کامیابی کے تین اصول: استاد، والدین اور شیخ کا احترام

(یہ درس منظوم مثنوی مورخہ 16 اپریل 2024 سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان مثنوی روم کی روشنی میں واضح کرتا ہے کہ عام انسان کے خیالات نفسانی خواہشات کا نتیجہ ہوتے ہیں، جبکہ اولیاء اللہ کے خیالات (مکاشفات) حقیقت کا عکس اور علومِ الٰہیہ کے فیوض ہوتے ہیں۔ بادشاہ اور پراسرار مہمان کی حکایت کے ذریعے سمجھایا گیا ہے کہ دنیاوی واقعات، جیسے لونڈی کا عشق، اکثر کسی بڑے روحانی مقصد، یعنی اللہ کے کسی ولی سے ملاقات، کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ بیان کا مرکزی نکتہ "ادب" کی اہمیت ہے، جس کے تین بنیادی اصول وضع کیے گئے ہیں: والدین کا ادب دنیاوی زندگی میں آسودگی لاتا ہے، استاد کا ادب علم میں برکت دیتا ہے، اور شیخ (روحانی رہنما) کا ادب انسان کی عاقبت سنوارتا ہے۔ قصوں اور مثالوں سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ان ذرائع کی بے ادبی روحانی اور علمی فیض کے دروازے بند کر دیتی ہے۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

معزز خواتین و حضرات! آج منگل ہے اور منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی شریف کا جو اردو منظوم ترجمہ ہے، اس کا درس ہوا کرتا ہے۔ اور اس میں آج ان شاء اللہ دفتر اول کی حکایت نمبر 3۔

18

جیسے نیستی کی مثال اک خیال ہے کل جہاں بھی خیال کی اک مثال ہے

19

صلح جنگ بھی باہمی خیال اک فخر شان و ننگ شان بھی خیال اک

20

وہ خیالات جو ہیں دامِ اولیاء ہیں یہ مہرویانِ بستانِ خدا

مطلب: اوپر کے دو شعروں میں جو خیال کے بے بنیاد اور نا چیز ہونے کا ذکر تھا۔ اب اس سے یہ استدراک کیا ہے کہ اولیاء اللہ کے خیالات کا یہ حال نہیں۔ بلکہ وہ ٹھیک اور ایک صحیح اصلیت پر مبنی ہوتے ہیں جن کو اصطلاحِ تصوف میں مراقبات و مکاشفات کہتے ہیں۔

تشریح:

ایک عام آدمی کا خیال اس کی نفسانیت کی وجہ سے ہے اور اولیاء اللہ کے جو خیال ہیں، وہ روحانیت کی وجہ سے ہیں، تو دونوں ایک جیسے کیسے ہوسکتے ہیں؟ اگرچہ دونوں ایک ہی طرح برآمد ہورہے ہیں، لیکن دونوں کی base الگ الگ ہیں۔

اور جوں جوں یہ خیالات ترقی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دلبستگی و شیفتگی بڑھتی جاتی ہے۔ اس لیے وہ گویا اولیاء کے لیے دام ہیں۔ دوسرے مصرعہ میں ان کے صحیح اور محمود ہونے کا ذکر ہے کہ وہ خیالات محض فرضی و وہمی نہیں بلکہ وہ علومِ متکثرہ الٰہیہ کا عکس ہیں جو خدا کے باغِ علم کے حسین نونہال ہیں۔ چونکہ بفحوائے "اِنَّ اللہَ جَمِیْلٌ" اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سب جمیل ہیں اور علم بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس اعتبار سے ان علوم کو "مہ روئے" یعنی خوبرو کہا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ خیالات علومِ الٰہیہ کے فیوض ہیں۔ دنیا داروں اور جاہلوں اور کمالات کے جھوٹے مدعیوں کے خیالات کی طرح شیطانی وسوسے نہیں ہیں۔

تشریح:

یعنی ہم ان لوگوں کے خیالات کو عام چیزیں نہ سمجھ لیں، وہ بظاہر تو خیال نظر آئے گا، لیکن اُدھر سے تو ۔ بھئی! خیال تو چلو اندر کی بات ہے، گفت کی بات، گفت؛ زبان سے باہر آنے والے الفاظ، اس کے بارے میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

گفتہ او گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود

جو ان کا کہنا ہے، وہ عبد اللہ کا کہنا ہے، اللہ کے بندے کا کہنا ہے، لیکن اصل میں وہ اللہ پاک کا کہنا ہے۔ اللہ پاک بندے سے کہلواتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے کہلواتا ہے، تو جو بندے سے اللہ تعالیٰ کہلواتا ہے اس کی بات اور ہے اور وہ جو انسان کا نفس کہلواتا ہے اس کی بات اور ہے۔ دیکھو! حدیثِ نفس، وسوسہ اور شرح صدر؛ یہ تینوں دل پہ ہوتے ہیں، لیکن مجھے بتاؤ! کیا تینوں ایک ہیں؟ تینوں ایک نہیں ہیں۔ شرح صدر پہ بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں، شرح صدر پہ بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں فقہی اور تمام چیزوں کے، اس پہ فیصلے ہوتے ہیں اور جو حدیثِ نفس ہے، اس کی پروا نہیں کرنی ہوتی، وسوسے کی پروا نہیں کرنی ہوتی، تو کیا بات ہے؟ تو یہ سارے ایک جیسے نہیں ہیں۔

21

جو خیال کہ خواب میں شاہ کے آیا رخ میں اس مہماں کے پایا گیا

مطلب: یہ کہ بادشاہ بھی اولیاء میں سے تھا۔ اس کے خیالات بھی حقیقتِ اصلیہ کا عکس تھے۔ چنانچہ خواب میں پیر مرد نے آنے والے مہمان کے جو اوصاف بیان کئے تھے وہ ٹھیک اس مہمان کے چہرے میں مشاہدہ کر لیے۔

22

ہوتی ظاہر ہے ولی میں حق کا نور گر بصیرت سے نہ ہو دل تیرا دور

تشریح:

حضرت ایک شعر فرماتے تھے تھانوی رحمۃ اللہ علیہ:

مرد حقانی کی پیشانی کا نور

چھپ نہیں سکتا ہے پیشِ ذی شعور

مرد حقانی جو ہوتا ہے اس کا جو نور ہے، وہ باشعور لوگوں کو نظر آجاتا ہے، وہ نظر آجاتا ہے۔ بے شک وہ اس کو چھپائے بھی، تو نہیں چھپ سکتا، وہ ان کو آثار سے ظاہر ہوجاتا ہے، ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ تو یہاں پر بھی یہی بات ہے:

22

ہوتی ظاہر ہے ولی میں حق کا نور گر بصیرت سے نہ ہو دل تیرا دور

مطلب: بادشاہ کو مہمان کی شناخت کیا مشکل تھی جب کہ اہلِ دل ولی کو اس کے غیبی امتیازات سے پہچان سکتے ہیں۔

23

تو ولی حق جو ظاہر ہوگیا دور سے گویا کہ بس وہ نور تھا

24

اپنے دربانوں کو چھوڑ کے آگے شاہ ان کے استقبال کے واسطے آگیا

مطلب: ایک سلطان کی سلطانی فقر کے سامنے جھکتی ہے۔

25

ضیف ِ غیبی کا یوں استقبال کیا جیسے شکر پھول کے ساتھ گھل مل گیا

تشریح:

یعنی جو غیب سے مہمان کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، مطلب مہمان جو تھا وہ ضیفِ غیبی نہیں تھا، وہ تو اُدھر ہی کا تھا، لیکن اس کے لئے اشارہ کہاں سے کیا گیا تھا؟ غیب سے کیا گیا تھا۔

اپنے غیبی مہمان کا جب استقبال کیا (تو اس سے پیار کے ساتھ یوں لپٹ گیا) گویا وہ شکر کی طرح گلاب کے پھول کے ساتھ گھل مل گیا۔

26

معرفت کے دونوں ہی تیراک تھے جانیں انکی تھیں سلی بس بے سئیے

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ:

قربِ جسمانی پہ ہے ان کے تعلق کو ملال

قربِ حق روحانی سے ہے دل و یک جاں دونوں

27

ایک لب تشنہ تھا گویا دوسرا آب ایک مست مخمور تھا دوسرا شراب

تشریح:

ایک پیاسا تھا اور دوسرا پانی تھا۔

28

شاہ بولا تو ہی تھا معشوق مرا لونڈی اس کا ہی بس ذریعہ تھا

تشریح:

اصل میں اللہ پاک نے تجھ سے ملانا تھا، لونڈی تو اس کا ایک ذریعہ ہے۔ کیا بات کی ہے! اصل میں تو تجھے پانا تھا، لونڈی تو ایک ذریعہ ہے۔ اب دیکھیں! میں آپ کو بتاؤں اپنے حال کے مطابق، ہم گئے اسلامیہ کالج پشاور میں ایڈمیشن لینے۔ کس چیز کا؟ ایف ایس سی کرنے کا، وہاں اللہ پاک نے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ملا دیا۔ اب دیکھو! اصل مقصود کیا تھا؟ حضرت کے ساتھ ملانا تھا، ذریعہ اسلامیہ کالج بن گیا۔ اگر اسلامیہ کالج میں ہم ایڈمیشن نہ لیتے، تو اس سے محروم ہوجاتے، بظاہر تو ایسا لگتا ہے۔ تو اس طرح واسطے اور ذرائع جو ہوتے ہیں، وہ نظر آتے ہیں، لیکن اس میں مقصود کوئی اور چیز ہوتی ہے۔ کیونکہ دیکھیں! اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انتظامات ہوتے ہیں، وہ تکوینی انداز میں ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو تو خواب نہیں آتا کہ خواب میں بتا دیا کہ تم فلاں کے ساتھ مل لو، اللہ پاک نے اپنا ایک نظام رکھا ہوا ہے تکوینی نظام، تو تکوینی نظام کے ذریعہ سے حالات آگے پیچھے ہوتے ہیں اور ما شاء اللہ! ان کا کام بن جاتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک بالکل دور از کار کوئی شخص جس کے ساتھ ملاقات کی کوئی توقع ہی نہیں ہوتی، سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا، اس کے لئے بھی ذرائع بن جاتے ہیں اور آپ اس کے ساتھ مل لیں گے۔ مطلب اس میں ایسی بات نہیں ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہوتا ہے کہ جن کو جن کے ذریعہ سے دلوانا ہوتا ہے، ان کے ساتھ ان کو ملا دیا جاتا ہے اور پھر ان سے (ان کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔) البتہ pick والی بات اپنی الگ ہوتی ہے، طلب ہو تو ان کو پھر اپنا مطلوب مل جاتا ہے، طلب جب ہو۔ کیونکہ حالات سب پہ آتے ہیں، لیکن اگر وہ طالب نہیں ہے تو مطلوب کو پہچانے گا نہیں، مطلوب کو پائے گا نہیں، لیکن اگر طالب ہوگا تو پھر مطلوب جیسے ہی اس کو نظر آئے گا، جیسے یہاں پر بادشاہ طالب تھا، تو مطلوب آگیا۔ تو یہی تو کہتا ہے کہ لونڈی تو بس ایک ذریعہ تھا، وہ تو مجھے تیرے پاس لانے کے لئے ایک دام تھا، جس کے ذریعہ سے میں نے تجھے پا لیا۔

مطلب: کام سے مراد غیبی مہمان کی زیارت۔ یعنی اللہ نے عشقِ کنیزک کو آپ کی زیارت کا سبب بنا دیا یا کام سے مراد کنیزک کی شفا یابی۔ اس لحاظ سے بادشاہ کی مراد یہ ہوگی کہ لونڈی کو معشوقہ بنانے سے میں اس کی بیماری پر مضطرب ہوا۔ شفا کے لیے دعا کی اور قبولیتِ دعا سے آپ کی تشریف آوری لونڈی کی شفا کا باعث ہو گئی۔ بس یہی کام اقتضائے حکمت تھا۔ ورنہ حقیقتًا وہ میری معشوقہ نہ تھی بلکہ آپ ہی کا مجھے عشق تھا۔

29

من مرادِ تو و تو معشوقِ ما واسطے تیرے میں ہوں اب خادم کھڑا

مطلب: اس شعر سے اہلِ کمالات کی خدمت و اطاعت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے جو وسیلۂ مراداتِ کونین ہے۔

تشریح:

اللہ تعالیٰ کی سنتِ عادیہ ہے کہ جس ذریعہ سے نوازتے ہیں، اس ذریعہ کی قدر کرواتے ہیں، یہ اس کا کام ہے، یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ جس ذریعہ سے دلواتے ہیں، اس ذریعہ کی قدر کرواتے ہیں۔ ماں باپ کے ذریعہ سے جان دلواتے ہیں، تو اس کی قدر بھی کرواتے ہیں، اس کو اپنے ساتھ ملا دیا۔ اسی طرح استاد کو ذریعہ بنایا علم کا، تو اس کی قدر کرواتے ہیں۔ ایک واقعہ ہے، ایک مشہور عالم ہیں، ان کے بہت سارے شاگرد تھے، ظاہر ہے کہ مشہور علماء کے شاگرد بہت سارے ہوتے ہیں، لوگ آتے ہیں ان کے پیچھے خود، تو ظاہر ہے کہ جس علاقہ میں بھی جاتے، تو ان کے شاگرد ادھر پائے جاتے، شاگردوں کو بھی جب پتا چل جاتا تو وہ امڈ آتے۔ ان کا ایک بڑا محبوب شاگرد تھا دورانِ مطالعہ، اُدھر پہنچے اس کے علاقہ میں، تو باقی سب لوگ آگئے تھے، وہ نہیں پہنچے تھے۔ انہوں نے پوچھا: بھئی! وہ کدھر ہے؟ بتایا کہ وہ اپنے والدین کی خدمت چونکہ آج کل کررہے ہیں، اس کی وجہ سے مصروف رہتے ہیں، اس وجہ سے نہیں آسکے۔ اب چونکہ وہ اللہ والے تھے، تو اس کا برا نہیں مانا، اس کا برا نہیں مانا لیکن ساتھ ساتھ ایک بات بھی بتا دی، عجیب بات ہے! ظاہر ہے کہ تاریخی بات ہے۔ میں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں پڑھا ہے۔ فرمایا: ما شاء اللہ، ما شاء اللہ، ما شاء اللہ! لمبی عمر پائیں گے، لمبی عمر پائیں گے، لمبی عمر پائیں گے اور بہت سکھ کی زندگی گزاریں گے۔ یہ تو اس کی تعریف کی، کیونکہ والدین کی خدمت کررہے تھے۔ لیکن (کہا کہ) اس کے علم سے کوئی فائدہ کسی کو نہیں پہنچے گا۔ اخیر میں یہ بات آہستہ tone میں کہی کہ ’’لیکن اس کے علم سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا‘‘۔ وہی شخص؛ ایک سو بیس سال اس نے عمر پائی اور بڑی زبردست شاہانہ زندگی گزاری، لیکن اس کا فیض یہ ہے جو میں آپ کو قصہ بتا رہا ہوں، ان کے فیض کا پتا ہی نہیں۔ علم اب اس کے ساتھ ہی رہ گیا۔ یہ ہے بات۔ چونکہ اس نے اپنے استاد کا خیال نہیں رکھا، تو اس کے علم سے فائدہ نہیں پہنچا لوگوں کو، اور اپنے والدین کا خیال رکھا، تو چونکہ جب والدین کی کوئی خدمت کرتا ہے، تو اللہ پاک ان پہ پھر اچھے حالات دیتے ہیں زندگی کے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی زندگی بڑی اچھی ہوتی ہے۔ جیسے مالداری ہوتی ہے یا صحت ہوتی ہے یا اس طرح جو بھی زندگی کی چیزیں ہوتی ہیں، وہ ان کو زیادہ ملتی ہیں۔ اور جو والدین کی نافرمانی کرتے ہیں ان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ یہ دیکھا ہے، ہم نے خود دیکھا ہے، جو والدین کی نافرمانی کرتے ہیں، ان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور جو استاد کی بے ادبی کرتے ہیں، ان کا علم رخصت ہوجاتا ہے، الفاظ رہ جاتے ہیں علم رخصت ہوجاتا ہے، علم سے وہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ یہ بات ہے۔ اور ایسے عجیب حالات ہوجاتے ہیں کہ واقعتاً وہ بے شک کوشش بھی کرلیں، لیکن علم کا فیض نہیں پہنچتا۔ اور بعض لوگوں کا فیض الحمد للہ! اتنا آگے کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ جیسے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ؛ ان کی تفسیر معارف القرآن، اور پتا نہیں ان کی اولاد سے جو لوگوں کو فیض ملا ہے، یہ اللہ کی طرف سے ہے، برکت ہے، اللہ پاک دے رہے ہیں، کتنے علماء ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک سے تو ایسا نہیں ہوتا اتنا زیادہ، تو یہ برکت ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کے علم میں برکت دیتے ہیں، کسی کی صحت میں برکت دیتے ہیں، کسی کی طاقت میں برکت دیتے ہیں، کسی کی اولاد میں برکت دیتے ہیں، تو ہے تو برکت ہی، تو یہ بات ہے کہ حضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے، بڑی لمبی عمر پائے گا اور بڑی اچھی زندگی گزارے گا، لیکن اخیر میں ساتھ ہی آہستہ سے کہہ دیا: لیکن اس کے علم سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ بات ہے۔ تو اس طرح تین categories ہیں: علم اور حالاتِ زندگی اور عاقبت۔ جو اپنے استاد کی قدر کرتے ہیں، ان کے علم میں ترقی ہوتی ہے۔ جو والدین کی قدر کرتے ہیں ان کے حالاتِ زندگی اچھے ہوتے ہیں۔ جو مشائخ کی قدر کرتے ہیں ان کی عاقبت اچھی ہوتی ہے۔ اور اس کا عکس بھی ہوتا ہے یعنی اگر نہیں کرتے، تو پھر کیا ہوتا ہے؟ عکس بھی ہوتا ہے۔ حضرت مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بزرگ جو گزرے ہیں، یہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے لاڈلے مرید تھے۔ شاگرد بھی تھے، لاڈلے مرید بھی تھے، بہت لاڈلے تھے۔ انہوں نے یہی بات کسی سے سنی کہ جو شیخ کی گستاخی کرے، بے ادبی کرے، تو عاقبت خراب ہوجاتی ہے، تو انہوں نے حضرت کی خدمت میں آنا چھوڑ دیا، کیونکہ فرمایا کہ میں تو بے ادب ہوں، ایسا نہ ہو کہ میری عاقبت خراب ہوجائے۔ اب حضرت کو خیال ہوا کہ بھئی! عزیر گل کیوں نہیں آتا، پوچھا لوگوں سے کہ عزیر گل کدھر ہے؟ گھر میں۔ تو کیوں نہیں آتا؟ نہیں پتا۔ جاؤ، بلا لو اس کو۔ اچھا! بلا لیا، کیوں عزیر گل! کیوں نہیں آتے ہو؟ حضرت کا تو اپنا انداز تھا، فرمایا: میں اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتا۔ کہا: کیا مطلب؟ انہوں نے کہا: میں نے سنا ہے کہ جو شیخ کی بے ادبی کرتا ہے، تو اس کی عاقبت خراب ہوجاتی ہے اور آپ کو میرا پتا ہے کہ میں کیسا ہوں۔ تو میں اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتا، اس لئے نہیں آرہا تھا۔ حضرت نے فرمایا: اور اگر شیخ چاہے کہ تو اس طرح ہو؟ فرمایا: پھر تو کروں گا۔ فرمایا: پھر کرتے ہو۔ یہ بات تھی ان کی۔ اب ظاہر ہے ہر ایک تو ایک جیسے نہیں ہوتے تو اللہ نے ایک کو (ایک جیسا نہیں بنایا)۔ وہ ایک دفعہ تشریف لے جارہے تھے سندھ میں، حضرت شاہ احمد امروٹی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس غالباً، یہ بہت جلالی بزرگ تھے، بہت جلالی بزرگ تھے، شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ ان سے ملنے کے لئے جارہے تھے، کچھ اور ساتھی بھی تھے، مولانا عزیر گل صاحب بھی تھے۔ طالبعلم تھے اس وقت۔ وہ جارہے تھے، تو حضرت راستے پہ ان کو سمجھا رہے تھے کہ دیکھو! ہمارے ساتھ جو کچھ کرتے ہو، کرتے رہو، لیکن وہاں کچھ نہیں کرنا، وہ بہت جلالی ہیں، نقصان ہوجائے گا۔ راستہ بھر نصیحت فرماتے رہے۔ کہا: بالکل ٹھیک ہے، بالکل خیال رکھوں گا۔ وہاں پہنچ گئے، حضرت شاہ احمد امروٹی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے فرمایا: طالب! گھڑا بھر دو۔ مٹکا لٹکا ہوا تھا، گھڑا بھر دو پانی کا۔ تو انہوں نے مٹکا اٹھایا اور صحت بھی بڑی اچھی تھی۔ اور پانی گھڑے میں ڈال دیا۔ کہا: اور ڈالو، تو انہوں نے اور ڈالا۔ انہوں نے کہا: اور ڈالو، حضرت نے مٹکا پورا چھوڑ دیا۔ وہ سارا پانی بہہ گیا۔ یہ دیکھ کر حضرت کا چہرہ سرخ ہوگیا مطلب شاہ احمد امروٹی رحمۃ اللہ علیہ کا اور شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا چہرہ زرد ہوگیا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا، اب کیا کریں۔ تھوڑی دیر حضرت کا چہرہ سرخ تھا، پھر یکدم normal ہوگیا۔ (فرمایا) سید ہو ناں، جاؤ بیٹھ جاؤ۔ حضرت کے اوپر بات کھل گئی ہوگی، کشف ہوچکا ہوگا۔ (فرمایا) سید ہو ناں، جاؤ بیٹھ جاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ اب اس قسم کی بات ہر ایک کو تو نہیں کرسکتے۔ نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن میں اللہ پاک نے کچھ خصوصی باتیں رکھی ہوتی ہیں، لیکن جو ظاہری قانون ہے وہ ہر ایک کے لئے تو ایسا نہیں ہوتا۔ عمومی قانون یہ ہے کہ بہت خیال رکھنا چاہئے، بہت خیال رکھنا چاہئے، بہت خیال رکھنا چاہئے۔ معاملہ چونکہ بہت اوپر کے level کا ہے، وہ خود کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن وہ حضرت جو فرماتے تھے کہ ہم کچھ بھی نہیں، لیکن جن کے ہاتھ میں ہم ہاتھ دلواتے ہیں، وہ اللہ کے بڑے پیارے لوگ ہوتے ہیں، ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ایسا ہے۔ یہ حضرت نے ایک بات فرمائی تھی۔ بہرحال یہاں پر بھی یہی بات ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ



کامیابی کے تین اصول: استاد، والدین اور شیخ کا احترام - درس اردو مثنوی شریف - دوسرا دور