صراطِ مستقیم: صحابہ، اہلِ بیت اور امہات المؤمنین، سب سے محبت کا نام

یہ بیان 7 جولائی 2024 کے خواتین بیان سے لیا گیا ہے

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھمحضرت شیخ محمد آفاق قریشی صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان اسلام کے بنیادی اصول اعتدال کو مرکز بناتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ "صراطِ مستقیم" ہر قسم کی انتہا پسندی سے پاک راستہ ہے، جو کتاب اللہ اور رجال اللہ (نیک بندوں) دونوں کی پیروی سے ملتا ہے۔ اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے صحابہ کرام کے تینوں گروہوں—عام صحابہ، اہلِ بیت، اور امہات المؤمنین—کا احترام لازمی قرار دیا گیا ہے اور ان میں تفریق کو گمراہی کہا ہے۔ بیان کا ایک بڑا حصہ یزید کے کردار پر اہل سنت کے معتدل مؤقف کی وضاحت پر مشتمل ہے، جہاں اسے اس کے جرائم (بشمول شہادتِ حسینؓ) کی وجہ سے فاسق تو کہا گیا ہے، مگر کافر قرار دینے سے گریز کیا گیا ہے۔ کسی بھی گروہِ صحابہ سے بغض رکھنا عقیدے کی خرابی ہے، جو تمام اعمال کو ضائع کر دیتی ہے۔ آخر میں، تینوں گروہوں کی شان میں نظمیں پیش کر کے یہ پیغام دیا گیا کہ نجات کا راستہ سب سے محبت اور اعتدال میں ہے۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۝ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ﴾

(الفاتحہ: 5-7)

وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: ’’اَللّٰهَ اَللّٰهَ فِيْ أَصْحَابِيْ، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِيْ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر: 3862)


وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: ’’خَيْرُ أُمَّتِيْ قَرْنِيْ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ‘‘

(مسلم، حدیث نمبر: 6472)

صَدَقَ اللهُ الْعَظِيْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُهُ النَّبِيُّ الْكَرِيْمُ۔

معزز خواتین وحضرات! اللہ جل شانہٗ نے اس پوری کائنات کو اعتدال پر پیدا فرمایا ہے اور ہمارے لئے جتنے بھی نظام ہیں، وہ سب اعتدال پر چلتے ہیں۔ blood pressure بڑھ جائے پھر بھی بیماری ہے، کم ہوجائے بیماری ہے، شوگر بڑھ جائے بیماری ہے، کم ہوجائے بیماری ہے۔ کوئی بہت سرخ ہوجائے تو بھی بیماری ہے، کوئی بہت سفید ہوجائے پھر بھی بیماری ہے، کوئی بہت کالا ہوجائے پھر بھی بیماری ہے۔ اگر بہت لمبا ہوجائے اچھا نہیں لگتا، کوئی بہت چھوٹا ہوجائے اچھا نہیں لگتا۔ الغرض اعتدال یہ بنیادی چیز ہے۔ تو افراط، تفریط یہ ہر چیز میں ہوسکتی ہے اور یہ اچھی چیز نہیں ہوتی۔ اس لئے اللہ جل شانہٗ نے ہمیں سورۃ فاتحہ کے اندر ہی ایک دعا کرنے کے لئے سکھائی ہے، جو کہ ہمارا ہر نماز کے اندر معمول ہے، ہر رکعت کے اندر معمول ہے، اتنی اہمیت اس کی ہے۔ تو وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صراطِ مستقیم کی ہدایت فرمائے۔ دوسری طرف شیطان جو ہے، یہ صراطِ مستقیم کا دشمن ہے، بلکہ اس نے کہا یہ تھا کہ میں ان کے سیدھے راستہ میں بیٹھ جاؤں گا یعنی سیدھے راستے پہ ہمیں نہیں ہونے دیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی افراط میں مبتلا ہوجاتا ہے، پھر بھی شیطان کے پیچھے چل رہا ہے اور اگر تفریط میں مبتلا ہوجائے، پھر بھی شیطان کے پیچھے چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مطلوب صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے صراطِ مستقیم، نہ کمی، نہ زیادتی، نہ افراط، نہ تفریط۔ پھر اس افراط، تفریط سے بچنے کے لئے اللہ جل شانہٗ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ اس کو کیسے حاصل کیا جائے۔ تو اس کے لئے دو بڑے sources ہیں کہ اس کے ذریعہ سے ہم بچ سکتے ہیں، ایک ہے رجال اللہ، جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:

﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۙ۬ۦ ۝ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (الفاتحہ: 6-7)

ترجمہ: ’’ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔

تو اس میں جو اللہ کے پسندیدہ اور انعام یافتہ لوگ ہیں، ان کے پیچھے تو چلنا ہے، ان کا طریقہ تو مانگنا ہے اور جن پر اللہ کا غصہ ہے، تو ان کے طریقہ سے بچنا ہے، ان کے طریقہ سے پناہ مانگنی ہے۔

اور ان مَغْضُوْبٌ عَلَیْهِمْ لوگوں نے جن لوگوں کو گمراہ کیا ہے، ظاہر ہے ان کے پیچھے بھی نہیں چلنا، کیونکہ وہ گمراہ ہوچکے ہیں، تو جو گمراہ ہوچکے ہیں، تو ان کے پیچھے جو جائے گا، وہ بھی گمراہ ہوجائے گا۔ اگرچہ جن پہ اللہ کا غصہ ہے، وہ زیادہ سخت نقصان میں ہیں، کیونکہ مسلوب الہدایت ہوجاتے ہیں کچھ لوگ، جیسے شیطان، جیسے یہ یہود ہیں، تو ان لوگوں نے اتنی گستاخیاں کی ہیں کہ اللہ پاک نے ان کو ہدایت کے میدان سے باہر کردیا۔ اور جو لوگ گمراہ ہیں، چونکہ وہ راستہ گم کرچکے ہیں، اگر کوئی راستہ ان کو صحیح بتا دے، تو اس کا امکان ہے کہ وہ راستے پہ آجائیں، بشرطیکہ وہ خود بھی راستے پہ آنا چاہتے ہوں، تبھی ہوگا۔ اس وجہ سے ان میں سے جن کو بھی تھوڑی سی طلب ہوئی سچائی کو پانے کی، تو ان کو اللہ پاک نے سچائی تک پہنچا دیا۔ تو یہ جو مَغْضُوْبٌ عَلَیْهِمْ ہیں، کمال کی بات یہ ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں لوگ یعنی وہی مسلوب الہدایت والی بات ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں، لیکن معمولی معمولی چیزوں کے لئے اتنے بڑے بڑے فیصلے کرلیتے ہیں، آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ میں تو (اللہ پاک معاف فرمائے) حیران ہوتا ہوں شیطان کی دیدہ دلیری پر کہ ہمارے لئے تو ایمان بالغیب ہے، وہ تو بالکل سامنے کی بات تھی، اس کے لئے تو ایمان بالغیب نہیں تھا، سب کچھ سامنے تھا، اللہ تعالیٰ سے بات کررہا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں کیسے ان کو سجدہ کرتا؟ میں ان سے اچھا ہوں

﴿قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الأعراف: 12)

ترجمہ: ’’وہ بولا: میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اس کو مٹی سے پیدا کیا‘‘۔

کتنی بڑی بات ہے، آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ یعنی دیکھو! اللہ جل شانہٗ کی عظمت، اللہ جل شانہٗ کی قوت، اللہ جل شانہٗ کی قدرت، یہ ساری چیزوں کو جانتے ہوئے ایسی بات کرنا، یہ واقعتاً ایک بہت بڑی جہالت ہے۔ تو اللہ پاک نے اس کو راندۂ درگاہ کردیا، تو پھر اس نے اللہ پاک سے مہلت مانگی، اللہ پاک نے مہلت دے دی، جب اللہ پاک نے مہلت دے دی تو اس نے کہا کہ اب میں ان کے سیدھے راستے میں بیٹھ جاؤں گا، دائیں طرف سے آؤں گا، بائیں طرف سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا اور تو ان میں بہت کم کو شکرگزار پائے گا، ہاں! مگر تیرے بعض چنے ہوئے لوگ، وہ میرے داؤ سے بچ جائیں گے۔ مجھ سے ایک دفعہ ایک صاحب بات کررہے تھے، تو میں نے کہا پتا بھی ہے کہ یہ چنے ہوئے لوگ کون سے ہیں؟ کہتے ہیں نہیں پتا، میں نے کہا پھر سورۃ شمس پڑھو، سورۃ شمس میں اللہ پاک نے سات قسمیں کھا کر جو اعلان فرمایا ہے:

﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا ۝ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا ۝ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 7-10)

ترجمہ: ’’اور انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

تو اب یہ جو لوگ ہیں، ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ جن کے لئے فرمایا گیا ہے، یہ چنے ہوئے لوگ ہیں، ان پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔ کیوں نہیں چلتا؟ کیونکہ نفس جب مطمئن ہوجائے، اور شیطان نفس ہی کو استعمال کرتا ہے، تو پھر کس ذریعہ سے کرے گا، اس کے پاس ذریعہ نہیں رہتا۔ اور شیطان کو بھی تو نفس ہی نے گمراہ کیا ہے، آخر اس کے پاس کون سا شیطان تھا؟ وہ تو نفس ہی کی وجہ سے گمراہ ہوا ہے۔ اس کا نفس موٹا تھا اور کہتا ہے کہ میں کیسے سجدہ کروں؟ تو اس کا مطلب ہے کہ نفس کی جو اصلاح ہے، یہ بنیادی چیز ہے۔ بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ افراط، تفریط سے بچنا بہت ضروری ہے۔ اب یہ جو میں نے مثالیں دی ہیں یہود و نصاریٰ کی، ان کی جو چھاپ ہے، وہ ہمارے اندر بھی آئی ہوئی ہے۔ ایک یہودی مسلمان ہوگیا تھا، تو ہمارے ساتھی نے فرمایا کہ اس نے ہمیں بتایا کہ جتنے فرقے ہمارے اندر تھے، وہ سارے کے سارے تمھارے اندر ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چھاپ آگئی ہے۔ اور اس کے سمجھنے کے لئے ایک چیز موجود ہے اور وہ کیا ہے؟ کہ آپ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ امتوں میں اکہتر فرقے یہود میں، پھر بہتر نصاریٰ میں اور پھر عنقریب ہی میری امت میں تہتر ہوجائیں گے۔ تو لگتا یہ ہے کہ اکہتر کے اکہتر بہتر میں آگئے تھے اور بہترواں صحیح تھا اس وقت یعنی صحیح عیسائی جو تھے، بہترواں وہی تھا۔ اور یہ بہتر کے بہتر پھر آگئے مسلمانوں کے اندر اور وہ تہترواں اصل ہے یعنی وہ ان چیزوں سے بچا ہوا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ سب کی چھاپ آگئی ہے۔ اب آپ دیکھ لیں کہ عیسائیوں کی طرح آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اولیاء اللہ کو خدائی کے درجہ تک پہنچا دیتے ہیں، ایسے لوگ ہیں۔ اور ایسے لوگ بھی ملیں گے، جو اولیاء اللہ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، جو پیغمبروں کے ساتھ بالکل عام لوگوں جیسا معاملہ کرتے ہیں، یہودیوں کے طرز پر، یہودی اس طرح کرتے تھے۔ تو دونوں طرف افراط، تفریط ہے، ایک طرف تفریط ہے، دوسری طرف افراط ہے، حالانکہ درمیان میں اصل چیز اعتدال والی ہے۔ کتاب اللہ ذریعہ ہے ہدایت کا۔ اللہ پاک نے اس کو ہدایت کا ذریعہ بنایا ہے۔

﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرہ: 2)

ترجمہ: ’’یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے‘‘۔

اور یہاں متقین جو ہیں، وہ عقیدے والے متقین اور عمل والے دونوں ہیں۔ کیا ہے:

﴿اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ۝ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 3-4)

ترجمہ: ’’جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں‘‘۔

یہ متقین ہیں، تو یہ جو متقین ہیں ان کے لئے ہدایت ہے، ان کے لئے پھر اللہ پاک نے مکمل اعلان فرمایا:

﴿اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (البقرۃ: 5)

ترجمہ: ’’یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

تو کتاب اللہ جو ہے یہ ہدایت کا بہت بڑا source ہے اور رجال اللہ جو ہیں، یہ ہدایت تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اس میں بھی افراط، تفریط ہے، کچھ لوگوں نے رجال اللہ کو پکڑا، کتاب اللہ کو چھوڑا، کچھ لوگوں نے کتاب اللہ کو پکڑا، رجال اللہ کو چھوڑا، دونوں صورتیں موجود ہیں یعنی جو رجال اللہ کو پکڑتے ہیں اور کتاب اللہ کو چھوڑتے ہیں، وہ یہ امامیہ اور اسماعیلی اور اس کے قسم کے جو لوگ ہیں، وہ کتاب اللہ کو تو touch بھی نہیں کرتے، کہتے ہیں بس امام جو کہے، بس وہ ٹھیک ہے۔ اور فاطمیین ایسے ہی تھے، جنہوں نے رجال اللہ کو پکڑا تھا اور کتاب اللہ کو چھوڑا تھا۔ اور جنہوں نے کتاب اللہ کو پکڑا، رجال اللہ کو چھوڑا، یہ خوارج تھے۔ ان کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ان کو آپ ایسا پائیں گے کہ اپنی عبادت ان کے سامنے ہیچ سمجھو گے۔ کن سے فرما رہے تھے؟ صحابہ کرام سے یعنی وہ اتنے عبادت گزار ہوں گے کہ آپ ان کے سامنے اپنی عبادت کو ہیچ سمجھو گے، لیکن ہدایت سے ایسے نکل جائیں گے، دین سے ایسے نکل جائیں گے، جیسے کہ شکار سے تیر نکل جاتا ہے۔ (صحیح بخاری: 6934) اور پھر بعد میں ثابت ہوگیا کہ کیا ہوا، نہروان کی جو جنگ ہوئی تھی تو خوارج کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کیا تھا، اس میں ساری چیزیں ظاہر ہوگئیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہر طرح کی افراط، تفریط سے بچنا ضروری ہے، عقائد کے لحاظ سے، اعمال کے لحاظ سے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ نوافل کو کچھ بھی نہیں سمجھتے اور کچھ لوگ نوافل پہ اتنا اہتمام کرتے ہیں کہ فرائض کی ان کے لئے اہمیت نہیں ہوتی، اس کی اتنی اہمیت نہیں، جتنی کہ نوافل کو دیتے ہیں۔ دونوں طرف عملی افراط، تفریط ہے۔ تو وہاں پر بھی ہمیں افراط، تفریط سے بچنا ہے۔ اب دیکھیں! واقعی انسان جب افراط، تفریط میں متبلا ہوجاتا ہے، تو اس کی عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے، اس کو اگر کوئی عقلی انداز میں سمجھاتا ہے، تو اس کو سمجھ نہیں آتی، حالانکہ باتیں بڑی موٹی ہوتی ہیں، اس میں ایسا ابہام نہیں ہوتا۔ اب دیکھیں! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہن اور جو صحابیات میں امھات المؤمنین ہیں، ان سب کی نسبت آپ ﷺ کے ساتھ ہے، تو آپ ﷺ نے ان کے بارے میں جو فرمایا، اصل میں ان کا مقام اس سے بنتا ہے۔ صحابہ کے بارے میں بھی بات فرمائی ہے، اہل بیت کے بارے میں بھی بات فرمائی ہے، امھات المؤمنین کے بارے میں بھی بات فرمائی ہے۔ اب اگر وہ باتیں جو اِن کے بارے میں فرمائی ہیں، وہ تو میں مانوں، اور اُن کے بارے میں جو فرمائی ہیں، وہ نہ مانوں، تو اس کو کس دلیل سے بات کی جائے گی، کیسی بات ہوگی، بھائی! source تو ایک ہی ہے ناں؟ آپ ﷺ ہی ہیں، آپ ﷺ نے جو اس کے بارے میں فرمایا، تو صحابہ کے بارے میں جو فرمایا وہ تو میں مانوں، اہل بیت کے بارے میں جو فرمایا وہ نہ مانوں، اس کو کیا کہیں گے پھر؟ یا امھات المؤمنین کے بارے میں جو فرمایا، اس کو نہ مانوں، کیا دلیل ہے اس بات کی؟ بس عقل ختم، انسان سمجھ نہیں سکتا۔ ورنہ صحیح بات ہے کہ آپ ﷺ نے ہی سب کی تربیت فرمائی، آپ ﷺ نے ہی ان کے مقامات کے بارے میں خبر دی اور آپ ﷺ ہی نے ان کی قدردانی کے لئے فرما دیا۔ اب جیسے صحابہ کے بارے میں یہ بات ہے: ’’اَللهَ اَللهَ فِيْ أَصْحَابِيْ‘‘ (سنن ترمذی: 3862) اے میرے امتیو! میرے صحابہ کے بارے میں تمھیں خدا کا واسطہ ہے۔ تھوڑا سا غور فرمائیں، ایک باپ اگر اس حد تک مجبوراً آجائے، اپنے بیٹے سے کہے کہ خدا کا واسطہ۔ تو وہ کیسا بیٹا ہوگا، تصور کرلیں کہ وہ بیٹا کیسا بیٹا ہوگا، جس کے لئے کسی ماں باپ کو ایسا کہنا پڑے۔ بہت خطرناک بات ہے، لیکن آپ ﷺ نے اس انداز میں بات فرمائی، تاکہ بالکل حجت تمام ہوجائے کہ اے میرے امتیو! تمھیں میرے صحابہ کے بارے میں خدا کا واسطہ، ان کو میرے بعد ملامت کا نشان نہ بناؤ، جو ان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں، وہ اصل میں میرے ساتھ محبت رکھتے ہیں اور جو ان کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں، وہ اصل میں میرے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر اس کے بعد، پھر اس کے بعد۔ تو اب یہ جو باتیں ہیں، یہ ہمارے لئے عمل کی ہیں کہ صحابہ کرام کو اللہ نے ذریعہ بنایا ہے دین کے نفاذ کا، ہر صورت میں دین کے نفاذ کا، مثبت کا بھی، منفی کا بھی۔ مثال کے طور پر اگر صحابہ سے بعض غلطیاں نہ ہوتیں، تو وہ چیزیں کیسے جاری ہوتیں اور پھر اس کے بعد ثبوت اس کا کدھر ملتا کہ آپ ﷺ نے اس پر عمل کیا ہے۔ حالانکہ دیکھیں! بعض چیزوں پہ آپ ﷺ نے عمل کیا، اس سے بھی لوگ انکار کررہے ہیں اور اگر نہ عمل ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ یہ قضا نمازوں کی جو بات میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ قضا نمازیں جو ہیں، کچھ لوگ انکار کرتے ہیں، کہتے ہیں قضا نماز نہیں ہے، بس رہ گئی تو توبہ ہے، استغفار ہی ہے اور کچھ نہیں کرسکتے، مطلب نماز میں انسان کوئی قضا نہیں کرسکتا۔ جب ان کو کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے باقاعدہ قضا جماعت کے ساتھ پڑھی ہے، کہتے ہیں وہ special case ہے۔ عجیب بات ہے بھائی! کون سا special case ہے، آپ کو کس نے کہا کہ special case ہے؟ بہرحال بات یہ ہے کہ دیکھو! ایک چیز موجود ہے، اس کے باوجود لوگ ایسا کرتے ہیں، تو اگر یہ باتیں نہ موجود ہوتیں، پھر کیا حالت ہوتی، پھر تو لوگ قرآن پاک کو باغیچۂ اطفال بنا لیتے، مطلب جو کرنا چاہتے، اس سے کردیتے۔ تو اللہ جل شانہٗ نے اس کا انتظام فرما دیا کہ صحابہ سے اس قسم کی غلطیاں کروائی گئیں ہیں اور پھر ان کو توبہ کی توفیق بھی ہوگئی اور اللہ پاک کی طرف سے ان کی بخشش کی بھی بات ہوگئی۔ وہ جو تین حضرات پیچھے رہ گئے تھے، تو ان کے ساتھ کیا ہوا، وہ ساری باتیں موجود ہیں، قرآن میں بھی موجود ہیں، احادیث شریفہ میں موجود ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تو آپ ﷺ نے ان حضرات کے ذریعے سے (بعض احکام کا نفاذ کرایا) گویا کہ اللہ پاک نے جو کام آپ ﷺ کے مثال سے ظاہر کرنا چاہا، وہ آپ ﷺ کا حصہ ہے، جو ازواج مطہرات کے ذریعہ سے ہونا چاہا، تو وہ اس کا حصہ ہے، جو عام صحابہ اور صحابیات کے ذریعہ سے ہے، وہ ان کا حصہ ہے اور جو اہل بیت کے ذریعہ سے کرنا تھا، وہ ان کا حصہ ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ہے، جو کہ شریعت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ تو بہرحال اس میں ہم لوگوں کو کیا کرنا ہے، اعتدال پہ رہنا ہے۔ اب دیکھیں! صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجعمین میں اگر ہم صرف صحابی کا نام لیتے، تو ان میں تینوں گروہ آجاتے، کیونکہ دیکھیں! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صحابی ہیں، لیکن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل بیت میں سے بھی ہیں، اسی طرح عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صحابیہ ہیں، زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا صحابیہ ہیں، حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صحابیہ ہیں، فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی صحابیہ، اس طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں، تو حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صحابی ہیں، تو ان کو صحابیت سے تو کوئی نہیں نکال سکتا۔ اب اگر میں صحابہ کا دفاع کررہا ہوں، اور ان پہ riot کررہا ہوں، تو یہ کون سا دفاع ہے صحابہ کا، یہ تو صحابہ کا دفاع نہیں ہوا، آپ نے صحابہ کے دفاع میں صحابہ کو hit کرلیا، یہ کون سا مسئلہ ہے۔ ایک صاحب تھے، عاشورہ کے دن میں جارہا تھا سرگودھا، مجھے ٹیلی فون آیا (اس وقت یہ موبائل آچکے تھے، تو موبائل پہ اس کا فون آیا) شبیر صاحب! آج عاشورہ ہے، اس میں میں کیا کروں؟ وہ کہتا تھا کہ جب آپ مجھے کچھ کہتے ہیں، تو مجھے عمل کی توفیق ہوجاتی ہے، اس وجہ سے آپ مجھے کچھ کہا کریں، تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ تین سو تیرہ مرتبہ درود شریف پڑھیں اور اس کا ایصال ثواب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کریں، یہ میں نے کہہ دیا اور میں تو خیر سرگودھا چلا گیا، واپسی پہ جب میں آگیا، تو مجھے کہتے ہیں کمال ہوگیا شاہ صاحب! میں نے کہا کیا ہوگیا؟ کہتے ہیں میرا دل امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے کھل گیا، میں نے کہا کیا تمھارا دل امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے بند تھا؟ مجھے بڑی حیرت ہوئی، میں نے کہا یہ کیا کہہ رہا ہے، یہ کیا بات ہے؟ کہتے ہیں ہم نے تو یزید زندہ باد کے نعرے بھی لگائے ہیں، یزید زندہ باد کے نعرے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ میں نے کہا چلو پھر ایک بات کرو ناں، آپ کا دل تو کھل ہی گیا ہے، تو چلو اس کو عقلی دلائل سے بھی مان لو، میں نے کہا کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں یا تابعی ہیں؟ کہتے ہیں صحابی ہیں، میں نے کہا یزید صحابی ہے یا تابعی ہے؟ کہتے ہیں تابعی ہے، تو میں نے کہا تابعی اور صحابی کے درمیان مقابلہ آجائے تو آپ کس کا ساتھ دو گے؟ کہتے: ہیں! میرا تو اس طرف خیال ہی نہیں گیا تھا، میں نے کہا یہی تو بات ہے، یہاں عقل فیل ہوجاتی ہے، بھائی! صاف بات ہے، صحابی ہیں۔ حدیث شریف کی کتابوں میں باقاعدہ دیکھ لو راویوں کی روایت کو، اگر آپ دیکھتے ہوں کہ سلسلہ کیسے بنتا ہے راویوں کا، تو فرماتے ہیں ’’عَنْ فُلَانٍ عَنْ فُلَانٍ عَنْ فُلَانٍ عَنْ فُلَانِ صَحَابِیٍّ، وَالصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عُدُوْلٌ‘‘ مطلب صحابی کے اوپر جب بات آجاتی، تو پھر اس میں ثقہ اور غیر ثقہ والی بات نہیں رہتی، پھر کیا بات ہوتی ہے، ’’وَالصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عُدُوْلٌ‘‘ کہ صحابہ سارے عادل ہیں، بس اس کے علاوہ دوسری بات نہیں ہے، ساری احادیث شریف کی کتابوں میں دیکھو۔ تو کیا مطلب؟ میں نے کہا کہ صحابہ کی عدالت تو طے شدہ ہے اور باقیوں کے بارے میں تو قیامت میں پتا چلے گا۔ تو اب ہم کیسے یہ کہہ سکیں کہ بھائی! یہ فلاں صحابی کے مقابلے میں فلاں صحیح ہے، بس clear ہوگیا معاملہ اس کا، اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کا شکر ہے۔ ایک ظالم نے کتاب لکھی ہے باقاعدہ ’’سیدنا یزید رحمۃ اللہ علیہ‘‘ ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ اس کا نام محمود عباسی ہے، اس کو اس کتاب پر تقریظ کے لئے کوئی نہیں ملا، تو مولوی عبدالحق بابائے اردو اس کے ساتھ اس کی دوستی ہوگئی، تو اس نے اس کو خط لکھا کہ میرے لئے ٹوپی بنوا دیں اور ایسا کرلیں اور ایسا کرلیں، تو وہ بطور تقریظ شامل کی ہے یعنی بابائے اردو مجھے خط لکھ رہا ہے، تو یہ بات ہے۔ اس کو تقریظ کے لئے کوئی نہیں ملا۔ ایسے عجیب لوگ ہیں، تو یہ بس تباہی ہے انسان کی کہ انسان بالکل جانور بن جائے تو پھر ایسی حرکتیں کرسکتا ہے، ورنہ دیکھو! حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو آپ ﷺ کے کلمات مبارکہ ہیں، ’’اہل سنت کی نظر میں اہل بیت کا مقام‘‘ اس میں وہ روایتیں موجود ہیں۔ تو اس میں جو لوگ یزید کے حق میں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں آپ ﷺ نے جو پیشن گوئی فرمائی تھی کہ جو لشکر قسطنطیہ پر حملہ کرے گا، وہ جنتی ہے، تو اس میں یزید بھی شامل تھا۔ تو مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث تھے بنوری ٹاؤن کے، بہت بڑے آدمی تھے، انہوں نے کتاب لکھی ’’شہیدِ کربلا پر افتراء‘‘ اس میں اس کا analysis کیا ہے، کیونکہ شیخ الحدیث ہیں، حدیث پہ کام ہی ان کا کام تھا، انہوں نے فرمایا کہ اگر پہلے والے گروپ کے بارے میں پیشن گوئی ہے، تو پہلے گروپ میں بھی شامل نہیں تھے اور جنہوں نے فتح کی ہے اس میں بھی شامل نہیں ہے۔ یا تو پہلے گروپ والا ہوتا کہ جس نے پہلے حملہ کیا ہے، تو وہی ہے، تو یہ اس میں بھی شامل نہیں اور جو فتح کرنے والے ہیں اس میں بھی شامل نہیں ہیں۔ تو کہاں سے آپ اس کو ثابت کررہے ہیں؟ اور انہوں نے یہاں تک ثابت کیا ہے کہ دیکھو! آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کام جو لوگ کریں، ان پہ اللہ پاک کی لعنت ہو، فرشتوں کی لعنت ہو اور یہ کام یزید کرچکا ہے۔ مثلاً دیکھو! اہل بیت کی حرمت زائل کرچکے ہیں، اس کے بارے میں تھا۔ خانہ کعبہ کی حرمت، اس پہ سنگ باری کی گئی، مدینہ منورہ کی حرمت، اس میں باقاعدہ صحابیات کی عصمت دری کی گئی اور صحابیات کے بچوں کی، بچیوں کی اور مسجد نبوی میں تین دن تک گھوڑے باندھے ہوئے تھے، واقعہ حرہ یہ بھی یزید کی کارفرمائی ہے۔ تو یہ سارے کام لعنت کے کام ہیں، جن پہ لعنت کی گئی ہے، اس وجہ سے مؤمنین کے اندر، مسلمانوں کے اندر دو گروہ ہیں علماء کے، ایک واضح لعنت کرتے ہیں ان چیزوں کی بنیاد پر، جن میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں اور بہت سارے حضرات شامل ہیں۔ اور ایک وہ ہے جو سکوت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں شیطان کے اوپر لعنت کیوں نہ کریں، یزید پر کیوں کریں؟ وہ اس لئے نہیں کرتے کہ یزید اس سے بچا ہوا ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں بھائی! ہم اپنی زبان کو لعنت سے کیوں آلودہ کرلیں، ہم شیطان پہ لعنت کیوں نہ کریں، جس نے سارا چکر چلایا ہے، وہ اس لئے نہیں کرتے، وہ کسی پر بھی پھر نہیں کرتے۔ اب دیکھیں! اُن سکوت کرنے والوں میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں، لیکن سکوت کے باوجود ان کا کیا حال ہے، بتاتا ہوں۔ جب حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ گرفتار ہوئے اسیر مالٹا کے ساتھ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ، تو بہت پریشان تھے اور خانقاہ میں اس طرح بے آرامی کے ساتھ ٹہل رہے تھے، کہتے ہیں کہ مجھے پتا نہیں تھا کہ حسین احمد کے ساتھ مجھے اتنی محبت ہے، تو کسی نے کہا حضرت! اپنے شیخ کے لئے خود اس نے گرفتاری دی ہے کہ میں اس کی خدمت کروں۔ اس پر حضرت نے فرمایا مجھے کوئی یہ تسلی دے سکتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود کربلا تشریف لے گئے تھے؟ تو بات سمجھ میں آرہی ہے ناں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ باوجود سکوت کے کیا سمجھتے تھے؟ تو ہم لوگوں کو ذرا حقیقت کو جان لینا چاہئے۔ اس کے بارے میں میرے خیال میں وہ روایت شاید تھوڑی سی میں آپ کو بتا ہی دوں۔ فرماتے ہیں کہ جو لوگ قسطنطنیہ والی حدیث سے استدلال کرکے یہ کہتے ہیں کہ اس جہاد میں جو لوگ شامل ہوئے، ان کے لئے مَغْفُوْرٌ لَّہُمْ کی بشارت ہے، تو یزید کی اس میں شرکت ثابت ہے۔ تو اس کا جواب مولانا عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں خوب دیا ہے کہ حدیث شریف: ’’أوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِيْ يَغْزُوْنَ مَدِيْنَةَ قَيْصَرَ مَغْفُوَرٌ لَّهُمْ‘‘ (صحیح بخاری: 2766) میں دو باتیں ہیں: ایک ’’اول جیش‘‘ اور دوسرا ’’مدینۃ قیصر‘‘۔ ان دونوں کو پہلے طے کرنا ہوگا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اگر اول جیش سے جیش مراد ہے، تو یہ لشکر، (اس لشکر سے جس کی امارت یزید کے ہاتھ میں تھی) بہت پہلے عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کے سرگردگی میں ہوئی تھی، جو 46ھ میں شہید کردیئے گئے تھے، قسطنطنیہ ہو آئے تھے۔ جبکہ یزید جس لشکر میں تھا، اس کو کسی نے بھی 49ھ سے پہلے نہیں بتایا۔ خود محمود عباسی نے بھی نہیں۔ اس پہلے لشکر کی تفصیل سنن ابوداؤد میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور اگر اس سے فتح اور کامرانی والا جیش مراد ہو تو پھر اس سے مراد سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ مراد ہوسکتے ہیں، جن کا عرف ہی یہی ہے۔ اس لئے مولانا کی تحقیق کے مطابق یزید اس بشارت والے جہاد میں شامل نہیں تھا۔ بقول حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے یہ شوشہ شارح بخاری مہلب المتوفی 433ھ نے چھوڑا تھا کہ اس حدیث سے یزید کی منقبت نکلتی ہے۔ اس وقت یہ اندلس میں قاضی تھے اور وہاں امویوں کی حکومت تھی۔ اس علمی حقیقت کو ایک طرف رکھ کر اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ اس حدیث شریف سے یزید کی مغفرت کی بشارت نکلتی ہے تو ہم یزید کے کفر کے قائل نہیں، بلکہ فسق کے قائل ہیں اور فاسق کو اللہ چاہے تو معاف کرسکتا ہے، لیکن فاسق کو اگر آخرت میں معاف بھی کردیا جائے، لیکن اگر دنیا میں اس کی توبہ ثابت نہ ہو تو اس کو رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہ سکتے۔

فاسق کی کوئی عزت بھی کرے گا تو اس پر بھی عرش ہلتا ہے، اگر فاسق کی کوئی عزت کرتا ہے، کسی طرح بھی عزت کرتا ہے، تو اس پر بھی عرش ہلتا ہے، تو کہاں اس کو رحمۃ اللہ علیہ کہنا، جو اولیاء اللہ کے لئے معروف ہے۔

کیونکہ رحمۃ اللہ علیہ تکریم کا کلمہ ہے اور بدعتی اور فاسق کی تکریم ازروئے حدیث دین کے انہدام کے مترادف ہے۔ خود یزید کا بیٹا اس کو خلافت کا اہل نہیں سمجھ رہا تھا، معاویہ بن یزید۔ اس نے حکومت ہی نہیں لی، یزید کا جو بیٹا تھا۔ اور اس کی بری عاقبت کا خوف تھا، جیسا کہ ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں اس کی تصریح ہے۔ اور اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب یزید کو امیر المؤمنین کہا گیا، تو اس کو بیس کوڑے لگائے۔ عمر بن عبدالعزیز جو اموی خلیفہ ہیں، خلیفہ راشد ہیں وہ، ان کے سامنے جب یزید کو امیر المؤمنین کہا گیا، تو انہوں نے بیس کوڑے لگائے۔ ہمارے علماء کرام فرماتے ہیں یزید کو فاسق کہنا تو ضروری ہے، کافر نہیں، کیوں؟ یہ میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بتا رہا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا الزام اگر ان کو نہیں دیا جاسکتا، تو یہ الزام تو ان کو دیا جاسکتا ہے کہ اس کا بدلہ اس نے کیوں نہیں لیا۔ یہ حضرت نے فرمایا ہے، مواعظ میں میں نے خود پڑھا ہے۔ فرمایا اس کا بدلہ تو لے سکتے تھے، اس کا بدلہ کیوں نہیں لیا۔ دوسری بات مدینہ منورہ پر اس نے جو فوج کشی کرائی، مدینہ منورہ کو تین دن تک فوج کے حوالے کیا کہ وہاں جو مرضی ہو وہ کرو۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی تین دن بند رہی۔ اور وہاں ریاض الجنۃ میں گھوڑے باندھے گئے، جو وہاں لید اور پیشاب کرتے رہے، بہت سارے صحابہ کرام اور صحابیات شہید ہوگئیں، اور نَعُوْذُ بِاللہ بہت سارے صحابہ کرام کی بیٹیوں کی عصمت دری ہوئی۔ اصول یہ ہے کہ جس معیار کا جرم ہوتا ہے، اسی معیار کی توبہ ہوتی ہے۔ خفیہ گناہ کی توبہ خفیہ ہوسکتی ہے اور علانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہونی چاہئے۔ عالم جب گناہ کرے گا تو وہ منبر پر بیٹھ کر اعلان کرے گا کہ یہ میں نے غلط کہا ہے۔ یہ نہیں کہ یہاں منبر پر غلط بات کرلے اور جاکر کمرے میں کہہ دے کہ میں نے غلط بات کی ہے۔ تو کیا وہ توبہ ہوگی؟ کتاب میں کسی نے غلط لکھا ہے، تو اس کو کتاب میں لکھنا پڑے گا کہ میں نے غلط لکھا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں دیکھ لیں، جہاں جہاں غلطی ہوئی، آگے جاکر کتاب شائع کرا دی کہ یہاں یہاں پر غلطی ہوئی ہے، اس کو ٹھیک کرو۔ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا کیا۔ عالم کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے۔ وہ علمی توبہ ہوتی ہے۔ جس level پر غلطی ہوتی ہے، اسی level کی توبہ ہونی چاہئے۔ تو جو یزید کا حملہ تھا، کیا اس کے بعد اس کی اس سے اس طرح کی توبہ ثابت ہے؟ کیونکہ اس کے فوراً بعد اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جاؤ اب خانہ کعبہ پر سنگ باری کرو۔ وہاں پر اس کی فوج نے سنگ باری کی اور اسی دوران یزید مر گیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت ان کی فوج سے لڑ رہے تھے۔ پتا نہیں حضرت کو کشف ہوا یا اور کوئی بات ہوئی، انہوں نے یزید کی فوج سے کہا جاؤ تمھارا فاسق امیر مر گیا۔ تو فاسق انہوں نے فرمایا ہے۔ تو یہ فاسق کا لفظ بھی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ جب اس کی فوج نے پتا کیا تو وہ واقعی مر گیا تھا۔ تو وہ توبہ کیے بغیر مرا ہے۔ اس لئے ان تین باتوں کی وجہ سے وہ فاسق ہے۔ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بھی ’’الصواعق المحرقه‘‘ میں بصراحت لکھتے ہیں۔ اور اس کو مسلمان کہنے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ فاسق تھا، شریر تھا، نشہ کا متوالا تھا اور ظالم تھا۔

ان ساری باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ یزید کے بارے میں اہل سنت میں یزید کے ان تین سیاہ کارناموں کو غلط کہنے اور اس کی پاداش میں یزید کے ساتھ کوئی محبت نہ کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اس لئے بعض اکابر یزید کے نام کے ساتھ پلید اور فاسق کا نام لکھتے ہیں۔ البتہ اس پر لعنت کرنے میں اختلاف ہے، کیونکہ یہ بد دعا ہے، اس لئے جب تک کسی کے کفر کا یقین نہ ہو، تو اس پر لعنت کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن یہ ہمارا نقطۂ نظر ہے۔ بعض اکابر باوجود ان کے اوپر لعنت کرنے کے قائل ہیں، ان کے ساتھ دلائل ہیں، ہم نہ ان کو غلط کہتے ہیں، نہ خود یزید پر لعنت کرتے ہیں، البتہ یزید کو رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ پکارنا، یہ کسی اہل سنت کا مسلک نہیں ہوسکتا، یہ نواصب ہی کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ ہاں! البتہ فاسق کے لئے مغفرت کی دعا کی جاسکتی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں یا اللہ! یزید کو بخش دے۔ یہ دعا بھی کرسکتے ہیں۔ ہاں مسلمان تھا، اس کے کفر کا کوئی یقینی ثبوت نہیں ہے اور مسلمان چاہے کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو، اس کو کافر نہیں کہنا چاہئے، نیز اس کے لئے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے، کیونکہ اگر ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ جہنم لے جائے، تو ہمیں کیا خوشی ہوگی؟ بالکل نہیں ہوگی۔ اور اگر یزید کو اللہ پاک جنتی بنا دے تو ہمیں خوشی ہوگی۔ کیونکہ ہمیں اس کے ساتھ یہ دشمنی تو نہیں کہ اگر اللہ پاک کسی کو معاف کرنا چاہے، بالکل صحیح ہے، یہ اس کا کام ہے۔ لیکن اصول تو نہیں بدلے جاسکتے، فاسق کو فاسق کہنا پڑے گا، لیکن اللہ پاک فاسق کو بخش بھی سکتے ہیں، اللہ پاک کی قدرت سے وہ نکلا ہوا نہیں ہے۔ ہاں! کافر کو نہیں بخشتا، مشرک کو نہیں بخشتا، یہ اللہ پاک کا قانون ہے۔ یہاں سے اگر کوئی ایمان کے ساتھ چلا گیا، تو اللہ پاک اس کو بخش سکتے ہیں، لیکن ہم اپنے اصول کو تبدیل نہیں کریں گے، ہم یزید کو رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہہ سکتے۔ اب جو لوگ یزید کو رحمۃ اللہ علیہ کہنے کے شوقین ہیں اور اس کے مقابلے میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باغی کہیں، تو ان لوگوں کا مقام کیا ہوگا۔ وہ اس حدیث (جس میں یزید کو مغفور ثابت کیا جاتا ہے، لیکن علمی لحاظ سے یہ مشکوک ہے، جیسا کہ بتایا گیا،) کی وجہ سے تو یزید کا اکرام کرتے ہیں اور وہ احادیث شریفہ جن میں امامین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو نوجوانانِ جنت کا سردار کہا گیا اور حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما میرے پھول ہیں اور اس طرح اور احادیث شریفہ سے صرفِ نظر کررہے ہیں، ان کو ناصبی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ ان ہی کو ناصبی کہتے ہیں، جن کو ازروئے حدیث گمراہ فرقہ کہا گیا ہے، کیونکہ ایک فرقہ تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت کے غلو میں گمراہ ہوگیا، ان کو شیعہ کہتے ہیں، انہوں نے حضرات صحابہ کرام کو مرتد کہا۔ دوسرا فرقہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عداوت میں گمراہ ہوگیا، ان کو ناصبی کہتے ہیں۔ در حقیقت یہ بھی شیعہ ہیں، کیونکہ ان کا پرانا نام مروانی شیعہ ہے۔ یہ بالکل شیعوں کی طرح تقیہ کرتے ہیں، اپنے آپ کو اہل سنت میں شامل کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی یہ اپنا زہر اہل سنت کے قلوب میں پہنچا دیتے ہیں، ان سے بھی ہوشیار رہنا چاہئے، یہ دونوں صحابہ کرام کے دشمن ہیں، کیونکہ اس طرف بھی صحابہ ہیں، اس طرف بھی صحابہ ہیں، تو اگر کوئی ایک طرف کے خلاف ہیں، تو وہ بھی صحابہ کے دشمن ہیں، اس طرف کے کوئی خلاف ہیں، وہ بھی صحابہ کے دشمن ہیں، بنیادی بات تو ایک ہی ہے۔

اَلْحَمْدُ للہ! پورے بیان میں میری زبان سے کسی صحابی رسولﷺ کے بارے میں نَعُوْذُ بِاللہ کوئی بات نہیں نکلی، اور مجھے اس کی ضرورت ہی کیا ہے، میں کیوں اپنی عاقبت خراب کرتا۔ کسی سنی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی صحابی کے بارے میں کوئی غلط بات کرے۔ اَلْحَمْدُ للہ! ہم سب صحابہ کا دفاع کرتے ہیں۔ محمود احمد عباسی کے لٹریچر کو اگر دیکھا جائے، احمد حسین کمال کے لٹریچر کو دیکھا جائے، اس میں کئی صحابہ پر، بالخصوص حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کئی چوٹیں لگائی گئی ہیں۔ تو آپ حضرات سے عرض ہے کہ اپنے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ محرم کی مناسبت سے یہ بات اس لئے کہی گئی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اگر کوئی ایسی بات کرے گا تو غصہ تو آئے گا، لیکن غصے میں کوئی غلط حرکت نہیں کرنی۔ اگر عیسائی نَعُوْذُ بِاللہ حضور ﷺ کو گالی دیں تو کیا ہم اس کے مقابلے میں نَعُوْذُ بِاللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے سکتے ہیں؟ نہیں، ہم نے اپنے آپ کو بچانا ہے، کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی بات نہیں کرنی، دونوں طرف کے صحابہ ہمارے ہیں۔ تین راستے ہیں، ایک راستہ عام صحابہ کا ہے، ایک راستہ اہل بیت کا ہے، جن سے گھر کی باتیں مروی ہیں اور ایک راستہ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کا ہے، جن سے خاص مخفی باتیں مروی ہیں، ایسی باتیں کوئی اور کر نہیں سکتا تھا۔ میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں کوئی بات کرسکتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کم عمر میں آپ ﷺ کی عقد میں لایا گیا، اس میں تکوینی حکمت یہی تھی۔ کیونکہ فرماتے ہیں کہ تقریباً آدھے علم کی امین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ اس طرح ہمارے جتنے بھی صحابہ کرام ہیں، وہ اپنے اپنے حصے کے دین کے امین ہیں، اگر کسی کی رسائی باقی صحابہ تک تو ہے، اہل بیت تک نہیں ہے، تو نتیجتاً وہ اتنے ہی دین سے محروم ہوجائیں گے، اگر ازواج مطہرات تک نہیں تو اتنے دین سے محروم ہوجائیں گے اور اگر ان کی مخالفت کریں گے، تو پھر آپ ﷺ کی ’’اَللہ اَللہ فِیْ اَصْحَابِیْ‘‘ والی بات کو یاد رکھا جائے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ تو بالکل واضح ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ قرآن پاک سے استدلال کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام سے بغض رکھنے والا کافر ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے قرآن میں کفر کی طرف ان کی نسبت کی ہے:

﴿لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ﴾ (الفتح: 29)

ترجمہ: ’’تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے‘‘۔

اس کا براہ راست مفہوم تو یہ ہے کہ صحابہ کرام کی تعریف سے کافروں کے دل جلتے ہیں اور یہی مفہوم جمہور کے نزدیک ہے، لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس کے بالعکس کے بھی قائل ہیں کہ جس کا دل صحابہ کی تعریف سے جلتا ہے وہی کافر ہے۔ یہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے۔ لہٰذا یہ معاملہ بہت خطرناک ہے، پس اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ ہم ایک دفعہ ایک اجتماع میں شامل تھے، کسی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی، سارے لوگ اٹھ گئے، سٹیج والے بڑے ہوشیار تھے، وہاں سے ایک ہی بات چل رہی تھی، بزرگو اور دوستو! اپنے آپ کو بٹھاؤ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ یہی ایک بات مسلسل آرہی تھی اور پورا مجمع پانچ منٹ میں بیٹھ گیا۔ کیا ایسا دوسرے مجمع میں ہوسکتا ہے؟ جو دوسروں کو بٹھائیں گے تو کیا وہ خود بیٹھیں گے؟ بعض دفعہ دوسروں کو بٹھانے کے شوق میں لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں، نتیجتاً انتشار پیدا ہوجاتا ہے۔ تو اس طرح نہیں کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو تبلیغ، سب سے پہلے اپنے آپ کو سمجھانا چاہئے۔ عقیدہ سب سے اہم چیز ہے، خدانخواستہ اگر ہمارا عقیدہ گڑبڑ ہوگیا تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ عقیدہ سمت ہے، اگر کوئی آدمی لاہور جانا چاہتا ہے اور کسی بس کی خوبصورتی کو دیکھ کر اس میں بیٹھ جائے، یہ نہ دیکھے کہ یہ کہاں جارہی ہے اور بعد میں پتا چلا کہ یہ تو پشاور جارہی ہے، تو اب جس تیزی کے ساتھ یہ بس جائے گی، اتنی تیزی سے وہ اپنی منزل سے دور ہوتا جائے گا، نقصان میں جارہا ہے۔ بالکل یہی بات ہے کہ جس کا عقیدہ خراب ہو، چاہے وہ کتنے ہی اچھے اعمال کرے گا، وہ اتنا ہی خراب ہوتا جائے گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو مسلمان نہیں ہیں، ان کو ذکر نہ سکھاؤ، کیوں؟ اس لئے کہ ذکر کے اپنے طبعی خواص ہیں، مثلاً اس میں مزہ آتا ہے، سکون آتا ہے، اطمینان آتا ہے۔

﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28)

ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔

یہ تو نہیں فرمایا کہ مسلمانوں کے دل کو اطمینان دیتا ہے اور کافر کے دل کو اطمینان نہیں دیتا، یہ عام بات ہے۔ تو یہ جو دلوں کو ذکر سے اطمینان ملتا ہے، تو اگر کافر کو ذکر سکھا دیا اور اس کے دل کو اس سے اطمینان نصیب ہوا، تو وہ سمجھے گا یہ کافی ہے۔ چونکہ اِس طمینان میں اور اُس اطمینان میں فرق ہے۔ کسی ہپناٹائز کرنے والے نے جو کہ عیسائی تھے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ہم لوگ بھی یہ کرتے ہیں، آپ لوگ بھی یہ کرتے ہیں، فرق کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: پانی سے کسی گندی چیز کو دھونا اور پیشاب سے دھونا، بظاہر نتیجہ ایک نظر آتا ہے، لیکن یہ ایک جیسا نتیجہ نہیں ہے، ایک میں پاکی ہے، دوسرے میں نہیں ہے۔ پیشاب سے بھی چیز دھل جاتی ہے، پانی سے بھی چیز دھل جاتی ہے، لیکن پانی کے ساتھ پاکی ہے اور پیشاب کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے ایمان بڑی اونچی چیز ہے، اپنے ایمان کو ہم نے بچانا ہے۔ آج کا دور بڑا خطرناک دور ہے۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ صبح لوگ مسلمان ہوں گے اور شام کو کافر ہوں گے اور اگر شام کو مسلمان ہوں گے تو صبح کو کافر ہوں گے اور یہ فتنے ایسے کھل کر اور مسلسل آئیں گے، جیسے تسبیح کے دانے بکھر کر ایک دوسرے کے اوپر گرتے ہیں۔ تو ایسا وقت آنے والا ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ ایسا وقت آگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے، ایسے وقت میں اپنے ایمان کو قبر تک لے جانا بہت بڑی بات ہے اور ایمان کو بچا کرلے گئے تو وہاں ان شاء اللہ! سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور وہاں ٹھیک ہونے کے بہت امکانات ہیں، یہ نہیں کہ کس کی سفارش سے، کس کی شفاعت سے کام بن جائے، یہ پھر اللہ پاک کے بہت سے ذریعے ہیں، جس کے ذریعے اللہ پاک معاف فرما سکتے ہیں، تو ایمان کو بچانا لازمی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں گناہوں پر جرأت ہوجائے، گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے، کیونکہ کبھی کبھی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ایمان سلب ہوجاتا ہے۔

بہرحال بات یہ ہے کہ ہماری جو اعتدال والی بات ہے، وہ اہم بات ہے کہ ہم لوگ اعتدال کو نہ چھوڑیں۔ صحابہ کرام کے بارے میں بھی اور دین کی ساری چیزوں کے بارے میں ہم اعتدال کے ساتھ چلیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر ہم نے کوئی چیز ایسی زائد کی، جس کو زیادہ نہیں کرنا چاہئے، تو نقصان میں چلے جائیں گے اور اگر ایسی چیز کو کم کیا، تو اس سے بھی ظاہر ہے نقصان ہوجائے گا۔ بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ ماشاء اللہ! ہمارے اہل سنت و الجماعت سب کو مانتے ہیں، اہل سنت و الجماعت اہل بیت کو بھی مانتے ہیں، عام صحابہ کرام کو بھی مانتے ہیں اور امھات المؤمنین کو بھی مانتے ہیں۔ اس میں ظاہر ہے کہ ہم سب کے ساتھ ہیں۔ اس وجہ سے کسی کے خلاف بھی کوئی بات کی جائے گی تو ہمیں جواب دینا ہوگا، ہم لوگ دفاع کریں گے ان کا، ان میں سے کسی کے خلاف بھی بات ہوگی۔ اگر کوئی کسی کے خلاف بات نہیں کرتا، ہم ان کے ساتھ کیوں الجھیں گے۔ وہ ہمارے بھائی ہیں، بس ٹھیک ہے، اگر وہ کسی کے خلاف ہیں۔ لیکن ان تینوں میں سے جس کے خلاف بھی کوئی بات کرے گا تو ظاہر ہے، ہم ان کا دفاع کریں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں کا دفاع ہمارے اوپر لازم ہے۔ بہرحال اس کے لئے پھر ہم نے کلام بھی کہا ہے، جو میں سنا دیتا ہوں، تاکہ آپ لوگوں کو اندازہ ہوجائے کہ ہمارے جذبات اس کے بارے میں کیا ہیں۔

پہلے صحابہ کرام کے بارے میں اَلْحَمْدُ للہ! تینوں کا بحر بھی ایک ہے، تاکہ کسی کے ساتھ کوئی فرق نہ ہو، کیونکہ تینوں صحابہ کرام ہیں۔

کلام فکر آگہی، حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم، عنوان ہے، صحابہ کی شان

صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروں کہ قرآں میں اس کا بیاں ہوچکا ہے

صحابہؓ کا رستہ ہدایت کا معیار

طریق نبی یعنی سنت کا معیار

حب ان کا نبی کی محبت کا معیار

ستارے ہدایت کے ہیں یہ صحابہؓ، مقام ان کا سب پر عیاں ہوچکا ہے

یہ حبِ صحابہؓ نہ ہو جن کو حاصل

نہ ہوسکتا ہے، وہ کبھی حق کا واصل

یہ حق اور باطل کا ہے، ایک فاصل

جو بغضِ صحابہؓ کا داعی بنے تو، جو شر ہے وہ اس میں جواں ہوچکا ہے

صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروں کہ قرآں میں اس کا بیاں ہوچکا ہے

عقیدہ صحابہؓ کا اصلی عقیدہ

جو ہے مختلف اس سے، ہے سر بریدہ

کہ باقی شنیدہ ہیں اور وہ ہیں دیدہ

جو غیر انبیاء سے ہیں افضل یہ سارے کہ رب ان پہ یوں مہرباں ہوچکا ہے

صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروں کہ قرآں میں اس کا بیاں ہوچکا ہے

کبھی بھی صحابہؓ پہ تنقید نہ کرنا

کہ بارے میں ان کے خدا سے ہے ڈرنا

جو ان سے کٹے، ان کا کیسے سنورنا

تباہی کے رستے کھلے وہاں پہ شبیرؔ ظلم خود پہ ایسا جہاں ہو چکا ہے

صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروں کہ قرآں میں اس کا بیاں ہوچکا ہے

یہ صحابہ کرام کے بارے میں ہے اور ہمارے جذبات جیسے صحابہ کرام کے لئے ہیں، اسی طرح اہل بیت کے بارے میں بھی ہیں، امھات المؤمنین کے بارے میں بھی ہیں، تو ان کی شان بھی بات ہوئی ہے۔

کلام حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل دامت برکاتھم صحابہ کی شان کے عنوان سے ہے۔

اہلِ بیت کا مقام

مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ

یہ صحابہ کرام کے بارے میں جو روایات ہیں، یہ اس معنے میں ہیں کہ ان سے اللہ تعالیٰ ہدایت کا کام لیتے ہیں، جیسے کہ راستہ جاننا۔ تو فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کے پیچھے چلو گے تو ہدایت پا لو گے۔ ان کے بارے میں تو یہ روایت ہے۔ اور اہل بیت کے ساتھ ہونے کا اور محبت کرنے کا بھی حکم ہے۔ واقعتاً ہمارے جو صحابہ کرام تھے، وہ بھی ان کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخری صحابہ میں تھے، نابینا ہوچکے تھے، خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے تھے، تو امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نوجوان تھے اس وقت، وہ تشریف لائے، تو ان کے ساتھ ملے، تعارف کرایا گیا کہ یہ زین العابدین ہیں، تو بہت خوش ہوئے اور ان کا ہاتھ اس طرح اپنے سینے پر پھیراتے رہے کہ یہ تو ہمارے ایسے ہیں، یہ تو ہمارے ایسے ہیں، مطلب بڑی محبت کا اظہار کیا۔ تو ان کے ساتھ محبت ضروری ہے، یہ محبت کے آسمان کے تارے ہیں۔

جو سمجھے کوئی دل میں شانِ رسول

ہو محبوب انہیں خاندانِ رسول

ذرا پڑھ تو لینا فرمانِ رسول

ہے قرآن کے ساتھ ’’عترتی‘‘ اس میں جب،

لائق اتباع کے پھر سارے ہیں یہ

یعنی فرمایا کہ قرآن اور میری اولاد یہ ساتھ ساتھ رہے گی، یعنی حوض کوثر پہ۔

مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ

خواتینِ جنت کی ہے سیدہ

جگر گوشہ آقا کی ہے فاطمہؓ

مثالی رہی ہے یوں ان کی حیا

مثالی رہے ہیں یہ سب اہل بیت، نہیں غیر کے ہیں ہمارے ہیں یہ

مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ

شجاعت علیؓ کی رہی ہے مثالی

جو ہیں بابِ علم مقام ان کا عالی

سلاسل کے باغِ مقدس کے مالی

یہ گلشن نبی کے ہیں پھول ایسے کہ جو حق پہ ہیں سب ان کے پیارے ہیں یہ

مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ

وہ سردارِ امت اور نام تھا حسنؓ

فہیم اُمت تھے بچایا چمن

تھے اُمت کے جوڑ کی امید کی کرن

یہ آقا کی گود میں پلے اور بڑھے ہیں اور آقا کے سچ مچ دلارے ہیں یہ

مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ

وہ شیر متقی، وہ حسین ؓ، وہ نڈر

کہ حق کے لئے پیش کیا جس نے سر

جب آواز حق اس پہ تھی منحصر

رقم اپنے خون سے کی داستانِ حق، عجب فکرِ حق کے نظارے ہیں یہ

مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ

نبوت، ولایت یہاں دیکھ لو

یہ دل کا کچھ اور ہی جہاں دیکھ لو

شبیرؔ ان کی قربانیاں دیکھ لو

تبھی ساتھ ہونے کا فرمایا ہے کہ دیں پر عمل کے سہارے ہیں یہ

مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ

حضرت والا کا کلام ہے،

امھات المؤمنین کا مقام

میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے

خدیجہؓ کا جب لب پہ آتا ہے نام

تصور میں میں پیش کردوں سلام

وہ ایثار و قربانی و احترام

نبی کے لئے جو ہمیش کرتی تھیں، ذرا سوچے کوئی کہ وہ کس قدر ہے

میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے

حمیرا لقب عائشہؓ ماں ہماری

اشاعت میں دیں کا حصّہ ان کا بھاری

اٹھائی ہے کس شان سے ذمّہ داری

ہے قرآن میں ان کی براءت کا اعلان جو ظاہر کہ سب پر ’’کَالشَّمْسِ وَالْقَمَرِ‘‘ ہے

میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے

ہمیں ماؤں سے دین کا حصّہ ملا وہ

ہے باقی صحابہؓ سے بالکل چھپا وہ

جو دیں کے لئے تھا ضروری کیا وہ

بغیر اس کے تکمیلِ دین کیا تھا ممکن، یوں احسان ان کا بہت امت پر ہے

میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے

تو بھیجیں ہم ان پر شبیرؔ اب سلام

رہے دل میں ان کے لئے احترام

ایصالِ ثواب کا بھی ہو اہتمام

کہ ماؤں کا حق ہے مسلم، وہ سمجھے شرافت کی جس کی کوئی کچھ نظر ہے

میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے

تو ہمارا اہل بیت اور عام صحابہ کرام اور امھات المؤمنین کے بارے میں یہی عقیدہ ہے اور ہم سب کو محترم سمجھتے ہیں اور جن کو غلط فہمی ہو کسی کے بارے میں، تو غلط فہمی دور کرنی چاہئے، کیونکہ مسئلہ عقیدے کا ہے، خدانخواستہ عقیدے میں کوئی گڑبڑ ہوتی ہے، تو پھر اعمال قبول نہیں ہوتے۔ لہٰذا ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ کہیں میری کوئی غلطی تو نہیں ہے، اس کی وجہ سے مجھے بعد میں نقصان اٹھانا پڑے۔ اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کا شکر ہے ہمارے اکابر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مقام کو سمجھتے ہیں اور دین کے رہنما ان کو مانتے ہیں، ان کے پیچھے چلنے میں ہی دین پر چلنا سمجھتے ہیں۔ اور جو اہل بیت ہیں، ان کے ساتھ بہت محبت رکھتے ہیں حتیٰ کہ ہمارے امام جو تھے، وہ بھی اہل بیت کے ساتھ تھے، امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تھے، اس طرح حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی اُن حضرات کے ساتھ تھے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے ہمارے مشاہیر علماء ہیں اور ائمہ کرام ہیں، وہ سب اِن سب کے ساتھ ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے عقیدے کو غلط نہیں کرنا چاہئے اور کسی کی باتوں میں نہیں آنا چاہئے، جو متشدد ہیں، ان کو اپنے تشدد کی سزا اپنے وقت پہ مل جائے گی، اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے، لیکن ہم لوگوں کو تشدد میں نہیں آنا چاہئے، ہم لوگوں کو تو اعتدال کی راہ اپنانی چاہئے کہ ہمارے نزدیک صحابہ کرام بھی محترم ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے ان کی جو تعریف فرمائی، اس کے نزدیک تو ہم یہی سمجھتے ہیں۔ اور اہل بیت بھی محترم ہیں، کیونکہ ان کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے ہمیں سمجھایا ہے، فرمایا ہے، اور امھات المؤمنین کے بارے میں بھی فرمایا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


صراطِ مستقیم: صحابہ، اہلِ بیت اور امہات المؤمنین، سب سے محبت کا نام - خواتین کیلئے اصلاحی بیان