یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

یہ بیان 27 اگست 2021 سے لیا گیا ہے

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا ۝ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا ۝ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 7-10)

وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)

وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ ﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191) صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات! انسان اگر اپنی عقل سے کام لے تو بہت سارے مسئلے ہمارے حل ہوسکتے ہیں۔ اصل میں اللہ پاک نے عقل ہر ایک کو دی ہوتی ہے، جو بھی انسان ہے اس کے پاس عقل ہے۔ عقلمندی اور بیوقوفی کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کہ کوئی عقل سے کام لے رہا ہے اور کوئی نہیں لے رہا، جو نہیں لے رہا وہ بیوقوف ہے، اور جو لے رہا ہے وہ عقلمند ہے۔ بہت ساری باتیں ہیں جو انسان کو بالکل روزِ روشن کی طرح معلوم ہوتی ہیں، لیکن صرف غفلت کی وجہ سے اس کے نتائج سے بے خبر ہوتے ہیں، مثلاً اگر دیکھا جائے کوئی شخص بھی قصداً ارادتاً زہر نہیں کھاتا، گندگی نہیں کھاتا، بچتا ہے کہ ان میں جراثیم ہوں گے، یہ ہوگا، وہ ہوگا۔ اور زہر ظاہر ہے، وہ انسان کو مار سکتا ہے۔ سانپ کے راستے میں کوئی نہیں آتا الّا کہ بڑا مشاق ہو سانپ کو پکڑنے کا، ورنہ یہ ہے کہ سانپ سے انسان ڈرتا ہے۔ شیر کے سامنے نہیں آتا۔ یہ ساری باتیں ہماری سامنے ہیں، روز روشن کی طرح عیاں ہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ اگر ہمارے نفس کی خواہش ان چیزوں کے اندر شامل ہوجائے، تو پھر خطرہ ہوتا ہے کہ انسان ان چیزوں میں مبتلا ہوجائے، مثلاً زہر کھا لے، گندی چیز کھا لے اور سانپ کے سامنے آجائے اگر نفس کی خواہش اس میں شامل ہوجائے۔ مثلاً یہ کوکا کولا ہے، پیپسی کولا ہے، یہ میٹھا زہر ہے، اگر کوئی اس کی analysis کرنا چاہے تو کرلے، اگر جاننے والوں سے پوچھنا چاہے تو پوچھ لے، میٹھا زہر ہے، معدہ کے اوپر بہت خراب اثر کرتا ہے، تیزابیت اس میں بے انتہا ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک گلاس کے اندر سات چمچ چینی ہوتی ہے، جو ہمارے پورے چوبیس گھنٹے کی خوراک سے زیادہ ہے یعنی جتنی چاہئے ہمیں۔ اب آپ نے ایک گلاس پی لیا تو آپ کی requirement پوری ہوگئی، اب اس کے بعد مزید پیئیں گے یا کھائیں گے تو سارے کا سارا اضافہ ہوگا، وہ آپ کی چربی بنے گی، آپ کے لئے زہر بنے گا، نقصان دہ ہوگا۔ اگر کوئی شخص ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن بدپرہیزیوں سے نہیں بچتا تو تھوڑے دنوں میں بیمار ہوجائے گا۔ اب چونکہ اس کے ساتھ نفس شامل ہے تو بچتے بچتے اس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ بہت سارے لوگ ہیں جو قائل ہیں اس بات کے، جانتے ہیں، مانتے ہیں، لیکن پھر بھی پیتے ہیں، اپنے نفس سے مجبور ہیں۔ بس اس میں صرف اتنی بات ہوتی ہے کہ خودکشی جو ہوتی ہے، وہ حرام موت ہے۔ اور وہ تھوڑی دیر میں کوئی ایسی چیز انسان کھا لے، جس سے فوراً مر جاتا ہے آدمی، تو اس کو خودکشی کہتے ہیں۔ لیکن جس کا پتا ہو کہ پانچ سال میں یہ مجھے موت تک پہنچا سکتی ہے، تو کیا وہ خودکشی نہیں ہوگی؟ بس صرف وہ process slow ہوگیا ناں، اس سے زیادہ تو نہیں۔ پانچ منٹ میں اگر کوئی مرتا ہے، تو اگر دس منٹ میں مرتا ہے تو ان دونوں میں کوئی فرق ہے؟ یا کوئی بیس منٹ میں مرتا ہے تو اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ وہ صرف ایک process slow ہونے کے حوالے سے ہے۔ اس لئے اس کو Slow poisoning کہتے ہیں۔ یہ Slow poison ہے یعنی آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ سرایت کرتا جاتا ہے۔ تو انسان کی جو عقل ہے، اگر وہ استعمال کرلے، ان چیزوں کو دیکھے، تو اپنے آپ کو دنیا میں بھی بڑی راحت پہنچا سکتا ہے اور آخرت میں بھی۔ اب مثال کے طور پر ایک انسان job کرتا ہے، اس میں سفر کرتا ہے، اس میں ڈیوٹی دیتے ہیں، اس میں مشکل کام کرتے ہیں اس امید پر کہ مجھے تنخواہ ملے گی اور تنخواہ کے بعد پھر میں اس سے راحت کماؤں گا، مطلب مجھے راحت ملے گی، تو سارے کاموں کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ اب مثال کے طور پر اب یہ الگ بات ہے کہ ایک شخص ہے، وہ کون سا کام کررہا ہے پیسے کما رہا ہے، دوسرا کون سا کام کررہا ہے پیسے کما رہا ہے۔ محنت سب کی ہوتی ہے، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ محنت کی قسمیں ہوتی ہے، کوئی physical محنت ہوتی ہے، کوئی دماغی محنت ہوتی ہے۔ ہاں جی! تو اب جو پڑھا لکھا ہے، وہ دماغی محنت کرتا ہے، جو پڑھا لکھا نہیں ہوتا وہ physical محنت کرتا ہے، بات تو ایک ہی ہے، محنت تو ہے۔

ہمارے ایک ساتھی ہیں، اس کا بیٹا جو ہے ناں، پڑھتا نہیں تھا، تو اس کا چچا جو ہے ناں، مکینک ہے، بڑا اچھا مکینک ہے، ایک دن اس کو نصیحت کرتا ہے کہ دیکھو! پڑھو اور اگر نہیں پڑھو گے تو اپنے باپ کی طرح نہیں بنو گے، (اس کا باپ افسر ہے، اپنے باپ کی طرح نہیں بنو گے) بلکہ میری طرح بن جاؤ گے، اب مجھے دیکھو! کہ میں گاڑیوں کے نیچے پڑا ہوتا ہوں، موبل آئل مجھ پہ آرہا ہوتا ہے، تیل مجھ پہ آرہا ہوتا ہے، کپڑے میرے میلے ہوتے ہیں، ہاتھ میرے میلے ہوتے ہیں، چہرے پہ کالک ملی ہوتی ہے، اب دیکھو! یہ میری زندگی ہے، کاش! مجھے کوئی مار کے پڑھا دیتا، تم بھی بعد پھر یہی کہو گے، لیکن اِس وقت تمھیں سمجھ نہیں آرہی، تو میں تمھیں بتا رہا ہوں کہ میرے اوپر یہ گزری ہے۔ اب دیکھیں! کیا باتیں کررہا ہے وہ، اس کی عقل کو آواز دے رہا ہے کہ جو چیزیں مجھ پر کھلی ہیں تجربہ کی وجہ سے، تم اس کو میری طرف سے سن لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ، یہ گویا کہ اس کا مقصد تھا۔ تو انسان بعض دفعہ نفس کی خواہشات سے مجبور ہوکر اپنی عقل کی بات کو ماننا چھوڑ دیتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان کی جو عقل ہے، وہ نفسانی خواہشات سے متأثر ہوسکتی ہے۔ دوسری بات جذبات، یہ دل میں ہوتے ہیں۔ جذبات میں بھی یہی ہوتا ہے کہ بعض چیزوں سے نفرت ہوتی ہے، بعض چیزوں کے ساتھ محبت ہوتی ہے، بعض چیزیں اچھی لگتی ہیں، بعض چیزیں اچھی نہیں لگتیں۔ ایمان کفر یہ سب چیزیں دل میں ہوتی ہیں۔ اب دیکھو! کافر اگر ہے تو اس کو تمام چیزیں وہ بری لگ رہی ہیں، جو مسلمان کررہے ہیں، حالانکہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، بلاوجہ مخالفت ہے۔ اب یہ دہشت گردی، دہشت گردی والی باتیں جو کررہے ہیں، تو بتاؤ! بغداد میں زیادہ دہشت گردی ہوئی تھی یا اب کابل میں زیادہ دہشت گردی ہوئی ہے؟ تھوڑا سا سوچ لیں، غور کرلیں، وہاں پر اگر چنگیز خان کا پوتا ہلاکو خان آیا تھا، تو اس نے بھی بہت سخت (معاملہ کیا) لاکھوں لوگوں کو قتل کیا تھا، ان کے سروں کا مینار بنایا تھا۔ اور جس وقت امریکہ آیا تو انہوں نے بھی ہزاروں لوگوں کو مارا۔ اب اس کو وہ دہشت گردی نہیں کہتے، اور مسلمان اگر مقابلہ کرتا ہے، تو اس کو دہشت گردی کہتے ہیں، مطلب ظاہر ہے، اس کی تعریف ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ کفر کو ہمارے مسلمانوں کی چیزیں اچھی نظر نہیں آتیں، چاہے وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں۔ اس لئے اللہ پاک نے مسئلہ ہمیں اچھی طرح سمجھا دیا قرآن پاک میں:

﴿وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِـعَ مِلَّتَهُمْؕ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰىؕ وَلَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ﴾ (البقرۃ: 120)

ترجمہ: ’’اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لئے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار‘‘۔

اتنی clear بات کی ہے اللہ تعالیٰ نے۔ یعنی اس کا جو نتیجہ ہوگا، اس میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکے گا، بالکل کھلی کھلی بات ہے۔ ہم یہود و نصاریٰ پر بھروسہ کرنے کی کئی بار غلطیاں کرچکے ہیں، اس کے تجربات بھی ہوئے ہیں، اس کے باوجود پھر دوبارہ تجربہ کرنے کے لئے تیار، حالانکہ مومن کی شان یہ ہے: ’’لَا یَخْدَعُ وَلَا یُخْدَعُ‘‘۔ (کہ مومن نہ دھوکا دیتا ہے اور نہ دھوکا کھاتا ہے) اور مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ (بخاري، حدیث نمبر: 6133) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اس طرح اگر کسی کے ساتھ نفرت ہے تو اس کی ہر چیز بری لگے گی اور اگر کسی کے ساتھ محبت ہے اس کی ہر چیز اچھی لگے گی۔ یہ ہمارے Rector وہیں پر جرمنی میں اس نے تعلیم حاصل کی پی ایچ ڈی وغیرہ، تو اس پہ جرمنوں کا اتنا اثر تھا کہ (وہ جرمن لوگ اس طرح کرتے ہیں مطلب نوجوان جو ہاتھ کو اس طرح کرلیتے ہیں کہ پتا نہیں کیا چیز ہے، مگر اتنی بے ہودہ قسم کی حرکت ہے، اس سے کیا ہوتا ہے؟ بس چلو ٹھیک ہے، ان کی عادت ہے) یہ بھی اس طرح کرتا ہے۔ بھئی! تمھیں کیا ضرورت ہے؟ یعنی محبت۔ تو ایک دفعہ ہمارے ایک ساتھی تھے، تو اتباعِ سنت کی بات آگئی درمیان میں، تو اس پہ اس نے کوئی comment کیا ہوگا، انہوں نے کہا آپ جو پھرپھر کرتے تھے، یہ کیا چیز ہے؟ یہ محبت کی وجہ سے ہے ناں، اگر تم جرمنوں کے ساتھ محبت کرو، ہم حضور ﷺ کے ساتھ محبت کرتے ہیں، ہم وہی کریں گے جو حضور ﷺ نے کیا ہے۔ بس ہر ایک کی اپنی اپنی محبت کا دائرہ ہے، کسی کا دائرہ کون سا ہے، کسی کا دائرہ کون سا ہے۔ وہ ذرا منہ پھٹ قسم کا ساتھی ہے ہمارا۔ مقصد بات تو اس نے صحیح کی۔ تو مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی جو بات ہوتی ہے کہ انسان کا جو دل ہے، ہم نے دیکھا ہے عورتوں کے اندر یہ بڑا مسئلہ ہوتا ہے، کیونکہ جذباتیت سے زیادہ اثر لیتی ہیں، جذبات ان میں بہت زیادہ ہیں، اگرچہ یہ ان کے فائدے کی بات ہے، لیکن اس ہر فائدے کی چیز کا Side effect بھی ہوتا ہے، تو اس کا Side effect ہے کہ وہ جذباتی مخلوق ہے، لہٰذا جذبات میں آکے وہ تہس نہس کردیں گی ساری چیزوں کو، بہت اچھی چیز کو بھی برا کہہ دیں گی یہ ایسا اور یہ ایسا اور بعد میں پھر روئیں گی۔ ہاں جی! تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جذباتی مخلوق ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ جذبات بھی نفس سے اثر لے لیتے ہیں، دل بھی نفس سے اثر لے لیتا ہے، جب یہ ساری باتیں ہم جانتے ہیں، تو اگر ہم لوگ تھوڑی سی محنت کرلیں کہ ہم عقل سے اتنا کام لیں کہ جان لیں (ابھی جیسے میں باتیں کررہا ہوں) کہ ہمارا نفس جو ہے، ہمیں کن کن چیزوں میں نقصان پہنچا رہا ہے۔ ایک بات طے ہوگئی، معلوم ہوگیا۔ دوسری بات اس نفس کا روکنا کہ ہمیں نقصان نہ پہنچائے، کتنا ضروری ہوگا، دوسری بات۔ یہ عقل کی باتیں بتا رہا ہوں، مطلب اس میں درمیان میں اور کوئی چیز نہیں ہے۔ معلوم ہوگیا کہ اس نفس کو شر سے بچانا کتنا ضروری ہے، مان لیا کہ ضروری ہے۔ اچھا! اب اس کے لئے جو طریقۂ کار ہوگا اِس نفس کے شر کو روکنے کا، وہ کتنا ضروری ہوگا۔ تین باتیں ہوگئیں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ وہ طریقۂ کار اگر ہمیں بہت تجربہ کار آدمی سمجھا دے جس کو تمام تفصیلات کا پتا ہو، تو وہ مانیں گے یا جس نے ابھی تجربہ نہیں کیا، جس پہ یہ باتیں ویسے ہی گزر رہی ہیں، اس کی بات مانیں گے؟ ظاہر ہے تجربہ کار کی بات مانیں گے، یہ بھی عقل کی بات ہے۔ اب اگر وہ بات اس ہستی نے کی ہو، جس نے سارے تجربہ کاروں کو پیدا کیا ہے، تو پھر اس کی بات مانیں گے یا تجربہ کاروں کی بات مانیں گے؟ ظاہر ہے پھر اس کی بات مانیں گے۔ اب یہ ساری عقل کی باتیں ہیں، اس میں درمیان میں اور کوئی بات نہیں ہے، عقل کی باتیں ہیں اور یہ simple عقل کی باتیں ہیں، مطلب اس میں کوئی گہرائی کی بات نہیں کہ اس کے لئے بڑی لمبی چوڑی calculation کرنی پڑے اور پھر نتیجہ نکل آئے اور کمپیوٹر دو دن چلتا رہے، اس کے بعد کوئی نتیجہ برآمد ہو، ایسے نہیں ہے، بالکل صاف صاف بات ہے، کوئی انکار کرکے دکھائے۔ چار باتیں ہوگئیں۔ اب یہاں تک تو عقل کی بات ہوگئی۔ اب آگے علم کی بات ہے۔

معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ پاک نے اس کے بارے میں کیا کہا ہے؟ جو ساری چیزیں جانتا ہے، ہمیں علم ہونا چاہئے۔ اب یہاں دوبارہ عقل کی ضرورت پڑ گئی کہ یہ علم کہاں سے ہو، یہ علم کہاں سے حاصل ہوگا، تو پھر عقل کی ضرورت پڑ گئی اور عقل نے کہا وہ ہستی جو کہ اللہ پاک سے پیغام لے سکے اور ہمیں بتا سکے، وہی ہمیں بتا سکتا ہے، کیونکہ اللہ پاک سے براہِ راست تو کوئی سن نہیں سکتا، پانچ باتیں ہوگئیں۔ اب چھٹی بات یہ ہے کہ ایسی ہستی کون ہے؟ تو ظاہر ہے دنیا میں کروڑوں اربوں لوگ پیدا ہوئے ہیں، فوت ہوگئے ہیں، کیا کوئی ایسی ہستی ہے جس کو اس کے دشمن نے بھی جھوٹا نہیں کہا، ہاں جی! کوئی ایسی ہستی ہے، کوئی ایسی ہستی ہے جس کے ساتھ ان کے دشمن بھی امانتیں رکھتے تھے، صادق اور امین۔ تو تاریخ بتاتی ہے روز روشن کی طرح کہ وہ ہستی حضور ﷺ ہیں۔ قیصر پوچھتا ہے ابوسفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے (اس وقت وہ کافر تھے) کہ کیا آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ بھی بولا ہے؟ تو اس نے فوراً کہا کہ نہیں جھوٹ تو کبھی نہیں کہا، جھوٹ تو کبھی نہیں بولا۔ تو پھر قیصر نے کہا کہ جو لوگوں پہ جھوٹ نہیں بولتا، تو اللہ پاک پہ کیسے جھوٹ بولے گا۔ یہ بات ہے۔ تو یہ تو ہوگیا سچا ہونے کا۔ امین ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ہجرت کی رات چونکہ سخت سے مشکل کی رات تھی، خود اپنے آپ کو صرف بچانا تھا۔ ابھی ذرا کابل میں دیکھو ناں، جو لوگ بھاگ رہے ہیں، وہ کسی اور چیز کی پروا کررہے ہیں؟ سب کچھ چھوڑ کے بھاگ رہے ہیں، کسی طریقے سے اپنے آپ کو جان کو جوکھوں میں ڈال کر وہ جو ہے ناں، بھاگ رہے ہیں۔ لیکن آپ ﷺ کو ہجرت کے وقت فکر کس چیز ہے؟ جو امانتیں ان کے پاس پڑی ہیں، ان امانتوں کو پہنچانے کا نظام بنا رہے ہیں، اس کے لئے اپنے جو ہے ناں چچا زاد بھائی جو بعد میں داماد بھی بنے، علی کرم اللہ وجہہ کو اپنی چارپائی پہ سلاتے ہیں اور پھر ان کو اپنی امانتیں حوالے کرتے ہیں کہ امانتیں ان سب کو پہنچا کے پھر آجانا۔ کتنی بڑی امانتداری ہے۔ تو یہ ایسی ہستی اگر کوئی بات کہہ دے کہ اللہ پاک نے مجھے یہ بتایا، اس پہ تو کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ تو ہمیں اَلْحَمْدُ للہ! ایمان بھی ہے، شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ! ہمیں تو دلائل کی ضرورت ہی نہیں ہے، اللہ کا شکر ہے، ہمیں پہلے سے ہی ایمان ہے آپ ﷺ پر، تو آپ ﷺ نے جو بات فرمائی اللہ کی طرف سے چاہے کتاب کی صورت میں، چاہے حدیث کی صورت میں ہمیں پہنچی ہو، وہ بات فائنل ہوگی۔ اللہ پاک نے فرمایا:

﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا ۝ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا ۝ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 7-10)

ترجمہ: ’’اور انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

اس نفس کی قسم اللہ پاک نے کھائی اور اس میں فرمایا کہ اس میں فجور بھی ہے اس کا اور تقویٰ بھی ہے اس کا، اختیار دیا ہے کہ کوئی فجور اختیار کرتا ہے یا تقویٰ اختیار کرتا ہے، فجور کو کوئی اختیار کرے گا، ان کا الگ نتیجہ ہے اس کا وہ بھی بتا دیا اور جو تقویٰ کو اختیار کرے گا اس کا الگ نتیجہ ہے، وہ بھی بتا دیا ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے‘‘۔

یعنی تقویٰ اختیار کیا۔

﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 10)

ترجمہ: ’’اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

یعنی جس نے اپنے نفس کو ایسے چھوڑ دیا، جس طریقے سے تھا، کیونکہ نفس امارہ ہوتا ہے پہلے، لہٰذا جب اس حالت میں چھوڑ دیا تو نفس امارہ رہا، بس وہ برائی کی طرف مائل کرتا ہے، تو تباہی و بربادی کی طرف لے جارہا ہے۔ پس پتا چلا کہ کامیابی اصل میں نفس کی اصلاح میں ہے، کامیابی نفس کی اصلاح میں ہے، تو اب نفس کی اصلاح کی کوشش کریں گے۔ اب نفس کی اصلاح کیسے ہو، نفس کی اصلاح کے لئے ہمیں کچھ ایک خاص ترتیب بنانی پڑے گی، اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ ہمارے ڈاکٹر صاحبان مریضوں کو بتاتے ہیں جو شوگر کے مریض ہوتے ہیں کہ میٹھا نہ کھانا، یہ نہ کرنا، وہ نہ کرنا بعد میں پتا چلتا ہے کہ جی میرا شوگر تو کم نہیں ہوا، کہتے ہیں پرہیز کیا تھا؟ چپ ہوجاتے ہیں، پرہیز نہیں کیا تھا۔ اب جانتا ہے سب کچھ مانتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کا مطلب ہے نفس نہیں چھوڑتا کسی کو، راستہ پہ نہیں چھوڑتا، تو اس لئے نفس کے لئے کوئی نہ کوئی طریقہ بنانا پڑے گا، تو وہ طریقہ کیا ہے؟ وہ طریقہ یہ ہے کہ کسی چیز کے ساتھ اتنی محبت کروا دو کہ اس کی بات بند آنکھوں سے ماننے کے لئے انسان تیار ہوجائے، بند آنکھوں سے ماننے کے لئے تیار ہوجائے، کیونکہ محبت فاتحِ عالم، ہاں جی!

یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

یہ الہامی شعر ہے علامہ اقبال کا، اس میں تینوں چیزیں بتائی گئی ہیں: عقل کی بات، دل کی بات اور نفس کی بات۔ یقینِ محکم، یقین ہوتا ہے عقل میں۔ عمل پیہم، عمل ہوتا ہے نفس میں اور مسلسل عمل یعنی ہمت کے ساتھ۔ محبت فاتحِ عالم، محبت دل میں ہوتی ہے۔ تو تینوں کا ذکر آگیا ناں۔

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

مطلب یہ ہے کہ آپ کو زندگی میں جن چیزوں سے واسطہ پڑے گا، ان کے ساتھ جہاد میں یہ چیزیں کام آئیں گی، یقین محکم، مسلسل ہمت کے ساتھ عمل اور محبت جو فاتح عالم ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم لوگ کسی چیز کے ساتھ اتنی محبت کرلیں کہ اس کے لئے ہم نفس کی بالکل پروا نہ کریں، نفس درمیان میں حائل ہی نہ ہو، مثال کے طور پر بعض کو کسی کے ساتھ محبت ہوجاتی ہے، اس میں شرمندگی بھی ہوتی ہے، ملامت بھی ہوتی ہے، پیسے بھی خرچ ہوتے ہیں، محنت بھی ہوتی ہے، تباہی بھی ہوتی ہے، سارا کچھ ہوتا ہے، تو وہ سب کے لئے انسان تیار ہوجاتا ہے، وہ کون سی چیز ہے جس نے تیار کیا اس کو؟ محبت ہی ہے۔ اور یہ ساری چیزیں جو پڑ رہی ہیں، یہ کس چیز میں پڑ رہی ہیں، نفس کے اوپر پڑ رہی ہیں، یہ شرمندگی جو ہے اور جو ملامت جو ہے اور جو انسان کے پیسے خرچ ہورہے ہیں، اس کے اوپر صبر کرنا، یہ سب نفس کے اوپر گزر رہی ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اس محبت نے نفس کو اندھا کردیا، ان تمام چیزوں سے اندھا کردیا اور انسان وہ کر گزرتا ہے۔

شیریں فرہاد والا واقعہ جو ہے ناں، وہ پہاڑ کو جو کھودا تھا، دریا بنایا تھا، ظاہر ہے مطلب وہ پھر ایسا ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے اگر محبت کسی کے ساتھ اتنی کرا دی جائے کہ وہ بالکل نفس کی بات ایک طرف پھینک دے کہ تو کہاں ہے؟ تجھے کون پوچھتا ہے؟ ہاں جی! یہ اس کو جذب کہتے ہیں، اتنی محبت کو جذب کہتے ہیں، یہ کسی اور چیز کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور اللہ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، اگر اللہ کے ساتھ ہوجائے تو یہ جذب ہے مطلوب اور اس کے ذریعہ سے انسان اپنے نفس کو گھیر سکتا ہے۔ اب یہ جذب بڑا powerful ہے، لیکن اس کے اندر ایک عیب ہے، یہ دائمی نہیں ہے، یہ دائمی نہیں ہے، یہ وقتی ہے، بس جیسے غصہ ہوتا ہے ناں انسان کو، وقتی طور پہ آجاتا ہے پھر بعد میں ٹھنڈا ہوجاتا ہے، اس طرح کسی کو کوئی بیان سن کے جوش آگیا، مطلب کوئی تیز بیان کرنے والا ہے اور یہ آدمی سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوگیا اور سارا کچھ دے دے، بعد میں پشیمان ہوگیا، یہ میں نے کیا کیا، تو مطلب ہے یہ وقتی ہے، جذبہ وقتی ہے۔ تو یہ جذب جو ہوتا ہے، وقتی ہوتا ہے۔ اب اگر وقتی ہے تو اس کا کیا کرو؟ اس کا فوراً فائدہ اٹھاؤ، فوراً فائدہ اٹھانے کا کیا مطلب ہے؟ اپنے نفس کا علاج کرو، نفس کا جب علاج ہوگا تو وہ permanent ہے، اگر نفس کا اس دوران میں علاج ہوا تو یہ permanent ہے، بس پھر یہی ہے۔ اس وجہ سے جذب کے جو احوال ہیں، اس کو ہم استقامت پہ محمول نہیں کرتے، لیکن نفس کے جو احوال ہیں، وہ استقامت پر محمول کرتے ہیں۔ استقامت کا لفظ کس سے نکلا ہے؟ مقام سے نکلا ہے یعنی کسی مقام پر establish ہوجانا، اس کو استقامت کہتے ہیں اور یہی مقامات ہوتے ہیں سلوک کے مقامات، مقام توبہ، مقام انابت، مقام ریاضت، مقام قناعت، یہ سب مقامات ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ استقامت کا تعلق مقامات کے ساتھ ہے، establishment کے ساتھ ہے، کوئی چیز establish ہوجائے، پھر وہ واپس نہ ہو، تو بس یہی بنیاد ہے۔ تو اسی کو سلوک کہتے ہیں، establishment process کو، مقامات کو طے کرنے کے process کو سلوک کہتے ہیں۔ کیونکہ سلوک ویسے راستہ چلنے کو کہتے ہیں، milestones ہیں، اس میں آپ گزر رہے ہیں، تو آپ راستہ طے کررہے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگیا کہ ہم لوگ سلوک طے کرسکتے ہیں جذب کی بنیاد پر، لیکن سلوک طے کرنے کا راستہ جذب کا طریقہ نہیں ہے، جذب سے ہم لیتے ہیں Initial force، لیکن پھر بعد میں اصل کام تو وہ جو نفس کی اصلاح کی چیزیں ہیں، وہی کرنی ہوتی ہیں، اس سے وہ establish ہوتا ہے۔ تو اس میں ریاضت اور اس میں مجاہدہ اور اس میں یہ تمام چیزیں مطلب وہ آتی ہیں، وہ پھر مشائخ ان سے گزرواتے ہیں۔ اب اگر کوئی جذب حاصل کرلے اور پھر بعد میں چھوڑ دے اور اس سے وہ فائدہ حاصل نہ کرلے، تو بس ایسا ہے جیسے آپ نے لوہا کسی چیز کے لئے گرم کرلیا اور اس سے کوئی چیز بنانا چاہتا ہے اور وہ ویسے ٹھنڈا ہوگیا، تو بس پھر کیا ہوگیا؟ ضائع ہوگیا، محنت ضائع ہوگئی ساری۔ تو اس وجہ سے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ تو ایک تو یہ بات ہوگئی کہ جذب جو دل سے تعلق رکھتا ہے، اس کو ہم نے استعمال کیا نفس کی اصلاح کے لئے، عقل جو دماغ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، اس کو ہم نے جذب کے لئے استعمال کیا، گویا کہ پہلا stage ہمارا عقل کے استعمال کا ہے۔ اب فرق صرف یہ ہے کہ عقل ہر جگہ استعمال کرنی ہوتی ہے، مثلاً کسی کی اصلاح نہ بھی ہوئی ہو، پھر بھی وہ عقل استعمال کرسکتا ہے اور پھونک پھونک کے قدم رکھے اور وہ کرے جو ٹھیک ہو اور وہ نہ کرے جو غلط ہو، محنت تو اس میں زیادہ کرنی پڑے گی، کیونکہ عقل بار بار استعمال کرنی پڑتی ہے، قوتِ ارادی بار بار استعمال کرنی پڑتی ہے، ارادہ کا تعلق۔ ہاں جی! تو یہ اخیار کا طریقہ ہے، یہ اخیار کا طریقہ ہے یعنی ہر چیز میں عقل کو استعمال کرو اور وہ جو مقامات ہیں، وہ طے نہ کرو، یہ اخیار کا طریقہ ہے۔ لیکن ابرار کا طریقہ کیا ہے؟ وہ کسی شیخ کے ہاتھ پر بیعت ہوکر باقاعدہ ان مقامات کو طے کرا دیتے ہیں جذب کے ذریعہ سے، تو وہ establish ہوجاتا ہے، پھر آپ کو یعنی بغیر اس کے بار بار قوتِ ارادی کے آپ کا وہ کام چلتا رہتا ہے، صحیح ہورہا ہوتا ہے، تو یہ مطلب ابرار کا طریقہ زیادہ مستقل ہے، استقامت والا طریقہ ہے۔ ہاں! البتہ شطاریہ کا طریقہ special ہے، وہ یہ ہے کہ کسی شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہوجائے کہ وہ کسی حال میں اس کو چھوڑ نہ سکے، تو وہ گویا کہ ایک دائمی جذب والی بات ہے، ہاں جی! ایسی صورت میں وہ ما شاء اللہ! جلدی جلدی ترقی کرے گا، وہ سارے مقامات جلدی جلدی اس کے طے ہوں گے اور نتیجتاً وہ سب سے آگے جلدی جلدی نکل جائے گا۔ تو وہ لوگ بڑے rare ہیں، کم ہیں، لیکن بہرحال زیادہ لوگ جو ہیں، یہ ابرار والے ہیں کہ باقاعدہ کسی شیخ سے بیعت کرکے باقاعدہ محنت کریں، قوتِ ارادی کے ذریعہ سے اپنے شیخ کی بات مانیں، تو اسی طریقہ سے ان شاء اللہ العزیز! ہماری اصلاح ہوگی۔

اللہ جل شانہٗ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ مطلب جو ہے ناں، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کوئی بھی ایسے کام ہمارے نہ ہونے دے، جس سے اللہ پاک ناراض ہو۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم - جمعہ بیان