اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہماری خانقاہ کے معمولات میں سے ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات شریف کا درس ہوتا ہے مکتوب نمبر 244 سے اس کی ابتداء کی جائے گی، ان شاء اللہ۔
مکتوب نمبر 244
ملا محمد صالح کولابی کی طرف صادر فرمایا۔ ان کے خط کے جواب میں جس میں انہوں نے اپنے احوال کی خرابی بیان کی تھی۔
میرے سعادت مند بھائی خواجہ محمد صالح کا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں انہوں نے اپنی خرابئ احوال کے بارے میں لکھا تھا، امید ہے کہ اس سے بھی زیادہ خراب ہوں گے، اور اس خرابی کی نہایت اس مکتوب میں جو انہی ایام میں (فقیرنے اپنے) فرزندِ ارشد کے نام لکھا ہے، درج ہو چکی ہے وہاں سے معلوم کر لیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا وہاں چند روز قیام کرنا دوستوں کی جمعیت (اطمینان) کا باعث ہے تو بہتر ہے کہ وہاں چند روز اور قیام کریں، یہ فقیر بھی دہلی کے سفر کا ارادہ رکھتا ہے، اکثر استخارے اور توجہات اس سفر کا باعث ہیں۔ اس مقام کو میرے فرزند ارشد (خواجہ محمد صادق) کو عنایت فرما دیا ہے اور ان کی ولایت میں داخل کر دیا گیا ہے۔ فقیر اس جگہ مسافروں کی طرح اُن کی ولایت میں بیٹھا ہوا ہے۔ جو دوست طریقۂ عالیہ میں داخل ہوگئے ہیں بالخصوص میر سید مرتضےٰ، مولانا شکر اللہ اور میر سید نظام بہت دعاؤں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ فرزندی خواجہ محمد صادق اور سب بھائی آپ کو اور سب دوستوں کو سلام و دعا کہتے ہیں۔
تشریح: خرابیٔ احوال۔ خرابیٔ احوال سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنے اندر کی ساری گندگیاں اور نقصانات ہیں، وہ نظر آنے لگیں۔ جہالت سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو عالم نہ سمجھے۔ یہ مطلب نہیں کہ واقعتا وہ خرابی ہوتی ہے لیکن خرابی نظر آتی ہے۔ بہت سے لوگ جو اچھے ٹاپ کرنے والے Students ہوتے ہیں، وہ اپنی Study پر بڑے بدگمان ہوتے ہیں اور جب کوئی پوچھتا ہے تو کہتے ہیں میری تو تیاری نہیں ہے، ایسا ہے، ایسا ہے، پھر بعد میں ٹاپ کر جاتے ہیں۔ فرسٹ ائیر Engineering میں میرا ایک Viva خراب ہوگیا تھا، اگرچہ خراب تو نہیں ہوا تھا، لیکن مجھے خراب نظر آ رہا تھا، تو میں نے کافی افسوس کا اظہار کیا، تو میرے ایک Fourth year کے Student Senior تھے، وہ مجھے کہنے لگے "آپ اتنے نمبر لے لیں گے"۔ انہوں نے کافی زیادہ نمبر بتائے۔ میں نے کہا "یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں"؟ کہنے لگے "میں نے اس طرح جتنے لوگوں کو بھی روتے ہوئے دیکھا ان کے نمبر اتنے آئے ہیں" مطلب یہ کہ جو لوگ اپنی پوزیشن کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کم نہ ہو تو روتے رہتے ہیں، اور جن کو پروا نہیں ہوتی، وہ ہنستے رہتے ہیں۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں "دوست به دې وژاړي، دښمن به دې وخندوي"۔ مقصد یہ ہے کہ جو تیرا دوست ہے وہ تیری خرابی تجھے بتائے گا تو پریشان ہوجائے گا، تو کہے گا یہ کیا۔ اور جو تیرا دشمن ہوگا وہ اس پر خوش ہوگا کہ تیرے ساتھ اس طرح ہو ہے اور آپ کو طفل تسلی دے گا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، باقی لوگ اس سے بھی خراب ہیں، آپ تو بہت اچھے ہیں۔ Engineering میں ہمارا ایک کلاس فیلو Class Fellow تھا وہ بھی اچھا سٹوڈنٹ Student تھا، یعنی اچھے نمبر لینے والا، اپنے گروپ میں میرے نمبر بھی اچھے ہوتے تھے، اس نے مجھے ناولوں پر لگانا چاہا کہ میں ناولوں میں لگ جاؤں اور پیچھے رہ جاؤں، مجھے اس کی نیت کا پتا چل گیا، تو میں نے اس کو ہمت دلائی کہ یہ کام تو آپ اچھا کر رہے ہیں میرے لئے۔ مقصود یہ تھا کہ اس کو اتنی زد پہنچائی جائے کہ یہ آئندہ کسی کو اس طرح نقصان نہ پہنچائے۔ میں نے کہا زبردست! اگر آپ بتا رہے ہیں تو پھر تو واقعی یہ ناول دیکھنے چاہئیں۔
وہ شخص جس نے کہا تھا کہ میں آپ کے لئے دو ناول لاتا ہوں، جاسوسی ناول جو ہوتے تھے وہ ان دنوں لائبریری سے ایک آنہ کرائے پر ملتے تھے، ایک آنہ روزانہ اس پر لگتا تھا۔ اس نے وہاں سے دو ناول لے لئے اور مجھے دے دئیے، میں نے الماری میں رکھ دیے کیونکہ میں نے تو دیکھنے ہی نہیں تھے۔ اب وہ روز مجھ سے پوچھتا کہ آپ نے پڑھ لیے میں کہتا ابھی پڑھتا ہوں ابھی پڑھتا ہوں۔ اسی طرح تقریباً ہفتہ گزار دیا تو ہفتے میں چودہ آنے اس پر آگئے۔ ان دنوں تو کتاب کی قیمت اتنی ہوتی تھی۔ آخر وہ تنگ ہوگیا اور کہنے لگا کہ اگر آپ نہیں پڑھنا چاہتے تو مجھے دے دیں، میں نے کہا لے لو اور الماری سے نکال کر اس کو دے دیے۔ پھر میں نے اس کے حوصلے کو کم کرنے کے لئے کہا "بھئ مجھے تو ناول وغیرہ کا اتنا تجربہ ہے کہ میں اگر اس کا پہلا پیج پڑھوں تو اس کا آخری پیج بتا سکتا ہوں کہ اس میں کیا ہوا ہے، یہ میرے لئے نئی چیز نہیں ہے، لیکن میں نے سوچا کہ چلو آپ ہمت کر لیں، اگر مجھے اس طرف لا سکتے ہیں تو لائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے جو لوگ ہوتے ہیں وہ ایسا بھی کرتے ہیں، یہ تو ایک competition کی وجہ سے کر رہا تھا، لیکن واقعتاً جو آپ کے دشمن ہوں پتا نہیں آپ کے لئے کتنے گڑھے کھودیں گے، پتا نہیں آپ کو کتنے طریقوں سے خراب کریں گے۔ جیسے ہمارے نام نہاد دوست امریکہ اور برطانیہ ہیں یہ سب ہمارے ساتھ کس لئے دوستی کرتے ہیں، ہمیں فضول چیزوں پر لگاتے ہیں، سائنس کی کانفرنس ایسی چیز کی کروائیں گے جس کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ صرف اس لیے کہ ہمارے اپنے تیار کیے ہوئے، ہمارے پیسوں سے تیار کیے ہوئے Engineer اور Scientist ان کے لئے استعمال ہوجائیں۔ یہ لوگ صرف اس کی کانفرنس کا خرچہ یا اس کے آنے جانے کا خرچہ Arrange کریں گے اور پھر اس کو اپنا کام دے دیں گے، اور وہ پاکستان میں بیٹھ کر ان کا کام کرے گا، یہ بھی خوش کہ ان کا پیپر پبلش ہوگا اور وہ بھی خوش کہ ان کا کام ہو رہا ہے۔ پاکستان کا اس میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پاکستان کو جن چیزوں کی ضرورت ہوگی ان کی طرف وہ نہیں آئیں گے، کیونکہ ہر ملک کی اپنی requirements ہوتی ہیں اور اپنی priorities ہیں، وہ اس کے حساب سے چلتے ہیں۔ وہ لوگ ہمیں فنڈز دیتے ہیں اور ایسی چیزوں کے لئے فنڈز دیتے ہیں جس میں ان کا اپنا فائدہ ہو۔ پھر اس میں اپنے Experts بھیجتے ہیں اور فنڈز دوسرے ہاتھ سے اپنی طرف drain کر لیتے ہیں یعنی آپ کو خوش رکھتے ہیں۔ تو اگر اپنی خرابی خود نظر آجائے تو یہ بہت بڑی بات ہے، خود احتسابی بہت بڑی بات ہے اگر ہم لوگ اپنی خرابی کو خود جان لیں۔ تو جس کو خود خرابی نظر آجائے اس کی reading بالکل چینج ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو اچھا نہیں کہتے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کا جو مقام ہے، میرے خیال میں آج کل جو بھی دیندار لوگ ہیں ان پر کھلا ہوا ہے کہ ان کا کیا مقام ہے۔ حتیٰ کہ ان کے دشمن بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے، لیکن وہ اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں: ناکارہ، گناہگار، خطا کار، سیاہ کار اور بہت کچھ۔ ظاہر ہے اس بزرگی کے مقام پر ہم ان سے جھوٹ کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ کہ جھوٹ بول رہے ہیں؟ جھوٹ تو نہیں بول رہے بالکل سچ بول رہے ہیں، وہ اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھ رہے ہیں۔ صرف اتنی ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنے آپ کو ایسا کیوں سمجھ رہے ہیں، کیونکہ ہمارا معیار بہت تھوڑا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کا معیار دو فٹ چڑھنا ہے تو جب وہ تین فٹ چڑھ جائے گا تو خوشی سے پھولے نہیں سمائے گا کہ واہ جی واہ کیا بات ہے۔ اور جس کا معیار تین کلو میٹر اوپر چڑھنا ہوگا تو وہ آدھے کلو میٹر پر بھی کہے گا ابھی تو میں بہت دور ہوں۔ تو یہ اصل میں معیار معیار کی بات ہے۔ جس کا معیار بلند ہوجاتا ہے، اس کو اپنے اندر خرابی نظر آتی ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طریقے میں یا ذوق میں یہ بات تھی کہ کبھی رکنا نہیں، کبھی اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھنا اور مسلسل ترقی میں رہنا۔ اس لئے ہمتیں جوان رکھتے تھے کہ ہمت توڑو نہیں۔ اور جو اِن کو یہ فرمایا گیا کہ "امید ہے کہ اس سے بھی زیادہ خراب ہوں گے" اپنے دوست کے بارے میں بھی کوئی ایسے لکھتا ہے؟ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بڑی مثال دی ہے، فرمایا: "یہاں پر اس زندگی میں ہمیں کوئی چیز Direct مل ہی نہیں سکتی، یہاں تو عکس ہی ملے گا یعنی Reflection۔ جب Reflection ملتی ہے تو وہ ایسے ہے کہ جیسے دریا کے کنارے کوئی درخت ہو اس پر کوئی چڑھے گا تو دریا میں نیچے اترتا ہوا نظر آئے گا اور کوئی نیچے اترے گا تو اوپر چڑھتا ہوا نظر آئے گا۔ بالکل اسی طرح یہاں جو اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہو، اصل میں وہ خراب ہے، خرابی کی طرف جا رہا ہے اور جو اپنے آپ کو اچھا نہیں سمجھ رہا تو وہ اچھائی کی طرف جا رہا ہے۔ حضرت نے اس کو ایک اور عنوان سے بھی بتایا ہے کہ جیسے صبح صادق اور صبح کاذب۔ صبح کاذب اسے کہتے ہیں کہ جب انسان پر عروج کی کیفیت ہوتی ہے اور عروج کی حالت میں وہ کرامات، اچھے اچھے خواب اور اس طرح کی چیزوں میں ہوتا ہے، بڑے مزے میں ہوتا ہے۔ تو آدمی سمجھتا ہے میں تو بڑا بزرگ بن گیا ہوں۔ پھر جس وقت وہ نزول پر آتا ہے تو کہتا ہے یہ بھی گیا، یہ بھی گیا، کیونکہ وہ اس بزرگی کا عادی ہوچکا ہے تو اب وہ اپنے آپ کو اس بزرگی کے ساتھ Compare کرتا ہے، حالانکہ اب یہ صحیح ہوگیا۔ میں پہلے نماز پڑھتا تھا تو بہت Alert رہتا تھا کہ کوئی خیال میرا آگے پیچھے نہ ہو۔ اس خیال کے ساتھ کرنا یہ بہت مشکل کام ہے تو میں جب نماز پڑھ لیتا تو بڑا تھکا ہوتا، کافی پریشان ہوتا، اس وقت میں حضرت کو بتاتا رہتا تھا اور پوچھتا تھا کہ حضرت مجھے تھکاوٹ دور کرنے کا طریقہ بتائیں۔ ایک دن میں نے حضرت کو لکھا کہ حضرت اب میں Relax ہوگیا ہوں، میں نے اپنے آپ کو Relax چھوڑ دیا ہے۔ بس اتنا تصور کرتا ہوں کہ میں اللہ کی طرف سیدھا کھڑا ہوں اور اس پر زیادہ نہیں سوچتا، بس اتنا ہی کر سکتا ہوں۔ حضرت خوش ہوئے اور فرمایا: الحمد للہ اب صحیح ہوگیا۔ تو جو انسان اپنے آپ کوغلط معیار پر لے جا رہا ہوگا تو اس کے لئے پھر تھکاوٹ بھی ہوگی اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے ذہن میں بزرگی کا ایک معیار ہوگا، جب اس کو وہ معیار نہیں ملے گا تو بد ظنی ہوگی، پہلے بد ظنی شیخ پر ہوگی کہ یہ مجھے توجہ نہیں دے رہا، میں خط لکھ رہا ہوں، میں خواب سنا رہا ہوں، میں اس کو یہ کہہ رہا ہوں اور یہ پروا ہی نہیں کر رہا۔ حالانکہ شیخ کی نظر میں ہوتا ہے کہ اس کو ذرا سی بھی توجہ اور دی تو یہ زیادہ بگڑ جائے گا، چونکہ یہ اس وقت بزرگی کی لائن پر ہے تو شیخ اس کو Ignore کرتا جاتا ہے۔ تو پہلی بد ظنی ان کی شیخ پر ہوتی ہے کہ دیکھو میں کیا رہا ہوں اور یہ کیا کررہا ہے۔ پھر بعد میں یہ بات اللہ بچائے، اللہ بچائے، خدا تک پہنچ سکتی ہے، آدمی یہ سمجھتا ہے کہ گویا میں جتنا کر رہا ہوں اس کا مجھے اتنا صلہ نہیں مل رہا۔ یہ کتنی گندی سوچ ہے اور اس کے مقابلے میں یہ سوچ کہ آپ بے شک جتنا کر سکتے ہیں کر لیں لیکن یہ سمجھیں کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہا ہے، اس پر آپ بڑے خوش ہوں کہ اللہ کا شکر ہے اللہ پاک نے یہ بھی دیا، یہ بھی دیا۔ یہ کیسی اچھی سوچ ہے۔ اب اپنے آپ کو اس سوچ پر Transfer کرنا یہ اصل کام ہے۔ اس کے لئے خرابی ہونا لازمی ہے۔ حضرت نے فرمایا "امید ہے کہ حالات اور زیادہ خراب ہونگے" اب حالات تو خراب تھے لیکن دیکھیے حضرت نے کیا فرمایا ان کے اوپر کتنا اعتماد ہے۔ فرمایا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا وہاں چند روز کا قیام اور دوستوں کی جمیعت اطمینان کا باعث ہے تو بہتر ہے کہ وہاں چند روز قیام کر لیں۔ گویا کہ اپنے لوگوں کو ان کی طرف بھیج رہے ہیں تا کہ ان کو فائدہ ہوجائے، ان کو فائدے کے قابل سمجھ رہے ہیں۔ تو جو لوگ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں یہ ہرے بھرے باغ کی طرح ہوتے ہیں اور جن کو کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا، یہ پکی فصل کی طرح ہوتے ہیں۔ تو جو ہرا بھرا باغ ہوتا ہے وہ تو ظاہر ہے کسی بھی کام کا نہیں ہوتا، اس کو کاٹ دیں تو جانور کے چارے کے کام آئے گا، اور تو کچھ نہیں ہوسکتا اس کے ساتھ۔ اور جو خشک نظر آتا ہے جس کے اندر بظاہر کوئی پسندیدگی نہیں ہوتی، صرف ایک معنوی پسندیدگی ہوتی ہے کہ اس میں گندم ہے اور اس میں یہ ہے اور اس میں یہ ہے، تو اس میں وہی چیز ہوتی ہے، ورنہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ جیسے بچے سے اگر پوچھا جائے یہ باغ اچھا ہے یا یہ اچھا ہے؟ تو بچہ کیا کہے گا؟ وہ جو سبز لہلہاتا ہوا باغ ہوگا اسی کو ہی اچھا کہے گا کہ یہ بہت زبردست ہے۔ تو اسی طریقے سے جو طفلِ طریقت ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو اس حالت میں زیادہ اچھا سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ کسی قابل نہیں ہوتے اور جو بلوغ کو پہنچ چکے ہوتے ہیں وہ اس کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، اس کو اپنے لئے حجاب سمجھتے ہیں، جتنے حجابات ان کے سامنے آ رہے ہیں پریشان ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، کیا کروں، ان سے کیسے بچوں۔ تو اپنے حالات کو خراب سمجھتے ہیں۔ ”یہ فقیر بھی دہلی کے سفر کا ارادہ رکھتا ہے، اکثر استخارات و توجہات سفر کا باعث ہے اور اس مقام کو میرے فرزند ارشد خواجہ محمد صادق کو عنایت فرمایا گیا ہے ان کی ولایت میں داخل کردیا گیا ہے‘‘۔ یہ اصل میں بزرگوں کے ہاں پہلے ہوا کرتا تھا کہ کچھ علاقے تقسیم ہوتے تھے کہ یہ علاقہ ان کا ہے یعنی وہ اس علاقے کا قطب ہے، تو اب جن لوگوں کو بھی فائدہ دینا ہوتا تھا تو ان کے پاس جاتے تھے۔ حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ حضرت پیر صابر کلیر رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ خواجہ شمس الدین کے شیخ نے انہیں پانی پت بھیج دیا جہاں پر شیخ شرف الدین بو علی قلندر رحمۃ اللہ علیہ تب پہلے سے موجود تھے۔ جب ان کو بھی وہاں بھیج دیا گیا جہاں بو علی شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ تھے تو جب یہ وہاں پہنچ گئے تو بو شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بھرا ہوا پانی کا جام یعنی کٹورا اپنے خادم کے ذریعے سے بھجوایا تو حضرت نے ایک پھول کاٹ کر اس کے اوپر احتیاط کے ساتھ رکھ دیا اور کہا یہ لے جاؤ۔ تو لوگ حیران ہوگئے کہ یہ کیا بات ہے مطلب یہ کیا Communication ہے، اس نے جام بھجوایا اور اس نے اوپر پھول رکھ دیا۔ جب پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے تو فرمایا: اس نے مجھے کہا کہ یہ تو میری ولایت سے لبا لب بھرا ہوا ہے تو آپ اس میں کیا کرنے آگئے ہیں، کسی اور جگہ چلے جائیں۔ تو حضرت نے ان کو بتا دیا کہ میں پھول کی طرح یہاں رہوں گا آپ کی ولایت کے اندر میرا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور آپ کو بالکل disturb نہیں کروں گا۔ گویا کہ یہ Communication ہوگیا۔
مکتوب نمبر 245
سید انبیا کی طرف ان کے سوالات کے جواب میں تحریر فرمایا۔ (سید انبیا کوئی نام ہوگا۔)
حمد و صلوٰۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد واضح ہو کہ مکتوب شریف جو قاصد کے ہمراہ ارسال کیا تھا موصول ہو کر خوشی کا باعث ہوا۔ آپ نے لکھا تھا کہ ذکرِ نفی و اثبات اکیس عدد تک پہنچایا ہے لیکن اس پر مداومت نہیں رہتی، اور کبھی کبھی غیبت (ناغہ) بھی ہوجاتی ہے۔ اے محبت کے نشان والے! ذکر کرنے میں ظاہرًا شرائط میں سے کوئی نہ کوئی شرط مفقود ہے جس کی وجہ سے اس عدد پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بالمشافہ معلوم کر لیں گے۔
دوسرے آپ نے اس قول کے معنی دریافت کئے تھے اور لکھا تھا کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کام کو تکمیل کر کے فرمایا: "ذِکْرُ الِّلسَانِ لَقْلَقَۃٌ وَّ ذِکْرُ القَلبِ وَسْوَسَۃٌ وَّ ذِکْرُ الرُّوْحِ شِرْکٌ وَّ ذِکْرُ السِرِّ کُفْرٌ" ترجمہ: ” زبان کا ذکر بکواس ہے اور قلب کا ذکر وسوسہ، روح کا ذکر شرک اور سر کا ذکر کفر ہے“۔
جواب:
آپ سمجھ لیں کہ جب ’’ذکر‘‘ ذاکر و مذکور کی خبر دینے والا ہے، خواہ کوئی ذکر ہو اور اس کا اصل مقصود ذاکر اور ذکر کا مذکور میں فنا ہونا ہے اس لئے نتیجے کے طور پر ذکر کو لقلقہ، وسوسہ، شرک اور کفر فرمایا ہے۔
تشریح:
اصل میں منتہیوں کی Terminology اور ہوتی ہے او ر مبتدیوں کی Terminology اور ہوتی ہے۔ مبتدی ہوں گے تو بتائیں گے کہ بھئی ذکر کرو۔ ان کو پہلے لسانی ذکر کا بتایا جائے گا اس کے بعد ان کو دل کا ذکر بتایا جائے گا پھر روح کا ذکر بتایا جائے گا۔ اس کو طریقہ بتائیں گے کیونکہ یہ اس کا راستہ ہے، اس کے بغیر وہ چل نہیں سکتا۔ لیکن منتہی کو آپ اس پر لے آئیں گے تو اس کا تو ہم نے راستہ روک دیا، کیونکہ ابھی وہ اصل مقصود تک تو پہنچا ہی نہیں کیونکہ ابھی ذرائع میں ہے۔ کیا خیال ہے آپ کو کتنی ہی خوبصورت گاڑیوں میں راولپنڈی سے لاہور کے درمیان گھمایا جائے اور آپ لاہور نہ پہنچیں تو کیا خیال ہے مزہ آئے گا؟ اگرچہ بڑی اچھی گاڑیاں ہوں مرسیڈیز بھی ہوں، لیکن آپ لاہور نہیں پہنچ پا رہے تو کیا خیال ہے کتنا مزہ آئے گا؟ تھوڑا عرصہ لگے گا پھر آپ کہیں گے کیا مصیبت ہے لاہور آ ہی نہیں رہا۔ تو اب گاڑی طلب تو ہے، گاڑی ذریعہ ہے، لیکن گاڑی مقصود نہیں ہے، تو اب اگر کسی نے اس کو مقصود بنا لیا تو اسے رکنے کا کہیں گے۔ اسی طریقے سے ذکر تو گاڑی ہے وہ آپ کو پہنچا رہی ہے لیکن اگر آپ اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچے، اسی میں گم ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ تو اس کے لئے اس قسم کے خطرناک الفاظ بتائے جاتے ہیں جیسے محدثین راویوں کے بارے میں بتاتے تھے کہ یہ کذاب ہے، دجال ہے وغیرہ وغیرہ، تو وہ مجبور تھے کیونکہ ظاہر ہے انہوں نے راستہ دینا تھا، سمجھانا تھا۔ اسی طرح ان حضرات نے بھی سمجھانا ہوتا ہے اور یہ کرنا ہوتا ہے۔
بہرچہ از دوست دامانی کفرآں حرف و چہ ایماں بہرچہ از راہ دور افتی چہ زشت آں حرف و چہ زیبا
ترجمہ:
جُدا جو حق سے کر دے ایسا ایمان کفر بن جائے
تجھے گمراہ جو کر دے وہ خوبی عیب کہلائے
لیکن فنا و بقا کے حاصل ہونے سے پہلے ذکر کے لئے ان ناموں کے عارض ہونے کو جاننا ضروری ہے، کیونکہ بقا کے حاصل ہونے کے بعد ذاکر کا وجود اور ذکر کا ثبوت اس سے مذموم نہیں ہے۔ اگر اس کے معنی سمجھنے میں کچھ اخفا رہ گیا ہو تو بالمشافہ دریافت کرنے پر معلوم ہوجائے گا کیونکہ تحریر کا حوصلہ (گنجائش) کم ہے۔
تشریح:
یعنی پہلے فنا ہے، استہلاک ہے، فنائیت ہے، آپ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھیں گے پھر بعد میں آپ کو دوبارہ واپس لوٹا دیا جائے گا، پھر آپ اپنے آپ کو سمجھیں گے، لیکن اللہ کا بندہ سمجھیں گے، پہلے آپ کی اپنے اوپر نظر ہوگی اللہ سے غفلت کی وجہ سے، اور اب آپ کی اپنے اوپر نظر ہوگی اللہ تعالیٰ کے لئے۔ یہ فرق ہے۔ تو بقا کے بعد پھر یہی چیزیں دوبارہ واپس آجاتی ہیں، پھر مسئلہ نہیں ہوتا، کیونکہ پھر وہ رکاوٹ نہیں رہتی، پھر تو مقصود مل جاتا ہے جیسے آپ کو کام دے دیا گیا ہے بس ٹھیک ہے جی گاڑی لے کر لوگوں کو لاؤ، تو آپ روزانہ اُدھر سے آیا کریں گے اور جایا کریں گے، کیونکہ آپ کی ڈیوٹی ہوگی۔ ظاہر ہے اس میں تو حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ خود ہی نہ پہنچیں تو پھر؟ تو اس لحاظ سے گویا کہ جو کاملین ہیں ان کے لئے ان چیزوں کا وجود نقصان کی بات نہیں ہے، بلکہ اس میں کام کی بات ہے، یعنی اس سے کام لیا جاتا ہے۔
لہٰذا اس قول کو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت دینا خصوصًا کام پورا ہونے کے بعد مستحسن نہیں ہے۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ نے لکھا تھا کہ شیخ ابو سعید ابو الخیر نے بو علی سینا سے مقصود (حق جل و علا) پر دلیل طلب کی تھی اور اس نے جواب میں لکھا تھا کہ ’’کفرِ حقیقی میں آ جا اور اسلامِ مجازی سے نکل جا‘‘۔ اور شیخ ابو سعید نے عین القضاۃ کو لکھا کہ ’’اگر ایک لاکھ سال تک عبادت کرتا تو مجھے وہ فائدہ حاصل نہ ہوتا جو بو علی سینا کے اس کلمہ سے حاصل ہوا‘‘۔ عین القضاۃ نے جواب میں لکھا کہ ’’اگر آپ سمجھ لیتے تو اس بے چارے کی طرح ملعون اور ملامت زدہ ہوجاتے‘‘۔
جواب:
جاننا چاہیے کہ کفرِ حقیقی سے مراد دوئی کا دور کرنا ہے،
تشریح: مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ ہی انسان کے سامنے رہیں اور کوئی چیز نہ ہو۔ اور کثرت کا کلی طور پر چُھپ جانا ہے جو کہ فنا کا مقام ہے اور اس کفرِ حقیقی کے اوپر اسلامِ حقیقی کا مقام ہے جو بقا کا محل ہے۔ کفرِ حقیقی کو اسلامِ حقیقی سے نسبت دینا سرا سر نقص و عیب ہے۔ یہ ابنِ سینا کی کوتاہِ نظری ہے کہ اس نے اسلامِ حقیقی کی طرف رہنمائی نہیں کی اور حقیقت میں اس کو کفرِ حقیقی سے بھی کچھ نصیب نہیں ہوا، لہٰذا اس نے صرف علم و تقلید کی وجہ سے کہہ دیا اور لکھ دیا بلکہ اس کو تو اسلامِ مجازی سے بھی پورا حصہ حاصل نہیں ہوا اور وہ فلسفے کی مو شگافیوں میں الجھ کر رہ گیا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس تکفیر کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ اس کے فلسفی اصول اسلام کے اصول کے مخالف ہیں۔ دوسرے یہ کہ شیخ ابو سعید، عین القضاۃ کے زمانے سے بہت پہلے ہوئے ہیں اور ان کو کیسے لکھتے۔ (یعنی وہ بہت پہلے گزرے ہیں، یعنی یہ واقعہ ہی صحیح نہیں ہوا۔) اگر کوئی شبہ باقی رہ گیا ہو تو بوقتِ ملاقات دریافت فرما لیں۔ و السلام۔
شیخ ابو سعید ابو الخیر کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 11 کے حاشیے پر ملاحظہ ہو۔
شیخ الرئیس بو علی سینا مسلم مفکرین اور حکما میں سے ہیں۔ سنہ 370ھ بمطابق 980ء میں بخارا کے قریب افشنا کے مقام پر پیدا ہوئے اور سنہ 428ھ بمطابق 1038ء میں ہمدان میں وفات پائی۔ مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔ تصانیف کی تعداد کافی ہے، ان میں "شفا" فلسفہ کا انسائیکلو پیڈیا اور "قانون" خاص طور پر مشہور ہیں۔
حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ طوس کے رہنے والے اور جامع شریعت و طریقت تھے۔ تصوف میں شیخ ابوعلی فارمدی سے نسبت حاصل تھی۔ مذہبًا شافعی تھے۔ کثیر التصانیف ہیں، آپ کی تفسیر قرآن "یاقوت التاویل" چالیس جلدوں میں ہے۔ علاوہ ازیں "احیاء العلوم" اور "کیمیائے سعادت" نہایت بلند پایہ تصانیف ہیں۔ ولادت سنہ 450ھ اور وفات 14 جمادی الاخریٰ سنہ 505ھ کو بغداد میں ہوئی۔
تشریح: واقعتاً بعض چیزیں مشہور ہوجاتی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حضرت کو بڑے مشکل کام کرنے پڑے۔ مشکل کام اس لئے کرنے پڑے کہ اس وقت تک knowledge اتنی confuseہوگئی تھی، لوگوں نے اس کو اتنا گڑبڑ کر دیا تھا کہ اس میں بڑے بڑے نام آ جاتے تھے کہ وہ یہ کہتا ہے، وہ یہ کہتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے۔ حضرت بالکل تلوار کی طرح کاٹتے تھے کہ یہ بھی ٹھیک نہیں ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے، جیسے محدثین کرتے ہیں، اس طریقے سے کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اس طرح نہ کرتے تو مسئلہ حل نہیں ہوتا تھا، لوگوں کے ذہنوں سے چیزیں نہیں نکلتی تھیں، اس لیے انہوں نے بہت سختی کے ساتھ ان چیزوں کا رد فرمایا۔ ورنہ اکبر نے جتنا نقصان پہنچایا تھا کبھی اس کی تلافی نہیں ہوسکتی تھی۔ اس نے بہت گند مچایا ہوا تھا، ان کے دربار میں اس قسم کے فلسفی اور غلط لوگ آتے تھے اور ٹاپ کے ذہین ہوتے تھے ابو الفضل اور فیضی کی طرح۔ ان لوگوں نے اسلام کی بہت ساری چیزوں کو بگاڑ کے پیش کیا تھا اکبر کے سامنے، اور پھر غلط صوفیوں کا اس وقت بڑا رواج تھا۔ ان کے جو بڑے سجادے تھے وہ اس پر بیٹھے ہوتے تھے، لوگ ان کی قدر کرتے تھے، ان کے بارے میں کوئی بات سنتا بھی نہیں تھا۔ تو ایسی صورت میں کسی کے بارے میں اس قسم کی بات کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ لیکن حضرت کو یہ کرنا پڑا کیونکہ مجبوری تھی۔ تو بعد میں جس وقت حالات بہتر ہوگئے تو پھر حضرت نے کافی چیزوں کو سمیٹ لیا۔ جس وقت ہم نے مکتوبات شریف پر کام کیا تو ہمیں کسی کے ذریعے سے معلوم ہوا کہ اس کو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، فرما دیا گیا کہ آپ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات کا درس کرنے سے پہلے ان کے حالات زندگی پڑھیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ کیسے حالات زندگی تھے۔ پھر میں نے کتاب نیٹ سے download کرلی تھی، ابوالحسن ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ جلد چہارم جو حضرت کے بارے میں ہے، وہ download کر کے میں نے اس کو پڑھا۔ اس سے سارے حالات میرے سامنے آگئے پھر مجھے پتا چلا کہ حضرت نے اتنی سخت باتیں کیوں کیں، ورنہ صحیح بات ہے مجھے بھی بڑی حیرت ہوتی تھی کہ حضرت یہ کیا باتیں عرض کر رہے ہیں، بڑے بڑے نام ہیں درمیان میں، جیسے بوعلی سینا بڑا نام ہے، چھوٹا نام تو نہیں ہے، اسی طرح اور لوگ ہیں۔
چونکہ اس بیان میں کچھ چیزیں ایسی آئی ہیں جو یوں کہہ سکتے ہیں کہ خرابی کو جیسے صحت بتایا گیا تو اس طریقے سے جو جہالت ہے وہ علم کی انتہا ہے، یعنی معرفت ہے، کیونکہ انسان کو پتا چلتا ہے کہ میں بے علم ہوں اس کے لئے بھی علم کی ضرورت ہے تو چونکہ اس مضمون کی غزل یہاں پر ہوچکی ہے تو اس کو بھی ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:
ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
پھنسے ہوئے تھے جال میں اپنی شان کے ہر دم
اس کا بھرم کھلا اس کی عظمت کو پا گئے
ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
خوش فہمیوں کے جال سے نکلے تو اس کے بعد
دیکھا جو اس کو شان عبدیت کو پا گئے
ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے
قرآن ایک کتاب تھی رکھی تھی جو پڑھی
دل سے تو اس پیغام محبت کو پاگئے
ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے
حج گو کہ چند کاموں کے کرنے کا تھا اک نام
دیکھا تو اس شاہراہِ محبت کو پا گئے
ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے
ٹوٹے ہوئے الفاظ میں شاعری جو کی شبیرؔ
اُس کے فضل سے خوب اُس کی نصرت کو پا گئے
ہم فکر آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ