اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ وَمَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓىٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا﴾ (النساء: 136)
أَنَّ اللہَ تَعَالٰى هُوَ المُبْدِعُ لِلْعَالَمِ، اَلْوَاحِدُ الْاَحَدُ الْقَدِيْمُ الْحَيُّ الْقَادِرُ الْعَلِيْمُ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ، اَلشَّاكِرُ الْمُرِيْدُ الْكَاتِبُ لِلْمَقَادِيْرِ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَّلَا يَخْرُجُ مِنْ عِلْمِهٖ وَ قُدْرَتِهٖ شَيْءٌ، وَهُوَ الْخَالِقُ الرَّازِقُ الْمُحْيِي الْمُمِيْتُ وَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰی وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلٰى وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، وَمَعْنَی الْكَلِمَةِ الثَّانِيَةِ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ وَاَنَّهٗ صَادِقٌ فِيْ جَمِيْعِ مَا جَاءَ بِهٖ مِنَ الْأَخْبَارِ وَالْأَحْكَامِ وَأَنَّ الْقُرْاٰنَ كَلَامُ اللہِ تَعَالٰى وَكُلٌّ مِّنَ الْكُتُبِ وَالرُّسُلِ وَالْمَلٰئِكَةِ حَقٌّ، وَالْمِعْرَاجُ حَقٌّ، وَکَرَامَاتُ الْاَوْلِيَاءِ حَقٌّ، وَالصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عَدُوْلٌ، وَاَفْضَلُهُمُ الْأَرْبَعَةُ الْخُلَفَاءُ عَلٰى تَرْتِيْبِ الْخِلَافَةِ۔ وَسُؤَالُ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَالْبَعْثُ حَقٌّ، وَالْوَزْنُ حَقٌّ، وَالْكِتَابُ حَقٌّ، وَالْحِسَابُ حَقٌّ، وَالْحَوْضُ حَقٌّ، وَالصِّرَاطُ حَقٌّ، وَالشَّفَاعَةُ حَقٌّ، وَرُؤْيَةُ اللہِ تَعَالٰی حَقٌّ، وَالْجنَّۃُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَهُمَا بَاقِيَتَانِ لَاتَفْنَيَانِ وَلَا يَفْنیٰ أَھْلُهُمَا۔
صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! اَلْحَمْدُ للہ ثم اَلْحَمْدُ اللّٰہِ ثم اَلْحَمْدُ اللّٰہِ جتنا بھی ہم شکر کریں کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان کی دولت نصیب فرمائی ہے اَلْحَمْدُ للہ۔ اب اس ایمان کو باقی رکھنا ضروری ہے کیونکہ ایمان یہ یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اگر نہیں ہوتا تو پورا پورا نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو پورا پورا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ایمان کے بارے میں ہر وقت ہمیں فکر رہنی چاہئے کہ کوئی ایسی بات جس سے ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہو اس کے قریب بھی ہم نہ جائیں، یہ والی بات ہے۔ تو اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہوگی اور اس کی کوشش یہ ہے کہ ہم باخبر رہیں اپنے دین سے اور alert رہیں مستعد رہیں شیطان سے اپنے آپ کو بچانے کی اور بری صحبت سے بچنے کی۔ یہ بہت ضروری ہے۔ جو چیز شیطان اندر ڈالتا ہے ناں، وہ بری صحبت باہر سے ڈالتا ہے اور وہ یہی چیز مطلب انسان کے بعض دفعہ ایمان کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے۔ لہٰذا ایمان کو درست رکھنے کے لئے عقائد کا درست رکھنا ضروری ہے۔ ایمان کی جو بنیاد ہے وہ تو ہے کلمہ، کلمہ طیبہ: ”اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ“ تو اس میں جو بنیاد ہے پورے دین کی اساس ہے وہ توحید ہے، توحید باری تعالیٰ کہ ہم اللہ پاک کو ایک جانیں اور اللہ پاک ہی سے مانگیں اور اللہ ہی کی عبادت کریں۔ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کا مطلب ”لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ“ اور اس چیز کو پکا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ”لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ“ تک پہنچیں اور اس کو مزید یعنی راسخ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کسی اور چیز سے اثر نہ لیں صرف اللہ پاک ہی کی طرف متوجہ ہوں اور وہ ہے: ”لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ“۔ یعنی یہ باقی ساری چیزیں عدم سے آئی ہیں۔ عدم، عدم کس چیز کو کہتے ہیں؟ یعنی جو کچھ بھی نہ ہو۔ ہاں جی، باقی ساری چیزیں عدم سے آئی ہیں، اللہ اللہ ہے بس۔ ہاں جی، تو موجود اصل میں تو اللہ ہے باقی تو عدم سے آئے ہوئے ہیں، ہاں جی۔
یہ آج کل کی سائنس نے کچھ چیزوں کو ظاہر کردیا ہے یہ hologram اس کو کہتے ہیں hologram جیسے ہوتا ہے ناں پردہ کے اوپر ہم تصویر ڈالتے ہیں تو وہ دو سمتی ہوتا ہے، Two dimensional ہوتا ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ فلاں چیز حرکت کررہی ہے اور یہ ساری چیزیں، تو یہ دو سمتی ہیں۔ اب ایسا ہے کہ تین سمتی چیزیں بھی بنا لیتے ہیں اس hologram کے ذریعہ سے، تو تین سمتی چیزیں ہوتی ہیں، جیسے اب یہ خلاء ہے مطلب یہ کمرہ ہے اس کمرہ میں مثلاً ہاتھی وہ چل رہا ہوگا۔ اب ہاتھی کہاں ہے؟ لیکن چل رہا ہوگا بالکل آپ کو پتا چل رہا ہوگا جس طرح ہاتھی ہوتا ہے، ہاں جی اس طرح چل رہا ہوگا، تو اب وہ کمال تو کیمرہ کا ہوگا لیکن مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو بالکل ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے کہ ہاتھی چل رہا ہے۔ ہاں جی، تو یہ گویا کہ اب وہ چیز ہے بھی نہیں اور ہے بھی۔ مطلب ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھائی وہ تو ہے نہیں، مطلب ظاہر ہے وہ تو صرف اس کی تصویر ہے۔ اور نہیں بھی ہے۔ تو اب اس طرح ہم لوگ ہیں لیکن اللہ پاک کے حکم سے ہیں، ہماری اپنی ذات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ پاک کا حکم اپنا بیچ میں واپس کرلے بس کچھ بھی نہیں، ہاں جی، جیسے وہاں کیمرے بند کرلیں تو کچھ بھی نہیں۔ اس طرح مطلب ہے کہ اگر اللہ پاک اپنے حکم کو واپس کرلے ہمارے موجود ہونے کی، ختم، کچھ بھی نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ساری چیزیں موجود ہیں، اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ساری چیزیں موجود ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، ایک تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اللہ کی جو ذات ہے اس تک تو انسان کا ذہن نہیں پہنچ سکتا، ظاہر ہے انسان کا ذہن اللہ نے بنایا ہوا ہے تو اللہ جب نہ چاہے کہ یہ پہنچ جائے تو کیسے پہنچے گا پھر۔ وہ چیز اللہ پاک نے اس میں ڈالی ہی نہیں ہے تو لہٰذا ممکن ہی نہیں ہے، ہاں! قیامت میں اللہ تعالیٰ وہ چیز ڈال دیں گے تو پھر کیا ہوگا کہ دیدار الہٰی نصیب ہوگا۔ وہاں پہ دیدار الہٰی نصیب ہوگا، لیکن یہاں پر مطلب کوئی (نہیں کرسکتا) موسیٰ علیہ السلام نے عرض کرلیا کہ یا اللہ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ تو اللہ پاک نے فرمایا:
﴿لَنْ تَرٰىنِیْ﴾ (الأعراف: 143)
ترجمہ:1 ”تو نہیں دیکھ سکتا“۔
ہاں جی، تو یہ بات ہے کہ یہاں پر کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتا،
﴿لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ﴾2 (الانعام: 103)
مطلب جو ہے تم اس کو نہیں، وہ تمھیں سب کچھ دیکھ لیتا ہے۔ ہاں جی تو مطلب یہ ہے کہ یہ جو ہے ناں مطلب ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں اللہ پاک کو پتا چل رہا ہے، اللہ تعالیٰ کو اس کا پتا چل رہا ہے۔ اللہ پاک کا دیکھنا حق ہے، ایسا دیکھنا ہے کہ اس سے کوئی چیز باقی رہتی نہیں ہے ہاں جی، یعنی جس چیز کو بھی دیکھنا چاہتا ہے وہ دیکھتا ہے۔ مطلب اس میں یہ والی بات نہیں ہے، دیکھیں ہم بہت ساری چیزوں کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً اس دیوار کے پیچھے ہم کسی چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں نہیں دیکھ سکتے جب تک ہم اس طرف نکل نہ جائیں ہاں جی، اس چھت کے اوپر ہم دیکھنا چاہتے ہیں نہیں دیکھ سکتے، اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتے۔ ہاں جی، یہ ساری چیزیں مطلب ہماری محدود ہیں لیکن اللہ جل شانہٗ کا دیکھنا لامحدود ہے جس چیز کو بھی دیکھنا چاہے جس وقت دیکھنا جیسے دیکھنا چاہے وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ ہاں جی، یہ والی بات ہے۔ تو اللہ پاک کا سننا بھی مکمل ہے۔ اللہ جل شانہٗ کا سننا چاہے باریک سے باریک آواز کیوں نہ ہو، باریک سے باریک آواز کیوں نہ ہو اللہ پاک سنتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی دل میں پکارے ناں وہ بھی اللہ پاک سنتا ہے۔ ہاں جی، مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے سننے سے کوئی چیز بچ نہیں سکتی۔ ہاں جی، تو یہ بات ہے کہ اللہ پاک کا سننا بھی کامل۔ اللہ جل شانہٗ کا ارادہ بھی کامل، اللہ جل شانہٗ سبحان اللہ حی و قیوم ہے۔ اور اللہ جل شانہٗ مطلب یعنی یوں کہہ سکتے ہیں جو بھی صفت ہے اللہ تعالیٰ کی، وہ کامل ہے۔ تو ان صفات پہ ہمارا ایمان ہے، جتنے بھی ایمانی صفات ہمیں بتائی گئی ہیں ہمارا اس پر ایمان ہے اور اس کے ذریعہ سے ہم اللہ کو پہچان سکتے ہیں۔ معرفت الہٰی ان صفات کے ذریعہ سے ہے لیکن محبت کس چیز کے ساتھ ہے؟ ذات کے ساتھ ہے۔ معرفت الہٰی یعنی پہچان اللہ تعالیٰ کی وہ تو صفات کے ذریعہ سے ہے تمام صفات، ہاں جی، لیکن جاری یہ سارا کچھ کس لئے ہے؟ ذات کے ساتھ۔ یہ صفات کے ساتھ کیوں نہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ صفات میں یہ چیز ہے کہ جس صفت کے ساتھ کوئی محبت کرتا ہے اگر اس صفت کا مطلب رخ اس سے بدل جائے تو پھر وہ چیز نہیں رہے گی۔ مثلاً ایک شخص ہے اللہ پاک کی صفت رزاق پر اس کو بہت وہ ہے مطلب محبت ہے تو جب تک اس کو رزق مل رہا ہے تو شکر کررہا ہے اور محبت بھی کررہا ہے لیکن جیسے ذرا کھینچیں، پھر کیا ہوگا؟ چھوڑ دے گا۔ کیونکہ اس کو ذات کے ساتھ محبت نہیں ہے، اس کو ایک خاص صفت کے ساتھ ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیں ایک سخی ہے ناں سخی، انسانوں میں سخی، اگر آپ اس کی دولت کے ساتھ محبت کریں کہ یہ مجھے دیں گے مطلب ظاہر ہے وہ سخی ہے اور اس کی ذات کے ساتھ محبت نہ کریں تو خوش ہوگا؟ بلکہ بعض دفعہ امتحان بھی لے لیتا ہے کہ اس کو مجھ سے محبت ہے یا میرے مال سے محبت ہے یعنی یہاں تک وہ کرلیتا ہے۔ ہاں جی، تو ذات کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے وہ اللہ پاک چاہتے ہیں۔ ہاں جی، تو محبت تو ذات کے ساتھ ہے اور جو ہے ناں مطلب عرفان جو ہے وہ کیا ہے؟ وہ صفات کے ذریعہ سے ہے، یہ بات ہے۔ صفات جتنے بھی ہیں ان سب کا focus جو ہے وہ ذات پر ہے۔ مطلب وہ جیسے میں نے عرض کیا دیکھنا اس کا کامل ہے، سننا اس کا کامل ہے، ارادہ اس کا کامل، وجود اس کا کامل، مطلب جو ہے ناں وہ ساری چیزیں کامل۔ تو یہ اس کے ذریعہ سے ہم اللہ پاک کو پہچانتے ہیں تو یہ سب جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر۔ لیکن اللہ پاک کی ذات کو کوئی بھی مطلب پورا جان نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وراء الوراء ہے، ذاتِ وراء الوراء ہے۔ لہٰذا ہم لوگ، وہ صفات چونکہ ہم پر ظاہر ہیں، ہمیں پتا چل رہا ہے کہ اللہ پاک دے رہا ہے۔ اور جن کو پتا نہیں چل رہا وہ اندھے ہیں جن کو پتا نہیں چل رہا وہ اندھے ہیں، حقیقت میں اندھے ہیں اس لئے جیسے فرمایا ناں:
﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا ٘ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا ٘ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا ؕ اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ﴾3 (الأعراف: 179)
تو ایسے لوگ اندھے ہیں۔ ہاں جی، مطلب جو مطلب نہیں دیکھتے۔ لیکن جو دیکھنے والے ہیں ان کو پتا چل رہا ہے، ہاں جی۔ تو یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو ذات ہے وہ محبوب ہے حقیقی۔ ہاں جی، اور اس کے ساتھ محبت لازمی ہے۔ لیکن اس کی محبت کے لئے پھر واسطہ کون سا ہے؟ وہ اللہ پاک نے خود ہی فرمایا:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
ترجمہ4: ”اے میرے حبیب اپنی امت سے کہہ دیں اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ پاک تم سے محبت کرنے لگیں گے۔“
ہاں جی، تو یہ بات ہے کہ ہم لوگ حضور ﷺ جن کو اللہ نے ظاہر فرما دیا ہے، اتنا ظاہر کردیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اتنی صفات کسی بھی ہستی کے ظاہر نہیں ہیں۔ یعنی ایک ایک لفظ کی حفاظت کی گئی ہے، ایک ایک حرکت کی حفاظت کی گئی ہے آپ ﷺ کی، ہاں جی۔ تو آپ ﷺ کے ساتھ جو وفاداری ہے اور آپ ﷺ کا جو اتباع ہے، یہ سیدھا اللہ تعالیٰ کی محبت کی طرف لے جاتی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے لئے تھی۔ کوئی بھی کام جو تھا آپ ﷺ کا وہ اللہ کے لئے تھا۔ لہٰذا جو بھی آپ ﷺ کا اتباع کرے گا وہ ظاہر ہے کس طرف جائے گا؟ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف جائے گا ناں۔
میں اور تفصیل اس وقت نہیں عرض کر سکتا لیکن آپ ﷺ کی دعائیں لے لیں، آپ ﷺ کی جو بھی دعا لو گے تو اس میں کیا آئے گا؟ اللہ تعالیٰ کا استحضار، ہاں جی، ”بِسْمِ اللہِ وَعَلٰی بَرَکَۃِ اللّٰہ“، ہاں جی۔ مطلب ظاہر ہے جب کھانا کھاتے ہیں: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا، وَسَقَانَا، وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ“ ہاں جی، اس طرح جو ہے ناں ”بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ، اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ“، ”بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ، اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ“ مطلب جو بھی دعا آپ لیں گے اس میں کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ کا استحضار۔ تو لہٰذا آپ ﷺ کا اتباع جو ہے ناں چونکہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کامل تھی لہٰذا ہمیں بھی اس محبت سے کچھ حصہ مل جاتا ہے، اور جواب میں یہ طریقہ سن لیں، اللہ جل شانہٗ کبھی بھی اپنا ہاتھ نیچے نہیں رکھتا اوپر رکھتا ہے۔ آپ جو کچھ دیں گے یعنی اللہ پاک کے لئے تو اللہ پاک اس سے زیادہ کریں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کم ہو۔ تو آپ اگر اللہ کے ساتھ محبت کریں گے تو جواب میں کیا ملے گا؟ اللہ پاک محبت کریں گے۔ یعنی گویا کہ یوں سمجھ لیجئے (یہ تفسیر مفتی صاحب آج ہی ہماری سمجھ میں آئی ہے۔) ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31) مطلب جو ہے ناں کہ آپ ﷺ سے ہم محبت کرنا سیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ، اور جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرتے ہیں تو اللہ پاک محبوب بنا لیتے ہیں اس کو۔ نتیجتاً انسان اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ ہاں جی تو یہ فرمایا کہ: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31) درمیان میں وہ چیز مخفی رکھی گئی، لیکن ہے بالکل وہی چیز کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کریں گے حضور ﷺ کے طریقہ پر تو جواب میں (اللہ تعالیٰ ہم سے محبت کریں گے) کیونکہ اور کوئی طریقہ تو اللہ تعالیٰ نے رکھا نہیں ہے یعنی اگر اللہ پاک خوش ہوتے ہیں تو صرف حضور ﷺ کے طریقہ پر خوش ہوتے ہیں تو محبت بھی اگر کریں گے تو حضور ﷺ کے طریقہ پر کریں گے ناں، تو حضور ﷺ کے طریقہ پر کریں گے تو محبت مقبول ہے، تو جب وہ محبت مقبول ہے تو جواب میں کیا ہوگا؟ مطلب ہمیں اللہ پاک اپنا محبوب بنا لیں گے۔ یہ بات ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ یہ چیز جو ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔ تو یہ ہے کہ ابھی جو آیت کریمہ ہے ارشاد فرمایا حق تعالیٰ نے: اے مومنو! ایمان لاؤ اللہ پر، اے مومنو! ایمان لاؤ اللہ پر۔ دیکھیں ناں! جب ”مومنو“ کہا گیا تو پھر؟ یعنی مومن تو ہیں ناں۔ تو اے ہے مومن الفاظ کی حد تک اور ایک مومن ہے حقیقت میں، یعنی اس کے تقاضوں پر عمل کرنے والے مومن، ٹھیک ہے ناں؟ ایک تو یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ”اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ“ کہہ دیا اسلام میں داخل ہوگئے، اب کچھ بھی پتا نہیں ہے اس وقت کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا، لیکن مومن ہوگئے، ہاں جی۔ تو اب اس کے بعد اس کے تقاضے آجاتے ہیں کہ مومن ہوگئے تو تقاضے کیا پورے کرنے ہیں؟ فرمایا: اے مومنو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی تھی اور جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخرت کے دن کا انکار کرے۔ انکار سے مراد کسی قول و فعل کا مرتکب ہو۔ بے شک وہ راہِ ہدایت سے بہت دور جا پڑا۔ یہاں پر بھی یہ فرمایا ہے اور بالکل ابتدا میں کتاب کے تعارف میں بھی یہ بات فرمائی ہے:
﴿الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ﴾5 (البقرہ: 1-2)
یہ تو کتاب کا تعارف ہے۔ پھر اس کی صفت ہے:
﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾6 (البقرہ: 2)
یہ ہدایت ہے مطلب ڈرنے والوں کے لئے۔ ہاں جی، متقین کے لئے ہدایت ہے۔ پھر متقین کی تعریف میں فرماتے ہیں:
﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَﭤ اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ وَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾7 (البقرۃ: 3-5)
مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے جو بھی ہمیں خبر بھیجی رسول کے ذریعہ سے، جو بھی خبر، پیغمبر پیغام رساں ہاں جی، جو بھی خبر بھیجی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعہ ہم تک ہاں جی ہم اس کے اوپر یقین کرلیں چاہے ہم اس کو سمجھ سکیں یا نہ سمجھ سکیں ہم اس پر یقین کریں گے، اندھا دھند یقین۔ ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ کا مطلب کیا ہے؟ اندھا دھند یقین۔ ہمیں مطلب یہ نہیں ہے دیکھنے کی، اب دیکھو موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: ﴿لَنْ تَرٰنِیْ﴾ (الاعراف: 143) ہاں جی، دیکھ نہیں سکتے لیکن ایمان تو ہے۔ ظاہر ہے مطلب یقین تو کرنا پڑے گا، ایمان تو رکھنا پڑے گا کہ اللہ پاک ہیں اور اس طرح اس طرح اور اس طرح، اگرچہ دیکھنے کی بالکل کوئی صورت ہی نہیں ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ اب جنت بھی نہیں دیکھ سکتے اس وقت، دوزخ بھی نہیں دیکھ سکتے، فرشتے بھی نہیں دیکھ سکتے، ہاں جی، تو یہ سب چیزیں ماننی پڑیں گے۔ اچھا! جو قرآن کا نزول ہے، ہمارے سامنے تو نہیں ہوا، وہ بھی نہیں دیکھا، لیکن ایمان ہے اس کے اوپر اور اس سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں اس کا تو ہمیں کچھ پتا نہیں ہاں جی لیکن ایمان اس پر ہوگا۔ اسی طرح جو آپ ﷺ پہ قرآن نازل ہوا اس پر بھی ایمان۔ تو گویا کہ ایمان بالغیب، یہ بنیاد ہے تمام چیزوں کی۔ اب اللہ جل شانہ کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی ایمان بالغیب میں کامل ہوجاتا ہے تو اس کو اللہ پاک مشاہدہ بھی کرا دیتے ہیں۔ لیکن اس ایمان بالغیب میں مجاہدہ ہوتا ہے اور مجاہدہ کے بعد مشاہدہ ہوتا ہے۔ یعنی انسان جب مان لیتا ہے تو پھر اس کو جان بھی لے گا، لیکن یہ بات ہے کہ پہلے ماننا ضروری ہے۔ یہ کوئی شرط نہیں لگا سکتا کہ پہلے میں جان لوں پھر میں مان لوں گا نہیں، یہ والی بات نہیں۔ یعنی وہ آپ حضرات نے شاید سنا ہوگا بہت سارے واقعات اس قسم کے ہیں کہ آپ ﷺ نے کسی چیز پر رومال ڈالا، کپڑا ڈالا اور پھر فرمایا کہ اس سے نکالو جتنا نکال سکتے ہو ہاں جی، اور پھر نکالتے رہے، نکالتے رہے سارا لشکر سیر ہوگیا۔ اچھا اب اس پہ ذرا غور کریں یہ رومال کیوں ڈالا گیا؟ رومال کیوں ڈالا گیا؟ اس لئے ڈالا گیا کہ اللہ پاک اس کو مخفی رکھنا چاہتا ہے یہ نظام، اب جس نے اس پہ رومال ڈال لیا اور حکم پر عمل کرلیا اور نکالنا شروع کیا تو نکالتے رہے ختم ہی نہیں ہوتا چلتا ہے چلتا رہا، یہ زم زم کا پانی۔ وہ ایک دفعہ حاجی عبدالمنان صاحب کے ساتھ میں ذرا بے تکلف بات کررہا تھا، میں نے کہا حاجی صاحب! مہربانی کرکے پیئیں، یہ زم زم کے کنواں سے کچھ حد سے آگے نہ بڑھ جائیں، کہیں ہمارے اوپر بند نہ ہوجائے۔ کیونکہ ظاہر ہے، دیکھنے کی کوشش کریں گے تو ایسا نہ ہو کہ نظام ہی بند ہوجائے۔ فرمایا: یہاں پر قانون ہے ایک خاص حد ہے اس سے آگے کسی کو بڑھنے کی اجازت نہیں ہے، اس سے آگے بڑھنے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی، وہ نہیں جا سکتا کوئی وہاں پر۔ وجہ کیا ہے؟ اللہ پاک نے نظام رکھا ہے، مخفی رکھا ہے۔ اب تھوڑا سا غور کریں پورے مکہ میں کہیں پر پانی نہیں ہے، پورے مکہ مکرمہ میں کہیں پر پانی نہیں ہے، پانی سارا باہر سے آتا ہے۔ ہاں جی، ٹینکروں پہ آتا ہے ہاں جی، لیکن زم زم کا پانی ایسا ہے جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ اب یہ کیا چیز ہے؟ تو حاجی صاحب فرما رہے تھے کہ ہم رمضان کے مہینے میں اور حج کے ایام میں بہت بڑے بڑے پمپ لگا کر اس کو پانی کو باہر نکالتے ہیں۔ اگر نہ نکالیں تو یہ خانہ کعبہ اس میں ڈوب جائے۔ اتنا پانی اس وقت مطلب آجاتا ہے۔ اب کیا بات ہے یہ؟ کیونکہ لوگ زیادہ ہوجاتے ہیں۔ رمضان شریف کے مہینے میں عمرے کا ہوتا ہے، بہت سارے لوگ وہ لے جاتے ہیں تو اللہ پاک پانی لاتے ہیں اور حج کے مہینے میں بھی چونکہ حج والے بھی لے جاتے ہیں، لہٰذا اللہ پاک پانی لاتے ہیں۔ ہاں جی، یعنی جتنے لوگ اتنا پانی، ان کے لئے اللہ پاک نکالتے ہیں۔ مطلب پیدا فرما دیتا ہے اب یہ چیز جو ہے مطلب یہ ہے کہ اب ذرہ غور کرلیں حج کا مہینہ اور رمضان شریف کا مہینہ یہ شمسی مہینے نہیں ہیں، یہ قمری مہینے ہیں۔ اس وجہ سے موسم پر منحصر نہیں ہے بلکہ مختلف موسموں میں ہوتا ہے۔ یعنی رمضان شریف بالکل سردی میں بھی آسکتا ہے، بہت گرمی میں بھی آسکتا ہے، خزاں میں بھی آسکتا ہے، بہار میں بھی آسکتا ہے تو اب اگر یہ کوئی کہتا ہے نہیں، گرمی میں پانی زیادہ ہوجاتا ہے یہ بھی غلط ہے کوئی کہتا ہے سردی میں زیادہ ہوجاتا ہے پھر بھی غلط ہے کیوں؟ رمضان شریف اگر سردی میں آجائے تو پھر پانی زیادہ ہوجاتا ہے، اگر گرمی میں آجائے تو پھر پانی زیادہ ہوتا ہے، تو اس کا مطلب ہے موسم پر منحصر نہیں ہے، اللہ کے حکم پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم جس وقت مل جائے اس وقت جو ہے ناں پانی زیادہ ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جو ہے ناں یہ چیزیں اللہ پاک نے مخفی رکھی ہیں لیکن ہیں certain۔ اس میں درمیان میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں جی، اللہ پاک نے ما شاء اللہ اس کو یعنی (اس طرح بنایا ہے) تو اب دیکھیں اس میں کیا فرمایا: اے مومنو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی تھی اور جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخرت کے دن کا انکار کرے۔ انکار سے مراد کسی قول و فعل کا مرتکب ہو۔ بے شک وہ راہ ہدایت سے دور جا پڑا۔
ایمان مفصل مطلب جو ہے اس میں آگیا۔ ”اٰمَنْتُ بِاللہِ“ پڑھ لے تو اس میں ساری چیزیں آجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ اس کی وحدانیت کا اور دوسری سب صفات کا کامل اعتقاد رکھے۔ یعنی یہ سمجھے کہ وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ دیکھو شریک تو اس وقت ہو جب وہ پورا نہ کر سکے۔ بھئی اگر ایک آدمی کوئی کام کر سکتا ہے تو اس کو پروا نہیں ہوتی، کہتا ہے یہ تو میں کر سکتا ہوں، تو کسی اور دوسرے کو بلاتا ہے؟ اس کو ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب وہ نہیں کام کر سکتا، اب چارپائی کو جو ہے ناں کوئی سیڑھیوں پر (لے جانا چاہے) تو وہ کہتا ہے بھئی یہ تو مشکل ہے تو میں ایک آدمی نہیں لے جاسکتا، تو دو آدمی ہوجاتے ہیں ایک نیچے سے ایک پیچھے سے مطلب ایک آگے سے اور ایک پیچھے سے اور اس کو لے جاتے ہیں۔ تو وہ اس پر منحصر ہے کہ ضرورت ہو۔ تو اللہ پاک کو کسی کی ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں نمبر ایک، اس کو اچھی طرح یاد رکھیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے کسی کے اوپر یہ پابندی نہیں لگائی کہ تم مجھ سے مانگ سکتے ہو اور تم نہیں مانگ سکتے۔ ہاں جی، اور مانگنے پہ خوش ہوتا ہے، ہاں جی۔
﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾8 (المومن: 60)
ہاں جی، حکم دیا ہے مجھ سے مانگو میں پورا کروں گا، میں دوں گا۔ اچھا! تو جب یہ چیز نہیں ہے تو مجھے بتاؤ کسی اور مانگنے کی آپ کو کیا ضرورت ہے؟
وہ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے، ان کو الہام ہوا کہ فلاں جگہ پر ایک نوجوان ہے اس کا ایک کام ہے اور جاکر اس کا یہ کام کرو۔ الہام من جانب اللہ ہوتا ہے۔ تو بڑے خوش ہوئے کہ ولی اللہ سے ملاقات ہوجائے گی کیونکہ جس کے بارے میں اللہ پاک الہام فرماتے ہیں تو وہ ولی اللہ ہے۔ تو بڑے خوشی خوشی وہاں ان کے پاس گئے معلومات کرکے، ان سے ملاقات ہوئی، ان سے کہا آپ کا یہ کام ہے؟ کہتے ہیں: ہاں۔ کہا: ٹھیک ہے جی، وہ کام کروا دیا۔ پھر چونکہ ولی اللہ تھے تو جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ خوش آمدانہ لہجے میں کہتے ہیں کہ آپ کو پھر بھی اگر ضرورت ہو ناں تو میں فلاں جگہ پر رہتا ہوں آپ مجھے کہہ سکتے ہیں۔ یہ ہے surrender حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا۔ لیکن اب جو دوسرا جواب سن لیں، انہوں نے فرمایا: جس نے پہلے بھیجا ہے وہ بعد میں بھی بھیج سکتے ہیں، جس نے پہلے بھیجا ہے وہ آپ کو بعد میں بھی بھیج سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ مجھے آپ سے کہنے کی کیا ضرورت ہے، آپ جن کے کہنے پہ اب آگئے ہو ان کے کہنے پہ پھر بھی آسکتے ہو۔ یہ ہے توحید، یہ ہے توحید۔ اس توحید کو حاصل کرنے کے بعد انسان کو کوئی خوف نہیں ہوتا، کوئی پروا نہیں ہوتی، کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ یہ در جس کے لئے کھل گیا بس سبحان اللہ! پھر اس کے بعد کسی اور در کی اس کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے حکم کے مطابق ہو سکتا ہے۔ اب جیسے اللہ پاک چاہتے ہیں کہ ہم حضور ﷺ کی پیروی کرلیں، تو اللہ کا حکم ہے، ہم کریں گے حضور ﷺ کی پیروی۔ ہم حضور ﷺ کے ساتھ محبت کریں، یہ بھی حکم ہے۔ حضور ﷺ کی قدر کریں، حضور ﷺ کی تکریم کریں، یہ بھی حکم ہے لہٰذا ہم کریں گے۔ لیکن وہ اللہ کے حکم کی وجہ سے ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ہے، لہٰذا مطلب سب کچھ اللہ کے لئے ہے۔
ایک دفعہ میں جارہا تھا، اپنے ساتھیوں سے میں نے بات عرض کی، میں نے کہا کہ دیکھیں ہم آپ ﷺ کی شفقت اور محبتوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، جو احسانات ہمارے اوپر آپ ﷺ کے ہیں ہمارے لئے دعائیں مانگیں، ہمارے لئے کوششیں کیں اس کا ہم کوئی بھی بدلہ نہیں دے سکتے۔ لیکن تھوڑا سا غور کرلیں کہ یہ شفقتیں اور یہ محبتیں اور یہ امت کے ساتھ تعلق، یہ کس نے آپ ﷺ کے دل میں رکھا تھا؟ اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے ناں؟ تو اصل محبت تو ہم کو اصل محبت تو اللہ تعالیٰ کو ہم سے ہوئی ناں۔ تو لہٰذا یعنی حضور ﷺ کے ذریعہ سے بھی ہم اللہ کو پہچانیں کہ حضور ﷺ کو ایسا بنایا ہمارے لئے تو اب ہمیں کیا کرنا چاہئے، اس اللہ کو پہچاننا چاہئے جس نے اتنا پیارا رسول دیا ہے۔ ہاں جی، تو یہ بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ توحید اساس ہے ہمارے دین کی، بنیاد ہے۔ اس میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کی وجہ کیا ہے، وجہ کیا ہے کہ یہ بنیاد ہے۔ بنیاد اگر متزلزل ہوجائے پھر اس کے بعد کوئی چیز باقی نہیں بچتی۔ ہاں جی، تو توحید پہ ہمیں کوئی compromise نہیں کرنا، کوئی آگے پیچھے نہیں کرنا۔ کیوں وجہ کیا ہے؟ اور اس کا ہمیں سورۃ فاتحہ میں سبق دیا گیا، پکا سبق:
﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾9 (الفاتحۃ: 4)
کسی کی سورۃ فاتحہ اس کے بغیر مکمل ہوگی؟ کوئی یہ نہ پڑھے، سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تو پھر تو اس کے بغیر ہماری نماز نہیں ہوتی۔
﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحۃ: 4)
ترجمہ: ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ تو یہ دو چیزیں جو ہیں یہ کسی اور کے لئے نہیں ہیں، یہ بات ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ جیسے آپ ﷺ کا مطلب طریقہ تھا ناں کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جاتا تو پہلے اللہ سے مانگتے پھر اس کے بعد اس کا سبب تلاش کرتے۔ تو سبب تو اللہ کے حکم کے مطابق ہے ناں؟ تو وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوگیا اور اللہ پاک سے مانگنا کہ وہ سبب پورا ہوجائے یعنی اس سبب کے اندر اللہ تعالیٰ جان ڈالے۔ اب مثال کے طور پر جوتے کا تسمہ، یا کمپیوٹر خراب ہوگیا میں فوراً دعا کرتا ہوں یا اللہ اس کو ٹھیک کردے، اور پھر اس کے بعد میں اس کے ماہر کو بلاؤں کہ بھئی آجاؤ یہ کمپیوٹر میں fault آگیا ہے، آپ اس کو ٹھیک کرلیں۔ ما شاء اللہ دونوں چیزوں پر عمل ہوگیا۔ اللہ پاک سے مانگنے کا بھی اس پر بھی عمل ہوا اور اس کے سبب کو اختیار کرنے پر بھی عمل ہوا۔ تو ما شاء اللہ بالکل ٹھیک ٹھاک، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔تو بہرحال یہ ہے کہ توحید پر ہمیں کوئی compromise نہیں کرنا، یہ بنیادی چیز ہے اور ہم لوگ اس بنیاد کو بالکل نہیں چھیڑ سکتے۔
وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، تمام جہان کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ وہ بڑی قدرت والا ہے اور اپنے بندوں کے نیک کام کی بہت قدر کرتا ہے۔ قدر جو ہے اللہ تعالیٰ ہی بس یعنی اس سے ہی کوئی سیکھے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی قدر کی کیا بات ہے، ایک پھول اس کے راستے میں دو تو گلزار دے دے۔ مطلب اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ اور واقعی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یعنی مطلب اس میں درمیان میں کتاب کتاب کی بات نہیں۔ کتابوں میں ہے، میں انکار نہیں کرتا کتابوں میں ضرور ہے لیکن ہمیں اللہ پاک نے دکھایا ہے کہ کیسے اللہ پاک کسی کے مال میں برکت ڈالتا ہے جب وہ اللہ کے راستہ میں دیتا ہے۔ اور جب نہیں دیتا پھر کیسے اس سے برکت اٹھا لیتے ہیں ہاں جی، یہ بھی دیکھ لیا۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اس پر یقین کرنا چاہئے ہاں جی۔ نیک کام کی بہت قدر کرتے ہیں بہت قدر کرتے ہیں یعنی اس پر خوب ثواب دیتے ہیں۔
اور اپنے ارادہ سے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو چاہے ہاں جی، ما شاء اللہ، ما شاء اللہ جو بھی چاہے وہ اس کا:
﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾10 (البروج: 16) یعنی وہ ہر چیز جو اس کا ارادہ ہو وہ کرلیتا ہے۔ ہاں جی، واہ جی واہ۔ تمام عالم میں جو کچھ ہونے والا تھا اس نے سب پہلے ہی لکھ دیا تھا۔ جو ہونے والا تھا، مطلب یہ ہے کہ جو بھی ہوگا وہ سب پہلے سے لکھا جاچکا ہے۔ اسی کو تقدیر کہتے ہیں۔
اس جیسی کوئی چیز نہیں، اس کے علم اور قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہو سکتی۔ اب بتاؤ تقدیر اسی میں بھی آگئی ناں کہ جو بعد میں ہوگا، تو ایک اس کے لئے علم کی بات ہے تو اس کے علم سے باہر ہو سکتا ہے؟ تو تقدیر خود بخود مطلب اس میں بھی آگئی، ہاں جی۔
وہی سب کا خالق اور رازق ہے۔ وہ ایک صاحب ہمارے teacher تھے، اس کو امریکہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے جو ہے letter آگیا، تو ہم چل رہے تھے راستہ میں جارہے تھے، وہ بار بار جیب سے نکال کے ایسے (چومتا) امریکہ زندہ باد، ہاں جی پھر اس کے بعد تھوڑی دیر بعد پھر وہ نکال کے وہ اس طرح اس طرح دیکھتا (چومتا) امریکہ زندہ باد۔ ٹھیک ہے ناں، ان کے لئے امریکہ ہے، ہمارے لئے اللہ ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ ہمارے لئے اللہ ہے۔ یہ کون دے رہا ہے؟ اللہ ہی دے رہا ہے۔ اب اگر آپ کو اس کا ادراک نہیں، آنکھیں بند ہیں تو وہ تو آپ کا قصور ہے۔ ورنہ دے کون رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ۔ اللہ نہ دینا چاہے امریکہ دے کر دکھائے ناں۔ کیوں؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ فرماتے ہیں، معاذ! یاد رکھو اگر یہ سارے لوگ مل کے ناں تجھ سے وہ کوئی چیز روکنا چاہیں جو اللہ تمھیں دینا چاہتے ہیں، نہیں روک سکتے۔ اور اگر سارے لوگ مل جائیں اور تمھیں کوئی چیز دلوانا چاہتے ہیں جو اللہ نہیں دینا چاہتا، تو نہیں دے سکتے، ہاں جی، یہ بات ہے۔ ہاں جی، یہ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصیحت فرمائی۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ جو بھی ہے، اللہ پہ نظر رکھیں اللہ پر نظر رکھیں۔ کیونکہ جب اللہ جل شانہٗ کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہوتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نہ ہو تو کوئی کر نہیں سکتا، ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو مخفی رکھا ہوا ہے، ہیں تو سہی، لیکن مخفی رکھا ہوا ہے۔ کبھی کبھی ظاہر کردیتے ہیں، کبھی کبھی ظاہر کردیتے ہیں تاکہ جو لوگ انکار کررہے ہیں ان کے سامنے ایک چیز سامنے آجائے کہ دیکھو میں یہ نہیں کرنا چاہتا، تو کر کے دیکھو، ہاں جی۔
وہ ایک ظالم تھا، وہ دہریہ تھا تو مرغ اس نے پکڑا ہوا تھا تو جو ہے ناں وہ اس کے گلے کے اوپر جو ہے ناں چھری رکھی ہوا تھی، تو اپنے ساتھی جن کے ساتھ گپ شپ ان کی ہوتی تھی ناں تو ان کو کہا کہ مجھ سے اب کوئی یہ بچا دے۔ اس کے اوپر میں نے رکھی ہوئی ہے، اب کوئی مجھ سے اس کو بچا دے۔ اور بس اس کا یہ کہنا تھا پیچھے سے اونٹوں کا کوئی قافلہ آرہا تھا ان میں سے ایک اونٹ پاگل ہوگیا۔ ہاں جی اور Within seconds اس نے اس کے سر کو پکڑا لیا۔ یعنی مطلب اپنے منہ میں اس کو اٹھا لیا اور مرغ اس سے آزاد ہوگیا، نکل گیا۔ ہاں جی، کیا ہو سکتا ہے۔ مطلب ظاہر ہے، کچھ بھی نہیں کر سکتا آدمی۔ ہاں جی، تو یہ سب، بھئی! وہ تو چھوڑیں وہ تو اونٹ والی بات تو ذرا چلو سمجھ میں مشکل سے آتی ہے کہ اونٹ آئے گا یا نہیں آئے گا، زلزلہ ہوجائے پھر کیا کرو گے؟ زلزلے کا پتا ہوتا ہے؟ مطلب زلزلہ آجائے اور یہ دھنس جائے اور مرغ اڑ جائے، اس کے تو پر ہوتے ہیں ہاں جی، تو کیا کر سکتا تھا یہ؟ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اچھا، یہ بھی ذرا دور کی بات ہے، یہ ہاتھ شل ہوجائے پھر کیا کر سکتا ہے؟ فالج گرنے میں کوئی دیر لگتی ہے؟ ہاں جی۔ تو ظاہر ہے، ہاتھ شل ہوجائے تو طاقت ہی ختم، پھر اس کے بعد وہ کیا کر سکتا ہے؟ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ تو یہ بات ہے، کبھی کبھی ظاہر کردیتا ہے، کبھی کبھی ظاہر کردیتا ہے۔ وہ ایک صاحب تھے، اچھا اس دفعہ جو ہے ناں وہ ایسا ہوا کہ ایک آدمی بہت تڑپ رہا تھا، تڑپ رہا تھا، تڑپ رہا تھا۔ لوگ دیکھ رہے تھے کہ کیا ہے، تو مطلب یہ ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد وہ ساکت ہوگیا، تو اس کے اوپر فالج گر گیا۔ یہ ایک آنکھ بھی ضائع، ہاتھ بھی، پاؤں بھی اور یہ اور وہ، رو رہا تھا۔ پوچھا: بھئی کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ میں بہت بدقسمت آدمی ہوں، مسجد میں قرآنوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر اس کے اوپر چڑھ کے وہ جو گھڑی اتار کے مطلب لے جارہا تھا، بس اس کے اوپر پھر اسی وقت یہ ہوگیا۔ تو یہ مطلب بعض دفعہ اللہ پاک دکھاتا ہے، بعض دفعہ رہنے دیتا ہے تاکہ لوگوں کے ایمان جانچیں۔ اور بعض دفعہ اللہ پاک ظاہر کردیتا ہے کہ باقی لوگ جو بچنا چاہیں وہ بچ سکیں، ان کو اس چیز کا یقین آجائے۔
اچھا، وہی سب کا خالق اور رازق ہے اور وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔ ہر کام اس کا حکمت سے ہے۔ کوئی کام اس کا حکمت سے خالی نہیں۔ اس کے رسولوں پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے ہیں اور اس کے رسول ہیں۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے پیغام لے کر ہم تک پہنچاتے ہیں۔ یعنی ہدایتِ خلق کے واسطے ان کو خدا نے بھیجا اور وہ سچے ہیں اور جو احکام اور خبریں انہوں نے پہنچائی ہیں وہ برحق ہیں۔ اور رسول پر اتاری ہوئی کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی ہمارے لئے۔ وہ خدائے قدوس کا کلام ہے، جبرائیل علیہ السلام اس کو لائے ہیں اور سب پیغمبروں پر وحی لے کر یہی آیا کرتے تھے۔ اور پہلی کتابوں پر بھی یقین رکھیں کہ بے شک حق تعالیٰ نے تورات، انجیل، زبور وغیرہ نازل فرمائی تھیں، لیکن اب ان کو یہود و نصاریٰ نے بدل دیا اور وہ منسوخ ہوچکی ہیں، اب قیامت تک قرآن ہی کا حکم جاری رہے گا۔ اور قرآن میں نہ کوئی تغیر و تبدل ہو سکا اور نہ آئندہ ہو سکے گا۔ اور یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا، خدا نے اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ قرآن کو کوئی change نہیں کر سکتا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ انگریزوں نے مطلب قرآن لینا شروع کردیا، لوگوں سے جمع کرنا شروع کرلیا تھا جیسے Russia وغیرہ میں ہوا تھا ناں کہ مطلب قرآن جلا دئیے تھے اور یہ وہ۔ تو ایک عالم جارہا تھا تو انہوں نے کہا کہ یہ کیا کررہے ہو؟ کہتے ہیں یہ بس چھوڑ دیں، کہتے ہیں نہیں نہیں! کیا آپ اس کو تلف کرنا چاہتے ہیں؟ تو وہ خاموش ہوگئے۔ انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ اس طرح ایک بچہ جارہا تھا وہ حافظ قرآن تھا، اس کو بلایا آؤ بیٹا! وہ آگیا اس نے کہا قرآن کھولو، اس سے کہا بیٹا سناؤ، آجاؤ۔ اب اس نے سنانا شروع کردیا، وہ حافظ تھا، پڑھتا رہا، پڑھتا رہا، پڑھتا رہا، پڑھتا رہا، انہوں نے کہا جواب مل گیا آپ لوگوں کو؟ آپ کیسے اس کو ختم کر سکتے ہیں۔ یہ صرف کتاب کاغذ پہ لکھا ہوا تو نہیں ہے ناں، یہ تو دلوں پر بھی لکھا ہوا ہے۔ اس کو کیسے ختم کرو گے اور کس کس جگہ ختم کرو گے؟ ہاں جی، یہ تو ممکن نہیں۔ Central Asia میں قرآن ان لوگوں نے جلا دیئے لیکن حافظ پیدا ہوگئے بہت سارے اس کی وجہ سے کہ لوگوں نے سینے سے سینے میں حاصل کرنا شروع کرلیا، اور چھپ کے رات کے وقت۔ دن کے وقت وہ دنیاوی تعلیم کرتے تھے اور رات کے وقت بچے جو ہے ناں وہ تہہ خانوں میں قرآن پاک حفظ کررہے ہیں۔ اس وجہ سے بہت کثرت کے ساتھ ان میں حافظ پیدا ہوگئے۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ تو چیز ایسی ہے کہ اس کو آپ ختم نہیں کر سکتے۔ اس کا وعدہ اللہ نے کیا ہوا ہے۔
وہ ایک دفعہ ایک صاحب تھے کوئی artist تھے، اس نے انجیل کو بہت خوبصورت لکھا اور اس میں کچھ اپنی طرف سے تبدیلیاں کیں، changes کیں اور جاکر گرجا گھر پہنچے، ان سے کہا جی میں آپ کے لئے بہت خوبصورت انجیل لکھ چکا ہوں، آپ قبول فرمائیں۔ انہوں نے بہت شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کرلیا، اس کو الماری میں رکھ لیا۔ سمجھ گئے؟ پھر اس نے تورات لکھ دی۔ اور یہ ان کی اس میں گئے، انہوں نے اس کو بڑے شکریہ کے ساتھ قبول کیا اور accept کرلیا۔ پھر انہوں نے قرآن لکھ دیا، قرآن لکھ دیا تو قرآن کو بھی لے گئے مسلمانوں کے پاس، مسلمانوں نے کہا اچھا آپ نے قرآن لکھا ہے، چلو ٹھیک ہے ہم ذرا دیکھتے ہیں۔ تو جو حافظ صاحبان تھے ان کو بلا لیا اور ڈیوٹی لگائی کہ آپ لوگ مطلب جو ہے ناں اس کو پڑھنا شروع کریں اور حافظ اس کو دیکھیں کہ کون سی (جگہ غلطیاں ہیں) جہاں جہاں غلطی تھی وہاں وہاں انہوں نے نکالی، وہاں کہتے یہ یہ چیزیں اپنی طرف سے ہیں۔ یہ قرآن میں اگر کوئی چیز دوسری آجائے تو پھر اس کو ہم نہیں مانتے، ہم کہتے ہیں یہ محرف قرآن ہے مطلب جو ہے اس میں تحریف ہوئی ہے، لہٰذا ہم لوگ اس کو accept نہیں کر سکتے۔ بس وہ ایمان لے آئے، کہتے ہیں میں یہی ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا کہ کس کا دین محفوظ ہے، کس کا دین محفوظ ہے، مجھے پتا چلا کہ صرف اسلام محفوظ ہے۔ کوئی بھی دین اور محفوظ نہیں، اس کے اندر کوئی بھی تغیر و تبدل کر سکتا ہے، ہاں جی۔ تو ہمارا مطلب جو دین وہ محفوظ ہے، اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اگر ایک تبدیلی کرے گا تو دس آدمی اس تبدیلی سے۔ یہ ایک ظالم تھے جس نے ساٹھ ہزار جھوٹی حدیثیں لکھی تھیں ساٹھ ہزار، ہارون الرشید کی حکمرانی تھی اس نے اس کو پکڑ لیا اور اس پر موت کی جو ہے ناں سزا نافذ کی کہ مطلب اس کو مار دو، جلاد کو حکم دیا۔ اس نے کہا ہارون مجھے تو تو مار دے گا لیکن میں نے جو ساٹھ ہزار حدیثیں لکھی ہیں تمھاری کتابوں میں اس کا کیا کرو گے؟ ہارون نے بڑا زبردست جواب دیا، اس نے کہا کہ اس کے لئے امام مالک اور یہ جو ہے ناں حدیث کے جو رجال ہیں، یہ کافی نہیں ہیں؟ وہ تمھاری جھوٹی حدیثوں کو اس طرح نکال دیں گے جیسے مکھی کو دودھ سے نکالا جاتا ہے۔ میرا کام تجھے مارنا ہے، میری ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ میں تجھے ماروں۔ یہ ڈیوٹی میری نہیں ہے، یہ ان کی ہے، وہ کرلیں گے اپنا کام اچھی طرح کرلیں گے اور مار دیا اس کو۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ مجھے اس کے لئے زندہ رکھے گا کہ چلو، ہاں جی لیکن اس نے بڑا ایمان افروز جواب دیا کہ یہ کیا بات ہے، یہ میرا کام تو نہیں ہے، میرا کام یہ ہے تجھے مارنا، باقی ان کا کام اپنا ہے۔ تو قرآن میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اس طرح حدیث شریف میں بھی اگر کسی نے یہ بہت ساری کتابیں موجود ہیں اَلْحَمْدُ للہ جو موضوع احادیث ہیں ان کے بارے میں بڑی بڑی کتابیں ہیں ہاں جی، جس میں ان موضوع احادیث کو لکھا گیا ہے جو کہ جھوٹی گھڑی گئی ہیں ہاں جی، تو وہ لوگوں کو پتا چل جاتا ہے کہ بھئی یہ تو جھوٹی ہے۔
اور جو فرشتوں کے وجود کا انکار کرے وہ بھی کافر ہے اور آخرت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ یعنی یہ اعتقاد رکھے کہ مرنے کے بعد قبر میں اور دفن نہ ہوگا تو جس حال میں بھی ہو اس حال میں سوال ضرور ہوگا۔ اور قبروں سے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا اور نامۂ اعمال تولے جائیں گے اور سب اعمال کا حساب ہوگا اور نیک بندوں کو حوض کوثر سے پانی پلایا جائے گا۔ ”اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ“ دوزخ پر پل صراط رکھا جائے گا، جو بال سے باریک تلوار سے تیز ہوگا۔ جنتی لوگ اس پر سے پار ہوکر جنت میں پہنچیں گے اور دوزخی کٹ کٹ کر گر پڑیں گے۔ ہاں جی، اور قیامت کو آپ ﷺ شفاعت بھی کریں گے جنت والوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار بھی ہوگا۔ سبحان اللہ! جو سب نعمتوں سے افضل ہے۔ اللہ ہمیں بھی نصیب فرمائے اور جنت اور دوزخ ہمیشہ رہے گی، نہ وہ کبھی فنا ہوں گے اور نہ ان میں رہنے والے مریں گے۔ اس کے علاوہ اور بھی ضروری عقیدے ہیں، مثلاً تمام صحابہ کو عادل یقین کرنا، تمام صحابہ کو عادل یقین کرنا۔ ہماری حدیث شریف کی کتابوں میں جس وقت حدیث شریف کی روایت ہوتی ہے: عن فلاں، عن فلاں، عن فلاں، عن فلاں وعن فلاں ”وَھُوَ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالصَّحَابَةُ کُلُّهُمْ عَدُوْلٌ“، اس پر بات ختم ہوجاتی ہے کہ وہ صحابی ہے اور صحابہ تو سارے عادل ہی ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں، اس میں کسی کے اوپر آپ قلم نہیں اٹھا سکتے۔ بس وہ اللہ پاک نے ان کو چن لیا ہے اور بات ختم۔ ہاں جی، تو یہ چیز مطلب جو ہے ناں ہمارے عقیدہ میں ہونا چاہئے صحابہ کے بارے میں فرمایا کہ:
”أَصْحَابِيْ كَالنُّجُوْمِ، فَبِأيِّهُمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ“ (شرح الطحاوية، حدیث نمبر: 468)
ترجمہ: ”میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں جس کے پیچھے بھی جاؤ گے تو ہدایت پا لو گے“۔
جس کے پیچھے بھی جاؤ گے تو ہدایت پا لو گے۔ وہ ایک دفعہ میں مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، نماز پڑھ رہے تھے، غالباً اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے، تو پتا نہیں قمیض کو کوئی مسئلہ ہوا تھا تو صرف بنیان پہنی ہوئی تھی ہاں جی، تو سوچ رہے تھے کہ میں قمیض کا انتظار کروں یا نہ کروں، مطلب یہ سوچ رہے تھے۔ پھر اچانک فرمایا حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھی ہے، اللہ اکبر! بس ٹھیک ہے جی، بس یہ فرمایا اور ساتھ جو ہے ناں بس اللہ اکبر کہہ دیا کہ جب صحابی نے کیا ہے تو پھر اس کے بعد یہی بات ہوتی ہے۔ مطلب صحابہ ہمارے لئے معیار ہیں تو کسی صحابی کا عمل اگر ہم لے لیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ یہ بات ہو سکتی ہے اولیٰ غیر اولیٰ والی باتیں ہو سکتی ہیں، کیونکہ صحابہ میں بھی درجات مختلف ہیں لیکن یہ بات ہے کہ مطلب جب صحابہ سے ثابت ہوگیا تو بس اس کے بعد پھر مطلب جو ہے ناں ٹھیک ہے۔ وہ ایک دفعہ ایک صحابی غالباً یہ واقعہ اسی سے لیا ہوا ہے حضرت نے، مسروق ایک تابعی تھے، جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ہے ناں وہ تپائی کے اوپر ان کے کپڑے پڑے ہوئے تھے اور صرف ستر عورت کیا ہوا تھا ہاں جی، اور جو ہے ناں مطلب نماز پڑھ رہے تھے۔ ان دنوں تابعین کے درمیان یہ بحثیں گرم تھیں کہ کتنے کپڑیں چاہئے ہوتے ہیں اور یہ ساری مطلب اس پر بڑی بڑی disucssions ہورہی تھیں، ہاں جی تو وہ جو ہے ناں وہ مسروق رحمۃ اللہ علیہ جب آئے تو دیکھا کہ تپائی پہ کپڑے پڑے ہوئے ہیں اور حضرت نماز پڑھ رہے ہیں۔ پوچھا حضرت یہ کپڑے ناپاک ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں، پاک ہیں۔ تو آپ نے کیوں مطلب نہیں ان کو پہنا ہوا اور نماز پڑھ رہے ہیں؟ فرمایا تم جیسے جاہلوں کو سمجھانے کے لئے کہ جو اتنی بحثیں اس پر کرتے ہو، حالانکہ ہمارے پاس اس وقت اتنے کپڑے تھے کہاں؟ صحابہ تو غریب لوگ تھے ناں، یہ تو ابھی ریاض الصالحین میں پڑھ نہیں رہے کہ صبح جو ہوتی تھی، جس میں فرماتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی اوٹ لیتے تھے ہاں جی، مطلب اتنے کپڑے ہمارے پاس تھے کہاں کہ تم لوگ اس کے اوپر بحثیں کرنا شروع کررہے ہو۔ تو مطلب یہ ہے کہ limit بتانے کے لئے، یہ نہیں کہ ایسا کرنا چاہئے۔ ظاہر ہے مطلب جب آپ کے پاس ہے تو ضرور پہنیں، لیکن دوسروں کو اس طرح نہ روکیں کہ دوسرے کے پاس نہیں اور آپ کہہ دیں کہ آپ کی نماز نہیں ہوئی۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ کیوں کہ وجہ کیا ہے؟ کہ جب ستر عورت ہوگیا ہے تو نماز اس پہ ہو سکتی ہے اس پہ کوئی مسئلہ نہیں۔
ایک دفعہ جرابیں میں نے اتاری ہوئی تھیں، سردی کے دن تھے شک کی وجہ سے کہ کہیں یہ ناپاک نہ ہوچکی ہوں ہاں جی، حضرت کو میرا پتا تھا تو حضرت نے مجھے یہ کیوں کیا وجہ ہے؟ اب میں چپ، (فرمایا) قسم کھا سکتے ہو کہ ناپاک ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پہن لو، پہن لیے۔ ہاں جی اچھا! میں نے کہا حضرت ٹھیک ہے میں پہن لیتا ہوں خود اس کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہوں کسی اور کو نہیں پڑھا سکتا، فرمایا اگر خود پڑھ سکتے ہو کسی اور کو بھی پڑھا سکتے ہو، یہ کیا مسئلہ ہے اس میں؟ اصل بات تو یہی ہے ناں کہ شریعت کا حکم ہے کہ بس ٹھیک ہے جب تک آپ (کو یقین نہ ہو) قاعدہ قانون ہے کہ شک یقین کو زائل نہیں کر سکتا تو جو چیز پہلے سے پاک ہو اب وہ شک سے ناپاک نہیں ہو سکتی اور جو چیز ناپاک ہو اس پر شک سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں جی، یہ جیسے Dry clean ہے، تو اس سے اگر کوئی ناپاک کپڑے دھو لیں تو کیا خیال ہے مفتی صاحب پاک ہوجائیں گے؟ وہ ویسے ہی رہیں گے، اگر پاک ہیں تو پاک ہوں گے اگر ناپاک ہیں تو ناپاک ہوں گے۔ ان کی حالت تبدیل نہیں، کیوں؟ Dry clean سے پاکی نہیں آتی۔ البتہ پانی سے اگر آپ نے دھو لیا جو طریقہ کار ہے اس کے مطابق، تو بس پاک ہوجائے گا۔ اس کے بعد پھر کیا ہے اس میں بس۔ تو یہ ساری چیزیں جو ہیں کیا ہیں؟ مسائل موجود ہیں اس کے مطابق ہم لوگ عمل کر سکتے ہیں۔
اچھا تو صحابہ کرام کے بارے میں بات (کررہا تھا) تو صحابہ کرام تین قسموں پر ہیں۔ صحابہ اور صحابیات اگر آپ دونوں کو لے لیں تین قسموں پر ہیں۔ ایک وہ جو عام صحابہ ہیں، دوسرے وہ جو اہل بیت ہیں اور تیسرے وہ جو امھات المؤمنین ہیں۔ ان تینوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ اب دیکھو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فاروق و عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بڑے تھے لیکن گھر میں تو ان کے ساتھ اور تھے ناں، گھر میں تو ان کے ساتھ حسن اور حسین تھے اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ تھیں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں، تو اس وجہ سے گھر کی جو باتیں ہیں وہ کن سے مروی ہوں گی؟ وہ ان گھر والوں سے مروی ہوں گی۔ تو اس میں تو ہم ان کی حتیٰ کہ بڑے بڑے صحابہ جب اس قسم کے مسئلہ ہوتے تھے تو آکر عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھتے تھے۔ ان میں بعض باتیں ایسی ہوتی تھیں جن پر پوچھنے پر ان کو حیا آتی تھی کیونکہ ذرا پردے کی باتیں ہوتی تھیں لیکن پتا ہوتا تھا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہی پتا ہوتا تھا تو آکر وہ شرما شرما کر پوچھتے تھے تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو تسلی دیتیں، کوئی بات نہیں میں تمھاری ماں ہوں مجھ سے ہر بات پوچھ سکتے ہو اور وہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ پوچھتے اور پھر عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (جواب دیتیں)۔ اب اگر یہ باتیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نہ بتائی ہوتیں تو ہم تک پہنچ سکتی تھیں؟ بھئی جو صحابہ کو پتا نہیں تھا تو ہمیں کیسے پتا چل سکتا تھا؟ تو ظاہر ہے ان کی اپنی significance ہے۔ اور جو ما شاء اللہ گھر کی باتیں ہیں دوسری وہ مطلب ان حضرات سے۔ تو یہ بات ہے کہ ہم لوگوں کو یہ تینوں ماننے پڑیں گے۔ البتہ جو (بس کیا کہوں) یعنی قسمت کے مارے جو صرف کسی کی مانتے ہیں اور کسی کی نہیں مانتے ہیں تو وہ اتنے دین سے محروم ہوجاتے ہیں اور ان میں سے اگر کسی کو غلط کہہ دیں تو سب چیزوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ کیوں، وجہ کیا ہے؟ کہ جن کے بارے میں آپ ﷺ نے تعریف فرمائی ہے تم کون ہو اس کو تبدیل کرنے والے؟ کرو گے تبدیل تو کیا ہوگا؟ قرآن پاک میں ہے:
﴿لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ﴾11 (الحجرات: 2)
ہاں جی، مطلب اپنی آواز کو آپ ﷺ کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو، تمھارے اعمال حبط ہوجائیں گے، تمھیں پتا بھی نہیں ہوگا۔ ہاں جی، تو اب آپ ﷺ ایک بات کرتے ہیں تم اس کے اوپر بات کرتے ہو کہ نہیں، یہ ایسا نہیں یہ ایسا ہے۔ تو کیا ہوگا؟ سارا کچھ ضائع ہوجائے گا۔ اس وجہ سے ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔
اچھا! اور ان سب سے چاروں خلفاء کو ترتیب وار افضل جاننا اور حضور ﷺ کی معراج کو برحق ماننا۔ دیکھو اس میں ہر چیز کی دلیل ہوتی ہے، تو دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
”مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِيْ“ (ترمذی، حدیث نمبر: 2641)
ترجمہ: "جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں"۔
تو جس شخص پر پہلے سب متفق ہوگئے ہیں تو سب سے افضل ٹھہرا ناں؟ کیوں، صحابہ جب ہوگئے تو ہمیں بھی ہونا پڑے گا۔ تو ابوبکر، پھر اس کے بعد کس پر متفق ہوئے؟ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہ۔ پھر کس پر متفق ہوئے؟ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر۔ پھر اس کے بعد علی کرم اللہ وجہہ پر۔ تو جس ترتیب پر صحابہ کرام ان پر متفق ہوئے ہیں وہی ترتیب ہمارے لئے اصل ہے۔
اور حضور ﷺ کی معراج کو برحق ماننا۔ اس میں بھی لوگ باتیں نکالتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے scientist ہیں ناں تو scientist سائنس کے لحاظ سے سوچتے ہیں ناں، وہ کہتے ہیں Theory of Relativity، اس کی وجہ سے جو ہے ناں مطلب ہے کہ معراج شریف طے ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ خدا کے بندو! Theory of Relativity میں یہ جو کہتے ہیں کہ:
(1-v/c)2
تو v اگر c کے برابر ہوجائے تو 1 ہوجائے گا ناں، تو 1-1 کیا ہوجائے گا 0 ہوجائے گا۔ تو 0 کا Square root کیا ہوگا؟ 0 ہوگا۔ تو Anything divided by 0 تو کیا اس کو define کر سکو گے؟ کیا باتیں کرتے ہو؟ بس معجزہ ہے، اللہ پاک نے پہنچانا تھا بھئی طے ارض ہم مانتے ہیں ناں طے ارض، طے ارض کیا ہوتا ہے؟ ایک ولی اللہ ادھر بیٹھا ہوا ہے اور دیکھتا ہے کہ اگلا سیکنڈ میں کراچی میں بیٹھا ہوا ہے، یہ طے ارض ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کے لئے اللہ پاک کرلیتے ہیں، کرامت ہے۔ اچھا تو اگر اس طرح کوئی جا سکتا ہے کہ اِدھر ہے پھر اُدھر ہے، تو ادھر ہے ادھر ہے، مطلب وہ بھی ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے مطلب اس کے لئے کیا؟ یہی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا تھا ناں، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابوجہل نے کہا کہ تیرا بھائی کیا کہہ رہا ہے؟ انہوں نے کہا کیا کہہ رہا ہے؟ وہ کہتا ہے آسمان کا میں نے چکر لگایا پھر واپس آگیا بیت المقدس۔ تو اچھا یہ کہہ رہا ہے؟ تو سمجھا کہ شاید اب کام بن گیا۔ انہوں نے کہا ہاں ابھی بھی جاکر دیکھو، انہوں نے کہا پھر تو میں ایمان لاتا ہوں کہ ایسا ہی ہے، انہوں نے کہا عجیب! یہ تو نے کیا بات کرلی، ابھی حیران ہورہے تھے ابھی کہتے ہیں کہ میں ایمان لاتا ہوں۔ کہتے ہیں میں جب ان کی بات پر یہ یقین کرتا ہوں کہ ایک فرشتہ دن میں اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر سے کئی بار ادھر آسکتا ہے جاسکتا ہے تو اگر وہ اپنے بندے کو بلائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ یہی دلیل ہے ناں۔ تو بات یہ ہے کہ ہم لوگ تو اللہ کی قدرت کو کامل مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے کوئی چیز مطلب ناممکن نہیں ہے، بس بات ختم۔ اس کے بعد ہمیں مزید بات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
اچھا! تو اہل اللہ کی کرامتوں کا قائل ہونا وغیرہ، غرض مسلمانوں کو عقائد کا سنوارنا نہایت ضروری ہے۔ زیادہ تفصیل مزید کتابوں سے حاصل کی جائے۔ جس میں بہشتی زیور ما شاء اللہ اس کو آپ پڑھ سکتے ہیں، عقائد کا اس میں chapter ہے۔ اس chapter کو بار بار پڑھیں۔ مجھے جب حضرت نے بیعت فرما دیا تو ساتھ فرما دیا کہ بہشتی زیور کے عقائد کا باب پڑھ لو اور جو عقیدے اس میں لکھے ہیں وہ عقیدے اپنے اس کے مطابق کرلو۔ بس یہ بات تھی، آسان بات تھی مطلب بہشتی زیور کے عقائد۔ کیوں؟ اس میں اہل سنت و الجماعت کے سب عقیدے موجود ہیں صحیح۔ کسی نے بھی لکھی ہو ہم اس کو مانتے ہیں مطلب اس میں صرف ایک بات پر انحصار نہیں کرتے۔ لیکن چونکہ ہمارے پاس ایک چیز موجود ہے، ایک source ہے جو Easily available ہے ہم کیوں اس کو نہ دیکھیں؟ ہم دیکھ سکتے ہیں۔ تو بہشتی زیور available ہے اور کسی بھی store سے آپ لے سکتے ہیں اسلامی Store سے، تو اس کو جو ہے ناں آپ پڑھیں، عقائد والے chapter کو۔ اس میں بہت تفصیل ہے، اور اگر مزید دیکھنا چاہتے ہو تو ہماری website اس پہ ما شاء اللہ عقائد کا پورا Folder ہے۔ ہماری جو website ہے، اس کے تین جزء ہیں، ہر زبان میں، مطلب عربی میں، اردو میں، انگریزی میں، پشتو میں۔ تین sections ہیں، ایک عقائد کا section ہے، ایک فقہ کا section ہے، ایک تصوف کا section ہے۔ تو عقائد کا پورا section آپ دیکھ لیں تو اس میں ساری چیزیں آجائیں گی ان شاء اللہ۔ آپ اس کو تفصیل کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ تو ما شاء اللہ اس سے آپ کو یعنی امید ہے کہ بنیادی عقائد سارے معلوم ہوجائیں گے۔ تو پھر اس پر قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر قائم رکھے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔ اور ہر قسم کے عذاب سے محفوظ رکھے اور جنت نصیب فرمائے اپنی رضا کے ساتھ، آمین ثم آمین۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
”تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکو گے“ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! حاشیے میں تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔
ترجمہ: ”نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو پا لیتا ہے۔“
ترجمہ: ”انکے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، انکے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، انکے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں“
”(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبر رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
ترجمہ: ”الم، یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں“
ترجمہ: ”یہ ہدایت ہے ڈر رکھنے والوں کے لئے“
ترجمہ: ”جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں“
ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔
ترجمہ: "ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہی مدد مانگتے ہیں"
”جو کچھ ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے۔“ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
ترجمہ: ”اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند مت کیا کرو“