان نے سمجھایا ہوا تھا کہ اللہ غفور رحیم ہے، بس ٹھیک ہے۔ پروگرام تو اس نے بنا لیا، اس کا چچا بہت بڑا عالم تھا، بہت بڑے بزرگ تھے تو اس نے کہا کہ چلو مارنا تو ہے اپنے آپ کو تو چلو آخری وقت میں ملاقات کر لو چچا سے۔ تو ملاقات کے لئے گئے ان کو کچھ اپنے احوال بتائے اور اپنا ارادہ بتایا۔ انہوں نے کچھ بھی نصیحت نہیں کی، انہوں نے کہا: جا جا، نماز پڑھو، اس طرح کہا: جا جا نماز پڑھو۔ اب اس نے کہا اچھا چچا میرا خیرخواہ ہے تو میں آج ان کی بات مان لیتا ہوں پھر کرلوں گا۔ تو جاکر اس نے نہائے صاف کپڑے پہنے، نماز کا وقت تو تھا نہیں تو ظاہر ہے اس نے پھر نفلی نماز پڑھنی تھی یا قضا پڑھنی ہوگی جو بھی ہو بہرحال وقت کی نماز تو یا وقت اس وقت کی جو بھی نماز ہوگی تو وہ پڑھنی تھی۔
تو وہ کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوگیا نماز کے لئے اور بس سجدے کی دیر تھی کہ بس میں نے رونا شروع کر دیا، روتا رہا، روتا رہا، روتا رہا، خوب رویا۔ ہاں جی، اور بس اللہ کی طرف سے رحمت کا فیصلہ ہوا تو جب اس نے نماز پوری کی تو بالکل بدل چکا تھا۔ خودکشی کا ارادہ ترک کیا، اپنے چچا کو فیصلہ سنایا، بہت خوش ہوئے۔ پھر اس نے نماز باقاعدگی کے ساتھ پڑھنی شروع کی، توبہ کرلی، مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے اور ایسی مثالی شخصیت بن گئے کہ ان کا یہ حال تھا کہ ایک تو لوگوں کے کام بہت آتے تھے۔ یعنی دفتر سے سودا لانا، یہ کرنا ان کے دوسرے ادھر ادھر کے کام، یہ بس اس میں لگے رہتے تھے عبادت میں۔ اور یہ ہے کہ ان کے سامنے کوئی غیبت نہیں کرسکتا تھا۔ اگر غیبت کوئی شروع کرلیتا تو خاموشی کے ساتھ، اس کو کچھ نہیں کہتا ادھر سے چل کے دوسری جگہ بیٹھ جاتے یعنی اس میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ یہ مطلب ان کی حالت تھی اور بڑی اچھی موت اللہ تعالیٰ نے نصیب فرما دی تہجد کے وقت۔ تو یہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا کرم اور اللہ تعالیٰ کا احسان، اللہ کا احسان تو بہت زیادہ ہے، بہت کرم ہے تو وہ نماز کے ذریعہ سے انسان حاصل کرسکتا ہے۔
﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾14
ہاں جی نماز کے ذریعے سے انسان۔۔۔۔ تو نماز میں بڑی روحانیت ہے اور یہ روحانیت ہر خاص و عام کو ملتی ہے۔ مطلب اس کے دروازے کسی پر بھی بند نہیں ہیں لیکن ہر ایک کو حسب استعداد کم و بیش ملتی ہے۔ جو زیادہ اللہ کے قریب ہو تو اس کو زیادہ ملتی ہے جو نسبتاً کم اللہ کے قریب ہوں تو کم ملتی ہے لیکن ملتی سب کو ہے۔
تو نماز ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیں اللہ پاک کے قریب کرتا ہے۔ ہمیں نفسانی جو اثرات ہیں ہمارے اوپر جو ہوچکے ہوتے ہیں ان اثرات کو دھوتا ہے اور اس کے شر سے ہمیں بچاتا ہے۔ اس لئے جو ارشاد فرمایا نا حدیث شریف میں کہ جس کے گھر کے راستے میں پانچ نہریں ہوں اور ان پانچ نہروں سے وہ ہر نہر میں نہا کے آگے بڑھتا ہو تو گھر تک پہنچتے ہوئے کیا اس کے اوپر گند وغیرہ باقی رہا ہوگا؟ تو یہ نماز کا وہ تطہیر کا نظام ہے۔
متن:
﴿اَقِمِ الصَّلٰوةَؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ- وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ﴾15
تشریح:
یہ جو میں نے واقعہ بتایا اس کے اوپر بالکل فورًا fit بیٹھتا ہے۔
متن:
”اور نماز کھڑی کیا کر نماز بے حیائی اور برائی کی باتوں سے روکتی ہے اور البتہ خدا کی یاد سب سے بڑی چیز ہے۔“
اس آیت میں نماز کی دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں ایک تو یہ کہ نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہے اور دوسری اس سے بڑھ کر یہ کہ نماز خدا کی یاد ہے اور خدا کی یاد سے بڑھ کر کوئی بات نہیں۔ بے حیائی اور برائی کی باتوں سے بچنے کا نام تزکیہ اور صفائی ہے یعنی اس سلبی حالت کی یہ ایجابی صورت ہے۔ جس کا حصول انسان کی منزل مقصود اور حقیقی کامیابی ہے، چنانچہ فرمایا:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى﴾16
”کامیاب ہوا وہ جس نے صفائی حاصل کی اور اپنے پروردگار کا نام لیا پس نماز پڑھی۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کی فلاح اور پاکیزگی کے حصول کی تدبیر یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کا نام لے یعنی نماز پڑھے۔“
اس سے زیادہ واضح یہ آیت پاک ہے:
﴿اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَؕ- وَمَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا یَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖؕ- وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ﴾17
”تو انہیں کو تو ہوشیار کرسکتا ہے جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور نماز کھڑی کیا کرتے ہیں اور جو تزکیہ اور دل کی صفائی حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہی لئے حاصل کرتا ہے اور (آخر) خدا ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔“
اس سے ظاہر ہوا کہ نماز انسان کو اس کی اخلاقی کمزوریوں سے بچاتی، نفسانی برائیوں سے ہٹاتی اور اس کی روحانی ترقیوں کے درجہ کو بلند کرتی ہے۔ فرمایا:
﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا وَّاِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَ﴾18
”بے شک انسان بے صبرا بنا ہے، جب اس پر مصیبت آئے تو گھبرایا اور جب کوئی دولت ملے تو بخیل لیکن وہ نمازی (ان باتوں سے پاک ہیں) جو اپنی نماز ہمیشہ ادا کرتے ہیں۔“
آپ نے دیکھا کہ پابندی سے نماز ادا کرنے والے کے لئے قرآن نے کن اخلاقی برکتوں کی بشارت سنائی ہے؟ نماز کے انہی ثمرات اور برکات کی بنا پر ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک تمثیل میں صحابہ سے فرمایا کہ ”اگر کسی شخص کے گھر کے سامنے ایک صاف و شفاف نہر بہتی ہو جس میں وہ دن میں پانچ دفعہ نہاتا ہو تو کیا اس پر میل رہ سکتا ہے؟“ صحابہ نے عرض کی نہیں یا رسول اللہ ﷺ۔ ارشاد ہوا کہ ”نماز بھی اسی طرح گناہوں کو دھو دیتی ہے جس طرح پانی میل کو“ ایک دفعہ ایک بدوی مسلمان نے آکر اپنے ایک گناہ کی معافی کی تدبیر پوچھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕ- اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ-ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَ﴾19
”اور دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ ٹکڑوں میں نماز کھڑی کیا کرو، بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لئے۔“
اس تفصیل سے ظاہر ہوگا کہ مذہب اپنے پیرؤوں میں جس قسم کے جذبات اور محرکات پیدا کرنا چاہتا ہے ان کا اصلی سرچشمہ یہی نماز ہے جو اپنے صحیح آداب و شرائط کے ساتھ بجا لائی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نماز کو دین کی عمارت کا اصلی ستون قرار دیا ہے جس کے گر جانے سے پوری عمارت کا گر جانا یقینی ہے۔
تشریح:
تو یہ جو ما شاء اللہ نماز کی برکات ہیں، یہ قرآن سے اور حدیث سے ظاہر ہے سب کو اس کا پتا چلتا ہے۔ لیکن بعد میں اللہ پاک جن پہ معرفت کے دروازے کھولتے ہیں تو پھر ان کو اس ذریعے سے وہ چیزیں محسوس ہوتی ہیں جو ہدایت کے بڑے نظام ہیں، جس کے ذریعہ سے ہدایت ملا کرتی ہے۔ اور اس میں تین چیزیں بہت زیادہ اہم ہیں:
حقیقت صلوٰۃ، (2) حقیقت قرآن اور (3) حقیقت کعبہ۔
اور ہمارے نقشبندی سلسلے میں جو تیاری کروائی جاتی ہے، افسوس ہے آج کل ان چیزوں کا نہیں بتایا جاتا۔ جو تیاری کروائی جاتی ہے۔ تیاری کیا ہے؟ مثلًا ہم لوگ دل کا ذکر کرتے ہیں تو ہم اس کو مراقبہ کہتے ہیں، وہ مراقبہ نہیں ہے، وہ مراقبے کی تیاری ہے، مراقبے کی تیاری ہے۔ سب سے پہلے گویا کہ آپ کو مانوس کرا دیا جاتا ہے ذکر کے مقامات سے، جہاں ذکر زیادہ مؤثر طور پر ہوسکتا ہے ابتدا میں، بعد میں تو سب جگہوں پہ ہو سکتا ہے، ابتدا میں۔ مطلب جن کو ہم Sensing points کہتے ہیں تو ان Sensing points پر ذکر کو بٹھانا ہوتا ہے، اس کو activate کرنا ہوتا ہے ذکر سے۔ activate کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی جو اصل ہے یعنی جڑ جو عرش پر ہے اس کے ساتھ connection آپ کا ہو جائے۔ تو یہ جو لطائفِ ستہ ہیں وہ اس کے لئے ہیں۔
جس وقت کسی کے یہ مقامات activate ہو جاتے ہیں، ذاکر ہو جاتے ہیں تو پھر کیا ہے؟ پھر فیض آنا شروع ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور فیض کا اپنا ایک channel ہے۔ وہ channel پھر اس کا تعارف کرایا جاتا ہے اس channel کا۔ تو پہلا channel دل کا ہے، دوسرا channel وہی روح کا ہے، تیسرا channel سِر کا ہے، پھر خفی کا ہے، اخفیٰ کا ہے۔ یعنی فیض ان جگہوں پہ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے ذکر۔۔۔۔ گویا کہ ذکر کے ذریعہ سے اس کی زمین کو تیار کرلیا جاتا ہے، پھر اس میں فیض آتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر point کے اوپر۔ تو یہ سب تیاری ہے یہ مراقبات نہیں ہیں، اس کو لوگوں نے مراقبات کہا لیکن مراقبہ۔۔۔۔ عام لوگوں کے لئے مراقبات ہیں لیکن بہرحال یہ اصل میں مراقبات کی تیاری ہے۔
تو یہ دو دَور ہوگئے، پہلا دور تھا جو پانچ لطائف ہیں ان کا اجراء، دوسرے دور میں فیض کا اجراء ہے ان جگہوں پہ۔ اور پھر تیسرا دور جو ہے یہ مراقبات ہیں۔ لیکن ان مراقبات کی جگہوں کو "مشارب" کہتے ہیں۔ یعنی قلب بھی مشرب ہے، روح بھی مشرب ہے، سِر بھی مشرب ہے، خفی بھی مشرب ہے، اخفیٰ بھی مشرب ہے۔ تو اس کے پھر اپنے specific گویا کہ مراقبات ہیں جو کہ اس پہ کیے جاتے ہیں۔ یعنی دل پر ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾20 کا کہ ہر چیز اللہ کرتا ہے، روح پر صفات ثبوتیہ کا کہ اللہ پاک کے صفات ثبوتیہ جو ہیں ان کا استحضار نصیب ہو جائے۔ اصل میں یہ جو مراقبات ہیں یہ بھی یوں کہہ سکتے ہیں کہ پختگی لانے کے لئے ہیں یعنی استحضار۔ تو پہلا استحضار توحید کا ہے، دوسرا استحضار صفات کا ہے، تیسرا استحضار شیونات کا ہے (اللہ کی شان)، چوتھا استحضار جو ہے یہ تنزیہ کا ہے یعنی اللہ تعالیٰ مخلوقات کی طرح نہیں ہیں۔ یہ چیز بٹھانا، یہ تنزیہ کا ہے اور پانچواں استحضار شانِ جامع کا ہے، ان تمام چیزوں کی ایک مجموعی کیفیت توحید اور صفات اور شیونات اور جو تنزیہ ہے ان سب کی ایک جامع کیفیت اس کو شانِ جامع کہتے ہیں۔ اور یہ شانِ جامع اخفیٰ پر ہوتا ہے۔ اس لئے اخفیٰ جس کا جاری ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پھر اس کے سارے جاری ہوگئے ہیں۔
اب اس کے بعد پھر جو مراقبات ہیں اس میں پھر دو Parallel routes ہیں۔ ایک route حقائقِ انبیاء کا ہے اور ایک route حقائقِ عبادات اور مقامات کا ہے۔ تو پہلے route میں حقیقتِ آدمی، حقیقتِ ابراہیمی، حقیقتِ موسوی، حقیقتِ عیسوی، حقیقتِ محمدی، حقیقتِ احمدی، وہ ہے۔ اور دوسرے میں حقیقتِ کعبہ، حقیقتِ صلوٰۃ، حقیقتِ قرآن؛ یہ ہے۔ یہ اصل میں مراقبات ہیں۔ کیونکہ اس میں ان جگہوں کے جو یا ان کیفیات کے جو احوال ہیں وہ دل پہ طاری ہوتے ہیں۔ اب چونکہ نماز تو آپ نے ساری عمر پڑھنی ہے تو اگر حقیقتِ صلوٰۃ کا آپ کا مراقبہ صحیح ہو تو نماز میں آپ کا کام بن جائے گا۔ اور اگر آپ قرآن پڑھتے ہوں تو قرآن پاک کی حقیقت آپ پہ کھل جائے گی اور جب حج پہ جائیں گے تو کعبہ کی حقیقت۔۔۔۔ تو اس طرح گویا کہ ما شاء اللہ ایک انسان ان اعمال کی حقیقت تک پہنچ جائے گا، حقیقتِ اعمال۔ پھر اس کے بعد ایسے مراقبات آجاتے ہیں جو کہ بس یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہر شخص کا اپنا اپنا تعلق ہے اللہ کے ساتھ۔ پھر معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ تو یہ مطلب میرا ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان چیزوں کے ذریعے سے ان حقائق کو کھولنے کے دروازے متعارف کیے ہیں۔ باقی تو، اصل تو عبدیت ہے۔
یا کریم
اشعار
وَإِنْ ضَاقَتْ بِكَ الْأَحْوَالُ يَوْمًافَبِالْأَسْحَارِ صَلِّ عَلىٰ مُحَمَّدٍ
وَلَا تَتْرُكْ رَسُولَ اللهِ يَوْمًافَمَا أَحْلَى الصَّلَاةَ عَلىٰ مُحَمَّدٍ
شِفَاءٌ لِلْقُلُوبِ لَهَا ضِيَاءٌوَنُورٌ مُسْتَمَدٌّ مِنْ مُحَمَّدٍ
بِهَا يُسْرٌ وَتَفْرِيجٌ لِكَرْبٍلِمَنْ أَهْدَى الصَّلَاةَ عَلىٰ مُحَمَّدٍ
وَأَفْضَلُهَا إِذَا مَا كُنْتَ يَوْمًابِرَوْضَتِهٖ تُصَلِّي عَلىٰ مُحَمَّدٍ
تُصَلِّي بِاشْتِيَاقٍ فِي مَقَامٍعَظِيمُ الشَّأْنِ يَسْمَعُهَا مُحَمَّدٌ
فَيَا سَعْدَ الَّذِي قَدْ جَاءَ يَوْمًاوَقَدْ أَهْدَى السَّلَامَ عَلىٰ مُحَمَّدٍ
تَقِيٌّ بَلْ سَعِيدٌ مُسْتَجَابٌوَيَوْمَ الْحَشْرِ شَافِعُهُ مُحَمَّدٌ
وَإِنْ ضَاقَتْ بِكَ الْأَحْوَالُ يَوْمًافَبِالْأَسْحَارِ صَلِّ عَلىٰ مُحَمَّدٍ
(اشعار کا اردو ترجمہ)
جب کوئی مشکل پڑے پڑھنا درود
وقت تہجد رات میں پڑھنا درود
کتنا میٹھا ہے درود پڑھنا تو دیکھ
نہ کبھی رہ جائے یہ پڑھنا درود
آپ پر درود پڑھنے سے تو جان
نور شفا مل جائے ہے پڑھنا درود
جب کوئی مشکل پڑے پڑھنا درود
ختم اس کی برکتوں سے مشکلیں
ہوں ہر اک یہ دیکھ لے پڑھنا درود
کیا کرامت اس کی تو پائے گا گر
روضہ پر جاکر پڑھے پڑھنا درود
خود سماعت اس کی فرماتے ہیں آپ
جتنے شوق سے بھی پڑھے پڑھنا درود
کیا سعادت مند ہیں جو یاں بھی پڑھے
واں پہنچ کر بھی پڑھے پڑھنا درود
متقی خوش بخت وہ اشخاص ہیں
آپ شفیع ہوں گے جن کے پڑھنا درود
اللہ تعالیٰ ہم سب کو۔۔۔۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
درود شریف
دعا
(الروم: 30)
(الروم: 31)
ترجمہ: ”اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو“ (البقرۃ: 45)
نوٹ! حاشیے میں موجود تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔
(ترمذی، حدیث نمبر: 3371)
(ترمذی، حدیث نمبر: 2969) اس حدیث کی سند کمزور ہے۔
(المومن: 60)
(طہ: 14)
(اعلیٰ: 14-15)
(الرعد: 28)
(البقرۃ: 46)
(بنی اسرائیل: 44)
(الحج: 18)
(العنکبوت: 45)
ترجمہ: ”اور مجھے یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرو“ (طہ: 14)
(العنکبوت: 45)
(اعلیٰ: 14-15)
(فاطر: 18)
(المعارج: 19-23)
(ھود: 114)
(البروج: 16)